Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, April 26, 2018

تخت خالی نہیں رہا کرتا


یہ 2014 ء کا سال تھا او راپریل کا چودھواں دن، سینیٹ کا اجلاس ہورہا تھا ۔نماز مغرب کے وقفے کے بعد ایم کیو ایم کے طاہر حسین مشہدی نے ایک تحریک پیش کرنے کی اجازت چاہی۔ اس تحریک کا نفس مضمون  یہ تھا کہ وزیراعظم سینیٹ کے اجلاس میں تشریف لایا کریں ۔پاکستانی “جمہوریت” کی بدقسمتی کہ سیاسی جماعتوں کے ارکان “مالک “ کے ذاتی ملازموں کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ ذاتی ملازم قرار دینا بھی ملازمت پیشہ لوگوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ وفادار کہنا زیادہ مناسب ہے!اس تحریک کی بھی وفاداروں نے بھرپور مخالفت کی !ایک سینیٹر دور کی کوڑی لایا کہ وزیراعظم مختلف بحرانوں سے نمٹنے میں مصروف ہیں ان کے پاس وقت نہیں ۔تلخی اس قدر بڑھی کہ پیپلز پارٹی ،اے این پی اور مسلم لیگ قاف کے ارکان واک آؤٹ کرگئے انہیں منا کر لایا گیا۔ جنرل ضیا الحق کے اوپننگ بیٹس مین راجہ ظفر الحق نے ایک اور چال چلی ۔انہوں نے تجویز پیش کی کہ “تحریک کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا جائے” ( تاکہ بلا وقتی طور پر ٹلے) اپوزیشن ڈٹی رہی۔بالآخر تحریک اکثریت سے منظور کرلی گئی۔ اس تحریک کی رو سے وزیراعظم سینیٹ کے اجلاس کے دوران ہفتے میں ایک روز لازماً  حاضر ہوں گے اور ارکان کے سوالوں کے جواب دیں گے! تحریک پیش کرنے کی اجازت دینے پر ڈپٹی چئیرمین سینیٹ صابر علی بلوچ کو بھی طعنوں کا ہدف بننا پڑا ایک حکومتی سینیٹر نے الزام لگایا  کہ آپ ملک کو تباہی کی طرف لے جارہے ہیں ۔
یہ اپریل  تھا!تحریک پیش کرنے والوں کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ جون 2013ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد تحریک پیش کرنے کے وقت تک  (یعنی اپریل 2014ء تک)دس ماہ کے عرصہ میں وزیراعظم ایک بار بھی سینیٹ نہیں آئے۔
وزیراعظم کا رویہ اس کے بعد بھی یہی رہا۔ قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بھی وہ کبھی کبھار ہی آئے ان کے بھائی نے پنجاب اسمبلی کے ساتھ یہی قبائلی سرداروں والا رویہ روا رکھا۔
وزیراعظم کی پارلیمنٹ میں اور وزراء کی صوبائی اسمبلیوں میں حاضری پارلیمانی جمہوریت کا لازمی جزو ہے! برطانوی ہاوس آف کامنز میں وزیراعظم ہر بدھ کو ارکان کے سوالوں کا جواب خود دیتا ہے! پاکستان میں یوسف رضا گیلانی باقاعدگی سے پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں حاضر ہوتے تھے ۔سندھ کے وزیراعلیٰ صوبائی اسمبلی میں باقائدگی سے آتے ہیں ۔
آمریت اور جمہوریت میں بنیادی فرق ہی یہ ہے کہ آمریت میں سوال نہیں پوچھا جاسکتا! آمر جوچاہے کرے۔اس سے اس کی وجوہات نہیں پوچھی جاسکتیں !غؤر کریں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ شریف برادران کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں آمریت کا یہ نشان پوری آب و تاب سے چمکتا رہا ہے۔ اور اب بھی چمک رہا ہے !بے شمار سوالوں کے جواب نہیں مل رہے !وزیراعظم پارلیمنٹ میں آتے اور ارکان کے جسموں میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی تو کچھ سوال ضرور پوچھے جاتے ،مثلاً
وزیراعظم مہینوں علاج کے لیے لندن مقیم رہے تو ان  کی عدم موجودگی میں ان کی دختر نیک اختر کس رُؤل کے تحت غیر ملکی سفیروں کو شرفِ ملاقات  بخشتی رہیں اور کاروبارِ حکومت چلاتی رہیں ۔
وزیراعظم اپنے چار سالہ عہد اقتدار میں کتنی بار لندن گئے؟
ان کے چھوٹے بھائی نے کس ضابطے کی رو سے   وفاقی معاملات میں مداخلت کی بلکہ وفاقی امور طے کیے مثلاً قطر سے گیس کا معاہدہ؟
وزیراعظم نے اکنامک کو آرڈی نیشن کمیٹی ( ای سی سی) کے کسی ایک اجلاس کی صدارت نہیں کی۔ کیوں ؟ 1993ء کے بعد اس کی صدارت مستقل طور پر وزیراعظم کو سونپ دی گئی تھی!
وزیراعلی پنجاب سے اگر صوبائی اسمبلی کا حساب کتاب لینے کی  پوزیشن ہوتی تو آج عدالت عظمی کو سارے کام خود نہ کرنے پڑتے۔ وزیراعلٰی پنجاب نےآج تک کسی اسمبلی میں کابینہ کے کسی اجلاس میں کسی پریس کانفرنس میں کسی ایسے سوالات کا جواب نہیں دیا جس سے ان کی آمریت پر حرف آتا ہو ،مثلاً ان کے صاحبزادے کس قانون کے تحت صوبے کےسیاہ و سفید کے مالک ہیں ؟اور تعیناتیوں سے لے کر دیگر امور تک ۔ہر معاملے میں دخیل ہیں !
وہ کئی کئی ماہ اور کئی کئی سال تک یونیورسٹیوں اور ہسپتالوں کے مستقل سربراہ کیوں نہیں تعینات کرتے ؟
پنجاب میں کتنے ہسپتال اور کتنے تعلیمی ادارے نواز شریف اور شہباز شریف کے نام پر ہیں ؟
2008
ء سے لے کر اب تک وزیراعلی کتنی بار لندن گئے؟
آخر وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بنا پر وزیراعلی کا طبی معائنہ پاکستان کے کسی ہسپتال میں نہیں ہوسکتا ؟
ْ اسمبلیاں ‘کیا وفاقی اور کیا صوبائی، حکمرانوں سے کسی سوال کا جواب نہیں حاصل کرسکتیں ،مگر صحافت کا کردار بھی اس ضمن میں عجیب و غریب رہا ہے۔ فوائد اٹھانے والوں 
Beneficiaries
 کیمجبوریاں  مضحکہ خیز ہیں ۔انہیں یہ  دکھ تو ہے کہ فلاں وائس چانسلر نے بیرون ملک سے فلاں ڈگری   لی ہوئی ہے تو اسے کیوں فارغ کیا گیا مگر وہ یہ سوال کبھی نہیں اٹھائیں گے کہ اڑھائی برس سے مستقل وائس چانسلر کیوں نہیں تعینات کیا گیا۔ کیا جمہوریت میں اس سوال کا جواب حاصل کرنا گناہ ہے؟اور اگر گناہ نہیں تو جواب کیوں نہیں دیا جاتا؟
فوائد اٹھانے والے اور فوائد نہ اٹھانے والے صحافیوں  کا فرق روشن دن کی طرح واضح ہے۔روزنامہ 92 نیوز کے کالم نگار محمد عامر خاکوانی نے جرات کے ساتھ پنجاب کے وزیراعلی کے فلسفہ حکمرانی کو واضح کیاہے۔ملاحظہ کیجئے

 ،دراصل یہ میاں شہباز شریف کا مخصوص سٹائل ہے کہ کسی اہل اور دیانت دار شخص کو میرٹ پر تعینات کرنے کے بجائے اس سیٹ پر جونئیر' کم صلاحیت رکھنے والا افسر قائم مقام کی حیثیت سے لگا دیتے ہیں جو برسوں تک وہیں پر کام کرتا رہتا ہے اور صلہ میں خادم پنجاب سے ذاتی وفاداری نبھاتا ہے یہ وہ حربے اور تکنیکس ہیں جن کی وجہ سے نون لیگی قیادت پر سیاسی مافیا ہونے کا الزام لگتا ہے۔تب نون لیگی وفادار لکھاری اور ان کے پُر جوش حامی برہم ہوتے ہیں ۔ غصہ کرنے کے بجائے انہیں اپنی قیادت پر اخلاقی دباؤ ڈالنا 
چاہیے کہ وہ قوانین کی پابندی کرتے ہوئے  پرفارم کریں۔
روزنامہ 92 ہی کے کالم نگار آصف محمود نے ان اداروں کے نام گنوائے ہیں جن پر ان حکمرانوں نے اپنے اور اپنے اقربا کے ناموں کی تختیاں لگادی ہیں ۔آصف محمود لکھتے ہیں
“کبھی حساب لگا لیجئے اس ملک میں قائداعظم ‘اقبال اور مادرِ ملت کے نام سے کتنے ادارے ہیں اور شریفوں اور بھٹوؤں کے نام سے کتنے ادارے ہیں ؟ یہ ملک ایک امانت ہے یا ان دو خاندانوں کی چراہ گاہ؟
جب منتخب اسمبلیاں گونگی بہری ہوجاتی ہیں تو پھر عدلیہ کو اور فوائد نہ اٹھانے والے صحافیوں کو حکمرانوں سے سوالوں کے جواب مانگنے پڑتے ہیں ۔مثلاً پارلیمنٹ کو وزیراعظم سے پوچھنا چاہیے تھا کہ وہ لندن جاکر کن لوگوں سے ملتے رہے؟ جب پارلیمنٹ اس معاملے میں صم بکم ثابت ہوئی تو صحافت نے اپنا کردار ادا کیا ،ارشاد عارف لکھا
احتساب عدالت سے مفرور حسن نواز کے دفتر میں حاضری عدالت عظمی سے نااہل نواز شریف اور دو دیگر اشتہاری حسین نواز اور اسحاق ڈار سے مشاورت کرکے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ثابت کہا کہ
حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے 
امریکی ائیر پورٹ پر جو ہوا ٹھیک ہوا
صحافت کے بعد عدلیہ کو بھی کہنا پڑا کہ “وزیراعظم بیرو ن ملک مفرور ملزم سے ملتے ہیں ۔ شاید انہیں قانون کا پتا نہیں “جب اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے جسموں سے ریڑھ کی ہڈیاں غائب ہوجائیں اور جب کاروں پر جھنڈے لہرانے والے کابینہ کے ارکان خاموش رہنے لگیں تو عدلیہ اور صحافت اپنا کردار ادا کرتی ہے تخت صرف حکمرانی کا نہیں ہوتا !ایک تخت وہ بھی ہے جس پر سچائی بیٹھتی ہے۔یہی تخت باقی رہتا ہے عدلیہ اور صحافت آج اسی تخت پر بیٹھی ہوئی ہے منیر نیازی نے کہا تھا
ایک وار ث ہمیشہ ہوتا ہے
تخت خالی رہا نہیں کرتا
پس نوشت ،دن کے گیارہ بجے تک انٹر نیٹ پر اخبارات  نہ ملے تو ادھر ادھر سے پوچھا معلوم ہوا کہ ہاکر حضرات کی تنظیم نے یہ فیصلہ کرایا ہے کہ گیارہ بجے سے پہلے اخبارات انٹر نیٹ پر نہ چڑھائے جائیں ۔ہاکر حضرات کا مطالبہ اپنی جگہ مگر پورے احترام سے ان کی خدمت میں دو گزارشات پیش ہیں ۔ اول جو لوگ انٹر نیٹ پر اخبارات پڑھنے کے عادی ہیں وہ ہر حال میں انٹر نیٹ ہی پر پڑھیں گے خواہ گیارہ بجے تک انتظار ہی کیوں نہ کرنا پڑے اس لیے کہ وہ اب ہارڈ کاپی پڑھنے کی عادت سے محروم ہوچکے ہیں دوم بیرون ملک بیٹھے ہوئے کروڑوں اخبار بینوں کے ساتھ یہ صریحاً ظلم ہے امید ہے ہاکر حضرات ان گزارشات پر غور فرمائیں گے


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com