گاؤں چھوٹا تھا۔ ذات کے وہ ترکھان تھے،کئی نسلوں سے کچے مکانوں میں بیٹھے لوگوں کا کام کررہے تھے۔کبھی معاوضہ سال میں دوبار ہاڑی ساونی کی شکل میں ملتا تھا۔اب کچھ نقد بھی ملنے لگا تھا۔ حیثیت وہی تھی کہ ترکھان تھے۔کمی کہلاتے تھے ۔پہلے مکان بھی زمیندار کے دیے ہوئے تھے ‘پھر ان لوگوں نے آہستہ آہستہ جوں توں کرکے اپنی زمینیں خریدیں اورچار چار پانچ پانچ مرلے کے ملکیتی گھر بنا لیے۔
انہی کی ایک لڑکی تھی جو سکول میں داخل ہوئی۔ ماں باپ نے ہمت کی ۔پڑھاتے رہے۔ دسویں جماعت پاس کی۔ پھر گھر بیٹھ گئی۔ پڑھنے کا ،آگے بڑھنے کا شوق تھا۔ پرائیویٹ ایف اے کا داخلہ بھیج دیا ۔پاس ہوگئی ،پھر بی اےکرلیا۔ پھر ایم اے کرلیا ۔ اب وہ چاہتی ہے کہ کوئی نوکری مل جائے۔ کہیں استانی لگ جائے ‘کسی دفتر میں کلرک ہوجائے ،شادی ہوگئی۔ میاں بھی ایک دفتر میں ملازمت کرتا تھا۔ اس نے بھی کوشش کی مگر کہیں کام نہ بنا۔
انہی دنوں میں گاؤں گیا۔ لڑکی کے سسر نے بتایا کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن لاہور نے آسامیاں مشتہر کی ہیں ۔کیا کیا جائے؟ کہا اشتہار کے مطابق درخواست دےدو۔ یاد آیا کہ ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ،پنجاب پبلک سروس کمیشن میں ممبر تعینات ہے اور اچھا خاصا متعارف ہے۔اسے درخواست کی نقل بھیجی اور استدعا کی کہ جو مد دبھی روا ہوسکتی ہے ،بہم فرمائے اور احسان مند کرے۔ممبر نے کوئی جواب نہ دیا۔نہ ہوں ،نہ ہاں ۔
بعد میں نواز شریف حکومت نے ان صاحب کو ایک اور بڑے منصب پر تعینات کیا ،درخواست دہندہ لڑکی کو بھی لاہور سے کوئی جواب،کوئی اقرار،یہاں تک کہ کوئی انکار بھی موصول نہ ہوا۔
یہ گاؤں دریائے سندھ کے مشرقی کنارے سے کچھ کوس مزید مشرق کی طرف تھا ۔فاصلہ اتنا زیادہ تھا کہ غریب خاندان کے لیے لاہور آنا جانا، وہاں کے دفتروں کے چکر لگانا،وہاں واقفیت تلاش کرنا ،سفارش ڈھونڈنا ۔ناممکن تھا۔
رہا پنجاب پبلک سروس کمیشن جس کا کام صوبے کے عوام کو میرٹ پر ملازمتیں فراہم کرنا ہے تو اس میں جو ممبر تعینات ہوتے ہیں وہ خود میرٹ پر تعینات نہیں ہوتے ‘تو عوام کو میرٹ پر کیا دیں گے۔ تعیناتی کا واحد معیار اوپر تک رسائی ہے۔ اکثریت کا تعلق وسطی پنجاب سے ہے۔جنوبی پنجاب کی نمائندگی پھر بھی ہوجاتی ہے مگر پنجاب کے مغربی اضلاع سے بس خال خال ہی ہوتی ہے!
یہ مغربی اضلاع(میانوالی ،اٹک ،چکوال ،جہلم ،راولپنڈی )لاہور سے نہ صرف دور ہیں ،بلکہ ثقافتی اور لسانی اعتبار سے بھی الگ ہیں اور اپنی ہی اکائی رکھتے ہیں ۔ آپ کا کیا خیال ہے مری ،حضر و فتح جنگ، جنڈ،عیسیٰ خیل ،پنڈ دادنخان ،ٹمن اور لاوا کے لوگوں کے لیے لاہور جانا کتنا آسان ہے؟ ان علاقوں کا ترقیاتی بجٹ کٹ کٹ کر لاہور پر خرچ ہوتا رہا ۔ ایک دوست دلیل دے رہے تھے کہ بڑے شہر شان و شوکت کا سمبل ہوتے ہیں ۔ آخر پیرس اور لندن پر بھی تو خرچ ہوتا ہے۔! بجا فرمایا!بالکل ہوتا ہے، مگر دوسرے اضلاع اور تحصیلوں کا بجٹ نہیں ، صرف وہ بجٹ خرچ ہوتا ہے،جو پیرس اور لندن ہی کے لئے مختص ہوتا ہے۔ کوئی موازنہ کرکے دیکھ لے کہ میانوالی ،چکوال، جہلم، راولپنڈی، اوراٹک کے اضلاع میں کتنے ترقیاتی کام ہوئے اور لاہور قصور سیالکوٹ فیصل آباد او رگوجرانوالہ کے اضلاع میں کتنے ہوئے؟ پنجاب کے وزیر اعلی قصور، سیالکوٹ ،فیض آباد گوجرانوالہ، اور شیخوپورہ میں کتنی بار دوروں پر گئے؟ اور اٹک،میانوالی، چکوال، جہلم اور راولپنڈی کے علاقوں میں کتنی بار آئے؟ اعدادو شمار سے واضح ہوجائے گا ۔مگر پنجاب حکومت اعداو شمار ان خطوط پر کبھی نہیں دے گی۔ پنجاب حکومت مغربی اضلاع کے عوام کو کبھی نہیں بتائے گی کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ممبران میں سے کون کس علاقے سے تعلق رکھتا ہے۔سب کو معلوم ہے اور بچہ بھی جانتا ہے کہ کہاں کہاں کا غلبہ ہے !
الگ صوبہ صرف جنوبی پنجاب ہی کا نہیں’ان مغربی اضلاع کا بھی الگ صوبہ بننا چاہیے !کوئی آج مانے نہ مانے ‘مستقبل بعید میں میانوالی اٹک چکوال جہلم او رراولپنڈی کے اضلاع پر مشتمل الگ صوبہ بننا ہی بننا ہے۔ راولپنڈی اس صوبے کا صدر مقام ہوگا اور یہ علاقے دور افتادہ لاہو رکی گرفت سے آزاد ہوجائیں گے،وہ لاہور جہاں سے اٹک کے گاؤں کی ڈسپنسری کے لیے بیس لاکھ روپے کا ملنا ناممکن ہے!!
جنوبی پنجاب خوش قسمت ہے ‘جسے رؤف کلاسرہ جیسا دبنگ ‘بلندآواز اور بےخوف صحافی ملا ہے۔ جو ہر فورم پر جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ جنوبی پنجاب کے حقوق مانگتا ہے۔ فائٹ کرتا ہے ‘بہاولپور خوش قسمت ہے کہ ‘جسے محمد علی درانی جیسا سر گرم علمبردار ملا ہے۔ بہاولپور کےالگ صوبے کا قصہ ایک اور المناک داستان ہے۔ !پاکستان بنا تو بہاولپورایک ریاست تھی ،ایک امیر اور فیاض ریاست! پھر اسے صوبہ بنایا گیا،ون یونٹ بنا تو یہ صوبہ ختم ہوگیا۔ 1970ء میں ون یونٹ ٹو ٹا ۔صوبے بحال ہوگئے مگر بہاولپور کا صوبہ بحال نہ کیا گیا۔
انجم غریب شہر تھے اب تک اسیر ہیں
سارے ضمانتوں پہ رہا کردیے گئے!
2008ء میں محمد علی درانی نے پھر تحریک شروع کی کہ بہاولپور کو الگ صوبہ بنایا جائے، مئی 2012ء میں پنجاب اسمبلی نے متفقہ قرار دار پاس کی کہ جنوبی پنجاب کا صوبہ تخلیق کیا جائے اور بہاولپور کا صوبہ بحال کیا جائے۔ یہ قرار دار رانا ثنا اللہ نے پیش کی۔ اس کے چنددن بعد پنجاب کے وزیر اعلی شہبا زشریف نے سرکٹ ہاؤس بہاولپور میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ مسلم لیگ نون بہاولپور صوبہ بحال کرے گی۔ اگلے انتخابات میں مسلم لیگ نون کو وفاق کی عملداری بھی مل گئی، مگر وعدے ہوا میں اڑ گئے۔ چار سال وفاق او رپنجاب دونوں نے نئے صوبوں کا نام تک نہ لیا، یہاں تک کہ پانا مہ کی افتاد آن پڑی ‘میاں نواز شریف کی وزارت اعظمٰی ختم ہوگئی ،اگرچہ وفاق میں حکومت انہی کی پارٹی کی برقرار رہی!
دوسری طرف بھارت میں مسلسل نئے صوبے بنتے رہے۔ نہ صرف لسانی بنیادوں پر بلکہ انتظامی بنیادوں پر بھی! صرف 1956ء کے بعد کی صورت حال دیکھ لیجیے!
1960ء میں بمبئی ریاست کو دو ریاستوں گجرات اور مہاراشٹر میں تقسیم کردیا گیا۔ (بھارت میں صوبوں کو ریاست کہا جاتا ہے)
1963ء میں ناگا لینڈ کی ریاست وجود میں آئی۔
1966ء میں پنجاب کو تین ریاستوں میں منقسم کردیا گیا ،ہریانہ ،ہماچل پردیش اور پنجاب!
1972ء میں مانی پور،میگا لایا اور تری پوری کی ریاستیں آسام ریاست سے نکالی گئیں ۔اندازہ لگائیے صرف دو اضلاع پر مشتمل ایک نئی ریاست میگا لایا بنا دی گئی کیوں کہ انتظامی ضرورت تھی۔ کسی نے اعتراض نہ کیا کہ صرف دو اضلاع سے ریاست کیسے بن سکتی ہے؟
1987 ء میں ارونا چل پردیش او رمیز ورام کی دو ریاستیں تشکیل ہوئیں ۔
2000ء میں تین نئی ریاستیں وجود میں آئیں مدھیا پردیش میں سے چھتیس گڑھ نکالی گئی۔ یو پی میں سے اتر کھنڈ نکلی اور بہار کے جنوبی اضلاع کو جھاڑ کھنڈ کے نام سےالگ ریاست بنا دیا گیا ۔
2014ء میں آندھرا پردیش (حیدر آباد دکن) کے ایک حصے کو الگ کرکے تلنگانہ ریاست بنادی گئی۔
اس کے مقابلے میں مکروہ مفادات ہمارے ہاں عوام کو ایک ہی تخت کے نیچے محکوم بنا کر رکھنا چاہتے ہیں ۔مانسہرہ سے سائل بس میں بیٹھے اور پشاور جائے تب اس کا کام ہوگا ۔کیوں نہ اس کے صوبے کا صدر مقام ایبٹ آباد ہو؟ بنوں اور ڈی آئی جی خان والا پشاور کیوں جائے؟ ٹانک اور لکی مروت سے پشاور جانا کیا ایک عام شہری کے لیے آسان ہے؟ کیوں نہ وہاں نیا صوبہ بنے؟ بنوں یا لکی مروت یا ڈیرہ اس کا ہیڈ کوارٹر ہو، سندھ اور بلوچستان کے لوگوں کو بھی ان خطوط پر سوچنا ہوگا۔
تاہم اصل مسئلہ پنجاب کا ہے۔ مسلم لیگ نون اس وقت صرف وسطی پنجاب کے اضلاع کی بنیاد پر پورے پاکستان کی چودھری بنی ہوئی ہے۔ جب پنجاب کو رقبہ کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ثابت کرنا ہوتو بہاولپور سے لے کر اٹک میانوالی تک سارے اضلاع یاد آجاتے ہیں مگر جب جوتیوں میں دال بانٹنی ہو تو صرف وسطی پنجاب دکھائی ہے۔ مسلم لیگ نون کی حکومت ضلع ناظم کے ادارے کو بھی برداشت نہ کرسکی۔ اس لیے کہ وہ سارے اختیارات لاہور اپنے قدموں میں حاضر رکھنا چاہتا ہے ،اصولی طور پر مغربی ( یاشمالی) پنجاب کا صوبہ انتظامی بنیادوں پر الگ ہونا چاہیے۔ مقامی حکومتوں کو مستحکم ہونا چاہیے۔ ضلع ناظم کے ادارے کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا اور اسے مالی اور انتظامی اختیارات دینے ہوں گے۔ پوری دنیا میں اختیارات کی مرکزیت توڑ کر اختیارات صوبہ ضلع اور تحصیل سطح تک لائے جارہے ہیں ۔ پاکستان میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ ضلع ناظم ختم کرکے ہر ضلع میں غلام ڈپٹی کمشنر رکھ لیے گئے ‘ جو سانس لیتے وقت بھی لاہور سے اجازت لیتے ہیں ۔
آج نہیں تو کل،کل نہیں تو پرسوں ،ایک نہ ایک دن پنجاب کو انتظامی بنیادوں پر کم از کم چار صوبوں میں بانٹنا ہوگا۔ وانتظر واانا منتظرون ۔تم بھی انتظار کرو !ہم بھی منتظر ہیں ۔
No comments:
Post a Comment