پولیس جانتی تھی کہ قاتل کہاں ہے مگر اس کے ہاتھ بندھے تھے!
وہ علاقے کے سب سے بڑے جاگیردار کی حویلی میں تھا۔ پولیس کیا کرتی! پولیس کے افسر کی، جو ضلع بھر کا سربراہ تھا، تعیناتی ہی جاگیردار نے کرائی تھی۔ ایس پی تھا یا اُس سے بھی اُوپر، ایک ٹیلی فون کال کی مار تھا۔
جاگیرداروں، وڈیروں اور زمینداروں کی حویلیوں میں قاتلوں کا چھُپ جانا اور پناہ لینا برصغیر کے معاشرے میں عام ہے۔ یہ ’’روایت‘‘ کم ہوئی ہے مگر ختم نہیں ہوئی۔ کتنے ہی ڈیروں میں آج بھی مجرم چھپے ہوئے ہوں گے اور وڈیرے، سندھ کے ہوں یا جنوبی پنجاب کے، یا بلوچستان کے سردار، ان کی حفاظت کر رہے ہوں گے۔ اس لیے کہ ان کے مفادات اِن مفروروں سے وابستہ ہیں۔
عالمی سطح پر اس غلیظ روایت کا آغاز برطانیہ نے کیا ہے۔ الطاف حسین برطانیہ کے ڈیرے میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ برطانیہ اُس جاگیردار کا رول ادا کر رہا ہے جس سے ہر امن پسند شہری نفرت کرتا ہے۔ شدید نفرت! ڈاکؤوں کی وہ قوم کلائیو جیسے بد معاش جس کے بزرگ ہوں، شرافت کا مظاہرہ کر بھی نہیں سکتی۔ کون سی دغابازی، عہد شکنی اور کون سی گھٹیا، نیچ حرکت ہے جو موجودہ برطانیہ کے آباواجداد نے برصغیر میں نہیں کی! نپولین نے انگریزوں کے بارے میں کہا تھا کہ یہ دکانداروں کی قوم ہے۔ غلط کہا، نپولین نے۔ اس نے دنیا بھر کے دکانداروں کی توہین کی۔ یہ دکانداروں کی نہیں، جھوٹوں، مکاروں اور پست ذہنیت اٹھائی گیروں کی قوم ہے!
اس بدمعاش وڈیرے کا کون سا مفاد اس مفرور شخص سے وابستہ ہے؟ اس نے اسے اپنے ڈیرے میں کیوں چھپایا ہوا ہے؟ اس لیے کہ الطاف حسین اور اس کے حواری ہر وہ جرم کرنے کے لیے تیار ہیں جس کا وڈیرہ حکم دے، یا جو وڈیرے کے مفاد میں ہو! معروف برطانوی اخبار گارڈین نے 29 جولائی 2013ء کی اشاعت میں اس کی شہادت دی۔
’’کراچی دنیا کے اُن چند مقامات میں سے ایک ہے جہاں امریکہ نے برطانیہ کو فری ہینڈ دے رکھا ہے۔ کراچی میں واقع امریکی کونسل خانہ شہر سے خفیہ اطلاعات
(intelligence)
حاصل کرنے کا کام نہیں کرتا! یہ کام برطانیہ کرتا ہے بین الاقوامی سیکورٹی کی سیاست بازی میں ایم کیو ایم کی برطانیہ کے لیے وہی اہمیت ہے جو پہاڑ پر چڑھتے وقت اُس جگہ کی ہوتی ہے جو پاؤں رکھنے کے لیے کوہ پیما کو ملتی ہے‘‘۔
الطاف حسین برطانوی آقا کو خوش رکھنے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ نائن الیون کے صرف دو ہفتے بعد الطاف حسین کی طرف سے برطانوی حکومت کو ایک خط موصول ہؤا۔ اس میں یہ پیش کش کی گئی کہ اگر برطانیہ چاہے تو وہ صرف پانچ دن کے اندر اندر کراچی کے گلی کوچوں میں لاکھوں افراد کو لا سکتا ہے جو دہشت گردی کی مذمت کریں گے۔ الطاف حسین نے اسی خط میں یہ پیش کش بھی کی کہ وہ طالبان کی جاسوسی کرانے کے لیے تیار ہے اور افغانستان کے اندر ایسے ورکر بھیج سکتا ہے جو جعلی شناخت رکھیں گے مگر در حقیقت مغربی ملکوں کی جاسوس تنظیموں کی مدد کریں گے۔
حسبِ معمول اس خط کے وجود سے ایم کیو ایم نے انکار کیا۔ وہ تو برطانیہ کے ’’فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ‘‘ کی مدد سے خط کے وجود کی تصدیق ہو گئی اور برطانوی وزارت خارجہ کو آخر کار تسلیم کرنا پڑا کہ اسے خط موصول ہوا ہے۔ کرائے کے اس قاتل کے سر پر، جسے مالی پشت پناہی ’’را‘‘ کی حاصل ہے، برطانیہ نے ہر موقع پر اپنا دست شفقت رکھا۔ مختلف پاکستانی حکومتوں نے برطانیہ سے الطاف حسین کی واپسی کا تقاضا کیا مگر برطانیہ اسے ڈیرے سے نکالنے پر تیار نہیں۔ 2002ء میں اس کو برطانوی پاسپورٹ دیا گیا۔ برطانوی میڈیا کے مطابق برطانوی حکام تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ایک غلط فیصلہ تھا۔ قانونی طور پر، اس میں سقم تھا۔ کبھی وہ اسے’’کلرک کی غلطی‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ بار بار پوچھے جانے کے باوجود برطانوی وزارت داخلہ یہ بتانے کے لیے تیار نہیں کہ وہ غلطی، وہ سقم، کیا تھا؟ برطانوی وزارت خارجہ کو پاکستان میں اثرو رسوخ درکار ہے۔ جب اُس کے ڈیرے میں پناہ لینے والے مجرم کی جیب میں پاکستان کے وفاقی اور صوبائی وزرا ہوں گے اور پاکستانی پارلیمنٹ میں اس مجرم کا ایک پورا گروہ ہو گا، تو اس سے بڑھ کر برطانیہ کے لیے اثر و سوخ کیا ہو سکتا ہے!!
برطانیہ منی لانڈرنگ کا مقدمہ لٹکائے جا رہا ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ برطانوی پولیس جو مریخ سے بھی مجرم پکڑ لاتی ہے اور زمین کے نیچے بھی کسی کو نہیں چھوڑتی، ابھی تک عمران فاروق کے قتل کا معاملہ پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچا سکی؟؟ یہ دو اور دو چار کی طرح واضح ہے۔ برطانیہ، بھارت کے ساتھ مل کر، الطاف حسین کی سرپرستی کر رہا ہے۔ وہ اسے ڈیرے سے نہیں نکال رہا۔ الطاف حسین کی لگام برطانیہ کے ہاتھ میں ہے۔ورنہ معروف صحافی اوون بینیٹ جونز کی وہ رپورٹ نشر کرنے سے بی بی سی انکار کیوں کرتا جس میں اوون بینیٹ جونز نے الطاف حسین کے جرائم پر روشنی ڈالی تھی؟
الطاف حسین نے پرسوں پاکستان کے بارے میں جو الفاظ استعمال کیے ہیں، انہیں نقل کرنے کی ہمت نہیں! پاکستان کے ساتھ ’’زندہ باد‘‘ کے سوا کوئی اور لفظ اس کرۂ ارض پر، اِس آسمان کے نیچے لگایا ہی نہیں جا سکتا۔ اس مفرور نے زندہ باد کے بجائے جو غلیظ لفظ مادرِ وطن کے لیے اپنی تھوتھنی سے نکالا ہے، اس پر اسے کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا! کوئی ایک پاکستانی بھی مادرِ وطن کو دی جانے والی گالی نہیں برداشت کر سکتا، ابھی اس ملک کے پٹھانوں، پنجابیوں، بلوچوں، کشمیریوں، سندھیوں میں اتنی غیرت موجود ہے کہ وہ گالی دینے والے کا منہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیں، اور اسے کیفر کردار تک پہنچائیں۔ اُردو بولنے والے پاکستانی حب الوطنی میں کسی سے کم نہیں! ان کی عظیم اکثریت اس سے متنفر ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان کے بارے میں اُس مکروہ لفظ کو کس طرح برداشت کر سکتے ہیں جو اس غدارِ وطن نے اپنے ناپاک دہانے سے نکالا ہے!
ارم فاروقی نے ایم کیو ایم کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر لاکھوں اُردو بولنے والوں کی نمایندگی کی ہے! ارم نے برملا کہا ہے کہ اس نے استعفیٰ الطاف حسین کی تقریر کے خلاف دیا ہے۔ رہے وہ گنے چنے افراد، جو ٹویٹر پر پاکستان زندہ باد کے الفاظ لکھ کر ٹوٹل پورا کر رہے ہیں تو ان کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ ان کی پاکستان سے دلچسپی ہی نہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ ویٹر سے ارب پتی بننے والوں کا مائنڈسیٹ کیا ہو گا اور کیسا ہو گا۔ ہیوسٹن سے لے کر لاس اینجلزتک بکھری ہوئی گراں بہا جائدادوں نے مڈل کلاس کے اِن سپوتوں کے ’’روشن‘‘ چہرے دنیا پر خوب عیاں کر رکھے ہیں۔ ان کی نیتیں کھری ہوتیں اور ان کے دلوں میں کھوٹ نہ ہوتا تو ٹویٹر پر ایک چالاک پیغام دینے کے بجائے ارم فاروقی کا راستہ اپناتے۔ مادرِ وطن کو گالی دینے والے سے تعلق توڑنے کا اعلان کرتے اور نام لے کر اس کی مذمت کرتے!
برطانوی میڈیا کی رُو سے جب جنرل پرویز مشرف نے این آر او کا ڈول ڈالا تھا تو الطاف حسین اس سے فائدہ اُٹھانے والوں میں سرِ فہرست تھا۔ این آر او نے اس پر چلنے والے 72 مقدمے ختم کیے تھے۔ ان میں 31 مقدمے قتل کے تھے۔ ایم کیو ایم نے آج تک برطانوی اخبارات سے اس اطلاع کی اشاعت پر احتجاج کیا نہ عدالت میں گئی۔
No comments:
Post a Comment