Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, January 20, 2019

کہیں مقصد صرف شور و غوغا تو نہیں؟

92نیوز چینل کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ سیاسی مسائل کے ساتھ ساتھ سماجی اور دیگر غیر سیاسی معاملات پر بھی بحث کرتا ہے اور مختلف آرا کو عوام کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اسی سلسلے میں گزشتہ ہفتے نفاذِ اردو پر بحث کی گئی۔
 شاید یہ ہمارا قومی رویہ بن گیا ہے کہ کوئی بھی مسئلہ ہو‘ اس کی جڑ کو نہیں پکڑتے۔ شاخیں جھاڑتے رہتے ہیں۔ ملا نصرالدین کا یہ لطیفہ بچپن میں سب نے پڑھا اور سنا ہے کہ باہر‘ روشن سڑک پر کچھ ڈھونڈ رہے تھے۔ پوچھنے پر بتایا کہ سوئی گم ہو گئی ہے۔ لوگوں نے پوچھا کیا سڑک پر گری تھی؟ جواب دیا نہیں! گم تو کمرے میں ہوئی ہے مگر وہاں اندھیرا ہے!
قائد اعظم نے فرمان جاری کیا کہ سرکاری زبان اردو ہو گی۔ اردو نہیں نافذ ہوئی۔ عدالتیں کئی بار حکم صادر کر چکیں کہ اردو کو نافذ کیا جائے۔ اردو نہیں نافذ ہوئی۔ اس لئے کہ جس مشین پر اردو کا کُرتا بُنا جاتا ہے اُس مشین پر اس وقت انگریزی کا سکرٹ بُنا جا رہا ہے۔ پہلے اس مشین سے انگریزی کو اتارنا ہو گا۔ پھر اردو کو اس مشین پر چڑھانا ہو گا۔ اس وقت ہو یہ رہا ہے کہ ہر طرف شور مچایا جا رہا ہے کہ اردو نافذ کرو۔ مگر مشین کی طرف کوئی دیکھتا تک نہیں!
 یہ مشین وہ امتحان ہے جسے اعلیٰ مرکزی ملازمتوں کا امتحان کہا جاتا ہے یعنی سی ایس ایس یا سنٹرل سپریئر سروسز! اس امتحان کا طریق کار سمجھنا قارئین کے لئے لازم ہے تاکہ نفاذ اردو کی راہ میں حائل اصل رکاوٹ کے بارے میں ذہن صاف ہو سکے۔
 مرکزی اعلیٰ ملازمتوں کا یہ امتحان انگریزی دور میں شروع ہوا۔ اس وقت اس میں صرف سفید فام نوجوان شرکت کر سکتے تھے۔ امتحان لندن میں ہوتا تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں مقامی لوگوں کو اجازت دی گئی۔ تاہم یہ صرف محدود تعداد میں شریک ہو سکتے تھے۔ پاکستان بنا تو اس کے امتحانی مراکز لندن‘ کراچی‘ ڈھاکہ اور لاہور مقرر کئے گئے۔ آج کل پشاور‘ کوئٹہ‘ ملتان‘ اسلام آباد میں بھی یہ امتحان لیا جاتا ہے۔ ہر سال تقریباً سات سے نو ہزار امیدوار شریک ہوتے ہیں۔ بھاری اکثریت تحریری امتحان کے نتیجہ میں ناکام ہو جاتی ہے۔ پانچ چھ سو کے لگ بھگ کامیاب قرار دئیے جاتے ہیں۔ ان کا تفصیلی انٹرویو کیا جاتا ہے۔ جو کامیاب ٹھہرتے ہیں‘ ان میں سے اوپر کے سو یا ڈیڑھ سو کو اعلیٰ مرکزی ملازمتوں کے لئے منتخب کیا جاتا ہے۔ اس وقت اس امتحان کے تمام پرچے انگریزی زبان میں ہیں۔ لازمی مضامین میں انگریزی ‘ جنرل نالج‘ ابتدائی سائنس‘ ضروری اسلامیات اور مضمون (ESSAY)شامل ہیں۔ تقریباً اتنے ہی مضامین اختیاری ہیں۔ تاہم تمام پرچے‘ تاریخ کے ہوں یا اکنامکس کے‘ جغرافیے کے ہوں یا قانون کے‘ انگریزی زبان ہی میں لکھنے ہوتے ہیں۔
 مسئلے کا حل‘ اچانک‘ راتوں رات نہیں نکل سکتا۔ یہ تین مراحل میں بتدریج کرنا پڑے گا۔ پہلے مرحلے میں انگریزی زبان کی طرح اردو زبان کا پرچہ بھی لازمی کرنا پڑے گا۔ دو تین برس تک ایسا کرنے کے بعد اگلا قدم یہ اٹھانا ہو گا کہ امیدواروں کو اختیار دے دیجیے کہ وہ پرچے انگریزی میں کریں یا اردو میں‘ اس سے رجحان کا پتہ بھی چلایا جا سکے گا اور ارتقائی مراحل طے کرنے بھی آسان ہوں گے۔ تیسرے اور آخری مرحلے میں تمام پرچے اردو میں حل کرنے لازمی ہوں گے۔ ان تینوں مراحل میں انگریزی زبان کا بھی معیار برقرار رکھنا ہو گا۔ انگریزی زبان کا پرچہ لازمی ٹھہرے گا اور کوئی ایسا امیدوار منتخب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ جسے اردو پر تو عبور حاصل ہو مگر انگریزی پر نہ ہو۔
 یہ کام تقریروں سے ہو گا نہ جذباتی تحریروں سے۔ یہ کام فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے کرنا ہو گا جو سی ایس ایس کا امتحان لیتا ہے اور امیدوار منتخب کرتا ہے۔ مرکزی حکومت کا اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اس میں مرکزی کردار ادا کرے گا۔ یہ منتخب امیدوار‘ اردو کے ذریعے اپنے اپنے مناصب سنبھالیں گے۔ تمام شعبوں میں افسران بالا سی ایس ایس ہی کے ذریعے آتے ہیں۔ ریلوے ہے یا اطلاعات‘ تجارت ہے یا وزارت خزانہ‘ آڈٹ ہے یا ایف بی آر‘ پولیس ہے یا وزارت خارجہ‘ ڈاکخانہ جات ہیں یا عسکری زمینیں اور چھائونیاں‘ تمام محکموں کے افسر سی ایس ایس ہی کی چھلنی سے نکلتے ہیں۔ اردو کے ذریعے منتخب ہونے کے بعد ان کے اندر کا احساس کمتری ختم ہو چکا ہو گا۔ یہ سرکاری خطوط اردو میں لکھیں گے اور لکھوائیں گے۔ فائلوں پر آرا اور فیصلے اردو میں لکھیں گے۔ سمریاں وزیر اعظم کے لئے ہوں یا کابینہ کے لئے‘ اردو میں لکھی جائیں گی۔ پھر انگریزی کے بجائے اردو سٹیٹس کا نشان ہو گا۔
 اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ تنظیم سازی سے‘ یا مقدمہ بازی سے یا میڈیا میں مہم چلانے سے یا جذباتی تقریریں کرنے سے یا آتشیں تحریروں سے اردو کا نفاذ ہو جائے گا تو وہ غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ صرف یہ شور مچانے سے کہ مریض کی دیکھ بھال کرو‘ مریض تندرست نہیں ہو سکتا۔ ایک منظم طریق کار کے تحت ایک حاذق طبیب سے‘ ایک اہل ڈاکٹر سے‘ اس کا علاج کرانا ہو گا۔ اس میں وقت لگے گا۔ راتوں رات نہ مریض تندرست ہو سکتا ہے نہ اردو نافذ ہو سکتی ہے۔
اُن تمام امیدواروں کو‘ جو اردو کے ذریعے سی ایس ایس کا امتحان دیں گے ‘ اردو کے ساتھ ساتھ‘ انگریزی پر بھی مکمل دسترس حاصل ہو گی۔ تاکہ وہ بین الاقوامی اخبارات ‘ جرائد‘ اقوام متحدہ کی رپورٹوں اور دیگر ممالک کے حالات کا بخوبی مطالعہ کر سکیں جس کے لئے ایک غیر ملکی زبان‘ خاص طور پر‘ انگریزی ضروری ہے۔ ان سارے مراحل سے عدلیہ کو بھی گزرنا پڑے گا۔ ان کے مقابلے کے امتحان‘ وکلاء کے امتحانات‘ پی ایل ڈی کے عدالتی فیصلے‘ سب کچھ اردو میں ڈھالنے ہوں گے اور اردو میں لکھنے ہوں گے۔ وزارت خارجہ کی افرادی قوت کو انگریزی میں مہارت‘ دوسرے شعبوں کی نسبت زیادہ حاصل کرنا ہو گی۔ انگریزی اور اردو کے مترجم اورترجمان درکار ہوں گے۔ ایک بار جب یہ تبدیلی رونما ہو جائے گی تو ضروری کتابیں بھی مارکیٹ میں آ جائیں گی۔ امرا اپنے بچوں کو اردو میں مستعد بنانے کے لئے ٹیوٹر بھی رکھیں گے۔ کئی نئے شعبے وجود میں آئیں گے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ انگریزی میں کام کرنے والوں ترجمہ کرنے والوں اور ترجمانی کرنے والوں کی طلب بڑھ جائے اور ان کے معاوضے زیادہ ہو جائیں۔ کئی نئے مسائل بھی سر اٹھائیں گے جو وقت کے ساتھ حل ہو جائیں گے۔ سرکاری دفاتر میں کام کی رفتار استعدادِ کار بڑھے گی۔ آج جو کلرک خزانے کے یا ٹیکس کے قوانین انگریزی میں پڑھ کر الٹا سیدھا مطلب نکالتا ہے۔ تب اردو میں پڑھ کر لب لباب بآسانی اس کی سمجھ سکے گا۔ عام سائل اور بیوروکریٹ کے درمیان فاصلے کم ہو جائیں گے۔
 رستہ بہر طور ایک ہی ہے اور یہی ہے۔ بزرگوں نے نصیحت بھی یہی کی ہے کہ راہِ راست برو گرچہ دوراست۔درست راستے پر چلو بے شک دور ہی کیوں نہ ہو

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com