میاں نواز شریف اور محمود خان اچکزئی کے درمیان قائم مقدس اتحاد کے بارے میں پہلی بار پارٹی کے اندر سے تحفظات کا اظہار ہوا ہے۔چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ “میں شاید اس مسلم لیگ کے ساتھ نہ چل سکوں جو مسلم لیگ محمود اچکزئی گروپ ہے۔کہاں اچکزئی نظریہ کہاں مسلم لیگ کا نظریہ 'کہاں ان کی سوچ کہاں ہماری سوچ، اگر مسلم لیگ کو اچکزئی کے افکار اور سوچ کے ساتھ مدغم کیا جائے گا تو مجھے شدید تحفظات ہیں “۔
یہاں دو سوالیہ نشان ہیں ۔ پہلا یہ کہ کیا یہ آواز واقعی مسلم لیگ نون کے اندرسے اٹھی ہے؟ زمینی حقیقت یہ ہے کہ چوہدری نثار علی خان پارٹی کے باہر نہیں تو اس وقت اندر بھی نہیں ،کیا ا س نعرہ پر ‘جو انہوں نے لگایا ہے ‘اقبال کے اس شعر کا اطلاق ہوتا ہے؟
ز برون در گز شتم ز درون خانہ گفتم
سخنی نگفتہ را چہ قلندرانہ گفتم
کہ میں باہر کے دروازے سے گزرتا ہوں اور گھر کے اندر سے بات کہہ دی ہے ۔ناگفتہ بات کو قلندرانہ انداز میں واشگاف کردیا ہے۔ دوسرا سوالیہ نشان یہ ہے کہ جب 2 دسمبر 2017 کو میاں نواز شریف نے کوئٹہ کے جلسہ عام میں اعلان کیا تھا کہ
“ محمود اچکزئی کے ساتھ میرا نظریاتی تعلق ہے ۔نظریہ مجھے ہمیشہ عزیز رہا ہے جس کو کبھی نہیں چھوڑوں گا۔میری سیاست اسی نظریے پر چلے گی۔خان عبدالصمد اچکزئی نے نظریے کی جنگ لڑی ۔ہم نےان کے نظریے پر عمل کیا ہے۔”
تو اس وقت چوہدری نثار علی خان کیوں خاموش رہے؟ اب چار ماہ کے بعد ہی یہ نظریاتی مفاہمت انہیں قابل اعتراض کیوں محسوس ہوئی۔؟
سچی بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف ایک سیدھے سادہ کاروباری شخصیت ہیں ۔ آج تک انہوں نے سیاست کو کاروبار کی طرح چلایا۔ فلاں کو خرید لو۔ فلاں سے پوچھو کیا چاہتاہے ،فلاں کو یوں کردو۔اب یہ سیدھی سادی کاروباری شخصیت خیر خواہوں کے ہتھے چڑھ گئی ہے۔ کوئی کچھ کہتا ہے،کوئی کچھ کہتا ہے، فلاں بیانیہ میاں صاحب کا ہے۔ کوئی کہتا ہے فلاں نظریہ !مالٹے بیچنے والے سے ایک عالم نے پوچھا عدداً فروخت کررہے ہو یاوزناً؟ کہنے لگا، صاحب غریب آدمی ہوں عدداً بھی نہیں فروخت کررہا ،وزناً بھی نہیں ۔ صرف مالٹے بیچ رہا ہوں ۔ میاں نواز شریف صرف کاروبار کرتے ہیں ۔ خواہ اپنا بزنس ہو یا ملکی حکومت یا جماعتی سیاست ۔ایک ستم ان کے چھوٹے بھائی نے ان پر حال ہی میں کیا اور اعلان کیا کہ نواز شریف ایک فرد کا نہیں ایک فلسفے اور نظریے کا نام ہے۔ میاں شہباز شریف صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ ان سے کوئی سوال جواب کوئی مکالمہ نہیں ہوسکتا ۔ اپنی راجدھانی میں بھی وہ جب پریس کانفرنس کرتے ہیں تو تین چار سوالوں کے بعد جب ڈھنگ کا سوال پوچھا جاتا ہے تو سیماب یا وزیراعلی اٹھتے ہیں اور چھلاوے کی طرح یہ جا وہ جا! روایت ہے نجانے غلط یا درست ‘ کہ جن تین چار سوالوں کے جوابات دیتے ہیں وہ بھی انہی کے مامور کردہ صحافیوں کے ہوتے ہیں ۔ دو دن پہلے وہ کراچی میں تھے وہاں انہوں نے میڈیا کے نمائندوں کو بھی بلایا مگر حسب ِ معمول سوالوں کے جواب نہیں دئیے۔ میاں نواز شریف کے بیانیے کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے صاف کہہ دیا کہ جو آپ چاہ رہے ہیں وہ میں نہیں کہوں گا۔ اب ان سے کون پوچھے کہ نواز شریف اگر نظریے کا نام ہے تو یہ نظریہ کیا ہے۔اس سوال کی تشریح اگر خود میاں نواز شریف کے اپنے بیانات کی روشنی میں کی جائے تو ان کا نظریہ وہی ہے جو محمود خان اچکزئی کا ہے اور جو اچکزئی کے والد عبدالصمد اچکزئی کا تھا۔ عبدالصمد اچکزئی کانگریس کے ہم نواتھے، انہیں بلوچی گاندھی کہاجاتا تھا۔ رہے محمود خان اچکزئی تو ان کے بارے میں ہر شخص جانتا ہے کہ وہ کیا ہیں اور کہاں سے لائن لیتے ہیں ۔ابھی دسمبر میں اچکزئی نے کہا پاکستان پارلیمنٹ کو فاٹا پر کوئی اختیار نہیں۔ افغانستان کے جانے پہچانے پاکستان دشمن انٹیلی جنس جرنیل سے ان کے مراسم ڈھکے چھپے نہیں ۔ ان مراسم میں لین دین بھی باقائدہ شامل ہے۔
تو کیا پھر ہم میاں نواز شریف کے بارے میں یہ نتیجہ نکالیں کہ وہ پاکستان دشمن اچکزئی کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں؟اگر وہ بھارت جاکر کہتے ہیں کہ ہم بھی آلو گوشت کھاتے ہیں اور آپ بھی توکیا وہ تقسیم کے خلاف ہیں ؟ نہیں ‘ایسا نہیں ،ہر گز نہیں ۔ یہاں انہیں شک کا فائدہ دیں۔اس لیے کہ ان کی سوچ میں اتنی گہرائی ہی نہیں اور ان کی فکر میں اتنی استعداد ہی نہیں کہ وہ کسی نظریے یا فلسفے یا بیانیے کے جھنجھٹ میں پڑیں ۔ ان کی زندگی کے دو مقاصد ہیں ۔اول کاروبار، دوم اقتدار! وہ کاروبار کو اقتدار میں آنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اقتدار کو کاروبار کے فروغ کے لیے کام میں لاتے ہیں۔ یہاں وہ اپنے دریافت کنندہ اور اپنے موجد کے نقش قدم پر چلتے نظر آتے ہیں ۔ جنرل ضیا کا اولیں نصب العین اقتدار کی بقا تھا۔ اس کے لیے وہ اسلام کو استعمال کرتے تھے۔ اس استعمال سے کاروبار الگ چمکتا ہے۔ اس میں دن دونی اور رات چوگنی ترقی ہوتی ہے۔ اس کالم نگار کا دعویٰ کہ میاں نواز شریف کو کسی نظریے یا فلسفے یا بیانیے سے کوئی علاقہ نہیں ‘میاں صاحب کے طویل عرصہ اقتدار سے ثابت ہوتا ہے۔ میاں صاحب کا نظریہ یا فلسفہ نہ ہوتا تو اپنے طویل عہد ہائے اقتدار میں وہ کبھی پاکستان کے نظام تعلیم پر ،کبھی زرعی اصلاحات پر، کبھی خواتین کی حالت زار پر، کبھی عوام کی ذہنی پسماندگی پر ، کبھی مذہی طبقات کی بلیک میلنگ پر بات کرتے ، سوچتے اور کسی اصلاح کی کوشش کرتے۔ آپ کا کیا خیا ل ہے کہ وہ نظام تعلیم پر کتنی دیر گفتگو کرلیں گے؟ اگر ان سے پوچھا جائے کہ آپ کے خیال میں پاکستان کے موجودہ ایجوکیشن سسٹم میں کیا خرابیاں ہیں اور کیسے دور ہوسکتی ہیں تو وہ کیا بتائیں گے؟ اور کتنی دیر اس موضو ع پر بات کرسکیں گے؟َ اسی طرح ان کے ذہن میں زرعی اصلاحات کاکوئی تصور نہیں ۔شاید انہیں معلوم ہی نہیں ہو بھارت نے یہ بھاری پتھر تقسیم کے چوتھے سال ہی اٹھا لیا تھا۔ اپنے طویل عہد ہائے حکومت میں میاں صاحب نے کبھی ایک بار بھی نہ سوچا ہوگا کہ بلوچستان کا سرداری نظام ‘صدیوں پرانا نظام ہے اور جب تک یہ نظام باقی ہے صوبے میں ترقی نہیں ہوسکتی۔ میاں صاحب کی “نظریاتی “صلاحیتوں کا اندازہ اس حقیقت سے لگائیے کہ ان کے سامنے بھارتی وزیر اعظم نے خارجہ پالیسی کے میدان میں ملک پر ملک فتح کرلیے مگر ہمارے پاکستانی وزیراعظم کو پرواہ تھی نہ ادراک۔ مودی نے یو اے ای میں بے مثال پذیرائی حاصل کی۔ کروڑوں روپے کے معاہدے کئے۔ جولائی 2015ء میں اوفا(روس) میں شنگھائی کو اپریشن آرگنائزیشن کے اجلاس میں مودی شریک ہوئے اور میا ں نواز شریف بھی۔ مودی واپسی پر راستے میں رک گیا، اس نے ایک انتہائی سرگرم پروگرام کے تحت وسط ایشیا ئی ریاستوں کے دورے کئے، بھارت کے لیے لاتعداد رعایتیں حاصل کیں ۔میاں نوازشریف سیدھے پاکستان واپس آئے اور لاہور ائیر پورٹ کی توسیع سے متعلق ایک اجلاس میں شرکت کی۔ مودی شعری ذوق رکھتا تو ضرور کہتا
تفاوت است میانِِ شنیدن من و تو
تو بستن در ومن فتح باب می شنوم
کہ تمہارے اور میرے سننے میں بہت فرق ہے تم دروازے کا بند ہونا سنتے ہو اور میں اس کا کھلنا۔
ابھی تین ہفتے پہلے دبئی کے سکیورٹی چیف جنرل ضاحی خلفان نےپاکستانیوں کے بارے میں ناقابلِ برداشت توہین آمیز ریمارکس دئیے ۔اس کا کہنا ہے کہ پاکستانی خلیج کے لوگوں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں ۔ اس لیے کہ وہ منشیات لاتے ہیں ۔ میاں صاحب کی پارٹی اب بھی ملک پر حکمران ہے۔آپ کا کیا خیال ہے اس بیان پر میاں صاحب نے تشویش کا اظہار کیا ہوگا ؟ ایسا ہوتا تو ان کی حکومت کا کوئی کار پردازاس مکروہ حملے کا جواب ضرور دیتا ۔،
جن لوگوں کا کوئی نظریہ یا فلسفہ ہوتا ہے وہ کروڑوں روپوں کی گھڑی نہیں پہنتے ،وہ جیبوں میں دوسرے ملکوں کے ورک پرمٹ لے کر نہیں گھومتے۔ وہ اپنے محل کی چار دیواری پر اور ایک ایک غسل خانے پر کروڑوں روپے نہیں خرچ کرتے ۔وہ اپنی نواسی کا نکاح حرم کعبہ میں پڑھوانے کے موقع پر قومی ائیر لائن کے جہازوں کو ذاتی جائیداد کی طرح استعمال نہیں کرتے۔ حیرت ہے ان دانشوروں پر جو آج نواز شریف صاحب کو نظریے ‘فلسفے اور بیانیے کی ٹوپیاں پہنا رہے ہیں ۔ آج میاں نواز شریف صاحب کا “نظریہ” یہ ہے کہ عدالتیں ووٹ لینے والے حکمرانوں پر کوئی تصرف نہیں رکھتیں ۔ کل ان کا “نظریہ” یہ تھا کہ ووٹ لے کر آنے والا وزیراعظم (یوسف رضا گیلانی ) عدالت میں چلتے ہوئے مقدمے کی وجہ سے ‘فیصلہ آنے سے پہلے ہی گھر چلا جائے ۔آج “نظریہ” یہ ہے کہ عدالت کو منتخب وزیراعظم پر کوئی اختیار نہیں ۔ آج ان کے بیانیے میں آئین،ووٹ اور پارلیمنٹ گھس آئے ہیں ۔ اقتدار میں تھے تو آئین ان کے جوتے کے نیچے آکر ہڈیاں تڑوا رہا تھا اور پارلیمنٹ اس قابل ہی نہ تھی کہ وہاں آتے۔ وہ تو مہینوں پارلیمنٹ کا رخ نہ کرتے تھے۔ کتنی بار انہوں نے وزیراعظم کے طور پر قومی اسمبلی میں ارکان کے سوالوں کا سامنا کیا اور جواب دیا؟ اب اگر ان کا کوئی بیانیہ ہے تو عدالت عظمٰی کے فیصلے سے پہلے۔ اقتدار کےدوران ‘یہ بیانیہ کہاں تھا ؟
پست نوشت ۔ڈرامہ فیم وزیر اعلی میاں شہباز شریف صاحب نے کہا ہے کہ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا معاملہ آٹھ سال سے مرکز میں ہے اور یہ کہ اس ضمن میں درخواست 2010ء میں مرکز کو بھیجی تھی۔ وزیراعلٰی فرما رہے ہیں ۔ان کا مرکز کے معاملات سے کیا تعلق ۔انہوں نے میٹرو بس کے حوالے سے پورے وفاقی دارالحکومت کو کون سا اپنے صوبے کا حصہ سمجھا ،انہوں نے تو قطر جاکر گیس کا کوئی معاہدہ بھی نہیں کیا جو وفاقی دائرہ کار میں آتا تھا ۔مرکز میں بیٹھے وزیراعظم کے ساتھ وہ تو کبھی سرکاری دوروں پر باہر بھی نہیں گئے۔ ان کا مرکز کے معاملات سے کیا لینا دینا۔ یہ جو خواجہ آصف کابینہ کے اجلاس میں پھٹ پڑے تھے کہ ان کی وزارت میں مداخلت ہورہی ہےان کا اشارہ وزیراعلی کی طرف تھا۔ سچ کہا ہے، جنوبی پنجاب کےصوبے کا مسئلہ آٹھ برس سے مرکز میں پڑا ہے ۔مرکز سے ان کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ۔ یہ وہی بات ہے جو کسی نے کہی تھی کہ حافظ شیرازی نے بانگ درا میں کیا خوب لکھا ہے
عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں سعدی۔۔
No comments:
Post a Comment