Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, August 14, 2016

گھر تو آخر اپنا ہے

قریشی صاحب سرکاری ملازم تھے۔ پاکستان ایئرفورس میں ایک باعزت عہدے پر فائز! سرکار کی طرف سے الاٹ شدہ گھروں ہی میں رہے۔ ہم نے کبھی نہ پوچھا کہ آبائی گھر کا کیا ہوا۔ زیادہ تر یہی ہوتا ہے کہ بِک کر ورثا میں بَٹ جاتا ہے۔ ایسا ہی ہوا ہوگا۔
ریٹائرمنٹ سے سال پہلے ایک قطعۂ زمین سرکار کی طرف سے عطا ہوا یا خود خریدا، پھر وہ اس کی تعمیر میں جُت گئے۔ جیسا کہ ہمارے ہاں عام طور پر ہوتا ہے، ایک ٹھیکیدار، عین وسط میں چھوڑ گیا۔ اس طبقہ کے لوگ عموماً یہی کرتے ہیں۔ بیچ منجھدار کے ایک کو چھوڑا، دوسرے کو پکڑا، دوسرے کو جل دے کر تیسرے کے ہاں کام شروع کر دیا۔ اس بے اصولی کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ اکثر بے برکتی کا شکار رہتے ہیں۔ قدرت کا ان دیکھا نظام انہیں ترقی نہیں کرنے دیتا۔ بہرطور قریشی صاحب نے رات دن ایک کر کے گھر مکمل کیا۔ اس میں منتقل ہوئے۔ ہم مبارک دینے گئے تو ایک فقرہ انہوں نے کہا ایسا کہ یادداشت کے رگ و ریشہ میں پیوست ہو کر رہ گیا۔ کہنے لگے، مسائل بہت سے ہیں۔ ایک کمرے کی دیواروں میں پانی آنے لگا ہے، بجلی کا کام تسلی بخش قطعاً نہیں ہوا۔ مگر جو کچھ بھی ہے، اپنا گھر ہے۔ کمبل اوڑھ کر، صوفے پر نیم دراز ہو کر ٹیلی وژن دیکھتا ہوں تو عجیب سا اطمینان کا احساس ہوتا ہے۔ خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔
ہم میں سے کتنے ہیں جو خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔ کتنوں کو احساس ہے کہ گھر اپنا ہے؟
بجا کہ ایک آدھ کمرے کی دیواروں میں پانی آ رہا ہے۔ درست کہ بجلی کا کام معیاری نہیں ہوا، ابھی گیٹ ٹھیک سے نصب نہیں ہوا، مگر خدا کے بندو! شکرادا کرو کہ گھر اپنا ہے۔ اس کے صحن میں کھڑے ہو کر اوپر دیکھو، یہ جو آسمان نظر آ رہا ہے، تمہارا اپنا ہے۔ یہ رات کو دمکتے ستارے تمہاری اپنی چھت سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ تمہیں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ سامان سمیٹو اور نکلو! قریشی صاحب کا فقرہ پلے باندھ لو: ’’صوفے پر نیم دراز ہو کر ٹی وی دیکھتا ہوں تو اطمینان کا احساس ہوتا ہے‘‘۔
مسائل ہیں اور رہیں گے! کون سا گھر ہے جس میں نہیں ہوتے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی تاریخ کا مطالعہ از حد ضروری ہے۔ جب بھی کسی نوجوان نے مشورہ مانگا، اسے دیگر موضوعات کے علاوہ تلقین کی کہ امریکہ کی تاریخ پڑھو۔ اس میں ہمارے لیے سبق کا سامان ہے۔ کون سا تاریک دور ہے جو اس ملک پر نہیں گزرا۔ وائلڈ ویسٹ (وحشی مغربی حصہ) کا دور گزارا۔ کیا خطرناک زندگی تھی۔ غسل کرتے وقت بھی بندوق پاس رکھنا ہوتی تھی۔ ریڈ انڈین کو کس طرح کنٹرول کیا (کون حق پر تھا اور کون غاصب، یہ الگ موضوع ہے۔) پھر آزادی کی جنگ لڑی۔ پھر خانہ جنگی مصیبت بن کر نازل ہوئی۔ اپنے ہی بھائیوں سے لڑنا پڑا۔ پھر 1930ء کی کسادبازاری آئی۔ نوکریاں ختم، نوبت فاقوں تک آئی۔ پھر جرائم کی ایک لہر آئی، اسے دھکیل کر پیچھے کرتے تو دوسری اس سے بھی بلند ہوتی۔ اغوا برائے تاوان عشروں تک طاعون بن کر چھایا رہا۔ مافیا ایک سے ایک بڑھ کر۔ قتل و غارت، سمگلنگ، قمار بازاری کے خفیہ ٹھکانے۔ سسلی کی انڈر ورلڈ نیویارک کے ساحلوں پر آن اتری۔ اب بھی مصیبتیں درپیش ہیں۔ یہ جو آئے دن کسی کلب میں گولی چلتی ہے، تو اس بے یقینی میں بھی ابھی تک اسلحہ پر پابندی نہیں لگا پا رہے۔ ان ساری مصیبتوں میں کبھی کسی نے نہیں کہا کہ بحرِ اوقیانوس پار کر کے کس مصیبت میں پڑ گئے۔ یورپ ہی میں اچھے تھے۔ ہم نے تو صرف نعرہ لگایا۔۔۔ سب سے پہلے پاکستان! امریکیوں نے یہ کر کے دکھایا۔ چینی ہے یا میکسیکو سے آیا ہوا، پہلے امریکی ہے۔ اسی لیے تو امریکہ کو 
Melting Pot
 کہا گیا۔ ایک بڑا دھاتی برتن! جو اس میں آتا ہے پگھل جاتا ہے۔ پھر امریکہ کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ آج کرۂ ارض پر امریکہ کا سکہ چلتا ہے۔ اس لیے کہ آج تک امریکی امریکی ہونے پر نہیں پچھتائے۔ کچھ سادہ لوح قارئین ای میلوں کے میزائل پھینکیں گے کہ امریکہ کی تعریف کیوں کی؟ ارے بھائی! تعریف نہیں کی! نہ ہی ان کی خارجہ پالیسی کی حمایت کی۔ اپنے ملک کی خاطر جو کچھ انہوں نے کیا، جس طرح حب الوطنی کو اوڑھنا بچھونا بنایا، اس سے سبق حاصل کرنے کی استدعا کی ہے!
14اگست شکر کا دن ہے۔ محاسبے کا بھی، دوسروں کا نہیں، اپنا محاسبہ! اپنا گریبان، اپنی چارپائی کے نیچے ڈانگ (لاٹھی) پھیرنے کا دن!
سب اچھا نہیں ہے۔ افغان بارڈر کھلا ہے، جیسے اژدہے کا منہ کھلا ہو! بلوچستان ہمارے گھر کا ایک کمرہ ہے۔ اس کی دیواروں میں پانی آنے لگا ہے۔ بچے اغوا ہو رہے ہیں، لوڈشیڈنگ ہے، مگر حکومتیں تو اپنی ہیں، عساکر تو اپنے ہیں۔ کاروبار تو پاکستانیوں کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ درست ہے ملازمتیں دیتے وقت، بعض کوتاہ نظر یہ دیکھتے ہیں کہ سائل سید ہے یا اعوان یا جاٹ یا پٹھان یا اردو بولنے والا، یا فلاں یا فلاں، مگر یہ تو کوئی نہیں کہتا کہ سالا مُسلا ہے، حساب کتاب میں کمزور ہے! نوکری اپنے کسی ہندو بھائی کو دو! برسبیل تذکرہ! تحریکِ پاکستان 
کی تاریخ آج کی نسل کو پڑھائو! وہ مسلمان جنہیں لالہ جی حساب کتاب میں کمزوری کا طعنہ دیتے تھے، انہی مسلمانوں نے 1946ء کی عبوری حکومت میں وزارت خزانہ چلائی اور چلا کر دکھائی۔ لیاقت علی خان وزیر خزانہ تھے، چوہدری محمد علی ان کے معاون! بجٹ ایسا بنایا کہ کانگرس کے چھکے چھوٹ گئے۔ کانگرس کی مالی پشت پناہی کرنے والے صنعت کاروں پر وہ ٹیکس لگائے کہ نانی یاد آ گئی۔
ایک بھارتی نووارد لڑکے کی آسٹریلیا میں ایک پاکستانی نوجوان سے دوستی ہو گئی۔ کچھ دن بعد اعتماد بڑھا تو بھارتی نوجوان نے بتایا کہ اس کے ماں باپ نے نصیحت کر کے بھیجا تھا کسی پاکستانی کے ساتھ رہنا نہ اس سے مدد طلب کرنا نہ راہ و رسم رکھنا! بالشت جتنا پاکستان اور ہاتھی جتنا بھارت! مگر پاکستان کا خوف لالہ جی کے دل کے نہاں خانے سے نہیں جا رہا۔ یہی کامیابی کیا کم ہے؟ نہیں! ہم جنگ نہیں چاہتے، حاشا و کلّا نہیں، ہمارے ہاں بال ٹھاکرے کی ذہنیت کے کچھ لوگ جو ہر وقت گولی اور بم کی بات کرتے ہیں، غلط ہیں! مگر بات اور ہو رہی ہے، پاکستان دنیا کے صفحے پر اپنا وجود یوں رکھتا ہے کہ بھارت کی آنکھ میں کھٹکتا ہے۔ اس لیے کہ تر نوالہ ثابت نہیں ہوا۔
ہم نے بہت کچھ حاصل کیا۔ ہماری بیلنس شیٹ میں صرف نقصان نہیں، منافع بھی ہے۔ اثاثے بھی ہیں۔ ہم یہ سبق سیکھ چکے ہیں کہ لشکری آمریت ہمارے لیے ہمیشہ رجعتِ قہقہری ثابت ہوئی ہے۔ بخت نے یاوری کی تو پرویز مشرف کی در اندازی اس کتاب کا آخری تاریک باب ہو گا۔ یہ بھی یاد رہے کہ ایوب خان کی بغاوت مسلمانانِ برصغیر کی پہلی عسکری بغاوت نہیں تھی۔ 1208ء میں قطب الدین ایبک کی تخت نشینی سے لے کر 1707ء میں اورنگ زیب عالم گیر کی وفات تک بہت کم ایسے فوجی کمانڈر تھے جنہوں نے دہلی کے خلاف بغاوت نہیں کی۔ اس پس منظر میں یہ سبق ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
سیاسی جماعتیں باہمی مخالفت کے باوجود یہ طے کر چکی ہیں کہ منتخب حکومت کو، جس کی بھی ہو، اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے۔ جمہوری استحکام کی جانب یہ ایک بڑا قدم ہے۔
ہم نے دفاعی پیدوار میں قابلِ ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ سپارکو اور 
NESCOM
 سے لے کر سنجوال، کامرہ اور ٹیکسلا تک صنعتی قصبے آباد ہیں اور سرگرمیوں سے بھرے ہیں۔ یونیورسٹیوں کی تعداد ملک میں اب کہیں زیادہ ہے۔ خواتین کی کثیر تعداد سائنس اور ٹیکنالوجی سے لے کر تعلیم اور ایڈمنسٹریشن تک، ہر میدان میں اپنی قابلیت کے جوہر دکھا رہی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ پراعتماد لڑکیاں لیپ ٹاپ اٹھائے جہازوں، ٹرینوں اور بسوں میں عام دکھائی دے رہی ہیں۔ ہائوسنگ سیکٹر نے قابلِ رشک ترقی کی ہے۔ جدید سہولیات سے مالا مال نئی آبادیاں اطراف و اکناف میں ابھر رہی ہیں۔ نجی شعبے نے صحت کے سیکٹر میں، ٹیلی فون اور ٹیلی ویژن کے شعبوں میں، ڈاک رسانی میں، آئی ٹی میں نئی منزلوں کو سر کیا ہے۔ لاکھوں خاندانوں کی صحت، خوراک اور تعلیم کا معیار پہلے سے بہتر ہوا ہے۔
وقتی طور پر خارجہ پالیسی ناکام ہے۔ امن و امان مخدوش ہے۔ دہشت گردی کے کچھ نوکدار دانت ابھی نکالے جانے ہیں۔ مگر یہ ناکامیاں حکومتوں کی ہیں، ریاست کی نہیں۔
دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے، گھر کی خاطر سو دکھ جھیلے، گھر تو آخر اپنا ہے!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com