یہ جمعرات کی شام تھی۔ سرحدی افغان قصبے سپن بولدک کے گلی کوچوں میں جلوس نکالا جا رہا تھا۔ افغان ’’آزادی‘‘ کی 97ویں سالگرہ تھی! دلچسپ بات یہ تھی کہ ’’آزادی‘‘ کے اس جلوس میں بینر اور پلے کارڈ جن لوگوں نے اٹھا رکھے تھے، ان پر پاکستان کے خلاف نعرے لکھے ہوئے تھے۔
پاکستان کے خلاف نعرے لگاتے لگاتے ان افغانوں نے ’’بابِ دوستی‘‘ پر چڑھائی کر دی۔ نعرے زیادہ بلند ہو گئے۔ پاکستانی سائڈ پر مودی کے خلاف احتجاج ہو رہا تھا۔ اچانک افغانوں نے ایک پاکستانی سے پاکستانی جھنڈا چھین لیا اور اسے نذرِ آتش کر دیا۔ پاکستانی حکام نے سرحد بند کر دی۔ دس سے پندرہ ہزار افراد روزانہ یہ سرحد دونوں طرف سے عبور کرتے ہیں۔ گاڑیوں کی ایک طویل قطار ہے جو سرحد کھلنے کا انتظار کر رہی ہے۔
پاکستانی جھنڈے کو جلا کر، دل میں بھڑکتی ہوئی پاکستان دشمنی کی آگ کو ٹھنڈا کیا گیا۔ نعرے کیوں لگے اور پاکستانی پرچم کی یہ دلخراش اور ناقابلِ برداشت توہین کیوں کی گئی؟ اس کی وجہ جاننے کے لیے امیر المومنین سیدنا علی المرتضیؓ کی چوکھٹ پر جانا پڑے گا۔ فرمایا: جس پر احسان کرو، اس کے شر سے بچو۔ پاکستانی قوم افغانوں پر 38سال سے احسان کر رہی ہے۔ کیا پاکستانی حکومتیں اور کیا پاکستانی عوام۔ سب نے احسان کیا۔ لاکھوں مہاجرین کو پناہ دی، پھر یہ پاکستان ہی تھا جس کی وجہ سے مختلف افغان گروہوں کو اسلحہ ملا اور ڈالر، جس کی وجہ سے وہ اس قابل ہوئے کہ روسیوں سے جنگ کر سکیں اور انہیں اپنے ملک سے نکال سکیں۔ روسی چلے گئے۔ پھر افغانوں نے آپس میں لڑنا شروع کر دیا۔ یہ خانہ جنگی اب تک جاری ہے۔ 38سال پہلے جو افغان پناہ گزین بن کر پاکستان آئے تھے، اب وہ یہاں مالک بن بیٹھے ہیں۔ واپس جانے کا نام نہیں لے رہے۔ خیمے میں گھسنے والے اونٹ کی کہانی، اِس کہانی کے سامنے کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔ ایک گھر میں مہمان آیا۔ ہفتے گزر گئے واپس جانے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ ایک دن مظلوم میاں بیوی نے، جو بدقسمتی سے میزبان تھے، تجویز سوچی۔ مہمان سے کہا کہ آئو چھلانگ چھلانگ کھیلتے ہیں۔ پہلے میاں نے گھر کی ڈیوڑھی میں کھڑے ہو کر باہر کی طرف لمبی چھلانگ لگائی اور گھر کے باہر جا گرا۔ پھر بیوی نے بھی ایسا ہی کیا۔ اب مہمان کی باری تھی۔ وہ باہر گیا اور باہر سے اندر کی طرف اتنی لمبی چھلانگ لگائی کہ گھر کے وسط میں آن گرا۔ اب پاکستانی قوم افغانوں کو واپس بھیجنے کے لیے باہر کی سمت چھلانگیں لگا رہی ہے مگر کوئی منصوبہ کارگر نہیں ہوتا۔ ڈالر لے کر کئی خاندان واپس جاتے ہیں اور دوبارہ آ جاتے ہیں۔ پاکستان کا ہر شہر، ہر قصبہ، ہر بازار، ہر ملازمت، ہر کاروبار، ان کی جولان گاہ بنا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ مقامی لوگوں کو دن دہاڑے قتل کر دیا جاتا ہے۔ وفاقی وزیر جنرل عبدالقادر بلوچ کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ دس لاکھ ملازمتوں پر افغانوں کا قبضہ ہے۔ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ عبدالمالک نے ایک ہفتہ پہلے کہا ہے کہ کوئٹہ شہر میں پاکستانی اب اقلیت میں ہیں اور افغان اکثریت میں ہیں۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ روس کے خلاف افغان جنگ میں صدر ضیاء الحق کا کود پڑنا ملکی بقا کے لیے ضروری تھا تب بھی صدر ضیاء الحق کا یہ جرم معاف نہیں کیا جا سکتا کہ سرحدی لکیریں مٹا کر، ملک کو افغانوں کی چراگاہ بنا دیا۔ آج ہی محمود اچکزئی نے کرنل امام کا حوالہ دیا ہے۔ کرنل امام نے، اچکزئی صاحب کے بقول، کہا تھا کہ ’’ہم‘‘ نے 95ہزار لوگوں کو جنگ کی تربیت دی اور شناختی کارڈ فراہم کیے کوئی اور ملک ہوتا تو جنرل ضیاء الحق اور اس کے ان سارے ساتھیوں کے خلاف مقدمہ چلایا جاتا جنہوں نے پاکستانی شناختی کارڈ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں افغانوں کو دیے!
کن افغانوں کو؟ وفا جن کی سرشت میں نہیں۔ احسان فراموشی جن کی گھٹی میں پڑی ہے۔ محسن کُشی جن کے خون میں رچی ہے۔ جو ملک اِن افغانوں کو ستر سال سے ادویات، آٹا، گوشت، گھی سے لے کر سیمنٹ تک، حتیٰ کہ بچوں کی کاپیاں تک فراہم کر رہا ہے، اُس ملک کے جھنڈے کو یہ احسان فراموش آگ لگا رہے ہیں۔ ع
تفو بر تو اے چرخ گردوں تفو!
اس سے بھی زیادہ المناک حقیقت یہ ہے کہ ملک میں ایک طبقہ اِن پاکستان دشمن افغانوں کے ساتھ ہے۔ اس طبقہ نے افغان مہاجرین کی چیرہ دستیوں کی کبھی مذمت کی نہ برا منایا مگر جب ان کی افغانستان واپسی کی بات ہوتی ہے تو اُٹھ کر واویلا مچانے لگتا ہے کہ نہیں نہیں، یہ ظلم نہ کرو! افغان مہاجرین کو واپس نہ بھیجو۔ دو طاقت ور مذہبی رہنما افغانوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو نفسیاتی ہے۔ چونکہ یہ حضرات پاکستان کے قیام کے مخالف تھے، اس لیے وہ پاکستانی سالمیت اور پاکستانی سرحدوں کے تقدس کے بارے میں سرد مہر ہیں۔ ستر سال جن حضرات نے قائدِ اعظم بانیٔ پاکستان کا نام تک لینا گوارا نہ کیا ہو، وہ غیر ملکیوں کی مداخلت کا کیا برا منائیں گے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ ایک لحاظ سے ان کے حلقہ ہائے اثر ہیں۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ یہ حضرات افغانوں کو شناختی کارڈ دلوانے میں سرگرم رہے ہیں۔ یہ سچ ہے یا محض الزام! اس کی حقیقت شاید کبھی بھی نہ معلوم ہو۔
ان میں سے ایک مذہبی رہنما نے کہا ہے کہ افغانستان کی صورت حال میں بہتری تک مہاجرین کو پاکستان میں رہنے کا حق دیا جائے۔ ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ افغانستان کی صورتِ حال سینکڑوں سال تک ابتر رہے گی اس لیے کہ گزشتہ سینکڑوں سال سے ابتر چلی آ رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ ’’مہمان‘‘ ہمیشہ کے لیے یہیں رہیں۔
اس سے بھی زیادہ ’’دلچسپ‘‘ بات یہ ہوئی کہ افغان جہادیوں کا ایک وفد، ایک مذہبی رہنما کو ملا اور ’’فریاد‘‘ کی کہ مہاجرین کو ’’پریشان‘‘ کیا جا رہا ہے! اس پر مذہبی رہنما نے ’’انکشاف‘‘ کیا کہ یہ تو بین الاقوامی سازش ہے جس کی رو سے مہاجرین کو نکالنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ بھی فرمایا کہ دفاع پاکستان کونسل کی ساری جماعتیں ان مہاجرین کے ساتھ ہیں۔ یہ بیان کسی تبصرے کا محتاج نہیں۔ مگر کھونٹے ان حضرات کے مضبوط ہیں۔ ایک کی پشت پناہی حکومت وقت کر رہی ہے اور دوسرے کو دامے درمے سخنے، امداد، خانِ اعظم، عمران خان دے رہے ہیں بلکہ دامے درمے میں کروڑوں روپے شامل ہیں۔ خیبرپختون خوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے برملا کہا ہے کہ افغان مہاجرین کی عزت اسی میں ہے کہ اب وہ عزت سے واپس چلے جائیں۔ اس پر یقینا خان صاحب نے اپنے وزیر اعلیٰ سے باز پرس کی ہو گی۔ کیونکہ اگر دونوں میں سے ایک کو چھوڑنا پڑا تو عمران خان پرویز خٹک کو چھوڑ سکتے ہیں، دامنِ یار نہیں چھوڑ سکتے۔ اگر تحریکِ انصاف کو ایک مذہبی جماعت میں ضم نہ بھی کیا تو کم از کم کسی دن دفاع پاکستان کونسل کے سٹیج پر ضرور تشریف فرما ہوں گے۔
اس کالم کے آغاز میں آپ نے افغان سرحدی قصبے سپن بولدک کا ذکر پڑھا۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ سپن بولدک اور اس کے اردگرد کے علاقے میں اچکزئی قبیلے کی کثرت ہے؟ اب یہ یاد کیجیے کہ ڈاکٹر عبدالمالک پہلے غیر سردار، اور قوم پرست بلوچ رہنما تھے جو وزیر اعلیٰ بلوچستان بنے، گزشتہ ہفتے ڈاکٹر عبدالمالک نے ڈنکے کی چوٹ کہا کہ کوئٹہ میں افغان اکثریت میں اور پاکستانی اقلیت میں ہیں۔ اب دو اور دو جمع کر کے خود ہی جان لیجیے کہ پہلے غیر سردار وزیر اعلیٰ کو محض دو سال بعد چیف منسٹری سے کیوں ہٹا دیا گیا؟ انہیں ہٹانے میں کن کا مفاد تھا؟ اوریہ حضرات کس قدر طاقت ور تھے؟ ان سوالوں کے جواب ہر اُس پاکستانی کو معلوم ہیں جو بلوچستان میں آبادی کے اتار چڑھائو کا مطالعہ کر رہا ہے۔ افغان مہاجرین کو پاکستان ہی میں رکھنے کی جدوجہد، صرف انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نہیں کی جا رہی، اس میں ایک بڑا محرک ایک خاص طبقے کی آبادی میں اضافہ کرنا بھی ہے۔!!
No comments:
Post a Comment