Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, December 31, 2024

اگر من موہن سنگھ پاکستان میں ہوتے


سوال یہ ہے کہ گزشتہ ہفتے سُرگ باش ہونے والے ڈاکٹر من موہن سنگھ پاکستان میں ہوتے تو کیا دو بار وزیراعظم بن سکتے تھے؟ اور کیا وہ سب پالیسیاں جو انہوں نے بنائیں‘ بنا سکتے تھے؟؟
1932ء میں چکوال کے گاؤں گاہ میں پیدا ہونے والا یہ بچہ لینڈ لارڈ خاندان سے تھا نہ اس کے ماں باپ صنعتکار تھے۔ یہ ایک عام کھتری کنبہ تھا۔ وہ مقامی سکول میں اردو میڈیم میں پڑھ رہا تھا کہ ملک تقسیم ہو گیا۔ اس کا دادا قتل کر دیا گیا۔ یہ کنبہ بھارت چلا گیا۔ بعد میں جب وہ وزیراعظم بنا تو اسے کئی بار پاکستانی حکمرانوں نے‘ اور گاؤں والوں نے بھی دعوت دی کہ ایک پھیرا لگا جائے مگر یہ اُسے مشکل لگا۔ دادا کا قتل ہمیشہ اس کی یادوں کا اذیتناک حصہ رہا۔ وہ ہمیشہ یہی کہتا رہا کہ وہاں میرا دادا قتل ہوا تھا اور یہ کہ یادیں تلخ ہیں! 
من موہن سنگھ کا تعلیمی کیریئر قابلِ رشک تھا! امتحانوں میں ہمیشہ اوّل پوزیشن حاصل کی۔ بھارتی پنجاب یونیورسٹی سے‘ جو تب ہوشیار پور میں واقع تھی‘ اکنامکس میں ایم اے کرنے کے بعد من موہن سنگھ کیمبرج یونیورسٹی چلے گئے۔ واپس آکر پنجاب یونیورسٹی میں کچھ عرصہ پڑھایا۔ پھر آکسفورڈ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ پھر پنجاب یونیورسٹی میں لیکچرر‘ پھر ریڈر اور پھر فُل پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں! پھر اقوام متحدہ کے ادارے 

UNCTAD

 میں کام کرتے رہے۔ بین الاقوامی تجارت کی وزارت کے مشیر رہے۔ پھر دہلی سکول آف اکنامکس میں پروفیسری کی۔ وزاتِ خزانہ کے چیف اکنامک ایڈوائزر رہے۔ پھر اسی وزارت میں سیکرٹری کے طور پر کام کیا۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر رہے۔ پلاننگ کمیشن کی سربراہی کی۔ تین سال ''ساؤتھ کمیشن‘‘ کے سیکرٹری جنرل کے طور پر جنیوا میں کام کیا۔ ''ساؤتھ کمیشن‘‘ ایک آزاد تھنک ٹینک تھا۔ واپسی پر وزیراعظم کے معاشی مشیر رہے۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے بھی سربراہ رہے۔ 1991ء میں وزیر خزانہ مقرر کیے گئے۔ بھارتی معیشت اس وقت گلے گلے تک دلدل میں دھنسی ہوئی تھی۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر مشکل سے صرف دو ہفتوں کی درآمدات کے لیے کافی تھے۔ توازن ادائیگی (بیلنس آف پیمنٹ) خسارے میں تھا۔ اس وقت بھارتی معیشت‘ سوشلزم کے خطوط پر پابندیوں سے لدی ہوئی تھی۔ اکثر معاشی سرگرمیوں کے لیے لائسنس لینا پڑتا تھا۔ من موہن سنگھ کی وزارت کے دوران اس ''لائسنس راج‘‘ کا خاتمہ کیا گیا۔ درآمدات پر محصولات کم کیے گئے۔ سرکاری کنٹرول میں کام کرنے والی کمپنیوں کو نجی شعبے کے حوالے کیا گیا۔ غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے راستے کشادہ کیے گئے۔ بند معیشت کو کھول دیا گیا۔ یہ من موہن سنگھ تھے جنہوں نے سرکاری کنٹرول کم کرکے معیشت کو آزاد کیا۔ 2004ء میں جب وہ وزیراعظم بنے تو ان پالیسیوں کو جاری رکھا اور مزید تقویت فراہم کی۔ انہی کے دور میں بھارت کی شرحِ نمو (گروتھ ریٹ) بلند ترین سطح (نو فیصد) کو چھونے میں کامیاب ہوئی اور بھارت دنیا میں دوسری تیز ترین معیشت بن گیا۔ 
من موہن سنگھ کے ناقد بھی بہت تھے۔ خاص طور پر اس لیے کہ انہیں سونیا گاندھی نے وزیراعظم نامزد کیا تھا‘ بی جے پی ان کی مخالف رہی۔ مگر ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہ لگایا جا سکا۔ انہیں دنیا کا دیانت دار ترین وزیراعظم کہا گیا۔ خوش ونت سنگھ نے لکھا ہے کہ 1999ء میں جب منموہن سنگھ لوک سبھا کا الیکشن ہار گئے تو خوشونت سنگھ کو فوراً وہ دو لاکھ روپیہ واپس کر دیا جو ٹیکسی وغیرہ کے اخراجات کے لیے ان سے ادھار لیا تھا۔ وزارتِ عظمیٰ کے دوران پولیس افسر عاصم ارن ان کا سپیشل باڈی گارڈ تھا۔ وہ بتاتا ہے کہ وزیراعظم کی سرکاری گاڑیوں کے پیچھے ان کی ذاتی کار‘ ماروتی (سوزوکی) آٹھ سو سی سی‘ بھی کھڑی رہتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ عام آدمی ہیں‘ اس لیے ان کی اپنی آٹھ سو سی سی کی کار ان کے لیے بہترین ہے۔ پھر انہیں سمجھایا جاتا تھا کہ سکیورٹی کے لیے بڑی سرکاری گاڑی ضروری ہے۔ بیٹھ تو جاتے تھے مگر اپنی گاڑی کو یاد ضرور کرتے تھے۔ یاد رہے کہ وزیراعظم بننے سے پہلے بھی وہ بہت سی بڑی بڑی پوسٹوں پر رہے تھے مگر بڑی گاڑی کبھی نہ خریدی۔ وزارتِ عظمیٰ کے دوران ہی ان کی بیٹی کی ایک سہیلی نے ان کی بیٹی سے کہا کہ اسے کلاس کے نوٹس فیکس کر دے۔ جب اسے بتایا گیا کہ ان کے گھر میں فیکس مشین نہیں ہے تو وہ حیران ہوئی کہ وزیراعظم کے گھر میں فیکس مشین نہیں۔
وزیراعظم شاستری کی وفات ہوئی تو اس کا بیٹا بینک میں عام ملازمت کر رہا تھا۔ گلزاری لال نندا کی وفات ہوئی تو ذاتی مکان تک نہ تھا۔ وزارتِ عظمیٰ کے دوران جب گلزاری لال نندا کو معلوم ہوا کہ ان کے نواسے نے ڈرائنگ کرنے کے لیے ایک سرکاری کاغذ استعمال کیا ہے تو سٹاف پر ناراض ہوئے۔ فوراً بازار سے ذاتی کاغذ منگوا کر نواسے کو دیا۔ یہ سب وزیراعظم رہے۔ صدر عبد الکلام جن دو سوٹ کیسوں کے ساتھ ایوانِ صدر گئے‘ انہی کے ساتھ نکلے۔ وزیراعظم واجپائی ایک سکول ٹیچر کا بیٹا تھا۔ مودی نے کیریئر چائے بیچنے سے شروع کیا! کسی بھارتی حکمران پر کسی سرے محل کا یا کسی ایون فیلڈ کا الزام نہ لگا۔ دبئی یا لندن یا نیو یارک میں کسی کی رہائش نہ تھی۔
وہی سوال کہ اگر پروفیسر ڈاکٹر منموہن سنگھ پاکستان میں ہوتے تو کیا دو بار وزیراعظم بن سکتے تھے؟ نہیں! ہر گز نہیں! اتنا پڑھا لکھا وزیر اعظم پاکستان کے سیاستدانوں کو‘ نام نہاد سیاسی جماعتوں کے مالکان کو اور خود مقتدرہ کو کبھی راس نہ آتا۔ دو بار توقع تھی کہ سرتاج عزیز صاحب کو صدرِ مملکت کے عہدے پر فائز کیا جائے گا۔ بہت بڑے معیشت دان تھے۔ اقوام متحدہ میں کام کرتے رہے۔ کئی کتابوں کے مصنف تھے‘ مگر خطرہ یہ تھا کہ فائل پڑھیں گے اور کسی وقت اختلاف کر جائیں گے۔ چنانچہ ایک بار رفیق تارڑ اور دوسری بار ممنون حسین کو صدر بنایا گیا۔ انہیں کیوں بنایا گیا؟ وجہ بتاتے ہوئے قلم شرم سے زمین میں گڑ جائے گا۔ یہاں فائل پڑھنا ایک جرم ہے۔ کیا کوئی ایسی فائل مل جائے گی جس پر نواز شریف صاحب نے یا زرداری صاحب نے یا عمران خان صاحب نے ایک دو صفحے لکھ ڈالے ہوں؟ مشکل ہے! بہت مشکل! بھٹو صاحب اور بینظیر بھٹو کے بعد کسی وزیراعظم نے فائل پڑھی نہ کسی فائل پر کچھ لکھا۔ پلاسٹک کا بنا ہوا وزیراعظم شوکت عزیز فائلیں پڑھتا ہو گا اور ان پر لکھتا بھی ہو گا مگر وہ ایک آمر کا ملازم تھا۔ اس کی اصل حیثیت آمر کے سٹاف افسر سے زیادہ نہ تھی۔
وزیراعظم کی پوسٹ کو چھوڑ دیجیے‘ وزیروں کی بات کر لیتے ہیں! گزشتہ پچاس سال کے دوران ہمارے کتنے وزیر اپنے شعبے میں پی ایچ ڈی رہے ہوں گے؟ یہ بھی یاد رہے کہ بینکار معیشت دان نہیں ہوتے! تعلیم‘ تجارت‘ اکنامکس اور دیگر شعبوں میں ہمارے ہاں کتنے وزیر پی ایچ ڈی رہے؟ منموہن سنگھ پاکستان میں ہوتے تو اپنی تمام اہلیت کے باوجود زیادہ سے زیادہ وزیر خزانہ بنائے جاتے مگر انہیں صرف چھ ماہ برداشت کیا جاتا۔ جہاں وزیراعظم کو معلوم نہ ہو کہ کب تک وزیراعظم رہے گا‘ وہاں وزیر خزانہ کس کھیت کی مولی ہے! نام نہاد برادر ملکوں میں بھارتی وزیراعظم کو بلند ترین ایوارڈ دیے جا رہے ہیں۔ ہر جگہ اسے سر پر بٹھایا جاتا ہے۔ کیوں؟ ان ملکوں کے حکمران جانتے ہیں کہ کون دیانت دار ہے اور کون مال سمیٹنے والا! کون مانگنے آتا ہے اور کون سرمایہ کاری کرنے! اور ہاں! اگر منموہن سنگھ سندھ یا رائیونڈ کے کسی شاہی خاندان کے فرد ہوتے تو تعلیم یافتہ ہوتے یا نہ ہوتے‘ وزیر اعظم ضرور بنتے!!

Monday, December 30, 2024

ترکِ وطن پر ایک اہم تحقیق


''مغرب کی آزاد معاشرت میں سکونت اختیار کرنے والے تارکینِ وطن ایک وقت تک تو اسے باعثِ اطمینان تصور کرتے ہیں لیکن پھر صورتحال پیچیدہ ہونے لگتی ہے۔خصوصاً جب ان کی اولاد اس معاشرت میں پل کر جوان ہو تی ہے اور ان کی عادات و اطوار یا ترجیحات اسی معاشرے سے ہی میل کھاتی ہیں تو والدین کو فکر ستانے لگتی ہے۔یہ عجیب تضاد ہے جو محبت اور نفرت کے رشتے پر استوار ہے کہ ایک طرف تو وہ مغربی چکا چوند سے متاثر ہیں جبکہ دوسری طرف اس سے نفرت بھی کرتے ہیں اور اپنے مذہبی عقائد سے دور ہونے کا خطرہ انہیں بسا اوقات شدت پسند مسلمان بنا دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہاں پرورش پانے والی نسل اس دہرے معیارِ زندگی کی وجہ سے کئی نفسیاتی مسائل کا شکار بھی ہوئی ہے‘‘۔
مندرجہ بالا سطور کو پڑھتے ہوئے ہم محسوس کرتے ہیں کہ کمال کی یہ تشخیص ہمارے ذہن کے نہاں خانے میں بھی تھی مگر ہمیں اتنے بلیغ الفاظ نہیں مل رہے تھے۔ ان سطور کی خالق‘ پروفیسر ڈاکٹر عذرا لیاقت نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے! کتابیں ہر ہفتے‘ بلکہ ہر روز موصول ہوتی ہیں۔ کچھ زیادہ اچھی‘ کچھ کم اچھی! مگر ڈاکٹر عذرا لیاقت کی تصنیف ''پاکستانی اُردو افسانے میں ترکِ وطن کا اظہار‘‘ ملی تو گویا دبستاں کھل گیا۔ اسے ہاتھوں ہاتھ لیا کیونکہ یہ وہی دردناک موضوع ہے جس پر میں مسلسل لکھتا رہا ہوں اور جس کے گونا گوں عملی مظاہر‘ بیرون ملک‘ سالہا سال‘ مسلسل‘ میرے مشاہدے میں آتے رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ کتاب اس نازک موضوع پر ایک انسائیکلو پیڈیا ہے تو مبالغہ نہیں ہو گا۔ ترکِ وطن کا شاید ہی کوئی پہلو ہو گا جو ڈاکٹر عذرا زیر بحث نہیں لائیں! بظاہر تو یہ مطالعہ اُردو افسانے کے حوالے سے ہے مگر ہجرت کی تمام شکلوں کو ہر ممکن زاویے سے یوں دکھایا گیا ہے جیسے یہ ایک طلسمی آئینہ ہو اور ہجرت کرنے والے اور ہجرت کی خواہش رکھنے والے اس میں اپنا اپنا مستقبل دیکھ سکتے ہوں۔
کتاب میں ترکِ وطن پر چارحوالوں سے تحقیق کی گئی ہے۔ اول: تقسیم ِ ہند کے حوالے سے‘ دوم: سقوط ِڈھاکہ کے حوالے سے‘ سوم: جلاوطنی کے حوالے سے اور چہارم : ''ترکِ سکونت‘‘ کے حوالے سے! ان میں ترکِ وطن کا حوالہ اہم ترین ہے کیونکہ یہ حال سے بھی متعلق ہے اور مستقبل سے بھی ! تقسیم ہند اور سقوطِ ڈھاکہ کی ہجرت‘ دونوں المناک تھیں مگر یہ 
one time 
ٹریجڈی تھیں۔ رہی جلا وطنی‘ تو اس کا پھیلاؤ بھی محدود ہے۔ اصل مسئلہ ترکِ سکونت ہے جو جاری ہے اور جاری رہے گا۔ یہی وہ زخم ہے جو رِس رہا ہے اور رِستا رہے گا۔ اسی نے ہجرت کرنے والوں کو زمین اور آسمان کے درمیان معلق کر رکھا ہے اور پسماندگان کی آنکھیں دروازے سے باندھ رکھی ہیں کہ چھوڑ کر جانے والے کب واپس آتے ہیں۔ ہوائی اڈوں پر خمیدہ کمر بوڑھے‘ مشکل سے چلتی بوڑھی مائیں‘ دادیاں اور نانیاں دبلے پتلے‘کمزور‘ضعیف ہاتھ ہلا ہلا کر اُن جوان بیٹوں‘ پوتوں‘نواسوں‘ پوتیوں اور نواسیوں کو خدا حافظ کہتی ہیں جو لوہے کے بے رحم اُڑن کھٹولوں میں بیٹھ کر ہزار ہا میل دور چلے جاتے ہیں! ان میں سے بہت سے تب واپس آتے ہیں جب قبروں پر چڑھائے گئے پھول سوکھ چکے ہوتے ہیں! بیرونِ ملک جا کر انہیں کن گھاٹیوں سے گزرنا پڑتا ہے؟ اس کا جواب مصنفہ جامع پیرائے میں دیتی ہیں :
'' مغربی معاشروں میں آباد ہونے والے تارکینِ وطن اس لحاظ سے زیادہ قابلِ رحم ثابت ہوئے کہ انہیں کثیر الثقافتی معاشرے میں اپنی شناخت گنوانے کے ساتھ ساتھ تہذیبی اور ثقافتی بُعدسے پیدا ہونے والے کئی لاینحل مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑا۔اولاد کی تعلیم و تربیت‘دوستوں کے انتخاب اور شادیوں کے سلسلے میں ان کے دلوں میں یا تو واپس لَوٹ جانے کی خواہش اور ضرورت نے جنم لیا یا پھر آزاد فضاؤں میں پروان چڑھنے والی اولادکے والدین اپنی اولاد کی بے راہ روی‘ تہذیبی اور ثقافتی تشخص سے پہلو تہی اور مذہبی اقدار سے بے نیازی کے سبب احساسِ ندامت‘ کسک‘ دُکھ‘ پچھتاوے اور ملال کا شکار رہے۔تاہم تارکینِ وطن کی ایک قسم ایسی بھی ہے جنہوں نے نئے معاشروں سے تعلق جوڑنے کیلئے‘ اپنی مرضی سے‘ اپنے وطن اور جڑوں سے‘اپنا رشتہ توڑ ڈالا۔مذہبی اور اخلاقی حد بندیوں سے آزادی کی خواہش بھی یورپی ممالک میں سکونت اور کا محرک بنی‘‘!!
ڈاکٹر عذرا قدم قدم‘ صفحہ صفحہ‘ ترک ِوطن کے ایک ایک پہلو کا ذکر کرتی چلی جاتی ہیں۔وہ بتاتی ہیں کہ نئے دیاروں میں بسنے والے دو طرفہ عذاب سہتے ہیں ایک طرف پسماندگان کی اذیتناک یادیں اور اپنی جڑوں سے دوری‘ دوسری طرف نئی سرزمین اور اجنبی کلچر کی تکلیف !

غرض دو گو نہ عذاب است جانِ مجنوں را  
بلائے صحبتِ لیلیٰ و فرقتِ لیلیٰ

تارکین وطن کو‘ بیک وقت‘ کئی تاوان ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اولاد کی بے راہروی‘ اپنی سر زمین سے دوری اور نائن الیون جیسے واقعات رونما ہونے کے بعدمقامی آبادی کا تعصب!! پھر وہ اُس انتہائی پُر درد صورتحال کا ذکر کرتی ہیں جسے بیان کرنے کیلئے 
Empty nest syndrome
کی اصطلاح وضع ہو ئی ہے۔ یعنی خالی گھونسلا! ماں باپ بہت چاؤ سے ساری زندگی کی جمع پونجی خرچ کر کے گھر تعمیر کرتے ہیں۔ ہر بیٹے اور بیٹی کیلئے الگ خواب گاہ مختص کرتے ہیں۔ مگر یہ آشیانہ بیکار جاتا ہے۔ پرندے اُڑ کر نئے ٹھکانوں کو جا چکے ہوتے ہیں۔ گھر مکان بن جاتا ہے‘ گھر نہیں رہتا۔ خالی کمرے‘ آسیب زدہ دکھائی دیتے ہیں‘مُڑتی ہوئی سیڑھیاں سانپ کی طرح نظر آتی ہیں‘ اداس دیواریں کھانے کو آتی ہیں! یہاں تک کہ شاعر پکار اُٹھتا ہے:
خالی مکاں میں کوئی نہ لَوٹا تمام عمر؍ دو پہریدار روتے رہے‘ جاگتے رہے!
وہ ان واقعات کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں جن میں تارکینِ وطن‘ واپس وطن آتے ہیں تو اُن کی املاک پر ان کے رشتہ دار یا دوسرے لوگ قبضہ کر چکے ہوتے ہیں‘ مگر تارکینِ وطن ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ وطنِ عزیز میں قانون نہیں‘ روابط کام آتے ہیں۔ تارکینِ وطن روابط کہاں سے لائیں ؟ بے دخلی کے مقدمے تو پوری پوری زندگیاں نگل جاتے ہیں! ڈاکٹر عذرا اُن بددیانت تارکینِ وطن کو بھی نہیں بھولتیں جو ہٹے کٹے ہو کر بھی‘ حیلے بہانوں سے‘ غلط بیانیوں سے‘ گزارہ الاؤنس اور معذوری الاؤنس حاصل کرتے ہیں اور ساری کمیونٹی کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ پھر وہ اُن پیروں فقیروں کا ذکر کرتی ہیں جو یہ کاروبار مغربی ملکوں میں بھی لے گئے ہیں اور تارکینِ وطن سے چندے‘ نذرانے اور زکواۃ خیرات وصول کرتے ہیں۔ مسلکی فرقہ واریت بھی ہماری بر آمدات میں شامل ہے۔ پھر وہ غیر قانی طور پر ان ملکوں میں داخل ہونے والوں کا ذکر کرتی ہیں۔ یہ لوگ چھپ چھپا کر‘ کم معاوضوں پر‘ کام کرتے ہیں ! مصنفہ مغربی ملکوں کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ‘ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کا ذکر کرنا بھی نہیں بھولتیں۔یہاں تہذیبی یا معاشرتی مسائل تو نہیں مگر دوسری مصیبتیں بھی کم نہیں۔ خلیجی ریاستوں میں کام کرنے والے پاکستانی‘ وطن میں بسنے والے خاندانوں کو معاشی آسودگی تو فراہم کرتے ہیں مگر پیچھے‘ باپ کی نگرانی کے بغیر‘بچے بے راہرو ہو جاتے ہیں اور سالہا سال انتظار کرتی‘ تنہائی سہتی‘ بیویاں جذباتی اور نفسیاتی عارضوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ان مسلمان ملکوں میں مسجدیں تو ہیں مگر مقامی آبادی کا احساسِ تفاخر اور نسلی امتیاز بھی موجود ہے۔ یہاں پاکستانیوں کو ''مسکین‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور ان کی تضحیک بھی کی جاتی ہے۔ سالہا سال رہنے کے باوجود سب کچھ کفیل کے نام ہوتا ہے۔ شہریت ملنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

یہ اس انتہائی اہم کتاب کی محض چند جھلکیاں ہیں ! یہ کتاب تارکینِ وطن کو ضرور پڑھنی چاہیے اور اُن پس ماندگان کو بھی جو جانے والوں کا انتظار کر رہے ہیں !

Thursday, December 26, 2024

جہالت + جاہلیت


جج نے قرآنی آیات کا حوالہ دے کر بہن کو بھائیوں سے جائداد میں حصہ دلوایا۔ جج نے سورۃ النساء کی گیارہویں آیت پڑھ کر سنائی۔ جج نے کہا کہ اسلام نے وراثت کی تقسیم کے بہت واضح اصول اور قوانین بتائے ہیں۔ اس نے یہ بھی سمجھایا کہ لڑکوں کو لڑکیوں سے دُگنا ملتا ہے اس لیے کہ مردوں پر بیوی بچوں اور ماں باپ کی کفالت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ انصاف مملکتِ خدادداد میں نہیں ہوا۔ یہ بھارت میں ہوا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی ایک مسلمان عورت تھی۔ بھائیوں نے اس کا حصہ ہڑپ کر لیا۔ وہ عدالت میں گئی۔ مقدمے نے طول کھینچا۔ ایسا طول کہ وہ مر ہی گئی۔ اس کے بعد اس کے بڑے بیٹے نے یہ مقدمہ سنبھالا۔ وہ بھی رزقِ خاک ہو گیا۔ عورت کے چھوٹے بیٹے نے یہ جنگ جاری رکھی اور آخرکار کئی دہائیوں کے بعد انصاف حاصل کر لیا۔ اس عورت کی بہادری کی داد دینا پڑتی ہے کہ اس نے کسی ہچکچاہٹ اور کمپلیکس کے بغیر قانون کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ مقدمے کی طوالت اس کا حوصلہ توڑنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ پھر اس کے بیٹوں نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ یہ ایک ہندو جج تھا جس نے قرآنی آیات پڑھ کر سنائیں۔ اور یہ وضاحت بھی کر دی کہ مرد کا حصہ دو گنا کیوں ہے۔
اس امر کی تحقیق ہونی چاہیے کہ پاکستان میں جہاں ہر وقت‘ ہر طرف‘ اسلام زندہ باد کے نعرے لگتے ہیں‘ ایسے کتنے مقدمے دائر کیے گئے اور کتنی عورتوں کو وراثت میں ان کا حق ملا؟ لطیفہ یہ ہے کہ عورتوں کے حقوق کی نام نہاد نگہبانی کرنے والے خود اپنے گھروں میں ان حقوق کو خوب خوب پامال کرتے ہیں۔ عورت کے حقوق کی اس پامالی میں خود عورت کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ بیٹی وراثت کی بات بھی کرے تو سب سے پہلے ماں ہی اسے ڈائن اور بھائیوں کی دشمن قرار دیتی ہے۔ اولاد ہونے میں ذرا سی دیر ہو جائے یا بیٹی پیدا ہو تو ساس سب سے پہلے چیخ وپکار شروع کرتی ہے۔ بیٹے کی پسلیوں میں کچوکے دیتی ہے۔ اسے دوسری شادی پر مسلسل اُکساتی ہے۔ بیٹی کی پیدائش کی خبر دینے والی نرس کو پہلا تھپڑ‘ نوزائیدہ بچی کی دادی ہی رسید کرتی ہے۔ رہے مرد تو مردوں کی اکثریت بھی بیٹی کی پیدائش کو اچھا نہیں سمجھتی۔ آنکھوں دیکھا یہ واقعہ پہلے بھی لکھا تھا کہ وفاقی دارالحکومت میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ بلکہ اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ جوڑے کے ہاں دوسری بیٹی پیدا ہوئی۔ دونوں میاں بیوی بہت خوش تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کا حلقۂ احباب بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں پر مشتمل تھا۔ اس بات میں رتی بھر مبالغہ نہیں کہ ان کے ملنے والوں میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جو انہیں تسلی دے رہے تھے کہ کوئی بات نہیں‘ اگلی بار بیٹا ہوگا۔ وہ بیچارے مٹھائی پیش کر رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ وہ دوسری بیٹی کی پیدائش پر خوش ہیں مگر افسوس کرنے والے مٹھائی بھی کھا رہے تھے اور مسلسل افسوس بھی کر رہے تھے۔ ابھی یہ داستانِ حیرت ختم نہیں ہوئی۔ نوزائیدہ بیٹی کا باپ جس ادارے میں کام کر رہا تھا وہاں اکثریت سائنس دانوں کی اور انجینئروں کی تھی! اس کا باس بہت بڑے گریڈ کا مالک تھا‘ با ریش تھا اور بظاہر کٹر مذہبی! اس نے بھی افسوس کا اظہار کیا۔ نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ اُس نے کوئی آیت بھی بتائی کہ اسے پڑھنے سے بیٹا پیدا ہوگا۔ یعنی جس قرآن میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ''جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوشخبری دی جائے تو اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے‘‘ اور ''لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے‘‘۔ موصوف اُسی قرآن سے اولادِ نرینہ کا نسخہ نکال رہے تھے۔ جب سائنس دانوں کا یہ حال ہوگا تو عام آدمی کا بیٹی یا بیٹیوں کے ضمن میں جو رویہ ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں!
کسی اجنبی کو پاکستان میں لائیے۔ وہ کچھ عرصہ رہ کر دیکھے کہ بیٹی‘ بہن‘ بہو اور بیوی کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جا رہا ہے اور کیسا رویہ ہے تو وہ کبھی نہیں مانے گا کہ یہ اسلامی ملک ہے یا اسلامی نہ بھی سہی‘ مسلمانوں کا ملک ہے!! عورت یہاں‘ الّا ماشاء اللہ‘ ایک جنس ہے۔ اسی ایک بات سے اندازہ لگائیے کہ لڑکے والے لڑکی کو ''دیکھنے‘‘ اس انداز میں جاتے ہیں جیسے لڑکی انسان نہیں‘ فرنیچر کا پیس ہے۔ لڑکی چائے کی ٹرے لے کر آتی ہے تو لڑکا‘ اس کی ماں‘ اس کی بہن‘ اس کا باپ لڑکی کا اس طرح جائزہ لیتے ہیں جیسے مویشیوں کی منڈی میں قربانی کا جانور دیکھا جاتا ہے۔ لعنت ہے اس رواج پر‘ اس تکبر پر اور بیٹیوں کی اس توہین پر!! پُرتکلف چائے پی کر اور مرغن کھانا جانوروں کی طرح تنورِ شکم میں اتار کر‘ لڑکی کو ناپسند کر دیا جاتا ہے! انسانیت کی اس سے زیادہ کیا تذلیل ہو گی!! اہلِ مغرب میں لاکھ برائیاں ہیں مگر عورت کی یہ تذلیل انہوں نے ختم کر دی۔ عرب معاشرے میں‘ جہاں حضرت خدیجہؓ نے خود شادی کا پیغام بھیجا تھا‘ آج بھی عورت خود پروپوز کرتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں لڑکی والا گھرانا مجرم کی طرح ہوتا ہے۔ وہ مسلسل اس ٹینشن میں رہتا ہے کہ لڑکے والے کسی بات پر ناراض نہ ہو جائیں۔ کہیں منگنی نہ توڑ دیں۔ کوئی اعتراض نہ کر دیں۔ جہیز کی فہرست باقاعدہ ایک قیمتی دستاویز کی طرح لڑکی والوں کے حوالے کی جاتی ہے۔ ہر موقع پر لڑکی والوں سے مٹھائی کی توقع کی جاتی ہے۔ لڑکے کی ماں کو سونے کا کوئی نہ کوئی زیور پیش کیا جاتا ہے۔ لڑکے کے ماں باپ‘ بہنوں بھائیوں کو ملبوسات پیش کیے جاتے ہیں۔ پھر ایک اور مکروہ رسم کہ پہلی صبح کا ناشتہ لڑکی والے لے کر آئیں! یہ کہاں کی تہذیب ہے؟ یہ کیسا کلچر ہے؟ یہ کیسا معاشرہ ہے! کیا وہ لڑکے والوں کے ملازم ہیں! شرم آنی چاہیے ایسا ناشتہ منہ میں ٹھونسنے پر!! لڑکی والے نہ ہوئے‘ محکوم اور مغضوب ہوئے! جہالت اور جاہلیت کی آخری حد ہے! دفتروں اور کام کرنے کی دوسری جگہوں میں جو خواتین ملازمت کرتی ہیں‘ ان کے مرد رفقائے کار ان کی غیر حاضری میں ان کا مذاق اڑاتے ہیں‘ ناشائستہ گفتگو کرتے ہیں اور انہیں مختلف طریقوں سے ہراساں کرتے ہیں۔ بہت کم مرد‘ آٹے میں نمک کے برابر‘ اس ضمن میں شرافت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ساتھ کام کرنے والی خواتین کی دل سے عزت کرتے ہیں!
بھائی ماں باپ کی موجودگی میں‘ ماں باپ کی زندگی میں‘ بہنوں پر رُعب جھاڑتا ہے۔ اس کے آنے جانے پر‘ اس کی زندگی کے معمولات پر‘ اس کے حصولِ تعلیم پر اعتراضات کرتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو برتر سمجھتا ہے۔ ماں باپ بھی بیٹی سے توقع کرتے ہیں کہ بھائی کے سارے کام کرے۔ اسے چائے بنا کر دے‘ اس کا لباس استری کرے! وہ اپنا لباس خود کیوں نہیں استری کرتا؟ کیا اس نے بھی کبھی بہن کو چائے بنا کر دی؟ ہر روز سنتے اور سناتے ہیں اور پڑھتے اور پڑھاتے ہیں کہ آقائے دو جہانﷺ گھر کا کام اپنے ہاتھوں سے کرتے تھے اور ازواجِ مطہراتؓ کا ہاتھ بٹاتے تھے مگر اس پر عمل کی توفیق نہیں ہوتی! بیٹا دنیا جہان کی بدمعاشیاں کرے‘ غنڈہ گردیاں کرے‘ نشہ کرے‘ تعلیم حاصل کرنے میں ناکام ہو‘ جیل یاترا بھی کر آئے پھر بھی پوتّر ہے! اس کے کسی کرتوت سے خاندان کی عزت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ مگر بیٹی کسی سے بات بھی کر لے تو حرمت آلودہ ہو جاتی ہے اور خراٹے لیتی غیرت جاگ اُٹھتی ہے!! کیسا دُہرا معیار ہے! اور کیسی پرلے درجے کی منافقت ہے! شادی کے بعد جو کچھ لڑکی کے ساتھ سسرال والے کرتے ہیں‘ وہ تو بعد کی بات ہے۔ شادی سے پہلے اس کے اپنے ماں باپ اور بھائی اس کے ساتھ جو رویہ اختیار کرتے ہیں‘ اس پر بھی غور کرنا چاہیے!

Tuesday, December 24, 2024

ایک اور ہی طرح کا جھگڑا


انور مسعود نے چائے اور لسی کے جھگڑے کو نظم کیا ہے۔ شدید ضرورت ہے کہ پلاؤ اور بریانی کے جھگڑے پر بھی بات کی جائے۔ ہم جانتے ہیں کہ پلاؤ کی جنم بھومی وسط ایشیا ہے۔ سوویت یونین نے ان علاقوں پر قبضہ کیا تو جہاں کریم‘ کریموف بنا اور عبدالرحمن‘ عبد الرحمانوف بنا وہاں بیچارہ پلاؤ بھی پلاؤف اور پھر پلاف بن گیا۔ اب بہت سے ملکوں میں اسے پلاف کہا جاتا ہے‘ مگر اس کے علاوہ بھی اس کے بہت سے نام ہیں۔ مادہ سب کا پلاؤ ہی ہے۔ وسط ایشیا سے نکل کر پلاؤ پوری دنیا میں پھیلا۔ مغل ہندوستان میں آئے تو ساتھ پلاؤ بھی لائے۔ جنوبی ہند کے تامل دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے ہاں یہ پہلے سے موجود تھا مگر یہ دعویٰ باطل ہے۔ بو علی سینا نے اپنی معروف تصنیف ''القانون‘‘ میں پلاؤ کا ذکر کیا ہے۔ شرقِ اوسط میں اسے بخاری پلاؤ کہتے ہیں۔ یہ نسبت بھی وسط ایشیا ہی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ بریانی سے میری اَن بن ذاتی نوعیت کی ہے۔ اس میں مرچ اتنی زیادہ ڈالتے ہیں کہ کم از کم میرے لیے اسے کھانا ایک سزا سے کم نہیں۔ پاک وہند پر اس وقت اصل حکمرانی مرچ کی ہے۔ لال مرچ ہو یا ہری‘ ہر پکوان میں ٹھونسی جاتی ہے۔ سموسہ بھی وسط ایشیا سے آیا۔ میں نے تاشقند میں سموسہ کھایا ہے۔ بے حد شریفانہ اور دوستی سے بھرپور! بیچارہ پاک و ہند میں آیا تو اسے مرچ سے بھر دیا گیا۔ حد یہ ہے کہ نوڈل اور سپیگتی بھی یہاں مرچ اور گھی میں پکائی جاتی ہے۔ معروف ثقافتی محقق سہیل ہاشمی‘ جن کا تعلق بھارت سے ہے‘ کہتے ہیں کہ مغل عہد میں مرچ یہاں تھی ہی نہیں۔ اس کی اصل جائے پیدائش جنوبی امریکہ ہے۔ مہاراشٹر یعنی بمبئی اور اردگرد کے دیگر علاقوں میں اسے پرتگالی لائے۔ اس کے پودوں کو انہوں نے اپنی کوٹھیوں کے اردگرد باڑ کے طور پر استعمال کیا۔ اس باڑ پر رنگا رنگ مرچیں لگتی تھیں۔ ہری‘ سفید‘ سرخ‘ پیلی۔ ان کے گھروں میں کام کرنے والی ‘ گھاٹ کی مقامی عورتوں نے انہیں چکھا تو بھا گئیں۔ انہوں نے اسے اپنے کھانوں میں ڈالنا شروع کر دیا۔ اٹھارہویں صدی کے وسط میں جب مرہٹے مار دھاڑ کرتے دہلی پہنچے تو مرچ دہلی پہنچ گئی۔ آج کل جن کھانوں کو مغلئی کھانے کہا جاتا ہے‘ ان کی پہچان ہی مرچ ہے مگر کم ازکم بڑے مغلوں کے زمانے میں ان کے کھانوں میں مرچ تھی ہی نہیں۔ اب تو دلّی کے کھانوں کا جزوِ اعظم مرچ ہے۔ میں نے ستر کی دہائی کے شروع میں سرکاری ملازمت کا آغاز کراچی سے کیا۔ اُس وقت بوہری بازار میں چاٹ کی ایک دکان بہت مشہور تھی۔ ہم چند دوست وہاں باقاعدگی سے جاتے تھے۔ اب تو شاید وہاں چاٹ کی کئی دکانیں ہوں۔ (نمکو کی بھی پہلے بوہری بازار میں ایک ہی دکان تھی۔ اب کئی ہیں اور اُس اصل دکان کو تلاش کرنا مشکل ہے) ایک بار ہم چاٹ والی دکان پر بیٹھے چاٹ کھا رہے تھے تو میں نے اپنے کانوں سے سنا کہ ایک صاحب دکان والے کو کہہ رہے تھے ''بھئی مرچ اور بھی ڈالو‘ ہم دِلّی کے ہیں!‘‘۔ مغل جب ہندوستان میں پلاؤ لائے تو کچھ کھانے یہاں سے لیے اور کچھ یہاں والوں کو دیے۔ پان کے وہ رسیا ہو گئے۔ مغل عہد کی فارسی شاعری میں پان کا خوب ذکر ہے۔ آم بھی انہیں بھائے اور اتنے کہ گرویدہ ہو گئے۔ ''رقعات عالمگیری ‘‘ میں اورنگزیب عالمگیر بیٹوں سے شکایت کرتا نظر آتا ہے کہ آم اچھی کوالٹی کے نہیں بھیجے۔ شاہ جہاں کا رویہ اورنگزیب سے سرد مہری ہی کا رہا۔ اس کے زمانے میں اورنگزیب دکن کا گورنر تھا۔ شاہ جہاں کو بھی اورنگزیب سے یہی شکایت رہی کہ آم اچھے نہیں بھیجے جا رہے۔ پلاؤ جب ہندوستان پہنچا تو اس میں مقامی تبدیلیاں کی گئیں اور یہ بریانی بن گیا۔ اورنگزیب کے ایک بیٹے کے پاس ایک باورچی تھا جو بریانی پکانے کا ماہر تھا۔ اس نے بیٹے سے تقاضا کیا کہ وہ باورچی اس کے پاس بھیجا جائے۔ مگر شہزادہ طرح دے گیا۔ تاہم اورنگزیب جب بھی اس کے ہاں جاتا تو فرمائش کرتا کہ بریانی اس کے ہاتھ کی پکی ہوئی ہو۔ مگر یہ بریانی تب تک مرچ سے آلودہ نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت جو شے پاکستان میں بریانی کے نام سے پکائی اور کھائی جا رہی ہے ‘ اس میں چاول کم اور مرچ زیادہ ڈالی جاتی ہے۔ کبھی اسے سندھی بریانی کا نام دیا جاتا ہے‘ کبھی بمبئی بریانی کا اور کبھی کچھ اور۔ مگر ڈھیروں مرچ سب میں مشترک ہے۔ کھاتے جائیے‘ ناک اور منہ سے دھواں نکالتے جائیے اور زہر معدے میں ڈالتے جائیے! پورے جنوبی ایشیا میں مرچ کا راج ہے۔ میلبورن میں ایک انڈین دکان سے بوندی والے لڈو خرید رہا تھا جو آج کے پاکستان سے اسی طرح غائب ہیں جیسے بوندی غائب ہوئی ہے۔ سری لنکا کی دو عورتیں مرچ کے پیکٹ خرید رہی تھیں۔ ان سے پوچھا کہ اس قدر مرچ کیوں کھاتے ہو؟ کہنے لگیں: دل کے لیے مفید ہوتی ہیں!
کوئی مانے یا نہ مانے ‘ اصل شاہانہ کھانا تو پلاؤ تھا جو اَب خال خال رہ گیا ہے۔ پلاؤ میں متانت ہے۔ شرافت ہے‘ شان وشوکت ہے ‘ روایت ہے‘ آہستگی ہے‘ نرمی ہے اور ایک خاص قسم کا تہذیبی رچاؤ ہے! بریانی میں دھوم دھڑکّا ہے۔ شور وغل ہے۔
اور اگر کہنے کی اجازت دیں تو عامیانہ پن اور ابتذال ہے اور فرنگی زبان کی رُو سے یہ riff-raff کے زمرے میں آتی ہے۔ میرے مستقل قارئین کو یاد ہو گا کہ داؤد آپسن نامی ایک انگریز کا ذکر کیا تھا جو برطانوی عہد میں انگلستان سے آیا اور بمبئی میں رہنے لگا۔ اس کے علامہ اقبال سے بھی مراسم تھے۔ پروفیسر عبد الغنی فاروق نے اپنی تصنیف ''ہم کیوں مسلمان ہوئے‘‘ میں ان صاحب کا ذکر کیا ہے۔ انہیں کسی مسلمان نے اپنے گھر کھانے پر بلایا۔ وہاں انہوں نے زندگی میں پہلی بار پلاؤ کھایا اور اس قدر مسحور ہوئے کہ ان کے بقول ''مجھے کسی مُلّا نے مسلمان کیا نہ کسی صوفی نے‘ بلکہ میں تو حضرت پلاؤ کے ہاتھ پر مشرّف بہ اسلام ہوا‘‘۔ یہ واقعہ یہاں بیان کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں پلاؤ کو مذہب سے وابستہ کر رہا ہوں۔ ہرگز نہیں! پہلے ہم نے اُردو پر اسلام کا لبادہ ڈالا اور اس کا جینا بھارت میں دوبھر کیا۔ قائداعظم کو بھی پگڑی اور ٹخنوں سے اونچا پاجامہ پہنانے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔ خدا نخواستہ پلاؤ کو مسلمانوں کے ساتھ مخصوص کر کے اسے بھی بھارت بدر نہ کر دیا جائے۔ یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ پلاؤ کا تہذیب‘ روایت اور رکھ رکھاؤ سے گہرا تعلق ہے! دیگر خواتین کی طرح میری بیٹیاں بھی بریانی کے متاثرین میں سے ہیں۔ جب ان سے پلاؤ کی برتری پر بحث کرتا ہوں تو بریانی کو نیچا دکھانے کے لیے یہ بھی کہتا ہوں کہ آخر بریانی کیا ہے؟ چاول کو سالن میں مکس کر دیں تو بریانی بن جاتی ہے۔ مگر اب مجھ جیسے پلاؤ کے شائقین کم ہوتے جا رہے ہیں۔ وقت وقت کی بات ہے۔ بہت کچھ دیکھنا پڑ رہا ہے۔ جو کچھ مشاعروں میں اُردو شاعری کے ساتھ ہو رہا ہے‘ کچھ ایسا ہی پلاؤ کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ پلاؤ کی دیگ کا آرڈر دیں تو منت کر کے کہنا پڑتا ہے کہ مرچ نہیں ڈالنی! مگر وہ باورچی ہی کیا جو بات مان لے! ایک بار دورانِ سفر کسی گیسٹ ہاؤس میں قیام تھا۔ باورچی کو ہدایت کی کہ ٹِنڈے پکائے۔ پھر کئی بار سمجھایا کہ لال‘ ہری یا کالی‘ کسی قسم کی مرچ نہیں ڈالنی! پھر پوچھا کہ کیا سمجھے؟ کہنے لگا: صاحب! سمجھ گیا ہوں! مرچ کسی قسم کی نہیں ڈالنی! کھانے کا پہلا نوالہ منہ میں ڈالا تو نِرا زہر ! پوچھا تو کہنے لگا: صاحب! بالکل پھیکا سالن تھا۔ میں نے اس پر چاٹ مسالا چھڑک دیا ہے!

Monday, December 23, 2024

دو شرمناک مبارکبادیں


ہماری تاریخ میں دو مبارکبادیں بہت شرمناک ہیں!! ایک برطانوی غلامی کے عہد میں اور دوسری پاکستان بننے کے بعد! عید کی صبح ہمارے جاگیردار‘ زمیندار‘ وڈیرے اور گدی نشین ڈپٹی کمشنر بہادر کی کوٹھی کا رخ کرتے تھے۔ یہ لوگ عام طور پر خاص قسم کی اچکن پہنتے تھے جو سائیڈوں سے نہیں کٹی ہوتی تھی بلکہ پیچھے سے درمیان میں چاک ہوتا تھا۔ سر پر طُرّے والی دستار ہوتی تھی۔ یہ کلف زدہ طُرّے اتنے ہی اکڑے ہوئے ہوتے تھے جتنے یہ وڈیرے اور گدی نشین عوام کے سامنے اکڑے ہوئے ہوتے تھے۔ کسی سفید چمڑی والے کی موجودگی میں یہ اکڑ اڑ جاتی تھی اور یہ لوگ رکوع کی حالت میں ہو جاتے تھے۔ انگریز ڈپٹی کمشنر‘ وسیع و عریض کوٹھی کے اندر سو رہا ہوتا تھا۔ یہ سب ٹوڈی کوٹھی کے لان میں کھڑے ہو جاتے تھے اور پہروں کھڑے رہتے تھے۔ بہت دیر کے بعد ڈی سی جاگتا تھا۔ پھر اندر سے ایک چپڑاسی نمودار ہوتا تھا اور اعلان کرتا تھا کہ صاحب بہادر نے آپ حضرات کی عید مبارک قبول کر لی ہے۔ اس پر یہ لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے تھے اور ایک دوسرے ہی سے گلے ملتے تھے۔ اس کامیابی اور سرخروئی کے بعد یہ اپنے اپنے گھروں کو چل دیتے تھے۔
آج کل منتخب ایوانوں میں باہمی مخالفتیں عروج پر ہیں۔ بلکہ مخالفتیں دشمنیوں کا روپ دھار چکی ہیں۔ خود معزز ارکان ''آگ اگلنے‘‘ کا محاورہ استعمال کر رہے ہیں۔ سب و شتم‘ جوتم پیزار‘ سب کچھ ہوتا ہے۔ بجٹ کی موٹی موٹی کتابیں ایک دوسرے پر‘ تاک کر پھینکی جاتی ہیں۔ سپیکر کے تخت کی طرف جارحانہ پیش قدمی کی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کی تقریر کے دوران شورِ قیامت برپا کیا جاتا ہے۔ کبھی کسی کا ماضی کریدا جاتا ہے‘ کبھی کسی کا حال افشا کیا جاتا ہے۔ کئی الفاظ اور کئی جملے سپیکر کو حذف کرنا پڑتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہوتا ہے اور تسلسل کے ساتھ ہوتا ہے۔ پھر ایک معجزہ برپا ہوتا ہے۔ سارے فریق یک جان دو قالب کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ چہروں پر رواداری کی نرمی آجاتی ہے۔ یہ انہونی اس وقت رونما ہوتی ہے جب پارلیمنٹ کے معزز ارکان کی مراعات کے بل پیش ہوتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے پنجاب میں ان امرا و عمائدین کی تنخواہیں بڑھی ہیں تو ایک معروف انگریزی معاصر کا یہ فقرہ جگر میں نیزے کی انی بن کر پیوست ہو گیا ''بل پاس ہونے کے بعد ارکان بے حد مطمئن نظر آئے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دی‘‘۔ روزنانہ دنیا نے بھی کم و بیش یہی رپورٹ کیا۔ تنخواہوں میں یہ اضافہ ہولناک ہے اور وحشت ناک!! دل تھام کر تفصیل دیکھیے۔ اسمبلی کے ہر رکن کی تنخواہ 76ہزار سے بڑھا کر چار لاکھ کر دی گئی ہے۔ صوبائی وزرا کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھا کر نو لاکھ 60ہزار روپے کی گئی ہے۔ سپیکر پنجاب اسمبلی کی تنخواہ ایک لاکھ 25ہزار سے بڑھا کر نو لاکھ 50ہزار روپے‘ ڈپٹی سپیکر کی تنخواہ ایک لاکھ 20ہزار سے بڑھا کر سات لاکھ 75ہزار روپے اور پارلیمانی سیکرٹریوں کی تنخواہ 83ہزار سے بڑھا کر چار لاکھ 51ہزار روپے کر دی گئی ہے۔ سپیشل اسسٹنٹ کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھا کر چھ لاکھ 65ہزار روپے اور ایڈوائزر کی تنخواہ بھی ایک لاکھ سے بڑھا کر چھ لاکھ 65ہزار روپے کر دی گئی ہے۔ پڑھتے آئے ہیں کہ عباسیوں نے امویوں کی لاشوں پر قالین بچھا کر ضیافت اڑائی تھی۔ اب ہمارے سامنے یہ ہو رہا ہے کہ گرانی سے مارے ہوئے بدحال عوام کی حالت زار پر بھاری بھرکم تنخواہوں کا قالین بچھا کر خوشی منائی جا رہی ہے اور ایک دوسرے کو مبارک بادیں دی جا رہی ہیں۔ یہ دن بھی دیکھنا تھا۔ یہ اضافے چار سو فیصد سے لے کر نو سو فیصد تک ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں نے اس ظالمانہ اضافے پر اتفاقِ رائے کا مظاہرہ کیا ہے۔ اقبال نے کہا تھا:
یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے 
کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف
یہ اہلِ سیاست‘ جو کبھی اکٹھے نہیں ہوتے‘ آج عوام کے خلاف اکٹھے ہو گئے ہیں! اس بے مثال اضافے کے علاوہ مراعات الگ ہیں۔ ہوائی جہاز کے مفت ٹکٹ‘ علاج کی شاہانہ سہولیات‘ گاڑیاں‘ پٹرول۔ سرکاری محلات‘ سٹاف اور خدام کی فوج ظفر موج!! یہ کیسے لوگ ہیں؟ عام آدمی سبزی اور دال نہیں خرید سکتا۔ بجلی اور گیس کے بل نہیں ادا کر سکتا۔ بچوں کی فیسوں کے لالے پڑے ہیں اور یہ حضرات‘ جو پہلے ہی کروڑ پتی اور ارب پتی ہیں‘ انہی اَدھ موئے عوام کے ٹیکسوں سے نو نو لاکھ تنخواہ لینے پر ایک دوسرے کو مبارکیں دے رہے ہیں! اگر یہ سنگدلی اور سفاکی کی انتہا نہیں ہے تو کیا ہے؟ 
امریکی حکومت کے ترجمان کے سامنے اس ناجائز اضافے کے حوالے سے سوال پوچھا گیا۔ بطور قوم ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ترجمان کو یاد دلایا گیا کہ ابھی ایک ماہ پہلے پاکستان کا وزیر خزانہ مالی مدد مانگنے واشنگٹن آیا تھا اور اب یہ نو نو سو فیصد اضافے ہورہے ہیں تنخواہوں میں!! امریکی بہت سیانے ہیں۔ ترجمان نے سفارتی پینترا بدلا اور کمال معصومیت سے جواب دیا کہ یہ پاکستانی عوام اور پاکستانی حکومت کا مسئلہ ہے۔ یہ اور بات کہ ترجمان کے سامنے یہ مسئلہ اٹھانے سے پوری دنیا کو معلوم ہو گیا کہ پاکستانی عجیب و غریب مخلوق ہیں۔ ہاتھ میں کشکول ہے اور بدن پر زرق برق لباس!! مانگ کر کھاتے ہیں مگر دال ساگ نہیں‘ قورمے‘ شیرمال‘ چرغے‘ سالم دنبے اور کباب!! اور وہ بھی سونے چاندی کے برتنوں میں!! گدا گری کر لیں گے مگر عیاشی نہیں چھوڑ سکتے!! ہمارے حکمران بھیک مانگنے جاتے ہیں تو چارٹرڈ جہازوں پر اور ساتھ لمبے چوڑے وفود! 
ٹیکس دے دے کر عام آدمی مُردے سے بدتر ہو چکا ہے۔ ماچس کی ڈبیا سے لے کر دوا تک‘ نمک سے لے کر گُڑ تک‘ ہر شے پر ٹیکس ہے۔ کیا مزدور‘ کیا تنخواہ دار‘ کیا اہلِ حرفہ‘ کیا تاجر‘ سب اذیت میں ہیں۔ پنشنر دشمن لگ رہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں 55سال پر ریٹائر کر دیں گے۔ کبھی فیملی پنشن آنکھوں میں کھٹکتی ہے۔ سب قربانی دیں مگر حکمران طبقے کی تنخواہ ایک لاکھ کے بجائے نو لاکھ ہو جائے۔ اور حکمران علاج کرانے باہر جائیں تو وزیروں اور چیف سیکرٹریوں تک کو ساتھ لے کر جائیں! تو کیا ہم مفتوح قوم ہیں؟ کیا ہم پا بہ زنجیر ہیں؟ جس اسمبلی کے ارکان کی تنخواہ راتوں رات چھ سو فیصد بڑھا دی جائے‘ وہ اسمبلی حکومت کا محاسبہ خاک کرے گی؟ ثابت ہو گیا کہ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی باہمی آویزش محض نورا کُشتی ہے۔ اندر سے یہ سب ایک ہی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور وہ طبقہ ہے بالائی کلاس! رولنگ کلاس! پنجابی محاورے کی رُو سے بھینسیں بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں۔ اور دیکھ لیجیے گا یہ ملک دشمن اضافہ صرف پنجاب تک محدود نہیں رہے گا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک صوبے کا ایم پی اے‘ وزیر اور سپیکر لاکھوں میں کھیلے اور دوسرے صوبوں کے ایم پی اے‘ وزیر اور سپیکر ہزاروں میں! ایک ہی ملک کے اندر یہ کیسے ممکن ہے؟ دوسرے صوبے بھی یہ اضافے اپنائیں گے۔ پھر وفاق کی باری آئے گی! ایم این اے اور سینیٹر نوازے جائیں گے۔ پھر ادارے جھرجھری لے کر اٹھیں گے۔ اضافوں کا مجموعی اثر 

(Cumulative Effect) 

کھربوں تک جائے گا! تجمل حسین خان عیش کریں گے۔ عوام سینہ کوبی کریں گے۔ پھر مزید ٹیکس‘ بین الاقوامی اداروں سے مزید قرضے۔ لندن‘ جنیوا‘ دبئی کے مزید دورے! مزید ملکی ٹیلنٹ کی ہجرت! جب بلاول‘ حمزہ شہباز‘ مریم نواز‘ چودھری مونس الٰہی‘ چودھری سالک حسین اور مولانا اسعد محمود کے بچے تخت پر بیٹھیں گے تو ملک میں حاکم ہی حاکم ہوں گے‘ محکوم یا تو گل سڑ چکے ہوں گے یا کہیں نہ کہیں پناہ

 (Asylum) 

لے چکے ہوں گے!!

Thursday, December 19, 2024

اُترن‘ اُترن اور اُترن


لاہور‘ ایمپریس روڈ سے گزر تے ہوئے ریلوے سٹیشن جا رہے تھے۔ مقامی ڈرائیور نے دائیں طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ''ادھر دیکھیے‘ لنڈے بازار کی بہاریں‘‘!! چار پانچ گھنٹوں کے بعد راولپنڈی ریلوے سٹیشن پر اُترے اور گوالمنڈی پُل کا رخ کیا۔ بائیں طرف لنڈا بازار تھا جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ کئی سو دکانیں قمیضوں‘ کوٹوں‘ اوور کوٹوں‘ سویٹروں‘ جرسیوں‘ ٹوپیوں‘ پتلونوں‘ جیکٹوں‘ جُرابوں‘ جوتوں اور پردوں سے اَٹی ہوئی تھیں۔ یہ چیزیں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں تھیں۔ اور یہ صرف ایک شہر کا حال ہے۔ یہ وہ ملبوسات ہیں جو امیر ملکوں کے باشندوں نے پہنے اور جب ان سے اُکتا گئے تو ہماری طرف بھیج دیے۔ ان ملبوسات کو غریب ہی نہیں مڈل کلاس بھی پہنتی ہے۔ ہماری ریاست روٹی اور مکان نہیں دے سکتی تو کپڑا کیسے دے گی؟ پانی‘ بجلی‘ گیس‘ پٹرول‘ امن و امان‘ حفاظت‘ ہر شے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
شرم کیسی؟ کہاں کی عزتِ نفس؟ ہم آسودہ حال ملکوں کی اُترن پہن کر گزارہ کر رہے ہیں۔ اُترن کہیے یا لنڈا‘ یا سیکنڈ ہینڈ! بات ایک ہی ہے! ہم بطور قوم وہ ہاری ہیں جنہیں وڈیرے اپنی اُترن بخشتے ہیں اور ہم لے کر سر جھکاتے ہوئے‘ سینے پر ہاتھ رکھتے‘ شکریہ ادا کرتے ہیں!! یورپ اور امریکہ وڈیرے ہیں‘ چودھری ہیں‘ خان ہیں‘ سردار ہیں۔ ہم غریب ہاری ہیں‘ مزارع ہیں‘ کمی ہیں‘ کمین ہیں۔ چاہیں بھی تو آنکھیں نہیں دکھا سکتے۔ سر اٹھا کر بات کریں گے تو ان کے دیے ہوئے مکان سے بھی جائیں گے اور آٹے دال کو بھی ترسیں گے۔ پھینٹی بھی کھائیں گے اور معافی مانگ کر‘ پاؤں پر گر کر‘ پھر انہی کا کام کریں گے۔ انہی کا دیا ہوا کھائیں گے۔ انہی کے گن گائیں گے۔ مگر کیا یہ اُترن صرف جوتوں‘ کوٹوں‘ جیکٹوں اور پردوں تک محدود ہے؟ یہاں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے وہ بھی تو اُترن ہے۔ جو اکنامکس ہم پڑھ اور پڑھا رہے ہیں‘ سب انہی کے معیشت دانوں کی لکھی ہوئی ہے۔ سب تھیوریاں وہیں سے آئی ہیں۔ ایڈم سمتھ‘ مالتھیوس‘ کینز‘ روسٹو‘ ملٹن فرائیڈ مین اور تمام دوسرے ماہرینِ اقتصادیات کا تعلق مغرب سے ہے۔ نفسیات‘ سیاسیات‘ فلسفہ‘ پبلک ایڈمنسٹریشن‘ بزنس ایڈمنسٹریشن‘ سب اُترن ہی تو ہے۔ ان میں سے اکثر مضامین تو ایجاد ہی وہیں ہوئے۔ کمپیوٹر سائنس کہاں وجود میں آئی اور کہاں سے ہمارے ہاں آئی؟ او لیول اور اے لیول سسٹم سب کیمبرج اور آکسفورڈ کی اولاد ہیں۔ اربوں روپے فیسوں کی شکل میں ہر سال وہاں جا رہے ہیں! سائنس تو ساری کی ساری اُترن ہے۔ بو علی سینا اور جابر بن حیان نے جو کچھ کیا اور لکھا‘ اسے صدیاں ہو چکیں۔ اس کے بعد ہم نے تنکا تک نہ توڑا۔ میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم کے لیے دنیا بھر کے طبیب کہاں جا رہے ہیں؟ امریکہ‘ یورپ‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ! انہی کی تصانیف ہمارے میڈیکل کالجوں میں پڑھائی جا رہی ہیں۔ یہ جو پنسلین ہے‘ یہ جو دل کے بائی پاس ہمارے ہاں ہو رہے ہیں‘ گردوں کی پیوند کاری ہو رہی ہے‘ ڈائیلسز ہو رہا ہے‘ موتیا کے آپریشن ہو رہے ہیں‘ ناکارہ پِتّے نکالے جا رہے ہیں‘ گٹھنے تبدیل ہو رہے ہیں‘ یہ سب اُترن ہی تو ہے۔ سب کچھ وہیں سے آیا ہے۔ دل کی پیوند کاری پاکستان میں نہیں ہو رہی۔ کچھ افراد بھارت سے کروا کر آئے ہیں۔ بھارت اس میدان میں بھی بہت سے دوسرے میدانوں کی طرح ہم سے آگے ہے۔ 
جمہوریت بھی تو اُترن ہے! انہی کی بخشش ہے! ہمارے ہاں تو کیا عثمانی ترک اور کیا ہمارے مغل‘ تخت نشینی کی لمبی لمبی جنگیں ہوتی تھیں۔ بھائیوں کو قتل کیا جاتا تھا۔ عثمانی ترکوں کے علما نے تو فتویٰ بھی دے دیا تھا کہ تخت نشینی کی جنگ میں کئی ہزار لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بجائے چند درجن بھائیوں کا قتل جائز ہے۔ پُرامن انتقالِ اقتدار کی جیکٹ ہم نے اُترن کے طور پر لی۔ آڈٹ کا نظام بھی اُترن ہے۔ ہمارے بادشاہ تو موتیوں سے منہ بھرتے تھے اور سونے یا چاندی میں تلواتے تھے۔ تختِ طاؤس پر اُس وقت کے کروڑوں روپے لگے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی آئی تو آڈیٹر اور کمپٹرولر ساتھ آئے۔ فنانس والوں سے پوچھے بغیر ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ پلاسی کی جنگ کے لیے کلائیو نے ملٹری اکاؤنٹس کے محکمے سے باقاعدہ ایک لاکھ روپے ایڈوانس لیا تھا جس کی رسید آج بھی موجود ہے۔ مردم شماری کا ادارہ بھی اُترن ہے۔ پارلیمنٹ بھی اُترن ہے۔ کون سی شے ہے ہماری زندگی میں جو ہم نے خود بنائی ہے؟ ٹرین‘ کار‘ ہوائی جہاز‘ ٹیلیفون‘ برقی روشنی‘ پنکھا‘ اے سی‘ ہیٹر‘ ٹی وی‘ ریڈیو‘ فوٹو کاپی‘ فیکس‘ ٹائپ رائٹر‘ سرجری کے آلات‘ ایمبولینس‘ تھرما میٹر‘ بلڈ پریشر کی پیمائش کا آلہ‘ انٹرنیٹ‘ ای میل‘ موبائل فون‘ فضاؤں خلاؤں میں گھومتے سیٹلائٹ‘ یہ سب اُترن ہے جس سے ہم نے معاشرے کا بدن ڈھانک رکھا ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف وڈیروں کے منشی ہیں۔ امیر ملک اپنی مالیاتی اُترن ہمیں ان منشیوں کے ذریعے دیتے ہیں۔ یہ اُترن ہمیں واپس کرنا پڑتی ہے مگر نئے لباس کی صورت میں! ہم خود اُترن سے گزر بسر کرتے ہیں لیکن اُترن کا قرض نئے نکور‘ کھڑ کھڑاتے ڈالروں سے اتارتے ہیں!
کلچر کی بھی بات کر لیتے ہیں۔ اکبر الہ آبادی نے تو ایک دوسرے انداز میں شکایت کی تھی کہ:
پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
شکایت سے زیادہ یہ اس حقیقت کا اعتراف تھا کہ پائپ اور ٹائپ رائٹر دوسروں نے ہم سے پہلے ایجاد کر لیے۔ دونوں ایجادات نے معیارِ زندگی بدل ڈالا۔ مگر آج ثقافت کا معاملہ بہت آگے جا چکا ہے اور یہاں بھی ہم نے اُترن اوڑھی ہوئی ہے۔ ہمارے بزرگ پنجابی کیلنڈر استعمال کرتے تھے۔ وساکھ‘ جیٹھ‘ ہاڑ‘ ساون‘ بھدرے‘ اسُو‘ کتیں‘ مگھر‘ پوہ‘ ماہ‘ پھگن‘ چیتر۔ آج ہم اس سے نا آشنا ہیں۔ سالگرہ منانا آج فرضِ عین ہے۔ یہ التزام بھی مانگے کا ہے۔ نیو ایئر کی مبارکبادیں‘ ویلنٹائن ڈے‘ فادر ڈے‘ مدر ڈے‘ ٹیچر ڈے‘ کچھ عشرے پہلے یہ تمام ڈے کہاں تھے؟ پہلے دعائے مغفرت ہوتی تھی۔ اب یاد کرنے کیلئے شمعیں جلائی جاتی ہیں۔ پہلے دعوتوں میں کھانا بیٹھ کر کھایا جاتا تھا‘ اب کھڑے ہو کر کھاتے ہیں۔ (ویسے جانور سارے کھڑے ہو کر کھاتے ہیں۔ ہاں گائے بکری جگالی بیٹھ کر کرتی ہیں‘ بچوں کو بتا دیجیے گا کہ جگالی کس چڑیا کا نام ہے؟) کھانا کھاتے ہوئے چھری دائیں ہاتھ میں اور کانٹا بائیں ہاتھ میں پکڑا جاتا ہے یعنی صاحب لوگ کھانا بائیں ہاتھ سے کھاتے ہیں کس کس اُترن کا ذکر کیا جائے۔ انگریز سرکار نے ہندوستان فتح کیا تو تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ ہمارے لباس کی تذلیل یوں کی کہ نوکروں‘ بٹلروں‘ چوبداروں کو ہماری اشرافیہ کا لباس شیروانی اور دستار پہنائی۔ یہ اُترن آج تک ہم پوری بے شرمی سے پہنے ہوئے ہیں۔ ایوانِ صدر‘ ایوانِ وزیراعظم اور دیگر سرکاری دعوتیں دیکھ لیجیے۔ تذلیل جاری ہے۔
یہ سب وہ حقیقتیں ہیں جن کا کوئی اندھا بھی انکار نہیں کر سکتا۔ ہم پاتال میں پڑے ہیں۔ روپیہ دوسری کرنسیوں کے مقابلے میں ذلیل و خوار ہو رہا ہے۔ پاسپورٹ کی رینکنگ شرمناک ہے۔ عدلیہ کی رینکنگ سب کے سامنے ہے۔ سانس لینے سے پہلے آئی ایم ایف اور دوسرے سخی ملکوں سے اجازت لینا ہوتی ہے۔ مگر آفرین ہے ہم پر!! ہماری اکڑ میں‘ ہماری خود ستائی میں‘ خود بینی میں‘ خود فریبی میں دن رات اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ عالمِ اسلام میں مذہب کے ہم سب سے بڑے ٹھیکیدار ہیں۔ اپنے سوا دوسری تمام قوموں اور تمام ملکوں کو ہم ہیچ سمجھتے ہیں! لال قلعے اور وائٹ ہاؤس پر قبضہ کرنے کا ہمارا ارادہ پکّا ہے۔ بات لمبی ہو گئی ہے۔ مجھے اجازت دیجیے‘ لنڈے بازار جانا ہے۔ کسی انگریز یا امریکی کا پہنا ہوا کوٹ خرید لاؤں۔ سردیاں بھی تو گزارنی ہیں!!

Tuesday, December 17, 2024

بظاہر سب ایک جیسے ہیں


سفید ریش حکیم صاحب کے چہرے کو دیکھا تو دل میں جیسے سکون کی ایک لہر سی اُٹھی! طمانیت کا احساس ہوا!
اُن دنوں میری طبیعت خراب رہتی تھی۔ دوا مستقل لینے سے بلڈ پریشر تو کنٹرول میں تھا مگر ٹینشن پھر بھی رہتی تھی۔ سر درد‘ چڑچڑا پن‘ ہمیشہ رہنے والی بے خوابی میں مزید اضافہ‘ ایک قسم کی بے اطمینانی‘ بھوک کی کمی! مردم بیزاری‘ تھکاوٹ! بیگم کو کسی نے ان حکیم صاحب کا بتایا تھا۔ ان کا مطب اسلام آباد کی کراچی کمپنی میں واقع تھا۔ ہفتے میں ایک دن اپنے قصبے سے تشریف لاتے تھے اور مطب میں بیٹھتے تھے۔ ہم گئے تو زیادہ رش نہیں تھا۔ ہماری باری آئی تو بہت خندہ پیشانی سے پیش آئے۔ ان کے چہرے کو دیکھا تو عجیب نرمی کا احساس ہوا جیسے گرمی میں خنکی کی لہر چلنے لگے یا جیسے دھوپ میں سر پر بادل کا سایہ آ پڑے۔ بیگم نے انہیں میری صورتحال بتائی۔ ساری شکایات سن کر انہوں نے پوچھا: کرتے کیا ہیں؟ یعنی پیشہ اور مصروفیات! بیگم نے پروفیشن بتایا اور اُس وقت کی پوسٹنگ کی نزاکت‘ مکروہات اور مشکلات سے بھی آگاہ کیا۔ ساتھ یہ بھی بتایا کہ کالم بھی لکھتے ہیں اور شاعری بھی کرتے ہیں۔ حکیم صاحب نے میرا ہاتھ مستقل اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔ وہ مسلسل میرے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان رکھ کر آہستہ آہستہ مَل رہے تھے۔ مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ اس نرم لمس کا اثر جیسے اندر‘ دور‘ دل کی گہرائی میں پڑ رہا تھا۔ جیسے کوئی گرہ کھل رہی تھی۔ جیسے ذہن سے کوئی بوجھ اُتر رہا تھا‘ مجھے یقین ہے کہ حکیم صاحب یہ عمل علاج کے طور پر کر رہے تھے اور اس کے اثرات سے بخوبی آگاہ تھے۔ نرم گفتار تھے۔ آہستہ بات کرتے اور ٹھہر ٹھہر کر! یوں لگ رہا تھا جیسے مجھے دیکھنے اور ہمارے ساتھ بات کرنے کے علاوہ ان کا اور کوئی کام ہی نہ ہو۔ مطب کی فضا میں کاروبار کی بُو تھی نہ کسی افرا تفری یا جلدی کا ٹچ!! فرمانے لگے کہ کسی دوا کی کوئی ضرورت نہیں۔ صرف دو کام کرنے ہیں۔ پہلا یہ کہ ہفتے میں ایک دن کسی پرانے دوست یا دوستوں کے ساتھ بیٹھوں اور وہاں خاصا وقت گزاروں۔ دوسرا یہ کہ ہفتے میں ایک بار بیگم کے ساتھ لانگ ڈرائیو پر نکل جاؤں یا ہم دونوں کسی ریستوران یا سیر گاہ میں وقت بسر کریں اور اس آؤٹنگ کے دوران گھریلو بجٹ یا رشتہ داروں کو چھوڑ کر دنیا جہان کی باتیں کریں۔ میں نے کہا کہ کوئی دوا بھی دے ہی دیجیے۔ اس اصرار پر انہوں نے برائے نام کوئی دوا بھی دے دی۔ یاد نہیں کوئی فیس لی بھی یا نہیں۔اگر لی بھی تھی تو برائے نام ہی!! چاہتے تو بہت سی ادویات دے کر سینکڑوں‘ ہزاروں روپے لے سکتے تھے اور بار بار آنے کا کہہ سکتے تھے اور ہر بار بھاری فیس لے سکتے تھے۔ ان کے تجویز کردہ دونوں ''نسخوں‘‘ کا استعمال شروع کر دیا اور طبیعت میں واضح بہتری محسوس کی۔ ان کا یہ کہنا کہ بیگم کے ساتھ آؤٹنگ کرو تو بجٹ یا رشتہ داروں کے ذکر سے اجتناب کرو‘ کروڑ روپے کا نسخہ تھا۔ اکثر جوڑوں میں انہی دو موضوعات سے تلخیاں پھوٹنے کا امکان ہوتا ہے !
یہ حکیم صاحب ‘ غلام رسول بھُٹہ تھے۔ آج مجھے بے اختیار یاد آئے۔ یوں کہ ایک بہت پرانے دوست افتخار کا فون آ گیا۔ کسی زمانے میں افتخار راول ڈیم میں ''جل ترنگ‘‘ کے نام سے ریستوران چلاتے تھے۔ یہ ایک کامیاب اور مقبول ریستوران تھا۔ پھر وہ کچھ اور کام کرنے لگ گئے۔ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے فون کیا کہ یار زمانے ہو گئے ملاقات کو‘ تم کہاں ہو؟ میں آسٹریلیا میں تھا۔ چند ماہ کے بعد میں نے فون کیا تو افتخار برطانیہ میں بیٹی کے پاس تھے۔ آج فون پر ان کا میسج تھا کہ میں پاکستان میں ہوں اور شاید تم بھی! ملنے کی کیا صورت ہے؟ میں نے لمبا چوڑا وائس نوٹ بھیجا اور بتایا کہ جلد ملتے ہیں اور یہ کہ پرانے دوستوں سے ملنا امراض کے لیے اکسیر ہے۔ اس پر مجھے حکیم غلام رسول بھٹہ صاحب یاد آئے۔ سوچا بیس پچیس برس گزر چکے! نہ جانے کس حال میں ہوں‘ مختلف نمبر ٹرائی کرتے کرتے ان کے ایک قریبی عزیز تک پہنچ گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ماشاء اللہ حیات ہیں مگر اب مریض نہیں دیکھتے۔ زیادہ وقت گھر ہی میں گزارتے ہیں۔ سوچ رہا ہوں کسی وقت جاؤں اور ان کی زیارت کروں!
یہ دنیا ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے آباد ہے۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ فلاں قطب اور فلاں ابدال دنیا کا نظام چلا رہے ہیں! مگر میں کہتا ہوں کہ دنیا کا نظام ایسے فرشتہ صفت افراد کی وجہ سے چل رہا ہے۔ یہی وہ صاحبان ہیں جن کی عزت دلوں میں ہمیشہ رہتی ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ ہر موڑ پر راہزن اور جیب تراش دندناتے پھر رہے ہیں۔ کچھ نے بیش قیمت فرنگی ملبوسات زیب تن کر رکھے ہیں اور گھومتی ہوئی کرسیوں پر براجمان ہیں۔ کچھ نے شیروانیاں‘ واسکٹیں اور عمامے پہن رکھے ہیں۔ کچھ سبز رنگ کے لمبے چولے پہنے ہیں۔ کچھ کے گلوں میں موتیوں کی مالائیں ہیں۔ سب میں ایک قدر مشترک ہے۔ وصولی‘ وصولی اور وصولی!! اب اصول وہ ہے جس سے کچھ وصول ہو! نقد یا جنس! فصل کی صورت میں یا کسی بھی شکل میں!! اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جائز ہے یا ناروا! بس جیسا بھی ہے‘ آ جائے‘ آتا رہے اور آتا ہی رہے! ایک قریبی عزیزہ تشریف لائیں۔ خارش کے عارضے میں مبتلا تھیں! کہنے لگیں: اسلام آباد میں ایک طبیب ہیں‘ بہت شہرہ سنا ہے۔ عزیزہ کو بہت سمجھایا کہ کسی ماہر امراض جلد کے پاس جائیں اور طبیب وطیب کے چکر میں نہ پڑیں۔ مگر وہ مُصر رہیں۔ اُن دنوں ان طبیب صاحب کا مطب ایک معروف مرکزمیں تھا تاہم ہمیں انہوں نے قیام گاہ پر طلب فرمایا۔ انتظار گاہ کی دیواریں اُن تصویروں سے مزین تھیں جن میں وہ مختلف حکمرانوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ پی آر کی تخلیق ہیں۔ جینوین بندے کو ان بیساکھیوں کی حاجت نہیں ہوتی نہ تشہیر کی۔ خاتون کو انہوں نے یہ تو نہیں بتایا کہ خارش کی وجہ کیا ہے۔ گفتگو میں حکمت کا دور دور تک نشان نہ تھا۔ ہاں یہ ضرور بتایا کہ اس مرض کے لیے انہیں دوائیں تیار کرنا پڑیں گی جو مہنگی ہیں اور یہ کہ تیس ہزار روپے (دس سال پہلے کی بات ہے) لگیں گے جو انہوں نے پیشگی وصول کیے۔کہنے لگے: ایک ہفتہ دوا کی تیاری میں لگے گا۔ خاتون نے دوا استعمال کی ۔جیسا کہ مجھے اندازہ تھا‘ رتی بھر فرق نہ پڑا۔
بظاہر شکلیں انسانوں جیسی ہیں۔ ہر چہرے پر ماتھا‘ آنکھیں‘ ناک اور ہونٹ لگے ہیں۔ مگر اندر جھانک کر دیکھیں تو کچھ تو فرشتے ہوں گے! یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں میں آسانیاں بانٹتے ہیں! رحم کرتے ہیں۔ ہمدرد ہیں! زر اور زور ان کی ترجیحات میں کہیں نہیں! گِرے ہوئوں کو اٹھاتے ہیں اور اپنے پاؤں پر کھڑا کرتے ہیں۔ شہرت سے بے نیاز ہیں‘ دوسروں کی نظروں سے چھپتے پھرتے ہیں۔ مگر ایسے لوگ خال خال ہیں! زیادہ تر سگ اور خُوک نکلیں گے! کاٹنے والے‘ بھنبھوڑنے والے! خون نچوڑنے والے! شہرت اور جاہ کے لیے دوسروں کو پیروں کے نیچے کچل دینے والے! تیز چلتے ہوئے‘ دوسروں کو کہنیاں مار کر گرا دینے والے! کمزوروں پر غرانے والے اور طاقتوروں کے سامنے گھگیانے والے! ان کی ڈکشنری میں ایثار کا لفظ نہیں ہے۔ آپ کا امتحان یہ ہے کہ آپ نے ان ہر دو مخلوقات کو پہچاننا ہے۔ ایک کے قریب ہونا ہے۔ اس سے سیکھنا ہے۔ اس کی پیروی کرنی ہے۔ دوسرے سے بچنا ہے۔ مرعوب نہیں ہونا! اگر آپ سگانِ دنیا سے مرعوب ہو گئے تو جلد یا بدیر‘ اپنے آپ کو انہی کی صف میں کھڑا پائیں گے۔

Monday, December 16, 2024

قصیدہ بُردہ… ایک نئے رنگ میں


یہ اشعار کس نے نہیں سنے ہوں گے:


یہ جو ننگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے
یہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے
وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جڑ سکی
یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے مجھے کھا گئے


اور یہ شعر تو ضرب المثل ہے:


دو حرف تسلی کے جس نے بھی کہے اس کو
افسانہ سنا ڈالا تصویر دکھا ڈالی


اور محبت کے یہ اشعار کتنے ہی عشاق کے سفری تھیلوں میں اور کتنے ہی ہجر گزیدوں کے تکیوں کے نیچے پڑے ہوں گے:


جب کبھی خود کو یہ سمجھاؤں کہ تو میرا نہیں؍ 

مجھ میں کوئی چیخ اُٹھتا ہے‘ نہیں‘ ایسا نہیں؍ 

کب نکلتا ہے کوئی دل میں اُتر جانے کے بعد؍ 

اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستا نہیں؍ 

تم سمجھتے ہو‘ بچھڑ جانے سے مٹ جاتا ہے عشق؍ 

تم کو اس دریا کی گہرائی کا اندازہ نہیں؍ 

تجھ سے مل کر بھی کہاں مٹتا ہے دل کا اضطراب؍ 

عشق کی دیوار کے دونوں طرف سایا نہیں؍ 

مت سمجھ میرے تبسم کو مسرت کی دلیل؍ 

جو مرے دل تک اترتا ہو یہ وہ زینہ نہیں؍ 

یوں تراشوں گا غزل میں تیرے پیکر کے نقوش؍ 

وہ بھی دیکھے گا تجھے جس نے تجھے دیکھا نہیں؍ 

خامشی! کاغذ کے پیراہن میں لپٹی خامشی!؍ 

عرضِ غم کا اس سے بہتر کوئی پیرایہ نہیں!؍ 

کب تلک پتھر کی دیواروں پہ دستک دیجیے؍ 

تیرے سینے میں تو شاید کوئی دروازہ نہیں


یہ تمام اشعار خورشید رضوی کے ہیں! شعر کی دنیا میں ان کا اعلیٰ اور منفرد مقام ہے۔ مگر وہ صرف خورشید رضوی نہیں‘ پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی ہیں۔ عربی زبان وادب پر اتھارٹی ہیں۔ گورنمنٹ کالج اور دیگر بڑی بڑی درسگاہوں میں عربی زبان و ادب پڑھایا۔ ''عربی ادب قبل از اسلام‘‘ کے موضوع پر دو جلدوں میں جو کتاب تصنیف کی وہ ان کا ایک شاندار کارنامہ ہے۔ اب کے انہوں نے ایک اور زبردست کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ قصیدہ بُردہ کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔ منظوم اس طرح کہ مقفّی شاعری میں نہیں‘ بلکہ آزاد نظم کی صورت میں کیا ہے۔ قصیدہ بردہ کے اب تک بے شمار زبانوں میں لاتعداد ترجمے ہو چکے ہوں گے۔ ان میں ایک سے ایک بڑھ کر ہوگا۔ رضوی صاحب کے ترجمے کی خوبی یہ ہے کہ ایک تو ہم عصر اردو میں ہے‘ دوسرے آزاد نظم میں کیا ہوا‘ یہ ترجمہ‘ بذات خود ایک ادب پارہ ہے۔ قصیدے کے تیسرے حصے (الفصل الثالث) سے‘ جو نعت پرمشتمل ہے‘ چند اشعار کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے:


حیف اُس ذاتِ مطہّر کی روِش مجھ سے نباہی نہ گئی؍ 

جس نے راتوں کے اندھیروں کو رکھا یادِ خدا سے روشن؍ 

اور اتنا کہ تھکن سے متورّم ہوئے وہ پاک قدم؍

فاقے برداشت کیے اور شکمِ پاک پہ باندھے پتھر؍ 

دور سے اس کو لبھاتے رہے سونے کے پہاڑ؍ 

مگر اُس ہمتِ عالی نے سدا؍ 

ناک اونچی رکھی اور ایک نگاہِ غلط انداز بھی ڈالی نہ کبھی؍

اور اُس ہستیٔ بے مثل کو مائل کرے دنیا پہ ضرورت کیوں کر؍ 

جو نہ ہوتی تو نہ ہوتا کہیں دنیا کا وجود؍

ہستیٔ پاک محمدؐ؍ لقبِ سیدِ کونین ہے زیبا جس کو؍ 

جن و انس اہلِ عرب‘ اہلِ عجم‘ سارے جہاں کا سردار؍

وہ پیمبر ہے ہمارا؍ 

کہ کسی کام کا دے حکم؍ 

کہ روکے اس سے؍ 

کُن مکُن میں کوئی سچا نہیں اس سے بڑھ کر؍

وہی محبوب کہ بس اس کی شفاعت کی ہمیں آس لگی رہتی ہے؍ 

زندگانی میں کوئی ہَول جو بے روک چلا آتا ہے؍

دعوت اس کی ہے الی اللہ سو اس کا دامن؍ 

تھامنے والوں کے ہاتھوں میں سہارا محکم؍ 

سارے نبیوں پہ اسے؍ 

صورت وسیرت میں ہے فوق؍ 

کوئی بھی علم و کرم میں نہیں اس کے پاسنگ؍ 

ملتمس سب ہیں کہ وہ؍ 

بحرِ زخّارِ رسول عربی سے کوئی چلّو بھر لیں؍ 

یا پھر اس بارشِ فیضان سے لب تر لیں؍

اس کی سرکار میں سب حدِّ ادب پر قائم؍ 

نقطۂ علم ہو یا پھر ہو؍ 

حِکَم کا وہ کوئی زیر و زبر؍

ہے وہی ذات ّ عطا جس کو ہوا؍ 

صورت و معنی میں کمال

؍ اور پھر خالقِ ارواح نے چُن کر آخر؍ 

نامزد اُس کو کیا اپنا حبیب


یہ صرف اُس بہار کی ایک جھلک ہے جس کا جادو رضوی صاحب نے اپنے علم سے جگایا ہے۔ مگر اس میں صرف ان کا علم شامل نہیں‘ اس میں وہ محبت اور عقیدت بھی شامل ہے جو رضوی صاحب کو خاک پائے رسالت سے ہے۔ اس ترجمے کا عنوان رضوی صاحب نے ''ترجمان البردہ‘‘ رکھا ہے۔ اس لیے کہ یہ ترجمہ نہیں‘ ترجمانی ہے۔ اس کی تحریک انہیں کیسے ہوئی؟ یہ انہی کی زبانی سنیے۔ 

'' یہ 2015ء کے لگ بھگ کی بات ہو گی‘ میں انگلستان میں اپنے بیٹے عاصم کے ہاں گرمیوں کی چھٹیاں گزار رہا تھا کہ ایک روز قصیدۂ بردہ پڑھتے ہوئے ابتدائی چند اشعار کی برجستہ ترجمانی اُردو آزاد نظم میں ہو گئی جسے میں نے ایک کاغذ پر پنسل سے لکھ لیا۔ یہ ایک بے ارادہ واردات تھی جسے جاری رکھنے کا کوئی خیال نہ تھا۔ کئی برس کاغذ کا یہ ٹکڑا پڑا رہا اور اس پر درج سطریں مرورِ وقت کے ساتھ مٹ مٹ کر پھیکی پڑتی چلی گئیں۔ دو تین برس پہلے یاد نہیں کس مناسبت سے یہ دو چار شعروں کی ترجمانی میں نے ایک کاغذ پر صاف کی۔ 2022ء کی تعطیلاتِ گرما میں مجھے پھر عاصم کے پاس جون اور جولائی کے مہینے گزارنے کا اتفاق ہوا اور خوش قسمتی سے یہ داعیہ طبیعت پر مستولی ہو گیا اور ایک رَو چل پڑی۔ روزانہ چھ اشعار کی ترجمانی ہوتی رہی۔ تا آنکہ جولائی کے اواخر تک اس کام کا پہلا مسودہ تیار ہو گیا۔ یکم اگست 2022ء کو میں اپنے بڑے بیٹے عامر کے پاس جدہ آ گیا۔ اس فرصت میں اس مسودے کو پھر سے دیکھنے اور نوک پلک سنوارنے کا موقع ملا۔ یہ کام بسا اوقات ترجمانی کے اولین مرحلے سے زیادہ غور طلب ثابت ہوا۔ قصیدے کے متن میں جا بجا لفظی مناسبتوں کے جو جال بندھے ہیں‘ میرے لیے اس کا حق اُردو میں ادا کرنا ممکن نہ تھا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میری یہ حقیر سی کاوش کسی طرح بھی عربی متن کا ترجمہ نہیں بلکہ اصل کے مفاہیم اور جذبے کو کسی قدر سرشاری کے ساتھ اردو میں ادا کر دینے کی ایک کوشش ہے جس میں شعری رعایتوں اور مناسبتوں کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا‘‘۔


امام بوصیری کے حالات بھی مذکور ہیں۔ امام کہتے ہیں: 


مجھے فالج ہو گیا جس نے میرا آدھا بدن شل کر دیا۔ تب مجھے اپنے اس قصیدے ''البردہ‘‘ کے نظم کرنے کا خیال آیا۔ سو میں نے یہ قصیدہ کہا۔ اور اس وسیلے سے اللہ سے درخواست کی کہ مجھے صحت عطا فرمائے۔ اور بار بار اسے پڑھتا رہا اور رو رو کر دعا مانگی اور واسطہ دیا۔ اس میں میری آنکھ لگ گئی تو مجھے نبیﷺ کی زیارت ہوئی۔ آپﷺ نے اپنا دست مبارک میرے چہرے پر پھیرا اور ایک چادر (بُردہ) مجھ پر ڈال دی۔ آنکھ کھلی تو میں نے خود میں اُٹھنے کی طاقت محسوس کی۔ سو میں اٹھا اور گھر سے باہر نکل گیا...



ترجمان البردہ کی طباعت کا معیار عالی شان ہے۔ کاغذ بہترین لگایا گیا ہے۔ جلد از حد دیدہ زیب ہے۔ ہر صفحے پر حاشیہ اور آرائش ہے۔ آخر میں توضیحات ہیں جن میں بیش بہا علمی نکات بیان کیے گئے ہیں۔ بلا شبہ یہ ترجمانی اردو ادب میں بھی ایک معتبر اضافہ ہے۔

Thursday, December 12, 2024

سپریم کورٹ کی خدمت میں التماس اور بشار الاسد


بشار الاسد آنکھوں کا ڈاکٹر تھا مگر اندر سے نابینا تھا۔ یہ سقم اسے باپ سے وراثت میں ملا تھا۔
ایک سرکاری ادارے میں غبن کا کیس پکڑا گیا۔ بینک سے ساز باز کر کے یہ مجرم ہر ماہ ایک خطیر رقم ہڑپ کرتا رہا یہاں تک کہ کئی ماہ گزر گئے اور اس نے کروڑوں روپے جمع کر لیے۔ بالآخر پکڑا گیا۔ تفتیش کرنے والے افسر نے اس سے ایک دلچسپ سوال پوچھا کہ جب ایک معقول رقم جمع ہو گئی تھی تو پکڑے جانے سے پہلے بھاگ کیوں نہ گئے؟ اس نے کفِ افسوس ملتے ہوئے جواب دیا کہ ''سر! یہی تو غلطی ہو گئی۔ ہر ماہ سوچتا تھا کہ اب امریکہ بھاگ جاؤں مگر پھر اپنے آپ کو سمجھاتا کہ کچھ روپیہ مزید جمع کر لوں۔ یہی کشمکش جاری رہی اور آخرکار میں پکڑا گیا‘‘۔ ایک آمر کی یہی ذہنیت ہوتی ہے۔ بشا ر الاسد نے حسنی مبارک‘ قذافی اور زین العابدین وغیرہ کا انجام دیکھا مگر سبق نہ حاصل کر سکا۔ آنکھوں پر خود بینی‘ خود پسندی اور خود فریفتگی کی چربی چڑھ جاتی ہے۔ عقل پر پتھر پڑ جاتے ہیں۔ سامنے دیوار پر لکھا نہیں نظر آتا۔ کہتے ہیں یحییٰ خان نے لوگوں کے نعرے سنے تو حیران ہو کر کہا ''میں نے کیا کیا ہے؟‘‘۔ آپ آمروں کی عقل دیکھیے۔ تیونس کا ڈکٹیٹر زین العابدین جب جان بچا کر سعودی عرب جا رہا تھا تو مسلسل اس خیال میں تھا کہ جلد ہی واپس آکر حکومت دوبارہ سنبھال لے گا۔ بی بی سی نے بعد میں اُس وقت کی گفتگو کی ریکارڈنگ حاصل کر لی تھی۔ وہ وزیر دفاع کو فون کر کے کہتا ہے کہ وہ چند ہی گھنٹوں میں ملک واپس لوٹ آئے گا۔ پھر وہ اپنے قریبی ساتھی کمال الطائف سے بات کرتا ہے۔ الطائف صاف صاف کہتا ہے کہ صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے۔ اس کے باوجود زین العابدین اس سے پوچھتا ہے ''کیا تم مجھے مشورہ دیتے ہو کہ میں واپس آجاؤں؟‘‘۔ اس پر الطائف کہتا ہے کہ حالات خراب ہو رہے ہیں۔ پھر و ہ آرمی چیف راشد عمار سے وہی سوال کرتا ہے کہ کیا وہ تیونس واپس آ سکتا ہے؟ اس پر آرمی چیف محتاط ہوتے ہوئے کہتا ہے کہ بہتر ہے ابھی انتظار کریں۔ اب زین العابدین پھر وزیر دفاع کو فون کرتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیا وہ واپس آ جائے؟ وزیر دفاع بتاتا ہے کہ آپ آ گئے تو آپ کی حفاظت کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ جب جہاز سعودی عرب اترتا ہے تو بادشاہ کے محل کی طرف جاتے ہوئے پائلٹ کو کہتا ہے کہ انتظار کرے‘ واپس تیونس جانا ہے۔ مگر پائلٹ حکم عدولی کرتے ہوئے فوراً واپس چلا جاتا ہے۔ صبح آنکھ کھلتے ہی پھر وزیر دفاع کو فون کر کے حالات کے بارے میں پوچھتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ سڑکوں پر انتظامیہ کا کوئی کنٹرول نہیں اور عوام میں ایسا غصہ ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اس کے جواب میں زین العابدین کہتا ہے ''میں نے کیا کیا ہے؟ میں نے عوام کی خدمت کی ہے‘‘۔ یہ ہے وہ نفسیاتی خود پسندی جس میں دنیا کا ہر ڈکٹیٹر مبتلا رہتا ہے‘ یہاں تک کہ وقت اسے یوں نکال پھینکتا ہے جیسے دودھ سے مکھی نکالی جاتی ہے۔ یہی ضیا الحق کے ساتھ ہوا۔ جہاز میں ہلاک ہونے سے چند دن پہلے وفاقی وزارتِ خزانہ میں اس نے کہا تھا کہ ابھی اس کا جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ آمروں کا آئی کیو صفر ہوتا ہے۔ عقل ہوتی تو قناعت کرتا‘ انتخابات کروا کر حکومت چھوڑ دیتا اور آرام سے گھر بیٹھتا مگر قدرت آمروں کو یہ سزا دنیا ہی میں دیتی ہے کہ وہ عزت سے ریٹائر ہو کر زندگی سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔ یوگنڈا کے آمر عِدی امین کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ لاکھوں مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارنے والا یہ آمر دماغی خلل میں بھی مبتلا تھا۔ جب برطانیہ نے سفارتی تعلقات منقطع کیے تو عِدی امین نے اپنے آپ کو برطانیہ کا فاتح قرار دیا‘ اس نے اپنا مکمل سرکاری نام مع القابات‘ یوں رکھا:
"His Excellency, President for Life, Field Marshal Al Haji Doctor Idi Amin Dada, 
DSO, (Distinguished Service Order) MC, (Military Cross) CBE, 
(Conqueror of British Empire) Lord of All the Beasts of the Earth and Fishes 
of the Seas and Conqueror of the British Empire in Africa in General and Uganda in Particular"
اس نے اپنے آپ کو سکاٹ لینڈ کا بھی بادشاہ قرار دیا۔ جلاوطن ہو کر سعودی عرب میں مرا۔
بشار الاسد کو دیکھیے۔ اس کا باپ حا فظ الاسد تیس برس سیا ہ وسفید کا مالک رہا۔ تمام حساس پوسٹوں پر اپنے فرقے کے افرادکو تعینات کیا۔ یہ ایک پولیس سٹیٹ تھی۔ ہر فرد دوسرے پر سرکاری جاسوس ہونے کا شک کرتا۔ جیلیں قیدیوں سے بھری جاتی رہیں۔ تیس سال حکومت کرنے کے بعد حافظ الاسد 2000ء میں بادلِ نخواستہ‘ دنیا چھوڑ گیا۔ بیٹا بشار الاسد اس سے بھی کئی ہاتھ آگے نکل گیا۔ تمام اہم پوسٹوں پر اپنے فرقے کے لوگ بٹھائے۔ جیلیں اختلاف کرنے والوں سے اور ذرا سی بھی چوں چرا کرنے والوں سے بھر گئیں۔ کبھی کھوپڑی میں یہ بات نہ آئی کہ بہت حکومت کر لی‘ بہت کما لیا‘ بہت کچھ اکٹھا ہو چکا۔ اب تخت سے اتر جاؤں ۔ اپنے ملک میں انتقام کا ڈر تھا تو انتخابات کرانے کے بعد کسی اور ملک میں چلا جاتا۔ مگر وہ ایک احمق شخص تھا۔ اس نے نکولائی چاؤ شیسکو‘ شاہ ایران‘ زین العابدین‘ حسنی مبارک اور عِدی امین جیسوں کے انجام سے کچھ نہ سیکھا اور آج ایک پناہ گزین بن کر پوتن کے دروازے پر پڑا ہے۔
پسِ تحریر: میرٹ کُشی میں ہر حکومت نے اپنا حصہ ڈالا ہے مگر (ن) لیگ کی حکومت اس سلسلے میں ہمیشہ اول نمبر پر رہی ہے۔ ذرا یہ خبر دیکھیے: ''وزیراعظم نے ٹاپ کی پانچ بیرونی تعیناتیوں کو امتحان سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ جنیوا میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے سفیر کی پوسٹ مشتہر نہیں ہو گی۔ برسلز میں اکنامک منسٹر کی پوسٹ بھی مشتہر نہیں ہو گی۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جنیوا میں دو اور بھی اہم پوسٹوں (ٹریڈ قونصلر اور سرمایہ کاری قونصلر) کے لیے بھی کوئی امتحان نہیں لیا جائے گا۔ ڈائریکٹر ای سی او تہران کی پوسٹ بھی مشتہر نہیں ہو گی۔ ان اسامیوں کے لیے کوئی تحریری امتحان بھی نہیں ہو گا۔ صرف انٹر ویو ہو گا۔ ان اسامیوں کے حوالے سے ایک سپیشل سیلیکشن بورڈ بنایا جائے گا۔
اندازہ لگائیے ملک کی حالت کیا ہے اور زوال کے اس پاتال میں بھی حکومت میرٹ کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب پوسٹ مشتہر نہیں ہو گی تو نام نہاد سلیکشن بورڈ کن امیدواروں کا انٹرویو لے گا؟ یہ امیدوار کہاں سے آئیں گے؟ اتنی اہم اسامیوں کو مشتہر نہ کرنے کی وجہ کیا ہے؟ اصولی طور پر ان اسامیوں کو نجی شعبے سے پُر کرنا چاہیے اور وہ بھی مقابلے کے بعد خالص میرٹ پر۔ نوکر شاہی نے جو تیر مارے ہیں‘ ان کا نتیجہ قوم بھگت رہی ہے۔ (ن) لیگ کی حکومت نے پہلے بھی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن پر اپنے ایک چہیتے افسر کو سفیر تعینات کیا جس کا بین الاقوامی تجارت سے دور کا تعلق بھی نہ تھا۔ ایسے ''اپنے بندوں‘‘ کو مسلسل نوازا جاتا رہا ہے۔ مثالیں بہت ہیں۔اب جو یہ بڑی بڑی تعیناتیاں اشتہار کے بغیر‘ امتحان کے بغیر‘ کی جائیں گی تو اس اقدام کے پیچھے جو نیت ہے اور جو ارادہ ہے وہ صاف ظاہر ہو رہا ہے!! ریڑھ کی ہڈی سے محروم پارلیمنٹ اور یس سر‘ یس سر کہنے والی کابینہ سب خاموش رہیں گے۔ اعلیٰ عدلیہ کی خدمت میں درخواست ہے کہ ازخود نوٹس لے کر یہ تو پوچھے کہ جب پوسٹیں مشتہر نہیں ہوں گی تو امیدوار کون ہوں گے اور انٹرویو کن کا لیا جائے گا؟ اس میں تعجب ہی کیا ہے کہ بین الاقوامی تجارت کے حوالے سے ہم ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں! یا دوست نوازی یا اقربا پروری! تیرا ہی آسرا!

Tuesday, December 10, 2024

سول نافرمانی سے لے کر پاکستان نیوی تک


رفعت بھابی کا فون تھا۔ سخت گھبرائی ہوئی تھیں۔ بُلا رہی تھیں۔ کہنے لگیں ''بھائی فوراً آئیے اور اپنے دوست کو سمجھائیے۔ ان کا دماغ چل گیا ہے‘‘۔
میں اور نصیر بچپن کے دوست تھے۔ لنگوٹیے یار! زندگی بھر کے سنگی! از حد بے تکلف! نصیر تھا ذرا سخت مزاج! بچوں پر سختی کرتا تھا۔ آئے دن اس کے گھر میں بحران پیدا ہوتا! جب رفعت بھابی کے والدین حیات تھے تب بھی انہوں نے والدین کو کبھی نہیں بتایا‘ مجھے ہی بتاتی تھیں۔ میں ہی جا کر حالات سدھارتا تھا۔ اب اس عمر میں حالات بہتر ہو گئے تھے۔ نصیر کی طبیعت میں ٹھہراؤ آ گیا تھا۔ اسی لیے بھابی کی یہ فون کال میرے لیے غیرمتوقع تھی۔ سوچنے لگا کہ اب کیا چاند چڑھایا ہو گا اس پیرِ فرتوت نے! قصہ مختصر‘ پہنچا تو عجیب منظر دیکھا۔ نصیر کے ہاتھ میں پھاوڑا تھا۔ وہ گھر کی بیرونی‘ یعنی لان والی دیوار کو گرانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ساتھ رفعت بھابی کھڑی تھیں اور روکنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ مجھے دیکھا تو روہانسی ہو کر بولیں‘ بھائی انہیں روکیے! پورے گھر کو منہدم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میں نے سب سے پہلے اس کے ہاتھ سے پھاوڑا لیا۔ پھر پوچھا کیا کر رہے ہو‘ دماغ تو نہیں خراب ہو گیا۔ کہنے لگا ''میرا دماغ نہیں خراب۔ میں اُن کا دماغ ٹھیک کرنا چاہتا ہوں۔ میں اپنے لیڈر کے حکم کی تعمیل میں سول نا فرمانی کا آغاز کر رہا ہوں۔ اس گھر میں اُن کی فیکٹری کا سیمنٹ لگا ہوا ہے۔ اسے گرانا ہی گرانا ہے!‘‘ اس کی بات سن کر میری ہنسی چھوٹ گئی۔ کہنے لگا: آج تم ہنس لو مگر تم لوگ ایک دن روؤ گے۔ میں اسے بڑی مشکل سے گھر کے اندر لایا۔ رفعت بھابی کو چائے بنانے کا کہا۔ 
کافی دیر کے بعد نصیر اس پوزیشن میں ہوا کہ بات سُن سکے۔ میں اس سے مخاطب ہوا: ''تم کیا سمجھتے ہو کہ گھر گرا کر اور سیمنٹ والا احسان اتار کر تم بائیکاٹ میں کامیاب ہو جاؤگے؟ یہ پلاٹ بھی تو اُنہی کی ہاؤسنگ کالونی میں ہے۔ بائیکاٹ کرنا ہے تو گھر کے انہدام کے بعد یہ پلاٹ بھی بیچو۔ بجلی‘ گیس اور پانی بھی اسی کالونی کی وساطت سے مل رہے ہیں۔ ان کا بھی بائیکاٹ کرو۔ تمہارے پوتے آرمی پبلک سکول میں پڑھتے ہیں۔ انہیں بھی وہاں سے اٹھاؤ اور کسی اور سکول میں ڈالو۔ ایک بیٹا تمہارا میجر ہے‘ دوسرا کرنل‘ ان سے بھی استعفے دلواؤ۔ اور استعفوں سے پہلے ان کے لیے متبادل ملازمتوں کا بندو بست کرو۔ بہو تمہاری آرمی پبلک سکول میں پڑھاتی ہے‘ اسے حکم دو کل سے وہاں پڑھانا چھوڑ دے۔ بیٹی تمہاری عسکری بینک کی ایک بڑی برانچ کی چیف منیجر ہے۔ اسے فوراً کسی اور بینک میں لگواؤ۔ جب یہ سب کچھ کر چکو تو رفعت بھابی کو بھی ان کے میکے بھیج دو کیونکہ وہ ایک آرمی افسر کی صاحبزادی ہیں اور چونکہ بائیکاٹ تم نے مکمل کرنا ہے اور سنجیدگی سے کرنا ہے اس لیے ایک آرمی افسر کی صاحبزادی تمہارے گھر میں ہو تو سارا بائیکا ٹ مشکوک ہو جائے گا۔ اور ہاں‘ تم نے فوجی فرٹیلائزر اور دوسری ایسی کمپنیوں کے جو حصص خرید رکھے ہیں‘ وہ بھی فوراً بیچو تا کہ بائیکاٹ کی تکمیل کی طرف بڑھ سکو۔ تمہارے بیٹوں کو آرمی افسر کی حیثیت میں جو پلاٹ ملے ہیں وہ بھی فوراً واپس کراؤ‘‘۔
میرے بات ختم کرنے تک نصیر کا منہ لٹک چکا تھا۔ اس کی زبان گنگ ہو چکی تھی۔ سرد موسم کے باوجود ماتھے پر پسینہ آرہا تھا۔ رفعت بھابی نے اس گرم لوہے پر اپنی طرف سے بھی چوٹ لگا دی۔ کہنے لگیں ''میں بچوں کو لے کر بھائی کے گھر میں شفٹ ہو جاؤں گی۔ بچے بھی تو آخر ایک فوجی افسر کے نواسے ہیں۔ وہ اگر اس کے پاس رہے تو بائیکاٹ پر حرف آئے گا!! اور بیٹی کی منگنی ایک کپتان سے ہوئی ہے وہ بھی توڑنا پڑے گی‘‘۔
یہ ہے وہ صورتحال جو حقیقی سول نافرمانی کی صورت میں پیش آئے گی۔ تحریک انصاف کے بے شمار ارکان کے ساتھ یہی ہو گا۔ بائیکاٹ کا یہ مطلب نہیں کہ عسکری دلیا اور کسٹرڈ نہ استعمال کیا جائے۔ بائیکاٹ صرف اسی صورت میں مکمل بائیکاٹ کہلائے گا جب عساکر سے تعلق رکھنے والی ہر چیز‘ ہر رشتے اور ہر حوالے کا بائیکاٹ ہو گا۔ بائیکاٹ کا حکم دینے والوں کو کچھ فرق نہیں پڑ ے گا۔ حکم دینے والے اور حکم کی تعمیل کرنے والے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ رہا یہ شوشہ کہ تارکینِ وطن باہر سے رقوم بھیجنا بند کر دیں‘ اس سے بھی خان یا شاہ محمود قریشی یا سلمان راجہ جیسے متمول حضرات کو یا بیرونِ ملک مقیم زلفی بخاری یا شہباز گل کو کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ ہاں جن خاندانوں کو باہر سے رقوم آتی ہیں ان کا کھانا پینا‘ علاج معالجہ متاثر ہو گا۔ بچوں کی فیسیں نہیں دے پائیں گے۔ بجلی‘ پانی اور گیس کے بل نہیں دے پائیں گے۔ یاد رہے کہ تارکینِ وطن رقوم پاکستان کے سرکاری خزانے کو نہیں بھیجتے بلکہ اپنے خاندانوں کو بھیجتے ہیں۔ تارکینِ وطن پاکستان میں بے شمار فلاحی منصوبے بھی چلا رہے ہیں۔ ابھی آسٹریلیا میں ایک صاحب سے ملا جو پاکستان میں کئی سکولوں کے اخراجات برداشت کر رہے ہیں۔ ان سکولوں میں مستحق طلبہ اور طالبات کو تعلیم مفت دی جاتی ہے۔ ایسے ہزاروں پروجیکٹ چل رہے ہیں۔ کئی ہسپتال چل رہے ہیں جہاں غریب بیماروں کا مفت علاج ہوتا ہے۔ باہر سے رقوم آنے کا سلسلہ بند ہوا تو یہ تمام فلاحی سرگرمیاں بند ہو جائیں گی۔ اس کاکوئی اثر خان پر پڑے گا نہ ان کے گرد جمگھٹا لگائے امرا کا! یہ سب کچھ تو افراد کے حوالے سے تھا۔ جو نقصان ملک کو پہنچے گا وہ اس کے علاوہ ہے اور سول نافرمانی جتنی زیادہ ہو گی‘ ملک کا نقصان اتنا ہی زیادہ ہو گا۔
پسِ تحریر: جنوب کے شہر سے تعلق رکھنے والے ایک نام نہاد دانشور نے پاکستان نیوی کے بارے میں جو کچھ کہا ہے‘ افسوسناک ہے اور قابلِ صد مذمت! یہ مزاح کی پست ترین قسم تھی جسے پھکڑ پن کہنا چاہیے۔ جن لوگوں نے یہ شرمناک بات سن کر تالیاں پیٹیں ان کے ذوق کا بھی ماتم ہی کیا جا سکتا ہے! ہماری مسلح افواج کے جو افسر اور جوان مادرِ وطن کی خدمت میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں‘ اسے شہادت کہتے ہیں۔ شہیدوں کا تمسخر اڑانا اس تھالی میں چھید کرنے کے مترادف ہے جس سے ایسے بد فہم کھاتے ہیں! یہ موصوف پاکستان اور پاکستان سے متعلق ہر شخصیت کے بارے میں ہمیشہ ذو معنی باتیں کرتے آئے ہیں۔ ادب کی کسی صنف سے تو ان کا تعلق نہیں‘ ہاں الیکٹرانک میڈیا پر عامیانہ اور مُبتذَل مکالمے ضرور پیش کرتے رہے ہیں۔ جب بھی طنز و مزاح لکھنے کی سعی کی‘ ہمیشہ Below the belt ہی ضرب لگائی۔ مولانا فضل الرحمن سے لے کر زرداری صاحب تک اور بے نظیر بھٹو سے لے کر شریف برادران تک‘ ہر سیاستدان کی تضحیک کی مگر لندن والا بھائی ان کی کند چھری سے ہمیشہ محفوظ رہا۔ ہمیشہ پٹھانوں‘ سندھیوں‘ بلوچوں اور پنجابیوں ہی کو اپنے غیرمعیاری مزاح کا نشانہ بنایا! نام نہاد اُردو کانفرنسیں جب لاہور میں منعقد ہوتی ہیں تو یہ صاحب لاہور میں بیٹھ کر پنجاب سے تعلق رکھنے والے اہلِ سیاست کی بھد اُڑاتے ہیں اور اہلِ لاہور یہ سب سن کر خوب تالیاں بجاتے ہیں! اور یاد آیا کہ اردو کانفرنسوں کا اردو سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا عامیانہ تھیٹر کا اردو سے تعلق ہے۔ اینکر اور اداکارائیں ان کانفرنسوں میں اہلِ قلم کی جگہ لے رہی ہیں! مجمع لگانے کے لیے بھی کیا کیا جتن کرنا پڑتے ہیں! فاعتبروا یا اولی الابصار! اے آنکھوں والو! عبرت پکڑو!

 

powered by worldwanders.com