بہت محنت کرکے میں نے تقریر تیار کی جو سیمینار میں کرنا تھی۔مگر افسوس! میاں نواز شریف صاحب نے اپنے معرکہ آرا ء سیمینار میں مجھے مدعو ہی نہیں کیا۔ اس عظیم الشان سیمینار کا موضوع “ووٹ کو عزت دو” تھا۔
مجھے یقین تھا کہ میاں صاحب اس سیمینار میں مجھے ضرور بلائیں گے ۔نہیں بلایا تو قلق ہوا۔ مگر جب سیمینار کی روداد میڈیا میں پڑھی تو افاقہ ہوا اور ڈھارس بندھی! اس لیے کہ ان کے معروف جاں نثاروں جناب دانیال عزیز، جناب زاہد حامد ،جناب امیر مقام اور محترمہ ماروی میمن کو بھی سیمینار میں تقریر کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ نہ صرف یہ کہ انہیں تقریر کرنے کا موقع نہیں دیا گیا ۔میاں نواز شریف نے اپنی تقریر میں یہ بھی اعلان کردیا کہ انہیں ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔
میاں صاحب نے جمہوریت کی اصل روح کو دریافت کرتے ہوئے پارٹی بدلنے والوں کو ٹکٹ نہ دینے کا اعلان کیا ۔اس کا واضح مطلب ہے کہ جو صاحبان پارٹی بدل کر ان کے ساتھ آ شامل ہوئے ،میاں صاحب نے ان کی اصلیت کو بلآخر پہچان لیا ہے۔ پارٹی بدلنے والوں میں تازہ ترین نام جناب مشاہد حسین سید کا ہے۔ قوم میاں صاحب کے اس عزم کی بھرپور تائید کرتی ہے اور امید کرتی ہے کہ وہ اپنے اس اعلان کے مطابق ان حضرات کو ٹکٹ نہیں دیں گے جو جنرل مشرف کے ساتھ رہے ، جو قاف لیگ میں نہ تھے اور پھر پارٹی بدل کر نون لیگ میں آدھمکے۔
یہاں مجھے میاں نواز شریف اور عظیم فاتح چنگیز خان میں ایک زبردست مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ چنگیز خان کوئی شہر فتح کرتا تھا تو سب سے پہلے ان غداروں کو سزائے موت دیتا تھا جنہوں نے اپنی حکومت سے بے وفائی کرکے چنگیز خان کی مدد کی تھی! چنگیز خان کی دلیل یہ تھی کہ جب وہ اپنوں کے ساتھ وفا نہ کرسکے تو اس کا ساتھ کیا وفا کریں گے۔ چنانچہ میاں نواز شریف صاحب نے بھی اسی روایت کے تحت کہا ہے کہ وہ پارٹی بدلنے والوں کو ٹکٹ نہیں دیں گے۔ بلکہ اپنے اس اعلان کے مطابق مشاہد حسین سید کی سینیٹ کی سیٹ پر بھی نظر ثانی کریں گے!
عام رواج یہ ہے کہ ایسے سیمیناروں میں دانشوروں اور لکھاریوں کو بلایا جاتا ہے مگر میاں صاحب نے اس سیمینار میں کسی ادیب دانشور کو مدعو نہیں کیا، حالانکہ اس وقت بہت سے دانشور صحافی اور کالم نگار میاں صاحب کی حمایت میں بول رہے ہیں اور لکھ رہے ہیں ۔ ان کے بجائے میاں صاحب کے ساتھ دائیں بائیں اس سیمینار میں مولانا فضل الرحمن ،محمود اچکزئی اور میر حاصل بزنجو بیٹھے تھے۔
بہر طور اس سیمینار میں جو تقریر مجھے کرنا تھی ،قارئین کے افادہ کے لیے اسے یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ خواتین و حضرات !میں ناچیز ‘میاں صاحب کو اس عظیم الشان سیمینار کے انعقاد پر مبارکباد دیتا ہوں اور اس امر پر مزید مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے مولانا فضل الرحمن ،جناب محمود اچکزئی اور جناب حاصل بزنجو جیسے محب وطن پاکستانیوں کو اپنے ساتھ بٹھایا ہے! پاکستان کے قیام میں ان حضرات کے بزرگوں کا کردار لاثانی اور لافانی ہے۔ جناب محمود اچکزئی کے والد گرامی کانگریس کے ساتھ تھے۔ انہیں بلوچی گاندھی بھی کہا جاتا تھا ،پاکستان کی سالمیت کے لیے محمود اچکزئی نے بھی بے مثال قربانیاں دیں ہیں ۔ جون 2016ء ہی میں اچکزئی صاحب نے اعلان کیا کہ خیبر پختون خوا کا صوبہ افغانوں کا ہے۔افغانستان ٹائمز نے اچکزئی صاحب کا یہ انٹر ویو نمایاں طور پر چھاپا ۔ خوش آئند امر یہ تھا کہ مسلم لیگ نون کے کسی رکن نے کسی وزیر نے یہاں تک کہ خود اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے اچکزئی کےاس بیان کی تردید نہیں کی !گویا “خاموشی نیم رضا”کے اصول کے مطابق مسلم لیگ نون نے بھی تسلیم کرلیا کہ کے پی، افغانوں کا ہے!یہاں میں ایک اور پُر مسرت خبر’ اس سیمینار کی وساطت سے جناب میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی کو یاد دلانا چاہتا ہوں ۔یہ خبر 6 جولائی 2016ء کو انگریزی روزنامہ دی نیشن میں چھپی تھی۔ اس خبر کی رُو سے محمود خان اچکزئی نے ایرانی خفیہ ایجنسی کے کارندے رمضان نورزئی سے دس لاکھ ڈالر وصول کیے۔نورزئی کا تعلق افغانستان کے صوبے ہلمند سے تھا۔ اسے استعمال کرنے والے ایرانی کرنل کا نام سردار دہقان تھا! افغان خفیہ ایجنسی کے سربراہ جنرل عبدالرزاق کا بھی محمود اچکزئی سے گہرا تعلق ہے ۔جنرل عبدالرزاق پاکستان دشمنی کے لیے مشہور ہے۔
میں میاں نواز شریف کو اس بات پر بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ سیمینار میں ان کے ساتھ تشریف فرما مولانا فضل الرحمن کی جماعت نے پاکستان کی تحریک میں قیام پاکستان کے لیے انتھک”کام “ کیا ان کے بزرگ تحریک پاکستان کے ”ہر اول” دستے میں شامل تھے!!
میں میاں نواز شریف کے اس فیصلے کی تحسین بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اس تاریخی سیمینار میں انہوں نے پیپلز پارٹی جماعت اسلامی ،تحریک انصاف، ایم کیو ایم ،پاک سرزمین پارٹی سمیت کسی پارٹی کو نہیں بلایا۔ یہ سب پارٹیاں مل کر بھی حب الوطنی کے اس دریا کا مقابلہ نہیں کرسکتیں جو مولانا فضل الرحمن اور محمود خان چکزئی کے دلوں میں ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔
اس سیمینار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ افواہیں بھی میاں صاحب کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں ۔” زبانِ خلق کو نقارہ خدا سمجھو “ کی رُو سے ان افواہوں کو سچ سمجھنے ہی میں مصلحت ہے۔
پہلی افواہ یہ ہے کہ محمود خان اچکزئی نے اپنے چودہ قریبی رشتہ داروں کو سرکاری عہدوں پر بٹھانے پر شدید احتجاج کیا ہے اور مسلم لیگ نون کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان رشتہ داروں کو ہٹایا جائے تاکہ اچکزئی صاحب پر اقربا پروری کا الزام نہ لگے۔
دوسری افواہ جو ملک کے طول و عرض میں گردش کررہی ہے یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن جو شیخ الہند کا نفرنس منانے کے لیے مشہور ہیں ‘اب کے میاں نواز شریف کے کہنے پر “ قائداعظم کانفرنس” کا انعقاد کررہے ہیں ۔ جس میں تحریک پاکستان کے حوالے سے زبردست نعرے لگیں گے اور تقریریں ہوں گی۔
خواتین و حضرات !اب اس سیمینار کی اصل روح کی طرف آتا ہوں یعنی” ووٹ کو عزت دو” !میں حاضرین کو بتانا چاہتا ہوں کہ “ووٹ کو عزت دو” میاں صاحب کا محض نعرہ نہیں ‘انہوں نے اس پر عمل کرکے بھی دکھا یا ہے۔ چار سالہ عہدِ حکومت میں انہوں نے ووٹ کو عزت دینے کی ایسی ایسی درخشندہ مثالیں چھوڑی ہیں کہ آفرین کہنے کو دل کرتا ہے۔ مہینوں وہ قومی اسمبلی نہیں آتے تھے۔انہوں نے آج تک قومی اسمبلی کے کسی اجلاس میں کسی رکن کے سوال کا جواب خود نہیں دیا ۔ اپریل 2014 میں سینیٹ میں قرار دار پیش کی گئی جس کی رُو سے وزیراعظم کا ہفتہ میں ایک بار سینیٹ آنا لازمی قرار پایا۔ اس قراردار کے بعد بھی وزیراعظم سینیٹ میں ہفتہ وار بلکہ مہینہ وار بھی نہ گئے۔
ووٹ کو عزت دینے کے لیے میاں صاحب نے چھ چھ آٹھ آٹھ مہینے کابینہ کا اجلاس نہ بلایا۔
پھر جب وزیراعظم علاج کے لیے کئی ماہ لندن مقیم رہے تو یہ ووٹ کی عزت ہی تھی، جس کی رُوسے کاروبارِ مملکت ان کی بیٹی نے سنبھالے۔ وہ اگرچہ ووٹ لے کر نہیں آئی تھیں ۔ مگر یہ حقیقت کہ وزیر اعظم ان کے والد تھے ،لاکھوں کروڑوں ووٹوں پر حاوی تھی۔ غیر ملکی سفیر بھی اسی اثنا میں انہی کو ملتے آتے تھے۔ ووٹ کو عزت دینے کے لیے میاں صاحب نے فنڈز اپنے داماد کے سپرد کردیے کہ جس ایم این اے کو چاہیں نوازیں !
ووٹ کا دوسرا نام شریف فیملی ہےاس لیے ووٹ کو عزت دینے کے لیے وہ پارٹی کی سربراہی خاندان سے باہر نہیں جانے دیتے۔ ان کے بعد مسلم لیگ نون کی سربراہی ان کے بھائی کے حصے میں آئی ہے۔ بھائی کو نہ ملتی تو بیگم یا صاحبزادی اس منصب کی سزاوار ہوتیں ! یہ ووٹ کی عزت ہی تو ہے جس کی بنیاد پر ان کا بھتیجا صوبے کے سیاہ و سفید کا مالک ہے۔ اس کا شاہانہ پروٹوکول ووٹ کی عزت سے ہی تو نکلا ہے۔
میاں صاحب نے تقریر میں آمریت کا نوحہ بھی پڑھا ہے۔ فرمایا کہ چار فوجی آمر وں کا عرصہ اقتدار 32 برسوں پر محیط ہے۔ یہاں وہ جنرل ضیا الحق کے زمانے کو غلطی سے آمریت میں شامل کر گئے۔ ضیا الحق کے زمانہ ء آمریت کے دوران ہی تو گورنر غلام جیلانی نے’ جو جرنیل تھے،شریف خاندان کو دریافت کیا۔ یہ جو میاں صاحب آج وزیراعظم کو نکالے جانے پر اعزاداری کررہے ہیں تو اصل میں وہ یہ بھول گئے کہ جنرل ضیا الحق کے پورے عہدِ اقتدار میں،اور پھر اس کے بعد ،ایک بار بھی میاں صاحب نے منتخب وزیر اعظم کے پھانسی چڑھنے کا ذکر نہیں کیا۔ ووٹ کی عزت کی خاطر ہی تو انہوں نے محمد خان جونیجو کےنیچے سے کرسی کھینچی اور خود اس پر بیٹھ گئے۔ انہیں تو طوالت ِ عمری کی دعا بھی ایک امر ہی نے یہ کہہ کردی تھی کہ یہ زندگی ان کی اپنی ہے یا یا وہ ٹکڑا ہے جو جنرل ضیا الحق نے عطیہ کیا تھا۔
شب وصال بہت کم ہے آسماں سے کہو
کہ جوڑ دے کوئی ٹکڑا شبِ جدائی کا
آخر میں مَیں میاں صاحب کو اس کامیاب سیمینار کے انعقاد پر ہدیہ ء تبریک پیش کرتا ہوں امید ہے وہ اپنے اعلان پر ثابت قدم رہتے ہوئے ان افراد کو ٹکٹ نہیں دیں گے جو اپنی اپنی پارٹیاں چھوڑ کر میاں صاحب سے آملے ہیں ! دو معصوم سی فرمائشیں بھی قوم کی طرف سے کردوں کہ ایک تو جب مولانا فضل الرحمن “قائد اعظم “کانفرنس منعقد کریں گے تو اس کی صدارت میاں صاحب ہی کریں۔ اور دوسری فرمائش یہ ہے کہ ایسا سیمینار کراچی میں بھی منعقد کریں اور سیمینار کی طرف جاتے ہوئے مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کی معیت میں قائداعظم کے مزار پر فاتحہ خوانی ضرور کریں ۔ پاکستان زندہ باد ۔شریف خاندان پائندہ باد!
No comments:
Post a Comment