بحری جہاز میں کچھ کوکیبن نما کمرے ملے ہوئے تھے۔ کچھ کو اعلیٰ درجے کی خواب گاہیں‘ کچھ عرشے پر تھے۔ مگر ہر شخص‘ جہاں بھی تھا‘ اپنی جگہ کی خوب دیکھ بھال کر رہا تھا۔ ملکیت کا احساس شدید تھا۔ کیبن نما کمروں والے‘ اپنے کمروں کو کل کائنات سمجھ کر ان کی خوب صفائی کرتے تھے۔ جنہیں اعلیٰ درجے کی خواب گاہیں الاٹ ہوئی تھیں‘ وہ اپنی برتری میں مست تھے اور اپنے اپنے مسکن کو زیادہ سے زیادہ پرتعیش بنانے میں لگے رہتے تھے۔ وہ جو عرشے پر تھے‘ وہ بھی اپنی بنچ نما نشستوں کو جھاڑتے پونچھتے رہتے تھے۔
اس بحری جہاز میں اگر کوئی محرومِ توجّہ تھا تو وہ خود بحری جہاز تھا! کسی کو ذرہ بھر فکر تھی نہ پروا کہ جہاز کا کیا حال ہے؟ اس کا تیل پانی کتنا رہ گیا ہے؟ اس کے انجن کی صحت کیسی ہے؟ اس کی تہہ میں سوراخ تو نہیں ہوا ہے؟ اس کے سب سے نچلے حصے کے اندر پانی تو نہیں آ رہا ہے؟ یہ کسی چٹان سے تو نہیں ٹکرانے والا‘یہ قزاقوں کے نشانے پر تو نہیں؟ کہیں سمندری طوفان کے آثار تو نہیں؟ جہاز کے کپتان سے لے کر‘ عملے کے جونیئر ترین رکن تک‘ مہنگی خواب گاہوں میں سونے والوں سے لے کر عرشے کے بنچوں پر بیٹھنے والوں تک‘ سب اپنی اپنی ملکیت میں مست تھے۔ سب مطمئن تھے۔ اپنے کیبن کی‘ اپنے بنچ کی‘ اپنے سامان کی‘ سب کو فکر تھی۔ دوسری طرف جہاز کا برا حال تھا۔ تختے اکھڑتے جا رہے تھے۔ رفتار ڈھیلی ہو رہی تھی۔تہہ میں سوراخ ہونے لگے تھے۔ ایک طرف قزاقوں کا جہاز حملہ کرنے کے لیے پرتول رہا تھا‘ دوسری طرف‘ سربفلک چٹانیں‘ جیسے ٹکرانے کی تیاری کر رہی ہوں! آپ اس جہاز کے مسافروں کی ذہنی سطح کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔
بالکل یہی حال ان دنوں پاکستان کا ہے۔ اپنے کاروبار کی سب کو فکر ہے۔ کارخانے‘ زرعی جاگیریں‘ فیکٹریاں‘ سب ذہانت اور محنت سے چلائی جا رہی ہیں۔ سیاست دان اگلے الیکشن کو سامنے رکھ کر بھر پور تیاریاں کر رہے ہیں‘ مگر یہ سب لوگ ملک سے بے نیاز ہیں! ذرا یہ بیان دیکھیے۔
’’کوئٹہ کوئی بلوچ یا پشتون شہر نہیں رہا! اب اس پر افغانیوں نے قبضہ کر لیا ہے اور ہم اقلیت بن گئے۔
یہ کسی ایسے شخص کا بیان نہیں جو کوئٹہ سے دور پنجاب یا کے پی میں رہتا ہو۔ یہ ماتم بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کر رہے ہیں۔ تادمِ تحریر ان کے بیان کو کسی نے چیلنج نہیں کیا۔ مگر سادگی دیکھیے‘ یا پرکاری کہ ہر طرف سے پختہ عزائم میزائلوں کی طرح چھوڑے جا رہے ہیں کہ ہم دہشت گردی کو ختم کر کے دم لیں گے، ہم متحد ہیں‘ یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے! مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ کوئٹہ افغانوں سے چھلک رہا ہے۔ یہ کوئٹہ کی زمین پھاڑ کر نیچے سے نکل آئے یا آسمان سے نازل ہوئے یا بارڈر کراس کر کے آن دھمکے، کوئی کچھ نہیں بتاتا۔ کسی کو پروا ہی نہیں کہ ان میں کئی دہشت گرد بھی ہو سکتے ہیں، جاسوسی کرنے والے بھی اور دیگر جرائم کا ارتکاب کرنے والے بھی، کیا وزیر اعظم اور کیا آرمی چیف، سب کے عزائم مصمم ہیں۔ مگر حالت یہ ہے کہ ایک سابق وزیر اعلیٰ دہائی دے رہا ہے کہ پاکستانی کوئٹہ میں اقلیت اور غیر ملکی اکثریت میں ہیں۔
وزارت داخلہ نے، نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے سلسلے میں ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 190مدارس نے بیرونی فنڈنگ کا اعتراف کیا ہے۔ سٹیٹ بنک نے 126بینک اکائونٹ بند کیے مگر ہنڈی کے ذریعے مدارس کو رقوم بھیجنے کا سلسلہ جاری ہے۔ رپورٹ میں یہ ’’اطلاع‘‘ بھی دی گئی ہے کہ کالعدم تنظیموں کو نام بدل کر سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اس سے زیادہ ظالمانہ مذاق قوم کے ساتھ کیا ہو گا! جن 190مدارس نے بیرونی فنڈنگ کا اعتراف کیا، وہ مدارس بند کیے گئے یا بدستور چل رہے ہیں؟ کیا یہ غیر ملکی فنڈنگ بند کر دی گئی؟ ہنڈی سے آنے والی رقوم کا سدِباب کیا ہو گا؟ ملک کے بچے بچے کو معلوم ہے کہ کالعدم تنظیمیں نئے ناموں کے ساتھ ڈٹ کر دن دہاڑے کام کر رہی ہیں۔ ان میں سے کسی نے وزارتِ داخلہ سے اجازت نہیں مانگی مگر وزارت داخلہ مصر ہے کہ اجازت نہیں دے گی۔ سبحان اللہ!
سیفران کے وفاقی وزیر ایک سابق جرنیل ہیں۔ فرماتے ہیں جب تک ملک کا ہر شہری دہشت گردوں کے خلاف کھڑا نہیں ہو گا، مسئلہ حل نہیں ہو گا!
کوئی ان وزیر صاحب سے پوچھے کہ ان کے فرمان کا مطلب کیا ہے؟ بارڈر کھلا ہے۔ مذہب کے نام پر جو تعلیمی ادارے لاکھوں کی تعداد میں چلائے جا رہے ہیں۔ ان کے اندر تک حکومت کی رسائی نہیں۔ کیا گارنٹی ہے کہ طلبہ اور اساتذہ کے علاوہ یہاں کوئی نہیں رہ رہا؟ واہگہ پر جو دھماکہ ہوا تھا اس میں ملوث ایک شخص رات کو ایک مذہبی تعلیمی ادارے میں چھپا تھا۔ہر شخص دہشت گردی کے خلاف کیسے کھڑا ہو؟ کھڑا ہو کر کیا کرے؟ پھر فرماتے ہیں ’’ہمیں دیکھنا ہو گا کہ شرارت کہاں سے ہو رہی ہے؟‘‘ تین سال سے آپ وزیر ہیں۔ ابھی تک کیوں نہیں دیکھا کہ شرارت کہاں سے ہو رہی ہے؟ کب دیکھیں گے؟
اور اب ایک ٹاسک فورس! نیشنل ایکشن پلان کے ’’نفاذ کی نگرانی‘‘ کے لیے ٹاسک فورس بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ وزیر اعظم کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں ہوا۔
گویا، سخت موٹی کھال والے کچھوے کے اوپر، ایک اور زرہ ڈال دی گئی۔ وہ تو پہلے ہی رینگ رہا تھا۔ یوں کہ چیونٹیاں اس سے آگے نکلتی جا رہی تھیں۔ نیشنل ایکشن پلان کا حشر کیا ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں، جو رپورٹ اس ضمن میں پیش ہوئی اس کے مطابق:
:1 نیشنل ایکشن پلان کے 20میں سے آٹھ نکات پر عمل درآمد سست روی کا شکار ہے۔
:2 کالعدم تنظیمیں پھر سے نام بدل کر کام کر رہی ہیں۔
:3 فوجی مقدمات تیزی سے نمٹانے پر صوبے سفارشات پیش نہ کر سکے۔
:4 دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ روکی نہ جا سکی۔
:5 فرقہ واریت پر قابو پانے میں ناکامی ہوئی۔
:6 بلوچستان کے فراری قومی دھارے میں نہ لائے جا سکے۔
:7 فاٹا اصلاحات پر کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔
:8 افغان مہاجرین کا عمل سست روی کا شکار ہے۔
:9 سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے ہونے والے معاملات کو کنٹرول نہیں کیا جا سکا۔
مگر ابھی ماتم نہ شروع کیجیے۔ پہلے یہ سن لیجیے کہ تمام متعلقہ محکمے، جو اوپر بیان کی گئی نو ناکامیوں کے ذمہ دار ہیں۔ ان کے سینئر نمائندوں کو ٹاسک فورس میں شامل کر دیا گیا ہے۔ یعنی وہ خود ہی اپنا محاسبہ کریں گے۔ آئندہ ہفتے اسی حوالے سے ایک اور ’’اہم‘‘ اجلاس ہو گا۔ حسنِ ظن یہ ہے کہ اس ہونے والے اہم اجلاس میں چائے یا لنچ کی تفصیلات طے کرنے کے لیے ایک اور کمیٹی کا، اس وقت، اجلاس ہو رہا ہو گا!
مجوزہ ٹاسک فورس کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے اور اس کی رفتار تیز کرنے کے لیے ایک اور کمیٹی، یا سب کمیٹی یا ایک اور ٹاسک فورس کب بنے گی؟ انتظار کیجیے! اس ضمن میں بھی مایوسی نہیں ہو گی۔ انشاء اللہ!
یہ تو تھا حکومت کا قصہ! اب بزعمِ خود، مستقبل کے حکمران کا، اس ضمن میں، رویہ دیکھیے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ ’’گزشتہ تین ماہ سے افغان مہاجرین کو ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری ہے، اسے فوری طور پر بند ہونا چاہیے‘‘۔عمران خان کو خبریں دیر سے ملتی ہیں، یوں لگتا ہے وہ خبر جو پوری قوم کو عرصہ سے معلوم تھی، عمران خان کو اب معلوم ہوئی ہے۔ افغان مہاجرین کی کثیر تعداد نے پاکستان کے قومی شناختی کارڈ بنوا رکھے ہیں۔ کچھ تو سرکاری محکموں میں ملازمتیں بھی کر رہے ہیں۔ متعلقہ وفاقی وزیر نے کچھ ہفتے پہلے کہا تھا کہ دس لاکھ ملازمتوں پر افغان قابض ہیں۔ مگر عمران خان کو شناختی کارڈوں والی بات اب معلوم ہوئی؛ چنانچہ انہوں نے کہا ہے کہ افغانوں کو ہراساں نہ کیا جائے۔ دیکھا! سیاسی لیڈر کی دور اندیشی! لاکھوں افغانوں کے ووٹ، تحریکِ انصاف کو دلوانے کے لیے زبردست حکمتِ عملی!!
عمران خان کو یہ تو معلوم ہی نہ ہو گا کہ صوبے کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کا اس ضمن میں کیا مؤقف ہے۔ تین دن پہلے، بلوچستان کے سابق وزیر ڈاکٹر عبدالمالک نے پرویز خٹک کے اس مؤقف کی حمایت کی ہے کہ ’’جتنا جلد ممکن ہو، افغان مہاجرین سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے‘‘۔
پشاور کی تاجر برادری نے حال ہی میں ایک باقاعدہ احتجاجی جلوس نکالا۔ اس موقع پر مظاہرین ’’گو افغان گو‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ پشاور کے تاجروں کے نمائندہ مومن خان کا کہنا ہے کہ جرائم میں زیادہ تر یہی لوگ ملوث ہیں۔ یہ پاکستان مخالف بیرونی طاقتوں کے لیے جاسوسی بھی کر رہے ہیں!
یہ ہے انداز، جس سے ملک چلایا جا رہا ہے۔ ایک سیدھا سادہ سا سوال ہے: کیا زرداری صاحب اپنی شوگر ملیں، وزیر اعظم صاحب اپنے کارخانے اور عمران خان ہسپتال اور یونیورسٹی، اس طرح چلا رہے ہیں؟ آہ! یہ بحری جہاز! جس کی کسی کو پروا نہیں۔
No comments:
Post a Comment