ہمارا آخر عمران خان صاحب سے کیا جھگڑا ہے؟ ہو بھی کیا سکتا ہے؟ ہمارے کھیتوں کی پگڈنڈیاں ایک دوسرے کو چھو رہی ہیں نہ ہم نے ان کے گھر کے سامنے سے جلوس گزارنا ہے۔ ہماری تو کوئی قدر مشترک ہی نہیں! وہ شہرت کے بامِ بلند پر کھڑے ہیں، ہم گمنام ۔ وہ بادشاہ بننے کے خواہش مند ہیں۔ ایسا ہو گیا تو ہم ان کی رعایا میں شمار ہوںگے۔
ہم اور ہم جیسے ہزاروں جب کئی عشروں بعد پہلی بار گھروں سے نکلے اور عمران خان کو ووٹ دینے کے لیے قطاروں میں جا کھڑے ہوئے تو اس وقت ہماری ان کے ساتھ کون سی رشتہ داری تھی؟
وہی تین عورتوں والی پرانی کہانی! جو بادشاہ کے دربار میں طلب کی گئیں کہ چُھپ کر سازش کر رہی تھیں۔ انہوں نے بادشاہ کو دیکھا، پھر ایک نے دوسری سے کہا ’’یہ تو وہی ہے‘‘ دوسری نے کہا ’’مگر اس کے وہ تو نہیں‘‘ تیسری نے جواب دیا ’’ان کے بغیر بھی ہوتے ہیں‘‘۔ ان معنی خیز جملوں اور عورتوں کے چہروں پر کھیلتی ہنسی نے ظل الٰہی کو مزید پریشان کر دیا کہ سازش کھلم کھلا دربار کے اندر بنی جا رہی ہے! حالانکہ پہلی عورت نے کہا تھا کہ یہ بھی بیل ہی ہے۔ دوسری نے شک کا اظہار کیا تھا کہ اس کے سر پر سینگ جو نہیں‘ تیسری نے یہ کہہ کر معاملہ نمٹا دیا کہ کچھ بیل سینگوں بغیر بھی ہوتے ہیں اور بادشاہ سلامت کا شمار انہی میں ہے!
تو پھر اپنی کمر کے گرد پٹکا باندھ لو‘ بال کھول لو‘ سینہ کوبی کرو۔ جی بھر کر سینہ کوبی کرو! تمہاری امید کی فصل پر ژالہ باری ہوئی ہے۔ تمہارے درختوں پر لگا بور تباہ ہو گیا ہے۔ زنداں کی دیوار تمہارے چمن تک آن پہنچی ہے۔ تم نے جسے پانی سمجھا تھا‘ وہ سراب نکلا۔ تم سمجھے تھے کہ طویل سفر کے بعد‘ اگلا موڑ مڑو گے تو سامنے باغ ہوگا اور اس کے درمیان خوبصورت گھر! مگر آہ! موڑ مڑنے کے بعد بھی وہی طویل راستہ‘ سانپ کی طرح بل کھاتا‘ حدِّ نگاہ تک‘ صحرا کے وسط میں جاتا ہوا! منزل کا نشان ہے نہ وجود!
جاناں! دل کا شہر نگر افسوس کا ہے
تیرا میرا سارا سفر افسوس کا ہے
کس چاہت سے زہرِ تمنا مانگا تھا
اور اب ہاتھوں میں ساغر افسوس کا ہے
دیکھو اِس چاہت کے پیڑ کی شاخوں پر
پھول اداسی کا ہے‘ ثمر افسوس کا ہے
کوئی پچھتاوا سا پچھتاوا ہے فرازؔ
دُکھ کا نہیں افسوس! مگر افسوس کا ہے!
تم سمجھے تھے اب ایک ایسا کلچر آئے گا جو زرداریوں‘ شریفوں‘ چوہدریوں‘ فضل الرحمانوں کے کلچر سے مختلف ہوگا۔ تم نے سنگا پور‘ کینیڈا اور برطانیہ میں قانون کی حکمرانی کے خواب اپنے ملک کے لیے دیکھے تھے۔ مگر خواب خواب ہی رہے؟ زور والا اُوپر ہی رہا، بے بس نیچے ہی رہا!
کاش! تحریک انصاف میں کوئی جرأت مند ہو اور عمران خان کے تین سو کنال کے محل کے باہر‘ فقیر کی طرح صدا بلند کرے ؎
تیرے امیر مست‘ تیرے غریب حال مست
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی‘خواجہ بلند بام ابھی
یہ ایک معمولی واقعہ نہیں! بہت سے بزر جمہر ضرور اس کا دفاع کریں گے۔ لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ اوّل، ہر حال میں اپنے لیڈر کا‘ اپنی پارٹی کا‘ اپنی حکومت کا دفاع کرنے والے! دوم، جو غلط کو غلط‘ صحیح کو صحیح‘ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہتے ہیں! انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ شخصیت کون سی اس غلط کام کی پشت پر ہے‘ وہ برملا سچ کہتے ہیں۔ افسوس! صد افسوس! وہ لوگ جو پارٹیوں‘ لیڈروں اور اپنی حکومتوں سے وابستہ ہیں، ان کی بھاری اکثریت غلطی کو غلطی نہیں مانتی، تاویل کرتی ہے، کج بحثی کرتی ہے۔ جب نشان دہی کی جائے تو غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے الزامی جواب دیتے ہیں کہ تمہاری پارٹی نے فلاں وقت اور تمہارے لیڈر نے فلاں موقع پر یہ کیا تھا! یہ ذہنی افلاس ہے‘ یہ دانش کا قحط ہے! یہ زوال کی واضح علامت ہے۔ یہ اس قوم کی وہ بدقسمتی ہے جس نے قائد اعظم کی وفات کے بعد اپنے جبڑے کھولے اور آج تک ہر امید کو ہڑپ کئے جا رہی ہے!
نہیں جناب! یہ واقعہ معمولی واقعہ نہیں۔ یہ علامت ہے اس حقیقت کی کہ پولیس کی آزادی کے خیبر پختونخواہ میں سب دعوے جھوٹے نکلے۔ تحریک انصاف کے ایم این اے کے والد نے ٹریفک کے قانون کی خلاف ورزی کی۔ ٹریفک اہلکار نے جو ڈیوٹی پر تھا‘ اپنی ڈیوٹی انجام دی اور چالان کیا۔ کم و بیش سب اخبارات میں ایک جملہ مشترک ہے کہ چالان پر صاحب برہم ہوئے۔ پھر وہی ہوا جو لدھیانہ میں ہوتا آیا ہے۔
اس بات پر میڈیا متفق ہے کہ ایم این اے نے مداخلت کی۔ ایم این اے کے والد ڈی پی او سے ملے اور ٹریفک اہلکار کو معطل کر دیا گیا۔ رہا یہ الزام کہ اہلکار نے گالیاں دیں! تو چالان کرنے کے بعد کون اہلکار گالیاں دے گا یا دے سکتا ہے! کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی اہلکار چالان کر کے گالیاں دے؟ جھگڑا چالان کرنے والا نہیں، وہ کرتا ہے جس کا چالان کیا جاتا ہے۔ ایم این اے نے کہا ہے کہ اس کے والد ڈی پی او کے پاس شکایت کرنے گئے جو ان کا حق ہے۔ سیدھا سا سوال یہ ہے کہ دن میں کتنے لوگوں کے ٹریفک قانون کی خلاف ورزی پر چالان ہوتے ہیں؟ کتنے ڈی پی او سے مل سکتے ہیں؟ بات واضح ہے۔ ایم این اے نے مداخلت کی۔ ڈی پی او دب گیا۔ پولیس کے پی میں سیاسی مداخلت سے آزاد ہوتی تو ایم این اے کی مداخلت پر اہلکار کو معطل ہی کیوں کیا جاتا؟ یہ کہنا کہ معطل کر دیا اور پھر انکوائری ہو گی‘ ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ پہلے انکوائری کرائو‘ جرم ثابت ہو تب معطل کر و یا جو سزا قانون کے مطابق بنتی ہے دو۔ ایم این اے نے وہی کیا جو پیپلز پارٹی کا یا نون لیگ کا یا قاف لیگ کا یا کسی بھی پاکستانی سیاسی جماعت کا ایم این اے کرتا! عمران خان کا تبدیلی کا دعویٰ تب درست نکلتا جب ایم این اے مداخلت نہ کرتا‘ جب ڈی پی او چالان کرنے پر اہلکار کا دفاع کرتا!
یہی وہ شرم ناک واقعات ہیں جو اس ملک کے عوام‘ خاص طور پر مڈل کلاس کو مایوسی میں مبتلا کرتے ہیں! ایسے ہی واقعات پر ہزاروں لاکھوں حساس افراد ٹھنڈی سانس بھرتے ہیں اور ان کے منہ سے بلا ارادہ الفاظ نکلتے ہیں کہ’’اس ملک پر قانون کی حکمرانی کبھی نہیں آئے گی‘‘ کچھ بے اختیار پکار اٹھتے ہیں کہ یہ ملک رہنے کے قابل نہیں! اس اہلکار کی ذہنی اذیت کا اندازہ لگائیے جس کا واحد جرم یہ ہے کہ اس نے ایم این اے کے والد کے خلاف قانون توڑنے پر قانونی ایکشن لیا۔ اس کے رفقائے کار کے ذہنوں میں حشر بپا کرنے والے خیالات کا اندازہ لگائیے! کل کو چالان کرتے وقت کون بہادر اہلکار ہے جو جرم کرنے والے سے یہ نہ پوچھے گا کہ حضور! آپ کا کوئی قریبی عزیز ایم این اے یا ایم پی اے یا پارٹی کا عہدیدار تو نہیں؟ جن دنوں جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی اور ریلوے سے لے کر سول کے دیگر محکموں پر جرنیلوں کا قبضہ تھا‘ ایک لطیفہ گردش کرتا تھا۔ بس میں رش تھا‘ مسافر کھڑے تھے۔ ایک صاحب نے دوسرے سے پوچھا‘ آپ کے صاحبزادے فوج میں افسر تو نہیں؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں! پھر اس نے پوچھا آپ کے قریبی عزیزوں میں کوئی جرنیل تو نہیں‘ اس نے پھر جواب نفی میں دیا۔ مگر سوال کرنے والے کی تسلی ہو ہی نہیں رہی تھی۔ اس نے پھر پوچھا کہ حضور! کیا آپ کے دور و نزدیک کے رشتہ داروں میں کوئی بھی فوجی نہیں؟ اس نے کہا کوئی بھی نہیں! اس پر اس نے غصے سے کہا کہ بدتمیز! پھر اپنا پائوں میرے پائوں کے اوپر کیوں رکھا ہوا ہے؟
ہو سکتا ہے کہ اس واقعہ کو عمران خان کوئی اہمیت نہ دیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے وہ کوئی ضعیف، مری ماری ہوئی دلیل دے کر اپنے ساتھی کا دفاع کریں! اس سے پہلے بھی وہ ایک کچی بات کہہ کر نکّو بن چکے ہیں۔ تیس کروڑ روپے کی ’’معمولی‘‘ رقم دینے کے بعد ان کی دلیل یہ تھی کہ مدارس کو مین سٹریم میں لائیں گے۔ خان صاحب جتنا زور لگا لیں‘ اس معاملے میں’’مین سٹریم‘‘ کی تعریف ہی نہیں کر سکتے! مین سٹریم سے ان کی مراد کیا ہے؟ کیا انہوں نے کسی مدرسہ کو قریب سے دیکھا ہے؟ کیا آٹھ سال وہاں گزارنے والے طلبہ سے کچھ تبادلۂ خیال کیا ہے؟ کیا انہیں مدارس میں پڑھائے جانے والے کورس سے سرسری سی بھی واقفیت ہے؟ مین سٹریم کی وہ وضاحت ہی کر دیتے؟ وہ تو مدارس میں زیر تعلیم بچوں کے لیے میز کرسی پر بیٹھنے کا کلچر تک متعارف نہیں کرا سکیں گے؟ چلیے‘ وہ صرف ایک کام کر کے دکھا دیں۔ وہ اپنے پسندیدہ مدرسہ میں درس نظامی کے کورس میں ایک مختصر مضمون تحریک پاکستان پر اور حیاتِ قائد اعظم ہی پر شامل کرا کے دکھا دیں۔ وہ مولانا سے یہی بات منوا لیں کہ قائد اعظم کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے‘ ایک بار ہی سہی‘ چلے جائیں گے! مین سٹریم؟ کیا مراد ہے خان صاحب! آپ کی مین سٹریم سے؟
کیا کیا طعنے نہ سنے خان صاحب کے چاہنے والوں نے! کبھی انہیں ممی ڈیڈی کلاس کہا گیا، کبھی برگر فیملی کا لیبل چسپاں کیا گیا۔ اب وہ اپنے زخم چاٹتے ہیں اور فراقؔ کی زبان میں خان صاحب سے اور ان کی پارٹی سے مخاطب ہو کر کہتے پھرتے ہیں ؎
تو پھر کیا عشق دنیا میں کہیں کا بھی نہ رہ جائے؟
زمانے سے لڑائی مول لے‘ تجھ سے بُرا بھی ہو؟
No comments:
Post a Comment