Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, November 21, 2024

ہم کب سدھریں گے؟

خدا کی پناہ!! جو خبر بھی آتی ہے‘ شرمناک ہی آتی ہے۔ متحدہ عرب امارات نے جو وجوہ پاکستانیوں کے ویزے بند کرنے کی بتائی ہیں‘ ایسی ہیں کہ ہم پاکستانیوں میں ذرہ برابر بھی عزتِ نفس ہو تو ڈوب مریں۔ تازہ ترین خبر کی رُو سے یہ وجوہ سرکاری سطح پر پاکستانی سفیر کو بھیج دی گئی ہیں۔ اولین وجہ جو بھی سنے گا اسے ہماری بے وقوفی پر ترس بھی آئے گا اور ہنسی بھی! وہ یہ کہ ہمارے ہم وطن‘ جو متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں‘ وہ متحدہ عرب امارات ہی کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں! اس تنقید کا سب سے بڑا ذریعہ سوشل میڈیا ہے۔ دنیا میں جو ''استعمال‘‘ سوشل میڈیا کا ہم پاکستانیوں نے کیا ہے‘ شاید ہی کسی اور قوم نے کیا ہو گا۔ پاکستانی ایک بات بڑے مزے سے کہتے ہیں کہ جاپانیوں نے جو سوزوکی پک اَپ بنا کر بھیجی ہے‘ آکر اس کا استعمال دیکھیں تو بے ہوش ہو جائیں۔ 20‘ 30سواریاں اندر اور آٹھ‘ دس باہر لٹکی ہوئیں! سوشل میڈیا کا استعمال ہمارے ہاں اس سے بھی زیادہ بھرپور ہوا ہے۔ سب سے بڑی وجہ اس کی ہمارا ویلا ہونا ہے۔ ویلا پنجابی میں اُسے کہتے ہیں جس کے پاس وقت ہی وقت ہو۔ اس میں تھوڑی سی تضحیک بھی شامل ہے۔ ہم شاید دنیا میں سب سے زیادہ ویلی قوم ہیں۔ ہمارے پاس فراغت لاکھوں‘ کروڑوں ٹنوں کی صورت موجود ہے۔ کسی بھی جگہ‘ جہاں بھی دو گاڑیوں کی ٹکر ہو گی یا ٹریفک کا کوئی حادثہ ہو گا‘ وہاں لوگ اس طرح جمع ہوں گے جیسے کوئی بہت نادر قسم کا تماشا لگا ہے۔ ادھر حادثہ ہوا اُدھر تماشائی جمع ہو گئے۔ یہ اس قدر سرعت سے جمع ہوتے ہیں کہ دیکھنے والا حیران ہو جاتا ہے۔ پتا نہیں زمین سے نکل آتے ہیں یا اوپر سے گرتے ہیں۔ پھر جب تک متاثرہ گاڑیاں وہاں موجود رہیں گی‘ یہ تماشائی بھی کھڑے رہیں گے۔ زندگی کا کوئی سا شعبہ اٹھا کر دیکھ کیجیے۔ فراغت کی بہتات نظر آئے گی۔ شادی بیاہ کی تقریبات لے لیجیے۔ دعوتی کارڈ پر سات بجے کا وقت ہو گا۔ مہمان دس بجے آنا شروع کریں گے۔ کھانا گیارہ بجے لگ جائے تو خوش بختی ہے ورنہ اس گنہگار نے شادی کی تقاریب میں دو بجے کھانا کھانے کی اذیتیں بھی برداشت کی ہیں۔ کوئی بھی فنکشن ہو‘ سرکاری‘ نجی‘ گھنٹوں کی تاخیر سے شروع ہو گا۔ سوشل میڈیا تو ہمارے ویلے ہونے کی مستند ترین سند ہے۔ ان لوگوں کی فراغت کا اندازہ لگائیے جو ہر روز صبح اٹھ کر‘ بلا ناغہ آپ کو پھول بھیجتے ہیں۔ صرف آپ کو نہیں‘ بیسیوں کو‘ بلکہ بے شمار لوگوں کو بھیجتے ہیں۔ جمعہ مبارک بھی ارسال کرتے ہیں۔ پھر ہر رطب و یابس‘ ہر بُرا بھلا‘ ہر کچا پکا‘ ہر سچ جھوٹ‘ جو بھی موصول ہوتا ہے‘ اسے فارورڈ کرنا فرض سمجھتے ہیں۔ یہ پاکستانی جو یو اے ای میں مقیم ہیں‘ وہاں ملازمتیں اور کاروبار کر رہے ہیں‘ پیسہ کما رہے ہیں‘ پیچھے گھر بھی بھیج رہے ہیں‘ مگر عقل دیکھیے کہ میزبان ملک کی پالیسیوں پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔ جب دبئی میں بارش آئی یا سیلاب‘ ان ہمارے ہم وطنوں نے سوشل میڈیا پر یہ کہنا شروع کر دیا کہ مندر بنایا ہے اس لیے یہ عذاب اُترا ہے۔ ایک تو ہم پاکستانیوں کو فوراً معلوم ہو جاتا ہے کہ جو بھی قدرتی آفت آتی ہے‘ عذاب ہی ہوتا ہے۔ یو اے ای مندر بنائے یا مسجد یا کلیسا‘ یا کیسینو‘ کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے‘ جس کام کے لیے گئے ہو وہ کام کرو۔ اور اپنے کام سے مطلب رکھو! بنگلہ دیشی بھی ہمارے ہی (بچھڑے ہوئے) بھائی ہیں! حسینہ واجد کو زوال آیا تو ان بنگلہ دیشیوں نے یو اے ای میں بھی احتجاج شروع کیا۔ یو اے ای نے کان سے پکڑا اور واپس بنگلہ دیش بھیج دیا۔

دوسری وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ دستاویزات (پاسپورٹ‘ شناختی کارڈ وغیرہ) میں جعل سازی کرنے والوں میں بھی پاکستانی سر فہرست ہیں۔ پھر بھکاریوں کی زیادہ تعداد بھی پاکستانیوں ہی کی ہے! چوری‘ نوسر بازی‘ بھیک مانگنا‘ جسم فروشی اور منشیات سے متعلق مجرمانہ سرگرمیاں بھی پاکستانی شہریوں میں دیگر قومیتوں کے افراد کے مقابلے میں زیادہ پائی جاتی ہیں۔ اپنی حرکتوں پر شرم کرنے کے بجائے ہم امت مسلمہ کی پناہ میں چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آخر یو اے ای بھی مسلمان ملک ہے۔ ہم پر پابندیاں کیوں لگا رہا ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیوں نہ لگائے؟ المیہ یہ ہے کہ یو اے ای ہر دو سال کے بعد کشکول اٹھائے آپ کے دروازے پر آکر بھیک نہیں مانگتا۔ آپ کہیں گے کہ شکار تو پاکستان میں آکر کھیلتے ہیں۔ تو آپ کو شکار والے علاقوں میں سڑکیں اور ہسپتال بھی تو بنا کر دے رہے ہیں۔ روکنا چاہیں تو روک دیجیے۔ بھارت انہیں آپ سے بھی زیادہ سہولتیں دے گا۔ ویسے کسی پاکستانی حکومت کی مجال نہیں کہ شکار کے اُن قوانین پر عرب اور خلیجی شہزادوں سے عمل کرائے جن کا اطلاق خود پاکستانیوں پر ہوتا ہے۔
دوسری خبر اس سے بھی زیادہ شرمناک اور عبرتناک ہے۔ اس سال سعودی عرب میں ایک سو غیر ملکیوں کے سر قلم کیے گئے۔ ان میں سب سے زیادہ تعداد پاکستانیوں کی رہی۔ یعنی ہم اول نمبر پر آئے۔ ٹاپ کیا۔ 21 پاکستانیوں کو سزائے موت دی گئی۔ یمن نے سیکنڈ پوزیشن لی۔ دوسرے ملکوں میں مصر‘ شام‘ نائیجیریا‘ اردن‘ ایتھوپیا وغیرہ شامل ہیں۔ سر قلم کرانے والوں میں تین افراد بھارت سے تھے اور اتنے ہی افغانستان سے! حیرت ہے ہمارے لوگوں کی سمجھ بوجھ پر اور ''استقامت‘‘ پر!! بچے بچے کو معلوم ہے کہ سعودی عرب میں منشیات لانے کا جرم ناقابلِ معافی ہے۔ پھر بھی ہمارے بھائیوں کے اعصاب اتنے مضبوط ہیں کہ اس جرم سے باز نہیں آتے۔ کچھ قتل کے جرم میں ملوث ہوتے ہیں اور سزائے موت پاتے ہیں۔ 
ہم کب سدھریں گے؟ کب عقل کے ناخن لیں گے؟ ملک کے اندر بھی بد امنی‘ بے چینی‘ گرانی‘ سیاسی عدم استحکام‘ اقتصادی ناکامی اور آبادی کے شدید دباؤ کے عفریت منہ کھولے دندنا رہے ہیں۔ ملک سے باہر بھی ہماری عزت ایک دھیلے کی نہیں۔ آہستہ آہستہ دوسرے ممالک‘ ایک ایک کر کے ہم پر اپنے دروازے بند کر رہے ہیں۔ ہماری حکومتوں کو بھی بھکاری سمجھا جاتا ہے۔ ہر نئے سال‘ ہم دوسروں کے دروازوں پر کھڑے ہو کر آواز لگاتے ہیں کہ جو دے اس کا بھلا‘ جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔ نہ دینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے عام‘ سبز پاسپورٹ کی بھی عزت ہوتی تھی۔ بہت سے ممالک ایسے تھے جو اپنے اپنے ایئر پورٹوں پر ہی ہمیں ویزے لگا دیتے تھے۔ آج پاکستان کے سرکاری‘ یعنی نیلے پاسپورٹ کو بھی کوئی نہیں گھاس ڈالتا۔ چند چھوٹے چھوٹے گمنام‘ بے بضاعت‘ عجیب سے مشکل ناموں والے ملک ہیں جہاں ہمارے نیلے پاسپورٹ ویزے کے بغیر قبول کیے جا سکتے ہیں۔ ان ملکوں میں کم ہی کوئی جاتا ہو گا۔ اس پستی‘ اس زوال اور اس بے عزتی کے باوجود ہمارے ''بڑے‘‘ دوسرے ملکوں میں رہنے کے اور مزے اڑانے کے شوقین ہیں۔ چھینک آئے‘ پاؤں میں موچ آجائے‘ انگلی پر چھوٹی سی پھنسی نکل آئے‘ سر میں ہلکا سا درد ہونے لگے‘ ہمارے لیڈر جہاز پر بیٹھتے ہیں اور لندن‘ امریکہ‘ سوئٹزر لینڈ اور دبئی جا اترتے ہیں۔ ہم پر وہ مثل صادق آتی ہے۔ ما‘ پِنّے تے پتر گھوڑے گھِنّے۔ یعنی ماں بھیک مانگ رہی ہے اور بیٹا گھوڑوں کی خریداریوں میں لگا ہے۔ 
اور لکھ لیجیے کہ ویزے کی یہ پابندیاں مستقبل قریب میں ہٹنے والی نہیں! ہماری حکومت اول تو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے گی ہی نہیں‘ لے بھی لے تو یو اے ای کی شکایات کا ازالہ کیسے کرے گی؟ اس کے لیے دیانت دار اور محنتی انتظامی مشینری درکار ہے۔ وہ کہاں سے آئے گی؟ جب افسروں کو ذاتی وفاداری کی بنیاد پر وزارتیں دے دی جائیں تو کون بے وقوف افسر ہو گا جو دیانت اور محنت سے کام کرے گا؟

Tuesday, November 19, 2024

ایک سال میں سولہ لاکھ پاکستانیوں کی ہجرت

کیا ریاست کو معلوم ہے؟ کیا حکومت کے علم میں ہے؟

گزشتہ سال‘ 2023ء کے دوران‘ سب سے زیادہ تعداد میں جس ملک سے لوگوں نے ہجرت کی‘ وہ پاکستان ہے۔ پاکستان سے باہر بھاگنے والوں کی تعداد سولہ لاکھ سے زیادہ تھی۔ دوسرے نمبر پر سوڈان تھا جہاں سے ساڑھے تیرہ لاکھ سوڈانیوں نے ہجرت کی۔ بھارت تیسرے نمبر پر تھا۔ پونے دس لاکھ بھارتی ہجرت کر کے ملک سے باہر چلے گئے۔ ان اعداد وشمار کا علم ہونے سے پہلے میرا خیال تھا کہ جتنے لوگ پاکستان سے گئے ہیں یا جا رہے ہیں‘ اتنے ہی بھارت سے بھی جا رہے ہیں۔ اور اس کی وجہ آبادی کا دباؤ ہے۔ اس تاثر کی وجہ یہ تھی کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران بھارت سے آسٹریلیا آنے والوں کی تعداد بہت زیادہ رہی ہے۔ اس سے میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ صرف پاکستان سے نہیں‘ دوسرے ملکوں سے‘ خاص طور پر بھارت سے بھی لوگ نکل رہے ہیں۔ اپنے اس تاثر کی بنیاد پر ایک کالم بھی لکھا۔ مگر جب عالمی اعداد وشمار دیکھے تو معلوم ہوا کہ اصل معاملہ اور ہے۔ یہ آبادی کا دباؤ نہیں‘ ملکی حالات سے مایوسی ہے جو لوگوں کو بھاگنے پر مجبور کر رہی ہے۔ سوال وہی ہے جو اوپر پہلی سطر میں کیا ہے۔ کیا اس ملک کے حکمرانوں کو اس صورتحال کا علم ہے؟ ملک کے حکمرانوں میں تمام سیاستدان‘ تمام پارلیمنٹیرین اور مقتدرہ‘ سب شامل ہیں! کاش نواز شریف‘ شہباز شریف‘ صدر زرداری‘ آرمی چیف‘ سب اس پر تشویش کا اظہار کرتے۔ پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہوتی۔ ایک کمیٹی بنتی جو اس صورتحال کے اسباب پر غور کرتی۔ الیکٹرانک میڈیا پر مباحثے ہوتے! یہ معلوم کیا جاتا کہ ان سوا سولہ لاکھ افراد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ کتنے ہیں؟ ملک پر ہولناک درجے کے اس برین ڈرین 
(Brain Drain)
 کے کیا منفی اثرات پڑیں گے؟ جانے والوں میں لیبر کلاس کتنی ہے؟ مگر لگتا ہے کہ اس ملک کا کوئی والی وارث نہیں۔ ذمہ دار افراد اور اداروں کو اس تشویشناک صورتحال کا علم ہے نہ پروا! جیسے کہہ رہے ہوں کہ کھان خصماں نوں! سانوں کی! ایک سابق وزیراعظم نے تو کھلم کھلا کہہ بھی دیا تھا کہ لوگ ملک سے باہر جاتے ہیں تو جائیں! اسی بے رحمانہ انداز میں ایک سابق صدر نے بھی امریکہ میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ یہ عورتیں اس لیے ریپ ہوتی ہیں کہ مغربی ملکوں میں پناہ حاصل کر سکیں! حکمران ملک کا ایک لحاظ سے‘ باپ ہوتا ہے۔ اگر باپ ہی لاتعلق ہو جائے تو بچوں کا کیا بنے گا! گلستانِ سعدی میں ایک دردناک حکایت ہے۔ ایک بادشاہ کو کوئی خطرناک مرض لاحق ہو گیا۔ طبیبوں نے کافی غور وفکر کے بعد تجویز کیا کہ جس نوجوان میں فلاں فلاں صفات ہوں‘ اس کا پِتّہ درکار ہو گا۔ ایک کسان کا بیٹا انہی صفات کا مالک تھا۔ اس کے ماں باپ کو دولت دے کر راضی کر لیا گیا۔ قاضی نے فتویٰ دے دیا کہ بادشاہ کی جان بچانے کے لیے ایک فرد کا خون بہانا جائز ہے۔ جلاد سر قلم کرنے لگا تو نوجوان آسمان کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ بادشاہ دیکھ رہا تھا۔ اسے اس کا مسکرانا عجیب لگا۔ پوچھا کہ ادھر تمہیں قتل کرنے کے لیے جلاد تیار ہے‘ اُدھر تم آسمان کی طرف منہ کر کے مسکرا رہے ہو‘ آخر کیوں؟ نوجوان نے جواب دیا کہ اولاد کے ناز نخرے والدین اٹھاتے ہیں۔ میرے والدین ہیرے جواہرات لے کر میرے قتل پر راضی ہو گئے۔ مقدمہ قاضی کے پاس لے جاتے ہیں۔ وہ پہلے ہی فتویٰ دے چکا۔ آخری اپیل بادشاہ کے حضور دائر کی جاتی ہے‘ وہ تو خود اپنی جان بچانے کے لیے مجھے قربان کرنا چاہتا ہے۔ اب خدا کے سوا میری کوئی جائے پناہ نہیں۔ چھوڑیے کہ اس کہانی کا انجام کیا ہوا؟ سبق اس حکایت سے یہ ملا کہ سولہ لاکھ پاکستانی صرف ایک سال کے اندر اپنی دھرتی‘ اپنی مٹی‘ اپنے ماں باپ اور اپنے اعزّہ واحباب سے جدا ہو کر پردیس چلے گئے۔ کسی عدالت نے از خود نوٹس لے کر ریاست اور حکومت سے نہیں پوچھا کہ تم ایسے حالات پر خاموش کیوں ہو جن کی وجہ سے لوگ یہاں نہیں رہنا چاہتے۔ صدر اور وزیراعظم قوم کے بچوں کے باپ کی طرح ہیں۔ انہیں اول تو معلوم ہی نہ ہو گا کہ دھرتی مخلوق پر تنگ ہو رہی ہے‘ اور اگر معلوم ہے تو کوئی فکر نہیں کہ بچے اپنا ملک چھوڑ کر کیوں جا رہے ہیں؟ اب ایک ہی راستہ بچا ہے کہ دستِ غیب کچھ کرے اور اس ملک کے حالات بہتر ہوں۔ آسمان کی طرف دیکھ کر فریاد کرنے کا اور چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دینے کا وقت ہے۔
خلقِ خدا پاکستان سے کیوں بھاگ رہی ہے؟ مختصر ترین جواب تو یہ ہے کہ یہ انخلا اُس نالائقی‘ خود غرضی اور اونچی سطح کی لوٹ مار کا نتیجہ ہے جو کئی دہائیوں سے اس ملک کو اپنے بے رحم جبڑوں میں لیے راج کر رہی ہے۔ تفصیلی جواب کے لیے صفحوں کے صفحے درکار ہیں۔ یہ جو بہت بڑا انخلا پچھلے سال ہوا ہے اور اس سال بھی جاری ہے‘ اس کی سب سے بڑی اور فوری وجہ ہوشربا گرانی ہے۔ لاکھوں کمانے والے بھی رو رہے ہیں اور ہزاروں کمانے والوں کو تو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ دواؤں سے لے کر آٹے اور دالوں تک اور ٹرانسپورٹ کے کرائے سے لے کر سکولوں کی فیسوں تک‘ کچھ بھی استطاعت میں نہیں رہا۔ زرمبادلہ کے حوالے سے ہماری کرنسی کاغذ کا بیکار ٹکڑا بن کر رہ گئی ہے۔ جو طاقتور افراد اس صورتحال کو بدل سکتے ہیں اور بدلنے کے ذمہ دار ہیں‘ ان کی اپنی ترجیحات ہیں۔ ان کے لیے مہنگائی مسئلہ ہے نہ زرمبادلہ!! دوسرے ملکوں میں وہ جس آسانی سے اور جس کثرت سے جاتے ہیں اس طرح پنڈی سے گوجر خان‘ لاہور سے شیخوپورہ اور کراچی سے حیدرآباد جانا مشکل ہے۔
مگر انخلا کی سب سے بڑی وجہ وہ مایوسی ہے جو عمران خان کی حکومت ختم ہونے اور پرانے چہروں کی واپسی سے عوام میں پھیلی ہے۔ ہم جیسے گستاخ تو تحریک انصاف سے اس کے اقتدار کے آغاز میں ہی مایوس ہو گئے تھے اور اس کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیے تھے۔ جب دیکھا کہ یہ میلہ تو بزداروں اور گُجروں کی بادشاہی کے لیے سجایا گیا ہے اور تکیہ جادو ٹونوں اور مؤکّلوں پر ہے تو بات کی تہہ تک پہنچ گئے۔ مگر بات سچی کرنی چاہیے۔ لوگوں کی بہت بڑی تعداد اب بھی عمران خان سے امید لگائے بیٹھی ہے۔ وجہ جو بھی ہو‘ شخصیت پرستی یا Cult یا تجزیہ کرنے میں ناکامی یا پرانے چہروں کی واپسی سے پیدا ہونے والی مایوسی اور ناامیدی یا حالتِ انکار یعنی 
State of denial‘
 سچ یہی ہے کہ عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد ملک چھوڑنے کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ گرانی اور بے روزگاری اس پر مستزاد ہیں۔
ہمارے ایک طرف بھارت ہے۔ وہ ہم سے کوسوں آگے نکل چکا۔ بہترین ریلوے‘ بہترین انڈر گراؤنڈ ٹرینیں‘ آئی ٹی میں آسمان پر‘ ڈالر پچاسی روپوں میں! دوسری طرف ایران ہے جو ہولناک اور مسلسل عالمی پابندیوں کے باوجود ہم سے آگے ہے۔ لوگ خوشحال ہیں۔ بجلی سستی ہے۔ ساری معیشت‘ تمام کاروباری سرگرمیاں دستاویزی 
(Documented)
 ہیں۔ اور تو اور ایک امریکی ڈالر‘ اڑسٹھ افغانی میں مل رہا ہے۔ ہمارا یہی حال رہا تو بہت جلد افغانستان بھی ہمارے مقابلے میں معاشی دیو بن جائے گا۔ ہماری حکومتوں کی نااہلی کا اندازہ اس سے لگا لیجیے کہ عین وفاقی دارالحکومت میں بھی سرجری کرنے والے ڈاکٹر لاکھوں کی فیس صرف اور صرف کیش میں وصول کر رہے ہیں۔ کون کم بخت کہتا ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ مستقبل بعید کے بارے میں بھی کچھ کہنا مشکل ہے:
پاپوش کی کیا فکر ہے دستار سنبھالو
پایاب ہے جو موج گزر جائے گی سر سے

Monday, November 18, 2024

فقیرنی‘ لندن اور جنیوا


ایک محترم وفاقی وزیر نے بھیک مانگتی فقیرنی کو‘ میڈیا کے بقول‘ جھاڑ پلائی ہے۔ اسے مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا ''آپ کے گھر کے مرد کام نہیں کرتے کہ انہوں نے آپ کو کام پر لگا دیا ہے۔ بھیک مانگنا شرمناک کام ہے‘‘۔ فقیرنی نے بعد میں بتایا کہ مہنگائی کی وجہ سے مجبور ہے۔ گھر چلانا مشکل ہو چکا ہے۔
محترم وفاقی وزیر کا یہ اقدام‘ ہم سمجھتے ہیں‘ لائقِ تحسین ہے۔ اصل میں یہ اصلاحِ معاشرہ کی مہم ہے جو انہوں نے شروع کی ہے۔ ایک بات وہ بھول گئے۔ انہیں چاہیے تھا کہ فقیرنی کو آسان ترکیب بھی بتاتے کہ روٹی نہیں ملتی تو کیک کھاؤ۔ یاد آیا کہ جب عمران خان اپنی تقریروں میں لوگوں کے نام رکھتے تھے تو کہا جاتا تھا‘ اور درست کہا جاتا تھا‘ کہ کلامِ پاک میں تضحیک آمیز نام رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ یقینا آج بھی کہا جائے گا‘ اور کہنا بھی چاہیے‘ کہ کلام پاک میں سوالی کو جھڑکنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ ایک تو دیتے کچھ نہیں اوپر سے جھڑکتے بھی ہیں! وزیر صاحب کی اتباع میں ان کے شہر کی پولیس نے بھی اصلاحِ معاشرہ کی مہم شروع کر دی۔ آخری خبریں آنے تک 19بھکاریوں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمات درج کر لیے گئے اور تفتیش شروع کر دی گئی۔ یہ معلوم نہیں ان کے خلاف کون سی دفعہ لگے گی اور تفتیش کن خطوط پر ہو گی۔ کیا اس کی ذمہ داری معاشرے پر عائد کی جائے گی؟ یا ریاست پر؟ یا معاشرے کے متمول افراد پر؟ یہ بھی نہیں معلوم کہ بھکاری مردوں‘ خواتین اور بچوں کو کب تک گرفتار رکھا جائے گا؟ کیا رہائی کے بعد انہیں کوئی روزگار دیا جائے گا؟ یا ریاست انہیں گھر اور دیگر اشیائے ضرورت مہیا کرے گی؟ ان پہلوؤں پر پولیس سوچتی ہے نہ وزرا کرام! ایسی سوچ کے لیے سطحی نہیں گہری سوچ کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے تدبر اور تفکر درکار ہے۔ اس کے لیے سنجیدگی چاہیے۔ جب حکومتیں سارا وقت اس فکر میں گزار دیں کہ وہ کب تک قائم رہتی ہیں اور مخالفین کو کیسے قابو میں رکھا جائے تو انہیں بھیک ختم کرنے کے لیے سوچنے کی فرصت ہی کہاں ہو گی؟ جہاں حکومتیں سموگ ختم کرنے کے لیے کچھ نہیں کر سکتیں‘ وہاں بھکاریوں کو معزز شہری بنانے کا مشکل کام کون کرے گا؟ اور تعلیم اور زرعی اصلاحات جیسے مسائل پر کون سوچے گا؟
ان تمام مشکلات کے با وجود محترم وزیر صاحب نے جس اصلاحی تحریک کی ابتدا فقیرنی کو ڈانٹنے سے کی ہے ہم اس کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ محترم وزیر صاحب اس تحریک کو صرف بے بس‘ قلاش اور کم حیثیت‘ بلکہ بے حیثیت فقیرنیوں تک محدود نہیں رکھیں گے بلکہ رسی کا دوسرا سرا بھی پکڑنے کی کوشش کریں گے۔ کیا وہ اپنی جماعت کے قائدین کو لندن لندن‘ جنیوا جنیوا کھیلنے سے منع کریں گے؟ جب اس بھوکی ننگی قوم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کے خزانوں کی کوئی حد ہے نہ شمار‘ تو پھر وہ بار بار اس بے کنار امارت کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں؟ کبھی لندن کے ریستورانوں میں بیٹھے دکھائی دیتے ہیں تو کبھی جنیوا کی شاہراہوں پر اطمینان بخش چہل قدمی نظر آتی ہے۔ پہلے قوم کو بتایا گیا کہ پانچ یورپی ملکوں کے دوروں پر تشریف لے جا رہے ہیں اور یہ کہ ان دوروں کے دوران اہم ملاقاتیں متوقع ہیں! قوم‘ بالخصوص پارٹی کے وابستگان اور جان نثار جاننا چاہتے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) کے سربراہ کی ملاقات پانچ یورپی ملکو ں کے کن سربراہوں‘ کن سیاستدانوں اور کن سٹیٹس مین سے ہوئی ہے؟ کیا کوئی طے شدہ ایجنڈا تھا؟ کیا کوئی مشترکہ پریس کانفرنس بھی ملاقاتوں کے بعد ہوئی اور کیا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا؟
ویسے یہ پانچ کا عدد بھی خاصا پُر اسرار لگتا ہے۔ ہو سکتا ہے میاں صاحب اور ان کے بچوں کے لیے یہ عدد متبرک بھی ہو۔ لندن میں مقیم ایک معروف صحافی نے دو سال پہلے 21نومبر 2022ء کو خبر دی تھی کہ ''سابق وزیراعظم نواز شریف‘ مریم نواز‘ ان کے بیٹے جنید صفدر اور حسین نواز لندن سے مختلف ممالک کی سیر کو چلے گئے۔ ذرائع کے مطابق اگلے دس دنوں میں نواز شریف اور ان کی فیملی پانچ یورپی ممالک کا دورہ کریں گے‘‘۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ دو سال پہلے بھی پانچ ممالک کا دورہ کیا گیا تھا اور وہ بھی نومبر ہی میں کیا گیا تھا؟ ایک عام پاکستانی کے لیے معاملہ پُر اسرار ہونا ہی ہے۔ اللہ ہماری وزیراعلیٰ کو صحت دے۔ سلامت رہیں اور طویل عمر‘ تندرستی کے ساتھ‘ پائیں۔ اللہ تعالی میاں صاحب کو بھی تا دیر سلامت رکھے اور صحت کے ساتھ سلامت رکھے۔ آخر وہ کون سا عارضہ ہے جس کا علاج لندن میں نہیں‘ جنیوا ہی میں ممکن ہے۔ 
لگے ہاتھوں محترم وفاقی وزیر یہ استفسار بھی کر لیں کہ کیا سینئر صوبائی وزیر کے بغیریہ دورہ نہیں ہو سکتا تھا؟ وہ سینئر وزیر ہونے کے علاوہ صوبے کی وزیرِ ماحولیات بھی ہیں۔ جب صوبہ سموگ کے سمندر میں غوطے کھا رہا تھا تو وہ جنیوا میں غایت درجے کی طمانیت کے ساتھ چل پھر رہی تھیں۔ اُس وقت لاہور کی ہوا کا انڈیکس بارہ سو تھا اور جنیوا کا پچاس کے لگ بھگ!! صوبے کے چیف بیورو کریٹ بھی ہمراہ تھے۔ وہ خوش بخت ہیں۔ سعدی نے حکایت لکھی ہے کہ دو بھائی تھے۔ ایک محنت مزدوری کرتا تھا اور آرام سے زمین پر بیٹھتا تھا۔ دوسرا سنہری پیٹی کمر سے باندھے بادشاہ کے حضور کھڑا رہتا تھا۔ سنہری پیٹی باندھنے کا اپنا ہی مزا ہے۔ سنہری پیٹی سے مراد سنہری پیٹی نہیں بلکہ اقتدار‘ اثر و رسوخ اور رعب داب ہے۔ بادشاہوں کا قرب بہت قیمتی ہوتا ہے۔ اس کے لیے آرام اور نیند کو تج دینا معمولی قربانی ہے۔ بادشاہ آدھی رات کو بھی بلا سکتا ہے اور تڑکے بھی! باریابی کے لیے گھنٹوں نہیں پہروں انتظار گاہ میں بیٹھنا پڑتا ہے۔ مگر اس سب کچھ سے عوام میں جو ٹَور بنتی ہے‘ اس کا جواب نہیں! اور پھر ساتھ ہی لندن اور جنیوا کی سیر! اس موضوع پر اشفاق احمد کی ایک نظم کمال کی ہے۔ (کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ شاعری بھی کرتے تھے)
اوکھا گھاٹ فقیری دا بھئی! اوکھا گھاٹ فقیری دا
مِسلاں دے وِچ ویلا کڈھنا‘ میٹنگ دے وِچ بہنا
اوکھیاں دے نال متھا لا کے یس سر! یس سر! کہنا
ہسدے ہسدے رہنا
اپنی سیٹ تے عاجز بن کے اگے ہو کے بہنا
مرشد مُوہرے گل نہ کرنی‘ جو آکھے سو سہنا
دنیاداری کم نئیں‘ ایہہ کم ہے پِتّا چِیری دا
اوکھا گھاٹ فقیری دا
ہمارا شاہی خاندان یوں بھی اپنے پسندیدہ افسروں کی سرپرستی اور فلاح و بہبود کیلئے معروف ہے۔ ہاں! وفا داری شرط ہے۔ کسی کو سینیٹ کا رکن بنا دیتے ہیں کسی کو وفاقی وزیر! کسی کو ورلڈ ٹریڈ آگنائزیشن میں سفیر اور واپسی پر ورلڈ بینک میں تعیناتی۔ اسے کہتے ہیں تہہ در تہہ کرم فرمائیوں کی بارش اور وہ بھی موسلا دھار! ایسی ہی بارشوں میں ایچی سن کالج کا پرنسپل بھی خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتا ہے! کون کہتا ہے کہ بادشاہوں کا زمانہ لد گیا۔ بادشاہ ہی تو ہیں جو دولت کا کروفر دکھا رہے ہیں!بس کر دو یار! خدا کیلئے بس کر دو!

Monday, November 11, 2024

ہم فارغ لوگ

ٹیکسی کے ڈرائیور کی عمر مشکل سے 19‘ 20برس ہو گی۔ سرگودھا سے تھا۔ ایک سال پہلے آسٹریلیا آیا تھا۔ جتنی دیر اس کے ساتھ سفر کیا‘ آسٹریلیا کی تعریفیں کرتا رہا۔ میں نے پوچھا: آسٹریلیا کی کون کون سی باتیں تمہیں خوش آئی ہیں؟ کہنے لگا: یہاں جھوٹ کوئی نہیں بولتا‘ سب وقت کے پابند ہیں‘ ہر کوئی قانون کی پابندی کرتا ہے‘ پانچ بجے دکانیں بند ہو جاتی ہیں‘ ڈاکٹر کے پاس جائیں تو ڈاکٹر خود انتظار گاہ میں آکر مریض کو بلاتا ہے اور ساتھ لے جاتا ہے‘ یہاں گاڑی چلانا آسان ہے کیونکہ غلط سائیڈ سے کسی گاڑی کے آنے کا کوئی خطرہ ہے نہ امکان۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی خوبیاں گنوائیں۔ اس سے پوچھا: کیا یہ سب کچھ کرنا ہم پاکستانیوں کے لیے نا ممکن ہے؟ ظاہر ہے اس کا اس بچے کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ پھر بتانے لگا کہ چھوٹے بھائی کو آسٹریلیا منگوانا ہے۔ پوچھا: کیا کرتا ہے؟ کہنے لگا ایئر کنڈیشنر کی فٹنگ اور مرمت کا کام سیکھا ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ تو بہت اچھا ہنر ہے۔ پہلے اس کا م کی ڈیمانڈ صرف گرمیوں میں ہوتی تھی۔ اب انورٹر آ گئے ہیں‘ سارا سال اے سی چلتے ہیں۔ اچھی خاصی کمائی ہو جاتی ہے۔ کہنے لگا: یہی تو اسے سب سمجھاتے ہیں‘ مگر وہ سارا دن گھر میں بیکار بیٹھا رہتا ہے اور ایک ہی رَٹ لگائے ہوئے ہے کہ آسٹریلیا یا کسی اور ملک میں جانا ہے۔

میری منزل آگئی۔ سلام کر کے اُتر گیا‘ مگر جو کچھ وہ بتا گیا گہری سوچ میں ڈال گیا۔ آسٹریلیا کی جو خوبیاں اس نے گنوائی تھیں‘ ایک عام‘ نیم تعلیم یافتہ آدمی کا مشاہدہ تھا۔ کوئی فلسفیانی یا دانشورانہ گتھی نہیں تھی اور سچ بھی یہی تھا۔ سوال جو ہم سب کے سامنے منہ پھاڑے کھڑا ہے‘ یہی ہے کہ کیا یہ خوبیاں ہمارے اندر نہیں آسکتیں؟ ہم جھوٹ بولتے ہیں؟ کیوں؟ بغیر فائدے کے بھی جھوٹ بولتے ہیں! وقت کی پابندی ہم کیوں نہیں کر سکتے؟ قانون پر چلنے میں کیا مشکل ہے۔ اس مسئلے پر بے شمار لوگوں سے بات ہوئی۔ ملک کے اندر بھی۔ ملک کے باہر بھی! اکثر و بیشتر کی ایک ہی رائے ہے کہ انسان کی جبلت میں قانون شکنی بھری ہوئی ہے۔ جہاں جہاں قانون شکنی کی سزا سخت ہے‘ وہاں قانون کوئی نہیں توڑتا۔ جہاں سسٹم جانبدار ہے یا کمزور ہے وہاں قانون شکنی ہو گی اور ضرور ہو گی۔ سنگا پور میں‘ جہاں قانون شکنی کی سزا سخت ہے‘ سنگاپور کے قانون پسند لوگ جب سرحد پار کرکے ملائیشیا جاتے ہیں تو قانون توڑ کر انسانی جبلت کا تقاضا پورا کرتے ہیں‘ اس لیے کہ وہاں سزائیں سنگاپور کی نسبت سخت نہیں۔ ہم پاکستانی اپنے بارے میں یہ بات بھی اکثر و بیشتر کہتے ہیں کہ ہم ناقابلِ اصلاح ہیں۔ ہم ہیں ہی ایسے! ہم میں 

Manufacturing defect 

ہے۔ مگر یہی پاکستانی جب دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں تو کارکردگی بھی زبردست ہوتی ہے اور قانون پر بھی چلتے ہیں۔ اس لیے کہ انہیں معلوم ہے کہ سسٹم سستی‘ کاہلی اور قانون شکنی برداشت نہیں کرے گا۔ نوکری ختم ہو جائے گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ جہاز پر بٹھائیں اور پاکستان واپس بھیج دیں! 
مگر ایک سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان کے اندر رہ کر محنت کرنے سے کون روکتا ہے؟ خاص طور پر نجی شعبے میں! اسی ملک میں لاکھوں لوگ صفر سے شروع کرتے ہیں اور سسٹم کی ناہمواریوں کے باوجود کامیاب ہو کر دکھاتے ہیں۔ محنت کرتے ہیں۔ دیانتداری کو بھی اپناتے ہیں۔ ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں۔ اسی اسلام آباد میں اے سی ٹھیک کرنے والوں نے پانچ پانچ‘ آٹھ آٹھ ملازم بھی رکھے ہوئے ہیں۔ رات دن محنت کرتے ہیں اور بہت اچھی کمائی کر لیتے ہیں۔ ہاں کام دیانتداری سے کرتے ہیں اور اپنی ڈیمانڈ بڑھاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ سسٹم کو درست کرنے کی زیادہ ذمہ داری حکومتوں کی ہے مگر زیادہ نہیں تو 49 فیصد ذمہ داری فرد کی بھی ہے اور معاشرے کی بھی۔ کیا ہم جھوٹ بولنا چھوڑ نہیں سکتے؟ وقت کی پابندی نہیں کر سکتے؟ وعدہ پورا نہیں کر سکتے؟ آخر حکومت یا ریاست ہمیں سچ بولنے پر کیسے مجبور کر سکتی ہے؟ 25کروڑ افراد پر 25کروڑ پولیس مین کیسے تعینات ہو سکتے ہیں؟ آخر بیٹے یا بیٹی کی شادی کرنے والا‘ تقریب کو وقت پر کیوں نہیں شروع کر سکتا؟ آخر مہمان کھانے کے لیے پہروں کیوں بیٹھے رہتے ہیں؟ کہیں سے کوئی تو ابتدا کرے گا۔ جس دن مہمانوں کی اکثریت مناسب انتظار کے بعد اُٹھ کر چلی جائے گی‘ اسی دن معاشرے سے اس برائی کے خاتمے کا آغاز ہو جائے گا۔ یہ قانون کا یا حکومت کا یا ریاست کا مسئلہ ہی نہیں‘ یہ انسانی شعور کا مسئلہ ہے۔ یہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے!
ہمارے اور بھی مسائل ایسے ہیں جن کے سامنے حکومتیں بے بس ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ مائنڈ سیٹ کا ہے۔ کچھ معاملات میں تعلیم بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اب اگر ٹیلی ویژن چینل پر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ یہودیوں کو تو ہمارے فلاں بزرگ نے‘ جنہیں دنیا سے گئے سینکڑوں سال ہو چکے ہیں‘ ختم کیا اور نام ہٹلر کا لگ گیا اور سامنے بیٹھے ہوئے ہزاروں لوگ آفرین آفرین اور سبحان اللہ کے نعرے لگائیں اور سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں میں تعلیم یافتہ افراد بھی موجود ہوں‘ تو حکومت کیا کر سکتی ہے؟ چینل کو ریٹنگ چاہیے اور ریٹنگ کے لیے ایسے مسالا دار واقعات سنانے ضروری ہیں۔ عجیب بات ہے کہ مغربی ملکوں میں کسی کو جن پڑتے ہیں نہ آسیب کا سایہ پڑتا ہے‘ نہ بیماری سے نجات کے لیے لوگ مزاروں یا بابوں کے پاس جاتے ہیں‘ نہ نئے مکان کو بدنظری سے بچانے کے لیے بائبل شریف کا ختم کرایا جاتا ہے۔
Spiritual Healer

 وہاں بھی پائے جاتے ہیں مگر یہ اندھیر نہیں کہ لوگ پیر صاحب کے سامنے سجدہ کر رہے ہوں‘ ان کی طرف پیٹھ نہ کرتے ہوں‘ شادی کی تاریخ بھی وہی طے کرتے ہوں‘ بیماریوں کا ''علاج‘‘ بھی وہی کرتے ہوں اور ان کا درشن کرنے سے اندھوں کی بینائی بھی لوٹ آتی ہو۔ یہ درست ہے کہ شوگر مافیا‘ پٹرول مافیا‘ پلاٹ مافیا اور دیگر کئی مافیا کو ریاست کی طاقت ہی ختم کر سکتی ہے مگر جو مافیا توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی کی بنیاد پر کھڑا ہو اسے کوئی طاقت ختم نہیں کر سکتی‘ سوائے عوام کی طاقت کے!
رزق اپنے ملک میں بھی بہت ہے۔ جس تندہی‘ دیانت اور لگن کے ساتھ ہم پردیس میں کام کرتے ہیں‘ اسی لگن دیانت اور محنت کے ساتھ اپنے ملک میں بھی تو کام کر سکتے ہیں۔ یہ جو کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ دو اڑھائی برسوں میں لاکھوں افراد ملک چھوڑ کر جا چکے یا جا رہے ہیں تو ایسا بھارت میں بھی ہو رہا ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں لاکھوں افراد بھارت سے آسٹریلیا آئے ہیں۔ اس سے زیادہ یورپ اور امریکہ میں گئے ہیں جبکہ بھارت کی معیشت ہماری معیشت کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ مضبوط ہے۔ سنسنی پھیلانے میں ہمارا جواب نہیں۔ باہر جانے کی سب سے بڑی وجہ آبادی کا دباؤ ہے۔ جس رفتار سے آبادی ہمارے ہاں بڑھ رہی ہے‘ اسی رفتار سے لوگ نقل مکانی بھی کریں گے۔ اندرونِ ملک بھی دیکھ لیجیے۔ جس صوبے کی آبادی میں زیادہ اضافہ ہو رہا ہے‘ اس صوبے کے لوگ پورے ملک میں پھیل رہے ہیں اور دوسرے صوبوں کے دور افتادہ گوشوں میں بھی مقیم ہو رہے ہیں۔ جتنا وقت ہم ملک کی برائیاں کرنے پر‘ اور ملک کو بدنام کرنے پر صرف کرتے ہیں اس سے کم وقت بھی کسی پیداواری کام پر لگائیں تو ہمارے حالات بدل سکتے ہیں۔ پورا ملک بے سروپا افواہیں اور لایعنی باتیں سوشل میڈیا پر پھیلانے اور فارورڈ کرنے میں مصروف ہے۔ دو گاڑیوں کی ٹکر ہو جائے تو سینکڑوں افراد گھنٹوں کھڑے ہو کر تماشا دیکھتے ہیں۔ ایسے فارغ لوگوں کے ملک کی حالت کیسے ٹھیک ہو سکتی ہے!!

Sunday, November 10, 2024

بھارت ہم سے کیوں پیچھے رہ گیا؟

ہم نے سفر ساتھ ساتھ شروع کیا تھا! پھر ہم آگے نکل گئے۔ بھارت پیچھے رہ گیا۔ کئی کوس‘ کئی میل پیچھے! کیوں؟ یہ ایک سادہ سی بات ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں 

ہم نے اپنے عوام کی امنگوں کا خیال رکھا۔ ان کی لسانی‘ نسلی اور علاقائی حساسیت کو سمجھا اور مطمئن کیا۔ ہم نے کئی نئے صوبے بنائے۔ جنوبی پنجاب اور پوٹھوہار کے نئے صوبے بنائے۔ ایبٹ آباد‘ مانسہرہ اور شنکیاری سے لوگوں کو پشاور جانا پڑتا تھا۔ ہم نے ہزارہ کے نا م سے الگ صوبہ بنا دیا۔ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کو پشاور جانے کی صعوبت سے بچاتے ہوئے جنوبی کے پی کا ایک اور صوبہ بنایا۔ سندھ کے شمالی اضلاع شکارپور‘ کشمور‘ جیکب آباد‘ سکھر‘ خیرپور‘ دادو وغیرہ کو کراچی کے نکاح میں دینے کی کیا تُک تھی۔ ہم نے انتظامی طور پر شمالی اضلاع کو کراچی کی انتظامیہ سے نکال کر شمالی سندھ کے نام سے الگ صوبہ بنا دیا۔ نئے صوبے بنانے سے اختیارات کی مرکزیت ختم ہو گئی۔ اب تھرپارکر‘ عمرکوٹ‘ میرپور خاص اور سانگڑ کے اضلاع پر مشتمل مشرقی سندھ کے نام سے ایک اور صوبہ بنا رہے ہیں! سیاستدان کراچی‘ لاہور‘ پشاور کو خوش کرنے کے بجائے مقامی مسائل پر توجہ دینے لگ گئے۔ اس کے مقابلے میں بھارتی حکومتوں کی نااہلی اور کم فہمی کا اندازہ لگائیے۔ جب سے انگریز گئے ہیں‘ ایک بھی نیا صوبہ نہیں بنایا۔ وہی لکیر کے فقیر! وہی بنے بنائے راستوں پر دھول اڑاتا ناکام سفر۔ کاش بھارت پاکستان سے کچھ سیکھتا! اور عوام کی خواہشات کا احترام کر کے انہیں سہولتیں بہم پہنچاتا!
ٹرانسپورٹ کی طرف آئیے۔ بھارت پاکستان سے کئی نُوری سال پیچھے ہے۔ پاکستان کی دور اندیش حکومتوں اور منصوبہ سازوں کو علم تھا کہ بڑے شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو پبلک ٹرانسپورٹ مہیا کرنی ہے تو اس کی بہترین صورت انڈر گراؤنڈ‘ یعنی زیر زمین ریلوے ہے۔ یہی سوچ لندن‘ پیرس‘ نیویارک اور دیگر بڑے شہروں کی تھی۔ پاکستان کو یہ بھی روزِ اول سے علم تھا کہ جتنی بسیں‘ ویگنیں‘ سوزوکیاں چلائیں گے‘ مسئلہ حل نہیں ہو گا سوائے زیر زمین ریلوے کے۔ چنانچہ آج پاکستان کے تمام گنجان آباد شہروں میں انڈر گراؤنڈ ریلوے کامیابی سے چل رہی ہے۔ اسلام آباد کی زیر زمین ریلوے نے ٹیکسلا‘ ترنول‘ روات اور دیگر مضافاتی بستیوں کو اسلام آباد کے مرکز سے جوڑ دیا ہے۔ کراچی‘ لاہور‘ پشاور‘ کوئٹہ‘ ملتان‘ فیصل آباد اور سکھر میں انڈر گراؤنڈ ریلوے بے مثال کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے۔ اسلام آباد میں میلوڈی مارکیٹ سے زیر زمین ریلوے میں سوار ہوں تو آدھ گھنٹے میں ایئر پورٹ پہنچا دے گی اور بیس منٹ میں پنڈی صدر! یہی حال لاہور‘ کراچی کا ہے۔ اس سے فضائی آلودگی بھی کم ہوئی ہے اور ترقی کے اعتبار سے پاکستان دنیا کے باعزت ملکوں میں شمار ہونے لگا ہے۔ یہ تھی دور اندیشی پاکستانی لیڈر شپ کی۔ بھارت اس کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ دہلی‘ کولکتہ اور دیگر بڑے شہروں کے لوگ پرانی کھٹارا بسوں میں اور دھواں اڑاتے رکشوں میں خوار ہو رہے ہیں۔ انڈر گراؤنڈ ریلوے ان کے خیال وخواب میں بھی نہیں۔ ٹیکسی والوں کی چاندی ہے۔ پاکستان نے خیر سگالی اور خیر خواہی کا ثبوت دیتے ہوئے بھارت کو بے لوث پیشکش کی تھی کہ پاکستان زیر زمین ریلوے کے منصوبوں میں بھارت کی مدد کرنے کو تیار ہے مگر بھارت کی جھوٹی انا حسبِ معمول آڑے آئی۔ 
اب ذرا آئی ٹی کا ذکر ہو جائے۔ ہم اس وقت پوری دنیا کا اس حوالے سے مر کز ہیں۔ فیصل آباد‘ بہاولپور‘ مردان‘ ٹنڈو اللہ یار‘ گھوٹکی‘ لاڑکانہ اس وقت پوری دنیا کی آئی ٹی کی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔ بل گیٹس سال میں کئی چکر پاکستان کے لگاتا ہے۔ اس معاملے میں بھی ہم نے بھارت کو پُرخلوص پیشکش کی کہ ہم حیدرآباد‘ بنگلور‘ چنائی اور گڑگاؤں کو آئی ٹی کے ضمن میں اپنے پَیروں پر کھڑا کر سکتے ہیں مگر بھارت تعصب کے کنویں سے نکلنے کو تیار ہی نہیں۔ اس وقت امریکہ میں تمام بڑی بڑی کارپوریشنوں اور آئی ٹی کے اداروں کے سربراہ پاکستانی ہیں۔ ٹرمپ اور کملا ہیرس‘ دونوں کے مشیروں کی بڑی تعداد پاکستانیوں سے تھی۔ اس وقت ایشیا میں‘ بالخصوس جنوبی ایشیا میں پاکستان کی پوزیشن وہی ہے جو یورپ میں لندن کی ہے اور امریکہ میں نیویارک کی ہے۔
مگر افسوسناک ترین باب اس تذکرے کا بھارتی لیڈرشپ اور پاکستانی لیڈرشپ میں موازنے کا ہے۔ بھارتی قیادت پاکستانی قیادت کے مقابلے میں بالکل گاؤدی‘ بودی اور ہونّق نکلی۔ آپ سابق وزیراعظم گلزاری لال نندہ کو لے لیجیے۔ کرائے کے مکان میں عُسرت کی زندگی گزار رہا ہے۔ جو آدمی اپنا اور اپنے خاندان کا مستقبل محفوظ نہ کر سکا‘ وہ اپنی قوم کے لیے کیا کرے گا۔ شاستری کی وفات ہوئی تو اس کا بیٹا بمبئی کے ایک بینک میں چھ سو روپے ماہوار پر ملازم تھا۔ کوئی بات ہے بھلا؟ منموہن سنگھ کی وارڈروب میں تین‘ چار کرتوں پاجاموں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔مہنگائی کے خلاف جلوس نکلتا تو اس کی پتنی اس جلوس میں شامل ہوتی۔ اسے دنیا میں دیانت دار ترین وزیراعظم قرار دیا گیا۔ ایسی دیانت کس کام کی۔ یہی حال واجپائی‘ گجرال اور مرار جی ڈیسائی کا رہا۔ یہ لوگ اس قدر نا لائق تھے کہ برطانیہ‘ امریکہ یا یو اے ای میں اپنے لیے ایک جھونپڑا تک نہ بنا سکے۔ مودی صاحب کے کُرتے سنا ہے بہت قیمتی ہوتے ہیں اور ان کے ناشتے کے لیے مشروم بھی باہر سے آتے ہیں مگر کم حیثیتی دیکھیے کہ بھارت سے باہر بینک بیلنس ہے نہ پراپرٹی۔ اس کے مقابلے میں کوئی عقل کا اندھا ہی ہو گا جو ہماری لیڈرشپ کی مستقبل بینی کی داد نہ دے گا۔ ہمارے قائدین نواز شریف ہوں یا زرداری صاحب یا عمران خان‘ ایک خاص معیارِ زندگی رکھتے ہیں۔ کیا کوئی ایسا وزیراعظم بھارت کے نصیب میں ہوا ہے جو تمام دورِ اقتدار میں صرف اور صرف ہیلی کاپٹر سے دفتر آیا گیا ہو۔ کیا کسی بھارتی صدر یا وزیراعظم کے لندن یا یو اے ای میں یا امریکہ میں محلات ہیں؟ کیا کسی نے کروڑوں کی گھڑی کلائی پر باندھی ہے؟ صاحبزادی کے ساتھ امریکہ‘ جنیوا اور باقی یورپ میں گھومنے کی سعادت کیا کسی سابق بھارتی وزیراعظم کے حصے میں آئی ہے۔ ظاہر ہے سرکاری کام تو ریٹائرڈ حیثیت میں ہو نہیں سکتا۔ مگر افسوس کہ بھارتی لیڈرشپ کی اتنی پسلی ہی نہیں! یہ افتخار ہمارا ہی ہے کہ ہمارے صدرِ مملکت علالت میں دبئی تشریف لے جاتے ہیں۔ ایسی حیثیت کسی بھارتی صدر کو نہیں ملی۔ یہ تو غیر جمہوری لیڈرشپ کا حال ہے۔ جمہوری لیڈر شپ کی‘ جیسے ایوب خان‘ ضیاالحق اور پرویز مشرف۔ ان کی آئندہ نسلیں سنور گئیں۔ اقتدار وراثت میں لکھ دیا گیا۔ ایوب خان کے پوتے ماشاء اللہ ہر پارٹی میں اور ہر حکومت میں ممتاز مناصب پر فائز رہے۔ ایک اور جمہوری جنرل صاحب کے صاحبزادے مستقل سیاست میں ہیں مگر ذریعۂ معاش کوئی نہیں جانتا۔ رہے جمہوری صدر جنرل پرویز مشرف تو انہوں نے تو ماشاء اللہ اقتدار کے بعد پاکستان کو طلاق ہی دے دی۔ اتنا کچھ بنا لیا تھا کہ اپنی اور خاندان کی بود وباش دساور ہی میں رکھی اور بڑے سٹائل میں رکھی۔ اس کے مقابلے میں بھارتی لیڈرشپ کی نالائقی پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔ بھائی‘ اپنے لیے نہ سہی‘ اپنی آئندہ نسلوں کے لیے ہی کچھ کر لیتے۔ بھارت سے باہر کوئی محلات کوئی اپارٹمنٹ حاصل کر لیتے۔ ہماری لیڈرشپ کی دور اندیشی ملاحظہ ہو۔ بچوں کی قومیت تو فرنگستان کی ہے ہی‘ ماشاء اللہ! نواسے اور پوتے بھی پولو وہیں کھیلتے ہیں۔
یہ کوئی رسمی پیشکش نہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ پڑوسی کا حق ہوتا ہے۔ اوپر بیان کردہ شعبوں میں کسی شعبے کے لیے بھی ہماری مدد یا ہمارے وسائل کی ضرورت ہو تو چشم ما روشن دلِ ما شاد! انسان ہی انسانوں کے اور قومیں ہی قوموں کے کام آتی ہیں! آزمائش شرط ہے!

Thursday, November 07, 2024

شاہ کی ڈھیری سے میلبورن تک … (3)



ڈاکٹر صہیب احمد مختلف ایام میں مختلف کلینکس میں کام کرتے ہیں۔ کیا یہ آسٹریلین حکومت کی پالیسی ہے؟ نہیں معلوم! مگر اس کا فائدہ یہ ہے کہ ہر علاقے کے لوگوں کو طبی سہولتیں اپنے علاقے میں یا اپنے علاقے کے نزدیک میسر آجاتی ہیں۔ ہم ستمبر میں ان کے پاس گئے۔ انہوں نے معائنہ کیا اور سرجری کا فیصلہ کیا۔ ان کی مصروفیت بے پناہ تھی۔ ایک آنکھ کے لیے اکتوبر کی ایک تاریخ مقرر کی اور دوسری کے لیے نومبر کی۔ اس کے بعد مجھ سے اور میرے بیٹے سے مصنوعی عدسے کے حوالے سے طویل بات چیت کی۔ ہر عدسے کے فوائد تفصیل سے بیان کیے۔ مجھ سے یہاں تک پوچھا کہ اگر فلاں عدسے سے رات کو ستارے نظر نہ آئیں تو کوئی مضائقہ تو نہیں؟
ستارے دیکھنے والی بات بھی خوب رہی۔ گاؤں کی گرمیوں کی راتوں میں باہر صحن میں سوتے تھے تو تاروں بھرا آسمان رات کا ساتھی لگتا تھا۔ قطبی ستارہ بھی دکھائی دیتا تھا اور کہکشاں بھی! عجیب ٹھنڈک کا احساس ہوتا تھا جو آسمان سے اُترتی تھی۔ پھر ہم قصبوں اور آخر کار بڑے شہروں میں آگئے۔ ان شہروں نے ہمیں ہڑپ کر لیا۔ 1985-86ء میں ایک ہتھوڑا گروپ ظہور پذیر ہوا۔ سروں کو کچلا جانے لگا۔ اس کے بعد شہروں میں باہر صحن میں یا چھت پر سونے کا جو رہا سہا کلچر تھا وہ بھی ٹھکانے لگ گیا۔
پاکستان میں بھی بعض ڈاکٹر مریضوں کے ساتھ تفصیلی بات چیت کر لیتے ہیں مگر کم! بہت کم! اکثریت تک رسائی ناممکن ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں ڈاکٹر مریضوں کے لیے وہی حیثیت رکھتے ہیں جو ڈی سی‘ کمشنر‘ ایس پی اور آئی جی عوام کے لیے رکھتے ہیں تو مبالغہ نہ ہو گا۔ ہم دونوں باپ بیٹے نے اسلام آباد کے سب سے بڑے نجی ہسپتال میں ماہرِ امراضِ چشم سے مشورہ کرنے کی کوشش کی مگر کوشش کے باوجود ان سے ملنا ناممکن ثابت ہوا۔ یہ نامی گرامی ہسپتال پاکستان اکادمی ادبیات کے سامنے واقع ہے۔کچھ سال پہلے یہاں اہلیہ کا پِتّے کا آپریشن ہوا۔ سرجری تو ٹھیک ٹھاک ہو گئی مگر اس کے بعد ''فالو اَپ‘‘ میں جو گزری‘ ناقابلِ بیان ہے۔ ہاں سکہ رائج الوقت وصول کرنے میں یہ ہسپتال بھی دوسرے نجی ہسپتالوں کی طرح کسی قسم کے تکلف یا نرمی کا قائل نہیں۔
مقررہ تاریخ اور وقت پر ہم کلینک پہنچ گئے۔ سوئِ اتفاق سے ایک آنکھ سرخ تھی۔ ڈاکٹر صہیب نے کہا کہ یہ 
Conjunctivitis 
ہے یعنی آشوبِ چشم! اور اس حالت میں سرجری کرنا ٹھیک نہیں۔ آنکھ کے لیے انہوں نے مرہم دی۔ ایک ہفتے بعد پھر گئے۔ تب تک آشوبِ چشم ختم ہو گیا تھا۔ دونوں بیٹے ساتھ تھے۔ کاؤنٹر پر جس کلرک نے ہمارے کاغذ دیکھے اور حساب کتاب کیا وہ جنوبی امریکہ کی تھی۔ اندر لے جایا گیا تو دونوں بھائیوں سے کہا گیا کہ وہ باہر ہی رہیں گے۔ انتظار گاہ میں ہم چار مریض تھے۔ بیس بیس‘ پچیس پچیس منٹ کے بعد ایک ایک کو اندر لے جایا جاتا تھا۔ میری باری آئی تو نرس نے ایک ٹوکری دی اور کہا کہ اپنی جیکٹ‘ ٹوپی اور عینک اس میں رکھ دیجیے۔ پھر ایک اور نرس آئی اور اندر لے گئی۔ اس نے بتایا کہ پندرہ پندرہ منٹ کے وقفے سے تین بار آنکھوں میں دوا ڈالے گی۔ یہ نرس سری لنکا سے تھی۔ پھر ایک بیڈ پر لٹا دیا گیا اور جیکٹ والی ٹوکری بیڈ کے نیچے رکھ دی گئی۔ یہاں جو نرس تھی وہ بھارت سے تھی۔ مجھے گرم کمبل سے لپیٹ دیا گیا۔ جو نرس بھی آتی پہلے نام اور تاریخ پیدائش پوچھ کر کنفرم کرتی کہ یہی وہ مریض ہے جس کی سرجری کرنی ہے۔ پھر ایک ڈاکٹر آیا۔ اپنا تعارف کرایا۔ وہ نیوزی لینڈ سے تھا۔ کہنے لگا وہ مدہوش کرے گا اور آنکھوں والا علاقہ سُن کرے گا۔ اس کے بعد معلوم نہیں گھنٹے یا شاید زمانے گزرے۔ ایک آواز کان میں آئی۔ ''انکل۔ آپ کی سرجری ہو گئی ہے‘‘۔ یہ ڈاکٹر صہیب تھے۔ کاؤنٹر والی کلرک جنوبی امریکہ سے تھی۔ نرسیں سری لنکا اور بھارت سے تھیں۔ مدہوش کرنے والا ڈاکٹر نیوزی لینڈ سے تھا اور سرجن بنگلہ دیش سے!! اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا بھر کے لوگ کیوں یہاں آ کر بس رہے ہیں اور کام کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے اس نکتے پر غور کرنے سے ہم کچھ سیکھ سکیں!
صبح چار بجے کے بعد کچھ نہیں کھایا تھا کہ منع تھا۔ مدہوشی مدہم ہوئی تو نرس نے کرسی پر بٹھایا۔ چائے اور سینڈوچ پیش کیے گئے۔ ایک آنکھ پر پٹی بندھی تھی جو دوسرے دن ہمارے ڈاکٹر صاحبزادے نے خود کھولی۔ کاغذ پر لکھی ہوئی ہدایات دی گئیں جو اس قدر تفصیلی تھیں کہ کوئی پہلو نظر انداز نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے بعد آنکھوں میں دوا ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ تین قسم کے قطرے پانچ ہفتوں تک ڈالنے تھے۔ بیگم اور بچوں کے اصرار کے باوجود دوا آنکھوں میں خود ہی ڈالتا ہوں اور جب بھی ڈالتا ہوں یاد آتا ہے کہ ابا جی کی آنکھوں میں دوا ڈالتا تھا تو دوا کا کچھ حصہ رخسار پر آ بہتا تھا۔ اسے ٹشو پیپر سے جب بھی صاف کرتا دعا دیتے۔ ایک بات سوہانِ روح ہے کہ جس طرح ابا جی اپنی والدہ کی خدمت میں ایستادہ اور انتہائی الرٹ رہتے تھے اور جس طرح بچے میری تیمارداری کر رہے ہیں‘ میں اُس طرح اپنے والدین کی خدمت نہ کر سکا۔
عصا در دست ہوں اُس دن سے بینائی نہیں ہے
ستارہ آنکھ میں آیا تھا میں نے کھو دیا تھا
ایک ایک کوتاہی یاد آتی ہے اور خون کے آنسو رلاتی ہے۔ ندامت اور ناکامی کا اندھیرا چاروں طرف سے یلغار کرتا ہے۔ ایسا کیوں کیا تھا ؟ ایسا کیوں نہیں کیا تھا؟ ایسا کیوں کہا تھا؟ ایسا کیوں نہیں کہا تھا؟
دونوں بیٹے حاضرِ خدمت رہتے ہیں۔ بہوئیں ایک آواز پر دوڑی چلی آتی ہیں۔ 14سالہ حمزہ دن میں کئی بار پوچھتا ہے ''کیا میں آپ کے لیے کچھ کر سکتا ہوں؟‘‘ ظاہر ہے وہ انگریزی میں سوچتا ہے اور پھر پنجابی میں پوچھتا ہے۔ تیمور سکول سے آکر پوچھتا ہے کہ ابو دن کیسا گزرا۔ پھر شام تک کئی بار پوچھتا ہے کہ کیا آپ کو کوئی ہیلپ چاہیے؟ زہرا سکول سے آکر چپکے چپکے‘ دیوار کے ساتھ ساتھ‘ پنجوں کے بل چلتی‘ پیچھے سے آکر ڈراتی ہے اور جب میرا تراہ نکلتا ہے تو ہنستے ہوئے لپٹ جاتی ہے۔ صاحبزادوں کے دوستوں نے‘ خاص طور پر ڈاکٹر صاحب کے رفقا نے ہم میاں بیوی کے اعزاز میں دعوتوں کی بھرمار کر رکھی ہے‘ یہاں تک کہ کچھ احباب کو معذرت کرنا پڑتی ہے۔ مشاعرے بھی ہو رہے ہیں اور شعری نشستیں بھی۔
سفر جاری ہے۔ جو قافلہ ''شاہ کی ڈھیری‘‘ سے چلا تھا‘ رواں دواں ہے۔ مسافر بدلتے جا رہے ہیں۔ ہسپتال اور شہر نئے نئے سامنے آرہے ہیں۔ ٹیکنالوجی نئے نئے روپ بدل رہی ہے! کسی زمانے میں مصنوعی عدسے کا تصور تک نہیں تھا۔ مستقبل میں اور کیا کیا ہو گا؟ قدرت ہی جانتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے ''وہ وہ چیزیں پیدا کرے گا جن کا تمہیں علم نہیں‘‘۔ تعجب نہیں کل کو اگر سرجری کی اور مصنوعی عدسے کی بھی ضرورت نہ پڑے۔ پیوند کاری کا کس نے سوچا تھا۔ گردے کی‘ دل کی‘ جگر کی‘ آنکھوں کی پیوند کاری ہو رہی ہے۔ دل میں سٹنٹ پڑ رہے ہیں۔ بائی پاس سرجری ہو رہی ہے۔ ہزاروں میل دور بیٹھا سرجن مریض کے آپریشن کی ہدایات دے رہا ہے اور آپریشن ہو رہا ہے۔ یورپ سے امریکہ جائیں تو بحر اوقیانوس سات آٹھ گھنٹوں میں عبور ہو رہا ہے۔ ایسا ہوائی جہاز بن چکا ہے جو یہ فاصلہ ڈیڑھ گھنٹے میں طے کرے گا۔ ہاں ایک بات اطمینان بخش ہے کہ یہ ساری ایجادات کفار نے کی ہیں۔ ہمارا دامن کسی ایجاد‘ کسی دریافت سے آلودہ نہیں ہوا۔ کچھ کیا بھی ہے تو ہزار‘ ڈیڑھ ہزار سال پہلے کیا تھا۔ اس کا تذکرہ ضرور کرتے ہیں۔ پدرم سلطان بود ہمارا پسندیدہ محاورہ ہے!! (ختم)

Tuesday, November 05, 2024

شاہ کی ڈھیری سے میلبورن تک … (2)

نظر کا چشمہ نویں جماعت ہی میں لگ گیا تھا یعنی چودہ سال کی عمر میں! نمبر بھی کچھ زیادہ ہی تھا۔ عینک کے ساتھ ساری زندگی کی رفاقت رہی۔ اس سے جدائی صرف تین حالتوں میں رہی۔ نہاتے دھوتے وقت‘ نماز کے دوران اور نیند کی حالت میں! عمر بھر جو نصابی اور غیرنصابی‘ فضول اور کارآمد‘ مفید اور غیرمفید‘ سنجیدہ اور غیرسنجیدہ‘ مشکل اور آسان کتابیں پڑھیں اور جس زبان میں بھی پڑھیں‘ نثر کی یا شاعری کی یا جس فن کی بھی‘ عینک کی مدد ہی سے پڑھیں۔ کتاب فروشوں کی طرح عینک سازوں سے بھی دوستی رہی۔

یہ کوئی پانچ چھ سال پہلے کی بات ہے۔ ایک دن خیال آیا کہ ہمارے ساتھ کے کئی صاحبان نے سفید موتیے (کیٹا ریکٹ) کی سرجری کرا لی ہے۔ ہمیں بھی معائنہ کروا لینا چاہیے۔ اہلیہ کو لیا اور ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس حاضر ہوئے۔ انہوں نے معائنہ کیا اور کہا کہ آپ دونوں میاں بیوی فوراً سرجری کرائیے۔ ان کا انداز اور اصرار کچھ ایسا تھا کہ ہم دل میں قائل نہ ہوئے اور زبان سے ان کا شکریہ ادا کر کے واپس آگئے۔ ایک اور ڈاکٹر صاحب نے بھی یہی رویہ اختیار کیا۔ ان کی باتوں سے بھی کاروبار کی میٹھی میٹھی خوشبو آرہی تھی اور کاروبار کی خوشبو اس مزاج کو کبھی راس نہ آئی کہ بقول غالب:
اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے
بالآخر جنرل مظہر اسحاق صاحب کے پاس گیا کہ ان سے شناسائی تھی۔ جس زمانے میں وہ کرنل تھے‘ ابا جی کو انہی کے پاس لے جاتا رہا۔ انہوں نے سیدھے سادھے دو سوال پوچھے۔ کیا لکھنے پڑھنے میں دقت ہو رہی ہے‘ اور کیا گاڑی چلانے میں تکلیف ہو رہی ہے؟ دونوں کا جواب نفی میں تھا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ پچاس‘ ساٹھ سال سے اوپر موتیا تو اکثر لوگوں کی آنکھوں میں اتر ہی آتا ہے مگر سرجری تب کرانی چاہیے جب ضرورت محسوس ہو۔ اُسی سال جب آسٹریلیا گیا تو صاحبزادے ماہرِ امراضِ چشم کے پاس لے گئے جو اُن کے دوست بھی تھے۔ یہ ڈاکٹر صہیب تھے۔ سات سال کی عمر میں ڈھاکہ سے برطانیہ چلے گئے۔ وہیں تعلیم حاصل کی۔ ماہرِ امراضِ چشم بنے۔ کئی سال تک پریکٹس بھی وہیں کی۔ پھر آسٹریلیا آگئے۔ انہوں نے مکمل معائنہ کیا اور یہی رائے دی کہ سرجری ایسا کام نہیں جو شوقیہ کرایا جائے۔ جب کام کرنے میں دقت نہیں ہو رہی تو وقفے وقفے سے معائنہ کراتے رہیے۔ اس کے بعد جب بھی آسٹریلیا جانا ہوا‘ ڈاکٹر صاحب سے معائنہ کراتا رہا۔
سالِ رواں کا آغاز تھا جب بہت آہستگی سے احساس ہوا کہ کتاب پڑھتے ہوئے ذرا سی دِقت ہونے لگی ہے۔ کتاب کی بھی تو کئی صورتیں ہیں۔ جب فرمایا گیا کہ ''ذالک الکتاب لا ریب فیہ‘‘ تو اس وقت کاغذ تھا نہ چھاپہ خانہ۔ معلوم ہوا کہ کتاب صرف وہ نہیں ہوتی جو کاغذ سے بنی ہو اور الفاظ اور حروف جس پر سے دیکھ کر پڑھے جائیں۔ کتاب کی شکل ہر زمانے میں تبدیل ہوتی رہی ہے۔ اب کتاب کاغذ سے آئی پیڈ پر اور ای ریڈر پر اور انٹر نیٹ پر‘ اور نہ جانے کہاں کہاں نئی صورتوں میں ظاہر ہو رہی ہے۔ جو دقت محسوس ہو رہی تھی
 وہ کاغذ والی کتاب پڑھتے ہوئے محسوس ہو رہی تھی۔ ترجیح یہی ہوتی ہے کہ کتاب کی سافٹ کاپی آئی پیڈ پر منتقل ہو جائے۔ اس طرح لفظ کا سائز (فونٹ) بڑا کیا جا سکتا ہے‘ مگر ہر کتاب کی سافٹ کاپی میسر نہیں ہو سکتی۔ پھر کاغذ کی کتاب پڑھنے کا اضافی فائدہ یہ ہے کہ حاشیے پر کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ میری پڑھی ہوئی کتاب کسی اور کے کام کم ہی آ سکتی ہے کیونکہ انڈر لائن کر کرکے اور حاشیوں پر لکھ لکھ کر کتاب کی صورت ہی تبدیل کر دیتا ہوں۔ القصہ مختصر کاغذ والی کتاب پڑھتے ہوئے دقت محسوس ہونے لگی۔ دقت دبے پاؤں ہی آئی اور دبے پاؤں ہی خراماں خراماں آگے بڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ سال کے وسط میں دقت بڑھ چڑھ کر بولنے لگی۔ انہی دنوں صاحبزادے اسلام آباد آئے ہوئے تھے۔ جڑواں شہروں کے ایک بہت ہی معروف ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ پہلا دھچکا جاتے ہی لگا کہ سرجری کی فیس کریڈٹ کارڈ سے لی جائے گی‘ نہ چیک سے اور نہ ہی بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کی جا سکے گی بلکہ صرف اور صرف‘ اور صرف کیش ہی میں لی جائے گی۔ خیر اس دھچکے کو ہم باپ بیٹا برداشت کر گئے۔ اگر ایف بی آر اس عظیم الشان ''حب الوطنی‘‘ کو برداشت کر رہا ہے تو مریض اور اس کے لواحقین کس کھیت کی مولی ہیں۔ ایک طرف تو حکومت واویلا کرتی ہے کہ معیشت کو دستاویزی 
(Documented) 
کرنا ہے۔ نان فائلر کو بخشنا نہیں‘ دوسری طرف حکومت کی ناک کے عین نیچے‘ بلکہ نتھنوں کے درمیان ڈاکٹر حضرات کیش کے سوا مریض کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ راولپنڈی کے بارے میں بھی ایک عزیز یہی بتا رہے تھے کہ ڈاکٹر صرف نقد رقم وصول کرتے ہیں۔ اب تو مرغی بیچنے والوں کے پاس بھی کریڈٹ کارڈ کی مشینیں پڑی ہیں۔ کھوکھے والوں کے بھی بینک اکاؤنٹ ہیں جن میں خریدار رقم منتقل کر سکتے ہیں مگر لاکھوں کی فیس لے کر سرجری کرنے والے ڈاکٹر صرف نقد روپیہ وصول کرنے پر مُصر ہیں! آخر کیوں؟ حکومت شاید اس لیے اس حوالے سے کچھ نہیں کرتی کہ حکومت کی آنکھ میں سفید موتیا اُتر آیا تو انہی ڈاکٹروں کے پاس آنا پڑے گا۔ حالانکہ حکومت کی آنکھوں میں سفید موتیا اُتر ہی نہیں سکتا۔ وہ تو پہلے ہی گلوکوما (کالے موتیے) سے بھری ہوئی ہیں جس میں بینائی جاتے رہنے کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔ یا پھر یوں کہیے کہ بصارت کی کمزوری حکومتوں کا مسئلہ کبھی رہا ہی نہیں۔ حکومتوں کی آنکھوں میں سفید‘ یا کالا‘ یا سرخ یا ارغوانی یا کسی بھی رنگ کا موتیا نہیں اُتر سکتا۔ حکومتوں کی آنکھوں میں تو ہمیشہ خون اترتا ہے‘ وہ بھی عوام کو دیکھ کر!! ان کا مسئلہ ہمیشہ بصیرت کا فقدان رہا ہے۔ یہ وہ موتیا ہے جو حکومتوں کی اندر کی آنکھ میں اُترتا ہے اور یوں اُترتا ہے کہ پھر سیڑھیاں چڑھ کر باہر نہیں آ سکتا۔ یہ مرض لاعلاج ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر عاجز ہیں۔ یہ دوا کا نہیں دعا کا کام ہے۔ اسی لیے ہماری حکومت نے بیرونِ ملک سے مولانا حضرات کو درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ ایک مشہور مولانا صاحب کو جھاڑ پھونک کے لیے درآمد کیا گیا مگر وہ سنوارنے کے بجائے اندر کی آنکھ میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر گئے۔ اندازہ لگائیے دنیا کیش کا لین دین ختم کر رہی ہے اور ہمارے ڈاکٹر کیش کے لیے صندوکڑیاں کھولے بیٹھے ہیں۔ حکومت تاجروں کے پیچھے لگی ہے کہ فائلر بنیں۔ تو ڈاکٹر کیوں نہ فائلر بنیں؟ اور اگر ڈاکٹر فائلر ہیں تو فیس بینک اکاؤنٹ میں جمع کرانے سے خائف کیوں ہیں؟
اصل مسئلہ ہمیں یہ پیش آیا کہ مصنوعی عدسے 
(Lens) 
کی ساری ذمہ داری ڈاکٹر صاحب نے ایک خاتون ٹیکنیشین پر ڈالی ہوئی تھی۔ پاکستانی ڈاکٹروں کو ایک خاص احساسِ کمتری ہے کہ مریض کی پہنچ سے دور رہنا ہے۔ خاتون ٹیکنیشین ہمیں مطمئن نہ کر سکی کہ کون سا عدسہ ڈالا جائے گا۔ جب ہمارے صاحبزادے نے‘ جو خود بھی ڈاکٹر ہیں‘ ڈاکٹر صاحب سے بات کرنا چاہی تو معلوم ہوا کہ ان سے بات نہیں ہو سکتی۔ خاتون ٹیکنیشین خود ہی ڈاکٹر صاحب سے بات کرے گی۔ یعنی کہ پھر ''نہ‘‘ ہی سمجھیں۔ ایک تو عینک کا نمبر بہت ہائی‘ پھر نمبر میں ایک اور مسئلہ بھی جسے 
Stigmatism 
کہا جاتا ہے‘ درپیش تھا۔ اس صورتحال میں ڈاکٹر صاحب کی نارسائی اور ان سے ڈسکس نہ کر سکنا بہت بڑی حوصلہ شکنی کا باعث بن گیا۔ دو ماہ بعد آسٹریلیا جانے کا پروگرام بنا ہی ہوا تھا چنانچہ یہی طے ہوا کہ ڈاکٹر صہیب ہی سے جراحی کرائی جائے۔ یوں بھی کئی سال سے وہ معائنہ کر رہے تھے اور مریض کی آنکھوں کی صورتحال سے بخوبی آگاہ تھے۔ (جاری)

Monday, November 04, 2024

شاہ کی ڈھیری سے شفا آئی ٹرسٹ ہسپتال تک

کیا تم نے آنکھیں بنوا لی ہیں؟

جی۔ بنوا لی ہیں۔ ''شاہ کی ڈھیری‘‘ گئی تھی۔ پچھلے ہفتے ہی واپس آئی ہوں۔
یہ وہ مکالمہ ہے جو بچپن میں بارہا سنا۔ عورتوں سے بھی‘ مردوں سے بھی! آنکھیں بنوانے سے مراد ہوتی تھی سفید موتیے 
(Cataract) 
کا علاج۔ ''شاہ کی ڈھیری‘‘ کسے کہتے تھے؟ یہ وہی قصبہ ہے جو اب ٹیکسلا کے نام سے مشہور ہے۔ مغل تاریخ میں‘ ٹیکسلا کا نام کہیں نہیں ملتا۔ اگرچہ حسن ابدال کا نام مذکور ہے جہاں اورنگزیب نے قیام کیا۔ مقامی روایات کی رُو سے اُس زمانے میں‘ جہاں اب ٹیکسلا ہے‘ ڈھیری جوگیاں نامی قصبہ آباد تھا۔ ڈھیری اُونچی جگہ کو کہتے ہیں۔ (فتح جنگ شہر میں ایک محلے کا نام ''چاساں آلی ڈھیری‘‘ ہے) ٹیکسلا تو منوں مٹی کے نیچے دبا ہوا تھا۔ یہاں ہندو آبادی تھی اور جوگیوں کی کثرت تھی۔ پندرہویں صدی عیسوی کے آغاز میں ایک بزرگ سید صفدر حیدر افغانستان سے نکلے اور اوچ شریف اور پھر مارگلہ سے ہوتے ہوئے ڈھیری جوگیاں تشریف لائے۔ ان کے ہمراہ ان کے مرید اور معتقدین بھی تھے۔ انہوں نے ایک اونچی جگہ (ڈھیری) پر قیام کیا۔ ان کی تبلیغ اور اخلاق سے متاثر ہو کر لوگ مسلمان ہو نے لگے۔ یوں یہ جگہ ''شاہ کی ڈھیری‘‘ کہلانے لگی۔ معروف شاعر جناب حفیظ اللہ بادل کی وساطت سے ماہر آثار قدیمہ جناب مالک اشتر سے رابطہ ہوا تو انہوں نے قیمتی معلومات سے نوازا۔ 1913ء کے لگ بھگ جان مارشل نے اس مقام پر کھدائیاں کیں تو معلوم ہوا کہ اس جگہ کا اصل اور قدیم نام ''ٹیکسلا‘‘ ہے۔ اس کے بعد اسے ٹیکسلا کہا جانے لگا۔ روایات جو بھی ہوں‘ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مقامی نام شاہ کی ڈھیری ہی تھا جو بچپن اور لڑکپن میں اس لکھنے والے نے اس پورے علاقے میں سنا۔ جان مارشل برطانوی ہند کے محکمہ آثار قدیمہ کا سربراہ تھا۔ مناسب بجٹ کے حصول کے لیے دہلی حکومت سے اس کی کھینچاتانی چلتی رہتی تھی۔
بہرطور جان مارشل نے بستی کا نام سرکاری کاغذات میں بھی ٹیکسلا کر ا دیا۔ 1920ء میں یہاں ٹیکسلا کرسچین ہسپتال کی بنیاد رکھی گئی۔ زمین خریدی گئی تو زمین فروخت کرنے والوں نے نقد قیمت کا مطالبہ کیا۔ چنانچہ سِکّوں کی کثیر مقدار راولپنڈی سے بیل گاڑی میں لائی گئی۔ آنکھ کا پہلا آپریشن ایک خیمے میں لالٹین کی روشنی میں ہوا۔ ہمارے لڑکپن میں دو ناموں کا پورے علاقے میں بہت چرچا تھا۔ ایک نام ''لودھی‘‘ تھا۔ یہ ملیحہ لودھی کے والد تھے اور اٹک آئل کمپنی کھوڑ (ضلع اٹک) کے سربراہ! دوسرا نام ڈاکٹر لال کا تھا جو کرسچین ہسپتال ٹیکسلا کے انچارج تھے۔ ڈاکٹر ارنسٹ لال لیجنڈ کی حیثیت رکھتے تھے۔ انہوں نے 1957ء میں بھارتی ریاست تامل ناڈو سے ایم بی بی ایس کیا۔ ان کی بیگم ڈاکٹر پرامیلا ماہر امراض چشم تھیں۔ وہ خود سرجن تھے۔ شادی کے بعد دونوں ٹیکسلا کرسچین ہسپتال منتقل ہو گئے۔ دونوں نے پانچ دہائیوں تک اس ادارے میں بے لوث خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر لال پہلے پاکستانی تھے جو اس ہسپتال کے سربراہ بنے۔ میاں بیوی نے لاکھوں مریضوں کے آپریشن کیے اور ان کی بینائی انہیں لوٹائی۔ ادارے کو زمین سے آسمان تک پہنچا دیا۔ کئی نئی عمارتیں تعمیر کرا دیں۔ خلق خدا آنکھوں میں سفید موتیا لیے ''شاہ کی ڈھیری‘‘ آتی تھی اور شفایاب ہو کر واپس جاتی تھی۔ یہ میاں بیوی چاہتے تو بھارت یا پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر میں رہ سکتے تھے اور ایک آسان‘ آرام دہ زندگی گزار سکتے تھے۔ مگر قدرت نے ان کے بخت میں یہ شرف رکھا تھا کہ ایک چھوٹی سی بستی میں رہ کر لوگوں کی خدمت کریں۔ یہ توفیق بھی خدا ہی بخشتا ہے۔ ان کی خدمات کا مکمل تذکرہ ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے۔
میرے شباب کا آغاز تھا جب دادی جان نے اپنے فرزند سے کہا: بیٹے! میری بصارت میں مسئلہ ہو رہا ہے۔ مجھے شاہ کی ڈھیری لے چلو۔ ابا جی لے گئے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمیں وہاں رہنے کے لیے ہسپتال کی طرف سے چھوٹا سا کوارٹر بھی ملا تھا۔ ابا جی ہر وقت ان کی خدمت میں حاضر رہتے تھے۔ آپریشن کے بعد دادی جان نے بہت دن آنکھ پر سبز رنگ کے کپڑے کا ٹکڑا لٹکائے رکھا۔ یہ تو یقین ہے کہ اُس زمانے میں مصنوعی عدسہ 
(Lens)
 آنکھ کے اندر نہیں رکھا جاتا تھا‘ مگر یہ یاد نہیں کہ سرجری کے بعد آنکھوں میں کئی دن تک دوا ڈالنا ہوتی تھی یا نہیں۔ بہرطور دادی جان کے لیے نئی عینک بنوائی گئی۔ اس کے بعد‘ آنکھوں کے حوالے سے‘ ان کی زندگی اطمینان بخش رہی یہاں تک کہ وہ وقت آگیا جو ان کے لیے مقرر تھا۔ ہولی فیملی ہسپتال میں میں ان کے پاس تھا جب انہوں نے خاکی جسم کو چھوڑ دیا اور اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئیں۔
کئی عشرے گزر گئے۔ پھر ابا جی کی بصارت متاثر ہونے لگی۔ دھوپ میں تکلیف ہونے لگی۔ باہر نکلتے وقت عینک کے شیشوں کے اوپر انہوں نے رنگین شیشے لگانے شروع کر دیے۔ پڑھتے وقت کبھی عینک لگاتے کبھی اتارتے۔ ڈاکٹر دوستوں سے مشورہ کیا تو یہ طے پایا کہ شفا آئی ٹرسٹ ہسپتال میں ان کی آنکھوں کا معائنہ اور علاج کرایا جائے۔ بتیس برس پہلے ایک صبح ہم شفا آئی ٹرسٹ روانہ ہوئے۔ اُس دن ڈرائیور معلوم نہیں گھر سے جھگڑ کر آیا تھا یا اسے نیند آ رہی تھی‘ اس نے پوری کوشش کی کہ کچہری کے قریب سے گزرتے وقت گاڑی کو ایک بس سے لڑا دے۔ کئی سال پہلے ایران میں سفر کے دوران ابا جی کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا تھا۔ وہ محفوظ رہے مگر اس کے بعد ان کے اعصاب کمزور ہو گئے۔ گاڑی کی تیز رفتاری سے وہ مضطرب ہو جاتے۔ چنانچہ جب وہ گاڑی میں بیٹھے ہوتے تو گاڑی آہستہ چلائی جاتی۔ ڈرائیور کی طالع آزمائی کے بعد میں نے اسے ساتھ بٹھا دیا اور گاڑی خود چلائی۔ آج معلوم نہیں کس حالت میں ہے مگر اُس وقت شفا آئی ٹرسٹ ہسپتال جڑواں شہروں میں منظم ترین ہسپتال تھا۔ ہر کام ترتیب سے ہوتا تھا اور تاخیر یا تقدیم کا کوئی سوال نہ تھا۔ ادارے کے مالی معاملات کے سربراہ ہمارے ایک دوست تھے جن کا نام پیراں بخش تھا۔ ان کی وساطت سے کچھ مزید سہولت بھی حاصل ہو گئی۔ مصنوعی عدسے کی قیمت ہم نے جمع کرا دی۔ پروسیجر میں دو تین گھنٹے لگے۔ سہ پہر کو میں ابا جی کو گھر واپس لے آیا۔ دوسرے دن سے آنکھ میں دوا کے قطرے ڈالنے کا عمل شروع ہوا۔ مختلف دوائیں تھیں جو دن بھر وقفے وقفے سے ڈالنا تھیں۔ جتنی دیر گھر میں رہتا دوا خود ڈالتا۔ صبح کام پر جانے سے پہلے دواؤں کے نام اور ڈالنے کے اوقات کاغذ پر چارٹ کی صورت لکھ دیتا۔ کاغذ دیوار پر چسپاں کر دیتا۔ اس کی مدد سے اہلیہ دوا ڈالتی رہتیں۔ کچھ ہفتوں بعد دوسری آنکھ کا پروسیجر بھی بخیر وخوبی ہو گیا۔ اب انہیں پڑھنے لکھنے میں آسانی ہو گئی۔ دھوپ کی چبھن بھی ختم ہو گئی۔ چند سال بہت اچھے گزرے۔ پھر انہیں ایک اور مسئلے نے آ لیا جسے 
Retina Detachment
 کہتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر یونس تھے جو اس بیماری کا علاج کرنے کے لیے معروف تھے۔ انہوں نے آپریشن کیا۔ کافی لمبا آپریشن تھا۔ اس کے بعد بینائی پہلے جیسی نہ رہی۔ مگر لکھنے پڑھنے کا کام پھر بھی کر لیتے تھے۔ چند برس اور گزرے۔ پھر وہی ہوا جس نے ہونا تھا۔ نقاہت بڑھنے لگی۔ نقل وحرکت پہلے گھر تک محدود ہو ئی‘ پھر کمرے تک! پھر بستر تک۔ ''ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔ پھر مہین پانی سے۔ پھر خون کے لوتھڑے سے۔ پھر گوشت کی بوٹی سے۔ جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی۔ پھر تمہیں ایک بچے کی صورت میں نکال لائے تا کہ تم اپنی پوری جوانی کو پہنچو۔ اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے۔ اور کوئی زیادہ عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے‘‘۔ ( جاری)

Monday, October 28, 2024

نور مقدم


فروری 2022ء میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے نور مقدم کے قاتل کو سزائے موت سنائی اور ساتھ ہی پچیس سال کی قید بامشقت کی سزا بھی!
ایک سال ایک ماہ بعد‘ یعنی مارچ 2023ء میں‘ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سزائے موت کی توثیق کر دی اور پچیس سال کی قید بامشقت کو بھی سزائے موت میں بدل دیا‘ یعنی سزائے موت دو بار دی جائے گی۔
ایک ماہ بعد یعنی اپریل 2023ء میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ملک کی سب سے بڑی عدالت میں اپیل دائر کر دی گئی۔ اپیل دائر کیے ہوئے صرف ڈیڑھ سال ہوا ہے۔
حیران کن امر یہ ہوا کہ مقتولہ کے والد نے چار دن پہلے نیشنل پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کر ڈالی۔ یہ اس کی مقتولہ بیٹی کی سالگرہ کا دن بھی تھا۔ والد نے دہائی دی کہ اپیل دائر کیے ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ اور کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔ سول سوسائٹی کی نمائندہ خواتین نے اس موقع پر کہا کہ ''یہ ایک اوپن اینڈ شَٹ کیس ہے (یعنی ایسا کیس جس میں کوئی ابہام نہیں)۔ ملزم کے خلاف مکمل ثبوت موجود ہے مگر نامعلوم وجوہ کی بنا پر مقدمہ التوا میں چلا آ رہا ہے‘‘۔
سارا معاملہ افسوسناک ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ حیرت انگیز بھی! مقتولہ کے والد گرامی اسی ملک میں پیدا ہوئے۔ یہیں پلے بڑھے۔ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی محترم خواتین بھی یہیں پیدا ہوئیں۔ یہیں پلی بڑھیں۔ پھر بھی فیصلے میں غیر معمولی تاخیر پر سب حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ کیا کوئی حیرت کا اظہار کرتا ہے کہ رات کو ستارے کیوں نکلتے ہیں؟ دن کو سورج کیوں چمکتا ہے؟ ہوا چلتی ہے تو درخت کیوں جھومتے ہیں؟ ارے بھائی! آپ کا غم بجا! آپ کی لخت جگر کے ساتھ ظلم ہوا۔ ظلم تو بہت چھوٹا لفظ ہے۔ یہ بربریت اور وحشت کی انتہا تھی۔ مگر! یہاں پگڑی اچھلتی ہے‘ اسے میخانہ کہتے ہیں!یہاں طاقت کی مساوات دیکھی جاتی ہے۔ یہاں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون زیادہ طاقتور ہے‘ کس کے پاس روکڑا زیادہ ہے۔ کس کے ہاتھ میں کس کی ڈور ہے۔ کون زیادہ بااثر ہے۔ یہاں ریاست کا ملازم ڈیوٹی پر کھڑا‘ کچل دیا جاتا ہے اور قاتل انگلیوں سے فتح کا نشان بناتا دندناتا پھرتا ہے۔ یہاں قاتل لڑکا فیوڈل خاندان سے ہو تو اس کا بال بھی بیکا نہیں کیا جا سکتا۔
لگا ہے دربار‘ شمع بردار سنگ کے ہیں
ہوا کے حاکم ہیں‘ موم کے ہیں گواہ سارے
یہ تو شکر کیجیے کہ آپ (نور مقدم کے محترم والد) بھی کوئی عام آدمی نہیں! سابق سفیر ہیں اور سماجی لحاظ سے باعزت طبقے میں شمار ہوتے ہیں۔ ورنہ تو یہاں مقتول یا مقتولہ کے خاندان پر زمین تنگ کر دی جاتی ہے۔ بھینس چوری کا مقدمہ قائم کر دیا جاتا ہے۔ قتل کی دھمکی دی جاتی ہے۔ گلے پر پاؤں رکھ کر صلح کے لیے آمادہ کیا جاتا ہے۔ ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر شاذیہ خالد کا کیس یاد کیجیے۔ کیا گزری میاں بیوی پر۔ اور تو اور خود بادشاہِ وقت نے نیشنل ٹیلی ویژن پر ملزم کی معصومیت پر گواہی دی۔ ڈاکٹر شاذیہ کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنے والے دو اشخاص آج بھی مشہور ہیں اور پیش منظر پر چھائے ہوئے ہیں! یہی بادشاہ ِوقت تھا جس نے امریکی سرزمین پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ آبروریزی کا تماشا پیسے بٹورنے اور ملک سے باہر جانے کے لیے رچایا جاتا ہے۔ جہاں باڑ کھیت کو کھا رہی ہو‘ وہاں کس سے گلہ کیا جائے گا؟ جہاں چرواہا اور اس کا کتا بھیڑوں کو خود ہی بھیڑیوں کے حوالے کر رہے ہوں وہاں کس سے شکایت کریں گے۔ کلاسک کیس تو ریمنڈ ڈیوس کا ہے۔ اس کی کتاب پاکستانیوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ یہ جو دو کیس ہیں ڈاکٹر شاذیہ خالد کا اور ریمنڈ ڈیوس والا‘ یہ تو دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں پڑھانے چاہئیں۔ ان پر تحقیق ہونی چاہیے۔ محققین کو ان پر پی ایچ ڈی کرنی چاہیے۔ ہمارے قومی پرچم پر ان کی علامات ہونی چاہئیں۔ ریاست عدالت میں بیٹھ کر امریکی سفیر کو لمحہ لمحہ کی رپورٹ دے رہی تھی۔ کیا کوئی ملک انسانی تاریخ میں اتنا بھی گرا ہو گا! دو سو سالہ غلامی میں بر صغیر میں انگریز کے سامنے اس انداز میں کوئی رکوع میں نہ گیا ہو گا جس طرح ریمنڈ ڈیوس کیس میں ہم امریکہ کے سامنے سجدہ ریز ہوئے۔ اس پس منظر میں‘ اور اس شرمناک ریکارڈ کے ساتھ‘ یہ ایک معجزہ ہے کہ ابھی تک نور مقدم کا قاتل جیل میں ہے۔ ورنہ باہر آ چکا ہوتا تو اس میں تعجب ہی کیا ہوتا۔
اور پھر جس معاشرے میں مردوں کے قاتل کھلے پھر رہے ہوں وہاں ایک لڑکی کے قتل کو کون اہمیت دے گا! یہاں لڑکی کی اہمیت ہی کیا ہے؟ واحد ایٹمی مسلم ملک میں عورت کے ساتھ آج بھی وہی سلوک ہو رہا ہے جو جاہلیت میں ہوتا تھا۔ نرس پوتی کی پیدائش کی خوشخبری دے تو دادی اسے تھپڑ مارتی ہے۔ زچہ بیٹی جنے تو ہسپتال ہی میں اسے طلاق دے دی جاتی ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اب ایسا نہیں ہوتا تو یا تو وہ گاؤدی اور بودے ہیں یا منافق۔ اسلام آباد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو ان کانوں نے خود لڑکی کی پیدائش پر دوستوں کے ساتھ اظہارِ افسوس کرتے سنا ہے۔ بیٹی کا باپ خوش ہے اور مٹھائی پیش کر رہا ہے اور یہ حیا سے عاری اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان نما جانور کہہ رہے ہیں کہ کوئی بات نہیں‘ اگلی بار بیٹا ہو گا! بیٹا بدقماش ہو‘ آوارہ ہو‘ بدکار ہو‘ پھر بھی پوتّر ہے۔ بیٹی سے ذرا سی غلطی ہو جائے یا وہ اُس حق پر اصرار کرے جو اسے خدا اور رسول نے دیا ہو‘ تو قتل کی مستحق ہے۔ اور یہ تو ماضی قریب کی بات ہے جب غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بِل پیش ہوا تھا تو عوامی نمائندوں نے کس طرح متحد ہو کر اُس بل کا راستہ روکا تھا!
ڈیڑھ سال سے مقدمے پر کوئی کارروائی نہیں ہو رہی تو کیا بڑی بات ہے۔ آخر قتل ہونے والی لڑکی ہی تو تھی۔ اور پھر اس غیر معمولی تاخیر کی کئی اہم وجوہات ہو سکتی ہیں۔ یوکرین اور روس میں جنگ ہو رہی ہے۔ غزہ میں ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ دنیا میں موسمی تبدیلیاں پیش آ رہی ہیں۔ امریکہ میں انتخابات ہونے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرض لینا ہے۔ پاکستان کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑا کرنا ہے۔ سی پیک کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا ہے۔ کشمیر کو پاکستان میں شامل کرانا ہے۔ جہاں اتنے بہت سے کام کرنے ہوں اور مصروفیات بے پناہ ہوں وہاں نور مقدم کے مقدمے پر کیسے توجہ دی جا سکتی ہے۔ اور اتنی جلدی بھی کیا ہے! ڈیڑھ سال ہی تو ہوا ہے۔ اگر سزائے موت کسی عام پاکستانی کو سنائی گئی ہوتی تو اس پر عمل ہو بھی چکا ہوتا مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ قاتل کوئی معمولی آدمی تو نہیں ہے نا! دولت مند خانوادے کا چشم وچراغ ہے۔ اور پھر اگر موت کی سزا پر عمل ہو گیا تو آئندہ ایسے بھیانک جرائم کا ارتکاب کون کرے گا؟ جرائم کی تاریخ میں انوکھے ابواب کا اضافہ کون کرے گا؟ ایسے سپوت زندہ رہنے چاہئیں تا کہ لڑکیوں کے سر کٹ کٹ کر دھڑ سے الگ ہوتے رہیں! یوں بھی ہمارے ہاں ناکردہ گناہوں پر سزا دینے کا رواج ہے۔ جو گناہ ثابت ہو جائیں‘ ان کا کیا ہے! سزا نہ بھی ملے تو کوئی بڑی بات نہیں!

Thursday, October 24, 2024

یہ نشہ بھی آزما کر دیکھیے


پنڈی سے لاہور جانا تھا۔ رانا صاحب کہنے لگے: میرے ساتھ چلو‘ راستے میں گپ شپ ہو گی۔ رانا صاحب اس نفسیاتی خوف میں مبتلا ہیں کہ ڈرائیو کرتے ہوئے انہیں نیند نہ آلے۔ اس لیے ہمیشہ کسی دوست کو ساتھ بٹھا لیتے ہیں کہ وہ راستے میں ان کا سر کھاتا رہے یا وہ اس کا سر کھاتے رہیں۔ اس دفعہ یہ اعزاز میرے حصے میں آیا۔ حالانکہ پنڈی اور لاہور کے درمیان ریل کار پارلر کا سفر مجھے اتنا محبوب ہے کہ میں اسے پکنک کے برابر سمجھتا ہوں۔ ریل کے سفر میں وہ سارا ادب یاد آ جاتا ہے جو انگریزی اور اردو میں ریل پر لکھا گیا ہے۔ تاہم ریل کے سفر کی رانا صاحب نے کچھ تلافی یوں کر دی کہ گاڑی موٹر وے کے بجائے جی ٹی روڈ پر ڈال دی۔ جی ٹی روڈ کا سفر غور کیجیے تو تاریخ کا سفر ہے۔ زندگی راستے میں جگہ جگہ گنگناتی‘ مہکتی اور اپنے رنگ دکھاتی نظر آتی ہے۔ راستے میں بازار ہیں‘ شہر‘ قصبے اور قریے ہیں۔ راستے میں کلچر‘ تہذیب اور ثقافت ہے۔ ایک اپنائیت ہے‘ بلکہ یوں کہیے کہ پاکستانیت ہے۔ وزیر آباد کی مچھلی ہے۔ راہوالی کی قلفی ہے۔ جگہ جگہ چائے خانے ہیں۔ ٹرک ہوٹل ہیں۔ ڈھابے ہیں۔ بیکریاں ہیں۔ کسی بھی قصبے کے بازار میں داخل ہو جائیں تو دکانوں میں چاول کے مرنڈے‘ مکھانے‘ بتاشے‘ نُگدی اور پھُلیاں نظر آئیں گی۔ گُڑ اور شکر آسانی سے مل جائیں گے۔ اس کے برعکس موٹر وے کا سفر ایک صحرا کا سفر ہے۔ یکسانیت بیزار کرتی ہے۔ تنوع میں دلربائی ہے۔
پنڈی سے روانہ ہوتے وقت رانا صاحب نے گاڑی میں پٹرول ڈلوایا۔ پٹرول کی ادائیگی کے بعد انہوں نے پٹرول پمپ کے کیشئر کو پانچ پانچ ہزار کے دو نوٹ دیے اور کہا کہ ان کے بدلے میں سو سو روپے کے نوٹ دے دے۔ پوچھا ان کا کیا کریں گے: کہنے لگے دیکھ لینا۔ پنڈی سے لاہور تک رانا صاحب کو جو بھی ریڑھی والا بوڑھا‘ پھٹے پرانے کپڑوں والا راہ گیر‘ جوتے گانٹھتا موچی‘ زمین پر کپڑا بچھا کر تھوڑے سے پھل بیچنے والا‘ کوئی بھی ضرورت مند نظر آتا شخص دکھائی دیا تو اسے پیسے دیتے گئے۔ کسی کو سو روپے‘ کسی کو دو سو اور کسی کو اس سے بھی زیادہ! مگر میں نوٹ کرتا رہا کہ کسی بھکاری کو انہوں نے کچھ نہیں دیا۔ ڈھابے پر چائے کے لیے رُکے تو ویٹر کو چائے کی قیمت کے علاوہ پانچ سو دیے۔ ایک پٹھان بابے سے چھلیاں لیں تو اسے چھلیوں کی قیمت کے علاوہ دو سو روپے دیے۔ لاہور پہنچنے تک دس ہزار روپے تقسیم کر چکے تھے۔ میں دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ یہ آئیڈیا مجھے کبھی کیوں نہ آیا۔ ایک اطمینان اور مسرت ان کے چہرے پر ایسی تھی جو مجھے پُر اسرار لگی۔ خدا کے بھید خدا ہی جانے۔ کہنے لگے ''یہ میں نہیں فیصلہ کرتا کہ کس کو کتنے دینے ہیں‘ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سب کیسے ہوتا ہے۔ اب چائے پلانے والے ویٹر کو سو روپے دینا چاہتا تھا مگر جیب میں ہاتھ ڈالا تو پانچ سو آگئے‘‘۔
لاہور میں مَیں نے اپنے قیام کا بند و بست کیا ہوا تھا‘ مگر رانا صاحب مُصر تھے کہ ان کے ہاں ٹھہروں۔ پرانے دوستوں کو یہ استحقاق ہوتا ہے کہ بات منوا سکتے ہیں۔ برا بھلا کہہ سکتے ہیں بلکہ مار کُٹ بھی سکتے ہیں۔ چنانچہ انہی کے ہاں ٹھہرنا پڑا۔ دوسرے دن کہنے لگے: چلو منڈی سے پھل لانے ہیں۔ میرا لاہورکے جغرافیے کا علم محدود ہے۔ نہ جانے کہاں تھی اور کیا نام تھا منڈی کا۔ ڈرائیور کو انہوں نے ساتھ لیا کہ وہاں پارکنگ کا مسئلہ ہو گا۔ خدا نے رانا صاحب کو آسودگی عطا کی ہے۔ سیب‘ انار‘ مالٹے اور انگور پیٹیوں کے حساب سے خریدے۔ گھر پہنچے‘ ڈرائیور پیٹیاں اندر رکھ رہا تھا تو اسے بتایا کہ سیبوں کی ایک پیٹی اس کے لیے ہے‘ چھٹی کرتے وقت گھر لے جائے۔ رات کو کھانے کے بعد ہم دونوں چہل قدمی کر رہے تھے۔ میں نے کہا: یار رانا! میں نے ان دو دنوں میں تم سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اللہ نے تمہیں فیاض دل عطا کیا ہے۔ رانا صاحب نے جواب دیا کہ ''ایسی کوئی بات نہیں۔ جس حساب سے اللہ تعالی مجھے دے رہا ہے‘ اس کا تو کوئی کنارہ ہی نہیں۔ جو کچھ میں کر رہا ہوں‘ وہ ریت کے دانے سے بھی کم ہے۔ صرف یہ سوچتا ہوں کہ پھلوں کی پیٹیاں میرے گھر میں رکھنے والا ڈرائیور گھر جا کر اپنے بچوں کو ملے گا تو کیا سوچے گا کہ وہ تو دو کلو سیب بھی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا اور دوسری طرف پیٹیوں پر پیٹیاں خریدی جا رہی ہیں۔ اس کے بچے جب سیب دیکھیں گے اور کھائیں گے تو ڈرائیور اور اس کی بیوی خوش ہوں گے۔ بس ان کی یہ خوشی میرے لیے اللہ کی نعمت ہے‘‘۔
رانا صاحب کے ہاں میرا قیام پانچ دن رہا۔ مجھے یوں لگا جیسے میں اب تک ناخواندہ تھا۔ اَن پڑھ تھا۔ جاہل تھا۔ جو کچھ ان پانچ دنوں میں دیکھا‘ سنا اور سیکھا‘ ایک نیا ہی علم تھا۔ اور اس علم کا پڑھنے سے اور کتابوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ علم کسی خاص جگہ سے‘ کسی خاص منبع سے اُتر رہا تھا۔ یہ قطرہ قطرہ‘ ذرہ ذرہ‘ قطمیر قطمیر‘ میرے اندر‘ میرے دل میں جا رہا تھا۔ رانا صاحب کی بیگم کیش اینڈ کیری سے سودا سلف (گراسری) لے کر آئیں تو ڈرائیور‘ مالی اور برتن دھونے والی خاتون کے لیے بھی ایک ایک تھیلا لائیں۔ ان تھیلوں میں چائے کی پتی‘ چاول‘ چینی اور گھی کے ڈبے تھے۔ دوسرے دن دعوت تھی۔ مہمانوں کیلئے کولڈ ڈرنک کی بوتلیں آئیں۔ ایک ایک بوتل انہوں نے تینوں ملازموں کو دی کہ گھر لے جائیں۔ ٹیکسی پر آئے تو ٹیکسی کے ڈرائیور کو کھانا کھلا کر بھیجا۔
کیا فیاضی کے لیے اتنی آسودگی لازم ہے جتنی رانا صاحب کو حاصل ہے؟ نہیں! ہر گز نہیں! آسودگی ایک ایسی اصطلاح ہے جس کی کوئی معینہ تعریف ہے نہ حد! رانا صاحب میرے مقابلے میں ثروت مند ہیں مگر جس کے پاس ذاتی جہاز ہے اور درجنوں کارخانے‘ اس کے مقابلے میں کم حیثیت ہیں۔ ضروری نہیں کہ آپ کسی کو پھلوں کی ایک پیٹی ہی دیں۔ آپ ایک کلو بھی دے سکتے ہیں‘ ایک پاؤ بھی اور صرف ایک سیب بھی! سردیوں میں ضروری نہیں کہ کسی کو رضائی خرید کر دیں‘ ایک گرم چادر بھی دے سکتے ہیں۔ جرابوں کا ایک جوڑا بھی دے سکتے ہیں۔ گھر میں کام کرنے والے الیکٹریشن کو ضروری نہیں کہ آپ بریانی ہی کھلائیں‘ دال اور چپاتی بھی کھلا سکتے ہیں۔ چائے کا کپ ہی پلا دیجیے۔ برتن دھونے والی مائی کے بچے کی ماہانہ فیس نہیں دے سکتے تو بچے کو نئے جوتے ہی خرید دیجیے۔ آپ کو اس سے خوشی حاصل ہو گی۔ ایک بار اس خوشی کا آپ کو چسکا پڑ گیا تو یہ آپ کے لیے نشہ بن جائے گا۔ کسی کو کچھ دیے بغیر آپ سکون سے نہیں بیٹھیں گے۔ مضطرب رہیں گے۔ کیا ہی اچھا نشہ ہے اور کیا ہی دلکش عارضہ ہے! آپ گلّے میں سے سفید ترین بھیڑ دیتے ہیں یا ایک پاؤ گوشت‘ گندم کی بوری دیتے ہیں یا ایک وقت کا کھانا‘ نئی پوشاک دیتے ہیں یا فقیر کی پھٹی ہوئی گدڑی سی دیتے ہیں‘ کسی بے گھر کو مکان خرید دیتے ہیں یا کسی کو ایک چارپائی ہی لے دیتے ہیں‘ کچھ بھی دیں‘ مقدار اور قیمت کا مسئلہ نہیں۔ ایک روٹی کے مالک ہیں تو آدھی کسی کو کھلا دیجیے۔ جو آپ کے نزدیک ذرہ ہے‘ کیا عجب جسے دے رہے ہیں اس کے لیے پہاڑ ہو۔ اور دیتے وقت رنگ دیکھیے نہ نسل‘ مذہب دیکھیے نہ عقیدہ! زبان دیکھیے نہ علاقہ! دیجیے اور آنکھیں بند کر کے دیجیے۔ بس دیتے رہیے! جتنا آسانی سے کر سکتے ہیں کیجیے۔ بس کرتے رہیے۔

Tuesday, October 22, 2024

تھوڑا سا گلہ بھی سُن لے

!
پیدائش تو ماشا اللہ پاکستان کی ہے مگر رومانس بھارت کے ساتھ اتنا ہے جیسے کل ہی وہاں سے سب کچھ چھوڑ کر تشریف لائے ہیں۔ محلات کا سلسلہ ایسا تعمیر کرایا کہ عباسیوں کے دور میں البرامکہ نے بغداد میں کیا بنوائے ہوں گے! برامکہ نے تو بغداد کے اندر محلات بنوائے تھے‘ آپ نے لاہور کے نواح میں عظیم الشان محلات پر مشتمل ایک نیا شہر ہی بسا دیا۔ اور نام اس کا جاتی امرا رکھا۔ جاتی امرا سے ان کے والد گرامی مرحوم نے ہجرت کی تھی‘ خود انہوں نے نہیں! یہ کوئی ایسی قابلِ اعتراض بات بھی نہیں۔ من موہن سنگھ کو بھی اپنے چھوڑے ہوئے گاؤں سے پیار ہے۔ چکوال کے گاؤں ''گاہ‘‘ میں انہوں نے بچپن گزارا ہے۔ افسوس! ان کے پاس وسائل نہیں تھے۔ عقل بھی نہیں تھی کہ اِدھر اُدھر ہاتھ مارتے۔ ایف بی آر میں ایک دن ''ایس آر او‘‘ جاری کرتے۔ فائدہ اٹھا کر دوسرے دن کینسل کر دیتے۔ بیچارے من موہن سنگھ! یورپ میں جائیداد تو کیا بناتے‘ انڈیا میں بھی محلات کا شہر نہ بسا سکے کہ اس کا نام ''گاہ‘‘ رکھ دیتے! یہ خوش قسمتی صرف ہمارے میاں صاحب ہی کے نصیب میں تھی!
محتاط ماشا اللہ اتنے ہیں کہ جو بات پاکستانی صحافیوں سے کرنے کی ہوتی ہے وہ بھارتی صحافیوں سے کرتے ہیں۔ اگر پاکستان سے کوئی غلطی ہوئی بھی ہے تو اس کے بارے میں پاکستانیوں کو بتائیں اور سمجھائیں کہ آئندہ ایسا نہ کریں۔ مگر رومانس پھر رومانس ہوتا ہے‘ ازبکستان‘ بھارت‘ روس‘ چین‘ قزاقستان‘ کرغزستان‘ تاجکستان‘ بیلاروس‘ ایران‘ منگولیا اور ترکمانستان میں سے ان کی دور رَس نگاہ صرف بھارت پر ٹھہری۔ بھارت کی خاتون صحافی کو بطورِ خاص ایوانِ خاص میں ملے۔ وزیراعلیٰ بھی موجود تھیں۔ اس کے بعد بھارتی خاتون نے اپنے خاص نکتۂ نظر سے اس ملاقات کی خبر بنا کر وڈیو پر بات کی جو پاکستان کے لیے قابلِ رشک ہرگز نہیں تھی۔ میاں صاحب کو اگر پاکستان کی ترقی‘ پاکستان کے مستقبل اور پاکستان کے مسائل کی فکر ہوتی یا ان کی سو چ میں پختگی اور گہرائی ہوتی تو وہ اس خاص ملاقات کا اعزاز چین کے کسی صحافی کو بخشتے‘ سی پیک پر بات کرتے اور دہشت گرد جس طرح چینی شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں‘ اس پر بات کرتے اور تشویش کا اظہار کرتے! چلیے اگر بھارتی صحافی ہی کو یہ اعزاز بخشنا تھا تو کشمیر کی پامال کردہ آئینی حیثیت ہی کا ذکر کر دیتے۔ مگر ہو سکتا ہے آرٹیکل 370 ان کے ذہن ہی میں نہ ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کشمیر کو وہ بھول چکے ہوں۔ کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب بگاڑا جا رہا ہے۔ انہوں نے کبھی کلبھوشن کا بھی ذکر نہیں کیا۔
کوئی پاکستانی بی جے پی حکومت کے رویے کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ جب سے اس پارٹی کی حکومت آئی ہے‘ مسلمانوں کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ کتنے ہی مسلمان گائے کے حوالے سے کچلے جا چکے ہیں۔ کوئی اگر بکرے کا گوشت بھی لے جا رہا ہے تو اس کا بھی گھر جلا دیا جاتا ہے۔ کوئی گائے بیچنے جا رہا ہے تو اسے بھی شہید کر دیا جاتا ہے۔ سانس لینا بھی دو بھر ہو چکا ہے۔ ادتیا ناتھ نے کون سا ظلم ہے جو نہیں کیا۔ یہاں تک کہا کہ مسلمان عورتوں کی آبرو ریزی کرو۔ اس درندے نے مسلم دشمنی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ شہروں کے مسلمان نام ایک ایک کر کے تبدیل کر رہا ہے۔ سینکڑوں سال کی مسلم تہذیب کو مٹانے کے درپے ہے۔ آگرہ‘ الہ آباد‘ علی گڑھ اور کئی اور شہروں کے نام بدل کر ایسے نام رکھ رہا ہے جن سے ہندو تعصب منوں ٹنوں کے حساب سے ٹپک رہا ہے۔ آسام میں اُن مسلمانوں کو شہریت سے محروم کیا جا رہا ہے جو صدیوں سے وہاں رہ رہے ہیں۔ میاں صاحب نے‘ اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر‘ کبھی بھول کر بھی ان حقائق کا ذکر نہیں کیا۔ اس لیے کہ ان کا ایک خاص سٹائل ہے۔ ایک طرزِ زندگی ہے۔ اس میں سوچ کی گہرائی یا تاریخ کے ادراک کا گزر نہیں۔ حکومت میں ہوتے ہیں تو مہینوں قومی اسمبلی یا سینیٹ کا رُخ نہیں کرتے۔ کابینہ کے اجلاس تک نہیں ہوتے۔ غیرملکی دوروں کا ریکارڈ انہوں نے توڑ دیا۔ اور لندن کے دورے تو بے شمار کیے۔ 
کوئی مانے یا نہ مانے‘ سچ یہ ہے کہ ان کا ایک خاص طرزِ زندگی ہے۔ بچہ بھی جانتا ہے کہ جو سکون انہیں لندن میں ملتا ہے وہ پاکستان میں نہیں ملتا۔ وہاں کے ریستوران‘ وہاں کے شاپنگ سنٹر‘ وہاں کے شب و روز‘ ایون فیلڈ اپارٹمنٹوں کی زندگی کا لطف‘ اس سب میں وہ طمانیت محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے اکثر و بیشتر عیدیں لندن میں منائی ہیں۔ لگتا ہے اصلی وطن وہی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اب بھی بعض مجبوریوں کی بنا پر وہ پاکستان میں رکے ہوئے ہیں۔ خبریں نکلتی رہتی ہیں کہ بس جانے والے ہیں۔ پاکستان میں ہوں تو لاہور کے محلات میں رہنا پسند کرتے ہیں یا مری کے ایوانوں میں۔ الیکشن سے پہلے وہ لاہور سے باہر ہی نہ نکلے۔ دوسرے صوبوں میں جانے کی زحمت نہیں کی۔ امیدواروں کو لاہور ہی میں طلب کرتے رہے۔ الیکشن مہم جس طرح انہوں نے چلائی‘ اس کا حال سب کے سامنے ہے۔
اس انتہائی فُل آف لگژری زندگی میں‘ تاریخ تو دور کی بات ہے‘ ہم عصر بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں بھی کسی سوچ کا گزر کیسے ہو سکتا ہے۔ کشمیریوں پر کیا گزر رہی ہے؟ بی جے پی بھارتی مسلمانوں کے حوالے سے کیا کر رہی ہے اور کیا عزائم رکھتی ہے؟ ادتیا ناتھ کیا کر رہا ہے؟ امیت شاہ کے ارادے کیا ہیں؟ اگر اگلا وزیراعظم‘ خدا نخواستہ‘ ادتیا ناتھ ہو گیا تو کیا ہو گا؟ مودی مشرقِ وسطیٰ میں ایک کے بعد دوسرے ملک کو سفارتی میدان میں کیسے فتح کیے جا رہا ہے اور اس کے مضمرات پاکستان کے لیے کیا ہیں اور کیا ہوں گے‘ میاں صاحب کی شاہانہ زندگی میں ان تکلیف دہ موضوعات اور سوچوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ ان کا اشہبِ خیال شاہراہوں اور ہوائی اڈوں کی حد سے آگے نہیں جا سکتا۔ اس میں کیا شک ہے کہ موٹر وے ان کا کارنامہ ہے‘ مگر تعلیمی نظام‘ زرعی اصلاحات‘ آبادی کے مسائل‘ نئے صوبوں کی اشد ضرورت‘ مقامی حکومتوں کا وجود اور دوسرے گمبھیر مسائل کی تاب ان کا نازک دماغ نہیں لا سکتا۔ پہلے بھی کاروبارِ حکومت کی پیچیدگیاں انہوں نے اپنے معتمدِ خاص کے سپرد کر رکھی تھیں۔ 
بھارت کے ساتھ تجارت ہونی چاہیے۔ بالکل اسی طرح جیسے تائیوان اور چین کے درمیان ہو رہی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے چین اور بھارت کے درمیان ہو رہی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے امریکہ اور چین کے درمیان ہو رہی ہے۔ اس کالم نگار نے اس موضوع پر کئی مضامین لکھے ہیں۔ تجارت سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہے۔ بھارت ایک بہت بڑی منڈی ہے جو پاکستان کے ہاتھ آجائے گی۔ اس کے مقابلے میں پاکستان ایک چھوٹی منڈی ہے جو بھارت کو ملے گی۔ پاکستانی مصنوعات کو ڈیڑھ ارب گاہک ملیں گے اور بھارتی مصنوعات کو پچیس کروڑ! مگر تجارت اور سپردگی میں فرق ہے۔ تجارت اور محبت میں فرق ہے۔ چین اور بھارت اپنے اصولی اختلافات کبھی بھی پس پشت نہیں ڈالتے۔ تائیوان کے حوالے سے چین کی پالیسی کس قدر سخت ہے‘ انٹر نیشنل ریلیشنز کا مبتدی بھی اچھی طرح جانتا ہے۔ جب میاں صاحب کبھی کسی بھارتی کو مری میں خصوصی درشن دیتے ہیں اور کبھی کسی صحافی کو لاہور میں اور پاکستان کی ''غلطیوں‘‘ کا اعتراف کرتے ہیں مگر بھارت کی چیرہ دستیوں کی طرف ہلکا سا اشارہ بھی نہیں کرتے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ دماغ کا نہیں‘ دل کا معاملہ ہے۔ الیکشن مہم کے دوران مودی جو ہرزہ سرائی پاکستان کے بارے میں کرتے رہے ہیں‘ کسی وقت وہ بھی سُن لیتے!

Monday, October 21, 2024

ایک درد ناک ملاقات


آج کل جہاں قیام پذیر ہوں وہاں سے لائبریری بیس منٹ کی واک پر ہے۔ دن کو کسی بھی وقت لائبریری چلا جاتا ہوں۔ کچھ وقت وہاں گزارتا ہوں۔ لائبریری سے نکلتا ہوں تو دس منٹ کے فاصلے پر ایک بیکری ہے۔ کچھ دیر اس میں بیٹھتا ہوں۔ یہ بیکری بھی ہے‘ کافی شاپ بھی اور چائے خانہ بھی۔ دن کے وقت یہاں بیٹھنے والوں کی زیادہ تعداد میری طرح کے عمر رسیدہ حضرات اور بیبیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ کچھ تنہا ہوتے ہیں‘ کچھ میاں بیوی اور کچھ دوستوں اور سہیلیوں کے ساتھ۔ یہاں چائے کی پیالی پیتا ہوں۔ کتاب پڑھتا ہوں یا آئی پیڈ پر کام کرتا ہوں۔
ایک دن میری نگاہ ایک شخص پر پڑی جو بیکری کے کونے میں بیٹھا تھا۔ اس کی شکل کچھ کچھ جانی پہچانی لگی مگر میں نے یہ خیال جھٹک دیا۔ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں کوئی چہرہ آشنا سا لگتا ہے مگر ہم اسے کبھی نہیں ملے ہوتے۔ اس شخص نے سر پر بوسیدہ سی ٹوپی پہنی ہوئی تھی۔ عمر ہو گی چالیس کے پیٹے میں‘ جینز کا رنگ اُڑا اُڑا سا تھا۔ پاؤں میں اطالوی طرز کے سویڈ کے جوتے تھے۔ سگریٹ پی رہا تھا۔ سامنے دھرے کپ میں چائے تھی یا کافی‘ دور سے جاننا مشکل تھا۔ چہرے پر ایک نامعلوم سی کراہیت تھی جو اسے غیر پسندیدہ قسم کا انسان بنا رہی تھی۔اس نے کئی بار میری طرف دیکھا۔ میں نے بھی اسے دیکھا۔ میں اُس دن گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھا رہا۔ اٹھ کر آیا تو وہ ابھی وہیں تھا۔ اس کے بعد میں واک تو ہر روز کرتا رہا مگر لائبریری اور بیکری والی سمت کئی دن نہ جا سکا۔ کبھی بازار کی طرف نکل جاتا اور سودا سلف خرید لاتا۔ کبھی پارک میں چلا جاتا۔ دو دن بارش رہی اور گھر سے نکل ہی نہ پایا۔ آٹھ دس دن بعد ایک کتاب کی واپسی کی تاریخ تھی اس لیے لائبریری جانا ہی پڑا۔ یہاں کی لائبریریاں بھی ہمارے لیے حیرت کدے سے کم نہیں۔ ایک وقت میں تیس کتابیں ایشو کرا سکتے ہیں۔ کتابیں کمپیوٹر کے سامنے رکھیے۔ کمپیوٹر کو اپنا لائبریری کارڈ دکھائیے‘ فوراً ایک رسید باہر نکلے گی جس پر تمام کتابوں کے نام لکھے ہوں گے اور واپسی کی تاریخ بھی۔ کتاب واپس کرنی ہو تو تب بھی کاؤنٹر پر جا نے کی ضرورت نہیں۔ ایک لیٹر بکس قسم کا سوراخ ہے اس میں کتاب ڈال دیجیے۔ اسے ''شُوٹ‘‘
 (Chute)
 کہتے ہیں۔ ان ملکوں نے کوشش کی ہے کہ انسانی رابطہ کم سے کم ہو۔ زیادہ سے زیادہ کام خود کار مشینیں کریں۔ ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسانی رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے یا کم ہونے کی وجہ سے کرپشن پر کاری ضرب پڑتی ہے۔
کتاب واپس کرنے کے بعد قدم خود بخود بیکری کی طرف اُٹھنے لگے۔ چائے کی طلب محسوس ہو رہی تھی۔ کاؤنٹر پر چائے کی قیمت ادا کر کے بیٹھ گیا۔ ایک طالب علم نما ویٹر چائے کی چینک اور پیالی لایا اور مسکراتے ہوئے میز پر رکھ دی۔ میں چائے پیالی میں ڈال رہا تھا کہ وہی شخص نظر آیا۔ اُسی نشست پر‘ اسی انداز میں بیٹھا ہوا‘ نظریں میری طرف کیے‘ سگریٹ کا کش لگاتا! مجھے بے چینی سی محسوس ہونے لگی۔ خیر میں اُس دن زیادہ نہیں بیٹھا۔ چائے ختم ہوئی تو واپس گھر کی طرف چلنے لگا۔ مگر ایک بے نام سا اضطراب دل میں جیسے پَل رہا تھا۔ کوئی شے مجھے پریشان کر رہی تھی۔ 
دوسرے دن میں ناشتہ کرتے ہی بیکری کی طرف چل پڑا۔ اندر داخل ہوتے ہی نظر اس پر پڑی۔ وہی نشست‘ وہی انداز۔ نظریں میری طرف۔ میں آج یہ پُراسرار مسئلہ حل کرنے پر تُلا ہوا تھا۔ سیدھا اس کی میز کی طرف گیا اور اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ انگریزی میں پوچھا کہ وہ کون ہے۔ میری طرف مسلسل کیوں دیکھتا ہے۔ یہ طرزِ عمل یہاں آداب کے منافی سمجھا جاتا ہے۔ میرا سر گھوم گیا کیونکہ جواب اس نے پنجابی میں دیا اور وہ بھی اُس خالص لہجے میں‘ جو میرے گاؤں میں بولی جاتی ہے۔ پوچھا: وہ کہاں کا ہے؟ کہنے لگا: وہ کہیں کا بھی نہیں اور دنیا کی ہر زبان‘ ہر لہجہ بولنے پر قادر ہے۔ پھر اس نے بتایا کہ وہ شیطان کے بہت سے نائبین میں سے ایک نائب ہے اور ملکِ پاکستان کا انچارج ہے۔ پوچھا: یہاں کس سلسلے میں آئے ہو۔ کہنے لگا: آپ سے معافی مانگنے کیونکہ آپ نے محلے میں اور اپنے حلقۂ احباب میں اور تحریر وتقریر کے ذریعے جو بھی مثبت کوششیں کیں‘ انہیں وہ ناکام بناتا رہا اور اس پر شرمندہ ہے۔ میں نے کہا: غرض کے بغیر تو تم معافی مانگنے سے رہے‘ اصل کام بتاؤ۔ اس پر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ گیا۔ اس سے پہلے کہ بیکری میں بیٹھے ہوئے لوگ متوجہ ہوتے میں اسے باہر لے آیا۔
ہم ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔ کہنے لگا ''آپ جانتے ہیں میرا کام فساد پھیلانا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا میں نے حلوائی کی دکان سے شیرہ لے کر دیوار پر لگایا تھا۔ اس پر مکھیاں بیٹھیں۔ مکھیوں پر چھپکلی حملہ آور ہوئی۔ چھپکلی پر بلی جھپٹی۔ عین اس وقت نواب کا نوکر کتا لیے وہاں سے گزر رہا تھا۔ کتے نے بلی پر حملہ کیا۔ بلی بھاگ گئی مگر کتے نے مٹھائی کے سارے تھال الٹ پلٹ کر دیے۔ حلوائی نے گرم کفگیر کتے کی گردن پر مارا۔ کتا مر گیا۔ اس پر نواب کے نوکر نے حلوائی کو تھپڑ مارا۔ حلوائی کے ملازموں نے نوکر کی پٹائی کر دی۔ نوکر گیا اور نواب کے بہت سے لوگ لے کر آیا۔ ادھر سے تمام دکاندار اکٹھے ہو گئے۔ بھرپور لڑائی ہوئی۔ بہت سے لوگ دونوں طرف سے مارے گئے۔ مگر یہ گئے دنوں کی بات ہے۔ اب میرا فساد پھیلانے کا سارا کام انسٹا گرام‘ یوٹیوب اور وَٹس ایپ والوں نے سنبھال لیا ہے۔ ایسا ایسا فساد فی الارض پھیلا رہے ہیں کہ میں اس کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ تو دیوار پر شیرہ بھی نہیں لگاتے۔ بغیر کسی وجہ کے پورے ملک میں طلبہ کے ہنگامے کرا دیے۔ کسی لڑکی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوئی مگر ان لوگوں نے وہ فساد پھیلایا کہ مجھ شیطان سے بھی کوسوں آگے نکل گئے۔ اب میرے باس‘ یعنی بڑے شیطان نے مجھے متنبہ کیا ہے کہ چونکہ میرا کام خود پاکستانیوں نے سنبھال لیا ہے اس لیے میری ٹرانسفر جنات کی دنیا میں کر رہا ہے۔ یہ کہہ کر اس نے پھر بھاں بھاں کر کے رونا شروع کر دیا۔ جنات کے ہاں فساد پھیلانا بہت مشکل تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان کے بہت سے لوگ اس سے محبت بھی کرتے ہیں‘ یہاں تک کہ بظاہر باعمل مسلمان بھی اندر سے اس کے ساتھی ہیں۔
میں نے اس سے پوچھا کہ وہ مجھ سے کیا مدد چاہتا ہے؟ کہنے لگا: اگر سوشل میڈیا کے ذریعے فساد پھیلانے والوں کو حکومت پکڑ کر کڑی سزائیں دے تو یہ لوگ شیطانیوں سے باز آ جائیں گے۔ یوں اس کی مصروفیت دوبارہ شروع ہو جائے گی اور تبادلہ روک دیا جائے گا۔ میں نے اسے جواب دیا کہ مجھے اس سے نفرت ہے مگر وہ اتنی دور سے آیا ہے اور معافی بھی مانگی ہے اس لیے ممکن ہوتا تو مدد کرتا مگر یہ توقع رکھنا کہ پاکستانی حکومت مجرموں کو پکڑ کر عبرتناک سزا دے گی‘ ناممکن ہے۔ پاکستان میں مجرموں کو پکڑنے اور سزا دینے کا رواج ہی نہیں‘ جتنا فساد اس لڑکی کے نام پر پھیلایا گیا ہے‘ اس کے بعد تو حکومت پر لازم تھا کہ مجرموں کو نشان عبرت بناتی مگر پاکستان میں مجرموں کو پکڑنے اور کیفرِ کردار تک پہنچانے کی روایت ہی نہیں۔ آج ہی عدالتوں نے اُن سینکڑوں افراد کو رہا کر دیا ہے جنہیں پولیس نے فساد پھیلانے پر گرفتار کیا تھا۔
نائب شیطان روتے روتے اچانک میری آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔

Thursday, October 17, 2024

پیر صاحب کی بیٹی کو کتا کھا گیا


یہ 2005ءیا 2006ءکی بات ہے۔ اخبار میں خبر پڑھی کہ گوجر خان کے نواحی گاوں میں ایک میّت کی تدفین کے وقت قبر سے آگ کے شعلے بلند ہوئے۔ تدفین مکمل ہوئی یا نہیں؟ اب یاد نہیں کہ خبر میں اس حوالے سے کیا بتایا گیا تھا۔ میں نے گاڑی لی‘ اپنے ڈرائیور چاچے علی احمد کو ساتھ لیا اور گھنٹے ڈیڑھ بعد اُس گاوں میں پہنچ گیا۔ آج اٹھارہ برس بعد گاوں کا نام بھی یاد نہیں۔ پنڈی سے آتے ہوئے جی ٹی روڈ کے دائیں طرف تھا اور اچھا خاصا بڑا گاوں تھا۔ گاوں میں داخل ہونے کے بعد پوچھا کہ کیا یہاں کوئی اخبار فروش ہے؟ ایک کھوکھے کی طرف رہنمائی کی گئی۔ اخبار فروش کو بتایا کہ فلاں اخبار میں کام کرتا ہوں اور یہ کہ اخباری خبر کے مطابق تدفین کے وقت قبر میں آگ جل رہی تھی‘ اس کی تفصیل کیا ہے؟ کہنے لگا کہ اس نے بھی سنا ہی ہے۔ عام طور پر چھوٹے قصبوں اور بستیوں میں ایک ہی اخباری نمائندہ تمام اخباروں کو خبریں بھیجتا ہے۔ اس سے اخباری نمائندے کا نام پوچھا۔ اس نے غور سے مجھے دیکھا۔ پھر کچھ سوچ کر کہنے لگا کہ اسے نام نہیں معلوم۔ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ وہ بتانا نہیں چاہتا تھا‘ وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی چھوٹی آبادی میں اخبار فروش‘ اخباری نامہ نگار کو نہ جانتا ہو۔ پھر پوچھا کہ میّت والا گھر کون سا ہے؟ اس نے بتایا کہ تدفین یہاں ہوئی ہے مگر پھُوہڑی (تعزیت کی جگہ) دوسرے گاوں میں ہے جو جی ٹی روڈ کی دوسری طرف واقع ہے۔ دوسرے گاوں میں جانے سے پہلے گاوں کے چند دکانداروں سے پوچھا کہ کیا آگ والی خبر درست ہے؟ اکثر اس خبر سے لاعلم تھے۔ کچھ نے کہا کہ انہوں نے بھی سنا ہے۔ اس اثنا میں چاچا علی احمد بھی گھوم پھر کر پوچھ گچھ کرتا رہا۔ مگر ہمیں کوئی ایسا شخص نہ ملا جس نے یہ واقعہ اپنی آنکھو ں سے دیکھا ہو۔ پھر ہم نے جی ٹی روڈ کو کراس کیا اور دوسرے گاو ں میں پہنچے۔ معلوم ہوا کہ یہ موت تو کئی ہفتے پہلے واقع ہوئی تھی۔ پھُوہڑی اٹھا دی گئی تھی۔ گھر میں کوئی مرد اس وقت دستیاب نہ تھا جس سے بات کی جاتی۔ ہم نے گاوں میں چل پھر کر بہت سے بھلے مانسوں سے پوچھا۔ عینی شاہد کوئی نہ ملا۔ اخبار میں خبر دینے والا شخص ملتا تو اس سے خبر کا سر چشمہ پوچھتے۔ لیکن اگر آگ دکھائی دی ہوتی تو گاوں میں ہر شخص کو اس کے بارے میں معلوم ہوتا اور عینی شاہد بھی کئی ہوتے!
ہمارے معاشرے میں کسی خبر‘ کسی واقعے یا کسی بات کی تصدیق ضروری نہیں۔ سارا سلسلہ افواہوں کی بنیاد پر قائم ہے۔ گواہ یا ثبوت پوچھنے کا دماغ ہی نہیں! ایک شخص ہانپتا کانپتا مولوی صاحب کے پاس آیا اور گویا ہوا کہ پیر صاحب کی بیٹی کو کتا کھا گیا ہے۔ مولوی صاحب نے پوچھا کون کہہ رہا ہے؟ جواب دیا قرآن پاک میں لکھا ہے اور یہ کہ اسے آج ہی معلوم ہوا ہے۔ مولوی صاحب کچھ دیر سوچتے رہے۔ پھر ہنسے اور کہا احمق! تُو نے بات کو کیا سے کیا کر دیا ہے۔ وہ پیر صاحب نہیں تھے‘ پیغمبر تھے اور بیٹی نہیں تھی پیغمبر کا فرزند تھا اور کتے نے نہیں کھایا تھا‘ بھیڑیے نے کھایا تھا اور بھیڑیے نے بھی کھایا نہیں تھا‘ بس بھائیوں نے جھوٹ بولا تھا۔ ایک راوی سے دوسرے راو ی تک‘ پھر تیسرے اور پھر چوتھے راوی تک بات کس طرح تبدیل ہوتی ہے‘ اسے سمجھنے کے لیے ایک کھیل ایجاد کیا گیا ہے جس کا نام ہے 
Chinese whispers 
یعنی "چینی سرگوشیاں"۔ کچھ بچے‘ فرض کیجیے پندرہ بچے‘ ایک دائرہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ پہلا بچہ ساتھ والے بچے کے کان میں ایک بات کہتا ہے۔ وہ بچہ اگلے بچے کو اور یوں یہ سرگوشی چلتے چلتے آخری بچے تک پہنچتی ہے۔ ہر بچے کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بات کو درست سنے اور بغیر کسی رد و بدل کے ساتھ والے بچے کے کان تک پہنچا دے۔ ساری احتیاط کے باوجود آخری بچے تک پہنچتے پہنچتے بات تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس کھیل کے مختلف ملکوں میں مختلف نام ہیں۔ برطانیہ‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں اسے "چینی سرگوشیاں" کہتے ہیں۔ امریکہ میں "ٹیلی فون گیم" اور بہت سے دوسرے ملکوں میں مختلف نام۔ یہ کھیل بہت بڑے پیمانے پر بھی کھیلا جاتا ہے۔ 2008ءمیں لندن میں یہ کھیل کھیلا گیا۔ 1330بچے اور کچھ مشاہیر شامل تھے۔ دو گھنٹے چار منٹ یہ کھیل جاری رہا۔ آغاز اس فقرے سے ہوا "ہم مل کر ایک مختلف دنیا بنائیں گے"۔ آخری کھلاڑی تک پہنچتے پہنچتے یہ فقرہ یوں ہو گیا "ہم ریکارڈ قائم کریں گے"۔ 2016ءمیں یہ کھیل آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں کھیلا گیا۔ اس میں 237 افراد شریک ہوئے جو سات مختلف زبانیں بولنے والے تھے۔ کھیل افلاطون کے اس قول کے سے شروع ہوا " زندگی ایک کھیل (ڈرامے) کی طرح گزاری جائے"۔ چھبیس گھنٹوں کے بعد جب کھیل الاسکا (امریکہ ) میں ختم ہوا تو افلاطون کے قول نے یہ شکل اختیار کر لی تھی "وہ گھونگوں کو دانتوں سے کاٹتا ہے"۔
اس کھیل سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ بات اپنے سفر کے دوران اپنی شکل تبدیل کر لیتی ہے۔ مگر جان بوجھ کر‘ ابلیسی ارادے کے ساتھ‘ خبر کو غلط رنگ دینا بہت بڑا جرم ہے اور گناہ بھی! اس میں دوسروں کی جان کو خطرہ ہے۔ ایک حالیہ شیطانی حرکت کے نتیجہ میں برطانیہ میں فسادات ہوئے اور مسلمان ظلم کا نشانہ بنے۔ مسلمانوں کو ایسے عمل سے خاص طور پر روکا گیا ہے۔ غیر ذمہ دارانہ طریقے سے بات پھیلانے والے کو فاسق قرار دیا گیا ہے۔ "اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو۔کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو (الحجرات:6)۔ غور کیا جائے تو یہی واحد طریقہ ہے جس سے غلط افواہوں کی روک تھام ہو سکتی ہے۔ جو لوگ مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں اور تحقیق کیے بغیر ہر سنی سنائی بات کو سچ مان لیتے ہیں‘ وہ نہ صرف بے وقوف اور کم عقل ہیں بلکہ قرآنی حکم کی مخالفت کا ارتکاب بھی کر رہے ہیں۔ یہ تو حکم تھا اس بات کے بارے میں جو ہم تک پہنچتی ہے۔ اب اگلا مرحلہ دیکھیے۔ فرمایا "کسی شخص کے جھوٹا ہونے 
ل
یے اتنا 

ہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو آگے بتاتا (پھیلاتا) پھرے"۔ یہ جو بھیڑ چال چلی ہے کہ "منقول" یا
Forwarded as received 

لکھ کر ہر رطب و یابس کو پھیلایا جائے اور فساد پھیلا کر لوگوں کی زندگیوں سے کھیلا جائے۔ یہ ایک مسلمان کا شیوہ نہیں ہو سکتا۔ میں اگر ظاہری شکل و صورت اور برہنہ ٹخنوں سے مسلمان ہونے کا اظہار کرتا ہوں‘ نماز پڑھتا ہوں‘ روزہ رکھتا ہوں‘ دیگیں چڑھاتا ہوں مگر افواہیں پھیلاتا ہوں‘ وٹس ایپ پر ہر سنی سنائی بات کو 
"Forward" 
کرتا پھرتا ہوں اور معاشرے میں ہیجان اور بدامنی پھیلاتا ہوں تو میں اچھا مسلمان ہر گز نہیں۔ ایک معروف ادیب کے بارے میں باوثوق ذریعے سے معلوم ہوا کہ انہوں نے میسج فارورڈ کرنے کے لیے ایک خاص وقت مخصوص کر رکھا ہے۔ ایک بیورو کریٹ بتا رہا تھا کہ صبح نماز پڑھنے کے بعد میسج فارورڈ کرتا ہے‘ لوگوں کو پھول بھیجتا ہے اور جمعہ کا دن ہو تو جمعہ مبارک بھی بھیجتا ہے۔ ہماری قوم کے پاس پیسہ دھیلا ہے نہ عقل! ہاں! فالتو وقت کروڑوں ٹنوں کے حساب سے ہے۔ اس لیے ہر روز جھوٹی سچی باتیں فارورڈ کرتے ہیں‘ پھول بھیجتے ہیں جن میں خوشبو نہیں ہوتی اور جمعہ مبارک بھیجتے ہیں۔ ویسے وٹس ایپ سے پہلے جمعہ مبارک کبھی نہیں سنا تھا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

Tuesday, October 15, 2024

ایک اور عبدالحمید


تب بھی ایک عبد الحمید شہید ہوا تھا۔
56 سال پہلے کی بات ہے۔ یہ دادا جان کا زمانہ تھا۔ طلبہ نے بغاوت کی۔ دادا جان کی فورس نے گولی چلائی۔ عبدالحمید نامی طالب علم شہید ہو گیا۔ اس 17 سالہ جوانِ رعنا کا تعلق پنڈی گھیب سے تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو اس کے والدین کی دلجوئی کے لیے اور طلبہ کی حمایت کے لیے پنڈی گھیب گئے۔ شہید کا خون رنگ لایا۔ دادا جان کی گرفت کمزور پڑنے لگی۔ پھر وہی ہوا جو ہر گردن بلند کے ساتھ ہوتا آیا ہے اور جسے ہر گردن بلند سمجھتا ہے کہ کبھی نہیں ہو گا۔ چند ماہ ہی گزرے تھے کہ اقتدار کی ریت پاؤں کے نیچے سے سرک گئی۔ رہے نام اللہ کا!
عبدالحمید کے خون کے علاوہ بھی دادا جان کے سر بہت کچھ ہے۔ آج پوتا کہتا ہے کہ ماشل لاء دادا جان نے نہیں لگایا تھا‘ اسکندر مرزا نے لگایا تھا۔ بالکل درست کہا۔ ابنِ خلدون اور ٹائن بی کے بعد یہی درست ترین تعبیر ہے تاریخ کی۔ اسکندر مرزا نے خود ہی اپنے آپ کو جلا وطن کر دیا اور سب کچھ دادا جان کو سونپ دیا۔ پھر اسکندر مرزا ہی نے روزنامہ امروز‘ پاکستان ٹائمز اور لیل و نہار پر قبضہ کرکے پریس کا گلا گھونٹ دیا۔ جس نام نہاد آئینی کمیشن نے پارلیمانی نظام کے نقائص گنوائے تھے‘ وہ بھی اسکندر مرزا نے گن پوائنٹ پر قائم کیا تھا۔ پھر یہ اسکندر مرزا ہی تھا جس نے انتخابات میں مادرِ ملت فاطمہ جناح کی ''شکست‘‘ کا انتظام کیا تھا۔ اسی نے مادرِ ملت کو غدار بھی قرار دیا تھا۔ یہ اسکندر مرزا ہی تھا جس نے Nincompoop منعم خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر بنا کر ملک کے منہ پر کالک ملی۔ یہ اسکندر مرزا ہی تھا جو کھلم کھلا کہتا تھا کہ ان بنگالیوں نے ہمارے ساتھ نہیں رہنا۔ اسکندر مرزا ہی نے حسین شہید سہروردی جیسے قد آور سیاستدان کو قید کیا جو بیروت میں پُراسرار حالات میں مردہ پائے گئے۔ یہی وہ زخم تھا جو بنگالی کبھی نہ بھول پائے۔
دادا جان تو معصوم تھے۔ یہ اسکندر مرزا ہی تھا جس نے دادا جان کے گلے پر پاؤں رکھ کر مجبور کیا کہ جب تک دم میں دم ہے‘ اقتدار نہ چھوڑنا کہ ایسا نہ ہو کسی مشرقی پاکستانی کو پاکستان کی حکمرانی مل جائے۔ پھر یہ اسکندر مرزا ہی تھا جس نے ایوب خان کو حکم دیا کہ اقتدار چھوڑ رہے ہو تو آئین پر عمل نہ کرنا اور فوج کو ہی ملک پر مسلط کر کے رخصت ہونا۔ یوں اسکندر مرزا کے حکم پر دادا جان نے حکمرانی کا تاج جنرل یحییٰ خان کے سر پر رکھ دیا۔ بلکہ یہ اسکندر مرزا ہی تھا جس نے پوتے کو مجبور کیا کہ صبح شام‘ رات دن پارٹیاں بدلو۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسکندر مرزا کو ان تمام جرائم کی‘ بعد از مرگ سزا دی جائے اور دادا جان کو جمہوریت کا بطلِ جلیل قرار دیا جائے۔
56 سال بعد تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا ہے۔ ایک اور عبد الحمید شہید ہوا ہے۔ چار اکتوبر 2024ء کے دن ریاست پاکستان کے ملازم عبدالحمید کو اپنے منصبی فرائض کی ادائیگی کے دوران احتجاج کرنے والی پارٹی کے کارکنوں نے اغوا کیا اور بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے عبدالحمید شہید ہو گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس معاملے کا پوتے سے براہِ راست کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر پوتے کو تاریخ اور فلسفۂ تاریخ پر کمال کی دسترس ہے۔ پوتے نے جب دیکھا کہ 56 سال پہلے دادا جان کی فورس نے جس معصوم کو شہید کیا تھا اس کا نام بھی عبدالحمید تھا اور اس ماہ جس بے گناہ کو پوتے کی پارٹی کے کارکنوں نے شہید کیا ہے اس کا نام بھی عبدالحمید ہے تو پوتا جذباتی ہو گیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ یہ تو تاریخ کا تسلسل ہے اور دادا پوتا دونوں ایک طرف کھڑے ہیں جبکہ دونوں شہید دوسری طرف کھڑے ہیں۔ اس پر پوتے نے ٹیلی ویژن پر پوری دنیا کو بتایا کہ عبدالحمید کی وفات تو ہائی بلڈ پریشر اور ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہوئی ہے۔ پوتے نے شہید کے بیٹوں کا بھی حوالہ دیا۔ بدقسمتی سے شہید عبدالحمید کے بیٹوں کو اس باطل دعوے کا علم ہو گیا۔ انہوں نے ثبوت کے ساتھ پوتے کا دعویٰ رد کر دیا۔ شہید کے بیٹوں نعمان اور حماد کا کہنا ہے کہ والد کی میڈیکل رپورٹ کے مطابق ان کے سر اور جسم کے دیگر حصوں پر زخموں کے نشانات تھے۔ چار اکتوبر کو پی ٹی آئی کے احتجاج کے دوران شدید زخمی ہونے کے باعث پولیس کانسٹیبل عبدالحمید شاہ کی شہادت ہوئی۔ دوسرے بیٹے حماد حمید شاہ کے مطابق اس کے والد چار اکتوبر 2024ء کو پی ٹی آئی کے جلسے میں شہید کیے گئے۔ سی ٹی سکین رپورٹ کے مطابق ان کے سر پر چوٹ اور سینے پر زخموں کے نشانات تھے۔پہلے عبد الحمید کے قاتل کو بھی کوئی سزا نہیں ملی:
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا 
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
دوسرے عبدالحمید کے قاتلوں کو بھی کوئی نہیں پوچھنے والا۔ کوئی اور ملک ہوتا اور ریاست کا افسر شہید ہوتا تو مارنے والوں کی نسلیں بھی یاد رکھتیں۔ مگر یہاں ریاست کے اہلکار کا قصور یہ ہے کہ وہ انسان بھی ہے اور انسان کے خون کی اس دیار میں کوئی وقعت‘ کوئی قدر و قیمت نہیں۔ آپ کو یاد نہیں کہ کوئٹہ میں بھی ریاست کا اہلکار ڈیوٹی دے رہا تھا۔ دن دہاڑے ایک گردن بلند نے اسے اپنی گاڑی کے نیچے کچل دیا۔ پھر کیا ہوا؟ قاتل انگلیوں سے فتح کا نشان بناتا ہوا‘ دندناتا ہوا‘ جیل سے بھی نکل آیا اور مقدمہ بھی اپنی موت مر گیا۔ تاریخ کی دردناک ستم ظریفی دیکھیے کہ کل ایک عبدالحمید کو دادا کی فورس نے مار دیا۔ آج ایک اور عبدالحمید مارا جاتا ہے تو پوتا اس کے قاتلوں کے دفاع میں برسر عام دروغ گوئی کا مرتکب ہوتا ہے۔ یہ حسنِ اتفاق ہے یا سوئِ اتفاق؟ مگر جو کچھ بھی ہے عبرتناک ہے اور درد انگیز!
ہم کب تک مارنے والوں کا دفاع کرتے رہیں گے اور کب تک مرنے والوں کے ماتم میں سینہ کوبی کرتے رہیں گے؟ کب تک؟ آخر کب تک؟ قوم تو ایک ہی ہے۔ ملک تو ایک ہی ہے! قبیلہ تو ایک ہی ہے۔ اس قبیلے کا نام پاکستان ہے۔ دھرتی ماں کے سینے پر ہم کیوں خون کی ہولی کھیل رہے ہیں؟ کیا ہم دیکھ نہیں رہے کہ ماں زخموں سے چور ہے۔ ہم نے تو اکٹھے ہو کر اس ماں کی خدمت کرنا تھی۔ ہم کیوں اسے خون کے آنسو رُلا رہے ہیں؟ ہم عقل سے عاری کیوں ہو گئے ہیں؟ ہم آنکھیں بند کر کے ان کے پیچھے کیوں چل رہے ہیں جن کے پاس آگ اور خون کے سوا کچھ نہیں۔ وہ ہر جگہ آگ لگانا چاہتے ہیں۔ ہر جگہ خون بہانا چاہتے ہیں۔ گھر میں مہمان آ جائے تو ناہنجار سے ناہنجار فرزند بھی خاموش ہو جاتا ہے کہ مہمان کی بے حرمتی نہ ہو اور میزبان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا نہ لگ جائے۔ مگر ہم کیسے فرزند ہیں کہ مہمانوں کی موجودگی میں اپنے ہی گھر کی عزت خاک میں ملانا چاہتے ہیں۔ کیا شرفا ایسا ہی کرتے ہیں؟ بخدا نہیں! اور کچھ نہیں تو ہم اپنے حسب نسب ہی کا خیال کر لیں! ہمارے بزرگ تو ایسے نہ تھے۔ ہمارے خاندانوں کی تو یہ روایت نہ تھی۔ ہم پٹھان‘ ہم پنجابی‘ ہم سندھی‘ ہم اُردو بولنے والے‘ ہم کشمیری‘ ہم گلگتی‘ ہم بلتی‘ ہم چترالی‘ ہم سب تو بڑی غیرت والے تھے۔ رکھ رکھاؤ والے تھے۔ وضعدار تھے۔ افسوس آج ہم مہمانوں کے سامنے اپنے آپ کو رسوا کرنے پر تُلے ہوئے ہیں! اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعا ہے۔

 

powered by worldwanders.com