Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, December 24, 2024

ایک اور ہی طرح کا جھگڑا


انور مسعود نے چائے اور لسی کے جھگڑے کو نظم کیا ہے۔ شدید ضرورت ہے کہ پلاؤ اور بریانی کے جھگڑے پر بھی بات کی جائے۔ ہم جانتے ہیں کہ پلاؤ کی جنم بھومی وسط ایشیا ہے۔ سوویت یونین نے ان علاقوں پر قبضہ کیا تو جہاں کریم‘ کریموف بنا اور عبدالرحمن‘ عبد الرحمانوف بنا وہاں بیچارہ پلاؤ بھی پلاؤف اور پھر پلاف بن گیا۔ اب بہت سے ملکوں میں اسے پلاف کہا جاتا ہے‘ مگر اس کے علاوہ بھی اس کے بہت سے نام ہیں۔ مادہ سب کا پلاؤ ہی ہے۔ وسط ایشیا سے نکل کر پلاؤ پوری دنیا میں پھیلا۔ مغل ہندوستان میں آئے تو ساتھ پلاؤ بھی لائے۔ جنوبی ہند کے تامل دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے ہاں یہ پہلے سے موجود تھا مگر یہ دعویٰ باطل ہے۔ بو علی سینا نے اپنی معروف تصنیف ''القانون‘‘ میں پلاؤ کا ذکر کیا ہے۔ شرقِ اوسط میں اسے بخاری پلاؤ کہتے ہیں۔ یہ نسبت بھی وسط ایشیا ہی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ بریانی سے میری اَن بن ذاتی نوعیت کی ہے۔ اس میں مرچ اتنی زیادہ ڈالتے ہیں کہ کم از کم میرے لیے اسے کھانا ایک سزا سے کم نہیں۔ پاک وہند پر اس وقت اصل حکمرانی مرچ کی ہے۔ لال مرچ ہو یا ہری‘ ہر پکوان میں ٹھونسی جاتی ہے۔ سموسہ بھی وسط ایشیا سے آیا۔ میں نے تاشقند میں سموسہ کھایا ہے۔ بے حد شریفانہ اور دوستی سے بھرپور! بیچارہ پاک و ہند میں آیا تو اسے مرچ سے بھر دیا گیا۔ حد یہ ہے کہ نوڈل اور سپیگتی بھی یہاں مرچ اور گھی میں پکائی جاتی ہے۔ معروف ثقافتی محقق سہیل ہاشمی‘ جن کا تعلق بھارت سے ہے‘ کہتے ہیں کہ مغل عہد میں مرچ یہاں تھی ہی نہیں۔ اس کی اصل جائے پیدائش جنوبی امریکہ ہے۔ مہاراشٹر یعنی بمبئی اور اردگرد کے دیگر علاقوں میں اسے پرتگالی لائے۔ اس کے پودوں کو انہوں نے اپنی کوٹھیوں کے اردگرد باڑ کے طور پر استعمال کیا۔ اس باڑ پر رنگا رنگ مرچیں لگتی تھیں۔ ہری‘ سفید‘ سرخ‘ پیلی۔ ان کے گھروں میں کام کرنے والی ‘ گھاٹ کی مقامی عورتوں نے انہیں چکھا تو بھا گئیں۔ انہوں نے اسے اپنے کھانوں میں ڈالنا شروع کر دیا۔ اٹھارہویں صدی کے وسط میں جب مرہٹے مار دھاڑ کرتے دہلی پہنچے تو مرچ دہلی پہنچ گئی۔ آج کل جن کھانوں کو مغلئی کھانے کہا جاتا ہے‘ ان کی پہچان ہی مرچ ہے مگر کم ازکم بڑے مغلوں کے زمانے میں ان کے کھانوں میں مرچ تھی ہی نہیں۔ اب تو دلّی کے کھانوں کا جزوِ اعظم مرچ ہے۔ میں نے ستر کی دہائی کے شروع میں سرکاری ملازمت کا آغاز کراچی سے کیا۔ اُس وقت بوہری بازار میں چاٹ کی ایک دکان بہت مشہور تھی۔ ہم چند دوست وہاں باقاعدگی سے جاتے تھے۔ اب تو شاید وہاں چاٹ کی کئی دکانیں ہوں۔ (نمکو کی بھی پہلے بوہری بازار میں ایک ہی دکان تھی۔ اب کئی ہیں اور اُس اصل دکان کو تلاش کرنا مشکل ہے) ایک بار ہم چاٹ والی دکان پر بیٹھے چاٹ کھا رہے تھے تو میں نے اپنے کانوں سے سنا کہ ایک صاحب دکان والے کو کہہ رہے تھے ''بھئی مرچ اور بھی ڈالو‘ ہم دِلّی کے ہیں!‘‘۔ مغل جب ہندوستان میں پلاؤ لائے تو کچھ کھانے یہاں سے لیے اور کچھ یہاں والوں کو دیے۔ پان کے وہ رسیا ہو گئے۔ مغل عہد کی فارسی شاعری میں پان کا خوب ذکر ہے۔ آم بھی انہیں بھائے اور اتنے کہ گرویدہ ہو گئے۔ ''رقعات عالمگیری ‘‘ میں اورنگزیب عالمگیر بیٹوں سے شکایت کرتا نظر آتا ہے کہ آم اچھی کوالٹی کے نہیں بھیجے۔ شاہ جہاں کا رویہ اورنگزیب سے سرد مہری ہی کا رہا۔ اس کے زمانے میں اورنگزیب دکن کا گورنر تھا۔ شاہ جہاں کو بھی اورنگزیب سے یہی شکایت رہی کہ آم اچھے نہیں بھیجے جا رہے۔ پلاؤ جب ہندوستان پہنچا تو اس میں مقامی تبدیلیاں کی گئیں اور یہ بریانی بن گیا۔ اورنگزیب کے ایک بیٹے کے پاس ایک باورچی تھا جو بریانی پکانے کا ماہر تھا۔ اس نے بیٹے سے تقاضا کیا کہ وہ باورچی اس کے پاس بھیجا جائے۔ مگر شہزادہ طرح دے گیا۔ تاہم اورنگزیب جب بھی اس کے ہاں جاتا تو فرمائش کرتا کہ بریانی اس کے ہاتھ کی پکی ہوئی ہو۔ مگر یہ بریانی تب تک مرچ سے آلودہ نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت جو شے پاکستان میں بریانی کے نام سے پکائی اور کھائی جا رہی ہے ‘ اس میں چاول کم اور مرچ زیادہ ڈالی جاتی ہے۔ کبھی اسے سندھی بریانی کا نام دیا جاتا ہے‘ کبھی بمبئی بریانی کا اور کبھی کچھ اور۔ مگر ڈھیروں مرچ سب میں مشترک ہے۔ کھاتے جائیے‘ ناک اور منہ سے دھواں نکالتے جائیے اور زہر معدے میں ڈالتے جائیے! پورے جنوبی ایشیا میں مرچ کا راج ہے۔ میلبورن میں ایک انڈین دکان سے بوندی والے لڈو خرید رہا تھا جو آج کے پاکستان سے اسی طرح غائب ہیں جیسے بوندی غائب ہوئی ہے۔ سری لنکا کی دو عورتیں مرچ کے پیکٹ خرید رہی تھیں۔ ان سے پوچھا کہ اس قدر مرچ کیوں کھاتے ہو؟ کہنے لگیں: دل کے لیے مفید ہوتی ہیں!
کوئی مانے یا نہ مانے ‘ اصل شاہانہ کھانا تو پلاؤ تھا جو اَب خال خال رہ گیا ہے۔ پلاؤ میں متانت ہے۔ شرافت ہے‘ شان وشوکت ہے ‘ روایت ہے‘ آہستگی ہے‘ نرمی ہے اور ایک خاص قسم کا تہذیبی رچاؤ ہے! بریانی میں دھوم دھڑکّا ہے۔ شور وغل ہے۔
اور اگر کہنے کی اجازت دیں تو عامیانہ پن اور ابتذال ہے اور فرنگی زبان کی رُو سے یہ riff-raff کے زمرے میں آتی ہے۔ میرے مستقل قارئین کو یاد ہو گا کہ داؤد آپسن نامی ایک انگریز کا ذکر کیا تھا جو برطانوی عہد میں انگلستان سے آیا اور بمبئی میں رہنے لگا۔ اس کے علامہ اقبال سے بھی مراسم تھے۔ پروفیسر عبد الغنی فاروق نے اپنی تصنیف ''ہم کیوں مسلمان ہوئے‘‘ میں ان صاحب کا ذکر کیا ہے۔ انہیں کسی مسلمان نے اپنے گھر کھانے پر بلایا۔ وہاں انہوں نے زندگی میں پہلی بار پلاؤ کھایا اور اس قدر مسحور ہوئے کہ ان کے بقول ''مجھے کسی مُلّا نے مسلمان کیا نہ کسی صوفی نے‘ بلکہ میں تو حضرت پلاؤ کے ہاتھ پر مشرّف بہ اسلام ہوا‘‘۔ یہ واقعہ یہاں بیان کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں پلاؤ کو مذہب سے وابستہ کر رہا ہوں۔ ہرگز نہیں! پہلے ہم نے اُردو پر اسلام کا لبادہ ڈالا اور اس کا جینا بھارت میں دوبھر کیا۔ قائداعظم کو بھی پگڑی اور ٹخنوں سے اونچا پاجامہ پہنانے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔ خدا نخواستہ پلاؤ کو مسلمانوں کے ساتھ مخصوص کر کے اسے بھی بھارت بدر نہ کر دیا جائے۔ یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ پلاؤ کا تہذیب‘ روایت اور رکھ رکھاؤ سے گہرا تعلق ہے! دیگر خواتین کی طرح میری بیٹیاں بھی بریانی کے متاثرین میں سے ہیں۔ جب ان سے پلاؤ کی برتری پر بحث کرتا ہوں تو بریانی کو نیچا دکھانے کے لیے یہ بھی کہتا ہوں کہ آخر بریانی کیا ہے؟ چاول کو سالن میں مکس کر دیں تو بریانی بن جاتی ہے۔ مگر اب مجھ جیسے پلاؤ کے شائقین کم ہوتے جا رہے ہیں۔ وقت وقت کی بات ہے۔ بہت کچھ دیکھنا پڑ رہا ہے۔ جو کچھ مشاعروں میں اُردو شاعری کے ساتھ ہو رہا ہے‘ کچھ ایسا ہی پلاؤ کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ پلاؤ کی دیگ کا آرڈر دیں تو منت کر کے کہنا پڑتا ہے کہ مرچ نہیں ڈالنی! مگر وہ باورچی ہی کیا جو بات مان لے! ایک بار دورانِ سفر کسی گیسٹ ہاؤس میں قیام تھا۔ باورچی کو ہدایت کی کہ ٹِنڈے پکائے۔ پھر کئی بار سمجھایا کہ لال‘ ہری یا کالی‘ کسی قسم کی مرچ نہیں ڈالنی! پھر پوچھا کہ کیا سمجھے؟ کہنے لگا: صاحب! سمجھ گیا ہوں! مرچ کسی قسم کی نہیں ڈالنی! کھانے کا پہلا نوالہ منہ میں ڈالا تو نِرا زہر ! پوچھا تو کہنے لگا: صاحب! بالکل پھیکا سالن تھا۔ میں نے اس پر چاٹ مسالا چھڑک دیا ہے!

Monday, December 23, 2024

دو شرمناک مبارکبادیں


ہماری تاریخ میں دو مبارکبادیں بہت شرمناک ہیں!! ایک برطانوی غلامی کے عہد میں اور دوسری پاکستان بننے کے بعد! عید کی صبح ہمارے جاگیردار‘ زمیندار‘ وڈیرے اور گدی نشین ڈپٹی کمشنر بہادر کی کوٹھی کا رخ کرتے تھے۔ یہ لوگ عام طور پر خاص قسم کی اچکن پہنتے تھے جو سائیڈوں سے نہیں کٹی ہوتی تھی بلکہ پیچھے سے درمیان میں چاک ہوتا تھا۔ سر پر طُرّے والی دستار ہوتی تھی۔ یہ کلف زدہ طُرّے اتنے ہی اکڑے ہوئے ہوتے تھے جتنے یہ وڈیرے اور گدی نشین عوام کے سامنے اکڑے ہوئے ہوتے تھے۔ کسی سفید چمڑی والے کی موجودگی میں یہ اکڑ اڑ جاتی تھی اور یہ لوگ رکوع کی حالت میں ہو جاتے تھے۔ انگریز ڈپٹی کمشنر‘ وسیع و عریض کوٹھی کے اندر سو رہا ہوتا تھا۔ یہ سب ٹوڈی کوٹھی کے لان میں کھڑے ہو جاتے تھے اور پہروں کھڑے رہتے تھے۔ بہت دیر کے بعد ڈی سی جاگتا تھا۔ پھر اندر سے ایک چپڑاسی نمودار ہوتا تھا اور اعلان کرتا تھا کہ صاحب بہادر نے آپ حضرات کی عید مبارک قبول کر لی ہے۔ اس پر یہ لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے تھے اور ایک دوسرے ہی سے گلے ملتے تھے۔ اس کامیابی اور سرخروئی کے بعد یہ اپنے اپنے گھروں کو چل دیتے تھے۔
آج کل منتخب ایوانوں میں باہمی مخالفتیں عروج پر ہیں۔ بلکہ مخالفتیں دشمنیوں کا روپ دھار چکی ہیں۔ خود معزز ارکان ''آگ اگلنے‘‘ کا محاورہ استعمال کر رہے ہیں۔ سب و شتم‘ جوتم پیزار‘ سب کچھ ہوتا ہے۔ بجٹ کی موٹی موٹی کتابیں ایک دوسرے پر‘ تاک کر پھینکی جاتی ہیں۔ سپیکر کے تخت کی طرف جارحانہ پیش قدمی کی جاتی ہے۔ ایک دوسرے کی تقریر کے دوران شورِ قیامت برپا کیا جاتا ہے۔ کبھی کسی کا ماضی کریدا جاتا ہے‘ کبھی کسی کا حال افشا کیا جاتا ہے۔ کئی الفاظ اور کئی جملے سپیکر کو حذف کرنا پڑتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہوتا ہے اور تسلسل کے ساتھ ہوتا ہے۔ پھر ایک معجزہ برپا ہوتا ہے۔ سارے فریق یک جان دو قالب کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ چہروں پر رواداری کی نرمی آجاتی ہے۔ یہ انہونی اس وقت رونما ہوتی ہے جب پارلیمنٹ کے معزز ارکان کی مراعات کے بل پیش ہوتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے پنجاب میں ان امرا و عمائدین کی تنخواہیں بڑھی ہیں تو ایک معروف انگریزی معاصر کا یہ فقرہ جگر میں نیزے کی انی بن کر پیوست ہو گیا ''بل پاس ہونے کے بعد ارکان بے حد مطمئن نظر آئے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دی‘‘۔ روزنانہ دنیا نے بھی کم و بیش یہی رپورٹ کیا۔ تنخواہوں میں یہ اضافہ ہولناک ہے اور وحشت ناک!! دل تھام کر تفصیل دیکھیے۔ اسمبلی کے ہر رکن کی تنخواہ 76ہزار سے بڑھا کر چار لاکھ کر دی گئی ہے۔ صوبائی وزرا کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھا کر نو لاکھ 60ہزار روپے کی گئی ہے۔ سپیکر پنجاب اسمبلی کی تنخواہ ایک لاکھ 25ہزار سے بڑھا کر نو لاکھ 50ہزار روپے‘ ڈپٹی سپیکر کی تنخواہ ایک لاکھ 20ہزار سے بڑھا کر سات لاکھ 75ہزار روپے اور پارلیمانی سیکرٹریوں کی تنخواہ 83ہزار سے بڑھا کر چار لاکھ 51ہزار روپے کر دی گئی ہے۔ سپیشل اسسٹنٹ کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھا کر چھ لاکھ 65ہزار روپے اور ایڈوائزر کی تنخواہ بھی ایک لاکھ سے بڑھا کر چھ لاکھ 65ہزار روپے کر دی گئی ہے۔ پڑھتے آئے ہیں کہ عباسیوں نے امویوں کی لاشوں پر قالین بچھا کر ضیافت اڑائی تھی۔ اب ہمارے سامنے یہ ہو رہا ہے کہ گرانی سے مارے ہوئے بدحال عوام کی حالت زار پر بھاری بھرکم تنخواہوں کا قالین بچھا کر خوشی منائی جا رہی ہے اور ایک دوسرے کو مبارک بادیں دی جا رہی ہیں۔ یہ دن بھی دیکھنا تھا۔ یہ اضافے چار سو فیصد سے لے کر نو سو فیصد تک ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں نے اس ظالمانہ اضافے پر اتفاقِ رائے کا مظاہرہ کیا ہے۔ اقبال نے کہا تھا:
یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے 
کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف
یہ اہلِ سیاست‘ جو کبھی اکٹھے نہیں ہوتے‘ آج عوام کے خلاف اکٹھے ہو گئے ہیں! اس بے مثال اضافے کے علاوہ مراعات الگ ہیں۔ ہوائی جہاز کے مفت ٹکٹ‘ علاج کی شاہانہ سہولیات‘ گاڑیاں‘ پٹرول۔ سرکاری محلات‘ سٹاف اور خدام کی فوج ظفر موج!! یہ کیسے لوگ ہیں؟ عام آدمی سبزی اور دال نہیں خرید سکتا۔ بجلی اور گیس کے بل نہیں ادا کر سکتا۔ بچوں کی فیسوں کے لالے پڑے ہیں اور یہ حضرات‘ جو پہلے ہی کروڑ پتی اور ارب پتی ہیں‘ انہی اَدھ موئے عوام کے ٹیکسوں سے نو نو لاکھ تنخواہ لینے پر ایک دوسرے کو مبارکیں دے رہے ہیں! اگر یہ سنگدلی اور سفاکی کی انتہا نہیں ہے تو کیا ہے؟ 
امریکی حکومت کے ترجمان کے سامنے اس ناجائز اضافے کے حوالے سے سوال پوچھا گیا۔ بطور قوم ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ترجمان کو یاد دلایا گیا کہ ابھی ایک ماہ پہلے پاکستان کا وزیر خزانہ مالی مدد مانگنے واشنگٹن آیا تھا اور اب یہ نو نو سو فیصد اضافے ہورہے ہیں تنخواہوں میں!! امریکی بہت سیانے ہیں۔ ترجمان نے سفارتی پینترا بدلا اور کمال معصومیت سے جواب دیا کہ یہ پاکستانی عوام اور پاکستانی حکومت کا مسئلہ ہے۔ یہ اور بات کہ ترجمان کے سامنے یہ مسئلہ اٹھانے سے پوری دنیا کو معلوم ہو گیا کہ پاکستانی عجیب و غریب مخلوق ہیں۔ ہاتھ میں کشکول ہے اور بدن پر زرق برق لباس!! مانگ کر کھاتے ہیں مگر دال ساگ نہیں‘ قورمے‘ شیرمال‘ چرغے‘ سالم دنبے اور کباب!! اور وہ بھی سونے چاندی کے برتنوں میں!! گدا گری کر لیں گے مگر عیاشی نہیں چھوڑ سکتے!! ہمارے حکمران بھیک مانگنے جاتے ہیں تو چارٹرڈ جہازوں پر اور ساتھ لمبے چوڑے وفود! 
ٹیکس دے دے کر عام آدمی مُردے سے بدتر ہو چکا ہے۔ ماچس کی ڈبیا سے لے کر دوا تک‘ نمک سے لے کر گُڑ تک‘ ہر شے پر ٹیکس ہے۔ کیا مزدور‘ کیا تنخواہ دار‘ کیا اہلِ حرفہ‘ کیا تاجر‘ سب اذیت میں ہیں۔ پنشنر دشمن لگ رہے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں 55سال پر ریٹائر کر دیں گے۔ کبھی فیملی پنشن آنکھوں میں کھٹکتی ہے۔ سب قربانی دیں مگر حکمران طبقے کی تنخواہ ایک لاکھ کے بجائے نو لاکھ ہو جائے۔ اور حکمران علاج کرانے باہر جائیں تو وزیروں اور چیف سیکرٹریوں تک کو ساتھ لے کر جائیں! تو کیا ہم مفتوح قوم ہیں؟ کیا ہم پا بہ زنجیر ہیں؟ جس اسمبلی کے ارکان کی تنخواہ راتوں رات چھ سو فیصد بڑھا دی جائے‘ وہ اسمبلی حکومت کا محاسبہ خاک کرے گی؟ ثابت ہو گیا کہ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی باہمی آویزش محض نورا کُشتی ہے۔ اندر سے یہ سب ایک ہی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور وہ طبقہ ہے بالائی کلاس! رولنگ کلاس! پنجابی محاورے کی رُو سے بھینسیں بھینسوں کی بہنیں ہوتی ہیں۔ اور دیکھ لیجیے گا یہ ملک دشمن اضافہ صرف پنجاب تک محدود نہیں رہے گا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک صوبے کا ایم پی اے‘ وزیر اور سپیکر لاکھوں میں کھیلے اور دوسرے صوبوں کے ایم پی اے‘ وزیر اور سپیکر ہزاروں میں! ایک ہی ملک کے اندر یہ کیسے ممکن ہے؟ دوسرے صوبے بھی یہ اضافے اپنائیں گے۔ پھر وفاق کی باری آئے گی! ایم این اے اور سینیٹر نوازے جائیں گے۔ پھر ادارے جھرجھری لے کر اٹھیں گے۔ اضافوں کا مجموعی اثر 

(Cumulative Effect) 

کھربوں تک جائے گا! تجمل حسین خان عیش کریں گے۔ عوام سینہ کوبی کریں گے۔ پھر مزید ٹیکس‘ بین الاقوامی اداروں سے مزید قرضے۔ لندن‘ جنیوا‘ دبئی کے مزید دورے! مزید ملکی ٹیلنٹ کی ہجرت! جب بلاول‘ حمزہ شہباز‘ مریم نواز‘ چودھری مونس الٰہی‘ چودھری سالک حسین اور مولانا اسعد محمود کے بچے تخت پر بیٹھیں گے تو ملک میں حاکم ہی حاکم ہوں گے‘ محکوم یا تو گل سڑ چکے ہوں گے یا کہیں نہ کہیں پناہ

 (Asylum) 

لے چکے ہوں گے!!

Thursday, December 19, 2024

اُترن‘ اُترن اور اُترن


لاہور‘ ایمپریس روڈ سے گزر تے ہوئے ریلوے سٹیشن جا رہے تھے۔ مقامی ڈرائیور نے دائیں طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ''ادھر دیکھیے‘ لنڈے بازار کی بہاریں‘‘!! چار پانچ گھنٹوں کے بعد راولپنڈی ریلوے سٹیشن پر اُترے اور گوالمنڈی پُل کا رخ کیا۔ بائیں طرف لنڈا بازار تھا جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ کئی سو دکانیں قمیضوں‘ کوٹوں‘ اوور کوٹوں‘ سویٹروں‘ جرسیوں‘ ٹوپیوں‘ پتلونوں‘ جیکٹوں‘ جُرابوں‘ جوتوں اور پردوں سے اَٹی ہوئی تھیں۔ یہ چیزیں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں تھیں۔ اور یہ صرف ایک شہر کا حال ہے۔ یہ وہ ملبوسات ہیں جو امیر ملکوں کے باشندوں نے پہنے اور جب ان سے اُکتا گئے تو ہماری طرف بھیج دیے۔ ان ملبوسات کو غریب ہی نہیں مڈل کلاس بھی پہنتی ہے۔ ہماری ریاست روٹی اور مکان نہیں دے سکتی تو کپڑا کیسے دے گی؟ پانی‘ بجلی‘ گیس‘ پٹرول‘ امن و امان‘ حفاظت‘ ہر شے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
شرم کیسی؟ کہاں کی عزتِ نفس؟ ہم آسودہ حال ملکوں کی اُترن پہن کر گزارہ کر رہے ہیں۔ اُترن کہیے یا لنڈا‘ یا سیکنڈ ہینڈ! بات ایک ہی ہے! ہم بطور قوم وہ ہاری ہیں جنہیں وڈیرے اپنی اُترن بخشتے ہیں اور ہم لے کر سر جھکاتے ہوئے‘ سینے پر ہاتھ رکھتے‘ شکریہ ادا کرتے ہیں!! یورپ اور امریکہ وڈیرے ہیں‘ چودھری ہیں‘ خان ہیں‘ سردار ہیں۔ ہم غریب ہاری ہیں‘ مزارع ہیں‘ کمی ہیں‘ کمین ہیں۔ چاہیں بھی تو آنکھیں نہیں دکھا سکتے۔ سر اٹھا کر بات کریں گے تو ان کے دیے ہوئے مکان سے بھی جائیں گے اور آٹے دال کو بھی ترسیں گے۔ پھینٹی بھی کھائیں گے اور معافی مانگ کر‘ پاؤں پر گر کر‘ پھر انہی کا کام کریں گے۔ انہی کا دیا ہوا کھائیں گے۔ انہی کے گن گائیں گے۔ مگر کیا یہ اُترن صرف جوتوں‘ کوٹوں‘ جیکٹوں اور پردوں تک محدود ہے؟ یہاں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں جو کچھ پڑھایا جا رہا ہے وہ بھی تو اُترن ہے۔ جو اکنامکس ہم پڑھ اور پڑھا رہے ہیں‘ سب انہی کے معیشت دانوں کی لکھی ہوئی ہے۔ سب تھیوریاں وہیں سے آئی ہیں۔ ایڈم سمتھ‘ مالتھیوس‘ کینز‘ روسٹو‘ ملٹن فرائیڈ مین اور تمام دوسرے ماہرینِ اقتصادیات کا تعلق مغرب سے ہے۔ نفسیات‘ سیاسیات‘ فلسفہ‘ پبلک ایڈمنسٹریشن‘ بزنس ایڈمنسٹریشن‘ سب اُترن ہی تو ہے۔ ان میں سے اکثر مضامین تو ایجاد ہی وہیں ہوئے۔ کمپیوٹر سائنس کہاں وجود میں آئی اور کہاں سے ہمارے ہاں آئی؟ او لیول اور اے لیول سسٹم سب کیمبرج اور آکسفورڈ کی اولاد ہیں۔ اربوں روپے فیسوں کی شکل میں ہر سال وہاں جا رہے ہیں! سائنس تو ساری کی ساری اُترن ہے۔ بو علی سینا اور جابر بن حیان نے جو کچھ کیا اور لکھا‘ اسے صدیاں ہو چکیں۔ اس کے بعد ہم نے تنکا تک نہ توڑا۔ میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم کے لیے دنیا بھر کے طبیب کہاں جا رہے ہیں؟ امریکہ‘ یورپ‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ! انہی کی تصانیف ہمارے میڈیکل کالجوں میں پڑھائی جا رہی ہیں۔ یہ جو پنسلین ہے‘ یہ جو دل کے بائی پاس ہمارے ہاں ہو رہے ہیں‘ گردوں کی پیوند کاری ہو رہی ہے‘ ڈائیلسز ہو رہا ہے‘ موتیا کے آپریشن ہو رہے ہیں‘ ناکارہ پِتّے نکالے جا رہے ہیں‘ گٹھنے تبدیل ہو رہے ہیں‘ یہ سب اُترن ہی تو ہے۔ سب کچھ وہیں سے آیا ہے۔ دل کی پیوند کاری پاکستان میں نہیں ہو رہی۔ کچھ افراد بھارت سے کروا کر آئے ہیں۔ بھارت اس میدان میں بھی بہت سے دوسرے میدانوں کی طرح ہم سے آگے ہے۔ 
جمہوریت بھی تو اُترن ہے! انہی کی بخشش ہے! ہمارے ہاں تو کیا عثمانی ترک اور کیا ہمارے مغل‘ تخت نشینی کی لمبی لمبی جنگیں ہوتی تھیں۔ بھائیوں کو قتل کیا جاتا تھا۔ عثمانی ترکوں کے علما نے تو فتویٰ بھی دے دیا تھا کہ تخت نشینی کی جنگ میں کئی ہزار لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بجائے چند درجن بھائیوں کا قتل جائز ہے۔ پُرامن انتقالِ اقتدار کی جیکٹ ہم نے اُترن کے طور پر لی۔ آڈٹ کا نظام بھی اُترن ہے۔ ہمارے بادشاہ تو موتیوں سے منہ بھرتے تھے اور سونے یا چاندی میں تلواتے تھے۔ تختِ طاؤس پر اُس وقت کے کروڑوں روپے لگے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی آئی تو آڈیٹر اور کمپٹرولر ساتھ آئے۔ فنانس والوں سے پوچھے بغیر ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ پلاسی کی جنگ کے لیے کلائیو نے ملٹری اکاؤنٹس کے محکمے سے باقاعدہ ایک لاکھ روپے ایڈوانس لیا تھا جس کی رسید آج بھی موجود ہے۔ مردم شماری کا ادارہ بھی اُترن ہے۔ پارلیمنٹ بھی اُترن ہے۔ کون سی شے ہے ہماری زندگی میں جو ہم نے خود بنائی ہے؟ ٹرین‘ کار‘ ہوائی جہاز‘ ٹیلیفون‘ برقی روشنی‘ پنکھا‘ اے سی‘ ہیٹر‘ ٹی وی‘ ریڈیو‘ فوٹو کاپی‘ فیکس‘ ٹائپ رائٹر‘ سرجری کے آلات‘ ایمبولینس‘ تھرما میٹر‘ بلڈ پریشر کی پیمائش کا آلہ‘ انٹرنیٹ‘ ای میل‘ موبائل فون‘ فضاؤں خلاؤں میں گھومتے سیٹلائٹ‘ یہ سب اُترن ہے جس سے ہم نے معاشرے کا بدن ڈھانک رکھا ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف وڈیروں کے منشی ہیں۔ امیر ملک اپنی مالیاتی اُترن ہمیں ان منشیوں کے ذریعے دیتے ہیں۔ یہ اُترن ہمیں واپس کرنا پڑتی ہے مگر نئے لباس کی صورت میں! ہم خود اُترن سے گزر بسر کرتے ہیں لیکن اُترن کا قرض نئے نکور‘ کھڑ کھڑاتے ڈالروں سے اتارتے ہیں!
کلچر کی بھی بات کر لیتے ہیں۔ اکبر الہ آبادی نے تو ایک دوسرے انداز میں شکایت کی تھی کہ:
پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
شکایت سے زیادہ یہ اس حقیقت کا اعتراف تھا کہ پائپ اور ٹائپ رائٹر دوسروں نے ہم سے پہلے ایجاد کر لیے۔ دونوں ایجادات نے معیارِ زندگی بدل ڈالا۔ مگر آج ثقافت کا معاملہ بہت آگے جا چکا ہے اور یہاں بھی ہم نے اُترن اوڑھی ہوئی ہے۔ ہمارے بزرگ پنجابی کیلنڈر استعمال کرتے تھے۔ وساکھ‘ جیٹھ‘ ہاڑ‘ ساون‘ بھدرے‘ اسُو‘ کتیں‘ مگھر‘ پوہ‘ ماہ‘ پھگن‘ چیتر۔ آج ہم اس سے نا آشنا ہیں۔ سالگرہ منانا آج فرضِ عین ہے۔ یہ التزام بھی مانگے کا ہے۔ نیو ایئر کی مبارکبادیں‘ ویلنٹائن ڈے‘ فادر ڈے‘ مدر ڈے‘ ٹیچر ڈے‘ کچھ عشرے پہلے یہ تمام ڈے کہاں تھے؟ پہلے دعائے مغفرت ہوتی تھی۔ اب یاد کرنے کیلئے شمعیں جلائی جاتی ہیں۔ پہلے دعوتوں میں کھانا بیٹھ کر کھایا جاتا تھا‘ اب کھڑے ہو کر کھاتے ہیں۔ (ویسے جانور سارے کھڑے ہو کر کھاتے ہیں۔ ہاں گائے بکری جگالی بیٹھ کر کرتی ہیں‘ بچوں کو بتا دیجیے گا کہ جگالی کس چڑیا کا نام ہے؟) کھانا کھاتے ہوئے چھری دائیں ہاتھ میں اور کانٹا بائیں ہاتھ میں پکڑا جاتا ہے یعنی صاحب لوگ کھانا بائیں ہاتھ سے کھاتے ہیں کس کس اُترن کا ذکر کیا جائے۔ انگریز سرکار نے ہندوستان فتح کیا تو تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ ہمارے لباس کی تذلیل یوں کی کہ نوکروں‘ بٹلروں‘ چوبداروں کو ہماری اشرافیہ کا لباس شیروانی اور دستار پہنائی۔ یہ اُترن آج تک ہم پوری بے شرمی سے پہنے ہوئے ہیں۔ ایوانِ صدر‘ ایوانِ وزیراعظم اور دیگر سرکاری دعوتیں دیکھ لیجیے۔ تذلیل جاری ہے۔
یہ سب وہ حقیقتیں ہیں جن کا کوئی اندھا بھی انکار نہیں کر سکتا۔ ہم پاتال میں پڑے ہیں۔ روپیہ دوسری کرنسیوں کے مقابلے میں ذلیل و خوار ہو رہا ہے۔ پاسپورٹ کی رینکنگ شرمناک ہے۔ عدلیہ کی رینکنگ سب کے سامنے ہے۔ سانس لینے سے پہلے آئی ایم ایف اور دوسرے سخی ملکوں سے اجازت لینا ہوتی ہے۔ مگر آفرین ہے ہم پر!! ہماری اکڑ میں‘ ہماری خود ستائی میں‘ خود بینی میں‘ خود فریبی میں دن رات اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ عالمِ اسلام میں مذہب کے ہم سب سے بڑے ٹھیکیدار ہیں۔ اپنے سوا دوسری تمام قوموں اور تمام ملکوں کو ہم ہیچ سمجھتے ہیں! لال قلعے اور وائٹ ہاؤس پر قبضہ کرنے کا ہمارا ارادہ پکّا ہے۔ بات لمبی ہو گئی ہے۔ مجھے اجازت دیجیے‘ لنڈے بازار جانا ہے۔ کسی انگریز یا امریکی کا پہنا ہوا کوٹ خرید لاؤں۔ سردیاں بھی تو گزارنی ہیں!!

Tuesday, December 17, 2024

بظاہر سب ایک جیسے ہیں


سفید ریش حکیم صاحب کے چہرے کو دیکھا تو دل میں جیسے سکون کی ایک لہر سی اُٹھی! طمانیت کا احساس ہوا!
اُن دنوں میری طبیعت خراب رہتی تھی۔ دوا مستقل لینے سے بلڈ پریشر تو کنٹرول میں تھا مگر ٹینشن پھر بھی رہتی تھی۔ سر درد‘ چڑچڑا پن‘ ہمیشہ رہنے والی بے خوابی میں مزید اضافہ‘ ایک قسم کی بے اطمینانی‘ بھوک کی کمی! مردم بیزاری‘ تھکاوٹ! بیگم کو کسی نے ان حکیم صاحب کا بتایا تھا۔ ان کا مطب اسلام آباد کی کراچی کمپنی میں واقع تھا۔ ہفتے میں ایک دن اپنے قصبے سے تشریف لاتے تھے اور مطب میں بیٹھتے تھے۔ ہم گئے تو زیادہ رش نہیں تھا۔ ہماری باری آئی تو بہت خندہ پیشانی سے پیش آئے۔ ان کے چہرے کو دیکھا تو عجیب نرمی کا احساس ہوا جیسے گرمی میں خنکی کی لہر چلنے لگے یا جیسے دھوپ میں سر پر بادل کا سایہ آ پڑے۔ بیگم نے انہیں میری صورتحال بتائی۔ ساری شکایات سن کر انہوں نے پوچھا: کرتے کیا ہیں؟ یعنی پیشہ اور مصروفیات! بیگم نے پروفیشن بتایا اور اُس وقت کی پوسٹنگ کی نزاکت‘ مکروہات اور مشکلات سے بھی آگاہ کیا۔ ساتھ یہ بھی بتایا کہ کالم بھی لکھتے ہیں اور شاعری بھی کرتے ہیں۔ حکیم صاحب نے میرا ہاتھ مستقل اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔ وہ مسلسل میرے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان رکھ کر آہستہ آہستہ مَل رہے تھے۔ مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ اس نرم لمس کا اثر جیسے اندر‘ دور‘ دل کی گہرائی میں پڑ رہا تھا۔ جیسے کوئی گرہ کھل رہی تھی۔ جیسے ذہن سے کوئی بوجھ اُتر رہا تھا‘ مجھے یقین ہے کہ حکیم صاحب یہ عمل علاج کے طور پر کر رہے تھے اور اس کے اثرات سے بخوبی آگاہ تھے۔ نرم گفتار تھے۔ آہستہ بات کرتے اور ٹھہر ٹھہر کر! یوں لگ رہا تھا جیسے مجھے دیکھنے اور ہمارے ساتھ بات کرنے کے علاوہ ان کا اور کوئی کام ہی نہ ہو۔ مطب کی فضا میں کاروبار کی بُو تھی نہ کسی افرا تفری یا جلدی کا ٹچ!! فرمانے لگے کہ کسی دوا کی کوئی ضرورت نہیں۔ صرف دو کام کرنے ہیں۔ پہلا یہ کہ ہفتے میں ایک دن کسی پرانے دوست یا دوستوں کے ساتھ بیٹھوں اور وہاں خاصا وقت گزاروں۔ دوسرا یہ کہ ہفتے میں ایک بار بیگم کے ساتھ لانگ ڈرائیو پر نکل جاؤں یا ہم دونوں کسی ریستوران یا سیر گاہ میں وقت بسر کریں اور اس آؤٹنگ کے دوران گھریلو بجٹ یا رشتہ داروں کو چھوڑ کر دنیا جہان کی باتیں کریں۔ میں نے کہا کہ کوئی دوا بھی دے ہی دیجیے۔ اس اصرار پر انہوں نے برائے نام کوئی دوا بھی دے دی۔ یاد نہیں کوئی فیس لی بھی یا نہیں۔اگر لی بھی تھی تو برائے نام ہی!! چاہتے تو بہت سی ادویات دے کر سینکڑوں‘ ہزاروں روپے لے سکتے تھے اور بار بار آنے کا کہہ سکتے تھے اور ہر بار بھاری فیس لے سکتے تھے۔ ان کے تجویز کردہ دونوں ''نسخوں‘‘ کا استعمال شروع کر دیا اور طبیعت میں واضح بہتری محسوس کی۔ ان کا یہ کہنا کہ بیگم کے ساتھ آؤٹنگ کرو تو بجٹ یا رشتہ داروں کے ذکر سے اجتناب کرو‘ کروڑ روپے کا نسخہ تھا۔ اکثر جوڑوں میں انہی دو موضوعات سے تلخیاں پھوٹنے کا امکان ہوتا ہے !
یہ حکیم صاحب ‘ غلام رسول بھُٹہ تھے۔ آج مجھے بے اختیار یاد آئے۔ یوں کہ ایک بہت پرانے دوست افتخار کا فون آ گیا۔ کسی زمانے میں افتخار راول ڈیم میں ''جل ترنگ‘‘ کے نام سے ریستوران چلاتے تھے۔ یہ ایک کامیاب اور مقبول ریستوران تھا۔ پھر وہ کچھ اور کام کرنے لگ گئے۔ کچھ عرصہ پہلے انہوں نے فون کیا کہ یار زمانے ہو گئے ملاقات کو‘ تم کہاں ہو؟ میں آسٹریلیا میں تھا۔ چند ماہ کے بعد میں نے فون کیا تو افتخار برطانیہ میں بیٹی کے پاس تھے۔ آج فون پر ان کا میسج تھا کہ میں پاکستان میں ہوں اور شاید تم بھی! ملنے کی کیا صورت ہے؟ میں نے لمبا چوڑا وائس نوٹ بھیجا اور بتایا کہ جلد ملتے ہیں اور یہ کہ پرانے دوستوں سے ملنا امراض کے لیے اکسیر ہے۔ اس پر مجھے حکیم غلام رسول بھٹہ صاحب یاد آئے۔ سوچا بیس پچیس برس گزر چکے! نہ جانے کس حال میں ہوں‘ مختلف نمبر ٹرائی کرتے کرتے ان کے ایک قریبی عزیز تک پہنچ گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ماشاء اللہ حیات ہیں مگر اب مریض نہیں دیکھتے۔ زیادہ وقت گھر ہی میں گزارتے ہیں۔ سوچ رہا ہوں کسی وقت جاؤں اور ان کی زیارت کروں!
یہ دنیا ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے آباد ہے۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ فلاں قطب اور فلاں ابدال دنیا کا نظام چلا رہے ہیں! مگر میں کہتا ہوں کہ دنیا کا نظام ایسے فرشتہ صفت افراد کی وجہ سے چل رہا ہے۔ یہی وہ صاحبان ہیں جن کی عزت دلوں میں ہمیشہ رہتی ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ ہر موڑ پر راہزن اور جیب تراش دندناتے پھر رہے ہیں۔ کچھ نے بیش قیمت فرنگی ملبوسات زیب تن کر رکھے ہیں اور گھومتی ہوئی کرسیوں پر براجمان ہیں۔ کچھ نے شیروانیاں‘ واسکٹیں اور عمامے پہن رکھے ہیں۔ کچھ سبز رنگ کے لمبے چولے پہنے ہیں۔ کچھ کے گلوں میں موتیوں کی مالائیں ہیں۔ سب میں ایک قدر مشترک ہے۔ وصولی‘ وصولی اور وصولی!! اب اصول وہ ہے جس سے کچھ وصول ہو! نقد یا جنس! فصل کی صورت میں یا کسی بھی شکل میں!! اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جائز ہے یا ناروا! بس جیسا بھی ہے‘ آ جائے‘ آتا رہے اور آتا ہی رہے! ایک قریبی عزیزہ تشریف لائیں۔ خارش کے عارضے میں مبتلا تھیں! کہنے لگیں: اسلام آباد میں ایک طبیب ہیں‘ بہت شہرہ سنا ہے۔ عزیزہ کو بہت سمجھایا کہ کسی ماہر امراض جلد کے پاس جائیں اور طبیب وطیب کے چکر میں نہ پڑیں۔ مگر وہ مُصر رہیں۔ اُن دنوں ان طبیب صاحب کا مطب ایک معروف مرکزمیں تھا تاہم ہمیں انہوں نے قیام گاہ پر طلب فرمایا۔ انتظار گاہ کی دیواریں اُن تصویروں سے مزین تھیں جن میں وہ مختلف حکمرانوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ پی آر کی تخلیق ہیں۔ جینوین بندے کو ان بیساکھیوں کی حاجت نہیں ہوتی نہ تشہیر کی۔ خاتون کو انہوں نے یہ تو نہیں بتایا کہ خارش کی وجہ کیا ہے۔ گفتگو میں حکمت کا دور دور تک نشان نہ تھا۔ ہاں یہ ضرور بتایا کہ اس مرض کے لیے انہیں دوائیں تیار کرنا پڑیں گی جو مہنگی ہیں اور یہ کہ تیس ہزار روپے (دس سال پہلے کی بات ہے) لگیں گے جو انہوں نے پیشگی وصول کیے۔کہنے لگے: ایک ہفتہ دوا کی تیاری میں لگے گا۔ خاتون نے دوا استعمال کی ۔جیسا کہ مجھے اندازہ تھا‘ رتی بھر فرق نہ پڑا۔
بظاہر شکلیں انسانوں جیسی ہیں۔ ہر چہرے پر ماتھا‘ آنکھیں‘ ناک اور ہونٹ لگے ہیں۔ مگر اندر جھانک کر دیکھیں تو کچھ تو فرشتے ہوں گے! یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں میں آسانیاں بانٹتے ہیں! رحم کرتے ہیں۔ ہمدرد ہیں! زر اور زور ان کی ترجیحات میں کہیں نہیں! گِرے ہوئوں کو اٹھاتے ہیں اور اپنے پاؤں پر کھڑا کرتے ہیں۔ شہرت سے بے نیاز ہیں‘ دوسروں کی نظروں سے چھپتے پھرتے ہیں۔ مگر ایسے لوگ خال خال ہیں! زیادہ تر سگ اور خُوک نکلیں گے! کاٹنے والے‘ بھنبھوڑنے والے! خون نچوڑنے والے! شہرت اور جاہ کے لیے دوسروں کو پیروں کے نیچے کچل دینے والے! تیز چلتے ہوئے‘ دوسروں کو کہنیاں مار کر گرا دینے والے! کمزوروں پر غرانے والے اور طاقتوروں کے سامنے گھگیانے والے! ان کی ڈکشنری میں ایثار کا لفظ نہیں ہے۔ آپ کا امتحان یہ ہے کہ آپ نے ان ہر دو مخلوقات کو پہچاننا ہے۔ ایک کے قریب ہونا ہے۔ اس سے سیکھنا ہے۔ اس کی پیروی کرنی ہے۔ دوسرے سے بچنا ہے۔ مرعوب نہیں ہونا! اگر آپ سگانِ دنیا سے مرعوب ہو گئے تو جلد یا بدیر‘ اپنے آپ کو انہی کی صف میں کھڑا پائیں گے۔

Monday, December 16, 2024

قصیدہ بُردہ… ایک نئے رنگ میں


یہ اشعار کس نے نہیں سنے ہوں گے:


یہ جو ننگ تھے یہ جو نام تھے مجھے کھا گئے
یہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے
وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی وہ نہ جڑ سکی
یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے مجھے کھا گئے


اور یہ شعر تو ضرب المثل ہے:


دو حرف تسلی کے جس نے بھی کہے اس کو
افسانہ سنا ڈالا تصویر دکھا ڈالی


اور محبت کے یہ اشعار کتنے ہی عشاق کے سفری تھیلوں میں اور کتنے ہی ہجر گزیدوں کے تکیوں کے نیچے پڑے ہوں گے:


جب کبھی خود کو یہ سمجھاؤں کہ تو میرا نہیں؍ 

مجھ میں کوئی چیخ اُٹھتا ہے‘ نہیں‘ ایسا نہیں؍ 

کب نکلتا ہے کوئی دل میں اُتر جانے کے بعد؍ 

اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستا نہیں؍ 

تم سمجھتے ہو‘ بچھڑ جانے سے مٹ جاتا ہے عشق؍ 

تم کو اس دریا کی گہرائی کا اندازہ نہیں؍ 

تجھ سے مل کر بھی کہاں مٹتا ہے دل کا اضطراب؍ 

عشق کی دیوار کے دونوں طرف سایا نہیں؍ 

مت سمجھ میرے تبسم کو مسرت کی دلیل؍ 

جو مرے دل تک اترتا ہو یہ وہ زینہ نہیں؍ 

یوں تراشوں گا غزل میں تیرے پیکر کے نقوش؍ 

وہ بھی دیکھے گا تجھے جس نے تجھے دیکھا نہیں؍ 

خامشی! کاغذ کے پیراہن میں لپٹی خامشی!؍ 

عرضِ غم کا اس سے بہتر کوئی پیرایہ نہیں!؍ 

کب تلک پتھر کی دیواروں پہ دستک دیجیے؍ 

تیرے سینے میں تو شاید کوئی دروازہ نہیں


یہ تمام اشعار خورشید رضوی کے ہیں! شعر کی دنیا میں ان کا اعلیٰ اور منفرد مقام ہے۔ مگر وہ صرف خورشید رضوی نہیں‘ پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی ہیں۔ عربی زبان وادب پر اتھارٹی ہیں۔ گورنمنٹ کالج اور دیگر بڑی بڑی درسگاہوں میں عربی زبان و ادب پڑھایا۔ ''عربی ادب قبل از اسلام‘‘ کے موضوع پر دو جلدوں میں جو کتاب تصنیف کی وہ ان کا ایک شاندار کارنامہ ہے۔ اب کے انہوں نے ایک اور زبردست کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ قصیدہ بُردہ کا منظوم ترجمہ کیا ہے۔ منظوم اس طرح کہ مقفّی شاعری میں نہیں‘ بلکہ آزاد نظم کی صورت میں کیا ہے۔ قصیدہ بردہ کے اب تک بے شمار زبانوں میں لاتعداد ترجمے ہو چکے ہوں گے۔ ان میں ایک سے ایک بڑھ کر ہوگا۔ رضوی صاحب کے ترجمے کی خوبی یہ ہے کہ ایک تو ہم عصر اردو میں ہے‘ دوسرے آزاد نظم میں کیا ہوا‘ یہ ترجمہ‘ بذات خود ایک ادب پارہ ہے۔ قصیدے کے تیسرے حصے (الفصل الثالث) سے‘ جو نعت پرمشتمل ہے‘ چند اشعار کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے:


حیف اُس ذاتِ مطہّر کی روِش مجھ سے نباہی نہ گئی؍ 

جس نے راتوں کے اندھیروں کو رکھا یادِ خدا سے روشن؍ 

اور اتنا کہ تھکن سے متورّم ہوئے وہ پاک قدم؍

فاقے برداشت کیے اور شکمِ پاک پہ باندھے پتھر؍ 

دور سے اس کو لبھاتے رہے سونے کے پہاڑ؍ 

مگر اُس ہمتِ عالی نے سدا؍ 

ناک اونچی رکھی اور ایک نگاہِ غلط انداز بھی ڈالی نہ کبھی؍

اور اُس ہستیٔ بے مثل کو مائل کرے دنیا پہ ضرورت کیوں کر؍ 

جو نہ ہوتی تو نہ ہوتا کہیں دنیا کا وجود؍

ہستیٔ پاک محمدؐ؍ لقبِ سیدِ کونین ہے زیبا جس کو؍ 

جن و انس اہلِ عرب‘ اہلِ عجم‘ سارے جہاں کا سردار؍

وہ پیمبر ہے ہمارا؍ 

کہ کسی کام کا دے حکم؍ 

کہ روکے اس سے؍ 

کُن مکُن میں کوئی سچا نہیں اس سے بڑھ کر؍

وہی محبوب کہ بس اس کی شفاعت کی ہمیں آس لگی رہتی ہے؍ 

زندگانی میں کوئی ہَول جو بے روک چلا آتا ہے؍

دعوت اس کی ہے الی اللہ سو اس کا دامن؍ 

تھامنے والوں کے ہاتھوں میں سہارا محکم؍ 

سارے نبیوں پہ اسے؍ 

صورت وسیرت میں ہے فوق؍ 

کوئی بھی علم و کرم میں نہیں اس کے پاسنگ؍ 

ملتمس سب ہیں کہ وہ؍ 

بحرِ زخّارِ رسول عربی سے کوئی چلّو بھر لیں؍ 

یا پھر اس بارشِ فیضان سے لب تر لیں؍

اس کی سرکار میں سب حدِّ ادب پر قائم؍ 

نقطۂ علم ہو یا پھر ہو؍ 

حِکَم کا وہ کوئی زیر و زبر؍

ہے وہی ذات ّ عطا جس کو ہوا؍ 

صورت و معنی میں کمال

؍ اور پھر خالقِ ارواح نے چُن کر آخر؍ 

نامزد اُس کو کیا اپنا حبیب


یہ صرف اُس بہار کی ایک جھلک ہے جس کا جادو رضوی صاحب نے اپنے علم سے جگایا ہے۔ مگر اس میں صرف ان کا علم شامل نہیں‘ اس میں وہ محبت اور عقیدت بھی شامل ہے جو رضوی صاحب کو خاک پائے رسالت سے ہے۔ اس ترجمے کا عنوان رضوی صاحب نے ''ترجمان البردہ‘‘ رکھا ہے۔ اس لیے کہ یہ ترجمہ نہیں‘ ترجمانی ہے۔ اس کی تحریک انہیں کیسے ہوئی؟ یہ انہی کی زبانی سنیے۔ 

'' یہ 2015ء کے لگ بھگ کی بات ہو گی‘ میں انگلستان میں اپنے بیٹے عاصم کے ہاں گرمیوں کی چھٹیاں گزار رہا تھا کہ ایک روز قصیدۂ بردہ پڑھتے ہوئے ابتدائی چند اشعار کی برجستہ ترجمانی اُردو آزاد نظم میں ہو گئی جسے میں نے ایک کاغذ پر پنسل سے لکھ لیا۔ یہ ایک بے ارادہ واردات تھی جسے جاری رکھنے کا کوئی خیال نہ تھا۔ کئی برس کاغذ کا یہ ٹکڑا پڑا رہا اور اس پر درج سطریں مرورِ وقت کے ساتھ مٹ مٹ کر پھیکی پڑتی چلی گئیں۔ دو تین برس پہلے یاد نہیں کس مناسبت سے یہ دو چار شعروں کی ترجمانی میں نے ایک کاغذ پر صاف کی۔ 2022ء کی تعطیلاتِ گرما میں مجھے پھر عاصم کے پاس جون اور جولائی کے مہینے گزارنے کا اتفاق ہوا اور خوش قسمتی سے یہ داعیہ طبیعت پر مستولی ہو گیا اور ایک رَو چل پڑی۔ روزانہ چھ اشعار کی ترجمانی ہوتی رہی۔ تا آنکہ جولائی کے اواخر تک اس کام کا پہلا مسودہ تیار ہو گیا۔ یکم اگست 2022ء کو میں اپنے بڑے بیٹے عامر کے پاس جدہ آ گیا۔ اس فرصت میں اس مسودے کو پھر سے دیکھنے اور نوک پلک سنوارنے کا موقع ملا۔ یہ کام بسا اوقات ترجمانی کے اولین مرحلے سے زیادہ غور طلب ثابت ہوا۔ قصیدے کے متن میں جا بجا لفظی مناسبتوں کے جو جال بندھے ہیں‘ میرے لیے اس کا حق اُردو میں ادا کرنا ممکن نہ تھا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میری یہ حقیر سی کاوش کسی طرح بھی عربی متن کا ترجمہ نہیں بلکہ اصل کے مفاہیم اور جذبے کو کسی قدر سرشاری کے ساتھ اردو میں ادا کر دینے کی ایک کوشش ہے جس میں شعری رعایتوں اور مناسبتوں کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا‘‘۔


امام بوصیری کے حالات بھی مذکور ہیں۔ امام کہتے ہیں: 


مجھے فالج ہو گیا جس نے میرا آدھا بدن شل کر دیا۔ تب مجھے اپنے اس قصیدے ''البردہ‘‘ کے نظم کرنے کا خیال آیا۔ سو میں نے یہ قصیدہ کہا۔ اور اس وسیلے سے اللہ سے درخواست کی کہ مجھے صحت عطا فرمائے۔ اور بار بار اسے پڑھتا رہا اور رو رو کر دعا مانگی اور واسطہ دیا۔ اس میں میری آنکھ لگ گئی تو مجھے نبیﷺ کی زیارت ہوئی۔ آپﷺ نے اپنا دست مبارک میرے چہرے پر پھیرا اور ایک چادر (بُردہ) مجھ پر ڈال دی۔ آنکھ کھلی تو میں نے خود میں اُٹھنے کی طاقت محسوس کی۔ سو میں اٹھا اور گھر سے باہر نکل گیا...



ترجمان البردہ کی طباعت کا معیار عالی شان ہے۔ کاغذ بہترین لگایا گیا ہے۔ جلد از حد دیدہ زیب ہے۔ ہر صفحے پر حاشیہ اور آرائش ہے۔ آخر میں توضیحات ہیں جن میں بیش بہا علمی نکات بیان کیے گئے ہیں۔ بلا شبہ یہ ترجمانی اردو ادب میں بھی ایک معتبر اضافہ ہے۔

Thursday, December 12, 2024

سپریم کورٹ کی خدمت میں التماس اور بشار الاسد


بشار الاسد آنکھوں کا ڈاکٹر تھا مگر اندر سے نابینا تھا۔ یہ سقم اسے باپ سے وراثت میں ملا تھا۔
ایک سرکاری ادارے میں غبن کا کیس پکڑا گیا۔ بینک سے ساز باز کر کے یہ مجرم ہر ماہ ایک خطیر رقم ہڑپ کرتا رہا یہاں تک کہ کئی ماہ گزر گئے اور اس نے کروڑوں روپے جمع کر لیے۔ بالآخر پکڑا گیا۔ تفتیش کرنے والے افسر نے اس سے ایک دلچسپ سوال پوچھا کہ جب ایک معقول رقم جمع ہو گئی تھی تو پکڑے جانے سے پہلے بھاگ کیوں نہ گئے؟ اس نے کفِ افسوس ملتے ہوئے جواب دیا کہ ''سر! یہی تو غلطی ہو گئی۔ ہر ماہ سوچتا تھا کہ اب امریکہ بھاگ جاؤں مگر پھر اپنے آپ کو سمجھاتا کہ کچھ روپیہ مزید جمع کر لوں۔ یہی کشمکش جاری رہی اور آخرکار میں پکڑا گیا‘‘۔ ایک آمر کی یہی ذہنیت ہوتی ہے۔ بشا ر الاسد نے حسنی مبارک‘ قذافی اور زین العابدین وغیرہ کا انجام دیکھا مگر سبق نہ حاصل کر سکا۔ آنکھوں پر خود بینی‘ خود پسندی اور خود فریفتگی کی چربی چڑھ جاتی ہے۔ عقل پر پتھر پڑ جاتے ہیں۔ سامنے دیوار پر لکھا نہیں نظر آتا۔ کہتے ہیں یحییٰ خان نے لوگوں کے نعرے سنے تو حیران ہو کر کہا ''میں نے کیا کیا ہے؟‘‘۔ آپ آمروں کی عقل دیکھیے۔ تیونس کا ڈکٹیٹر زین العابدین جب جان بچا کر سعودی عرب جا رہا تھا تو مسلسل اس خیال میں تھا کہ جلد ہی واپس آکر حکومت دوبارہ سنبھال لے گا۔ بی بی سی نے بعد میں اُس وقت کی گفتگو کی ریکارڈنگ حاصل کر لی تھی۔ وہ وزیر دفاع کو فون کر کے کہتا ہے کہ وہ چند ہی گھنٹوں میں ملک واپس لوٹ آئے گا۔ پھر وہ اپنے قریبی ساتھی کمال الطائف سے بات کرتا ہے۔ الطائف صاف صاف کہتا ہے کہ صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے۔ اس کے باوجود زین العابدین اس سے پوچھتا ہے ''کیا تم مجھے مشورہ دیتے ہو کہ میں واپس آجاؤں؟‘‘۔ اس پر الطائف کہتا ہے کہ حالات خراب ہو رہے ہیں۔ پھر و ہ آرمی چیف راشد عمار سے وہی سوال کرتا ہے کہ کیا وہ تیونس واپس آ سکتا ہے؟ اس پر آرمی چیف محتاط ہوتے ہوئے کہتا ہے کہ بہتر ہے ابھی انتظار کریں۔ اب زین العابدین پھر وزیر دفاع کو فون کرتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیا وہ واپس آ جائے؟ وزیر دفاع بتاتا ہے کہ آپ آ گئے تو آپ کی حفاظت کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ جب جہاز سعودی عرب اترتا ہے تو بادشاہ کے محل کی طرف جاتے ہوئے پائلٹ کو کہتا ہے کہ انتظار کرے‘ واپس تیونس جانا ہے۔ مگر پائلٹ حکم عدولی کرتے ہوئے فوراً واپس چلا جاتا ہے۔ صبح آنکھ کھلتے ہی پھر وزیر دفاع کو فون کر کے حالات کے بارے میں پوچھتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ سڑکوں پر انتظامیہ کا کوئی کنٹرول نہیں اور عوام میں ایسا غصہ ہے جو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اس کے جواب میں زین العابدین کہتا ہے ''میں نے کیا کیا ہے؟ میں نے عوام کی خدمت کی ہے‘‘۔ یہ ہے وہ نفسیاتی خود پسندی جس میں دنیا کا ہر ڈکٹیٹر مبتلا رہتا ہے‘ یہاں تک کہ وقت اسے یوں نکال پھینکتا ہے جیسے دودھ سے مکھی نکالی جاتی ہے۔ یہی ضیا الحق کے ساتھ ہوا۔ جہاز میں ہلاک ہونے سے چند دن پہلے وفاقی وزارتِ خزانہ میں اس نے کہا تھا کہ ابھی اس کا جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ آمروں کا آئی کیو صفر ہوتا ہے۔ عقل ہوتی تو قناعت کرتا‘ انتخابات کروا کر حکومت چھوڑ دیتا اور آرام سے گھر بیٹھتا مگر قدرت آمروں کو یہ سزا دنیا ہی میں دیتی ہے کہ وہ عزت سے ریٹائر ہو کر زندگی سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔ یوگنڈا کے آمر عِدی امین کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ لاکھوں مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارنے والا یہ آمر دماغی خلل میں بھی مبتلا تھا۔ جب برطانیہ نے سفارتی تعلقات منقطع کیے تو عِدی امین نے اپنے آپ کو برطانیہ کا فاتح قرار دیا‘ اس نے اپنا مکمل سرکاری نام مع القابات‘ یوں رکھا:
"His Excellency, President for Life, Field Marshal Al Haji Doctor Idi Amin Dada, 
DSO, (Distinguished Service Order) MC, (Military Cross) CBE, 
(Conqueror of British Empire) Lord of All the Beasts of the Earth and Fishes 
of the Seas and Conqueror of the British Empire in Africa in General and Uganda in Particular"
اس نے اپنے آپ کو سکاٹ لینڈ کا بھی بادشاہ قرار دیا۔ جلاوطن ہو کر سعودی عرب میں مرا۔
بشار الاسد کو دیکھیے۔ اس کا باپ حا فظ الاسد تیس برس سیا ہ وسفید کا مالک رہا۔ تمام حساس پوسٹوں پر اپنے فرقے کے افرادکو تعینات کیا۔ یہ ایک پولیس سٹیٹ تھی۔ ہر فرد دوسرے پر سرکاری جاسوس ہونے کا شک کرتا۔ جیلیں قیدیوں سے بھری جاتی رہیں۔ تیس سال حکومت کرنے کے بعد حافظ الاسد 2000ء میں بادلِ نخواستہ‘ دنیا چھوڑ گیا۔ بیٹا بشار الاسد اس سے بھی کئی ہاتھ آگے نکل گیا۔ تمام اہم پوسٹوں پر اپنے فرقے کے لوگ بٹھائے۔ جیلیں اختلاف کرنے والوں سے اور ذرا سی بھی چوں چرا کرنے والوں سے بھر گئیں۔ کبھی کھوپڑی میں یہ بات نہ آئی کہ بہت حکومت کر لی‘ بہت کما لیا‘ بہت کچھ اکٹھا ہو چکا۔ اب تخت سے اتر جاؤں ۔ اپنے ملک میں انتقام کا ڈر تھا تو انتخابات کرانے کے بعد کسی اور ملک میں چلا جاتا۔ مگر وہ ایک احمق شخص تھا۔ اس نے نکولائی چاؤ شیسکو‘ شاہ ایران‘ زین العابدین‘ حسنی مبارک اور عِدی امین جیسوں کے انجام سے کچھ نہ سیکھا اور آج ایک پناہ گزین بن کر پوتن کے دروازے پر پڑا ہے۔
پسِ تحریر: میرٹ کُشی میں ہر حکومت نے اپنا حصہ ڈالا ہے مگر (ن) لیگ کی حکومت اس سلسلے میں ہمیشہ اول نمبر پر رہی ہے۔ ذرا یہ خبر دیکھیے: ''وزیراعظم نے ٹاپ کی پانچ بیرونی تعیناتیوں کو امتحان سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ جنیوا میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے سفیر کی پوسٹ مشتہر نہیں ہو گی۔ برسلز میں اکنامک منسٹر کی پوسٹ بھی مشتہر نہیں ہو گی۔ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جنیوا میں دو اور بھی اہم پوسٹوں (ٹریڈ قونصلر اور سرمایہ کاری قونصلر) کے لیے بھی کوئی امتحان نہیں لیا جائے گا۔ ڈائریکٹر ای سی او تہران کی پوسٹ بھی مشتہر نہیں ہو گی۔ ان اسامیوں کے لیے کوئی تحریری امتحان بھی نہیں ہو گا۔ صرف انٹر ویو ہو گا۔ ان اسامیوں کے حوالے سے ایک سپیشل سیلیکشن بورڈ بنایا جائے گا۔
اندازہ لگائیے ملک کی حالت کیا ہے اور زوال کے اس پاتال میں بھی حکومت میرٹ کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب پوسٹ مشتہر نہیں ہو گی تو نام نہاد سلیکشن بورڈ کن امیدواروں کا انٹرویو لے گا؟ یہ امیدوار کہاں سے آئیں گے؟ اتنی اہم اسامیوں کو مشتہر نہ کرنے کی وجہ کیا ہے؟ اصولی طور پر ان اسامیوں کو نجی شعبے سے پُر کرنا چاہیے اور وہ بھی مقابلے کے بعد خالص میرٹ پر۔ نوکر شاہی نے جو تیر مارے ہیں‘ ان کا نتیجہ قوم بھگت رہی ہے۔ (ن) لیگ کی حکومت نے پہلے بھی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن پر اپنے ایک چہیتے افسر کو سفیر تعینات کیا جس کا بین الاقوامی تجارت سے دور کا تعلق بھی نہ تھا۔ ایسے ''اپنے بندوں‘‘ کو مسلسل نوازا جاتا رہا ہے۔ مثالیں بہت ہیں۔اب جو یہ بڑی بڑی تعیناتیاں اشتہار کے بغیر‘ امتحان کے بغیر‘ کی جائیں گی تو اس اقدام کے پیچھے جو نیت ہے اور جو ارادہ ہے وہ صاف ظاہر ہو رہا ہے!! ریڑھ کی ہڈی سے محروم پارلیمنٹ اور یس سر‘ یس سر کہنے والی کابینہ سب خاموش رہیں گے۔ اعلیٰ عدلیہ کی خدمت میں درخواست ہے کہ ازخود نوٹس لے کر یہ تو پوچھے کہ جب پوسٹیں مشتہر نہیں ہوں گی تو امیدوار کون ہوں گے اور انٹرویو کن کا لیا جائے گا؟ اس میں تعجب ہی کیا ہے کہ بین الاقوامی تجارت کے حوالے سے ہم ہمیشہ خسارے میں رہتے ہیں! یا دوست نوازی یا اقربا پروری! تیرا ہی آسرا!

Tuesday, December 10, 2024

سول نافرمانی سے لے کر پاکستان نیوی تک


رفعت بھابی کا فون تھا۔ سخت گھبرائی ہوئی تھیں۔ بُلا رہی تھیں۔ کہنے لگیں ''بھائی فوراً آئیے اور اپنے دوست کو سمجھائیے۔ ان کا دماغ چل گیا ہے‘‘۔
میں اور نصیر بچپن کے دوست تھے۔ لنگوٹیے یار! زندگی بھر کے سنگی! از حد بے تکلف! نصیر تھا ذرا سخت مزاج! بچوں پر سختی کرتا تھا۔ آئے دن اس کے گھر میں بحران پیدا ہوتا! جب رفعت بھابی کے والدین حیات تھے تب بھی انہوں نے والدین کو کبھی نہیں بتایا‘ مجھے ہی بتاتی تھیں۔ میں ہی جا کر حالات سدھارتا تھا۔ اب اس عمر میں حالات بہتر ہو گئے تھے۔ نصیر کی طبیعت میں ٹھہراؤ آ گیا تھا۔ اسی لیے بھابی کی یہ فون کال میرے لیے غیرمتوقع تھی۔ سوچنے لگا کہ اب کیا چاند چڑھایا ہو گا اس پیرِ فرتوت نے! قصہ مختصر‘ پہنچا تو عجیب منظر دیکھا۔ نصیر کے ہاتھ میں پھاوڑا تھا۔ وہ گھر کی بیرونی‘ یعنی لان والی دیوار کو گرانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ساتھ رفعت بھابی کھڑی تھیں اور روکنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ مجھے دیکھا تو روہانسی ہو کر بولیں‘ بھائی انہیں روکیے! پورے گھر کو منہدم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میں نے سب سے پہلے اس کے ہاتھ سے پھاوڑا لیا۔ پھر پوچھا کیا کر رہے ہو‘ دماغ تو نہیں خراب ہو گیا۔ کہنے لگا ''میرا دماغ نہیں خراب۔ میں اُن کا دماغ ٹھیک کرنا چاہتا ہوں۔ میں اپنے لیڈر کے حکم کی تعمیل میں سول نا فرمانی کا آغاز کر رہا ہوں۔ اس گھر میں اُن کی فیکٹری کا سیمنٹ لگا ہوا ہے۔ اسے گرانا ہی گرانا ہے!‘‘ اس کی بات سن کر میری ہنسی چھوٹ گئی۔ کہنے لگا: آج تم ہنس لو مگر تم لوگ ایک دن روؤ گے۔ میں اسے بڑی مشکل سے گھر کے اندر لایا۔ رفعت بھابی کو چائے بنانے کا کہا۔ 
کافی دیر کے بعد نصیر اس پوزیشن میں ہوا کہ بات سُن سکے۔ میں اس سے مخاطب ہوا: ''تم کیا سمجھتے ہو کہ گھر گرا کر اور سیمنٹ والا احسان اتار کر تم بائیکاٹ میں کامیاب ہو جاؤگے؟ یہ پلاٹ بھی تو اُنہی کی ہاؤسنگ کالونی میں ہے۔ بائیکاٹ کرنا ہے تو گھر کے انہدام کے بعد یہ پلاٹ بھی بیچو۔ بجلی‘ گیس اور پانی بھی اسی کالونی کی وساطت سے مل رہے ہیں۔ ان کا بھی بائیکاٹ کرو۔ تمہارے پوتے آرمی پبلک سکول میں پڑھتے ہیں۔ انہیں بھی وہاں سے اٹھاؤ اور کسی اور سکول میں ڈالو۔ ایک بیٹا تمہارا میجر ہے‘ دوسرا کرنل‘ ان سے بھی استعفے دلواؤ۔ اور استعفوں سے پہلے ان کے لیے متبادل ملازمتوں کا بندو بست کرو۔ بہو تمہاری آرمی پبلک سکول میں پڑھاتی ہے‘ اسے حکم دو کل سے وہاں پڑھانا چھوڑ دے۔ بیٹی تمہاری عسکری بینک کی ایک بڑی برانچ کی چیف منیجر ہے۔ اسے فوراً کسی اور بینک میں لگواؤ۔ جب یہ سب کچھ کر چکو تو رفعت بھابی کو بھی ان کے میکے بھیج دو کیونکہ وہ ایک آرمی افسر کی صاحبزادی ہیں اور چونکہ بائیکاٹ تم نے مکمل کرنا ہے اور سنجیدگی سے کرنا ہے اس لیے ایک آرمی افسر کی صاحبزادی تمہارے گھر میں ہو تو سارا بائیکا ٹ مشکوک ہو جائے گا۔ اور ہاں‘ تم نے فوجی فرٹیلائزر اور دوسری ایسی کمپنیوں کے جو حصص خرید رکھے ہیں‘ وہ بھی فوراً بیچو تا کہ بائیکاٹ کی تکمیل کی طرف بڑھ سکو۔ تمہارے بیٹوں کو آرمی افسر کی حیثیت میں جو پلاٹ ملے ہیں وہ بھی فوراً واپس کراؤ‘‘۔
میرے بات ختم کرنے تک نصیر کا منہ لٹک چکا تھا۔ اس کی زبان گنگ ہو چکی تھی۔ سرد موسم کے باوجود ماتھے پر پسینہ آرہا تھا۔ رفعت بھابی نے اس گرم لوہے پر اپنی طرف سے بھی چوٹ لگا دی۔ کہنے لگیں ''میں بچوں کو لے کر بھائی کے گھر میں شفٹ ہو جاؤں گی۔ بچے بھی تو آخر ایک فوجی افسر کے نواسے ہیں۔ وہ اگر اس کے پاس رہے تو بائیکاٹ پر حرف آئے گا!! اور بیٹی کی منگنی ایک کپتان سے ہوئی ہے وہ بھی توڑنا پڑے گی‘‘۔
یہ ہے وہ صورتحال جو حقیقی سول نافرمانی کی صورت میں پیش آئے گی۔ تحریک انصاف کے بے شمار ارکان کے ساتھ یہی ہو گا۔ بائیکاٹ کا یہ مطلب نہیں کہ عسکری دلیا اور کسٹرڈ نہ استعمال کیا جائے۔ بائیکاٹ صرف اسی صورت میں مکمل بائیکاٹ کہلائے گا جب عساکر سے تعلق رکھنے والی ہر چیز‘ ہر رشتے اور ہر حوالے کا بائیکاٹ ہو گا۔ بائیکاٹ کا حکم دینے والوں کو کچھ فرق نہیں پڑ ے گا۔ حکم دینے والے اور حکم کی تعمیل کرنے والے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ رہا یہ شوشہ کہ تارکینِ وطن باہر سے رقوم بھیجنا بند کر دیں‘ اس سے بھی خان یا شاہ محمود قریشی یا سلمان راجہ جیسے متمول حضرات کو یا بیرونِ ملک مقیم زلفی بخاری یا شہباز گل کو کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ ہاں جن خاندانوں کو باہر سے رقوم آتی ہیں ان کا کھانا پینا‘ علاج معالجہ متاثر ہو گا۔ بچوں کی فیسیں نہیں دے پائیں گے۔ بجلی‘ پانی اور گیس کے بل نہیں دے پائیں گے۔ یاد رہے کہ تارکینِ وطن رقوم پاکستان کے سرکاری خزانے کو نہیں بھیجتے بلکہ اپنے خاندانوں کو بھیجتے ہیں۔ تارکینِ وطن پاکستان میں بے شمار فلاحی منصوبے بھی چلا رہے ہیں۔ ابھی آسٹریلیا میں ایک صاحب سے ملا جو پاکستان میں کئی سکولوں کے اخراجات برداشت کر رہے ہیں۔ ان سکولوں میں مستحق طلبہ اور طالبات کو تعلیم مفت دی جاتی ہے۔ ایسے ہزاروں پروجیکٹ چل رہے ہیں۔ کئی ہسپتال چل رہے ہیں جہاں غریب بیماروں کا مفت علاج ہوتا ہے۔ باہر سے رقوم آنے کا سلسلہ بند ہوا تو یہ تمام فلاحی سرگرمیاں بند ہو جائیں گی۔ اس کاکوئی اثر خان پر پڑے گا نہ ان کے گرد جمگھٹا لگائے امرا کا! یہ سب کچھ تو افراد کے حوالے سے تھا۔ جو نقصان ملک کو پہنچے گا وہ اس کے علاوہ ہے اور سول نافرمانی جتنی زیادہ ہو گی‘ ملک کا نقصان اتنا ہی زیادہ ہو گا۔
پسِ تحریر: جنوب کے شہر سے تعلق رکھنے والے ایک نام نہاد دانشور نے پاکستان نیوی کے بارے میں جو کچھ کہا ہے‘ افسوسناک ہے اور قابلِ صد مذمت! یہ مزاح کی پست ترین قسم تھی جسے پھکڑ پن کہنا چاہیے۔ جن لوگوں نے یہ شرمناک بات سن کر تالیاں پیٹیں ان کے ذوق کا بھی ماتم ہی کیا جا سکتا ہے! ہماری مسلح افواج کے جو افسر اور جوان مادرِ وطن کی خدمت میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں‘ اسے شہادت کہتے ہیں۔ شہیدوں کا تمسخر اڑانا اس تھالی میں چھید کرنے کے مترادف ہے جس سے ایسے بد فہم کھاتے ہیں! یہ موصوف پاکستان اور پاکستان سے متعلق ہر شخصیت کے بارے میں ہمیشہ ذو معنی باتیں کرتے آئے ہیں۔ ادب کی کسی صنف سے تو ان کا تعلق نہیں‘ ہاں الیکٹرانک میڈیا پر عامیانہ اور مُبتذَل مکالمے ضرور پیش کرتے رہے ہیں۔ جب بھی طنز و مزاح لکھنے کی سعی کی‘ ہمیشہ Below the belt ہی ضرب لگائی۔ مولانا فضل الرحمن سے لے کر زرداری صاحب تک اور بے نظیر بھٹو سے لے کر شریف برادران تک‘ ہر سیاستدان کی تضحیک کی مگر لندن والا بھائی ان کی کند چھری سے ہمیشہ محفوظ رہا۔ ہمیشہ پٹھانوں‘ سندھیوں‘ بلوچوں اور پنجابیوں ہی کو اپنے غیرمعیاری مزاح کا نشانہ بنایا! نام نہاد اُردو کانفرنسیں جب لاہور میں منعقد ہوتی ہیں تو یہ صاحب لاہور میں بیٹھ کر پنجاب سے تعلق رکھنے والے اہلِ سیاست کی بھد اُڑاتے ہیں اور اہلِ لاہور یہ سب سن کر خوب تالیاں بجاتے ہیں! اور یاد آیا کہ اردو کانفرنسوں کا اردو سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا عامیانہ تھیٹر کا اردو سے تعلق ہے۔ اینکر اور اداکارائیں ان کانفرنسوں میں اہلِ قلم کی جگہ لے رہی ہیں! مجمع لگانے کے لیے بھی کیا کیا جتن کرنا پڑتے ہیں! فاعتبروا یا اولی الابصار! اے آنکھوں والو! عبرت پکڑو!

Monday, December 09, 2024

خاتون حاوی ہے تو تعجب کیسا؟

لگتا ہے کہ ملکہ کو تاریخ سے واقفیت بھی ہے اور تاریخ کا شعور بھی!

اسے معلوم ہی ہوگا کہ التمش کی بیٹی رضیہ سلطانہ کس بہادری سے دہلی کے تخت پر بیٹھ کر حکومت کرتی رہی۔ اسے معلوم ہی ہوگا کہ احمد نگر کی چاند بی بی نے اکبر کے عہد میں مغلوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اسے معلوم ہی ہوگا کہ واجد علی شاہ کی بیگم حضرت محل نے کس طرح 1857ء کی جنگ آزادی میں سرگرم حصہ لیا۔ انگریز دشمن نے بھی ان کی بہادری کی تعریف کی۔ ہتھیار ڈالنے کے بجائے نیپال جانے‘ ایک مشقت بھری زندگی اور پھر گمنامی کی موت کو ترجیح دی۔ اسے معلوم ہی ہوگا کہ رانی جھانسی (لکشمی بائی) نے کس طرح فرنگی دشمن کا مقابلہ کیا۔ غنیم سے جھانسی واپس لی۔ جب کوئی چارہ نہ رہا تو ایک فقیر سے کہہ کر اپنے آپ کو نذرِ آتش کروا دیا۔ راکھ بن گئی مگر اپنا پاک جسم مر کر بھی دشمن کے حوالے نہ کیا۔ اسے معلوم ہی ہوگا کہ سلطنت کا تمام کاروبار ملکہ نور جہاں کے ہاتھ میں تھا یہاں تک کہ شاہی مُہر بھی! جہانگیر نے کہا تھا کہ اُسے تو بس آدھا کلو گوشت اور کچھ شراب چاہیے! اسے معلوم ہی ہوگا کہ چار عقلمند خواتین نے بھوپال پر حکومت کی اور اس توازن کے ساتھ حکومت کی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور بعد میں برطانوی ہند کے حکمرانوں کے ساتھ تعلقات خراب بھی نہیں کیے اور ریاست کے تمام امور میں خود مختاری بھی حاصل رہی! قدسیہ بیگم بھوپال کی پہلی خاتون حکمران تھیں۔1837ء میں ان کی حکومت ختم ہوئی۔ نواب سکندر بیگم دوسری خاتون حکمران تھیں۔ انگریز سرکار نے انیس توپوں کی سلامی کی اجازت دی تھی۔ حج کیا تو ایک ہزار افراد ساتھ لے کر گئیں جن میں اکثریت خواتین کی تھی۔ حج کا سفر نامہ اُردو میں تصنیف کیا۔ اس کا انگریزی ترجمہ 1870ء میں شائع ہوا۔ اس میں نواب سکندر بیگم نے لکھا کہ جدہ اور مکہ میں صفائی خاطر خواہ نہیں تھی اور یہ کہ ترک اور عرب مہذب تھے نہ دین کا علم رکھتے تھے۔ سکندر بیگم نے ریاست میں کسٹم آفس قائم کیا‘ سیکرٹریٹ بنایا۔ ٹکسال قائم کیا۔ خفیہ اطلاعات کا محکمہ قائم کیا۔ ڈاک کا نظام جاری کر کے ریاست کو بقیہ ہندوستان سے مربوط کیا۔ فارسی کے بجائے اُردو کو دربار کی زبان قرار دیا۔ شاہ جہان بیگم بھوپال کی تیسری حکمران خاتون تھیں۔ کئی کتابوں کی مصنفہ تھیں۔ کیخسرو جہاں بیگم چوتھی اور آخری خاتون حکمران تھیں۔ تعلیم کی خوب توسیع کی۔ آرمی‘ پولیس‘ ٹیکس‘ اور عدلیہ میں اصلاحات کیں۔ 1926ء تک حکمران رہیں!
حکمران خواتین کے اس طویل سلسلے اور روایت کے بعد‘ آج اگر ایک خاتون ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو عملاً چلا رہی ہے تو اس میں تعجب ہی کیا ہے؟ آپ نظریاتی سطح پر مخالف ہیں تو مخالفت ضرور کیجیے۔ یہ آپ کا حق ہے۔ یہ قلم کار بھی نظریاتی حوالے سے مخالف ہے اور اتنا ہی شدید مخالف ہے جتنا شدید پہلے حامی تھا۔ آپ جادو کا طعنہ دینا چاہتے ہیں تو دیجیے۔ ساحرہ سمجھیے یا کاہنہ! تنک مزاج کہنا چاہتے ہیں تو کہیے‘ بزدار اور گجر کا حوالہ دینا چاہتے ہیں تو وہ بھی ضرور دیجیے مگر آپ ملکہ کی جرأت اور بہادری سے انکار نہیں کر سکتے۔ جس طرح وہ گھر سے نکل کر جلوس میں شامل ہوئیں اور قیادت کی‘ اس طرح پاکستانی خواتین کا مزاج ہی نہیں۔ ایسی تو لاکھوں میں ایک ہوتی ہے۔ ملکہ چاہتی تو جیل جانے کے بجائے معافی مانگ کر آرام سے گھر بیٹھ جاتی۔ جیل سے نکل کر بھی سارے معاملات سے اپنے اپنے آپ کو الگ کر کے کسی گوشۂ عافیت میں ٹھکانہ کر سکتی تھی مگر اس نے ایک روایتی پاکستانی بیوی بننے کے بجائے ایک فائٹر بننے کو ترجیح دی۔ آج اگر قیدی شوہر سب سے زیادہ اعتماد اسی پر کرتا ہے تو اس لیے کہ و ہ قابلِ اعتماد ہے اور معتبر ہے۔
جو مرد اس کے اردگرد جمع ہیں‘ بلکہ یوں کہیے کہ تقدیر نے اسے مردوں کے جس حلقے میں لاکھڑا کیا ہے‘ وہ مرد بے خوفی میں اور پیش رفت میں اور پیش گامی میں اور حملہ آور ہونے میں پہل کرنے میں اس کے پاسنگ بھی نہیں! ان میں سے کچھ تو کمین گاہوں میں روپوش ہیں۔ باہر نکل کر معاملات کا سامنا کرنے کی ان میں طاقت نہیں! ہاں بڑ ہانکنے میں ان کا ثانی کوئی نہیں! کچھ باہر ہیں مگر نیمے دروں نیمے بروں! ہزار مصلحتوں نے ان کے پیروں میں زنجیریں ڈال رکھی ہیں! مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ لَآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآئِ وَلَآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآئِ درمیان میں ڈانواں ڈول ہیں‘ نہ پورے اس طرف نہ پورے اُس طرف!! کردار کے غازی تو کیا ہوتے‘ گفتار کے غازی بھی نہیں! آپس میں کو آرڈی نیشن مکمل مفقود ہے۔ کسی کی شخصیت میں ایسی کشش‘ ایسی مقناطیسیت نہیں جو پارٹی کے کارکنوں کو اپنی طرف کھینچ سکے۔ ان میں سے کچھ کی ساری زندگی خارزارِ سیاست میں گزری ہے مگر سینوں میں نالہ ابھی تک خام ہے۔ بات کرتے ہیں تو گَلے کے اوپر اوپر سے نکلتی ہے‘ دل سے کوسوں دور! عام کارکنوں کے جذبات سے بے نیاز! اپنی ذات کے اسیر! چھوٹی چھوٹی اغراض کے محاصرے میں بند! گفتگو کریں تو گہرائی نہیں! گویا ملکہ زبان حال سے کہہ رہی ہے کہ
میرا دکھ یہ ہے میں اپنے ساتھیوں جیسی نہیں
میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں
ایک سوال اور بھی ہے جس پر کم ہی غور ہوا ہے! کیا اس حد سے زیادہ ذہین اور حاوی ہونے والی خاتون کا شوہر بھی اتنا ہی ذہین ہے؟ ایسا ہوتا تو وہ حاوی ہوتا۔ فیصلے سارے یہ بہادر اور جری خاتون کرتی تھی۔ کس وقت جانا ہے‘ کب آنا ہے‘ کس وقت کیا کھانا ہے‘ کس وقت کیا پینا ہے‘ کس وقت سونا ہے‘ کس وقت جاگنا ہے‘ کس کو کہاں تعینات کرنا ہے‘ کس کو کہاں سے ہٹانا ہے؟ کون حلف برداری کی تقریب میں شرکت کرے گا‘ کون نہیں کرے گا؟ کون گورنر بنے گا‘ تسبیح میں کون سا وِرد کرنا ہے‘ یہ سب کچھ ملکہ طے کرتی تھی! روحانی سلسلہ تھا یا نہیں! ذہانت‘ قوت ارادی اور بے خوفی ضرور تھی۔ اور اگر روحانی سلسلہ تھا بھی تو روحانیت بھی ذہانت کے بغیر در نہیں آتی! جو کچھ بھی ہوتا رہا‘ جو کچھ بھی ہو رہا ہے‘ اس کی پشت پر اس جری خاتون کا دماغ ہے۔ سب پیٹھ پیچھے بڑبڑاتے ہیں‘ شکایتیں کرتے ہیں‘ مگر اس کے سامنے سب سہمے ہوئے بیٹھتے ہیں! کوئی اُف کرتا ہے نہ چوں! رعب ہے۔ خود اعتمادی ہے۔ مردوں کے اس پدرسری معاشرے میں اس نے اپنا لوہا منوایا ہے تو اس پر اعتراض کیسا!
توشہ خانے کے معاملات میں اسے دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ مگر اس نے کب دعویٰ کیا ہے کہ وہ فرشتہ ہے! جو کچھ اس نے اور اس کے شوہر نے توشہ خانہ کے حوالے سے‘ مبینہ طور پر‘ کیا ہے‘ اس صفحے پر اس کی حمایت نہیں کی جا رہی۔ مگر اس سے پہلے جن حکمرانوں نے توشہ خانے کے اموال کو شیرِ مادر گردانا‘ کیا ان پر بھی مقدمے چلائے گئے؟ اس جرم میں کٹہرے میں کھڑا کرنا تھا تو سب کو کھڑا کرتے۔ بڑی بڑی‘ بیش بہا گاڑیاں توشہ خانے سے لی جاتی رہیں۔ پلاسٹک سے بنا ہوا اور جعلی حلقے سے جعلی طور پر منتخب شدہ ایک سابق وزیراعظم توشہ خانے کے ڈھیر سارے تحائف کی بھاری گٹھڑی سر پر رکھے ملک سے بھاگ گیا‘ اسے تو کسی نے آج تک ایک معمولی سا نوٹس بھی نہیں بھیجا۔ کسی کو پکڑ لینا اور کسی کو چھوڑ دینا درست طرزِ عمل نہیں! سب کو پکڑیے یا سب کو چھوڑ دیجیے۔ جن کے اصلی وطن ملک سے باہر ہیں ان کا حساب کب لیا جائے گا اور کون لے گا؟

Thursday, December 05, 2024

اٹھاون سال والا چُھرا

لنکا سے جو بھی نکلا‘ سو باون گز کا! اعلان کیا گیا ہے کہ سرکاری ملازمت کی ریٹائرمنٹ عمر ساٹھ سال سے گھٹا کر اٹھاون سال کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔ غیر مقبول ہونے کے لیے بھی حکومتیں کیا کیا کوششیں کرتی ہیں!
پڑھنے والوں کی توجہ پہلے بھی اس کتاب کی طرف مبذول کرنے کی کوشش کی ہے جس کا نام 

The March of Folly

 ہے۔ مصنفہ کا نام 

Barbara Tuchman 

ہے۔ حکومتوں کی حماقتیں سمجھنے کے لیے یہ کتاب اکسیر ہے‘ خاص طور پر ہمارے جیسے ملکوں کی حماقتیں! افسوس! کتابیں پڑھنے کا رجحان کم ہو رہا ہے۔ بہت سی ڈھنگ کی کتابیں جن کا پڑھنا لازم ہے‘ یہاں دستیاب ہی نہیں! آپ کا کوئی عزیز یا دوست امریکہ یا برطانیہ سے آ رہا ہے تو شرٹ یا ٹائی یا چاکلیٹ منگوانے کے بجائے کتابیں منگوائیے اور یہ کتاب تو ضرور منگوائیے۔ اس کتاب میں مصنفہ نے تاریخ سے ثابت کیا ہے کہ حکومتوں کے اقدامات احمقانہ ہوتے ہیں جبکہ فرد اپنے فیصلے سوچ سمجھ کر‘ دانائی سے کرتا ہے۔ دانائی سے فیصلے کرنے کی تعریف یہ ہے کہ فیصلہ تین بنیادوں پر کیا جائے۔ اوّل‘ ماضی کے تجربات اور نتائج۔ دوم‘ ماضی کے تجربوں اور مشاہدوں کی بنیاد پر کیے گئے مستقبل کے تخمینے (پروجیکشن) اور سوم‘ کامن سینس۔ آپ غور کیجیے‘ بھٹو صاحب کے عہدِ حکومت میں صنعتوں کا قومیایا جانا ایک احمقانہ فیصلہ تھا جو ملک کو کئی دہائیاں پیچھے لے گیا۔ حکومتیں کاروبار کے لیے نہیں ہوتیں‘ کاروبار کے حوالے سے ایسے قوانین بنانے کے لیے ہوتی ہیں جو عوام کے مفاد کی حفاظت کریں۔ ہماری پچھتر سالہ تاریخ حکومتوں کی حماقتوں سے اٹی پڑی ہے۔ اسکندر مرزا کا لگایا ہوا مارشل لاء‘ ایوب خان کا اقتدار پر قبضہ‘ ون یونٹ کی تشکیل‘ جنرل یحییٰ کا قومی اسمبلی کا اجلاس 1971ء میں غیر معینہ مدت کے لیے منسوخ کر دینا‘ آرمی ایکشن‘ بھٹو صاحب کا الیکشن میں گڑبڑ کرنا‘ دلائی کیمپ‘ حریفوں کو مرو ا دینا‘ اس کے بعد تو حماقتوں کی انتہا ہی نہ رہی۔ جنرل ضیا نے تو حد کر دی۔ سرحدیں غیر ملکی جنگجوؤں کے لیے کھول دیں۔ افغان پورے ملک میں پھیلا دیے۔ قوم نے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی باہمی لڑائیاں اور پیٹ پھاڑ دینے کے دعوے بھی دیکھے۔ عمران خان کی حکومت بھی حماقتوں سے خالی نہ تھی۔ بزدار کا انتخاب‘ دوست نوازیاں! پچھلے حکمرانوں کی طرح توشہ خانے کے معاملات میں ملوث ہو جانا‘ یہ حکومتوں کی فقط چند حماقتیں ہیں!
یہ جو تیاری ہو رہی ہے کہ سرکاری ملازمین کو اٹھاون سال پر ریٹائر کر دیا جائے‘ احمقانہ سوچ کی تازہ مثال ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے تو یہ سوچا جا رہا تھا کہ ریٹائرمنٹ عمر ساٹھ سال کے بجائے باسٹھ سال کر دی جائے۔ اسے کہتے ہیں ذہنی عدم استحکام!! کبھی ایک میل آگے کبھی چار کوس پیچھے!! اٹھاون سال کر دیں گے تو ہر طرف سے نقصان ہی نقصان ہو گا۔ مقبول تو آپ پہلے ہی کوئی خاص نہیں ہیں‘ غیر مقبول پہلے سے زیادہ ہو جائیں گے۔ جن کے پاس سرکاری مکان ہیں اور انہوں نے ساٹھ سال کے حساب سے منصوبہ بندی کر رکھی ہے‘ ان کے لیے یہ اقدام لرزہ خیز ہو گا۔ بے شمار خاندانوں کو صدمہ پہنچے گا اور نقصان ہو گا۔ اب تو پہلے کی نسبت متوقع عمر (Life Expectancy) زیادہ ہے۔ صحت کی سہولتیں بہتر ہیں۔ (اس کا یہ مطلب نہیں کہ سرکاری سہولتیں بہتر ہیں۔ عوام کی بھاری اکثریت نجی شعبے سے علاج کراتی ہے اور ادویات اپنی جیب سے خریدتی ہے) پینسٹھ بلکہ ستر سال تک لوگ کام کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں۔ پھر‘ یکدم آپ اتنے زیادہ لوگوں کو ریٹائر کریں گے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تجربہ کار افرادی قوت سے محروم ہو جائیں گے۔ بہت بڑا خلا پیدا ہو جائے گا۔ سرکاری شعبہ‘ جو پہلے ہی زیادہ مستعد نہیں اور جس کی کارکردگی اب بھی قابلِ رشک ہرگز نہیں‘ مزید مایوس کن نتائج دے گا۔ آپ یہ امید کر رہے ہیں کہ مدتِ ملازمت کم ہو گی تو پنشن بھی کم ہو گی مگر یہ بھول رہے ہیں کہ یکدم بہت زیادہ تعداد میں ریٹائر کرنے سے پنشن کا بوجھ بہت زیادہ ہو جائے گا۔
سب سے بڑا اور اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ امتیازی سلوک جو سرکاری ملازموں کے ساتھ کیا جاتا ہے‘ کیا ریٹائرمنٹ عمر کم کرنے سے ختم ہو جائے گا؟ حالت یہ ہے کہ ہر حکومت بے یار ومدد گار ملازمین کو ساٹھ سال پر ر یٹائر کر دیتی ہے مگر سفارشیوں‘ خدمت گاروں‘ ٹوڈیوں‘ چمچوں‘ ذاتی وفاداروں اور کنیز نما ملازموں کو توسیع دے دیتی ہے۔ ستر ستر‘ اسی اسی سال کے افراد اب بھی دفتر سنبھالے بیٹھے ہیں۔ بعض کے بارے میں تو لوگ ہنستے ہوئے کہتے ہیں کہ مقبرہ دفتر ہی میں بنے گا۔ سب جانتے ہیں کہ پولیس افسروں سے کون پوچھتا تھا کہ ''ہم سے دوستی کرو گے؟‘‘ کون کافر اس سوال کا جواب نفی میں دے سکتا ہے! صاف ظاہر ہے کہ دوستی کا مطلب یہاں وفاداری اور ذاتی نوکری ہے‘ ورنہ کھرب پتیوں کی دوستی گریڈوں میں پلنے والے سرکاری ملازموں سے کیسے ہو سکتی ہے؟ یہ بھی ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جن افسروں کو فیڈرل اور صوبائی پبلک سروس کمیشنوں میں ممبر لگایا جاتا ہے‘ وہ سو نہیں‘ ایک سو دس فیصد سفارش یا ذاتی تعلق کی بنا پر لگتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ آپ ریٹائرمنٹ کے بعد گھر جائیں گے‘ اور آپ کی ''اوپر‘‘ تک رسائی نہیں ہے تو آپ کو بُلا کر‘ ملازمت پلیٹ میں رکھ کر پیش کی جائے گی؟ ایسی کوئی ایک مثال بھی نہیں!! دیانت داری‘ محنت‘ میرٹ‘ کسی وصف کی کوئی اہمیت نہیں! ریٹائرمنٹ کے بعد صرف اسی کو ملازمت ملتی ہے جس کی سفارش ہو یا جس نے نوکری کے دوران کوئی سیکرٹ فروخت کیا ہو یا ذاتی چاکری کی ہو۔ سب سے زیادہ انصاف کی امید عمران خان سے تھی مگر ان کے زمانے میں بھی وہی کچھ ہوتا رہا جو ہو رہا تھا۔ ان کے زمانے میں پنجاب میں محتسب کی اسامی خالی ہوئی تو ایک وفاقی سیکرٹری کو ایک سال پہلے ریٹائر کر کے اس اسامی پر لگا دیا گیا تاکہ چار پانچ سال مزید مل جائیں! کچھ ایسا ہی سول ایوی ایشن اتھارٹی میں ہوا۔ اور یہ صرف دو مثالیں ہیں! کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر اب بھی آپ نے یہی کچھ کرنا ہے تو یہ اٹھاون سال والا ظلم خدارا مت کیجیے۔ کل کو روزِ حشر کیا جواب دیں گے کہ جو بے یار ومددگار تھے انہیں اٹھاون سال پر چلتا کر دیا اور جو سفارشی تھے اور جی حضوری میں طاق‘ انہیں سالہا سال تک نوکری دیے رکھی بلکہ کچھ کو پارلیمنٹ کی ممبری دے کر وزارت بھی دے دی! اور یہ صرف اس حکومت میں نہیں ہو رہا‘ ہر حکومت نے یہی کچھ کیا ہے۔ جن صاحبان کے بارے میں مشہور ہے کہ دوستی نبھاتے ہیں‘ وہ دوستوں کو اپنی جاگیروں یا اپنے کارخانوں میں نہیں لگاتے‘ یہ دوستیاں سرکاری عہد ے دے کر نبھائی جاتی ہیں! ویسے ریسرچ کے لیے یہ ایک چشم کُشا موضوع ہو گا۔ تحقیق ہونی چاہیے کہ گزشتہ پچاس برسوں کے دوران ریٹائرمنٹ کے بعد نوکری پانے والوں اور بیرونِ ملک تعیناتیاں اُڑا لے جانے والوں کے پاس کیا کیا گیدڑ سنگھی تھی‘ کس کس کی سفارش تھی اور سیاست دانوں کی کیا کیا خدمات کس کس نے انجام دی تھیں اور یہ بھی کہ مقتدرہ کا ہاتھ کس کس کے کندھے پر تھا! اس سے ہماری سوسائٹی میں پھیلی ہوئی بدبودار کثافت بھی کھل کر سامنے آ جا ئے گی!! چنانچہ گزارش ہے (ہم تو گزارش ہی کر سکتے ہیں) کہ اگر اٹھاون سال والا چُھرا چلانا ہی ہے تو پھر سب کے گلوں پر بلاامتیاز چلائیے! کسی کی سفارش نہ مانیے۔ یاد رکھیے قبرستان ناگزیر افراد سے بھرے پڑے ہیں!

Tuesday, December 03, 2024

حسد‘ رشک اور بنکاک


رشک اور حسد میں فرق ہے مگر بہت نازک فرق! یوں سمجھیے رشک حسد کی مثبت شکل ہے‘ اور حسد رشک کی منفی‘ بے حد منفی صورت! حسد میں انسان آگ میں جلتا ہے! اپنی آگ میں! رشک میں کسی کی ترقی دیکھ کر دل خوش ہوتا ہے! پروردگار کا شکر ہے جس نے حسد سے بچائے رکھا۔ اس لیے کہ یہ سبق اچھی طرح پڑھا دیا گیا تھا کہ جو دیتا ہے‘ خدا دیتا ہے اور اس نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے! جہاں تک رشک کا تعلق ہے‘ ذاتی حوالے سے ایک زمانے میں اُن افراد پر رشک آتا تھا جو بظاہر زیادہ کامیاب نظر آتے تھے مگر ایک دو بار ایسے سبق ملے کہ اب کسی پر رشک نہیں آتا۔ سکول میں اکمل ہم جماعت تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں سرکاری ملازمت میں آیا تو وہ نجی شعبے میں گیا۔ ادھر میں سرکاری ملازمت میں سینئر ہوتا گیا اُدھر وہ اپنے ادارے میں ترقی کی منزلیں طے کرتا رہا۔ ریٹائرمنٹ سے بہت پہلے اس نے لاہور میں اس وقت بہت اچھا گھر بنا لیا جب میں گھر بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور بظاہر اس کا امکان بھی نہیں تھا۔ پھر اس کی کمپنی نے اسے باہر بھیج دیا۔ کئی سال سنگاپور رہا۔ پھر یورپ! اس پر رشک آیا کہ ہم سرکاری ملازمت کے دوران خواہش کے باوصف ایک بھی پوسٹنگ بیرونِ ملک نہ لے سکے‘ اس لیے کہ یہ سو فیصد سفارش کا معاملہ تھا اور سفارش اس پائے کی تھی نہیں! اور ہمارا یہ دوست مدتوں باہر کی پوسٹنگ کے مزے لیتا رہا۔ رشک کی یہ چادر کیسے تار تار ہوئی؟ یہ بات دلچسپ ہے اور یہاں اس لیے بیان کی جا رہی ہے کہ از حد سبق آموز ہے۔ اس سے بہتوں کا بھلا ہو گا اور بہت سے پڑھنے والے دوسروں پر رشک کرنے کے بجائے ان مہربانیوں کی قدر کریں گے جو قدرت نے ان پر کی ہیں اور شکر کریں گے‘ اس لیے کہ شکر رشک سے برتر ہے! لاہور گیا تو اکمل نے ہر بار کی طرح کھانے کی دعوت دی۔ فائیو سٹار ہوٹل میں لے گیا۔ باتوں باتوں میں کہنے لگا: تم سکول کے زمانے کے بیلی ہو۔ ایک بات ہے جو تم ہی سے ہو سکتی ہے۔ یار میں بہت دکھی ہوں! اندر سے ٹوٹ چکا ہوں! سن کر ایک بار جیسے جھٹکا لگا مگر فوراً اپنے آپ کو مجتمع کیا۔ میں نے کہا :تم کیوں دکھی ہو؟ ماشاء اللہ ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہو۔ ہم سب دوست تم پر رشک کرتے ہیں! کیا ہے جو تمہارے پاس نہیں! ایک کامیاب کیریئر۔ مدتوں ترقی یافتہ ملکوں میں قیام سے لطف اندوز ہوئے۔ اپنا محل نما گھر۔ تندرستی۔ اچھی شہرت! مگر اکمل کا چہرا جیسے دھویں میں تبدیل ہو رہا تھا۔ کہنے لگا‘ اورکہتے ہوئے اس کی ہچکی بندھ گئی‘ کہ بیٹی نے‘ جو امریکہ میں پی ایچ ڈی کر رہی ہے‘ پوچھے بغیر‘ بتائے بغیر‘ شادی کر لی ہے۔ آنسو بارش کی طرح اس کے رخساروں پر گر رہے تھے۔ میں دم بخود تھا۔ کافی دیر ہم دونوں خاموش رہے۔ پھر میں نے اسے تسلی دی۔ اس سے رخصت ہونے کے بعد مجھ پر بہت دیر سکتے کی کیفیت طاری رہی۔ پھر دل میں توبہ کی اور بار بار توبہ کی کہ اکمل پر رشک کرتا رہا اور یہ سمجھ کر رشک کرتا رہا کہ اسے وہ کچھ ملا جو میرے پاس نہیں تھا۔ مگر یہ شخص تو ریزہ ریزہ ہو چکا ہے۔ یہ میرے لیے سبق بھی تھا اور ٹھوکر بھی! اُس دن کے بعد کبھی کسی کی ظاہری کامیابی پر رشک نہیں کیا۔ اکمل کی ہچکی اور دھواں ہوتا چہرا ہر ایسے موقع پر یاد رہتا ہے۔ ایک اور واقعہ بھی اس سے ملتا جلتا پیش آیا اور اس سے یہ یقین پختہ تر ہو گیا کہ رشک کرنے کے بجائے اپنے حال پر ہزار بار شکر کرنا چاہیے۔
مگر بنکاک ایئر پورٹ پر جب بھی ٹھہرنا ہوتا ہے‘ ایئر پورٹ پر اور تھائی لوگوں پر رشک آتا ہے اور یہ رشک اپنی ذات کے حوالے سے نہیں‘ صرف اور صرف اپنے ملک کے حوالے سے آتا ہے کہ یار یہ ٹھگنے‘ پست قامت لوگ ہم سے کوسوں نہیں‘ برسوں نہیں‘ دہائیوں آگے نکل گئے ہیں! بیسیوں بار اس ایئر پورٹ پر پورا پورا دن گزارنا پڑا اور ہر بار رشک آیا! کیا لوگ ہیں! کیا قوم ہے! ہرا منٹ بعد کوئی نہ کوئی پرواز اُترتی ہے۔ جس کسی نے آسٹریلیا جانا ہے یا نیوزی لینڈ جانا ہے یا جاپان جانا ہے یا کوریا جانا ہے یا ہانگ کانگ جانا ہے‘ یا فلپائن یا ویتنام جانا ہے‘ یہاں سے ہو کر جاتا ہے۔ گویا یہ ڈیوڑھی ہے جس سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ اس ڈیوڑھی سے یہ ملک کروڑوں ڈالر روز کے کما رہا ہے۔ صرف ایئر پورٹ پر جو بازار اور دکانیں ہیں‘ انہی سے لاکھوں ڈالر کی سیل روزانہ ہو رہی ہے۔ وقت کی پابندی ان پر ختم ہے۔ صفائی حیرت انگیز ہے۔ وی آئی پی لاؤنج ایک درجن سے کم کیا ہوں گے۔ وسیع و عریض اتنا کہ ہمارے اسلام آباد ایئر پورٹ جتنے کئی ایئر پورٹ اس میں سما جائیں! کبھی کوئی اونچی کرخت آواز نہیں سنی۔ کبھی دو آدمیوں کو جھگڑتے یا اُلجھتے نہیں دیکھا۔ کارندے اور دکاندار مسافروں کو جھک کر اور ہاتھ جوڑ کر سلام کرتے ہیں۔ ہم پاکستانی بھی انہی جیسے ہیں۔ بلکہ جسمانی طور پر بہتر! ہمارے بھی ان کی طرح دو ہی ہاتھ ہیں‘ دو ہی پیر ہیں‘ ہم بھی ان کی طرح نوالہ منہ ہی میں ڈالتے ہیں۔ مگر ہم اُس چوہے کی طرح ہیں جس نے ہاتھی سے عمر پوچھی تھی اور پھر کہا تھا کہ میں تمہارا ہم عمر ہوں مگر ذرا بیمار رہا ہوں! ہم بھی تھائی لوگوں کی طرح ہی ہیں مگر ذرا ذہنی طور پر بیمار رہے ہیں اور بدستور بیمار ہیں! ہم ایک بھی ایئر پورٹ ایسا نہ بنا سکے جیسا ان لوگوں نے بنایا ہے۔ ایک زمانے میں کراچی ایئر پورٹ کی وہی اہمیت تھی جو آج دبئی‘ ابو ظہبی‘ دوحہ‘ بنکاک اور سنگا پور کے ہوائی اڈوں کی ہے۔ جس نے بھی مشرق کو جانا ہوتا تھا یا مغرب کو‘ کراچی سے ہو کر جاتا تھا۔ دنیا بھر کی ایئر لائنوں کے جہاز اترتے تھے۔ اس وقت دبئی کی اہمیت تھی نہ سنگا پور کی! مگر پھر ہم گر پڑے اور نہ صرف یہ کہ گر پڑے‘ لڑھکتے لڑھکتے کئی میل نیچے چلے گئے۔ دلدل میں دھنس گئے! اور آج حال یہ ہے کہ:
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے!
اسلام آباد کا ''نیا نویلا‘‘ ایئر پورٹ‘ جو ہم نے بقول پنجابیوں کے کِل کِل کے گیارہ سال میں بنایا‘ دوحہ یا سنگا پور یا بنکاک یا دبئی ایئرپورٹ کے سامنے ایسے ہی ہے جیسے میر اور غالب کے سامنے استاد امام دین گجراتی! دنیا آگے جا رہی ہے ہم پیچھے! ہم ایک منتشر ریوڑ ہیں جو کسی چرواہے کی تلاش میں ہے! ہم نے ہر لیڈر کے نعرے لگائے۔ جلسوں میں دریاں بچھائیں‘ ان کی گاڑیوں کے ساتھ دوڑے۔ ہم میں سے کئی نے ماریں کھائیں‘ جیلوں میں رہے‘ گالیاں سنیں‘ اپنی گھریلو زندگیاں قربان کیں مگر ہر لیڈر نے ہمیں دھوکا دیا۔ جس کا بھی ساتھ دیا اس نے ہمارے منہ پر کالک ملی‘ کسی نے اپنی اولاد کا مستقبل بنایا۔ کسی نے باہر ایمپائرز کھڑی کیں۔ کسی نے بیوی کی خواہشات پر قوم کو قربان کر دیا۔ اب تو فیض صاحب کے بقول اپنے آپ ہی سے پوچھتے ہیں:
کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہو گی؍ سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہو گی؍ کب جان لہو ہو گی کب اشک گہر ہو گا؟؍ کس دن تری شنوائی اے دیدۂ تر ہو گی؟؍ کب مہکے گی فصلِ گل کب بہکے گا مے خانہ؟؍ کب صبحِ سخن ہو گی کب شامِ نظر ہو گی؟

 

powered by worldwanders.com