پاتھ لائٹ سنگاپور کا ایک تعلیمی ادارہ ہے۔ اس میں ان بچوں کے ٹیلنٹ کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو نفسیاتی حوالے سے نارمل نہ ہوں۔ بعض بچے توجہ مرتکز نہیں کر سکتے یا کسی اور ذہنی مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پاتھ لائٹ میں ان بچوں کو فنونِ لطیف کی طرف مائل کیا جاتا ہے۔
انیس سالہ شنگ جی انہی بچوں میں شامل ہے۔ وہ توجہ مرتکز نہیں کر سکتا۔ دھیان بکھر جاتا ہے۔ جانے اس کے ذہن میں کیسی گرہ ہے کہ وہ صرف ڈائنوسار بنا سکتا ہے اور ان کی مصوری کر سکتا ہے۔ ان تصویریوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سکول ان سے بیگ، پرس، کاپیاں اور کارڈ بناتا ہے۔ انہی میں سے ایک ہینڈ بیگ سنگاپور کی خاتونِ اوّل ہوچنگ نے آن لائن گیارہ ڈالر میں خریدا۔ پاکستانی حساب سے یہ رقم گیارہ بارہ سو روپے بنتی ہے۔
سنگاپور کے وزیر اعظم کی بیگم ہوچنگ صرف خاتونِ اوّل ہونے کی وجہ سے معروف نہیں۔ بذاتِ خود ان کی شہرت اور اہمیت مسلمہ ہے۔ ہوچنگ نے نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور سے 1976ء میں الیکٹریکل انجینئرنگ میں گریجوایشن کی۔ اسی مضمون میں امریکہ کی سٹین فورڈ یونیورسٹی سے ماسٹر کیا۔ انجینئر کے طور پر سنگاپور کی وزارت دفاع میں ملازمت کا آغاز کیا۔ مختلف محکموں، اداروں اور کمپنیوں کی چھلنی سے ہوتے ہوئے، اڑھائی عشروں کی محنت کے بعد 2002ء میں وہ مشہور کمپنی ’’تماسک‘‘ میں ڈائرکٹر کے عہدے پر کام کرنے لگی۔ وہ چیف ایگزیکٹو آفیسر بنا دی گئی۔ اس عام سی کمپنی کو اس نے بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ آج ’’تماسک‘‘ دوسو پندرہ ارب ڈالر کا کاروبار کر رہی ہے۔ ہوچنگ کی تعلیم اور کیریئر کا یہ مختصر ذکر، ایک خاص مقصد کے لیے کیا جا رہا ہے جس کی وضاحت آگے چل کر ہو گی۔ یہ بھی یاد رہے کہ ہوچنگ کا شوہر، سنگاپور کے شہرۂ آفاق رہنما ’’لی‘‘ کا بیٹا ہے۔
اگست کے دوسرے دن وزیر اعظم لی (جونیئر) اور اس کی بیگم ہوچنگ سرکاری دورے پر واشنگٹن پہنچے۔ امریکی صدر اور اس کی بیگم کے ساتھ جب ان کی تصویریں امریکی اور عالمی میڈیا پر آئیں تو ہنگامہ برپا ہو گیا ع
تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں
سنگاپور کی خاتون اوّل کے ہاتھ میں جو بیگ (پرس) تھا وہ، وہی بیگ تھا جو گیارہ ڈالر میں پاتھ لائٹ آرٹ سکول سے خریدا گیا تھا! عالمی میڈیا ایک عجیب و غریب شے ہے جس کی مثال ماضی کی ساری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ سکول کا نام چند گھنٹوں میں پوری دنیا کی زبان پر تھا۔ چوبیس گھنٹوں میں نفسیاتی عارضے میں مبتلا انیس سالہ شنگ جی کے ڈیزائن کردہ دو سو بیگ فروخت ہوئے۔ ڈیمانڈ مسلسل بڑھ رہی ہے۔
بیگم لی نے یہ بیگ امریکہ کے سرکاری دورے کے دوران کیوں استعمال کیا؟ اس کی صرف دو وجوہ ممکن ہیں۔ ہوچنگ کو اس بات کی مطلق پروا نہیں تھی کہ بیگ قیمتی ہے یا بالکل عام! اس کے نزدیک بیگ کی مالیت کا مسئلہ ذرہ بھر اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ ایک لاکھ ڈالر کا پرس ہاتھ میں پکڑے یا گیارہ ڈالر کا، وہ ہوچنگ ہی رہے گی! اصل کامیابی یہ ہو گی کہ دورے کے درمیان بات چیت کیا ہوتی ہے؟ وہ سیکھتی کیا ہے اور بطور خاتون اوّل اپنے ملک سنگاپور کے لیے کون کون سے فوائد سمیٹ سکتی ہے۔ وہ اس بیگ کو روٹین میں لے کر گئی۔
اگر یہ وجہ تھی تو اس میں ہمارے لیے سبق ہے اور عبرت بھی۔ ہماری جاگیردار وزیر خارجہ بھارت گئیں تو ان کے حد درجہ قیمتی بیگ، گھڑی اور دھوپ کے چشمے کی وجہ سے بھارت میں تہلکہ مچ گیا۔ مگر سفارتی فرنٹ پر ملک کو کیا ملا؟ اس کا جواب ہم سب کو معلوم ہے۔ ہمارے وزیر اعظم امریکہ گئے تو معلوم ہوا اپنے باورچی ساتھ لے کر گئے۔ انہوں نے یقیناً اپنی وہ قیمتی گھڑی بھی باندھ رکھی ہو گی جس کا شہرہ بہت ہوا تھا۔ مگر مودی کے مقابلے میں ان کی کارکردگی کا ہم سب کو علم ہے۔
اعلیٰ تعلیم اور ملازمت کرنے سے انسان کے ذہن میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ ’’تماسک‘‘ کے سربراہ کی حیثیت سے ہوچنگ جتنی تنخواہ لیتی ہوگی ہو سکتا ہے اس کے تصور ہی سے سر چکرانے لگے۔ مگر ہوچنگ کی ترجیح قیمتی اشیا کی خریداری نہیں، بلکہ یہ اطمینان حاصل کرنا ہے کہ وہ چیف ایگزیکٹو آفیسر کے طور پر کامیابی حاصل کر رہی ہے۔ فرض کیجیے، زرداری صاحب بلاول کو برطانیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کسی کمپنی میں، کسی بینک میں یا کسی ملکی وزارت میں ملازمت کرواتے تو کیا اس کا وژن وہی ہوتا جو آج ہے؟ بارک اوباما کی بیٹی ایک ریستوران میں کام کر رہی ہے جہاں وہ میز بھی صاف کرتی ہے، گاہکوں کو کھانا بھی پیش کرتی ہے اور باس کو باس بھی سمجھتی ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ اوباما اپنے بچوں کو اقتدار کی بیساکھی پر چلنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اقتدار ختم ہو جائے گا مگر ریستوران میں کام کرنے کا تجربہ اس لڑکی کے ساتھ ہمیشہ رہے گا۔ یہ تجربہ کئی سو کتابیں پڑھ کر بھی نہیں حاصل ہو سکتا! وہ چھلنیوں سے گزرے گی۔ زندگی کی دھوپ اور چھائوں برداشت کرے گی! ایک ترتیب سے، ایک ضابطے کے تحت اوپر جائے گی۔ یہ عروج اوباما کے ریٹائر ہونے سے نہیں متاثر ہو سکتا۔ اس کی قدر و قیمت اپنی ہے۔ آج اگر اوباما کی بیٹی بھی وائٹ ہائوس میں بیٹھ کر غیر ملکی سفیروں سے ملاقات کرنے لگے تو یہ عروج عارضی ہوگا۔ اوباما ریٹائر ہو جائے گا تو پھر کون سا وائٹ ہائوس؟ کون سے سفیر؟ ایک سابق صدر یا سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی سے سفیر کیوں ملیں گے؟ جو ’’کامیابی‘‘ کسی بیساکھی کے سہارے ملتی ہے وہ کامیابی نہیں ہوتی۔
ہوچنگ نے پاتھ لائٹ آرٹ سکول کا بنا ہوا گیارہ ڈالر والا پرس واشنگٹن کے سرکاری دورے میں کیوں ساتھ رکھا؟ اس کا دوسرا سبب یہ ہو سکتا ہے کہ ہوچنگ اپنے ملک کے ’’خصوصی‘‘ بچوں کے لیے اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہو۔ ممکن ہے اس کے ذہن میں یہ ٹارگٹ ہو کہ میرے ملک کا ایک سکول مشہور ہو جائے۔ سنگاپور کے بچوں کی کارکردگی کی تشہیر ہو جائے۔ اگر یہ مقصد تھا تو اس میں بھی ہمارے لیے سبق ہے اور عبرت! کیا ہمارے رہنمائوں میں اتنا وژن ہے؟ کیا وہ اپنے تام جھام، تزک واحتشام اور طمطراق کی قربانی دے سکتے ہیں؟ نہیں! ہمیں اپنے لیڈروں کا مائنڈ سیٹ معلوم ہے۔ ان کے پروفائل ہمارے ذہنوں میں موجود ہیں۔ ہمیں معلوم ہے وہ کیا کریں گے؟ وہ گیارہ ڈالر کا بیگ ہی کیوں خریدیں؟ ہاں قائد اعظم ایسا کر سکتے تھے۔ مہاتیر ایسا کرتا تھا۔ وہ بیمار ہوا تو علاج ملک ہی میں کرایا۔ سنگاپور کا معمار وزیر اعظم لی یہی کچھ کرتا تھا۔ وصیت کر گیا کہ میرے مکان کو منہدم کر دیا جائے۔ اس کی مرمت پر وسائل کیوں ضائع ہوں، ڈیوڈ کیمرون یہی کچھ کرتا تھا۔
آپ نے اوپر ہوچنگ کی تعلیم اور کیریئر کے بارے میں پڑھا۔ سنگاپور کی اکثر خواتین اتنی ہی تعلیم یافتہ ہیں۔ وہ بڑے بڑے ادارے، بڑی بڑی بین الاقوامی کمپنیاں چلا رہی ہیں۔ 1980ء سے پہلے سنگا پور کے مردوں میں ان خواتین سے شادی کرنے کا رجحان عام تھا جو کم تعلیم یافتہ ہوں۔ اس کی تہہ میں مخصوص ایشیائی احساسِ کمتری تھا کہ بیوی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوئی تو شوہر کے برابر ہو جائے گی۔ لی نے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی۔ اس نے خواتین کی غالب تعداد کو یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم دلوائی۔ پھر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں سے کہا کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں سے شادیاں کریں۔ اسے معلوم تھا کہ مائیں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں تو ان کی تربیت یافتہ اولاد کی سوچ ان بچوں کی سوچ سے مختلف ہو گی جن کی مائیں ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ ہیں۔ لی کا یہ بھی کہنا تھا کہ خواتین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں گی تو پوری قوم کا آئی کیو
(I.Q)
بلند ہو گا۔ نپولین کا قول مشہور ہے کہ ’’مجھے تعلیم یافتہ مائیں دو، میں گارنٹی دیتا ہوں کہ ایک مہذب تعلیم یافتہ قوم پیدا ہوگی‘‘۔
ویسے ایک اور زاویے سے دیکھیں تو ہنسی آتی ہے۔ یہ سنگاپور کی خاتون اوّل، ہوچنگ، کس خمیر سے بنی ہے! اسے دبئی میں محل خریدنے کا شوق ہے نہ نیویارک میں قیمتی اپارٹمنٹ کی مالکن بننے کی ہوس ہے۔ یہ بدقسمت خاتون آف شور کمپنیوں سے بھی
بے نیاز ہے۔ ڈیزائنر بیگ کا شوق ہے نہ تازہ ترین ساخت والی گھڑی کا، جس میں ٹوٹتے شہابِ ثاقب کے ٹکڑے لگے ہوں۔ گیارہ ڈالر کا پرس پکڑے وائٹ ہائوس میں داخل ہو گئی۔ خاندان کی ناک کٹوا دی، ملک کی عزت خاک میں ملا دی! اس ذہنیت کے ساتھ ہمارے ہاں جنم لیتی تو وزیر اعظم تو کیا، وزیر اعظم کا کفش بردار بھی گھاس نہ ڈالتا ؎
رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے عجز صدیوں کا
رعیت آج بھی اک بادشاہ مانگتی ہے
No comments:
Post a Comment