Thursday, December 19, 2024
اُترن‘ اُترن اور اُترن
Tuesday, December 17, 2024
بظاہر سب ایک جیسے ہیں
Monday, December 16, 2024
قصیدہ بُردہ… ایک نئے رنگ میں
یہ اشعار کس نے نہیں سنے ہوں گے:
مجھ میں کوئی چیخ اُٹھتا ہے‘ نہیں‘ ایسا نہیں؍
کب نکلتا ہے کوئی دل میں اُتر جانے کے بعد؍
اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستا نہیں؍
تم سمجھتے ہو‘ بچھڑ جانے سے مٹ جاتا ہے عشق؍
تم کو اس دریا کی گہرائی کا اندازہ نہیں؍
تجھ سے مل کر بھی کہاں مٹتا ہے دل کا اضطراب؍
عشق کی دیوار کے دونوں طرف سایا نہیں؍
مت سمجھ میرے تبسم کو مسرت کی دلیل؍
جو مرے دل تک اترتا ہو یہ وہ زینہ نہیں؍
یوں تراشوں گا غزل میں تیرے پیکر کے نقوش؍
وہ بھی دیکھے گا تجھے جس نے تجھے دیکھا نہیں؍
خامشی! کاغذ کے پیراہن میں لپٹی خامشی!؍
عرضِ غم کا اس سے بہتر کوئی پیرایہ نہیں!؍
کب تلک پتھر کی دیواروں پہ دستک دیجیے؍
تیرے سینے میں تو شاید کوئی دروازہ نہیں
جس نے راتوں کے اندھیروں کو رکھا یادِ خدا سے روشن؍
اور اتنا کہ تھکن سے متورّم ہوئے وہ پاک قدم؍
فاقے برداشت کیے اور شکمِ پاک پہ باندھے پتھر؍
دور سے اس کو لبھاتے رہے سونے کے پہاڑ؍
مگر اُس ہمتِ عالی نے سدا؍
ناک اونچی رکھی اور ایک نگاہِ غلط انداز بھی ڈالی نہ کبھی؍
اور اُس ہستیٔ بے مثل کو مائل کرے دنیا پہ ضرورت کیوں کر؍
جو نہ ہوتی تو نہ ہوتا کہیں دنیا کا وجود؍
ہستیٔ پاک محمدؐ؍ لقبِ سیدِ کونین ہے زیبا جس کو؍
جن و انس اہلِ عرب‘ اہلِ عجم‘ سارے جہاں کا سردار؍
وہ پیمبر ہے ہمارا؍
کہ کسی کام کا دے حکم؍
کہ روکے اس سے؍
کُن مکُن میں کوئی سچا نہیں اس سے بڑھ کر؍
وہی محبوب کہ بس اس کی شفاعت کی ہمیں آس لگی رہتی ہے؍
زندگانی میں کوئی ہَول جو بے روک چلا آتا ہے؍
دعوت اس کی ہے الی اللہ سو اس کا دامن؍
تھامنے والوں کے ہاتھوں میں سہارا محکم؍
سارے نبیوں پہ اسے؍
صورت وسیرت میں ہے فوق؍
کوئی بھی علم و کرم میں نہیں اس کے پاسنگ؍
ملتمس سب ہیں کہ وہ؍
بحرِ زخّارِ رسول عربی سے کوئی چلّو بھر لیں؍
یا پھر اس بارشِ فیضان سے لب تر لیں؍
اس کی سرکار میں سب حدِّ ادب پر قائم؍
نقطۂ علم ہو یا پھر ہو؍
حِکَم کا وہ کوئی زیر و زبر؍
ہے وہی ذات ّ عطا جس کو ہوا؍
صورت و معنی میں کمال
؍ اور پھر خالقِ ارواح نے چُن کر آخر؍
نامزد اُس کو کیا اپنا حبیب
'' یہ 2015ء کے لگ بھگ کی بات ہو گی‘ میں انگلستان میں اپنے بیٹے عاصم کے ہاں گرمیوں کی چھٹیاں گزار رہا تھا کہ ایک روز قصیدۂ بردہ پڑھتے ہوئے ابتدائی چند اشعار کی برجستہ ترجمانی اُردو آزاد نظم میں ہو گئی جسے میں نے ایک کاغذ پر پنسل سے لکھ لیا۔ یہ ایک بے ارادہ واردات تھی جسے جاری رکھنے کا کوئی خیال نہ تھا۔ کئی برس کاغذ کا یہ ٹکڑا پڑا رہا اور اس پر درج سطریں مرورِ وقت کے ساتھ مٹ مٹ کر پھیکی پڑتی چلی گئیں۔ دو تین برس پہلے یاد نہیں کس مناسبت سے یہ دو چار شعروں کی ترجمانی میں نے ایک کاغذ پر صاف کی۔ 2022ء کی تعطیلاتِ گرما میں مجھے پھر عاصم کے پاس جون اور جولائی کے مہینے گزارنے کا اتفاق ہوا اور خوش قسمتی سے یہ داعیہ طبیعت پر مستولی ہو گیا اور ایک رَو چل پڑی۔ روزانہ چھ اشعار کی ترجمانی ہوتی رہی۔ تا آنکہ جولائی کے اواخر تک اس کام کا پہلا مسودہ تیار ہو گیا۔ یکم اگست 2022ء کو میں اپنے بڑے بیٹے عامر کے پاس جدہ آ گیا۔ اس فرصت میں اس مسودے کو پھر سے دیکھنے اور نوک پلک سنوارنے کا موقع ملا۔ یہ کام بسا اوقات ترجمانی کے اولین مرحلے سے زیادہ غور طلب ثابت ہوا۔ قصیدے کے متن میں جا بجا لفظی مناسبتوں کے جو جال بندھے ہیں‘ میرے لیے اس کا حق اُردو میں ادا کرنا ممکن نہ تھا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میری یہ حقیر سی کاوش کسی طرح بھی عربی متن کا ترجمہ نہیں بلکہ اصل کے مفاہیم اور جذبے کو کسی قدر سرشاری کے ساتھ اردو میں ادا کر دینے کی ایک کوشش ہے جس میں شعری رعایتوں اور مناسبتوں کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
مجھے فالج ہو گیا جس نے میرا آدھا بدن شل کر دیا۔ تب مجھے اپنے اس قصیدے ''البردہ‘‘ کے نظم کرنے کا خیال آیا۔ سو میں نے یہ قصیدہ کہا۔ اور اس وسیلے سے اللہ سے درخواست کی کہ مجھے صحت عطا فرمائے۔ اور بار بار اسے پڑھتا رہا اور رو رو کر دعا مانگی اور واسطہ دیا۔ اس میں میری آنکھ لگ گئی تو مجھے نبیﷺ کی زیارت ہوئی۔ آپﷺ نے اپنا دست مبارک میرے چہرے پر پھیرا اور ایک چادر (بُردہ) مجھ پر ڈال دی۔ آنکھ کھلی تو میں نے خود میں اُٹھنے کی طاقت محسوس کی۔ سو میں اٹھا اور گھر سے باہر نکل گیا...
Thursday, December 12, 2024
سپریم کورٹ کی خدمت میں التماس اور بشار الاسد
Tuesday, December 10, 2024
سول نافرمانی سے لے کر پاکستان نیوی تک
Monday, December 09, 2024
خاتون حاوی ہے تو تعجب کیسا؟
لگتا ہے کہ ملکہ کو تاریخ سے واقفیت بھی ہے اور تاریخ کا شعور بھی!
Thursday, December 05, 2024
اٹھاون سال والا چُھرا
The March of Folly
ہے۔ مصنفہ کا نام
Barbara Tuchman