پہلا منظر: وہ سب ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں ۔ایک دوسرے کو تھپڑ رسید کرہے ہیں ۔ایک نے دوسرے کو بالوں سے پکڑ رکھا ہے جس کے بال پکڑے ہوئے ہیں وہ پکڑنے والے کے سینے پر مکے برسا رہا ہے۔ جس کی چھاتی پر مکے پڑ رہے ہیں وہ لاتیں چلا رہا ہے، کچھ کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں ۔ کچھ دونوں فریقوں کے ساتھ مل کر لڑائی کا دائرہ بڑھا رہے ہیں ۔اب تین تین چار چار افراد نہیں بلکہ پانچ پانچ چھ چھ دست و گریباں ہیں ۔کچھ سامان پر گر رہے ہیں ۔ سامان دور دور تک بکھرا پڑا ہے۔ اب لڑنے والوں کی عورتیں بھی میدا ن میں آگئی ہیں ، وہ ایک دوسرے کے بال نوچ رہی ہیں ۔کانوں میں پڑے بندے اور بالیاں کھینچ رہی ہیں ۔ ایک جوان عورت نے ایک بوڑھی عورت کو مکہ ایسا کھینچ کر مارا ہے کہ بوڑھی عورت دہری ہوگئی ہے۔ چھڑانے والے اور شہ دینے والے الگ الگ پہچانے نہیں جارہے۔ سب ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہیں ۔ پورا ڈیپارچر لاؤنج میدا ن جنگ بنا ہوا ہے۔ اہلکار غائب ہیں ،کچھ تماشا دیکھ رہے ہیں اور کچھ بے بس نظر آرہے ہیں ۔
دوسرا منظر:جہاز لینڈ کرتا ہے۔ جہازی سائز ہی کی ایک کار ائیر پورٹ بلڈنگ سے فراٹے بھرتی نکلتی ہے اور سیدھی جہاز کے پاس آکر رکتی ہے۔ جہاز سے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی اترتے ہیں جہاز سے اترتے وقت آخری سیڑھی پر یہ دونوں پاؤں رکھتے ہیں اور وہاں سے براہ راست کار میں بیٹھتے ہیں ۔مشکل سے ایک یا دو قدم زمین پر پڑتے ہیں ۔ کسی لاؤنج سے ان کا گزر نہیں ہوتا ۔جاتے وقت بھی کوئی تلاشی نہیں ہوتی ۔کسی سکیننگ دروازے سے نہیں گزرتے ۔کوئی قانون، کوئی ضابطہ، کوئی ڈرل کوئی ایس او پی ان پر لاگو نہیں ہوتی۔
تیسرا منظر: یہ کینیڈا ہے ۔مسافر قطار میں کھڑے ہیں ۔ اپنی اپنی باری پر پاسپورٹ دکھاتے ہیں ۔ٹکٹ پیش کرتے ہیں ۔ سامان جمع کراتے ہیں اور بورڈنگ کارڈ لے کر اندر جانے والے رستے پر ہو لیتے ہیں ۔ اس قطار میں کینیڈا کا وزیراعظم بھی کھڑا اپنی باری کا انتظار کررہا ہے۔ اس کے پیچھے ایک عام شہری کھڑا ہے جسے کوئی نہیں جانتا کہ وہ کون ہے ۔اسی قطار میں خاکروب بھی کھڑا ہے ۔کابینہ کا وزیر بھی کھڑا ہےاور پارلیمنٹ کا رکن بھی ٹکٹ ہاتھ میں لیے اپنی باری کا انتظار کررہا ہے۔
آپ کینیڈا ،برطانیہ ،امریکہ ،آسٹریلیا ،ڈنمارک ،سوئٹزرلینڈ کے ایک ایک ائیر پورٹ کا معائنہ کر لیجئے۔ ایک بار نہیں سو سو بار جائزہ لیجئے،فلمیں بنا لیجئے، آپ کو کوئی شخص قطار کی بے حرمتی کرتا نظر نہیں آئے گا، پہلے منظر میں جس خوفناک جنگ کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ جنگ اسلام آباد ائیر پورٹ پر تین دن پہلے دیکھی گئی ہے۔ یہ پہلی جنگ نہیں ۔ آخری بھی نہیں ،کیوں ؟ یہ آپ اپنے آپ سے پوچھیے !ان لڑائیوں کا کیا سبب ہے؟
اس طبقاتی تقسیم کا لازمی نتیجہ ہے جو پاکستان جیسے ملکوں میں جاری و ساری ہے۔ جس میں کچھ لوگوں کے لیے کاریں ہوائی جہازوں تک جاتی ہوں اور باقی عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح چھوڑ دیا جائے،وہاں یہی کچھ ہوتا ہے ۔وہاں لوگ بازاروں میں ،بسوں کے اڈوں پر ،ائیرپورٹوں پر ،بینکوں کے سامنے بل جمع کرواتے وقت، دکانوں کے کاؤنٹر پر قطار یں توڑتے ہیں ۔ کوئی اعتراض کرے تو قطار توڑنے والے اس پر پل پڑتے ہیں ۔
یہ لڑائیاں ،یہ جھگڑے ،یہ گالم گلوچ ،غلام قوموں کی نشانی ہے۔غلامی صرف یہ نہیں کہ سفید فارم گروہ کالوں پر حکومت کرے یا عرب افریقیوں پر حکمرانی کریں یا برطانیہ ہندوستان پر قبضہ کرلے یا امریکہ فلپائن کو محکوم کرلے یا ہانگ کانگ پر ملکہ الزبتھ راج کرے۔ یہ تو غلامی کی آسان ترین شکل ہے۔اس لیے کہ اس میں کوئی ابہام نہیں ! کوئی شک و شبہ نہیں ،حاکم اور محکوم کے رنگ الگ الگ ہیں ۔ زبانیں اپنی اپنی ہیں ۔ حاکموں کا ہوم کنٹری برطانیہ یا امریکہ ہے۔یہ غلامی عارضی ہوتی ہے۔ ایک نہ ایک دن کوئی قائداعظم ،کوئی نیلسن منڈیلا کوئی سوئیکارنو اٹھتا ہے اور انگریزوں کو اور ولندیزیوں کو اپنے ملک سے نکال باہر کرتا ہے۔
غلامی کی بدترین شکل وہ ہے جس میں حاکم و محکوم کا رنگ ایک ہے ۔زبان ایک بولتے ہیں مگر دنیائیں الگ الگ ہیں۔ آپ نے سنا ہوگا جب انگریز حکمران تھے تو ٹرینوں کے ڈبوں پر ،ریستورانوں پر،کلبوں پر،لکھا ہوتا تھا کہ مقامی افراد کا داخلہ منع ہے۔ مگر پاکستانی آج جس بدترین غلامی سے گزر رہے ہیں اس پر ایسا کہیں بھی لکھا ہوا نہیں مگر ہر ڈبہ، ہر ریستوران، ہر سکول،ہر ہسپتال الگ ہے۔ کیا آپ نے میاں نواز شریف کو ،آصف زرداری کو، بلاول اور بختاور کو ،مریم نواز کو ،اسحاق ڈار کو، مولانا فضل الرحمن کو، کسی بازار سے سودا سلف خریدتے دیکھا ہے؟ کسی سرکاری ہسپتال میں قطار میں کھڑے ہوکر پرچی بنواتے دیکھا ہے؟ کسی ائیر پورٹ پر لائن میں کھڑے ہوکر اپنا سامان تلواتے اور بورڈنگ کارڈ وصول کرتے دیکھا ہے؟ نہیں ،کبھی نہیں ،اس لیے کہ ان کی دنیا الگ ہے۔ ان کے جہاز الگ ہیں ، ان کے شاپنگ سینٹرز الگ ہیں ، کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ میاں شہباز شریف سال میں کتنی مرتبہ میڈیکل چیک اپ کے لیے لندن جاتے ہیں ؟ان حضرات کی عام خریداری بھی لندن کے سپر سٹور وں میں ہوتی ہے۔ یہ چائے پینے لندن کے ریستورانوں میں جاتے ہیں ۔ کیا ان میں سے کسی کو آپ نے فورٹرس سٹیڈیم یا آپ پارہ یا جناح مارکیٹ میں چائے پیتے یا شاپنگ کرتے دیکھا ہے؟ اگر آپ نے آج تک نوٹ نہیں کیا تو آئندہ نوٹ کیجئے کہ جب ان حکمرانوں کی سواری گزرتی ہے اور جب روٹ لگتا ہے اور جب ٹریفک بند کردی جاتی ہے تو جو گاڑی جو موٹر سائیکل جو بس جو ویگن جو سوزوکی ڈبہ جو ٹرک جہاں ہوتا ہے ،وہیں جام ہوجاتا ہے ۔ اس کے بعد جب ٹریفک کھلتی ہے تو آج کے بعد نوٹ کیجئے کہ جو ہڑبونگ اور افراتفری برپا ہوتی ہے اسے دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ بھیڑیں باڑے سے باہر نکلی ہیں ۔پھر ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے او رتاخیر کی تلافی کے لیے، یہ مجبور،یہ مقہور، یہ مظلوم، یہ مغضوب عوام گتھم گتھا ہوجاتے ہیں ۔ ایک دوسرے کے بال نوچتے ہیں ،ایک دوسرے کو زمین پر گرا کر لاتوں ، مکوں ، ٹھڈوں کی بارش برساتے ہیں ۔ حکمرانوں کی سواری اسی اثناء میں میلوں دور پہنچ چکی ہوتی ہے۔ جہاں پھر سے روٹ لگایا جاتا ہے اور یہ کہانی اپنے آپ کو دہر ارہی ہوتی ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے ،زمینی حقیقت یہی ہے ۔ سیاست دان ،اپوزیشن کے ہیں یا حزب اقتدار کے ،ایک ہی کلب کے رکن ہیں ۔ کابینہ کے ارکان ،قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان، لاڑکانہ رائے ونڈ، گجرات، ڈیرہ اسماعیل خان اور کوئٹہ کے حکمران خاندان سب ایک دوسرے سے ایک غیر مرئی مگر مضبوط رشتے میں بندھے ہیں ۔تازہ ترین کتاب جو چوہدری شجاعت حسین کی بازار میں دستیاب ہے،پڑھ لیجئے ۔ چوہدری برادران نے ہر موقع پر شریف خاندان کی مدد کی اور حمایت کی ۔آج مخالف ہیں مگر کل پھر اکٹھے ہوجائیں گے، اس بڑے کلب میں ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا معمول کی کارروائی ہے۔ مشاہدحسین سید کل بھی اسی کلب کے رکن تھے، آج بھی اسی طاقت ور کلب کے رکن ہیں ، فردوس عاشق اعوان ،نذر گوندل، عمر ایوب خان، ندیم افضل چن، چوہدری نثار علی خان کل بھی حکمران تھے ،آج بھی حکمران ہیں اور کل بھی حکمران رہیں گے۔
جس روز نواز شریف ،مریم نواز ،بلاول زرداری، آصف زرداری ،بختاور ،حمزہ شہباز، مولانا فضل الرحمن، اسحاق ڈار اور دوسرے حکمران عوام کے ساتھ قطاروں میں کھڑے ہوں گے ،یہ کالم نگار اس پروردگار کی ،جس نے کل حشر کے میدان میں سب کو ایک قطار میں کھڑے کرنا ہے ،قسم کھا کر کہتا ہے کہ یہ لڑائیاں ختم ہوجائیں گی۔جس دن ائیر پورٹ پر یا ریستوران میں ،یا سپر سٹور پر سودا سلف خریدتے وقت یا ہسپتال میں پرچی بنواتے وقت،آپ کے آگے نواز شریف اور آپ کے پیچھے بلاول زرداری کھڑے ہوں گے ،کوئی قطار توڑے گا نہ کوئی ایک دوسرے کے بال نوچے گا نہ کوئی سامان کے اوپر گرے گا نہ کوئی گالی سنائی دے گی۔
وہ رُت اے ہم نفس جانے کب آئے گی
وہ فصل دیر رس جانے کب آئے گی
یہ نو نمبر کی بس جانے کب آئے گی!
No comments:
Post a Comment