چوہدری شجاعت حسین کی کتاب”سچ تو یہ ہے “ میں کچھ واقعات دلچسپ ہیں اور سبق آموز بھی۔ میاں نواز شریف نے کس بنیاد پر محمد رفیق تارڑ صاحب کو ملک کی صدارت کے لیے چنا ،سب کو معلوم ہے۔یہی وہ بنیاد تھی جس پر صدر ایوب خان نے ایک گمنام وکیل عبدالمنعم خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر تعینات کیا۔ سابق صدر محمد رفیق تارڑ نے صدارت کے لیے چنے جانے کا قصہ چوہدری شجاعت حسین کو “پُر جوش انداز” میں بتایا۔ چوہدری صاحب اسے یوں بیان کرتے ہیں (یہاں پنجابی سے اردو میں ترجمہ کرکے لکھا جارہا ہے)
“شجاعت !میں اپنی پنشن لینے نیشنل بینک لاہور گیا ہوا تھا۔ وہاں مجھے اچانک ایک ٹیلی فون آیا۔ میں نے فون اٹھایا تو فون کرنے والے نے بتایا کہ تارڑ صاحب !میں نواز شریف بول رہا ہوں ، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ کو ملک کا صدر بنادیا جائے، مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ اس فون کا کیا مطلب ہے کیا یہ فون نواز شریف ہی کا ہے ۔یا کسی نے میرے ساتھ مذاق کیا ہے ؟ میں نے فون کرنے والے کو کہا کہ میں آپ کو گھر جاکر فون کرتا ہوں ۔ گھر پہنچ کر مجھے خیال آیا کہ میں کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہا۔ اس بات کی تصدیق کرنے کے لیے میں نے اپنی ران کی چٹکی لی( میں اپنی ران تے چونڈی وڈی)
چوہدری صاحب لکھتے ہیں کہ نئے صدر کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو وزیراعظم نواز شریف نے اسلام آباد کی سٹیٹ بینک بلڈنگ میں پانچ چھ شخصیات کو الگ الگ بلوایا اور ان کا ایک طرح کا انٹر ویو کیا۔ ان میں سرتاج عزیز اور مجید نظامی بھی شامل تھے ۔بھارت میں جن نامور اور بلند پایہ شخصیات کو منصب صدارت کے لیے چنا جاتا رہا ،سرتاج عزیز اور مجید نظامی ان کے مقابلے کے اور اسی سطح کے تھے۔ مگر ان سے خدشہ یہ تھا کہ موم کی ناک ثابت نہیں ہوں گے اور مجسم “آمنا و صدقنا” کا کردار نہیں ادا کریں گے۔
ممنون حسین صاحب کے انتخاب سے پہلے سرتاج عزیز کا نام پیش منظر پر چھایا ہوا تھا۔ انہیں صدارت کا منصب سونپا جاتا تو یہ انتخاب ملک کے لیے احترام اور افتخار کا باعث ہوتا ۔سرتاج عزیز اعلی تعلیم یافتہ ہیں ۔اقوام متحدہ میں مدتوں کام کیا۔کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔ہر فورم پر اپنا مانی الضمیر اردو انگریزی میں انتہائی موثر انداز میں بیان کرسکتے ہیں ۔مگر خدشہ یہ تھا کہ وہ تو فائل پڑھیں گے ،سوالات اٹھائیں گے اور صرف “ہاں “نہیں بلکہ کبھی کبھی “نہیں “ بھی کردیں گے ۔ایسا صدر ،وزیراعظم صاحب کو راس نہیں آسکتا تھا۔
لال مسجد والوں نے جب چینیوں کو اغوا کیا تو معاملہ کسی طرح چینی حکومت کی بلند ترین سطح تک پہنچا اس کا علم پہلی بار چوہدری شجاعت حسین ہی کے ذریعے ہورہا ہے۔ یہ اقتباس ذرا طویل ہے مگر دلچسپی کا حامل ہے۔ اس سے اندزہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب ہمارے ہا ں “فری فار آل ” کا کھیل کھیلا جارہا تھا ،دوسرے ملکوں میں کتنی بلند سطح پر ان کارروائیوں کا نوٹس لیا جارہا تھا۔
“ایک روز علی الصبح ملازم نے مجھے جگایا اور کہا کہ چینی سفیر
Luozhao Hui
آئے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ فوری طور پر آپ سے ملنا چاہتے ہیں ۔ملازم نے بتایا کہ ہم نے انہیں کہا کہ چوہدری صاحب اس وقت آرام کررہے ہیں لیکن ان کا اصرار ہے کہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ ان کافوری طور پر چوہدری صاحب سے ملنا ضروری ہے ۔ میں نے کہا اچھا انہیں اندر بٹھاؤ ،میں آتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد جب میں ان سے ملنے کے لیے ڈرائنگ روم میں آیا تو میں نے محسوس کیا کہ چینی سفیر اور ان کے ساتھ آنے والا عملہ غیر معمولی طور پر مضطرب ہے ۔میں نے پوچھا خیریت تو ہے؟ کیا بات ہے؟ آپ لوگ بہت گھبرائے ہوئے ہیں ۔چینی سفیر نے کہا ہم رات دو بجے سے مار ےمارے پھر رہے ہیں لیکن ابھی تک حکومت کے کسی ذمہ دار آدمی سے ہمارا رابطہ نہیں ہوسکا۔ ہم مجبور ہوکر آپ کے پاس آئے ہیں ۔ پھر چینی سفیر نے بتایا کہ چینی مساج سینٹر کے عملے کو لال مسجد کے لوگوں نے پہلے مارا پیٹا اور پھر اغوا کرلیا ہے۔ میں نے کہا یہ تو بڑے افسوس کی بات ہے۔کچھ کرتے ہیں ۔ابھی ہم یہ باتیں کرہی رہے تھےکہ چینی سفیر کو چین کے صدر کا فون آیا۔ چینی سفیر نے صدر سے بات مکمل کرنے کے بعد مجھے بتایا کہ صدر صاحب پوچھ رہے ہیں ، کیا پیش رفت ہوئی ہے ۔ہم نے انہیں بتایا کہ یہاں آپ کے پاس بیٹھے ہیں اور کوشش کررہے ہیں ۔ دن نکل آیا تھا ،میں نے غازی عبدالرشید سے ٹیلی فون پر رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی ۔ آپریٹر کے پاس ان کا ڈائریکٹ نمبر نہیں تھا ۔اس لیے رابطہ نہیں ہورہا تھا۔ پھر میں نے صحافی حامد کو فون کرکے پوچھا کہ کیا ان کے پاس غازی عبدالرشید کا ڈائریکٹ نمبر ہے ۔حامد میر نے کہا میں ابھی آپ کی ان سے بات کرواتا ہوں ۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد غازی عبدالرشید کا فون آگیا۔ میں نے ان سے کہا کہ جامعہ حفصہ کے طلباء نے چینی مساج سینٹر کے چینی باشندوں کو مارنے پیٹنے کے بعد اغوا کرلیا ہے ۔چین ہمار ادوست ملک ہے۔ ہر مشکل اور نازک موقع پر اس نے ہمارا ساتھ دیا ہے۔ اگر چین جیسے دوست ملک کے باشندوں کے ساتھ یہاں اس طرح کا سلوک ہوتا ہوگا تو ہمارے بارے میں وہ کیا سوچیں گے ۔غازی عبدالرشید نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے طلبا کو اس طرح کی کوئی ہدایت جاری نہیں کی وہ اپنے طور پر گئے ہوں گے۔ میں نے کہا یہ وقت ان باتوں کا نہیں آپ جامعہ حفصہ والوں سے کہیں کہ فوری طور پر چینی باشندوں کو رہا کردیں ۔میری اس بات پر غازی عبدالرشید نے کہا ٹھیک ہے ۔کل تک چینی باشندے رہا ہوجائیں گے۔ میں نے کہا کل تک تو بہت دیر ہوجائے گی۔چینی باشندوں کی رہائی کے لیے جب غازی عبدالرشید سےیہ گفتگو کررہا تھا تو چینی سفیر کو دوسری بار فون آیا۔ انہوں نے چینی باشندوں کی خیریت دریافت کی ۔چینی سفیر کا کہنا تھا کہ صدر اس واقعہ پر سخت مضطرب ہیں ۔وہ جلد از جلد چینی باشندوں کی رہائی چاہتے ہیں ۔ میں نے دوبارہ رابطے شروع کئے۔ غازی عبدالرشید سے میں نے کہا چینی صدر کے نمائندے خود چل کر ہمارے پاس آئے ہیں ۔میری موجودگی میں دو مرتبہ چین کے صدر ان سے اس بارے میں پوچھ چکے ہیں ۔ بہر حال شام تک کسی نہ کسی طرح چینی باشندوں کو رہا کرانے میں کامیاب ہوگیا ۔ غازی عبدالرشید سے بات کرنے کے بعد اپنے سٹاف کو بھی چینی نمائندے کے ساتھ بھیجا کہ وہ ابھی چینی باشندوں کو لے کر آئیں ۔ چینی سفیر کا پاکستانی ڈرائیور چینی زبان جانتا تھا اس لیے اسے بھی ساتھ بھجوا دیا۔یہ لوگ چینی باشندوں کو باز یاب کرا کے سیدھے میرے پاس گھر لے آئے ،ان میں ایک مرد اور چار پانچ عورتیں تھیں ۔ خواتین نے مجھے اپنے زخمی بازو دکھائے کہ کس طرح تشدد کیا گیا۔ چینی مرد نے زخموں کی وجہ سے اس وقت پینٹ بہت مشکل سے پہن رکھی تھی۔ اس کی تکلیف کا اندازہ کرنا مشکل تھا ۔چینی عورتوں کے اغوا کے بعد حکومت کے پا س آپشن کا ایک جواز آگیا۔ کیونکہ ڈپلومیٹک انکیلو کا فاصلہ لال مسجد سے تقریباً اڑھائی کلو میٹر تھا اور وہ غیر محفوظ ہورہا تھا”
یہ روداد پڑھنے کے بعد ایک اور سوال بھی ذہن میں اٹھتا ہے ۔اگر خدانخواستہ کہیں ،کسی ملک میں ،چار پانچ پاکستانی اغواہو جائیں تو کیا ہمارے وزیراعظم یا صدر، اپنے سفیر سے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد براہ راست فون کرکے صورت حال پوچھیں گے؟
اقوام کی عزت کی ایک علامت یہ بھی ہے ؟ طاقتور ملک اپنے ایک باشندے کی حفاظت کے لیے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں ۔ سنگا پور میں جب ایک امریکی نوجوان کو کوڑے مارنے کی سزا سنائی گئی تو امریکی صدر نے سنگا پور کے صدر سے خود بات کی۔ یہ کوڑے بھی نہیں تھے۔ ڈنڈے تھے اس سزا کو سنگا پور میں
Caning
کہا جاتا ہے۔یعنی چھڑی سے مارنا۔ ہزاروں پاکستانی بے یارومدد گار دوسرے ملکوں کے قید خانوں میں پڑے ہیں ۔خاص طور پر مشرق ِ وسطی کے ملکوں میں ،کئی بے گناہ ہیں ،مگر حالت یہ ہے کہ پاکستانی سفارت خانے ،سب نہیں مگر اکثر ان کی دست گیری نہیں کرتے اور بے نیازی اور تغافل کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔رہے ہمارے اعلی ترین سطح کے حکمران تو ان کی بلا سے ۔
چند خواتین ارکان اسمبلی نے ان دنوں جامعہ حفصہ کا دورہ کیا ۔ان میں سے ایک نے واپسی پر بتایا۔
گیٹ کے اندر سے ہمارااستقبال ایک نقاب پوش خاتون نے کیا ،جو ہمیں مسجد کے اندر لے گئیں ۔مختلف برآمدوں میں سے ہوتے ہوئے جب ہم مسجد کے بڑے صحن میں پہنچیں تو اوپر منزل پر نقاب پوش ڈنڈا بردار طالبابھی تھیں۔ صحن میں موجود خواتین نے عام سادہ کپڑے پہن رکھے تھے۔ جنہوں نے ہمیں دیکھتے ہی “انقلاب “اور انتقام” کے نعرے لگانے شروع کردئیے۔
آخر میں قارئین کی تفنن طبع کی خاطر چوہدری شجاعت حسین کی کتاب سے ایک اور اقتباس۔۔
"ایک مرتبہ میں نے جنرل مشرف سے پوچھاآپ کو نواز شریف کے والد میاں محمد شریف نے اپنے گھر کھانے پر بلایا تھا اور آپ کی بیگم بھی آپ کے ہمراہ تھیں ۔ اور کھانے کے بعد میاں شریف نےآپ سے کہا تھا کہ آپ میرے چوتھے بیٹے ہیں ؟ جنرل مشرف نے ہنستے ہوئے کہا ہاں! ایسے ہی ہوا تھا۔ میں نے کہا ، اس روز آپ کی ملاقات کے بعد جب میں اور پرویز الہی میاں شریف صاحب سے ملنے کے لیے گئے تو آ پ کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے ہم سے کہا کہ میں نے نواز (وزیراعظم نواز شریف سے کہا کہ اسے (جنرل پرویز مشرف) کو فوراً فارغ کردو۔ میں نے اس کی آنکھیں دیکھی ہیں ۔بڑی خطرناک آنکھیں ہیں ۔”
No comments:
Post a Comment