Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, August 31, 2016

پردیس میں ناصبور ہے تو

گھر والوں کو چاہیے کہ جلدی کریں۔ دیر ہو رہی ہے۔ دُھلے ہوئے کپڑے نکالیں تاکہ تبدیل کروں، راستے کے لیے کھانا ساتھ دیں۔ ہم جب آبائی بستیوں میں مقیم تھے تو سفر پر جاتے ہوئے پراٹھے اور انڈوں کا خاگینہ کپڑے میں باندھ کر ساتھ رکھ لیتے تھے۔ اب حالات بدل چکے ہیں۔ بیٹی سینڈوچ تیار کر رہی ہے۔ 
جانا ہے اور لازماً جانا ہے۔ اظہارِ افسوس کے لیے، کاش آج کی نسل کو بھی معلوم ہوتا کہ کچھ مواقع پر دوستوں، رشتہ داروں اور جاننے والوں کے پاس حاضر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ یہ سماجی فرض ہے اور معاشرتی پابندی! دیہات کے کلچر میں کیا حُسن ہے۔ گائے بھینس مر جائے، تب بھی افسوس کے لیے جاتے ہیں۔
لیکن مجھے ایک اور ہی سلسلے میں جانا ہے۔ دل قلق سے بھر گیا ہے۔ یوں لگتا ہے زخم ہے جو اندر ہی اندر رِس رہا ہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اندر سے ہوک اٹھتی ہے۔ میں نے اپنے پسندیدہ سیاسی رہنما جناب اسفند یار کی خدمت میں حاضر ہونا ہے، اظہارِ افسوس کے لیے۔ ان سے گلے ملوں گا تا کہ سینہ چاک باہم اکٹھے ہو جائیں۔
افسوس کرنا ہے کہ وہ افغان تھے، افغان ہیں اور افغان رہیں گے مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ وہ افغانستان سے دور ہیں! ان کی حالت عبدالرحمن اول جیسی ہے۔ وہ ہسپانیہ میں حکومت کرنے گیا۔ وہاں کھجور کا درخت بویا تو اسی سے ہجر کا دُکھ بانٹنے بیٹھ گیا   ؎
پردیس میں ناصبور ہوں میں
پردیس میں نا صبور ہے تو
یہاں کھجور کا درخت تو نہیں ہے مگر مشابہت اس لحاظ سے مکمل ہے کہ اسفند یار صاحب کا خاندان پاکستان میں حکومت کرتا رہا ہے۔
اظہارِ افسوس کے علاوہ میں نے اپنے پسندیدہ لیڈر کو اپنی خدمات بھی پیش کرنا ہیں۔ مشورہ دینا ہے کہ حضور! آپ افغان تھے، افغان ہیں اور افغان رہیں گے تو افغانستان کون سا دور ہے۔ یہاں کے کام دھندے چھوڑیے فوراً روانہ ہو جائیے۔ سامان باندھنے کے لیے بندہ حاضر ہے۔ زندگی ایک بار ملتی ہے، بار بار نہیں ملتی۔ وہ بھی کیا زندگی جو حسرت میں کٹ جائے، ارمان پورے نہ ہوں۔ مانا کہ پاکستان افغانستان کی نسبت اتنا ہی زیادہ ترقی یافتہ ہے جتنا پاکستان کے مقابلے میں یورپ، جو سہولیات یہاں حاصل ہیں ان کا آپ کے ’’اپنے‘‘ ملک میں تصور بھی محال ہے مگر وطن کی مٹی کے لیے ترس رہے ہیں تو پاکستان کو لات ماریے اور افغانستان جائیے۔ یہاں آپ کے اعزہ میں کوئی وزیر اعلیٰ رہا، کوئی وفاقی وزیر، کوئی سینیٹر ہے مگر جو کچھ آپ کو افغانستان میں ملے گا، اس کے مقابلے میں پاکستان آپ کو کیا دے سکتا ہے! جیسے ہی آپ سرحد پار کریں گے، افغان حکومت، افغان طالبان، امرا، عمائدین، عوام، سب آپ کے استقبال کے لیے پھولوں کے ہار لے کر کھڑے ہوں گے اور کہیں گے صبح کا بھولا شام کو گھر آیا ہے۔ جی آیاں نوں! شہرِ کابل کی چابیاں آپ کی خدمت میں پیش کی جائیں گی۔ غزنی، قندھار، ہرات، جلال آباد کی گورنری آپ کے خاندان کو سونپی جائے گی۔ اپنا ملک، اپنا ملک ہی ہوتا ہے۔
بس وہاں ایک چھوٹا سا مسئلہ درپیش ہو گا۔ آپ افغان ہیں مگر مشکل یہ ہو گی کہ وہاں یعنی افغانستان میں تو تاجک بھی افغان ہیں۔ ازبک بھی افغان ہیں۔ بامیان کے ہزارہ بھی افغان ہیں۔ بہت آسان، بہت موٹا یعنی جاٹواں نکتہ جناب کے ذہنِ رسا میں نہیں سما سکا کہ پختون اپنی قوم افغان لکھتے تھے۔ بجا، مگر یہ اُس وقت سے چلا آ رہا تھا جب افغانستان ملک نہیں تھا۔ یہ ایک کھلا خطہ تھا۔ کبھی وسط ایشیا کے تحت، کبھی مغلوں کے ہندوستان کا حصہ، کبھی ایرانیوں کی اقلیم کا جزو۔ اس وقت پختون، جہاں بھی تھا، افغان قوم لکھتا تھا۔ کابل میں رہنے والا ازبک افغان نہیں تھا، ازبک تھا۔ بدخشاں میں رہنے والا تاجک افغان نہیں تھا، تاجک تھا۔
بامیان کا ہزارہ، افغان نہیں تھا، ہزارہ تھا۔ مگر جناب کی اطلاع کے لیے ادب کے ساتھ عرض ہے کہ اٹھارویں صدی کے وسط میں نیا ملک افغانستان کے نام سے وجود میں آ گیا۔ اب افغان وہ ہے جو افغانستان کا ہے۔ اب ازبک بھی افغان ہے، ہزارہ بھی افغان ہے، ترکمان بھی افغان ہے اور تاجک بھی افغان ہے۔ وہ آپ کو افغان کیوں مانیں گے؟ کیا دوستم آپ کو افغان مانے گا؟ نہیں، کبھی نہیں! آپ خود اگست 1947ء سے پہلے ہندوستانی تھے مگر اب نہیں ہیں۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، آپ پاکستانی ہیں۔ افسوس! یہی دُکھ تو کھائے جا رہا ہے۔
مگر آپ نہیں جائیں گے! جو افغان یہاں آئے ہیں، جو آپ کی یک طرفہ منطق کی رُو سے آپ کے ہم وطن ہیں، وہ بھی نہیں جا رہے۔ اس لیے کہ پاکستان سے محبت ہو یا نہ ہو، پاکستان سے فائدہ ضرور اٹھانا چاہیے۔ افغان یہاں کاروبار کر رہے ہیں۔ مہاجرت کا لیبل لگا کر مقامی لوگوں کو ہر معاشی سرگرمی سے باہر نکال رہے ہیں۔ پاکستان ان کے لیے دبئی ہے، امریکہ ہے، یورپ ہے مگر وہ رہیں گے افغان! پاکستان کو نہیں اپنائیں گے! میٹھا میٹھا ہپ! ماں اچھی نہیں لگتی مگر دہی کے ساتھ جو روٹی دیتی ہے، وہ روٹی بہت اچھی لگتی ہے۔
صرف پختون سرحد کے دونوں طرف نہیں، باقی گروہ بھی منقسم ہیں۔ پنجابی بھارت میں بھی ہیں اور پاکستان میں بھی۔ سندھی سرحد کے دونوں طرف ہیں۔ تو کیا وہ جو یہاں ہیں، کبھی اپنے آپ کو انڈین کہتے ہیں؟ بلوچی ایران میں بھی ہیں مگر جو بلوچی پاکستان میں ہے وہ پاکستانی ہے۔ افسوس! آپ پاکستانی نہ ہو سکے۔ افغانستان کے تاجک، ہزارہ، ترکمان افغان بن گئے، آپ ابھی تک پاکستانی کہلانا پسند نہیں فرماتے! زخم ہے کہ بھرتا ہی نہیں! رِس رہا ہے اور مسلسل رِس رہا ہے۔ ریفرنڈم میں خیبرپختونخوا کے عوام نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دے کر آپ کے خاندان پر ایسا زخم لگایا جسے آپ بھول ہی نہیں پا رہے۔
مگر جناب اسفند یار، ایک بات ضرور یاد رکھیے، پاکستان میں رہنے والے پختون صرف اور صرف پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو سروے کرا لیجیے۔ فاٹا ہے یا وزیرستان، سوات ہے یا مردان، کوہاٹ ہے یا بنوں، پاکستانی پختون اول آخر پاکستانی ہے۔ جو محبت پاکستان سے پٹھانوں کو ہے، اس کی مثال کہیں اور موجود ہی نہیں۔ پختونوں میں بہادری ہے، مہمان نوازی ہے، جواں مردی ہے مگر تعصب نہیں۔ ورنہ لاہور کا عمران خان، پنجاب کے بجائے کے پی میں کیسے حکومت بناتا؟ حضور! آپ کن وقتوں میں رہ رہے ہیں؟ پاکستانی پختون کو معلوم ہے کہ وہ سرحد پار پختون کی نسبت بدرجہ ہا بہتر زندگی گزار رہا ہے۔
آپ جان بوجھ کر یہ حقیقت اپنے حافظہ سے کھرچنا چاہتے ہیں کہ پختونوں نے پاکستان کو اپنا خون دیا ہے۔ پختون بوڑھوں نے اپنے بڑھاپے کے سہاروں کو پاکستان پر قربان کر دیا ہے۔ پختون مائوں نے اپنے جگر کے ٹکڑے اس وطن کی نذر کیے ہیں۔ ان مائوں نے بیٹوں کی میتیں وصول کرتے وقت، اسفند یار صاحب! بخدا یہ کہا ہے کہ وہ اپنے باقی فرزند بھی مادرِ وطن پر نچھاور کر دیںگی۔ آپ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ پاکستان کے پختون آپ کے ہم نوا نہیں، نہ ہو سکتے ہیں۔
تو کیا کرنل شیر خان شہید افغان تھا؟ کیا گلتری اور مشکوشی جہاں کرنل شیر خان شہید نے حفاظتی حصار کھینچے اور چوکیاں قائم کیں، افغانستان میں واقع ہیں؟ یہ تو پختون علاقہ بھی نہیں، یہ پاکستان تھا جس کے لیے اس نے ایسی دادِ شجاعت دی کہ بھارتیوں کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ انسان ہے یا مافوق الفطرت طاقت؟ افغانستان کرنل شیر خان کا پاسنگ بھی پیدا نہیں کر سکتا۔ کیا ہنگو کا اعتزاز حسن جس نے اپنی جان دے کر دو ہزار طلبہ کی جان بچائی، افغان تھا؟ آپ افغان ہیں تو افغانستان ہجرت کر جائیے مگر ہمارے شہیدوں کی توہین تو نہ کیجیے۔
اور ہاں! ایک کرم اور ضرور کیجیے گا! افغانستان سدھارتے ہوئے اچکزئی صاحب کو بھی لیتے جائیے گا کیونکہ ان کا پورے کا پورا خاندان، بلکہ دور کے رشتہ دار بھی اعلیٰ عہدوں پر پاکستان میں فائز ہیں مگر اس کے باوجود وہ افغان ہیں۔
واہ! دھرتی ماں کے وفادار سپوتو! واہ!

Tuesday, August 30, 2016

مگر تم نے مری جاں! مسئلہ سمجھا نہیں ہے

امریکہ میں رہتے ہوئے بابر غوری کو کس چیز کا خوف تھا؟ الطاف حسین جب اس پر غرایا کہ پاکستان زندہ باد کیوں کہا تو وہ سہم گیا۔کیوں؟ پھر اس نے(میرے منہ میں خاک) پاکستان مردہ باد کہا، اس کی حالت اس بکرے کی سی تھی جسے قصاب پکڑ کر مذبح کی طرف لے جا رہا ہو۔
ہر کوئی حیران ہے کہ اب جب ’’بھائی‘‘ کی وحشت و بربریت کا زور کراچی میں بھی ٹوٹ چکا ہے تو بابر غوری قبیل کے لوگ امریکہ رہ کر کیوں لرزہ براندام ہیں؟
اس لیے کہ الطاف حسین ان کا(نعوذباللہ) پروردگار تھا۔ یہ جو امریکہ اور کینیڈا میں چند سو افراد اور ان کے خاندان بہترین شہروں کے گراں بہا محلوں میں رہ رہے ہیں، یہ الطاف حسین کی وجہ سے ہے۔ اگر کوئی ریستوران میں کسی زمانے میں ویٹر تھا اور اب امریکہ میں اس کے سو سے زیادہ پٹرول پمپ ہیں تو اسے ڈر ہے کہ الطاف حسین یہ کہہ نہ دے کہ ’’ابے! تیری حیثیت کیا تھی؟ تجھے میں نے بنایا، تجھے میں نے وزارتیں دلوائیں جن میں تو نے من مانی کی۔ میری وجہ ہی سے تو تُو لوٹ مار کرتا رہا۔ اتنی کہ آج امریکہ میں سیٹھ بنا پھرتا ہے۔ تیری یہ مجال کہ پاکستان زندہ باد کہے؟‘‘
ان لوگوں کا اوڑھنا بچھونا دولت تھی۔ دولت بٹورنے میں الطاف حسین کا دستِ شفقت سر پر رہا۔ مفادات انسان کو بزدل بنا دیتے ہیں۔ پھر جو تجوری لوٹ مار سے بھری ہو، اس کی حفاظت بھی زیادہ کرنا پڑتی ہے۔ جون ایلیا فقیر تھا۔ یہ لوگ اسے مشاعرے سے اٹھا کر لے گئے۔ زدو کوب کیا۔ وہ پھر بھی نہ ڈرا۔ برملا افسوس کرتا تھا کہ جن لوگوں کے ہاں سلیمان ندوی، شبلی اور محمد علی جوہر جیسے نابغے پیدا ہوتے تھے، وہ اب جاوید لنگڑا، اجمل پہاڑی، فلاں ٹنڈا اور فلاں کمانڈر پیدا کر رہے ہیں! مگر بات یہ ہے کہ جون ایلیا کے مفادات نہ تھے۔ اس کے Stakesنہیں تھے۔ اس نے کون سی وائس چانسلری لینی تھی اور پھر اس وائس چانسلری کو کون سا آٹھ نو سال بچانا تھا کہ ’’بھائی‘‘ کی ٹیلی فونک تقریر کے سامنے بُزِ اخفش بن کر بیٹھ جاتا۔ پھر جون ایلیا شاعر بھی تیسرے درجے کا نہ تھا کہ پوری دنیا میں صرف لسانی گروہ کے جوڑ توڑ کی وجہ سے بلایا جاتا اور نسوانی ترنم سے نام نہاد شاگردوں کو محظوظ کرتا پھرتا۔ 
کراچی میں جب پاکستان کو ناسور کہا گیا اور(نقلِ کفر کفر نہ باشد) مردہ باد کے نعرے لگائے گئے تو کیا یہ مناسب نہ تھا کہ کراچی کے شاعر، ادیب، دانشور ایک بیان میں اس ناپاک جسارت کی مذمت کرتے؟ زندہ باد کا نعرہ لگاتے اور وطن دشمن عناصر سے لاتعلقی کا اظہار کرتے؟
اس میں کیا شک ہے کہ اس دریدہ دہنی سے ان کے دلوں میں زخم ضرور پڑا ہو گا۔ اس لیے کہ کراچی پاکستان ہے اور پاکستان کراچی، حب الوطنی کے سارے سوتے کراچی سے پھوٹتے ہیں! کراچی قائد اعظم کا شہر ہے۔ سب جانتے ہیں کہ کراچی کے اہلِ دانش پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ سحر انصاری، شاداب احسانی، انور شعور، آصف فرخی، شوکت عابد، جاذب قریشی، رسا چغتائی، فاطمہ حسن، سلیم کوثر، عقیل عباس جعفری، شاہدہ حسن، کاشف حسین غائر، لیاقت علی عاصم، مبین مرزا، اجمل سراج، رئوف پارکھ(اور کئی دوسرے دانشوروں) سے زیادہ کون محبِ وطن ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے ان بیٹوں اور بیٹیوں کو کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت بھی نہیں۔ یہ تو شہر کے ادبی محافظ ہیں۔ وہی شہر جہاں بوڑھا جمیل الدین عالی، آخری سانسوں تک جیوے جیوے پاکستان گاتا رہا۔ جس شہر سے 1965ء کی جنگ کے دوران ولولہ انگیز قومی نغمے ابھرے، جہاں سے محشر بدایونی کا نغمہ ’’اپنی قوت اپنی جان‘‘ نکلا اور پاکستانی پرچم پر ثبت ہو کر افق سے افق تک چھا گیا، جہاں صہبا اختر نے بے مثال ملی نظمیں کہیں اور سنائیں۔ جہاں سلیم احمد اور قمر جمیل جیسے ادیب اور ادیب گر تھے، جن کے جسم کی رگوں میں، رگوں کے بہتے خون میں، ہڈیوں میں، ہڈیوں کے اندر بھرے گودے میں پاکستان کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ اگر اس شہر کے ادیب اور دانشور کسی دہنِ غلیظ کو پاکستان کے خلاف زہر اگلتا دیکھیں، گالیاں دیتے سنیں اور پھر بھی خاموش رہیں تو یقینا یہ دُکھ کی بات ہے۔
رہے وہ ادارے جن کے ہاتھ میں پالیسی سازی ہے اور قوتِ نافذہ ہے، تو ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ جوش کی نہیں ہوش کی ضرورت ہے۔ جس طرح خواتین کی پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے، اس سے خدانخواستہ گمان گزرتا ہے کہ فیصلے گہرائی اور گیرائی میں نہیں ہو رہے۔ یہ حقیقت تمام متعلقہ حلقوں کو معلوم ہونی چاہیے کہ الطاف حسین کے پاکستان دشمن اور بھارت نواز رویے سے کراچی کے شہریوں بالخصوص ایم کیو ایم کے عام ارکان کا دور دور سے کوئی تعلق نہیں، اگر الطاف حسین کا دستِ راست لندن میں ایک ایسا شخص تھا جو پاکستانی ہی نہیں تھا اور اوّل آخر بھارتی تھا تو اس میں ایم کیو ایم کے عام رکن کا کیا قصور ہے؟
اور بھارت کیا چاہتا ہے؟ یہی کہ الطاف حسین جو کچھ کر رہا ہے، پاکستانی ادارے اس کا غصہ عام شہریوں پر نکالیں۔ عوام دیوار کے ساتھ لگ جائیں۔ بدگمانیاں پیدا ہوں۔ غلط فہمیاں پھیلیں اور فضا مسموم ہو جائے۔ عقل مندی کا تقاضا ہے کہ ایسا ہرگز نہ ہونے دیا جائے۔ یہ جو کچھ حضرات مسلسل ہتھوڑے کی ضرب لگا رہے ہیں کہ فاروق ستار درمیان میں کیوں کھڑے ہیں، آر ہو جائیں یا پار تو یہ کوئی پانی پت کا میدان تھوڑی ہی ہے کہ صف آرائیاں کی جائیں۔ جو شخص کئی عشروں تک سیاہ و سفید کا مالک رہا، اس کے بارے میں فاروق ستار کا یہ تک کہہ دینا کہ اس سے تعلق ختم کر چکے ہیں اور اپنے فیصلے خود کریں گے، لمحۂ موجود میں بڑی بات ہے۔
کراچی سے شکوہ کرنے والوں کو یہ بھی یاد دلانا ضروری ہے کہ حب الوطنی کی توقع ضعیفوں اور کمزوروں ہی سے نہیں، طاقت وروں سے بھی کرنی چاہیے۔ الطاف حسین نے جب بھارت میں اعلان کیا تھا کہ پاکستان کا قیام حماقت تھی تو پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی حکومتی تھی۔ یہ حکومت محض حکومت نہیں تھی، آمریت کے نوکدار سینگ لگائے، بدنما دانت نکالے، عفریت کی طرح قوم کی گردن پر سوار تھی۔ بجائے اس کے کہ یا وہ گوئی کا نوٹس لیا جاتا، ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا ڈھول پیٹنے والے جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کے سفارت خانے کو حکم دیا کہ غدار کے اعزاز میں سرکاری ضیافت ترتیب دی جائے۔ اس الطاف نوازی کا حساب کون لے گا؟ اور کون دے گا؟ اُس وقت مسلم لیگ قاف جرنیل کی وردی کو دن میں تین بار استری کرتی تھی اور دس بار جرنیل کو منتخب کرانے کا اعلان ڈنکے کی چوٹ پر کرتی تھی۔ اُس کی حب الوطنی کہاں سو رہی تھی؟ مسلم لیگ قاف نے اس تقریر کے خلاف احتجاج کیوں نہ کیا؟
ابھی بہت کچھ واضح نہیں ہے۔ دھند گہری ہے۔ جو کچھ نظر آ رہا ہے، اصل نہیں۔ جو دکھائی نہیں دے رہا، اُس کی فکر کسی کو نہیں۔ رات سفید ہے اور دن سیاہ! ایک بڑی خوبصورت دعا ان الفاظ میں منقول ہے’’ اے خدا! مجھے چیزیں اس طرح دکھا جیسے وہ اصل میں ہیں، اس طرح نہیں جیسے نظر آ رہی ہیں‘‘    ؎
نظر آتا ہے جو کچھ اصل میں ایسا نہیں ہے
مگر تم نے مری جاں! مسئلہ سمجھا نہیں ہے

Sunday, August 28, 2016

خواب

شہر کی بیرونی حدود شروع ہوتے ہی سرخ رنگ کی خوبصورتش عمارتیں نظر آنے لگیں۔ عمارتوں کا یہ ایک طویل سلسلہ تھا۔ درمیان میں سبزہ زار تھے اور درختوں کے ہجوم۔ گائیڈ مسلسل بتا رہا تھا۔۔۔۔ یہ آرٹس بلڈنگ ہے، یہ عظیم الشان عمارت سنٹر آف بزنس ایڈمنسٹریشن ہے، یہ سکول آف سائنٹیفک ریسرچ کی عمارت ہے، یہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیسن اینڈ سرجری ہے، یہ عمارت صنعتی اقتصادیات کی تحقیق کے لیے مختص ہے اور دنیا میں انڈسٹریل اکنامکس کے حوالے سے سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس طرف تین کلو میٹر تک پروفیسروں کے رہائشی مکانات ہیں۔ دوسری طرف ہوسٹل ہیں۔ ان گیارہ ہوسٹلوں میں ہزاروں طلبہ رہ رہے ہیں جو دنیا بھر کے ملکوں سے فقط اس یونیورسٹی کی شہرت سن کر پڑھنے آئے ہیں۔ ان کی پشت پر شاپنگ سنٹر ہے۔ ملازمین کے بچوں کے لیے سکول اور کالج الگ بنے ہوئے ہیں۔ 
یونیورسٹی کیا تھی، پورا شہر تھا۔ سرفخر سے تن گیا۔ شہرِاقبال کے رہنے والوں نے کیا کمال کر دکھایا ہے۔ تاجروں نے دولت کو کس صحیح طریقے سے استعمال کیا ہے! سبحان اللہ!
مگر آہ! ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ یہ سب خواب ہے۔ جاگتے میں نظر آنے والا خواب!
سیالکوٹ صنعت و حرفت کا گڑھ ہے۔ اربوں کھربوں روپے سالانہ کمائے جاتے ہیں۔ 2014ء میں فٹ بال ورلڈ کپ کے لیے اس شہر نے چار کروڑ سے زیادہ فٹ بال برآمد کیے۔ 1980ء کے ورلڈ کپ کے لیے بھی سیالکوٹ ہی کو آرڈر ملا۔ دنیا کے بڑے بڑے برانڈ جو کھیلوں کا سامان فروخت کرتے ہیں مثلاً نائکے، اڈیڈاس، پُوما، لِٹو وغیرہ سیالکوٹ ہی کے گاہک ہیں۔ چمڑے کی انڈسٹری اس کے علاوہ ہے۔ سرجری کے آلات کا بہت بڑا عالمی کاروبار ہے۔ سیالکوٹ میں صرف بڑی بڑی کمپنیوں ہی کی تعداد ہزار کے قریب ہے۔ ڈیڑھ ارب ڈالر سے زیادہ کا زرمبادلہ ہر سال ملک کو اس شہر کے طفیل ملتا ہے۔
سیالکوٹ کی امارت پر، اس کی بین الاقوامی تجارت پر اور اس کے باسیوں کی فنی اور تکنیکی مہارت پر صفحوں کے صفحے لکھے جا سکتے ہیں۔ یہاں کے صنعت کاروں، تاجروں اور برآمد کنندگان نے ہمت کی اور حکومت سے ایک پائی لیے بغیر ایئرپورٹ بنایا تاکہ لاہور اور اسلام آباد ایئر پورٹوں پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ تعجب ہوتا ہے کہ جس شہر میں ملا عبدالحکیم سیالکوٹی تھے (انہیں فاضل لاہوری بھی کہا جاتا تھا) جنہیں شاہ جہان نے چاندی میں تلوایا تھا، اور جس شہر میں اقبال تھے، جن کے علم و فضل، شعر و ادب اور فلسفہ و حکمت نے سیالکوٹ کا نام کرۂ ارض کے آخری کونے تک پہنچا دیا ہے اور جس شہر میں فیض تھے اور خواجہ عبدالحمید عرفانی جیسے عالم تھے، اس شہر کے کھرب پتیوں کو یہ خیال نہ آیا کہ ایک ایسی یونیورسٹی بنائیں جو شہر کے شایانِ شان ہو!
تو پھر سانپ نے تو نکلنا ہی تھا اور وہ نکلا۔ یہ واقعہ چھ دن پہلے کا ہے۔ جہازوں میں سانپوں کا نکلنا تو سنتے رہے، ان کی وجہ سے پروازیں بھی مؤخر ہوئیں مگر کسی انٹرنیشنل ڈیپارچر لائونج میں غالباً ایسا پہلی بار ہوا۔ سیالکوٹ ایئرپورٹ کے لائونج سے پانچ فٹ لمبا سانپ نکلا اور مٹرگشت کرنے لگ گیا۔ اہلکار کچھ بھاگے، کچھ چیخے، بالآخر ایئرپورٹ سکیورٹی فورس کے کسی فرد نے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
س سے سیالکوٹ ہے اور س سے سیٹھ ہے اور س سے سانپ ہے مگر اے سیالکوٹ کے سیٹھو! خدا تمہاری برآمدات میں مزید اضافہ کرے، س سے سکول بھی تو ہے۔ اگر تمہاری دلچسپی صرف بزنس ہی میں ہے تو پھر ایک ’’سکول آف بزنس ایڈمنسٹریشن‘‘ ہی ایسا قائم کر دو کہ ہارورڈ اور جان ہاپکن سے بڑھ کر بے شک نہ ہو، انہی کے مرتبہ کا تو ہو۔ دولت تمہارے پاس وافر ہے۔ ایسا نظام قائم کرو اور ایسے مشاہرے رکھو کہ مغربی اداروں سے کھنچ کھنچ کر پروفیسر اور ریسرچر اِدھر کا رُخ کریں۔ بین الاقوامی معیار کے کیمپس بنائو۔ سفارش اور اقربا پروری کو اندر نہ گھسنے دو۔ آکسفورڈ یا برکلے کے کسی جہاندیدہ، گرگِ باراں دیدہ پروفیسر کو منصوبے کا ناظم مقرر کرو، مداخلت نہ کرو اور مشرقِ وسطیٰ کے اُن شہزادوں اور بادشاہوں کے رخساروں پر طمانچہ رسید کرو جو اپنی بے پایاں دولت سے آسماں بوس برج تو تعمیر کر سکتے ہیں، تفریحی جزیرے تو خرید سکتے ہیں، زرِخالص سے کاریں تو بنوا سکتے ہیں، اڑتے جہازوں میں خواب گاہیں، ڈرائنگ روم اور اٹیچڈ باتھ روم بنوا کر زہرہ وش، ماہ رُخ، سیم تن، ایئرہوسٹسوں کو کنیزیں تو بنا سکتے ہیں مگر افسوس! صدر افسوس! بین الاقوامی معیار کی ایک یونیورسٹی بنانے کی توفیق ہوئی نہ ہو رہی ہے۔
اس کالم نگار نے راچسٹر (منی سوٹا) کے مشہورِ عالم ہسپتال (میوکلینک) کے وہ فائیو سٹار وارڈ دیکھے ہیں جن کے کمروں کے تالے، کنڈے اور جن کے غسل خانوں کی ٹونٹیاں ان عرب حکمرانوں نے خالص سونے کی لگوائی تھیں۔ نائن الیون سے پہلے راچسٹر کے بازاروں میں ان کی خواتین شاپنگ کرتے وقت ڈالر یوں اچھالتی تھیں جیسے جنوبی پنجاب کے جاگیردار، مجرا کرنے والی رقاصائوں پر نوٹ اچھالتے ہیں۔ اردن کے شاہ حسین نے آخری ایام میں دارالحکومت عملی طور پر راچسٹر ہسپتال ہی میں منتقل کر لیا تھا اور اس کا ہوائی جہاز وہیں پارک رہتا تھا۔ میوکلینک کے بڑے بڑے ڈاکٹر کئی بار ایمرجنسی میں، خصوصی طور پر ریاض بھیجے گئے۔ ایک اور بادشاہ نے اپنے معالج کو راچسٹر سے بلوایا اور اپنے دارالحکومت میں قیام کے دوران اس کی اور اس کی بیوی کی ساری شاپنگ کو ’’سرکاری‘‘ قرار دیا۔ مگر ان حاطب اللیل حکمرانوں کو، اندھیرے میں سوکھی اور گیلی لکڑیوں کی تمیز نہ کر سکنے والے حکمرانوں کو، ایسا ہسپتال اپنے ہاں بنانے کی توفیق نہ ہوئی۔ ابھی ایک سال پہلے ہی کا تو واقعہ ہے کہ ایک بادشاہ نے فرانس کا پورا تفریحی ساحل(بیچ) اپنے لیے مختص کرا لیا۔ دو خصوصی جہازوں میں ایک ہزار افراد پر مشتمل ذاتی عملہ اور خاندان کے قریبی ارکان ساتھ تھے۔ عوام کی آمد و رفت بند کی گئی تو ایک لاکھ فرانسیسی شہریوں نے دستخط کر کے فرانسیسی حکومت کو یادداشت بھیجی۔ حکومت کے ہوش ٹھکانے آ گئے۔ آزاد ملکوں میں ایک دستخط والی یادداشت بھی حکومت کا ناطقہ بند کر سکتی ہے۔ حکومت نے ’’مہمان‘‘ سے معذرت کر لی، مہمان نے بوریا بستر اٹھایا اور یہ ’’مختصر‘‘ ذاتی قافلہ مراکش چلا گیا۔ وہاں اپنی ہی بادشاہی تھی اور اپنی سی! یہاں کے عوام فرانس کے عوام کی طرح بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھانا تو درکار، سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اِس دوران ایک دلچسپ مگر عبرت انگیز واقعہ جو رونما ہوا، لگے ہاتھوں اس کا بھی ذکر ہو جائے۔ فرانسیسی حکومت نے شاہی قافلے کی حفاظت کے لیے جو پہریدار مقرر کیے تھے، ان میں پولیس کی دو خواتین افسر بھی تھیں۔ انہیں ہٹانا پڑا اس لیے کہ ’’مہمانوں‘‘ نے فرانسیسی حکومت سے شکایت کی تھی کہ کیا اب عورتیں ان کی حفاظت کریں گے؟ واہ! مسلمانو! واہ! جو عورت نو ماہ اپنے پیٹ میں تمہاری دیکھ بھال کرتی ہے، جو تمہاری پیدائش کے بعد مسلسل تمہاری حفاظت کرتی ہے، یہاں تک کہ تم اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائو، بڑے ہو کر تمہیں شرم آنے لگتی ہے کہ وہ کیوں حفاظت کرے! واہ! کیا ذہنیت ہے! کیا مائنڈ سیٹ ہے!
دولت کا اور علم کا باہمی تعلق ہمیشہ سے ہے اور رہے گا۔ سیالکوٹ کے دولت مند اگر عالمی سطح کی قابلِ رشک یونیورسٹی بنائیں گے تو اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہ ہو گی۔ دنیا کی کئی معروف یونیورسٹیاں بزنس کرنے والے دولت مندوں نے بنائیں۔ برصغیر کی پہلی پرائیویٹ یونیورسٹی ایک صنعت کار ہی نے قائم کی۔ راجہ انّا ملائے چتیار تامل ناڈو کا بہت بڑا صنعت کار اور بنکار تھا۔  تامل ناڈو کی مشہور انّا ملائے یونیورسٹی اُس نے 1929ء میں قائم کی، آج ٹورنٹو، دبئی، شارجہ اور مسقط میں بھی اس کے کیمپس کھلے ہوئے ہیں۔ بھارت کے مشہور کاروباری برلا خاندان نے ٹیکنالوجی کے لیے مخصوص دو یونیورسٹیاں قائم کی ہیں۔ ایک رانچی میں دوسری راجستھان میں۔ حیدر آباد دکن کا مشہور’’نظام انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز‘‘ اُس خیراتی ٹرسٹ سے بنا جو آخری نظام نے اپنی ذاتی دولت سے قائم کیا تھا۔ ٹیکساس کی مشہور رائس یونیورسٹی ایک بزنس مین نے بنائی۔ نیویارک کی راک فیلر یونیورسٹی سیٹھ ہی کی قائم کردہ ہے۔ بیسیوں مثالیں اور بھی موجود ہیں۔
بہت پہلے، ایک نصیحت کرنے والا کہہ گیا ہے     ؎
خیری کُن ای فلان و غنیمت شمار عمر
زان پیشتر کہ بانگ برآید ’’فلان نماند‘‘
ابھی وقت ہے۔ اس سے پہلے کہ اعلان سنائی دے ’’فلاں چل بسا‘‘۔

Friday, August 26, 2016

وینٹی لیٹر


وہ زندہ تھا۔ مگر لاش تھا!
سانس چل رہی تھی۔ سیال غذا ٹیوب کے ذریعے معدے تک پہنچ رہی تھی۔ بیڈ کے ساتھ پلاسٹک کا بیگ لٹک رہا تھا اس میں بھی ٹیوب لگی تھی۔ ٹیوب کا دوسرا سرا مثانے تک جا رہا تھا۔ پیشاب اس بیگ میں جمع ہوتا رہتا ۔ نرسیں آتیں اور بیگ بدل جاتیں۔
لواحقین دیکھ بھال میں کمی کوئی نہیں رہنے دے رہے تھے۔ حجام دوسرے تیسرے دن آتا زندہ لاش کا شیو کرتا۔ کمرے کو صاف ستھرا رکھا جاتا۔ بڑا ڈاکٹر ہر روز آتا ساتھ تین چار جونیئر ڈاکٹر ہوتے اور پیرا میڈیکل سٹاف بھی! … جلوس کی شکل کا یہ ’’رائونڈ‘‘ دس گیارہ بجے کے لگ بھگ ہوتا۔ اس سے پہلے لواحقین کو باہر نکال دیا جاتا۔ زندہ لاش کے تیمار دار‘ مگر موجود رہتے۔ سپیشل کیس کے طور پر‘ سٹاف انہیں باہر جانے کے لیے نہ کہتا۔
بڑا ڈاکٹر آنکھوں کے پپوٹوں کو اٹھا کر دیکھتا۔ پھر نبض پر ہاتھ رکھتا۔ دستانے میں چھپا ہاتھ مریض کے ہونٹوں اور ناک پر رکھتا۔ کبھی کبھی پنڈلیوں کی رگوں پر انگلیاں رکھ کر دیکھتا۔ پھر سینئر نرس کے ہاتھوں سے فائل لیتا۔ کاغذات الٹتا پلٹتا۔ بلڈ پریشر اور دل کی رفتار کا چارٹ ملاحظہ کرتا۔ پھر لواحقین کو دیکھ کر ذرا سا مسکراتا اور جلوس کے جلو میں‘ متانت کے ساتھ قدم رکھتا‘ اگلے مریض کی طرف چل پڑتا۔
یہ روٹین کئی سالوں سے چل رہا تھا۔ کوئی اسے غشی کا نام دیتا‘ کوئی بے ہوشی کا! کوئی کہتا مریض کومے میں ہے۔ کوئی دعا کرتا کہ خدا آسانی پیدا کرے۔
تلخ حقیقت یہ تھی کہ لواحقین اس طویل آزمائش سے اکتا چکے تھے۔ آزمائش تھی اور بہت کٹھن ! جانکاہ آزمائش ! مریض وینٹی لیٹر پر زندہ تھا مگر سب سوچتے تھے کہ یہ زندگی‘ اگر زندگی تھی تو ‘ کب تک رہے گی؟ ڈاکٹروں کی رائے میں مریض طبی نکتۂ نظر سے 
(Clinically)
مردہ ہو چکا تھا۔ دُہری مشکل یہ تھی کہ لواحقین وینٹی لیٹر ہٹانے کا نہیں کہہ سکتے تھے تاہم وہ اس امید میں تھے کہ ڈاکٹر خود وینٹی لیٹر ہٹا کر‘ ان کی مشکل آسان کریں گے ایسی صورت میں انہیں دُکھ تو ہو گا۔ موت آخر موت ہے‘ مگر یہ نجات‘ یہ ریلیف ‘ اُن کی زندگیوں کو‘ جو تیمار داری کی طویل اذیت سے کربِ مسلسل میں بدل چکی تھیں‘ دوبارہ معمول پر لا سکے گا!
خدائے بزرگ و برتر الطاف حسین کو صحت عطا کرے۔ عمر خضر دے! الطاف حسین کی سیاست‘ الطاف حسین کی پارٹی کمانڈ‘ الطاف حسین کا ’’قائد‘‘ ہونا سب کچھ طویل عرصہ سے کومے میں ہے اس پر غشی طاری ہے۔ ایم کیو ایم میں شامل متین حضرات نے اس وینٹی لیٹر کو اسی دن دیکھ لیا تھا جس دن الطاف حسین تقریر کے دوران مسخروں کی طرح گانے گاتا تھا اور کلائون بن کر الٹی سیدھی حرکتیں کرتا تھا!
اس کے لواحقین‘ یہ فاروق ستار‘ یہ رابطہ کمیٹی‘ یہ ایگزیکٹو کونسل‘ سب اس انتظار میں ہیں کہ کوئی وینٹی لیٹر ہٹائے اور ان کی تکلیف دہ زندگیوں میں سکون ایک بار پھر داخل ہو سکے۔ یہ وینٹی لیٹر کون ہٹاتا ہے؟ ابھی تک کسی کو نہیں معلوم! برطانوی حکومت یا کوئی اور!مگر سچ یہ ہے کہ لواحقین اپنے منہ سے کچھ نہیں کہہ رہے۔ ہاں پریشان ہیں۔ وہ نجات چاہتے ہیں سیاست کی اس زندہ لاش سے‘ سر پہ لٹکتی ہوئی اس تلوار سے باہر نکلنے کا ایک باعزت راستہ۔
بخدا ایم کیو ایم کی غالب اکثریت ‘ننانوے فیصد ارکان پاکستان کے بارے میں اپنے ’’قائد‘‘ کے خرافات سن سن کر تنگ آ چکے ہیں۔ نکّو نک ہو چکے ہیں! مگر پیش منظر ایسا ہے کہ وہ کچھ کر نہیں سکتے!
پیش منظر کیا ہے؟ یہ پیش منظر جبر سے اٹا پڑا ہے! ہم ان صفحات پر لکھ چکے ہیں کہ ایم کیو ایم‘ کسی ضیاء کی پیداوار نہیں تھی! جنرل ضیاء الحق کے بجائے کسی اور کا عہد ہوتا تب بھی اردو بولنے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر‘ ایک فورم پراکٹھا ہونا پڑتا۔ ماتم اس بات کا کرنا چاہیے کہ لسانی اور نسلی بنیادوں پر جماعتیں پہلے دوسروں نے بنائیں‘ اردو بولنے والے تو اپنے آپ کو پاکستانی ہی کہتے رہے۔ پہلے سندھ‘ بلوچستان اور کے پی میں زبان کی بنیاد پر سیاسی طائفے بنے۔ ولی خان اور اسفندیار پارٹی جماعت خالص لسانی بنیادوں پر قائم ہے! اس حقیقت کو ایک بار پھر دہرا دینا چاہیے کہ کراچی یونیورسٹی میں لسانی‘ نسلی اور علاقائی بیساکھیوں پر دس سے زائد(غالباً پندرہ کے قریب) طلبہ تنظیمیں قائم ہو چکی تھیں‘ ان میں سے اردو بولنے والے طلبہ کو کوئی بھی قبول نہیں کرتا تھا۔ یہ سب
 Sons of Soil
تھے۔ اس پس منظر میں آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس یونین بنی! کراچی کو سندھی وڈیروں نے جاگیر بنا رکھا تھا۔ خوفناک مونچھوں والے یہ جاگیردار‘ پجارو کے جلوس میں کراچی کی شاہراہوں پر دادِ جہالت دیتے‘ درجنوں کلاشنکوف بردار گارڈز کی مونچھیں‘ مالکوں کی مونچھوں سے بھی زیادہ غیر انسانی ہوتیں! اردو بولنے والے متین‘ سوبر‘ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی یہ وڈیرے تضحیک کرتے اور جہاں موقع ملتا‘ ان کے چیمپنزی نما گارڈز زدو کوب بھی کر جاتے۔
بگتی ‘مینگل‘ جتوئی‘ مخدوم ‘ دارالحکومت میں آتے تھے تو سو سو اسلحہ برداروں کے جلوس ہوتے‘ پھر کیا بُرا کیا الطاف حسین نے اگر اس نے دیوار کی طرف دھکیلے جانے والے گروہ سے کہا کہ وی سی آر اور ٹیلی ویژن بیچو اور بندوق خریدو! ہاں یہ سچ ہے کہ سیکٹر کمانڈر اپنے نوجوانوں کو نوکری دلوانے کے لیے کمپنیوں اور محکموں کے سربراہوں کو دھمکی آمیز خط لکھتے تھے مگر یہ ردِّ عمل تھا اُن چٹوں کا جو انٹرویو کے دوران سندھی افسروں اور سندھی سیاست دانوں کی جیبوں سے درجنوں کی تعداد میں برآمد ہوتی تھیں!
آج بھی الطاف حسین کے لواحقین اسی جبر کا‘ اسی صورتِ حال کا سامنا کر رہے ہیں۔ لالو کھیت میں رہنے والا اردو سپیکنگ نوجوان‘ پیپلز پارٹی یا نون لیگ میں نہیں جا سکتا۔ وہ لاڑکانے کا ہے نہ خیر پور کا۔ لاہور کا ہے نہ سیالکوٹ کا جاٹ ہے نہ کشمیری! اسے ایم کیو ایم کے علاوہ کون قبول کرے گا؟ یوں بھی کراچی کے لوگ اتنے خوش بخت نہیں جتنے وسطی پنجاب کے۔
ساری دنیا کا دستور ہے کہ 
BOT
(بِلڈ آپریٹ اور ٹرانسفر) کی بنیاد پر تعمیر ہونے والے منصوبوں میں سرمایہ کاری صرف اور صرف ٹھیکیدار کرتا ہے مگر منصوبہ اگر وسطی پنجاب میں ہو تو یہ اصول منسوخ ہو جاتا ہے۔53فیصد مالی بوجھ حکومت برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ حکومت یہ بوجھ کیسے اٹھاتی ہے؟ اُس خزانے سے جسے بھرنے والوں میں کراچی کوئٹہ پشاور اور راولپنڈی کے (سوتیلے) عوام بھی شامل ہیں!
وینٹی لیٹر ہٹنے کی دیر ہے! سارا منظر بدل جائے گا! سب کچھ تبدیل ہو جائے گا۔ خوف سے لرزہ براندام محتاط زبانیں کُھل کر بات کرنے لگیں گی! یہ وضعداریاں‘ یہ وفاداریوں کا اظہار‘ یہ’’قائد‘‘ قائد‘ کی تکرار‘ یہ سب چند دن کا کھیل ہے! ایم کیو ایم میں خرو شچیف بن کر کون آئے گا؟ یہ تو نہیں معلوم! مگر یہ سب کو معلوم ہے کہ سٹالن نے جانا ہی جانا ہے    ؎
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی

Wednesday, August 24, 2016

مفرور قاتل

پولیس جانتی تھی کہ قاتل کہاں ہے مگر اس کے ہاتھ بندھے تھے!
وہ علاقے کے سب سے بڑے جاگیردار کی حویلی میں تھا۔ پولیس کیا کرتی! پولیس کے افسر کی، جو ضلع بھر کا سربراہ تھا، تعیناتی ہی جاگیردار نے کرائی تھی۔ ایس پی تھا یا اُس سے بھی اُوپر، ایک ٹیلی فون کال کی مار تھا۔
جاگیرداروں، وڈیروں اور زمینداروں کی حویلیوں میں قاتلوں کا چھُپ جانا اور پناہ لینا برصغیر کے معاشرے میں عام ہے۔ یہ ’’روایت‘‘ کم ہوئی ہے مگر ختم نہیں ہوئی۔ کتنے ہی ڈیروں میں آج بھی مجرم چھپے ہوئے ہوں گے اور وڈیرے، سندھ کے ہوں یا جنوبی پنجاب کے، یا بلوچستان کے سردار، ان کی حفاظت کر رہے ہوں گے۔ اس لیے کہ ان کے مفادات اِن مفروروں سے وابستہ ہیں۔
عالمی سطح پر اس غلیظ روایت کا آغاز برطانیہ نے کیا ہے۔ الطاف حسین برطانیہ کے ڈیرے میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ برطانیہ اُس جاگیردار کا رول ادا کر رہا ہے جس سے ہر امن پسند شہری نفرت کرتا ہے۔ شدید نفرت! ڈاکؤوں کی وہ قوم کلائیو جیسے بد معاش جس کے بزرگ ہوں، شرافت کا مظاہرہ کر بھی نہیں سکتی۔ کون سی دغابازی، عہد شکنی اور کون سی گھٹیا، نیچ حرکت ہے جو موجودہ برطانیہ کے آباواجداد نے برصغیر میں نہیں کی! نپولین نے انگریزوں کے بارے میں کہا تھا کہ یہ دکانداروں کی قوم ہے۔ غلط کہا، نپولین نے۔ اس نے دنیا بھر کے دکانداروں کی توہین کی۔ یہ دکانداروں کی نہیں، جھوٹوں، مکاروں اور پست ذہنیت اٹھائی گیروں کی قوم ہے!
اس بدمعاش وڈیرے کا کون سا مفاد اس مفرور شخص سے وابستہ ہے؟ اس نے اسے اپنے ڈیرے میں کیوں چھپایا ہوا ہے؟ اس لیے کہ الطاف حسین اور اس کے حواری ہر وہ جرم کرنے کے لیے تیار ہیں جس کا وڈیرہ حکم دے، یا جو وڈیرے کے مفاد میں ہو! معروف برطانوی اخبار گارڈین نے 29 جولائی 2013ء کی اشاعت میں اس کی شہادت دی۔ 
’’کراچی دنیا کے اُن چند مقامات میں سے ایک ہے جہاں امریکہ نے برطانیہ کو فری ہینڈ دے رکھا ہے۔ کراچی میں واقع امریکی کونسل خانہ شہر سے خفیہ اطلاعات 
(intelligence) 
حاصل کرنے کا کام نہیں کرتا! یہ کام برطانیہ کرتا ہے بین الاقوامی سیکورٹی کی سیاست بازی میں ایم کیو ایم کی برطانیہ کے لیے وہی اہمیت ہے جو پہاڑ پر چڑھتے وقت اُس جگہ کی ہوتی ہے جو پاؤں رکھنے کے لیے کوہ پیما کو ملتی ہے‘‘۔
الطاف حسین برطانوی آقا کو خوش رکھنے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ نائن الیون کے صرف دو ہفتے بعد الطاف حسین کی طرف سے برطانوی حکومت کو ایک خط موصول ہؤا۔ اس میں یہ پیش کش کی گئی کہ اگر برطانیہ چاہے تو وہ صرف پانچ دن کے اندر اندر کراچی کے گلی کوچوں میں لاکھوں افراد کو لا سکتا ہے جو دہشت گردی کی مذمت کریں گے۔ الطاف حسین نے اسی خط میں یہ پیش کش بھی کی کہ وہ طالبان کی جاسوسی کرانے کے لیے تیار ہے اور افغانستان کے اندر ایسے ورکر بھیج سکتا ہے جو جعلی شناخت رکھیں گے مگر در حقیقت مغربی ملکوں کی جاسوس تنظیموں کی مدد کریں گے۔ 
حسبِ معمول اس خط کے وجود سے ایم کیو ایم نے انکار کیا۔ وہ تو برطانیہ کے ’’فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ‘‘ کی مدد سے خط کے وجود کی تصدیق ہو گئی اور برطانوی وزارت خارجہ کو آخر کار تسلیم کرنا پڑا کہ اسے خط موصول ہوا ہے۔ کرائے کے اس قاتل کے سر پر، جسے مالی پشت پناہی ’’را‘‘ کی حاصل ہے، برطانیہ نے ہر موقع پر اپنا دست شفقت رکھا۔ مختلف پاکستانی حکومتوں نے برطانیہ سے الطاف حسین کی واپسی کا تقاضا کیا مگر برطانیہ اسے ڈیرے سے نکالنے پر تیار نہیں۔ 2002ء میں اس کو برطانوی پاسپورٹ دیا گیا۔ برطانوی میڈیا کے مطابق برطانوی حکام تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ایک غلط فیصلہ تھا۔ قانونی طور پر، اس میں سقم تھا۔ کبھی وہ اسے’’کلرک کی غلطی‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ بار بار پوچھے جانے کے باوجود برطانوی وزارت داخلہ یہ بتانے کے لیے تیار نہیں کہ وہ غلطی، وہ سقم، کیا تھا؟ برطانوی وزارت خارجہ کو پاکستان میں اثرو رسوخ درکار ہے۔ جب اُس کے ڈیرے میں پناہ لینے والے مجرم کی جیب میں پاکستان کے وفاقی اور صوبائی وزرا ہوں گے اور پاکستانی پارلیمنٹ میں اس مجرم کا ایک پورا گروہ ہو گا، تو اس سے بڑھ کر برطانیہ کے لیے اثر و سوخ کیا ہو سکتا ہے!!
برطانیہ منی لانڈرنگ کا مقدمہ لٹکائے جا رہا ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ برطانوی پولیس جو مریخ سے بھی مجرم پکڑ لاتی ہے اور زمین کے نیچے بھی کسی کو نہیں چھوڑتی، ابھی تک عمران فاروق کے قتل کا معاملہ پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچا سکی؟؟ یہ دو اور دو چار کی طرح واضح ہے۔ برطانیہ، بھارت کے ساتھ مل کر، الطاف حسین کی سرپرستی کر رہا ہے۔ وہ اسے ڈیرے سے نہیں نکال رہا۔ الطاف حسین کی لگام برطانیہ کے ہاتھ میں ہے۔ورنہ معروف صحافی اوون بینیٹ جونز کی وہ رپورٹ نشر کرنے سے بی بی سی انکار کیوں کرتا جس میں اوون بینیٹ جونز نے الطاف حسین کے جرائم پر روشنی ڈالی تھی؟
الطاف حسین نے پرسوں پاکستان کے بارے میں جو الفاظ استعمال کیے ہیں، انہیں نقل کرنے کی ہمت نہیں! پاکستان کے ساتھ ’’زندہ باد‘‘ کے سوا کوئی اور لفظ اس کرۂ ارض پر، اِس آسمان کے نیچے لگایا ہی نہیں جا سکتا۔ اس مفرور نے زندہ باد کے بجائے جو غلیظ لفظ مادرِ وطن کے لیے اپنی تھوتھنی سے نکالا ہے، اس پر اسے کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا! کوئی ایک پاکستانی بھی مادرِ وطن کو دی جانے والی گالی نہیں برداشت کر سکتا، ابھی اس ملک کے پٹھانوں، پنجابیوں، بلوچوں، کشمیریوں، سندھیوں میں اتنی غیرت موجود ہے کہ وہ گالی دینے والے کا منہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیں، اور اسے کیفر کردار تک پہنچائیں۔ اُردو بولنے والے پاکستانی حب الوطنی میں کسی سے کم نہیں! ان کی عظیم اکثریت اس سے متنفر ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان کے بارے میں اُس مکروہ لفظ کو کس طرح برداشت کر سکتے ہیں جو اس غدارِ وطن نے اپنے ناپاک دہانے سے نکالا ہے!
ارم فاروقی نے ایم کیو ایم کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر لاکھوں اُردو بولنے والوں کی نمایندگی کی ہے! ارم نے برملا کہا ہے کہ اس نے استعفیٰ الطاف حسین کی تقریر کے خلاف دیا ہے۔ رہے وہ گنے چنے افراد، جو ٹویٹر پر پاکستان زندہ باد کے الفاظ لکھ کر ٹوٹل پورا کر رہے ہیں تو ان کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ ان کی پاکستان سے دلچسپی ہی نہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ ویٹر سے ارب پتی بننے والوں کا مائنڈسیٹ کیا ہو گا اور کیسا ہو گا۔ ہیوسٹن سے لے کر لاس اینجلزتک بکھری ہوئی گراں بہا جائدادوں نے مڈل کلاس کے اِن سپوتوں کے ’’روشن‘‘ چہرے دنیا پر خوب عیاں کر رکھے ہیں۔ ان کی نیتیں کھری ہوتیں اور ان کے دلوں میں کھوٹ نہ ہوتا تو ٹویٹر پر ایک چالاک پیغام دینے کے بجائے ارم فاروقی کا راستہ اپناتے۔ مادرِ وطن کو گالی دینے والے سے تعلق توڑنے کا اعلان کرتے اور نام لے کر اس کی مذمت کرتے!
برطانوی میڈیا کی رُو سے جب جنرل پرویز مشرف نے این آر او کا ڈول ڈالا تھا تو الطاف حسین اس سے فائدہ اُٹھانے والوں میں سرِ فہرست تھا۔ این آر او نے اس پر چلنے والے 72 مقدمے ختم کیے تھے۔ ان میں 31 مقدمے قتل کے تھے۔ ایم کیو ایم نے آج تک برطانوی اخبارات سے اس اطلاع کی اشاعت پر احتجاج کیا نہ عدالت میں گئی۔

Monday, August 22, 2016

محسن کُش

یہ جمعرات کی شام تھی۔ سرحدی افغان قصبے سپن بولدک کے گلی کوچوں میں جلوس نکالا جا رہا تھا۔ افغان ’’آزادی‘‘ کی 97ویں سالگرہ تھی! دلچسپ بات یہ تھی کہ ’’آزادی‘‘ کے اس جلوس میں بینر اور پلے کارڈ جن لوگوں نے اٹھا رکھے تھے، ان پر پاکستان کے خلاف نعرے لکھے ہوئے تھے۔
پاکستان کے خلاف نعرے لگاتے لگاتے ان افغانوں نے ’’بابِ دوستی‘‘ پر چڑھائی کر دی۔ نعرے زیادہ بلند ہو گئے۔ پاکستانی سائڈ پر مودی کے خلاف احتجاج ہو رہا تھا۔ اچانک افغانوں نے ایک پاکستانی سے پاکستانی جھنڈا چھین لیا اور اسے نذرِ آتش کر دیا۔ پاکستانی حکام نے سرحد بند کر دی۔ دس سے پندرہ ہزار افراد روزانہ یہ سرحد دونوں طرف سے عبور کرتے ہیں۔ گاڑیوں کی ایک طویل قطار ہے جو سرحد کھلنے کا انتظار کر رہی ہے۔
پاکستانی جھنڈے کو جلا کر، دل میں بھڑکتی ہوئی پاکستان دشمنی کی آگ کو ٹھنڈا کیا گیا۔ نعرے کیوں لگے اور پاکستانی پرچم کی یہ دلخراش اور ناقابلِ برداشت توہین کیوں کی گئی؟ اس کی وجہ جاننے کے لیے امیر المومنین سیدنا علی المرتضیؓ کی چوکھٹ پر جانا پڑے گا۔ فرمایا: جس پر احسان کرو، اس کے شر سے بچو۔ پاکستانی قوم افغانوں پر 38سال سے احسان کر رہی ہے۔ کیا پاکستانی حکومتیں اور کیا پاکستانی عوام۔ سب نے احسان کیا۔ لاکھوں مہاجرین کو پناہ دی، پھر یہ پاکستان ہی تھا جس کی وجہ سے مختلف افغان گروہوں کو اسلحہ ملا اور ڈالر، جس کی وجہ سے وہ اس قابل ہوئے کہ روسیوں سے جنگ کر سکیں اور انہیں اپنے ملک سے نکال سکیں۔ روسی چلے گئے۔ پھر افغانوں نے آپس میں لڑنا شروع کر دیا۔ یہ خانہ جنگی اب تک جاری ہے۔ 38سال پہلے جو افغان پناہ گزین بن کر پاکستان آئے تھے، اب وہ یہاں مالک بن بیٹھے ہیں۔ واپس جانے کا نام نہیں لے رہے۔ خیمے میں گھسنے والے اونٹ کی کہانی، اِس کہانی کے سامنے کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔ ایک گھر میں مہمان آیا۔ ہفتے گزر گئے واپس جانے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ ایک دن مظلوم میاں بیوی نے، جو بدقسمتی سے میزبان تھے، تجویز سوچی۔ مہمان سے کہا کہ آئو چھلانگ چھلانگ کھیلتے ہیں۔ پہلے میاں نے گھر کی ڈیوڑھی میں کھڑے ہو کر باہر کی طرف لمبی چھلانگ لگائی اور گھر کے باہر جا گرا۔ پھر بیوی نے بھی ایسا ہی کیا۔ اب مہمان کی باری تھی۔ وہ باہر گیا اور باہر سے اندر کی طرف اتنی لمبی چھلانگ لگائی کہ گھر کے وسط میں آن گرا۔ اب پاکستانی قوم افغانوں کو واپس بھیجنے کے لیے باہر کی سمت چھلانگیں لگا رہی ہے مگر کوئی منصوبہ کارگر نہیں ہوتا۔ ڈالر لے کر کئی خاندان واپس جاتے ہیں اور دوبارہ آ جاتے ہیں۔ پاکستان کا ہر شہر، ہر قصبہ، ہر بازار، ہر ملازمت، ہر کاروبار، ان کی جولان گاہ بنا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ مقامی لوگوں کو دن دہاڑے قتل کر دیا جاتا ہے۔ وفاقی وزیر جنرل عبدالقادر بلوچ کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ دس لاکھ ملازمتوں پر افغانوں کا قبضہ ہے۔ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ عبدالمالک نے ایک ہفتہ پہلے کہا ہے کہ کوئٹہ شہر میں پاکستانی اب اقلیت میں ہیں اور افغان اکثریت میں ہیں۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ روس کے خلاف افغان جنگ میں صدر ضیاء الحق کا کود پڑنا ملکی بقا کے لیے ضروری تھا تب بھی صدر ضیاء الحق کا یہ جرم معاف نہیں کیا جا سکتا کہ سرحدی لکیریں مٹا کر، ملک کو افغانوں کی چراگاہ بنا دیا۔ آج ہی محمود اچکزئی نے کرنل امام کا حوالہ دیا ہے۔ کرنل امام نے، اچکزئی صاحب کے بقول، کہا تھا کہ ’’ہم‘‘ نے 95ہزار لوگوں کو جنگ کی تربیت دی اور شناختی کارڈ فراہم کیے کوئی اور ملک ہوتا تو جنرل ضیاء الحق اور اس کے ان سارے ساتھیوں کے خلاف مقدمہ چلایا جاتا جنہوں نے پاکستانی شناختی کارڈ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں افغانوں کو دیے!
کن افغانوں کو؟ وفا جن کی سرشت میں نہیں۔ احسان فراموشی جن کی گھٹی میں پڑی ہے۔ محسن کُشی جن کے خون میں رچی ہے۔ جو ملک اِن افغانوں کو ستر سال سے ادویات، آٹا، گوشت، گھی سے لے کر سیمنٹ تک، حتیٰ کہ بچوں کی کاپیاں تک فراہم کر رہا ہے، اُس ملک کے جھنڈے کو یہ احسان فراموش آگ لگا رہے ہیں۔ ع
تفو بر تو اے چرخ گردوں تفو!
اس سے بھی زیادہ المناک حقیقت یہ ہے کہ ملک میں ایک طبقہ اِن پاکستان دشمن افغانوں کے ساتھ ہے۔ اس طبقہ نے افغان مہاجرین کی چیرہ دستیوں کی کبھی مذمت کی نہ برا منایا مگر جب ان کی افغانستان واپسی کی بات ہوتی ہے تو اُٹھ کر واویلا مچانے لگتا ہے کہ نہیں نہیں، یہ ظلم نہ کرو! افغان مہاجرین کو واپس نہ بھیجو۔ دو طاقت ور مذہبی رہنما افغانوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو نفسیاتی ہے۔ چونکہ یہ حضرات پاکستان کے قیام کے مخالف تھے، اس لیے وہ پاکستانی سالمیت اور پاکستانی سرحدوں کے تقدس کے بارے میں سرد مہر ہیں۔ ستر سال جن حضرات نے قائدِ اعظم بانیٔ پاکستان کا نام تک لینا گوارا نہ کیا ہو، وہ غیر ملکیوں کی مداخلت کا کیا برا منائیں گے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ ایک لحاظ سے ان کے حلقہ ہائے اثر ہیں۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ یہ حضرات افغانوں کو شناختی کارڈ دلوانے میں سرگرم رہے ہیں۔ یہ سچ ہے یا محض الزام! اس کی حقیقت شاید کبھی بھی نہ معلوم ہو۔
ان میں سے ایک مذہبی رہنما نے کہا ہے کہ افغانستان کی صورت حال میں بہتری تک مہاجرین کو پاکستان میں رہنے کا حق دیا جائے۔ ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ افغانستان کی صورتِ حال سینکڑوں سال تک ابتر رہے گی اس لیے کہ گزشتہ سینکڑوں سال سے ابتر چلی آ رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ ’’مہمان‘‘ ہمیشہ کے لیے یہیں رہیں۔
اس سے بھی زیادہ ’’دلچسپ‘‘ بات یہ ہوئی کہ افغان جہادیوں کا ایک وفد، ایک مذہبی رہنما کو ملا اور ’’فریاد‘‘ کی کہ مہاجرین کو ’’پریشان‘‘ کیا جا رہا ہے! اس پر مذہبی رہنما نے ’’انکشاف‘‘ کیا کہ یہ تو بین الاقوامی سازش ہے جس کی رو سے مہاجرین کو نکالنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ بھی فرمایا کہ دفاع پاکستان کونسل کی ساری جماعتیں ان مہاجرین کے ساتھ ہیں۔ یہ بیان کسی تبصرے کا محتاج نہیں۔ مگر کھونٹے ان حضرات کے مضبوط ہیں۔ ایک کی پشت پناہی حکومت وقت کر رہی ہے اور دوسرے کو دامے درمے سخنے، امداد، خانِ اعظم، عمران خان دے رہے ہیں بلکہ دامے درمے میں کروڑوں روپے شامل ہیں۔ خیبرپختون خوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے برملا کہا ہے کہ افغان مہاجرین کی عزت اسی میں ہے کہ اب وہ عزت سے واپس چلے جائیں۔ اس پر یقینا خان صاحب نے اپنے وزیر اعلیٰ سے باز پرس کی ہو گی۔ کیونکہ اگر دونوں میں سے ایک کو چھوڑنا پڑا تو عمران خان پرویز خٹک کو چھوڑ سکتے ہیں، دامنِ یار نہیں چھوڑ سکتے۔ اگر تحریکِ انصاف کو ایک مذہبی جماعت میں ضم نہ بھی کیا تو کم از کم کسی دن دفاع پاکستان کونسل کے سٹیج پر ضرور تشریف فرما ہوں گے۔
اس کالم کے آغاز میں آپ نے افغان سرحدی قصبے سپن بولدک کا ذکر پڑھا۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ سپن بولدک اور اس کے اردگرد کے علاقے میں اچکزئی قبیلے کی کثرت ہے؟ اب یہ یاد کیجیے کہ ڈاکٹر عبدالمالک پہلے غیر سردار، اور قوم پرست بلوچ رہنما تھے جو وزیر اعلیٰ بلوچستان بنے، گزشتہ ہفتے ڈاکٹر عبدالمالک نے ڈنکے کی چوٹ کہا کہ کوئٹہ میں افغان اکثریت میں اور پاکستانی اقلیت میں ہیں۔ اب دو اور دو جمع کر کے خود ہی جان لیجیے کہ پہلے غیر سردار وزیر اعلیٰ کو محض دو سال بعد چیف منسٹری سے کیوں ہٹا دیا گیا؟ انہیں ہٹانے میں کن کا مفاد تھا؟ اوریہ حضرات کس قدر طاقت ور تھے؟ ان سوالوں کے جواب ہر اُس پاکستانی کو معلوم ہیں جو بلوچستان میں آبادی کے اتار چڑھائو کا مطالعہ کر رہا ہے۔ افغان مہاجرین کو پاکستان ہی میں رکھنے کی جدوجہد، صرف انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نہیں کی جا رہی، اس میں ایک بڑا محرک ایک خاص طبقے کی آبادی میں اضافہ کرنا بھی ہے۔!!

Saturday, August 20, 2016

مانو نہ مانو جانِ جہاں! اختیار ہے

یہ 1944ء کی بات ہے۔ سوویت یونین کے سائنس دانوں نے ایک خاص قسم کے بخار کا وائرس دریافت کیا۔ یہ دریافت کریمیا میں ہوئی۔ یوں بخار کا نام ’’کریمیا بخار‘‘ پڑ گیا۔ لیکن سوویت ڈاکٹروں اور سائنس دانوں کی تحقیق کسی منطقی نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔
کانگو، ایک افریقی ملک، اُس وقت بلجیم کی کالونی تھا۔ 1956ء میں کریمیا والا جرثومہ کانگو میں بھی پایا گیا۔ مزید تحقیق کے لیے اسے نیویارک کی لیبارٹری میں بھیجا گیا۔ پھر 1967ء میں ایک روسی سائنسدان میکائیل چماکوف کو سمرقند میں ایک مہلک وائرس ملا۔ اس نے بھی مزید تحقیق کے لیے اسے نیویارک لیبارٹری میں بھیجا۔ وہاں سے بتایا گیا کہ یہ وہی وائرس ہے جو کانگو میں پایا گیا تھا۔ بہر طور اس وائرس کا نام ’’کریمیا کانگو وائرس‘‘ پڑ گیا۔ یہاں سوویت یونین اور مغربی ملکوں کے سائنسدانوں کے درمیان کھٹ پٹ بھی ہوئی۔ مغربی ملکوں کے ڈاکٹر اس کا نام ’’کانگو کریمیا وائرس‘‘ رکھنا چاہتے تھے۔ روسی مُصر تھے کہ نام ’’کریمیا کانگو وائرس‘‘ پڑے۔ روسی جیت گئے۔ باضابطہ نام ’’کریمیا کانگو وائرس‘‘ ہی رکھا گیا۔ اس وائرس کی موجودگی یونان، پرتگال، جنوبی افریقہ‘ میڈاغاسکر، مراکش، دبئی‘ سعودی عرب، کویت اور عراق میں بھی ثابت ہوئی۔ کسووو میں بھی یہ بیماری پائی گئی۔ ستمبر 2010ء میں پاکستان کے صوبے خیبرپختونخواہمیں بھی یہ وبا پھوٹ پڑی۔ یہاں ریکارڈ رکھنے کا معاملہ کمزور تھا۔ متاثرین کی صحیح تعداد معلوم ہی نہ ہو سکی۔ ایک سال بعد بھارتی صوبے گجرات میں اس سے چار اموات ہوئیں۔ علاج کرنے والا ڈاکٹر اور نرس بھی موت کے گھاٹ اُتر گئے۔
’’کریمیا کانگو وائرس‘‘ کیا ہے؟ اس کا ذریعہ یعنی منبع جانوروں سے چمٹے ہوئے کیڑے ہیں‘ جنہیں چچڑ یا چچڑی بھی کہا جاتا ہے۔ اولین شکار اس بیماری کا قصاب ہوتے ہیں یا وہ افراد جو چراگاہوں، باڑوں، منڈیوں اور ذبح خانوں میں گائے بیلوں ‘بھیڑ بکریوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ متاثرہ فرد پہلے چڑچڑے پن اور بد حواسی کا شکار ہوتا ہے۔ پھر ناک سے خون بہنے لگتا ہے، قے شروع ہو جاتی ہے‘ پاخانے کا رنگ سیاہ ہو جاتا ہے، جگر سُوج جاتا ہے اور درد ہونے لگتا ہے۔  تیز بخار دبوچ لیتا ہے‘ پھر پھیپھڑے، جگر، گردے، غرض اعضائے رئیسہ بے بس ہو کر کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ رپورٹوں کے مطابق تیس فیصد اور کچھ کی رُو سے اس سے بہت زیادہ تعداد، جانبر نہیں ہو پاتی۔ 
جن لوگوں کا روزگار مویشیوں سے وابستہ ہے، وہ مجبور ہیں۔ جانور پالنے والے، بیچنے والے، ذبح کرنے والے، فضلہ اُٹھانے والے، کھالوں کا کاروبار کرنے والے، یہ سب اس خطرے سے دوچار ہیں۔ ڈاکٹر حضرات شور مچا رہے ہیں کہ یہ لوگ بھرپور احتیاطی تدابیر کریں۔ مریض سے ہاتھ نہ ملائیں۔ جانوروں کی نقل و حرکت کرتے کراتے وقت دستانے پہنیں۔ ہاتھ اچھی طرح دھوئیں۔
کانگو وائرس کے پھیلنے کا سب سے زیادہ خدشہ آنے والی عیدالاضحیٰ پر قربانیوں کا موسم ہے جب پورا ملک، ملک کے تمام شہر‘ قصبے اور قریے، اور ہر سڑک‘ ہر گلی منڈی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ دیہات سے آنے والے بیوپاری حشرات الارض کی طرح پورے ملک میں پھیل جاتے ہیں۔ لوگ قربانی کے جانور خریدتے وقت اِن ’’مصنوعی‘‘ منڈیوں میں یوں چلتے پھرتے ہیں جیسے پارک میں سیر کر رہے ہوں۔ خطرناک ترین پہلو اس معاملے کا یہ ہے کہ بچے ساتھ ہوتے ہیں۔ ایک جانور خریدنے سے پہلے، بیس جانوروں کو ہاتھ لگا کر ٹٹولا اور جانچا جاتا ہے۔ کانگو وائرس سے بھرے ہوئے کیڑے، چچڑ، پسو، ان خریداروں اور ان کے بچوں تک آزادانہ رسائی کا مزا اُڑاتے ہیں۔ پھر خریدار اور اس کے بچے جانور لے کر گھر آتے ہیں۔ ایک ہفتہ یا تین چار دن، یہ جانور گھر کا فرد بنتے ہیں۔ بچے انہیں باہر لے جا کر درختوں کے پتے کھلاتے ہیں۔ ان کی جلد کو رنگین کرتے ہیں۔ انہیں پانی پلاتے ہیں اور ان سے لپٹ بھی جاتے ہیں۔
پھر عید کا دن آتا ہے اور پورا ملک مذبح میں بدل جاتا ہے۔ ہر گھر میں، ہر صحن میں، ہر گلی میں، ہر کوچے میں، ہر گھر کے ساتھ واقع ہر میدان میں جانور ذبح ہوتے ہیں۔ ہر جگہ خون گرتا ہے۔ ہفتوں تک فضلہ، خون، اوجھڑیاں، چھچھڑے اور دیگر اعضا پڑے رہتے ہیں۔ کانگو وائرس کی بھی عید ہو جاتی ہے۔ وائرس زدہ پسو، چچڑ، کیڑے آزادی سے چلتے پھرتے ہیں۔ یہاں تک کہ آدم زاد ان کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پھر بیماری ایک انسان سے دوسرے کو، دوسرے سے تیسرے کو اور تیسرے سے چوتھے کو لگتی ہے۔ ڈاکٹر اور نرسیں بھی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ رہی حکومت یا متعلقہ ادارے، تو وہ عام حالات میں بھی نا اہل ہیں۔ خاص حالات میں ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ اپنے فرائض تندہی سے سر انجام دیں گے، حماقت ہے! 
مشکل ترین مسئلہ اس ضمن میں وہ مائنڈسیٹ، وہ ذہنیت ہے، جو کسی بھی قسم کی احتیاط کو مذہبی ایشو بنا لیتی ہے۔ احتیاط کے لیے کہیں تو یہ جواب اکثر و بیشتر ملے گا: ’’اچھا، تو آپ بھی قربانی کے مخالف ہیں‘‘۔ یعنی ماروں گھٹنا، پھوٹے آنکھ، اس کا براہ راست تجربہ کچھ دن پہلے ایک ٹیلی ویژن پروگرام پر ہوا۔ ایک صاحب نے تجویز پیش کی کہ منڈیوں میں جا کر جانور، ٹٹول ٹٹول کر خریدنے، اور پھر گھر کے صحن کو ذبح خانہ بنانے کے بجائے آن لائن خریداری کیجیے، وہی ذبح کریں گے۔ آپ کو جو وقت دیں گے اُس پر جا کر گوشت لے آئیے۔ اس پر ایک معروف مولوی صاحب کی رگِ حمیت پھڑکی۔ دلیل یہ تھی کہ صدیوں سے جانور گھروں میں لائے جا رہے ہیں۔ ہم نے اپنے بزرگوں کو دیکھا۔ اب ہمارے بچے ہمیں جانور لاتے اور ذبح کرتے نہیں دیکھیں گے تو انہیں قربانی کرنے کی عادت کیسے پڑے گی۔ بحث کرنا کارِ لا حاصل تھا‘ ورنہ پوچھا جا سکتا تھا کہ حج کے موقع پر آپ قربانی کرتے ہیں مگر جانور خود خریدتے ہیں نہ گوشت وصول کرتے ہیں بلکہ دیکھ تک نہیں پاتے۔ سب کچھ سعودی انتظامیہ کرتی ہے۔ آج تک کسی عالم یا مفتی نے اس پر تحفظات کا اظہار نہیں کیا۔ 
اس سے پہلے ایک اور واقعہ قارئین کو بتایا جا چکا ہے۔ امریکہ میں ایک دینی مدرسہ میں طلبہ کلاس روموں میں میز کرسی پر بیٹھتے ہیں۔ ایک پاکستانی حضرت وہاں تشریف لے گئے۔ تاسف سے سر کو ایک افق سے دوسرے افق تک ہلایا۔ پھر افسوس کی وہ آوازیں نکالیں جو سانحے پر نکالی جاتی ہیں۔ پھر فرمایا، برکت تو نیچے بیٹھنے سے ہے۔ یعنی جو چیزیں دین کا حصہ نہیں، وہ بھی مقدس کر لی جاتی ہیں۔ اس کی ایک مثال دانتوں کی صفائی ہے۔ سنت دانتوں کی صفائی ہے۔ اُس وقت ٹوتھ پیسٹ نہیں تھا۔ اگر اب ٹوتھ پیسٹ نہیں استعمال کرنا اور دانت اُسی طریقے سے صاف کرنے ہیں جو اُس وقت جزیرہ نمائے عرب میں رائج تھا تو کوئی حرج نہیں مگر اسے شرعی رنگ دینا درست نہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر اُس وقت تو صابن بھی نہ تھا۔ شیمپو بھی نہ تھا۔ کپڑے بھی سرف سے نہیں دھوئے جاتے تھے۔ استری بھی نہیں کی جاتی تھی۔ بیماری میں انجکشن بھی نہیں لگتا تھا۔ بائی پاس بھی نہ تھا۔ اعضا کی پیوندکاری بھی نہ تھی! خادمِ حرمین شریفین علاج کے لیے امریکہ تشریف لے جاتے ہیں۔ ہمارے مذہبی رہنماؤں کو چاہیے کہ انہیں منع کریں۔ جدید علاج کرانے سے کہیں برکت نہ اُٹھ جائے!
 عید الاضحیٰ آنے میں ابھی دو تین ہفتے باقی ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر لازم ہے کہ حفاظتی اقدامات کریں۔ الیکٹرانک میڈیا پر زبردست مہم وقت کا اہم ترین تقاضا ہے؛ تا ہم حکومت کے اقدامات سے قطع نظر، عوام کو اپنی حفاظت خود بھی کرنی چاہیے۔ مشرقِ وسطیٰ کے ملکوں میں گھروں میں جانور ذبح کرنے پر پابندی ہے۔ لوگ ذبح خانوں میں جا کر ذبح کراتے ہیں اور گوشت گھر لاتے ہیں۔ اِس عیدالاضحی پر اگر ہمارے ہاں پوری احتیاط نہ برتی گئی اور سارا عمل ذبح خانوں تک محدود نہ رکھا گیا تو ہولناک وبا پھوٹنے کا زبردست خطرہ ہے!
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں 
مانو نہ مانو جانِ جہاں! اختیار ہے

Friday, August 19, 2016

سوراخ اُسی قدر ہیں پرانی جُراب میں

کیا خوش پوش نوجوان تھا! بادامی رنگ کے خوبصورت اوور کوٹ میں ملبوس۔ کاج میں پھول۔ سر پر ٹیڑھا رکھا ہوا ہیٹ۔ گلے میں سفید ریشمی مفلر۔ ہاتھ میں بید کی فیشنی چھڑی۔ جس دکان میں داخل ہوتا‘ سیلز مین اس کے آگے بچھنے لگتا۔ ہر خالی ٹیکسی اس کے قریب آ کر رکتی۔ 
ایک تیز رفتار گاڑی نے اسے کچل دیا۔ اب ہسپتال میں نرسیں اُس کی لاش کا معائنہ کر رہی تھیں۔’’مفلر کے نیچے نکٹائی اور کالر کیا‘ سرے سے قمیض ہی نہیں تھی۔ اوور کوٹ اتارا گیا تو نیچے سے ایک بہت بوسیدہ اونی سویٹر نکلا جس میں جابجا بڑے بڑے سوراخ تھے۔ ان سوراخوں سے بوسیدہ اور میلا کچیلا بنیان نظر آ رہا تھا۔ نوجوان سلک کے گلو بند کو کچھ اس ڈھب سے گلے پر لپیٹے رکھتا تھا کہ اس کا سارا سینہ چھپا رہتا تھا۔ جسم پر میل کی تہیں بھی خوب چڑھی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کم سے کم پچھلے دو مہینے سے نہیں نہایا۔ البتہ گردن خوب صاف تھی اور اس پر ہلکا ہلکا پائوڈر لگا ہوا تھا… پتلون کو پیٹی کی بجائے ایک پرانی دھجی سے ‘جو شاید کبھی نکٹائی ہو گی ‘ خوب کس کر باندھا گیا تھا۔ بوٹ خوب چمک رہے تھے مگر ایک پائوں کی جراب دوسرے پائوں کی جراب سے بالکل مختلف تھی۔ پھر دونوں جرابیں پھٹی ہوئی بھی تھیں۔ اس قدر کہ ان میں سے نوجوان کی میلی میلی ایڑیاں نظر آ رہی تھیں۔‘‘
یہ غلام عباس کا شہرہء آفاق افسانہ’’اوور کوٹ‘‘ ہے! ہماری نئی نسل نے منٹو‘ کرشن چندر‘ بیدی اور عصمت چغتائی کے نام تو سنے ہیں مگر بدقسمتی سے غلام عباس بلیک آئوٹ ہو گئے‘ حالانکہ ان کے دلدادگان میں محمد حسن عسکری اور انتظار حسین جیسے ادیب اور نقاد شامل ہیں۔
غلام عباس1909ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے۔ ’’پھول‘‘ اور ’’تہذیبِ نسواں‘‘ جیسے تاریخ سازجریدوں کی ادارت کی۔ امتیاز علی تاج کی فرمائش پر ارونگ کے مشہور زمانہ افسانوں ’’الحمرا‘‘ کا ترجمہ کیا۔ ایسا ترجمہ جس کی نثر میں انہوں نے ایک خاص آہنگ پیدا کیا۔ غلام عباس کی پہلی بیگم کا نام ذاکرہ تھا۔ دوسری شادی ایک انگریز خاتون سے کی۔ ان کے سب سے بڑے فرزند ڈاکٹر علی سجاد عباس کی وفات 2007ء میں کینیڈا میں ہوئی۔ خود غلام عباس کراچی میں 1982ء میں دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔
ہم جب کہتے ہیں کہ غلام عباس بلیک آئوٹ ہو گئے تو اس سے مراد یہ نہیں کہ وہ گمنام ہیں۔ المیہ یہ ہوا کہ ان کا افسانہ ’’آنندی‘‘ اتنا زیادہ مشہور ہوا کہ باقی تخلیقات دب گئیں۔ آنندی کے بعد اوور کوٹ بھی مشہور ہوا۔ آصف فرخی نے افسانوں کا انتخاب کیا‘ جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے چھاپا۔ ایک انتخاب شہزاد منظر نے بھی کیا‘ مگر افسانوں کے مجموعے ناپید ہی رہے۔
ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ’’آنندی‘‘ مکتبہ جدید لاہور نے 1948ء میں شائع کیا۔ ’’جاڑے کی چاندنی‘‘ 1960ء میں اور آخری مجموعہ’’کن رس‘‘1969ء میں شائع ہوا۔ غلام عباس کی کلیات ترتیب دینے اور چھاپنے کا اعزاز حال ہی میں ایک بھارتی ادیب کو ملا ہے۔ ندیم احمد کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے صدر ہیں۔ نقاد اور محقق ہیں۔ کلیات غلام عباس جس تہذیب‘ محبت اور دلکشی کے ساتھ ندیم احمد نے شائع کی ہے‘ بے اختیار تحسین کو دل چاہتا ہے۔ اردو ادب کے عشاق کے لیے کیا ہی خوشنما تحفہ ہے!! نامور نقادوں کے مضامین بھی‘ جو غلام عباس پر لکھے گئے‘ شامل کر دیئے گئے ہیں۔ دلچسپ ترین پہلو کتاب کا‘ کتاب کے آخری صفحہ پر سات سطروں کا ایک فارسی نوٹ ہے۔ گئے وقتوں میں‘ نولکشوریا مکتبہ مجتبائی جیسے کلاسیکی پبلشنگ ہائوس کتابیں چھاپتے تھے تو ایسے ہی ٹکڑے دیکھنے کو ملتے تھے۔
’’الحمد للہ الخلاق اللوح والقلم کہ ایں کتاب مستطاب موسوم بہ’’کلیاتِ غلام عباس‘‘ مِن تالیف بندۂ عاجز بارگاہ ایزدی المشتہر بہ ندیم احمد در اُم البلاد فرخندہ بنیاد شہر کلکتہ انطباع یافت‘‘
اس نوٹ کو دیکھ کر اپنا ایک شعر یاد آ گیا     ؎
سبب تالیف کا لکھا‘ سنِ تصنیف ڈالا
زمین پربیٹھ کر فصلیں بنائیں‘ باب رکھے
پاکستان کی جو حالت کر دی گئی ہے‘ اس کی پیش گوئی غلام عباس اپنے افسانوں میں کر گئے تھے۔ مگر لگتا ہے ان کا افسانہ اوور کوٹ آج کے پاکستان پر کچھ زیادہ ہی منطبق ہوتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری حالت اس چھچھورے‘ ظاہری آن بان رکھنے والے نوجوان کی سی ہے جس کے خوبصورت اوور کوٹ کے نیچے بوسیدہ‘ دریدہ سویٹر اور میلا کچیلا بنیان تھا۔ پتلون کی پیٹی کے بجائے کپڑے کی دھجی تھی اور دونوں پیروں میں دو مختلف قسم کی جرابیں۔ بقول ظفر اقبال    ؎
ہیں جتنے دائرے نئی ٹی شرٹ پر ظفرؔ
سوراخ اسی قدر ہیں پرانی جراب میں
ہم عالم ِاسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہیں۔ مسلم دنیا کی سب سے بڑی اور موثر ترین فوج بھی ہمارے پاس ہے۔ کہنے کو ہمارے ہاں جمہوریت بھی ہے۔ شاہراہوں‘ پُلوں اور میٹرو بسوں پر بھی زور ہے۔ ایوانِ وزیر اعظم اور عدالتِ عظمیٰ کی پُرشکوہ عمارات‘ شاہراہِ دستور کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ ہمارے بیوروکریٹ نفیس سوٹ زیب تن کرتے ہیں اور پائپ منہ میں دبا کر برائون صاحبوں والی انگریزی بھی بولتے ہیں۔ مگر سوچنے پر کبھی کبھی پریشانی ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ کہیں محض اوور کوٹ اور ریشمی مفلر تو نہیں؟ آج ہم مودی کی مذمت کر رہے ہیں کہ اس نے بلوچستان کے بارے میں یاوہ گوئی کی۔ مذمت کرنی بھی چاہیے۔ یہ مذمت ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔ ہمارے اندرونی معاملات کے اندر کسی کو تھوتھنی داخل کرنے کی ضرورت نہیں! مگر کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ بلوچستان کے ساتھ خود ہم نے کیا سلوک کیا؟ کیا وہاں وہ سرداری نظام نہیں رائج جس کی نظیر آج پورے کرۂ ارض پر نہیں ملتی؟ سکولوں اور کالجوں کی عمارات‘ سرداروں کے غلّے کے گودام بنی ہوئی ہیں۔ سرکاری ملازم کو سردار کی پرچی کے بغیر تنخواہ تک نہیں ملتی۔ بگتیوں‘ مریوں‘ رئیسانیوں کے علاقوں میں کتنے کالج بنے؟ کتنی یونیورسٹیاں قائم ہوئیں؟ کیا اس حقیقت سے کوئی انکار کر سکتا ہے کہ عام بلوچی ہزار سال پرانے طرز کی زندگی گزار رہا ہے؟ ستر سال میں صرف ایک غیر سردار چیف منسٹربنا اسے بھی ایک سردار کے لیے کرسی چھوڑنا پڑی۔
اوور کوٹ اور ریشمی گلو بند کے نیچے جو حالت ہے اس کا اندازہ سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک کے اس حالیہ بیان سے کیا جا سکتا ہے کہ کوئٹہ شہر میں اس وقت افغان اکثریت میں اور پاکستانی اقلیت میں ہیں۔ بے بسی‘ انارکی اور نا اہلی کا اندازہ اس سے لگائیے کہ دارالحکومت کی فروٹ منڈی کابل کا محلّہ لگتی ہے۔
ستر سال ہونے کو ہیں‘ وزیرستان میں‘ مہمندوں‘ آفریدیوں اور شنواریوں کے علاقوں میں کتنی ترقی ہوئی؟ کارخانے نہ زراعت کی جدید مشینیں‘ نہ تعلیمی ادارے!! پھر ان پر سمگلنگ کا الزام ! غلام اسحاق خان نے کیا خوب نکتہ نکالا تھا کہ باڑہ مارکیٹوں میں خریداری کرنے والے کہاں سے آتے ہیں اور کون ہیں؟
سوراخوں والی سویٹر اور میل سے بھری ہوئی بنیان کا اندازہ اس سے لگائیے کہ حکومتی پارٹی کا اعلیٰ عہدیدار‘ سابق ایم این اے‘ میٹرو بس منصوبے کا انچارج‘ سینکڑوں افراد کے ساتھ تھانے پر حملے کرتا ہے اور سزا کس کو ملتی ہے؟ تھانیدار کو؟ صوبائی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ وزیر اعلیٰ کو جیسے اس اتنی بڑی بغاوت کی خبر ہی نہیں؟! پولیس والے خود ہی انکوائریاںکرتے پھرتے ہیں۔ قہرِ درویش بر جانِ درویش! ریاست کی شلوار تو خاردار درخت پر لٹک ہی چکی!!
جورابوں سے ایڑیاں نظر آ رہی ہیں۔ نیب سر پیٹ رہی ہے کہ وفاقی محتسب نے (جو احتساب کرتا ہے!)ایسے ایسے ریٹائرڈ افراد کو احتساب کے لیے تعینات کیا ہے جن پر کرپشن کے مقدمے چل رہے ہیں۔ پچاس کے لگ بھگ ریٹائرڈ افسران قومی خزانے کو ہر ماہ لاکھوں کا انجیکشن لگا رہے ہیں۔ سب کو ذاتی تعلقات کی بنیاد پر رکھا گیا‘ جب آپ ادارے کا سربراہ ایسے شخص کو لگائیں گے جس کا اپنا حساب کتاب مشکوک ہے اور جو ملک سے فرار ہو گیا تھا تو وہ اسی قسم کا ’’احتساب‘‘ کرے گا! جبکہ قانون کی رُو سے وفاقی محتسب کے فیصلے حکومتی اداروں کے لیے محض سفارش کا درجہ رکھتے ہیں۔
Mandatory
(لازم) بھی نہیں!!
اور یہ بھی سُن لیجیے۔ اوورکوٹ کی مختلف جیبوں سے کیا نکلا تھا۔ ’’ایک چھوٹی سی سیاہ کنگھی۔ ایک رومال۔ ساڑھے چھ آنے۔ ایک بجھا ہوا آدھا سگریٹ۔ ایک چھوٹی سی ڈائری جس میں لوگوں کے نام اور پتے لکھے تھے۔ اور کچھ اشتہار جو مٹر گشت کے دوران اشتہار بانٹنے والوں نے اس کے ہاتھ میں تھما دیے تھے اور اس نے اوور کوٹ کی جیب میں ڈال لیے تھے!‘‘
اور ہاں! بید کی چھڑی حادثے کے دوران گم ہو گئی تھیٖ! یہ گم شدہ چھڑی کہیں وزیر خارجہ تو نہیں جسے ایک عرصہ سے قوم تلاش کر رہی ہے؟

Wednesday, August 17, 2016

زہر میں بجھے تیر

ابھی بم ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ ایٹم بم نہ ڈیزی کٹر، لیکن ہلاکت موجود تھی۔
کیا آپ کو معلوم ہے اُس وقت تیر کمان اور بھالوں کا زمانہ تھا؟ اگر معلوم ہے تو یہ بھی جانتے ہوں گے کہ تیر زہر میں بجھے ہوتے تھے! تیروں کا وہ نوکیلا حصّہ جو دشمن کے جسم میں پیوست ہوتا تھا‘ زہر آلود کر لیا جاتا تھا۔ اس قدیم فن میں یوں تو افریقی بھی ماہر تھے‘ مگر اسے باقاعدہ صنعت کا درجہ وسطی اور جنوبی امریکہ کے وحشی قبائل نے دیا تھا۔ آسام، برما اورتھائی لینڈ کے جنگلوں میں رہنے والے نیم وحشی لوگ بھی اس فن میں طاق تھے۔ اس مقصد کے لیے زہر کے ذرائع دو تھے۔ پودے اور جانور۔ زہریلے پودوں کے پتوں اور پھلوں سے زہر حاصل کر کے تیر کے سرے پر لگا دیا جاتا تھا۔ زہریلے مینڈک بھی اس ضمن میں کام آتے تھے۔ کچھ قبیلے زیادہ جدت پسند تھے۔ سانپ یا زہریلی چھپکلی کو قید کر کے ساتھ گوشت رکھ دیتے تھے۔ پھر ’’قیدیوں‘‘ کو اتنا زچ کیا جاتا تھا کہ وہ بار بار گوشت کو کاٹتے تھے۔ یوں یہ گوشت زہر سے بھر جاتا تھا۔ اب تیر اس گوشت میں گاڑ دیے جاتے تھے۔ جب زہر تیروں کے نوکیلے سروں میں سرایت کر جاتا تب انہیں لڑائی میں استعمال کرتے تھے۔ یہ زہر اعصابی نظام کو شل کر دیتا تھا۔ خون نہیں بہتا تھا مگر موت واقع ہو جاتی تھی۔
زمانہ اب جدید ہے۔ اکبر الہ آبادی نے ماتم کیا تھا  ؎
پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
اب معاملات بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔ زہر میں بجھے تیروں‘ بھالوں‘ نیزوں کا زمانہ لد چکا۔ ایٹم بم اور ڈیزی کٹر بھی وقت کی دھول میں اٹ چکے۔ ہلاکت کا جو طریقہ اب رائج ہوا ہے سکندر‘ چنگیز و تیمور ‘ہٹلر اور مسولینی کفِ افسوس مل رہے ہوں گے کہ وہ اس سے محروم رہے۔
زہر میں بجھے تیر دائیں بائیں گر رہے تھے۔ لاشیں تھیں کہ ڈھے رہی تھیں۔ آنکھیں تھیں کہ زہریلے دھوئیں سے بھر گئی تھیں۔ تجزیہ کار ہلاکت بکھیر رہا تھا۔ ظفر علی خان نے کسی ایسے ہی موقع پر کہا ہو گا   ع
زلفِ  عنبر  بار  سے کژدم  بکھیر  اژدر نکال
قیامت خیز ہلاکت‘ ساتھ ہی نو آموز‘ نام نہاد اینکر پرسن‘ مَسیں جس کی بھیگی نہیں تھیں‘ شہ دیے جا رہا تھا۔ بھٹو صاحب نے سیاسی بنیادوں پر بیورو کریسی میں اپنے پسندیدہ نوکر چاکر داخل کیے تھے۔ ٹیکنیکل زبان میں تباہی کے اس عمل کو 
Lateral Entry 
کا نام دیا گیا تھا۔ حالانکہ ترقی یافتہ ملکوں میں اس قسم کی انٹری اہلیت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ جس قبیل کے افراد کو افسر شاہی میں داخل کیا گیا‘ انہیں دیکھ کر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ پٹرول پمپوں پر کام کرنے والوں کو لاکر بٹھا دیا گیا۔ اب یہی صورت حال الیکٹرانک میڈیا میں پیش آ رہی ہے۔ چینلوں کی بھر مار ہو گئی ہے۔ گویّے‘ ماہرِ دینیات بن گئے۔ مسخرے سکالر اور پٹرول پمپوں سے آئے ہوئے اینکر پرسن!
تجزیہ کار اور سیہ کار میں فرق ہونا چاہیے‘ مگر بقول انگریزوں کے
Who Bothers! 
    ع
کس نمی پرسد کہ بھیّا! کیستی؟
غضب کی کردار کشی‘ زہر میں بجھے ہوئے تیروں کی مدد سے‘ سیاست دانوں کی کی جا رہی تھی۔ مانا سیاست دان بُرے ہیں، کرپٹ ہیں۔ اقربا پروری اور دوست نوازی میں ملوث ہیں۔ تھانوں پر ،کبھی عدالتوں پر حملے کرتے ہیں۔ ڈیروں پر مفروروں کو پناہ دیتے ہیں‘ مگر یہ کہنا کہ سیاست دان ہی کرپٹ ہیں اور پھر یہ دعویٰ کہ نوّے فیصد سیاست دان کرپٹ ہیں‘ مجذوب کی بڑ تو ہو سکتی ہے‘ خدا لگتی نہیں ہو سکتی!
سیاست دان کیا ٹیوبوں میں بھر بھر کر باہر سے لائے گئے اور اس معاشرے میں چھوڑ دیے گئے کہ باقی تو پوتّر ہیں‘ صرف وہی کرپٹ ہیں؟ پورا معاشرہ کرپٹ ہے۔ سیاست دان اس معاشرے کا حصہ ہیں، اس لیے وہ بھی کرپٹ ہیں۔ کرپٹ سیاست دان سے بڑا کرپٹ وہ ووٹر ہے جو اُسے منتخب کر کے کرسی پر بٹھاتا ہے!
انجینئر کم کرپٹ ہیں؟ بدنام ترین شعبے ان کے تصرّف میں ہیں۔ عمارتیں‘ شاہراہیں، پُل بنانے والے!! دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے میں روڈ کے محکمے کو گولڈ کا محکمہ کہا جاتا ہے۔ چند روز پہلے عدالت عظمیٰ نے لاہور کے ترقیاتی ادارے کو ملک کا کرپٹ ترین ادارہ ہونے کا اعزاز دیا۔ واپڈا سے لے کر ریلوے تک‘ انجینئروں نے ہر جگہ تباہی پھیلائی۔ تاجر برادری کم کرپٹ ہے؟ بارہا لکھا جا چکا کہ تاجروں کی اکثریت سات بڑے جرائم میں مبتلا ہے۔ اوِّل: ٹیکس چوری، دوم: ناجائز تجاوزات کی لعنت، سوم: خوراک ‘ ادویات یہاں تک کہ معصوم بچوں کے دودھ میں ملاوٹ‘ چہارم: خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں کرتے جو ہر مہذب معیشت میں جرم ہے، پنجم: شے بیچتے وقت نقص نہیں بتاتے، ششم: ماپ تول میں ڈنڈی مارتے ہیں‘ ہفتم: حکومت کی کوشش کے باوجود توانائی کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ بازار دن کے ایک بجے کھولتے ہیں اور رات گئے بند کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بازار پانچ بجے شام بند ہو جاتے ہیں(تین جنوری 2013ء کے روزنامہ دنیا میں اس موضوع پر تفصیل سے لکھا جا چکا ہے۔)
ڈاکٹر جنہیںمسیحائی کرنا تھی‘ گلے گلے تک زر اندوزی میں ڈوب گئے۔ ظاہر ہے سب نہیں! فرشتہ صفت بھی انہی میں ہیں۔ مگر اچھی خاصی تعداد مافیا میں بدل چکی! راولپنڈی کا ایک پرائیویٹ ہسپتال گردوں کی تجارت کے لیے بدنام رہا۔ اغوا کیے گئے بچوں کے اعضاء کیا سیاست دان نکال رہے ہیں؟ ظاہر ہے یہ کام سرجن ہی کر سکتا ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں خریدی گئی ادویات دوبارہ دوا فروشوں کے پاس پہنچ جاتی ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کو چھوڑیے‘ نجی شعبے کی بات کر کے دیکھ لیجیے۔ جرّاحوں اور طبیبوں میں غیر تحریری سہی‘ باقاعدہ معاہدے ہوتے ہیں کہ ’’ہم آپریشن کے لیے مریض تمہارے پاس بھیجیں گے‘ حصّہ ہمارا اتنا ہو گا‘‘۔ ساری دنیا میں جنرک ناموں سے ادویات بکتی ہیں، یہاں ڈاکٹر برانڈڈ ادویات تجویز کرتے ہیں۔ کیوں؟ ثواب کی خاطر؟ اور یہ کیا کسی امام کا فرمان ہے کہ مریض فلاں لیبارٹری ہی میں جائے جہاں اس کا خون ٹیسٹ کے لیے نکالا جائے گا اور باقی چوسا جائے گا؟
اور اُن ادوار کا حساب کون دے گا جب سیاست دان نہیں‘ غاصب آمر حکمران تھے؟ سفید فام حکمرانوں نے جب آسٹریلیا کے مقامی باشندوں سے بچے چھیننے شروع کیے تاکہ انہیں’’مہذب‘‘ کیا جائے تو اس وحشیانہ عہد کو’’چوری شدہ نسلوں‘‘ یعنی \
Stolen Generations
 کا نام دیا گیا۔ ماضی قریب میں آسٹریلوی حکومت نے مقامی باشندوں سے اس ظالمانہ اقدام پر معافی مانگی۔ پاکستانیوں سے ’’چھینے گئے حکومتی ادوار’’ یعنی مارشل لائوں کی معافی کون مانگے گا! یہ تو جملۂ معترضہ تھا جو درمیان میں آن پڑا۔ سوال یہ ہے کہ کیا آمرانہ ادوار کرپشن سے پاک تھے؟ اگر یہ کہا جائے کہ سیاست دانوں کو کرپٹ کرنے میں ان آمرانہ ادوار کا کردار بنیادی تھا تو غلط نہ ہو گا۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں سیاست دانوں کو فائلیں دکھا دکھا کر ساتھ ملایا گیا۔ اوجڑی کیمپ کا شوشہ کیا تھا؟ ارشاد احمد حقانی مرحوم کی تحریری گواہیاں موجود ہیں کہ سرکاری خزانے سے مردِ مومن مردِ حق کیا سلوک کرتے رہے۔ ماسٹر پلان دارالحکومت کا اسی زمانے میں تباہ و برباد ہوا۔ نوکر شاہی کے خدمت گار ارکان کو نو نو سال، دس دس برس بیرون ملک تعینات رکھا گیا۔ کسی رشتہ دار کو وزیر تو کسی کو سفیر بنایا۔ یہ اُسی زمانے کی بات ہے جب ایک گورنر سمگلنگ کے لیے معروف تھا۔ روایت ہے (دروغ برگردن راوی) کہ مولانا ظفر احمد انصاری مرحوم نے کہ آمر کے دستِ راست تھے‘ سمجھانے کی کوشش کی مگر جواب یہ تھا کہ ’’آخر ذاتی وفاداری بھی کوئی شے ہوتی ہے! ‘‘ اور جس شخصیت کو کینیڈا کی حکومت نے سفیر لینے سے انکار کیا تھا، کیا وہ سیاست دان تھی؟ ابھی تو اصغر خان کیس کے فیصلے کی روشنائی بھی خشک نہیں ہوئی!! 
سیاست دان ہرگز پاک صاف نہیں! مگر جب کوئی چینل‘ پورے اہتمام و انتظام کے ساتھ سیاست دانوں کی کردار کشی پر باقاعدہ پروگرام کرتا ہے اور کردار کشی کرنے والوں کی نشست کے پیچھے گائو تکیے رکھے جاتے ہیں توکون یہ سوچنے پر مجبور نہ ہوگا کہ دال میں کچھ کالا ہے؟
کرپشن زندگی کے جس شعبے میں بھی ہے‘ قابلِ مذمت ہے۔ تاہم یہ ممکن نہیں کہ صرف ایک شعبہ کرپٹ ہو۔ کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ پورے باغ میں خزاں کا راج ہو اور ایک گوشہ ہرا بھرا ہو؟ پورے معاشرے کی فکر کیجیے۔ ووٹ دینے والے نیکو کار ہو جائیں گے تو ووٹ لینے والے بھی باوضو رہنے لگیں گے۔

Sunday, August 14, 2016

گھر تو آخر اپنا ہے

قریشی صاحب سرکاری ملازم تھے۔ پاکستان ایئرفورس میں ایک باعزت عہدے پر فائز! سرکار کی طرف سے الاٹ شدہ گھروں ہی میں رہے۔ ہم نے کبھی نہ پوچھا کہ آبائی گھر کا کیا ہوا۔ زیادہ تر یہی ہوتا ہے کہ بِک کر ورثا میں بَٹ جاتا ہے۔ ایسا ہی ہوا ہوگا۔
ریٹائرمنٹ سے سال پہلے ایک قطعۂ زمین سرکار کی طرف سے عطا ہوا یا خود خریدا، پھر وہ اس کی تعمیر میں جُت گئے۔ جیسا کہ ہمارے ہاں عام طور پر ہوتا ہے، ایک ٹھیکیدار، عین وسط میں چھوڑ گیا۔ اس طبقہ کے لوگ عموماً یہی کرتے ہیں۔ بیچ منجھدار کے ایک کو چھوڑا، دوسرے کو پکڑا، دوسرے کو جل دے کر تیسرے کے ہاں کام شروع کر دیا۔ اس بے اصولی کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ اکثر بے برکتی کا شکار رہتے ہیں۔ قدرت کا ان دیکھا نظام انہیں ترقی نہیں کرنے دیتا۔ بہرطور قریشی صاحب نے رات دن ایک کر کے گھر مکمل کیا۔ اس میں منتقل ہوئے۔ ہم مبارک دینے گئے تو ایک فقرہ انہوں نے کہا ایسا کہ یادداشت کے رگ و ریشہ میں پیوست ہو کر رہ گیا۔ کہنے لگے، مسائل بہت سے ہیں۔ ایک کمرے کی دیواروں میں پانی آنے لگا ہے، بجلی کا کام تسلی بخش قطعاً نہیں ہوا۔ مگر جو کچھ بھی ہے، اپنا گھر ہے۔ کمبل اوڑھ کر، صوفے پر نیم دراز ہو کر ٹیلی وژن دیکھتا ہوں تو عجیب سا اطمینان کا احساس ہوتا ہے۔ خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔
ہم میں سے کتنے ہیں جو خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔ کتنوں کو احساس ہے کہ گھر اپنا ہے؟
بجا کہ ایک آدھ کمرے کی دیواروں میں پانی آ رہا ہے۔ درست کہ بجلی کا کام معیاری نہیں ہوا، ابھی گیٹ ٹھیک سے نصب نہیں ہوا، مگر خدا کے بندو! شکرادا کرو کہ گھر اپنا ہے۔ اس کے صحن میں کھڑے ہو کر اوپر دیکھو، یہ جو آسمان نظر آ رہا ہے، تمہارا اپنا ہے۔ یہ رات کو دمکتے ستارے تمہاری اپنی چھت سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ تمہیں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ سامان سمیٹو اور نکلو! قریشی صاحب کا فقرہ پلے باندھ لو: ’’صوفے پر نیم دراز ہو کر ٹی وی دیکھتا ہوں تو اطمینان کا احساس ہوتا ہے‘‘۔
مسائل ہیں اور رہیں گے! کون سا گھر ہے جس میں نہیں ہوتے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی تاریخ کا مطالعہ از حد ضروری ہے۔ جب بھی کسی نوجوان نے مشورہ مانگا، اسے دیگر موضوعات کے علاوہ تلقین کی کہ امریکہ کی تاریخ پڑھو۔ اس میں ہمارے لیے سبق کا سامان ہے۔ کون سا تاریک دور ہے جو اس ملک پر نہیں گزرا۔ وائلڈ ویسٹ (وحشی مغربی حصہ) کا دور گزارا۔ کیا خطرناک زندگی تھی۔ غسل کرتے وقت بھی بندوق پاس رکھنا ہوتی تھی۔ ریڈ انڈین کو کس طرح کنٹرول کیا (کون حق پر تھا اور کون غاصب، یہ الگ موضوع ہے۔) پھر آزادی کی جنگ لڑی۔ پھر خانہ جنگی مصیبت بن کر نازل ہوئی۔ اپنے ہی بھائیوں سے لڑنا پڑا۔ پھر 1930ء کی کسادبازاری آئی۔ نوکریاں ختم، نوبت فاقوں تک آئی۔ پھر جرائم کی ایک لہر آئی، اسے دھکیل کر پیچھے کرتے تو دوسری اس سے بھی بلند ہوتی۔ اغوا برائے تاوان عشروں تک طاعون بن کر چھایا رہا۔ مافیا ایک سے ایک بڑھ کر۔ قتل و غارت، سمگلنگ، قمار بازاری کے خفیہ ٹھکانے۔ سسلی کی انڈر ورلڈ نیویارک کے ساحلوں پر آن اتری۔ اب بھی مصیبتیں درپیش ہیں۔ یہ جو آئے دن کسی کلب میں گولی چلتی ہے، تو اس بے یقینی میں بھی ابھی تک اسلحہ پر پابندی نہیں لگا پا رہے۔ ان ساری مصیبتوں میں کبھی کسی نے نہیں کہا کہ بحرِ اوقیانوس پار کر کے کس مصیبت میں پڑ گئے۔ یورپ ہی میں اچھے تھے۔ ہم نے تو صرف نعرہ لگایا۔۔۔ سب سے پہلے پاکستان! امریکیوں نے یہ کر کے دکھایا۔ چینی ہے یا میکسیکو سے آیا ہوا، پہلے امریکی ہے۔ اسی لیے تو امریکہ کو 
Melting Pot
 کہا گیا۔ ایک بڑا دھاتی برتن! جو اس میں آتا ہے پگھل جاتا ہے۔ پھر امریکہ کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ آج کرۂ ارض پر امریکہ کا سکہ چلتا ہے۔ اس لیے کہ آج تک امریکی امریکی ہونے پر نہیں پچھتائے۔ کچھ سادہ لوح قارئین ای میلوں کے میزائل پھینکیں گے کہ امریکہ کی تعریف کیوں کی؟ ارے بھائی! تعریف نہیں کی! نہ ہی ان کی خارجہ پالیسی کی حمایت کی۔ اپنے ملک کی خاطر جو کچھ انہوں نے کیا، جس طرح حب الوطنی کو اوڑھنا بچھونا بنایا، اس سے سبق حاصل کرنے کی استدعا کی ہے!
14اگست شکر کا دن ہے۔ محاسبے کا بھی، دوسروں کا نہیں، اپنا محاسبہ! اپنا گریبان، اپنی چارپائی کے نیچے ڈانگ (لاٹھی) پھیرنے کا دن!
سب اچھا نہیں ہے۔ افغان بارڈر کھلا ہے، جیسے اژدہے کا منہ کھلا ہو! بلوچستان ہمارے گھر کا ایک کمرہ ہے۔ اس کی دیواروں میں پانی آنے لگا ہے۔ بچے اغوا ہو رہے ہیں، لوڈشیڈنگ ہے، مگر حکومتیں تو اپنی ہیں، عساکر تو اپنے ہیں۔ کاروبار تو پاکستانیوں کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ درست ہے ملازمتیں دیتے وقت، بعض کوتاہ نظر یہ دیکھتے ہیں کہ سائل سید ہے یا اعوان یا جاٹ یا پٹھان یا اردو بولنے والا، یا فلاں یا فلاں، مگر یہ تو کوئی نہیں کہتا کہ سالا مُسلا ہے، حساب کتاب میں کمزور ہے! نوکری اپنے کسی ہندو بھائی کو دو! برسبیل تذکرہ! تحریکِ پاکستان 
کی تاریخ آج کی نسل کو پڑھائو! وہ مسلمان جنہیں لالہ جی حساب کتاب میں کمزوری کا طعنہ دیتے تھے، انہی مسلمانوں نے 1946ء کی عبوری حکومت میں وزارت خزانہ چلائی اور چلا کر دکھائی۔ لیاقت علی خان وزیر خزانہ تھے، چوہدری محمد علی ان کے معاون! بجٹ ایسا بنایا کہ کانگرس کے چھکے چھوٹ گئے۔ کانگرس کی مالی پشت پناہی کرنے والے صنعت کاروں پر وہ ٹیکس لگائے کہ نانی یاد آ گئی۔
ایک بھارتی نووارد لڑکے کی آسٹریلیا میں ایک پاکستانی نوجوان سے دوستی ہو گئی۔ کچھ دن بعد اعتماد بڑھا تو بھارتی نوجوان نے بتایا کہ اس کے ماں باپ نے نصیحت کر کے بھیجا تھا کسی پاکستانی کے ساتھ رہنا نہ اس سے مدد طلب کرنا نہ راہ و رسم رکھنا! بالشت جتنا پاکستان اور ہاتھی جتنا بھارت! مگر پاکستان کا خوف لالہ جی کے دل کے نہاں خانے سے نہیں جا رہا۔ یہی کامیابی کیا کم ہے؟ نہیں! ہم جنگ نہیں چاہتے، حاشا و کلّا نہیں، ہمارے ہاں بال ٹھاکرے کی ذہنیت کے کچھ لوگ جو ہر وقت گولی اور بم کی بات کرتے ہیں، غلط ہیں! مگر بات اور ہو رہی ہے، پاکستان دنیا کے صفحے پر اپنا وجود یوں رکھتا ہے کہ بھارت کی آنکھ میں کھٹکتا ہے۔ اس لیے کہ تر نوالہ ثابت نہیں ہوا۔
ہم نے بہت کچھ حاصل کیا۔ ہماری بیلنس شیٹ میں صرف نقصان نہیں، منافع بھی ہے۔ اثاثے بھی ہیں۔ ہم یہ سبق سیکھ چکے ہیں کہ لشکری آمریت ہمارے لیے ہمیشہ رجعتِ قہقہری ثابت ہوئی ہے۔ بخت نے یاوری کی تو پرویز مشرف کی در اندازی اس کتاب کا آخری تاریک باب ہو گا۔ یہ بھی یاد رہے کہ ایوب خان کی بغاوت مسلمانانِ برصغیر کی پہلی عسکری بغاوت نہیں تھی۔ 1208ء میں قطب الدین ایبک کی تخت نشینی سے لے کر 1707ء میں اورنگ زیب عالم گیر کی وفات تک بہت کم ایسے فوجی کمانڈر تھے جنہوں نے دہلی کے خلاف بغاوت نہیں کی۔ اس پس منظر میں یہ سبق ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
سیاسی جماعتیں باہمی مخالفت کے باوجود یہ طے کر چکی ہیں کہ منتخب حکومت کو، جس کی بھی ہو، اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے۔ جمہوری استحکام کی جانب یہ ایک بڑا قدم ہے۔
ہم نے دفاعی پیدوار میں قابلِ ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ سپارکو اور 
NESCOM
 سے لے کر سنجوال، کامرہ اور ٹیکسلا تک صنعتی قصبے آباد ہیں اور سرگرمیوں سے بھرے ہیں۔ یونیورسٹیوں کی تعداد ملک میں اب کہیں زیادہ ہے۔ خواتین کی کثیر تعداد سائنس اور ٹیکنالوجی سے لے کر تعلیم اور ایڈمنسٹریشن تک، ہر میدان میں اپنی قابلیت کے جوہر دکھا رہی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ پراعتماد لڑکیاں لیپ ٹاپ اٹھائے جہازوں، ٹرینوں اور بسوں میں عام دکھائی دے رہی ہیں۔ ہائوسنگ سیکٹر نے قابلِ رشک ترقی کی ہے۔ جدید سہولیات سے مالا مال نئی آبادیاں اطراف و اکناف میں ابھر رہی ہیں۔ نجی شعبے نے صحت کے سیکٹر میں، ٹیلی فون اور ٹیلی ویژن کے شعبوں میں، ڈاک رسانی میں، آئی ٹی میں نئی منزلوں کو سر کیا ہے۔ لاکھوں خاندانوں کی صحت، خوراک اور تعلیم کا معیار پہلے سے بہتر ہوا ہے۔
وقتی طور پر خارجہ پالیسی ناکام ہے۔ امن و امان مخدوش ہے۔ دہشت گردی کے کچھ نوکدار دانت ابھی نکالے جانے ہیں۔ مگر یہ ناکامیاں حکومتوں کی ہیں، ریاست کی نہیں۔
دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے، گھر کی خاطر سو دکھ جھیلے، گھر تو آخر اپنا ہے!

Saturday, August 13, 2016

کچھوے کے اوپر زرہ ڈال دی گئی ہے

بحری جہاز میں کچھ کوکیبن نما کمرے ملے ہوئے تھے۔ کچھ کو اعلیٰ درجے کی خواب گاہیں‘ کچھ عرشے پر تھے۔ مگر ہر شخص‘ جہاں بھی تھا‘ اپنی جگہ کی خوب دیکھ بھال کر رہا تھا۔ ملکیت کا احساس شدید تھا۔ کیبن نما کمروں والے‘ اپنے کمروں کو کل کائنات سمجھ کر ان کی خوب صفائی کرتے تھے۔ جنہیں اعلیٰ درجے کی خواب گاہیں الاٹ ہوئی تھیں‘ وہ اپنی برتری میں مست تھے اور اپنے اپنے مسکن کو زیادہ سے زیادہ پرتعیش بنانے میں لگے رہتے تھے۔ وہ جو عرشے پر تھے‘ وہ بھی اپنی بنچ نما نشستوں کو جھاڑتے پونچھتے رہتے تھے۔
اس بحری جہاز میں اگر کوئی محرومِ توجّہ تھا تو وہ خود بحری جہاز تھا! کسی کو ذرہ بھر فکر تھی نہ پروا کہ جہاز کا کیا حال ہے؟ اس کا تیل پانی کتنا رہ گیا ہے؟ اس کے انجن کی صحت کیسی ہے؟ اس کی تہہ میں سوراخ تو نہیں ہوا ہے؟ اس کے سب سے نچلے حصے کے اندر پانی تو نہیں آ رہا ہے؟ یہ کسی چٹان سے تو نہیں ٹکرانے والا‘یہ قزاقوں کے نشانے پر تو نہیں؟ کہیں سمندری طوفان کے آثار تو نہیں؟ جہاز کے کپتان سے لے کر‘ عملے کے جونیئر ترین رکن تک‘ مہنگی خواب گاہوں میں سونے والوں سے لے کر عرشے کے بنچوں پر بیٹھنے والوں تک‘ سب اپنی اپنی ملکیت میں مست تھے۔ سب مطمئن تھے۔ اپنے کیبن کی‘ اپنے بنچ کی‘ اپنے سامان کی‘ سب کو فکر تھی۔ دوسری طرف جہاز کا برا حال تھا۔ تختے اکھڑتے جا رہے تھے۔ رفتار ڈھیلی ہو رہی تھی۔تہہ میں سوراخ ہونے لگے تھے۔ ایک طرف قزاقوں کا جہاز حملہ کرنے کے لیے پرتول رہا تھا‘ دوسری طرف‘ سربفلک چٹانیں‘ جیسے ٹکرانے کی تیاری کر رہی ہوں! آپ اس جہاز کے مسافروں کی ذہنی سطح کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔
بالکل یہی حال ان دنوں پاکستان کا ہے۔ اپنے کاروبار کی سب کو فکر ہے۔ کارخانے‘ زرعی جاگیریں‘ فیکٹریاں‘ سب ذہانت اور محنت سے چلائی جا رہی ہیں۔ سیاست دان اگلے الیکشن کو سامنے رکھ کر بھر پور تیاریاں کر رہے ہیں‘ مگر یہ سب لوگ ملک سے بے نیاز ہیں! ذرا یہ بیان دیکھیے۔
’’کوئٹہ کوئی بلوچ یا پشتون شہر نہیں رہا! اب اس پر افغانیوں نے قبضہ کر لیا ہے اور ہم اقلیت بن گئے۔
یہ کسی ایسے شخص کا بیان نہیں جو کوئٹہ سے دور پنجاب یا کے پی میں رہتا ہو۔ یہ ماتم بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کر رہے ہیں۔ تادمِ تحریر ان کے بیان کو کسی نے چیلنج نہیں کیا۔ مگر سادگی دیکھیے‘ یا  پرکاری کہ ہر طرف سے پختہ عزائم میزائلوں کی طرح چھوڑے جا رہے ہیں کہ ہم دہشت گردی کو ختم کر کے دم لیں گے، ہم متحد ہیں‘ یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے! مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ کوئٹہ افغانوں سے چھلک رہا ہے۔ یہ کوئٹہ کی زمین پھاڑ کر نیچے سے نکل آئے یا آسمان سے نازل ہوئے یا بارڈر کراس کر کے آن دھمکے، کوئی کچھ نہیں بتاتا۔ کسی کو پروا ہی نہیں کہ ان میں کئی دہشت گرد بھی ہو سکتے ہیں، جاسوسی کرنے والے بھی اور دیگر جرائم کا ارتکاب کرنے والے بھی، کیا وزیر اعظم اور کیا آرمی چیف، سب کے عزائم مصمم ہیں۔ مگر حالت یہ ہے کہ ایک سابق وزیر اعلیٰ دہائی دے رہا ہے کہ پاکستانی کوئٹہ میں اقلیت اور غیر ملکی اکثریت میں ہیں۔
وزارت داخلہ نے، نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے سلسلے میں ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 190مدارس نے بیرونی فنڈنگ کا اعتراف کیا ہے۔ سٹیٹ بنک نے 126بینک اکائونٹ بند کیے مگر ہنڈی کے ذریعے مدارس کو رقوم بھیجنے کا سلسلہ جاری ہے۔ رپورٹ میں یہ ’’اطلاع‘‘ بھی دی گئی ہے کہ کالعدم تنظیموں کو نام بدل کر سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اس سے زیادہ ظالمانہ مذاق قوم کے ساتھ کیا ہو گا! جن 190مدارس نے بیرونی فنڈنگ کا اعتراف کیا، وہ مدارس بند کیے گئے یا بدستور چل رہے ہیں؟ کیا یہ غیر ملکی فنڈنگ بند کر دی گئی؟ ہنڈی سے آنے والی رقوم کا سدِباب کیا ہو گا؟ ملک کے بچے بچے کو معلوم ہے کہ کالعدم تنظیمیں نئے ناموں کے ساتھ ڈٹ کر دن دہاڑے کام کر رہی ہیں۔ ان میں سے کسی نے وزارتِ داخلہ سے اجازت نہیں مانگی مگر وزارت داخلہ مصر ہے کہ اجازت نہیں دے گی۔ سبحان اللہ!
سیفران کے وفاقی وزیر ایک سابق جرنیل ہیں۔ فرماتے ہیں جب تک ملک کا ہر شہری دہشت گردوں کے خلاف کھڑا نہیں ہو گا، مسئلہ حل نہیں ہو گا!
کوئی ان وزیر صاحب سے پوچھے کہ ان کے فرمان کا مطلب کیا ہے؟ بارڈر کھلا ہے۔ مذہب کے نام پر جو تعلیمی ادارے لاکھوں کی تعداد میں چلائے جا رہے ہیں۔ ان کے اندر تک حکومت کی رسائی نہیں۔ کیا گارنٹی ہے کہ طلبہ اور اساتذہ کے علاوہ یہاں کوئی نہیں رہ رہا؟ واہگہ پر جو دھماکہ ہوا تھا اس میں ملوث ایک شخص رات کو ایک مذہبی تعلیمی ادارے میں چھپا تھا۔ہر شخص دہشت گردی کے خلاف کیسے کھڑا ہو؟ کھڑا ہو کر کیا کرے؟ پھر فرماتے ہیں ’’ہمیں دیکھنا ہو گا کہ شرارت کہاں سے ہو رہی ہے؟‘‘ تین سال سے آپ وزیر ہیں۔ ابھی تک کیوں نہیں دیکھا کہ شرارت کہاں سے ہو رہی ہے؟ کب دیکھیں گے؟
اور اب ایک ٹاسک فورس! نیشنل ایکشن پلان کے ’’نفاذ کی نگرانی‘‘ کے لیے ٹاسک فورس بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ وزیر اعظم کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں ہوا۔
گویا، سخت موٹی کھال والے کچھوے کے اوپر، ایک اور زرہ ڈال دی گئی۔ وہ تو پہلے ہی رینگ رہا تھا۔ یوں کہ چیونٹیاں اس سے آگے نکلتی جا رہی تھیں۔ نیشنل ایکشن پلان کا حشر کیا ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں، جو رپورٹ اس ضمن میں پیش ہوئی اس کے مطابق:
:1 نیشنل ایکشن پلان کے 20میں سے آٹھ نکات پر عمل درآمد سست روی کا شکار ہے۔
:2 کالعدم تنظیمیں پھر سے نام بدل کر کام کر رہی ہیں۔
:3 فوجی مقدمات تیزی سے نمٹانے پر صوبے سفارشات پیش نہ کر سکے۔
:4 دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ روکی نہ جا سکی۔
:5 فرقہ واریت پر قابو پانے میں ناکامی ہوئی۔
:6 بلوچستان کے فراری قومی دھارے میں نہ لائے جا سکے۔
:7 فاٹا اصلاحات پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔
:8 افغان مہاجرین کا عمل سست روی کا شکار ہے۔
:9 سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے ہونے والے معاملات کو کنٹرول نہیں کیا جا سکا۔
مگر ابھی ماتم نہ شروع کیجیے۔ پہلے یہ سن لیجیے کہ تمام متعلقہ محکمے، جو اوپر بیان کی گئی نو ناکامیوں کے ذمہ دار ہیں۔ ان کے سینئر نمائندوں کو ٹاسک فورس میں شامل کر دیا گیا ہے۔ یعنی وہ خود ہی اپنا محاسبہ کریں گے۔ آئندہ ہفتے اسی حوالے سے ایک اور ’’اہم‘‘ اجلاس ہو گا۔ حسنِ ظن یہ ہے کہ اس ہونے والے اہم اجلاس میں چائے یا لنچ کی تفصیلات طے کرنے کے لیے ایک اور کمیٹی کا، اس وقت، اجلاس ہو رہا ہو گا!
مجوزہ ٹاسک فورس کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے اور اس کی رفتار تیز کرنے کے لیے ایک اور کمیٹی، یا سب کمیٹی یا ایک اور ٹاسک فورس کب بنے گی؟ انتظار کیجیے! اس ضمن میں بھی مایوسی نہیں ہو گی۔ انشاء اللہ!
یہ تو تھا حکومت کا قصہ! اب بزعمِ خود، مستقبل کے حکمران کا، اس ضمن میں، رویہ دیکھیے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ ’’گزشتہ تین ماہ سے افغان مہاجرین کو ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری ہے، اسے فوری طور پر بند ہونا چاہیے‘‘۔عمران خان کو خبریں دیر سے ملتی ہیں، یوں لگتا ہے وہ خبر جو پوری قوم کو عرصہ سے معلوم تھی، عمران خان کو اب معلوم ہوئی ہے۔ افغان مہاجرین کی کثیر تعداد نے پاکستان کے قومی شناختی کارڈ بنوا رکھے ہیں۔ کچھ تو سرکاری محکموں میں ملازمتیں بھی کر رہے ہیں۔ متعلقہ وفاقی وزیر نے کچھ ہفتے پہلے کہا تھا کہ دس لاکھ ملازمتوں پر افغان قابض ہیں۔ مگر عمران خان کو شناختی کارڈوں والی بات اب معلوم ہوئی؛ چنانچہ انہوں نے کہا ہے کہ افغانوں کو ہراساں نہ کیا جائے۔ دیکھا! سیاسی لیڈر کی دور اندیشی! لاکھوں افغانوں کے ووٹ، تحریکِ انصاف کو دلوانے کے لیے زبردست حکمتِ عملی!!
عمران خان کو یہ تو معلوم ہی نہ ہو گا کہ صوبے کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کا اس ضمن میں کیا مؤقف ہے۔ تین دن پہلے، بلوچستان کے سابق وزیر ڈاکٹر عبدالمالک نے پرویز خٹک کے اس مؤقف کی حمایت کی ہے کہ ’’جتنا جلد ممکن ہو، افغان مہاجرین سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے‘‘۔
پشاور کی تاجر برادری نے حال ہی میں ایک باقاعدہ احتجاجی جلوس نکالا۔ اس موقع پر مظاہرین ’’گو افغان گو‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ پشاور کے تاجروں کے نمائندہ مومن خان کا کہنا ہے کہ جرائم میں زیادہ تر یہی لوگ ملوث ہیں۔ یہ پاکستان مخالف بیرونی طاقتوں کے لیے جاسوسی بھی کر رہے ہیں!
یہ ہے انداز، جس سے ملک چلایا جا رہا ہے۔ ایک سیدھا سادہ سا سوال ہے: کیا زرداری صاحب اپنی شوگر ملیں، وزیر اعظم صاحب اپنے کارخانے اور عمران خان ہسپتال اور یونیورسٹی، اس طرح چلا رہے ہیں؟ آہ! یہ بحری جہاز! جس کی کسی کو پروا نہیں۔

Wednesday, August 10, 2016

کاش! مہاتیر اور نیلسن منڈیلا کی طرح۔۔۔۔

کیا آپ نے غور کیا ہے کہ دنیا کے جن ملکوں کو ہم بالکل لائق توجہ نہیں سمجھتے‘ کبھی کبھی ان کے بارے میں بھی جاننے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ ایسا ہی دنیا کا ایک خطہ کیریبین 
(Caribbean)
 ہے۔ ساری دنیا سے الگ‘ امریکی ریاست فلوریڈا کی ناک کے نیچے‘ خلیج میکسیکو کے مشرق میں‘ بحر اوقیانوس کے گھٹنوں کے پاس! آپ نے کئی ملکوں کا نام اکثر سنا ہو گا۔۔۔ کیوبا‘ ہیٹی‘ جمیکا‘ جزائر بہاما وغیرہ، یہ سب کیریبین کے خطے میں ہیں۔ ان میں سے انگریزی بولنے والے ملکوں نے مشترکہ کرکٹ ٹیم بنا رکھی ہے جسے ویسٹ انڈیز کی ٹیم کہا جاتا ہے۔ اگر یہ ٹیم جیت جائے تو پاکستانی اسے کالی آندھی کہہ کر دل کا غبار نکالتے ہیں۔
ایک ملک اس خطے میں ڈومِنیکن 
(Dominican) 
ریپبلک بھی ہے۔ ایک کروڑ آبادی میں پانچ چھ لاکھ مسلمان ہیں۔ وہ بھی زیادہ تر مسلمان ملکوں سے آئے ہیں! ایلکس مارل اسی ڈومنیکن ریپبلک میں پلا بڑھا۔ پھر امریکہ چلا آیا۔ نیو یارک کی سینٹ جان یونیورسٹی کے شعبہ فوٹو گرافی نے اسے اپنی بانہوں میں جکڑ لیا۔ یوں کہ اعلیٰ تعلیم فوٹو گرافی میں حاصل کی۔ پھر یہیں پروفیسر تعینات ہو گیا۔
ایلکس مارل کا شمار اس وقت دنیا کے مشہور فوٹو گرافروں میں ہوتا ہے۔ اس فن سے لگائو رکھنے والا شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس نے ایلکس مارل کا نام نہ سنا ہو۔
ترکی سے لے کر ہیٹی تک‘ نیو یارک سے لے کر یورپ اور جاپان تک ہر جگہ اس کی تصویروں کی نمائش لگ چکی ہے۔ وہ یونیورسٹی کی جان ہے۔ اس کے طالب علم اس کے اردگرد یوں بھنبھناتے رہتے ہیں جیسے اس کے جسم پر گُڑ کا شیرہ 
 گرا ہوا ہو۔ اس کی کلاس ایک بار اٹنڈ کرنے والا طالب علم 
ہمیشہ کے لیے فوٹوگرافی  کی دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے 
ایلکس کی تربیت خاص ماحول میں ہوئی۔ ماں نے خاندان کی اہمیت ذہن میں راسخ کی۔ باپ سماجی ذمہ داریوں پر زور دیتا تھا۔ اسی تربیت کا اثر ہے کہ ایلکس نے تارکین وطن، خاندانی انتشار اور زلزلوں سے ہونے والی تباہی کو اپنی فوٹو گرافی کا موضوع بنایا۔
کہاں کیریبین کے دور افتادہ جزیرے ! کہاں ایلکس مارل جس کی کئی پشتوں میں اسلام تو دور کی بات ہے‘ ایشیا سے تعلق بھی مفقود ہے! اور کہاں فتح اللہ گولن کی تحریک ’’خدمت‘‘ ! ظفر اقبال کی سطر ذہن میں چمکنے لگی ہے    ع
کہاں کا پھول تھا لیکن کہاں پر آ کِھلا ہے
افسوس! پہلا مصرع نہیں یاد آ رہا۔ نہ ہی ظفر اقبال کا مجموعۂ کلام ’’غبار آلود سمتوں کا سراغ‘‘ اس وقت موجود ہے۔ کلیات ’’اب تک‘‘ کی چاروں جلدیں ظفر اقبال صاحب نے کمال محبت سے عطا کی تھیں۔ چاروں آسٹریلیا‘ اپنے صاحبزادے کی لائبریری میں رکھ آیا جو شدید اینٹی ظفر اقبال ہے۔ مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ پڑھے اور ’’راہِ راست‘‘ پر آئے‘ وہاں دیگر کتابوں کے ساتھ یہ بھی اس لیے ذخیرہ کی ہیں کہ ضرورت پڑے تو پریشانی نہ ہو۔ مگر پریشانی اب یہاں پاکستان میں ہو رہی ہے۔ پہلا مصرع یاد نہیں آ رہا۔ اب کلیات کا دوسرا سیٹ مانگنے سے تو رہا۔ ہاں‘ یہ دلگداز سطریں پڑھ کر ان کا جہاندیدہ دل پسیج اٹھے تو اور بات ہے؛ اگرچہ وہ تعجب کا اظہار کر سکتے ہیں کہ اس ’’لڑکے‘‘ کو تمام کتابیں دی ہیں مگر اب اس کی طمع دو دو نسخے ہتھیانے پر اتر آئی ہے۔’’لڑکے‘‘ کا قصّہ یہ ہے کہ جب ’’آبِ رواں‘‘ اور ’’گلا فتاب‘‘ حفظ ہوئیں (کی نہیں تھیں بس ہو گئی تھیں) تو لڑکپن ہی تو تھا!     ع
کہاں کا پھول تھا لیکن کہاں پر آ کھلا ہے
ایلکس’’خدمت‘‘ کے بارے میں رقم طراز ہے: 
کچھ سال پہلے میں’’خدمت‘‘ سے متعارف ہوا۔ ترکی کی یہ سماجی تحریک تعلیمی سرگرمیوں‘ بین المذاہب مکالمے اور عالمی سطح پر قدرتی آفات کے دوران امداد مہیا کرنے کے لیے معروف ہے۔ میرا اپنا کام بھی تعلیم سے تعلق رکھتا ہے اور میری فوٹو گرافی میں ذاتی اور معاشرتی ملاپ کا پہلو نمایاں ہے۔ جنوری سے لے کر اب تک میں’’خدمت‘‘ کی سرگرمیوں کو اپنے فن کے ذریعے محفوظ کرتا آتا ہوں، لیکن زیادہ دلچسپی مجھے اس تحریک میں شامل لوگوں کے بارے میں واقفیت حاصل کرنے سے ہے‘‘۔
ایلکس ’خدمت‘ سے متعارف ہونے والا تنہا غیر مسلم نہیں۔ پوری دنیا میں ہزاروں غیر مسلم اس تحریک کی بدولت ترکی سے اور مسلمانوں سے متعارف ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں!
ایک محتاط اندازے کے مطابق فتح اللہ گولن کے ’’متاثرین‘‘ کی تعداد دو لاکھ اور چالیس لاکھ کے درمیان ہے۔ دی گارڈین نے 2000ء میں اس کے حامیوں کی تعداد’’ہزاروں لاکھوں‘‘ میں بیان کی تھی۔ تحریک کا ڈھانچہ سخت نہیں بلکہ لچکدار ہے۔ تحریک کی کامیابی کا راز ہی یہ ہے کہ جدید تقاضوں کے مطابق‘ ہر ملک کے قوانین اور ثقافتی اقدار کی پابندی کی جاتی ہے۔ یہ جدید و قدیم کا ایک غیر متعصب امتزاج ہے۔ آپ ’خدمت‘ میں رہ کر سلطنت عثمانیہ اور جدید کمال ازم‘ دونوں کی مثبت خصوصیات بہم آمیز کر سکتے ہیں۔ 2008ء میں نیدر لینڈ (جسے ہالینڈ بھی کہا جاتا ہے) کی پارلیمنٹ کے اٹھائے گئے سوالات کے نتیجہ میں‘ وہاں کی حکومت نے ’خدمت‘ کی سرگرمیوں کی تفتیش کی۔ نیدر لینڈر کی حکومت اس نتیجہ پر پہنچی کہ تحریک کا مذہبی انتہا پسندی سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی مقامی معاشرے میں مسلمانوں کے خلط ملط ہونے کے خلاف ہے۔ تفتیش نے تحریک کے ارکان کو ’’سوسائٹی میں انتہائی کامیاب‘‘ قرار دیا!
صدر اردوان نے ترکی کی ترقی اور استحکام کے لیے قابلِ قدر کاوشیں کی ہیں‘ مگر توازن ان کے ہاتھ سے چھوٹ کر دور جاگرا ہے۔ اگر مبینہ کرپشن اور اقربا پروری کو ایک طرف رکھ دیں‘ تب بھی جس طرح ہزاروں افراد کو ملازمتوں سے برخواست کیا جا رہا ہے اور جیل میں بند کیا جا رہا ہے‘ اس سے ان کے تدبّر کی نفی ہوتی ہے۔ اگر ترکی میں ہزاروں لاکھوں لوگ ’’دہشت پسند‘‘ ہیں تو پھر ترکی کا خدا ہی حافظ ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے پاکستان میں پیپلز پارٹی یا نون لیگ یا تحریک انصاف کے ہزاروں ارکان غدّار یا دہشت پسند قرار دے کر پسِ دیوار زنداں دھکیل دیے جائیں۔ لاکھوں لوگ اردوان کی حمایت میں باہرنکل آئے مگر اس سے کئی گناہ زیادہ تعداد باہر نہیں نکلی۔ مسلمانوں کی یہ کمزوری ہمیشہ ان پر غالب رہی ہے کہ وہ لیڈر کو یا تو فرشتہ سمجھ لیتے ہیں یا شیطان! خوبیوں اور خامیوں کو بیک وقت جانچنا مسلمانوں کے خمیر ہی میں نہیں! یوں لگتا ہے ایک متوازن جانچ ان کی ذہنی سطح کے بس میں نہیں۔ اورنگزیب عالم گیر اس رویے کی بہت مناسب مثال ہے۔ برّصغیر کے مسلمانوں کی کثیر تعداد اسلامی احیا کا سہرا اس کے سر باندھتی ہے جبکہ اسے کم و بیش ولایت کے درجے پر بٹھانے والے یہ ماننے کے لیے بالکل نہیں تیار کہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے اس نے ہر وہ حیلہ استعمال کیا جو استعمال ہو سکتا تھا۔ اپنے بھائی مراد کو اس نے صریحاً دھوکہ دیا۔ معروف مورخ خافی خان کے بقول اس نے مکر و فریب سے بھرا ہوا خط مراد کو لکھا کہ ’’ میں تو بس تمہیں تخت پر بٹھانا چاہتا ہوں اور خود ایک گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر اپنے آپ کو عبادت کے لیے وقف کر دینا چاہتا ہوں۔‘‘ پھر اس نے دھوکے سے مراد کو گرفتار کر کے گوالیار قلعے میں قید کر دیا۔ پھر ایک ’’مدعی‘‘ تلاش کیا گیا جس کے باپ کو مراد نے قتل کروایا تھا۔ پھر قاضی سے’’انصاف‘‘ مانگا گیا اور یوں مراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
صدر اردوان ایک انسان ہیں، فرشتہ نہیں! وہ جب ’خدمت‘ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں تو ہنسی آ جاتی ہے! جس کسی نے ’خدمت‘ کو قریب سے دیکھا ہے وہ اس الزام کو مان ہی نہیں سکتا کیونکہ ’خدمت‘ امن اور مکالمے کی بہت بڑی علمبردار ہے۔ یوں بھی بغاوت کرنے والے اپنے آپ کو پیس ایٹ ہوم کمیٹی 
(Peace at Home Committee)
 سے منسوب کر رہے تھے۔ تاریخ کا ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ ’’پیس ایٹ ہوم‘‘ اتاترک کی اصطلاح تھی، اس کا گولن سے کوئی تعلق نہیں!
دنیا بھر کے غیر جانبدار دانشور‘ جن کی اکثریت غیر مسلموں پر مشتمل ہے ’خدمت‘ کو اعتدال پسند‘ تشدد سے دور اور مکالمے کا خواہش مند قرار دے رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ تحریک سیاسی ہے نہ مذہبی‘ بلکہ سماجی ہے۔ تعلیم اور بین المذاہب بات چیت خدمت کی شناخت بن چکے ہیں۔ جو مسلمان‘ اردوان کی اندھی محبت میں ’خدمت‘ کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں‘ کیا وہ ’خدمت‘ کے بجائے القاعدہ یا داعش کو اسلام کی نمائندہ تحریک قرار دینا چاہتے ہیں؟
اردوان چار سال استنبول کے میئر رہے۔ بے مثال کامیابیاں حاصل کیں۔ انہوں نے زبردست اصلاحات کیں، وہ عوام کی آنکھ کا تارا بن گئے۔ پھر 2014ء تک گیارہ سال وزیر اعظم رہے اور اپنے کارکنوں کی وجہ سے تاریخ میں تابناک مقام حاصل کیا۔ لیکن کوئی بھی لیڈر‘ خواہ فرشتہ ہی کیوں نہ ہو‘ طویل عرصہ اقتدار میں رہے تو خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ حد سے زیادہ خود اعتمادی غلطی پر غلطی کرائے جاتی ہے۔ پولیس‘ آرمی‘ عدلیہ‘ بنکاری‘ شعبہ تعلیم اور صحافت سے ہزاروں افراد کو نکال باہر کر دیا گیا ہے۔ اس کا ردِّ عمل ہو گا اور ضرور ہو گا! صدر اردوان نے اپنے چلنے کے لئے ایک تنی ہوئی رسی کا انتخاب کیا ہے۔ دیکھیے‘ جس واقعہ نے پیش آنا ہے‘ کب پیش آتا ہے؟ کاش! وہ مہاتیر اورنیلسن منڈیلا کی طرح اُس وقت اقتدار سے الگ ہو جاتے جب عروج پر تھے۔

Monday, August 08, 2016

گیارہ ڈالر کا بیگ

پاتھ لائٹ سنگاپور کا ایک تعلیمی ادارہ ہے۔ اس میں ان بچوں کے ٹیلنٹ کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو نفسیاتی حوالے سے نارمل نہ ہوں۔ بعض بچے توجہ مرتکز نہیں کر سکتے یا کسی اور ذہنی مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پاتھ لائٹ میں ان بچوں کو فنونِ لطیف کی طرف مائل کیا جاتا ہے۔
انیس سالہ شنگ جی انہی بچوں میں شامل ہے۔ وہ توجہ مرتکز نہیں کر سکتا۔ دھیان بکھر جاتا ہے۔ جانے اس کے ذہن میں کیسی گرہ ہے کہ وہ صرف ڈائنوسار بنا سکتا ہے اور ان کی مصوری کر سکتا ہے۔ ان تصویریوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سکول ان سے بیگ، پرس، کاپیاں اور کارڈ بناتا ہے۔ انہی میں سے ایک ہینڈ بیگ سنگاپور کی خاتونِ اوّل ہوچنگ نے آن لائن گیارہ ڈالر میں خریدا۔ پاکستانی حساب سے یہ رقم گیارہ بارہ سو روپے بنتی ہے۔
سنگاپور کے وزیر اعظم کی بیگم ہوچنگ صرف خاتونِ اوّل ہونے کی وجہ سے معروف نہیں۔ بذاتِ خود ان کی شہرت اور اہمیت مسلمہ ہے۔ ہوچنگ نے نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور سے 1976ء میں الیکٹریکل انجینئرنگ میں گریجوایشن کی۔ اسی مضمون میں امریکہ کی سٹین فورڈ یونیورسٹی سے ماسٹر کیا۔ انجینئر کے طور پر سنگاپور کی وزارت دفاع میں ملازمت کا آغاز کیا۔ مختلف محکموں، اداروں اور کمپنیوں کی چھلنی سے ہوتے ہوئے، اڑھائی عشروں کی محنت کے بعد 2002ء میں وہ مشہور کمپنی ’’تماسک‘‘ میں ڈائرکٹر کے عہدے پر کام کرنے لگی۔ وہ چیف ایگزیکٹو آفیسر بنا دی گئی۔ اس عام سی کمپنی کو اس نے بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ آج ’’تماسک‘‘ دوسو پندرہ ارب ڈالر کا کاروبار کر رہی ہے۔ ہوچنگ کی تعلیم اور کیریئر کا یہ مختصر ذکر، ایک خاص مقصد کے لیے کیا جا رہا ہے جس کی وضاحت آگے چل کر ہو گی۔ یہ بھی یاد رہے کہ ہوچنگ کا شوہر، سنگاپور کے شہرۂ آفاق رہنما ’’لی‘‘ کا بیٹا ہے۔
اگست کے دوسرے دن وزیر اعظم لی (جونیئر) اور اس کی بیگم ہوچنگ سرکاری دورے پر واشنگٹن پہنچے۔ امریکی صدر اور اس کی بیگم کے ساتھ جب ان کی تصویریں امریکی اور عالمی میڈیا پر آئیں تو ہنگامہ برپا ہو گیا    ع
تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں
سنگاپور کی خاتون اوّل کے ہاتھ میں جو بیگ (پرس) تھا وہ، وہی بیگ تھا جو گیارہ ڈالر میں پاتھ لائٹ آرٹ سکول سے خریدا گیا تھا! عالمی میڈیا ایک عجیب و غریب شے ہے جس کی مثال ماضی کی ساری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ سکول کا نام چند گھنٹوں میں پوری دنیا کی زبان پر تھا۔ چوبیس گھنٹوں میں نفسیاتی عارضے میں مبتلا انیس سالہ شنگ جی کے ڈیزائن کردہ دو سو بیگ فروخت ہوئے۔ ڈیمانڈ مسلسل بڑھ رہی ہے۔
بیگم لی نے یہ بیگ امریکہ کے سرکاری دورے کے دوران کیوں استعمال کیا؟ اس کی صرف دو وجوہ ممکن ہیں۔ ہوچنگ کو اس بات کی مطلق پروا نہیں تھی کہ بیگ قیمتی ہے یا بالکل عام! اس کے نزدیک بیگ کی مالیت کا مسئلہ ذرہ بھر اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ ایک لاکھ ڈالر کا پرس ہاتھ میں پکڑے یا گیارہ ڈالر کا، وہ ہوچنگ ہی رہے گی! اصل کامیابی یہ ہو گی کہ دورے کے درمیان بات چیت کیا ہوتی ہے؟ وہ سیکھتی کیا ہے اور بطور خاتون اوّل اپنے ملک سنگاپور کے لیے کون کون سے فوائد سمیٹ سکتی ہے۔ وہ اس بیگ کو روٹین میں لے کر گئی۔
اگر یہ وجہ تھی تو اس میں ہمارے لیے سبق ہے اور عبرت بھی۔ ہماری جاگیردار وزیر خارجہ بھارت گئیں تو ان کے حد درجہ قیمتی بیگ، گھڑی اور دھوپ کے چشمے کی وجہ سے بھارت میں تہلکہ مچ گیا۔ مگر سفارتی فرنٹ پر ملک کو کیا ملا؟ اس کا جواب ہم سب کو معلوم ہے۔ ہمارے وزیر اعظم امریکہ گئے تو معلوم ہوا اپنے باورچی ساتھ لے کر گئے۔ انہوں نے یقیناً اپنی وہ قیمتی گھڑی بھی باندھ رکھی ہو گی جس کا شہرہ بہت ہوا تھا۔ مگر مودی کے مقابلے میں ان کی کارکردگی کا ہم سب کو علم ہے۔
اعلیٰ تعلیم اور ملازمت کرنے سے انسان کے ذہن میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ ’’تماسک‘‘ کے سربراہ کی حیثیت سے ہوچنگ جتنی تنخواہ لیتی ہوگی ہو سکتا ہے اس کے تصور ہی سے سر چکرانے لگے۔ مگر ہوچنگ کی ترجیح قیمتی اشیا کی خریداری نہیں، بلکہ یہ اطمینان حاصل کرنا ہے کہ وہ چیف ایگزیکٹو آفیسر کے طور پر کامیابی حاصل کر رہی ہے۔ فرض کیجیے، زرداری صاحب بلاول کو برطانیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کسی کمپنی میں، کسی بینک میں یا کسی ملکی وزارت میں ملازمت کرواتے تو کیا اس کا وژن وہی ہوتا جو آج ہے؟ بارک اوباما کی بیٹی ایک ریستوران میں کام کر رہی ہے جہاں وہ میز بھی صاف کرتی ہے، گاہکوں کو کھانا بھی پیش کرتی ہے اور باس کو باس بھی سمجھتی ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ اوباما اپنے بچوں کو اقتدار کی بیساکھی پر چلنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اقتدار ختم ہو جائے گا مگر ریستوران میں کام کرنے کا تجربہ اس لڑکی کے ساتھ ہمیشہ رہے گا۔ یہ تجربہ کئی سو کتابیں پڑھ کر بھی نہیں حاصل ہو سکتا! وہ چھلنیوں سے گزرے گی۔ زندگی کی دھوپ اور چھائوں برداشت کرے گی! ایک ترتیب سے، ایک ضابطے کے تحت اوپر جائے گی۔ یہ عروج اوباما کے ریٹائر ہونے سے نہیں متاثر ہو سکتا۔ اس کی قدر و قیمت اپنی ہے۔ آج اگر اوباما کی بیٹی بھی وائٹ ہائوس میں بیٹھ کر غیر ملکی سفیروں سے ملاقات کرنے لگے تو یہ عروج عارضی ہوگا۔ اوباما ریٹائر ہو جائے گا تو پھر کون سا وائٹ ہائوس؟ کون سے سفیر؟ ایک سابق صدر یا سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی سے سفیر کیوں ملیں گے؟ جو ’’کامیابی‘‘ کسی بیساکھی کے سہارے ملتی ہے وہ کامیابی نہیں ہوتی۔
ہوچنگ نے پاتھ لائٹ آرٹ سکول کا بنا ہوا گیارہ ڈالر والا پرس واشنگٹن کے سرکاری  دورے میں کیوں ساتھ رکھا؟ اس کا دوسرا سبب یہ ہو سکتا ہے کہ ہوچنگ اپنے ملک کے ’’خصوصی‘‘ بچوں کے لیے اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہو۔ ممکن ہے اس کے ذہن میں یہ ٹارگٹ ہو کہ میرے ملک کا ایک سکول مشہور ہو جائے۔ سنگاپور کے بچوں کی کارکردگی کی تشہیر ہو جائے۔ اگر یہ مقصد تھا تو اس میں بھی ہمارے لیے سبق ہے اور عبرت! کیا ہمارے رہنمائوں میں اتنا وژن ہے؟ کیا وہ اپنے تام جھام، تزک واحتشام اور طمطراق کی قربانی دے سکتے ہیں؟ نہیں! ہمیں اپنے لیڈروں کا مائنڈ سیٹ معلوم ہے۔ ان کے پروفائل ہمارے ذہنوں میں موجود ہیں۔ ہمیں معلوم ہے وہ کیا کریں گے؟ وہ گیارہ ڈالر کا بیگ ہی کیوں خریدیں؟ ہاں قائد اعظم ایسا کر سکتے تھے۔ مہاتیر ایسا کرتا تھا۔ وہ بیمار ہوا تو علاج ملک ہی میں کرایا۔ سنگاپور کا معمار وزیر اعظم لی یہی کچھ کرتا تھا۔ وصیت کر گیا کہ میرے مکان کو منہدم کر دیا جائے۔ اس کی مرمت پر وسائل کیوں ضائع ہوں، ڈیوڈ کیمرون یہی کچھ کرتا تھا۔
آپ نے اوپر ہوچنگ کی تعلیم اور کیریئر کے بارے میں پڑھا۔ سنگاپور کی اکثر خواتین اتنی ہی تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ بڑے بڑے ادارے، بڑی بڑی بین الاقوامی کمپنیاں چلا رہی ہیں۔ 1980ء سے پہلے سنگا پور کے مردوں میں ان خواتین سے شادی کرنے کا رجحان عام تھا جو کم تعلیم یافتہ ہوں۔ اس کی تہہ میں مخصوص ایشیائی احساسِ کمتری تھا کہ بیوی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوئی تو شوہر کے برابر ہو جائے گی۔ لی نے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی۔ اس نے خواتین کی غالب تعداد کو یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم دلوائی۔ پھر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں سے کہا کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں سے شادیاں کریں۔ اسے معلوم تھا کہ مائیں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں تو ان کی تربیت یافتہ اولاد کی سوچ ان بچوں کی سوچ سے مختلف ہو گی جن کی مائیں ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ ہیں۔ لی کا یہ بھی کہنا تھا کہ خواتین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں گی تو پوری قوم کا آئی کیو
(I.Q)
 بلند ہو گا۔ نپولین کا قول مشہور ہے کہ ’’مجھے تعلیم یافتہ مائیں دو، میں گارنٹی دیتا ہوں کہ ایک مہذب تعلیم یافتہ قوم پیدا ہوگی‘‘۔
ویسے ایک اور زاویے سے دیکھیں تو ہنسی آتی ہے۔ یہ سنگاپور کی خاتون اوّل، ہوچنگ، کس خمیر سے بنی ہے! اسے دبئی میں محل خریدنے کا شوق ہے نہ نیویارک میں قیمتی اپارٹمنٹ کی مالکن بننے کی ہوس ہے۔ یہ بدقسمت خاتون آف شور کمپنیوں سے بھی 
بے نیاز ہے۔ ڈیزائنر بیگ کا شوق ہے نہ تازہ ترین ساخت والی گھڑی کا، جس میں ٹوٹتے شہابِ ثاقب کے ٹکڑے لگے ہوں۔ گیارہ ڈالر کا پرس پکڑے وائٹ ہائوس میں داخل ہو گئی۔ خاندان کی ناک کٹوا دی، ملک کی عزت خاک میں ملا دی! اس ذہنیت کے ساتھ ہمارے ہاں جنم لیتی تو وزیر اعظم تو کیا، وزیر اعظم کا کفش بردار بھی گھاس نہ ڈالتا    ؎
رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں کا 
رعیت آج بھی اک بادشاہ مانگتی ہے

 

powered by worldwanders.com