یہ 1944ء کی بات ہے۔ سوویت یونین کے سائنس دانوں نے ایک خاص قسم کے بخار کا وائرس دریافت کیا۔ یہ دریافت کریمیا میں ہوئی۔ یوں بخار کا نام ’’کریمیا بخار‘‘ پڑ گیا۔ لیکن سوویت ڈاکٹروں اور سائنس دانوں کی تحقیق کسی منطقی نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔
کانگو، ایک افریقی ملک، اُس وقت بلجیم کی کالونی تھا۔ 1956ء میں کریمیا والا جرثومہ کانگو میں بھی پایا گیا۔ مزید تحقیق کے لیے اسے نیویارک کی لیبارٹری میں بھیجا گیا۔ پھر 1967ء میں ایک روسی سائنسدان میکائیل چماکوف کو سمرقند میں ایک مہلک وائرس ملا۔ اس نے بھی مزید تحقیق کے لیے اسے نیویارک لیبارٹری میں بھیجا۔ وہاں سے بتایا گیا کہ یہ وہی وائرس ہے جو کانگو میں پایا گیا تھا۔ بہر طور اس وائرس کا نام ’’کریمیا کانگو وائرس‘‘ پڑ گیا۔ یہاں سوویت یونین اور مغربی ملکوں کے سائنسدانوں کے درمیان کھٹ پٹ بھی ہوئی۔ مغربی ملکوں کے ڈاکٹر اس کا نام ’’کانگو کریمیا وائرس‘‘ رکھنا چاہتے تھے۔ روسی مُصر تھے کہ نام ’’کریمیا کانگو وائرس‘‘ پڑے۔ روسی جیت گئے۔ باضابطہ نام ’’کریمیا کانگو وائرس‘‘ ہی رکھا گیا۔ اس وائرس کی موجودگی یونان، پرتگال، جنوبی افریقہ‘ میڈاغاسکر، مراکش، دبئی‘ سعودی عرب، کویت اور عراق میں بھی ثابت ہوئی۔ کسووو میں بھی یہ بیماری پائی گئی۔ ستمبر 2010ء میں پاکستان کے صوبے خیبرپختونخواہمیں بھی یہ وبا پھوٹ پڑی۔ یہاں ریکارڈ رکھنے کا معاملہ کمزور تھا۔ متاثرین کی صحیح تعداد معلوم ہی نہ ہو سکی۔ ایک سال بعد بھارتی صوبے گجرات میں اس سے چار اموات ہوئیں۔ علاج کرنے والا ڈاکٹر اور نرس بھی موت کے گھاٹ اُتر گئے۔
’’کریمیا کانگو وائرس‘‘ کیا ہے؟ اس کا ذریعہ یعنی منبع جانوروں سے چمٹے ہوئے کیڑے ہیں‘ جنہیں چچڑ یا چچڑی بھی کہا جاتا ہے۔ اولین شکار اس بیماری کا قصاب ہوتے ہیں یا وہ افراد جو چراگاہوں، باڑوں، منڈیوں اور ذبح خانوں میں گائے بیلوں ‘بھیڑ بکریوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔ متاثرہ فرد پہلے چڑچڑے پن اور بد حواسی کا شکار ہوتا ہے۔ پھر ناک سے خون بہنے لگتا ہے، قے شروع ہو جاتی ہے‘ پاخانے کا رنگ سیاہ ہو جاتا ہے، جگر سُوج جاتا ہے اور درد ہونے لگتا ہے۔ تیز بخار دبوچ لیتا ہے‘ پھر پھیپھڑے، جگر، گردے، غرض اعضائے رئیسہ بے بس ہو کر کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ رپورٹوں کے مطابق تیس فیصد اور کچھ کی رُو سے اس سے بہت زیادہ تعداد، جانبر نہیں ہو پاتی۔
جن لوگوں کا روزگار مویشیوں سے وابستہ ہے، وہ مجبور ہیں۔ جانور پالنے والے، بیچنے والے، ذبح کرنے والے، فضلہ اُٹھانے والے، کھالوں کا کاروبار کرنے والے، یہ سب اس خطرے سے دوچار ہیں۔ ڈاکٹر حضرات شور مچا رہے ہیں کہ یہ لوگ بھرپور احتیاطی تدابیر کریں۔ مریض سے ہاتھ نہ ملائیں۔ جانوروں کی نقل و حرکت کرتے کراتے وقت دستانے پہنیں۔ ہاتھ اچھی طرح دھوئیں۔
کانگو وائرس کے پھیلنے کا سب سے زیادہ خدشہ آنے والی عیدالاضحیٰ پر قربانیوں کا موسم ہے جب پورا ملک، ملک کے تمام شہر‘ قصبے اور قریے، اور ہر سڑک‘ ہر گلی منڈی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ دیہات سے آنے والے بیوپاری حشرات الارض کی طرح پورے ملک میں پھیل جاتے ہیں۔ لوگ قربانی کے جانور خریدتے وقت اِن ’’مصنوعی‘‘ منڈیوں میں یوں چلتے پھرتے ہیں جیسے پارک میں سیر کر رہے ہوں۔ خطرناک ترین پہلو اس معاملے کا یہ ہے کہ بچے ساتھ ہوتے ہیں۔ ایک جانور خریدنے سے پہلے، بیس جانوروں کو ہاتھ لگا کر ٹٹولا اور جانچا جاتا ہے۔ کانگو وائرس سے بھرے ہوئے کیڑے، چچڑ، پسو، ان خریداروں اور ان کے بچوں تک آزادانہ رسائی کا مزا اُڑاتے ہیں۔ پھر خریدار اور اس کے بچے جانور لے کر گھر آتے ہیں۔ ایک ہفتہ یا تین چار دن، یہ جانور گھر کا فرد بنتے ہیں۔ بچے انہیں باہر لے جا کر درختوں کے پتے کھلاتے ہیں۔ ان کی جلد کو رنگین کرتے ہیں۔ انہیں پانی پلاتے ہیں اور ان سے لپٹ بھی جاتے ہیں۔
پھر عید کا دن آتا ہے اور پورا ملک مذبح میں بدل جاتا ہے۔ ہر گھر میں، ہر صحن میں، ہر گلی میں، ہر کوچے میں، ہر گھر کے ساتھ واقع ہر میدان میں جانور ذبح ہوتے ہیں۔ ہر جگہ خون گرتا ہے۔ ہفتوں تک فضلہ، خون، اوجھڑیاں، چھچھڑے اور دیگر اعضا پڑے رہتے ہیں۔ کانگو وائرس کی بھی عید ہو جاتی ہے۔ وائرس زدہ پسو، چچڑ، کیڑے آزادی سے چلتے پھرتے ہیں۔ یہاں تک کہ آدم زاد ان کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پھر بیماری ایک انسان سے دوسرے کو، دوسرے سے تیسرے کو اور تیسرے سے چوتھے کو لگتی ہے۔ ڈاکٹر اور نرسیں بھی اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ رہی حکومت یا متعلقہ ادارے، تو وہ عام حالات میں بھی نا اہل ہیں۔ خاص حالات میں ان سے یہ توقع کرنا کہ وہ اپنے فرائض تندہی سے سر انجام دیں گے، حماقت ہے!
مشکل ترین مسئلہ اس ضمن میں وہ مائنڈسیٹ، وہ ذہنیت ہے، جو کسی بھی قسم کی احتیاط کو مذہبی ایشو بنا لیتی ہے۔ احتیاط کے لیے کہیں تو یہ جواب اکثر و بیشتر ملے گا: ’’اچھا، تو آپ بھی قربانی کے مخالف ہیں‘‘۔ یعنی ماروں گھٹنا، پھوٹے آنکھ، اس کا براہ راست تجربہ کچھ دن پہلے ایک ٹیلی ویژن پروگرام پر ہوا۔ ایک صاحب نے تجویز پیش کی کہ منڈیوں میں جا کر جانور، ٹٹول ٹٹول کر خریدنے، اور پھر گھر کے صحن کو ذبح خانہ بنانے کے بجائے آن لائن خریداری کیجیے، وہی ذبح کریں گے۔ آپ کو جو وقت دیں گے اُس پر جا کر گوشت لے آئیے۔ اس پر ایک معروف مولوی صاحب کی رگِ حمیت پھڑکی۔ دلیل یہ تھی کہ صدیوں سے جانور گھروں میں لائے جا رہے ہیں۔ ہم نے اپنے بزرگوں کو دیکھا۔ اب ہمارے بچے ہمیں جانور لاتے اور ذبح کرتے نہیں دیکھیں گے تو انہیں قربانی کرنے کی عادت کیسے پڑے گی۔ بحث کرنا کارِ لا حاصل تھا‘ ورنہ پوچھا جا سکتا تھا کہ حج کے موقع پر آپ قربانی کرتے ہیں مگر جانور خود خریدتے ہیں نہ گوشت وصول کرتے ہیں بلکہ دیکھ تک نہیں پاتے۔ سب کچھ سعودی انتظامیہ کرتی ہے۔ آج تک کسی عالم یا مفتی نے اس پر تحفظات کا اظہار نہیں کیا۔
اس سے پہلے ایک اور واقعہ قارئین کو بتایا جا چکا ہے۔ امریکہ میں ایک دینی مدرسہ میں طلبہ کلاس روموں میں میز کرسی پر بیٹھتے ہیں۔ ایک پاکستانی حضرت وہاں تشریف لے گئے۔ تاسف سے سر کو ایک افق سے دوسرے افق تک ہلایا۔ پھر افسوس کی وہ آوازیں نکالیں جو سانحے پر نکالی جاتی ہیں۔ پھر فرمایا، برکت تو نیچے بیٹھنے سے ہے۔ یعنی جو چیزیں دین کا حصہ نہیں، وہ بھی مقدس کر لی جاتی ہیں۔ اس کی ایک مثال دانتوں کی صفائی ہے۔ سنت دانتوں کی صفائی ہے۔ اُس وقت ٹوتھ پیسٹ نہیں تھا۔ اگر اب ٹوتھ پیسٹ نہیں استعمال کرنا اور دانت اُسی طریقے سے صاف کرنے ہیں جو اُس وقت جزیرہ نمائے عرب میں رائج تھا تو کوئی حرج نہیں مگر اسے شرعی رنگ دینا درست نہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر اُس وقت تو صابن بھی نہ تھا۔ شیمپو بھی نہ تھا۔ کپڑے بھی سرف سے نہیں دھوئے جاتے تھے۔ استری بھی نہیں کی جاتی تھی۔ بیماری میں انجکشن بھی نہیں لگتا تھا۔ بائی پاس بھی نہ تھا۔ اعضا کی پیوندکاری بھی نہ تھی! خادمِ حرمین شریفین علاج کے لیے امریکہ تشریف لے جاتے ہیں۔ ہمارے مذہبی رہنماؤں کو چاہیے کہ انہیں منع کریں۔ جدید علاج کرانے سے کہیں برکت نہ اُٹھ جائے!
عید الاضحیٰ آنے میں ابھی دو تین ہفتے باقی ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر لازم ہے کہ حفاظتی اقدامات کریں۔ الیکٹرانک میڈیا پر زبردست مہم وقت کا اہم ترین تقاضا ہے؛ تا ہم حکومت کے اقدامات سے قطع نظر، عوام کو اپنی حفاظت خود بھی کرنی چاہیے۔ مشرقِ وسطیٰ کے ملکوں میں گھروں میں جانور ذبح کرنے پر پابندی ہے۔ لوگ ذبح خانوں میں جا کر ذبح کراتے ہیں اور گوشت گھر لاتے ہیں۔ اِس عیدالاضحی پر اگر ہمارے ہاں پوری احتیاط نہ برتی گئی اور سارا عمل ذبح خانوں تک محدود نہ رکھا گیا تو ہولناک وبا پھوٹنے کا زبردست خطرہ ہے!
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
مانو نہ مانو جانِ جہاں! اختیار ہے
No comments:
Post a Comment