پچھلے ایک ہزار برس میں جو کچھ ہوا حیران کن تھا۔ مگر اب کے ہزار برس پورے ہوئے تو جو نہ ہو سکا وہ زیادہ حیران کن تھا۔
ہزار برس کے عرصہ کو اہل فرنگ ملی نیم
(Millennium)
کہتے ہیں۔ کچھ سفید فام اسے ’’کلوائیرز‘‘
(Killoyears)
کا نام بھی دیتے ہیں۔ سو سال گزریں تو ایک صدی بنتی ہے۔ سو صدیاں بیت جائیں تو ایک ملی نیم پورا ہوتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا ؎
پل پل میں تاریخ چھپی ہے گھڑی گھڑی گرداں ہے ندیم
ایک صدی کی ہار بنے گی ایک نظر کی بھول یہاں
دو ہزار سال پہلے یعنی 1019ء میں عجب صورت حال تھی۔ یہ خطہ جو اب پاکستان کہلاتا ہے، مسلسل حملہ آوروں کی زد میں تھا۔ اس خون خرابے کی ابتداء 977ء میں ہوئی جب غزنی کے چھوٹے سے قصبے میں سبکتگین تخت نشین ہوا۔ کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کو اس وقت بھی اس علاقے میں، جواب افغانستان کہلاتا ہے، کچھ نہ تھا۔ اس وقت سمگلنگ کا رواج نہ تھا۔ براہ راست حملہ آور غزنی اور قرب و جوار سے آتے اور جو کچھ ملتا، لے جاتے۔ یوں بھی سبکتگین نے غزنی کی سلطنت کو شمال میں دریائے آمو اور مغرب میں بحیرہ کیسپین تک توسیع دے لی تھی۔ مشرق میں پنجاب تھا۔ اس پر چڑھائی ناگزیر تھی۔ یہاں جے پال حکمران تھا۔ اس نے مقابلہ کیا مگر شکست کھائی۔
سبکتگین کے جانشین محمود غزنوی نے جے پال کے بیٹے انند پال کو شکست دی۔ وہ دیار جو آج پاکستان کہلاتا ہے، محمود غزنوی اور اس کے لشکروں کے لیے چراگاہ تھا۔ سترہ حملے ہوئے۔ بت توڑے گئے اور مال منال بھی سمیٹا گیا۔ یہاں سے پکڑے گئے قیدی غلام بنائے جاتے اور وسط ایشیائی منڈیوں میں اچھی قیمت پاتے۔ یہ اس عہد کی عام اقتصادی سرگرمی تھی۔ 1019ء کے لگ بھگ محمود نے پنجاب سے گزر کی قنوج، میرٹھ اور کشمیر کو زیرنگیں کیا۔ اسی عرصہ میں متھرا کو بھی تاراج کیا۔
پھر ہزار برس گزر گئے۔ 2019ء آیا۔ اب اس خطے پر ایک پٹھان نژاد عمران خان حکمران تھا۔ یہ سر پھرا پٹھان اس کوشش میں رہا کہ شیر شاہ سوری بنے مگر تاریخ میں سوری صرف ایک ہی پٹھان گزرا ہے۔ کوئی دوسرا اس کا ہمسر نہ ہو سکا ؎
قیس سا پھر نہ اٹھا کوئی بنی عامر میں
فخر ہوتا ہے قبیلے کا سدا ایک ہی شخص
عمران خان نے حکومت سنبھالی تو چور، ڈاکو، رسہ گیر، اٹھائی گیرے عام دندناتے پھرتے تھے اور تو اور حکومت بھی انہی کے پاس رہی تھی۔ ان ڈاکو حکمرانوں نے بیرون ملک جائیدادیں کارخانے محلات بہت زیادہ بنا رکھے تھے۔ اس زمانے میں ایک تکنیک روپیہ پیسہ بیرون ملک بھیجنے کی، ڈاکوئوں میں عام تھی۔ اسے ’’منی لانڈرنگ‘‘ کہتے تھے۔ اس فرنگی تکنیک کا تعلق دھوبی گھاٹ سے بھی تھا۔ یعنی لانڈری سے!
ایک مرض عمران خان کے عہد میں یہ پھیلا کہ صحافیوں اور ٹیلی ویژن والوں نے ڈاکو حکمرانوں کا خوب ساتھ دیا۔ اس گروہ کے اپنے مفادات تھے۔ بعض تو صرف اس لیے ڈاکو حکمرانوں کی حمایت کرتے تھے کہ ان کے ساتھ ہیلی کاپٹروں میں گھومتے پھرتے تھے۔ بعض نے اقربا کے لیے نوکریاں مانگیں اور پائیں۔ بعض طیاروں میں بیرون ملک ساتھ جاتے۔ اسی زمانے میں ہائوسنگ سوسائٹیوں کے ایک معروف کھرب پتی کے حوالے سے کچھ صحافیوں کے بینک اکائونٹ نمبر بھی عام ہوئے جن میں اس کھرب پتی نے روپوں کی تھیلیاں ڈالی تھیں۔ کچھ نے نیم دلی سے تردید کی مگر اکثر نے اعصاب مضبوط رکھے۔ بہرطور یہ طے تھا کہ ڈاکو حکمرانوں کے حامی صحافی، کالم نگار اور میڈیا پرسن مفادات کے اسیر تھے۔
اس زمانے میں ایک ادارہ نیب کے نام سے لوٹ مار ختم کرنے کا دعویدار تھا مگر کوئی ٹھوس برآمدگی دکھا سکا نہ بیرون ملک سے دولت کی واپسی ہی ممکن ہوئی۔ پختون نژاد عمران خان کے ہم رکاب جو سوار تھے، ان میں سارے گندمی رنگ کے نہ تھے۔ کچھ نیلے پیلے ارغوانی اور زرد رُو بھی تھے۔ ان کے بارے میں زبان خلق جو کچھ کہتی تھی، اطمینان بخش ہرگز نہ تھا۔ نیب زدہ یہ بھی تھے مگر حکومت کی دلیل یہ تھی کہ فرشتے کہاں سے لائے جائیں۔ دوسری طرف عوام کی توقعات آسمان پر تھیں۔
پھر صدیاں بیت گئیں۔ ایک ہزار برس گزر گئے۔ اب 3019ء ہے۔ گزشتہ ملی نیم سے موازنہ کریں تو حیرت سے زبان گنگ ہو جاتی ہے اور دماغ گھومنے لگتا ہے۔ 1019ء سے 2019ء تک اس قدر تبدیلیاں رونما ہوئیں کہ کئی انقلابات کی گواہی دینے والے ستارے بھی دم بخود تھے۔ کہاں وہ زمانہ کہ غزنی اور جلال آباد سے آنے والے حملہ آور سینکڑوں ہاتھی اور ہزاروں قیدی ساتھ لے جاتے۔ کہاں 2019ء کہ کسی حملے، کسی قتل و غارت کے بغیر ساری اشیائے ضرورت افغانستان پہنچ جاتیں۔ کپڑا، ادویات، سیمنٹ، سریا، گوشت، گھی، چینی، آٹا یہاں تک کہ پکی ہوئی روٹیاں بھی پاکستان سے جاتیں۔ سمگلنگ کا یہ جادو 1019ء میں ناپید مگر 2019ء میں عام تھا۔ اس کے بدلے میں بارڈر پار سے ہر قسم کا اسلحہ اور ہر قبیل کی منشیات آتیں اور وافر مقدار میں آتیں۔ مگر 2019ء سے لے کر 3019ء تک کوئی خاص تبدیلی نہ آ سکی۔ ایک ہزار برس گذر گئے مگر عمران خان نے جس کام کا آغاز کیا تھا، ابھی تک پورا نہیں ہوا۔ شریف خاندان کی بیسویں نسل لندن کی جائیدادوں پر بدستور قابض ہے۔ گزشتہ ایک ہزار برس سے یہ لوگ کبھی جیل جاتے ہیں، کبھی باہر نکل کر انگلیوں سے وکٹری کا نشان بناتے ہیں۔ آج تک ایک روپیہ ان سے واپس لے کر قومی خزانے میں نہیں ڈالا گیا۔
نیب ہزار برس بعد بھی دعوئوں پر دعوے کر رہی ہے۔ اب تو نیب کے چیئرمین کے پاس آواز سے زیادہ تیز رفتار طیارے ہیں اور خلائی شٹل بھی ہے کہ مجرموں کو مریخ اور زہرہ سے واپس لایا جا سکے۔ مگر مقدمے اس قدر کمزور بنائے جاتے ہیںکہ مریخ اورزہرہ کی پولیس ہنس کر ٹال دیتی ہے۔ عمران خان کے جانشین حکمران دلیل اس پر یہ دیتے ہیں کہ نیب میں اور دیگر تحقیقاتی اداروں میں افرادی قوت اب بھی شریفوں کی وفادار ہے۔ یعنی ہزار سال بعد بھی۔
زرداری خاندان کی بھی بیسویں بائیسویں نسل بدستور سندھ پر حکومت کر رہی ہے۔ بلاول کے پڑپوتے کا لکڑ پوتا نیب کا مذاق اڑاتا ہے۔ آج 3019ء میں گائوں گائوں بلاول ہائوس بن چکے ہیں۔ دبئی کے آدھے سے زیادہ ٹاور آج بھی اسحاق ڈار اور زرداری کی موجودہ نسلوں کے قبضے میں ہیں۔
بیوروکریسی میں سیاسی مداخلت ابھی تک جاری ہے۔ سنا ہے ہزار برس پہلے ایک بیوروکریٹ ناصر درانی کو افسر شاہی کی اصلاح کا کام سونپا گیا مگر وہ بددل ہو کر مستعفی ہوگیا۔ پھر کبھی اس کا نام پیش منظر پر نہ آیا۔ نوکرشاہی کا ایک گروہ اس وقت بھی چھایا ہوا تھا۔ اب بھی فرماں روائی اسی کی ہے۔ سنا ہے ہزار سال پہلے ایک عشرت حسین تھا۔ وہ اس گروہ کو آب حیات پلا گیا۔ مورخ کہتے ہیں کہ جاہ طلب تھا عمران خان سے پہلے ایک سپہ سالار جنرل پرویز مشرف کو بھی شیشے میں اس نے اتارا تھا اگرچہ حاصل حصول وصول کچھ نہ ہوا۔
عمومی حالت بھی ایک ہزار سال بعد جوں کی توں ہے۔ دارالحکومت میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی شاہراہ ایکسپریس ہائی وے آج بھی گلبرگ سے لے کر روات تک شکستہ اور تنگ ہے۔ عمران خان کے جانشین، ایک ہزار برس بعد بھی سڑکیں اس لیے نہیں بنواتے کہ شریفوں کے ساتھ کوئی قدر مشترک نہ ہو جائے۔ آج 3019ء میں دوسرے ملکوں میں ہوا میں چلنے والی کاریں اور ٹیکسیاں عام ہیں مگر پاکستان میں ٹریفک کی ابتری اسی طرح ہے۔ ٹریکٹر، ٹرالیاں، ڈمپر اور ٹرک اب بھی کاروں کو اور انسانوں کو کچل دیتے ہیں اور وحشی ڈرائیوروں کا قانون کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ عمران خان کا ایک جانشین ہوا میں اڑنے والی کریم اور اوبر لایا مگر شادیوں کے مواقع پر ہونے والی ہوائی فائرنگ سے کئی گاڑیاں زمین پر اوندھے منہ آن لگیں۔ چنانچہ یہ ماڈرن ذریعہ آمدورفت ختم کردیا گیا۔ ہاں، ہوائی فائرنگ کے ذریعے جشن مسرت منانے کا رواج بدستور مقبول عام و خاص ہے۔
ملک میں بڑے بڑے کارخانے سارے آئی ایم ایف کی ملکیت میں ہیں۔ زرعی جاگیروں کو قرقی کرکے ورلڈ بینک نے اپنے نام کرلیا ہے۔ ہزار برس پہلے پاکستان کا قبلہ و کعبہ واشنگٹن تھا۔ آج اتنا فرق ہے کہ ماسکو، بیجنگ، دبئی اور ریاض بھی موثر کردار ادا کر رہے ہیں۔ ترین فیملی ہزار برس پیشتر عمران خان کے زمانے میں نمایاں ہوئی تھی۔ آج اس کی موجودہ نسل کے پاس گنے کی فصل اور شکر کے کارخانوں کی سوفیصد ملکیت ہے۔
کیا خبر ہزار برس بعد یعنی 4019ء تک کچھ تبدیلی رونما ہو جائے۔
   
No comments:
Post a Comment