اگر کبھی آذر بائی جان جانے کا اتفاق ہو تو گنجہ ضرورجائیے۔
مغربی آذر بائی جان کا یہ شہر عجیب قسمت لے کر آیا۔ دنیا کے دو مشہور شاعروں نے یہاں جنم لیا۔ اس شہر کا نام روسی عہد میں دو بار بدلا گیا۔ استعمار کا دور ختم ہوا تو اصل نام گنجہ واپس آ گیا۔
گنجہ نے دنیا کو جو دو عالمی شعرا دیے ان میں ایک مہستی گنجوی تھی جو ایک دبنگ روشن خیال خاتون تھی۔ یوں سمجھئے وہ اپنے زمانے کی کشور ناہید تھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ جو معاشرہ کشور ناہید کو ملا ہے وہ تاریخ کا سب سے زیادہ تنگ نظر معاشرہ ہے۔ آپ گئے وقتوں کا فارسی‘ عربی اور ترکی ادب پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ ان میں وہ سب کچھ لکھا اور پڑھا گیا ہے جس کا آج کے زمانے میں تصّور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ عبدالرحمن جامی کی شہرت صوفی شاعر کی ہے۔ ان کی لکھی ہوئی معروف و مشہور مثنوی ’’یوسف زلیخا‘‘ایک زمانے میں مدارس کے نصاب میں شامل تھی۔ اولین ابواب میں سے ایک باب میں جامی نے زلیخا کا سراپا کھینچا ہے۔ یہ سراپا وہ سر سے لے کر پائوں تک ہر عضوِ بدن کا بیان کرتا ہے۔ آج کے دور میں کسی نے یہ سراپا کھینچا ہوتا تو پتھروں سے ہلاک کر دیا جاتا۔
عہدِ رسالتؐ کا موازنہ آج کے دور سے کر لیجیے۔ جاہل گنوار دیہاتی آ کر مسجد نبوی کے صحن میں پیشاب کرتا ہے۔ لوگ اس کی طرف دوڑتے ہیں مگر حکمت کا ازلی ابدی منبع ﷺ حکم دیتے ہیں کہ ٹھہر جائو۔ اسے کرنے دو۔ وہ کر چکا تو فرمایا پانی بہا کر صاف کر دو۔ ظاہر ہے بعد میں اسے سمجھایا گیا ہو گا مگر تصوّر کیجیے کہ ایسا کوئی اس عہد میں کرے تو اسکے زندہ بدن کو لاش بننے میں چند ثانیوں سے زیادہ وقت نہ لگے۔ گوہ کا گوشت حاضر کیا گیا۔ آپ نے تناول فرمانا پسند نہیں کیا مگر آپکے سامنے آپکے جاں نثاروں نے کھایا۔ کیا آج ایسا ممکن ہے؟
مگر بات تو کچھ اور کرنی ہے۔ مہستی گنجومی کے حوالے سے قارئین نے دلچسپی کا اظہار کیا تو اس کا تعارف الگ سے کرایا جا سکتا ہے۔ ہم ذکر نظامی گنجومی کا کرنا چاہتے ہیں۔ بارہویں صدی کے اس عظیم شاعر نے پانچ شہرہ آفاق مثنویاں تصنیف کیں اور ایسی طرح ڈالی کہ ہندوستان میں امیر خسرو نے اور وسط ایشیا میں جامی نے نظامیؔ کی تقلید میں پانچ پانچ مزید مثنویاں لکھیں۔ یہ سب مثنویاں خمسوں کے نام سے مشہور ہیں۔ نظامی کا خمسہ‘ یعنی نظامی کی پانچ تصانیف‘ خسرو کا خمسہ اور جامی کا خمسہ! یوں تو بہت سے شاعروں نے خمسے لکھے مگر اکثر کو تاریخ کی گرد نے ڈھانپ لیا۔ نظامی‘ امیر خسرو اور جامی کے خمسوں کو شہرت دوام نصیب ہوئی۔ ایرانیوں نے ان کتابوں کو جس اعلیٰ معیار پر شائع کیا ہے اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ اس کالم نگار نے کوئٹہ کی علم دار روڈ سے ایک ہزارہ کتاب فروش سے نظامی کے خمسے کا ایک نسخہ خریدا جو اب آسٹریلیا میں پڑا ہے۔یہ وہی علم دار روڈ ہے جس کے دونوں کناروں پر آباد ہزارہ مسلکی فساد کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
نظامی کے خمسے میں ایک کتاب سکندر نامہ ہے جو سکندر اعظم کی مہمات پر مشتمل ہے۔ تاریخ اور داستان طرازی تو ہے ہی‘ شاعری اور ادب اس مثنوی میں اوجِ کمال پر ہے۔ نظامی کی اس تصنیف سکندر نامہ نے ہماری اردو زبان کو ایک محاورہ عطا کیا ہے۔یہ جو محاورہ ہے کوّا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ یہ کہاں سے آیا اور کیسے شکل پذیر ہوا؟ یہ محاورہ اصل میں نظامی گنجومی کے اس شعر کا براہ راست ترجمہ ہے:
کلاغی تگِ کبک را گوش کرد
تگِ خویشتن را فراموش کرد
کلاغ کوّے کو کہتے ہیں۔ تگ چال کو کہتے ہیں۔ اسی سے لفظ تگ و دَو نکلا ہے۔ یعنی دوڑ دھوپ۔ کبک ہنس ہے۔ معشوق کے بارے میں کسی شاعر نے کہا تھا ع
آپ کی چال پہ ہے کبکِ دری بھی شیدا
کلاغ یعنی کوّے نے ہنس کی چال اپنائی اور اپنی بھول گیا۔ یہ سب تو تمہید تھی۔ سوچیے کہ یہ کلاغ یعنی یہ کوّا کون ہے۔ یہ کوا ہم اہل پاکستان ہیں۔ ہم اپنی چال بھول گئے ہیں‘ غالب نے ہمارے بارے میں کیا آسمانی پیش گوئی کی تھی ؎
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
جن دنوں شہباز شریف کا طوطی بولتا تھا ان دنوں ترکی ہمارا آئیڈیل تھا۔شاہراہیں بنوانی تھیں یا فُضلے کو ٹھکانے لگانا تھا‘ترکی ہی کی کمپنیاں ہمارا دامن دل کھینچتی تھیں۔ اس سے پہلے آصف زرداری صدر مملکت تھے تو چین اس طرح جاتے تھے جیسے اہل لاہور بادامی باغ یا لبرٹی جاتے ہیں۔ پھر زمانے نے کروٹ بدلی۔ تبدیلی کا نعرہ سر یر آرائے سلطنت ہوا۔ گمان یہ تھا کہ ہم مزید کلاغ پرستی نہیں کریں گے اپنے آپ کو پہچانیں گے۔ اقبال نے کہا تھا
اپنی خودی پہچان
او غافل افغان!
افغانوں کا تو پتہ نہیں‘ ہم پاکستانیوں نے ابھی تک اپنی خودی نہیں پہچانی۔ ہنس کی چال چلنے کا نیا دور آغاز ہوا ہے۔ کبھی ہم ملائشیا کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں اور مہاتیر کو نجات دہندہ کہتے ہیں کبھی سنگا پور کا ’’لی‘‘ ہمیں نشان منزل دکھائی دیتا ہے۔اب تازہ ترین ستارہ جو ہمیں اس تاریک رات میں دکھایا گیا ہے‘ ترکی ہے۔ ترکی ہی میں بیٹھے بیٹھے چین کو بھی آئیڈیل قرار دے دیا گیا ہے۔ کیڑھی گلی جتھے بھاگو نہیں کَھلی۔ یعنی کون سا کوچہ ہے جہاں بھاگ بھری موجود نہیں۔ اب تو ہماری مثال ان گداگروں کی سی ہے جو مسجد کے دروازے کے باہر برجمان ہوتے ہیں۔ مسجد میں نماز پڑھ کر ترکی‘ ملائشیا‘ متحدہ عرب امارات باہر نکلتے ہیں جوتے پہن رہے ہوتے ہیں کہ ہم کشکول پکڑے آن پہنچتے ہیں۔
ابھی تک درآمدات کم کرنے کی کوشش نہیں ہوئی۔ امپورٹ بل میں جب تک کَٹ نہیں لگے گا۔اللے تللے اشیائے تعیش درآمد ہوتی رہیں گی۔ ہمارے پڑوسی بھارت نے مدتوں کاروں کی درآمد پر پابندی عائد کئے رکھی۔ پھر جب ان کی معیشت کا سانس بحال ہو گیا تو یہ پابندی اٹھا لی۔
ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کیلئے کیا کیا گیا ہے؟ نصف سال نئی حکومت کا ہونے کو ہے۔ کوئی پالیسی اس ضمن میں منظر عام پر نہیں آئی۔ ہر تقریر میں عمران خان صاحب ٹیکس نہ دینے والوں کی مذمت کرتے تھے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ اس معاملے میں تاجر اور ان کے بعد صنعتکار سب سے بڑے مجرم ہیں۔ معیشت بغیر دستاویز کے (Un-documented) چل رہی ہے۔ لاہور اسلام آباد جیسے شہروں میں بھی دکاندار رسید نہیں دیتااس لئے کہ ٹیکس دینا پڑے گا۔سروس سیکٹر میں ڈاکٹر‘ حکیم‘ معمار ‘ نقشہ ساز‘ Consultant) پورا ٹیکس نہیں ادا کر رہے! کس نمی پرسد کہ بھیا کیستی؟ کوئی پوچھنے والا نہیں!
رہیں حکومتی پالیسیاں! تو صبح اور شام اور۔ گویا
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے
تلّون مزاجی شہنشاہ ہمایوں میں تھی یا پھر آج کے حکمرانوں میں!!
    
Muhammad Izhar ul Haq
www.izharulhaq.net
No comments:
Post a Comment