کچھ تو خوشگوار خبریں ہیں اور کچھ یاس پھیلانے والی۔ دونوں کا آپس میں مقابلہ ہے اور بقول ظفر اقبال ؎
در امید سے ہو کر نکلنے لگتا ہوں
تو یاس روزن زنداں سے آنکھ مارتی ہے
یاس صرف آنکھ نہیں مارتی، غنڈوں کی طرح زبردستی بھی کرتی ہے۔ تاہم اب کے امید کا پلڑا بھاری ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی جو دارالحکومت کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے، ایک عرصہ سے انصاف مانگ رہی تھی۔ یونیورسٹی کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی میں سابق طلبہ اور اساتذہ سب شامل ہیں۔ یونیورسٹی کی سینکڑوں ایکڑ اراضی قبضہ گروپ نے ہتھیا رکھی ہے۔ اس قبضہ گروپ میں سیاسی اثر و نفوذ رکھنے والے بڑے بڑے لوگ شامل ہیں۔ پراپرٹی ڈیلروں کے گروہ بھی اس مار دھاڑ میں شریک ہیں۔
سیاستدان ساتھ نہ ہوں تو صرف پراپرٹی ڈیلر ہی حشر برپا کرسکتے ہیں، یہ جائیداد کی قیمتیں گرا سکتے ہیں۔ جب چاہیں زمین کے سودے آسمان پر لے جا سکتے ہیں۔ اگر کوئی محقق اس گروہ کو موضوع بنائے تو دیکھے گا کہ دبئی سے لے کر کراچی تک اور گوادر سے لے کر گلگت تک یہ ہشت پا ہر جگہ اپنی گرفت مضبوط کئے بیٹھا ہے۔
پھر گزشتہ ادوار میں جن سیاسی جماعتوں کی حکومتیں قائم رہیں، انہی کے وابستگان اس قبضہ گروپ میں سرفہرست تھے۔ چنانچہ قائداعظم یونیورسٹی کی صدائے احتجاج صدا بہ صحرا سے زیادہ کچھ نہ ہو سکی۔ حد یہ ہے کہ یونیورسٹی کی چاردیواری بھی آج تک تعمیر نہ ہوئی۔ سبط علی صبا کا مشہور شعر یہاں صادق آتا ہے ؎ دیوار کیا گری مرے کچے مکان کی لوگوں نے گھر کے صحن میں رستے بنا لیے یونیورسٹی کے صحن میں صرف راستے نہیں بنے، لوگوں نے اپنے مکان بنا لیے۔ جو بڑی مچھلیاں تھیں انہوں نے محلات تعمیر کرلیے۔ یونیورسٹی کا موقف یہ ہے کہ 1709 ایکڑ زمین خریدی گئی تھی۔ اس میں سے 289 ایکڑ کا قبضہ نہیں ملا اور 152 ایکڑ حوالے ہی نہیں کی گئی۔ یوں ساڑھے چار سو ایکڑ کے حق سے یہ عظیم درسگاہ ابھی تک محروم ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کی زنبیل میں اب تک جو چند مستحسن اقدامات دکھائی دیتے ہیں، ان میں سرفہرست تجاوزات کا انہدام ہے۔ اگرچہ اس میں تھوڑا بہت گھن بھی گیہوں کے ساتھ پسا ہے مگر مجموعی طور پر قبضہ گروپ کو کئی مقامات سے پسپا کیا گیا ہے۔ قائداعظم یونیورسٹی نے بھی اطمینان کا سانس لیا ہے کہ کم از کم 180 کنال زمین مگرمچھوں کے منہ سے نکال کر درسگاہ کو واپس دی گئی ہے۔ اگر ایک ایکڑ میں آٹھ کنال ہیں تو یہ ساڑھے بائیس ایکڑ ہوئے۔ اگرچہ یہ اونٹ کے منہ میں زیرہ ہے مگر چلیں آغاز تو ہوا۔ انتہائی طاقت ور شخصیتوں کا اس ناجائز قبضہ میں عمل دخل ہونے کی بنا پر یہ ایکشن لائق تحسین ہے۔ ابھی یہ اقدام جاری ہے۔ نئے سرے سے نشان دہی کی جا رہی ہے اور مزید اقدام کی توقع ہے۔
تاہم ساتھ ہی وزیراعظم کے معاون برائے سیاسی امور نے بدخبری دی ہے کہ ریاست کی ملکیت میں جو زمینیںغیراستعمال شدہ پڑی ہیں، وہ فروخت کر کے بجٹ کا خسارہ دور کیا جائے گا۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے ایک آدمی اپنی ٹیکسی بیچ کر کپڑے خرید لے، یا کوئی بیوہ عورت سلائی مشین بیچ کر دودھ پتی منگوائے۔ ٹیکسی اگر فارغ کھڑی ہے تو اسے چلا کر باروزگار ہوا جا سکتا ہے۔ سلائی مشین بک گئی تو حاصل شدہ رقم ایک بار کام آئے گی۔ جب کہ بیوہ سلائی مشین پر محلے والوں کے ملبوسات تیار کرے تو ہر روز کچھ نہ کچھ وصول ہوگا۔ اول تو یہی نکتہ سمجھنا مشکل ہے کہ سیاسی امور کے مشیر کا بجٹ کے خسارے سے کیا تعلق ہے؟ اور ریاست کی ملکیتی زمینیں ان کے دائرہ اختیار میں کیسے آ گئی ہیں؟
سونے کا انڈا دینے والی مرغی کو ذبح کرنے کا فیصلہ اگر سیاسی امور کے مشیر ہی نے کرنا تھا تو وزیر خزانہ کیا سیاسی امور نمٹا رہے ہیں؟ یہ زمینیں بک گئیں اور آثار بتاتے ہیں کہ اونے پونے داموں بکیں گی تو کتنے بجٹوں کا خسارہ دور ہو گا؟ ایک یا دو بجٹ کا! عقل مند وزیرو! مشیرو! ان بیکار پڑی زمینوں کو کارآمد بنانے کا کوئی طریقہ نہیں سوجھ رہا آپ حضرات کو؟ عقل بازار سے نہیں مل رہی تو کسی سے کچھ دیر کے لیے ادھار لے لو کہ شاعر نے یہ گُر بھی بتایا تھا ؎
تم ایک دن کے لیے اپنا دل ہمیں دے دو
ہم ایک دن میں طریق وفا سکھا دیں گے
ان زمینوں پر پلازے بنائے جا سکتے ہیں۔ نجی پارٹیوں کے ساتھ پارٹنرشپ کی جا سکتی ہے۔ ان پر فصلیں اگائی جا سکتی ہیں اور کچھ نہیں تو ان کے بدلے میں ایسی زمینیں لی جا سکتی ہیں جو ریاست کے لیے زیادہ کارآمد ثابت ہوں۔
یہ بیکار پڑی زمینیں حکومت کا خون تو نہیں چوس رہیں۔ جو ناکام، باعث شرم ادارے حکومت کا خون جونکوں کی طرح مسلسل پی رہے ہیں انہیں کیوں نہیں فروخت کیا جاتا؟ قومی ایئرلائن، معیشت کے جسد میں رستا ہوا ناسور ہے۔ چند طیارے، ہزاروں فارغ بیٹھے ملازمین جن کے بل پر عوام کے جسم سے خون پی رہے ہیں۔ خود غرض، دھاندلی کرنے والی یونینیں، جو چوروں اور مجرموں کو ملازمت سے نکالنے دیتی ہیں نہ ان کے خلاف کوئی اور کارروائی کرنے دیتی ہیں۔ ہر سال یہ ایئرلائن خون کی کئی بوتلیں لگواتی ہے اور تب سانس لینے کے قابل رہتی ہے۔ سیاسی امور کے مشیر کا اسے فروخت کرنے کے بارے میں کیا خیال ہے؟
سٹیل مل بھی اسی کیٹیگری میں ہے۔ خون پینے والی جونک، رس چوسنے والی آکاس بیل، مسلسل خسارا اور مسلسل وفاقی امداد، اسے کیوں نہیں فروخت کیا جاتا؟
اس سے بھی زیادہ بری خبر یہ ہے کہ ایک سو ایک فیصد سرکاری ادارے پاکستان انجینئرنگ کونسل نے آڈٹ کرانے سے انکار کردیا ہے اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا آئینی ادارہ بیٹھا اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 169 اور 170 آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو اختیار دیتے ہیں کہ وہ ہر صوبائی، وفاقی اور نیم سرکاری ادارے کا آڈٹ کرسکتا ہے۔ کچھ مقدس گائیں پہلے ہی آڈیٹر جنرل کو اہمیت نہیں دیتیں۔ تو کیا اب پاکستان انجینئرنگ کونسل جیسے ادارے بھی سرکشی کرنے لگے ہیں؟ ریاست کہاں ہے؟ ریاست کا وقار کہاں ہے؟ حکومت کا رعب داب اس طرح اڑ چکا جیسے گھاس کی پتیوں سے اوس کے قطر ے اڑ جاتے ہیں۔ اگر ریاست ان اداروں کو لگام نہیں دے سکتی، اگر حکومت بے بس ہے تو حکومت کو چاہیے کہ اقوام متحدہ کے پاس جا کر روئے، فریاد کرے کہ ہمارے ادارے خود سر ہو گئے ہیں۔ آپ آ کر انہیں ہمارے کنٹرول میں دیں۔ حکومت شاہ عالم، از دلی تا پالم۔ آڈیٹر جنرل صاحب کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ شاہراہ دستور پر بھوک ہڑتال کریں۔
Muhammad Izhar ul Haq
www.izharulhaq.net
No comments:
Post a Comment