Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, October 31, 2016

نہ مانیں! آج بے شک نہ مانیں!

کیا کسی کو وسیم سجاد کا نام یاد ہے؟
وسیم سجاد صاحب گنتی کے اُن چند افراد میں سے ہیں جو ملکِ پاکستان کے بہت بڑے 
BENEFICIARY
 رہے! طویل ترین اقتدار کے مزے لوٹے۔ وہ بھی ہمیشہ نامزدگی کی بنیاد پر۔ کبھی عوام کے ووٹ لے کر ایوان میں نہ آئے۔ سنتے جائیے اور دُھنتے جائیے۔ دو بار قائم مقام صدر مملکت مقرر ہوئے۔ 1988ء سے 1999ء تک بارہ سال سینیٹ کے چیئرمین رہے۔ پاکستان کی تاریخ میں طویل ترین مدت تک اسی منصب پر فائز رہے۔ دو سال وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف اور پارلیمانی امور رہے۔ وزارت داخلہ اور نارکوٹکس کنٹرول کے انچارج رہے۔ جنرل پرویز مشرف نے تختہ الٹا تو وسیم سجاد نے مسلم لیگ نون کی ہچکولے کھاتی کشتی سے چھلانگ لگانے میں تاخیر نہ کی اور جنرل کے ساتھ ہو لیے۔ 2003ء سے لے کر 2008ء تک پانچ سال سینیٹ میں قائد ایوان رہے، یعنی حکومتی نمائندوں کے سرخیل! یہ بھی ایک طاقت اور منصب تھا جو اِن دنوں راجہ ظفر الحق صاحب کی جیب میں ہے۔
پھر کیا ہوا۔ وسیم سجاد صاحب اِن بلند ترین‘ اِن عالی ترین‘ اِن فلک بوس مناصب سے‘ جن کی طرف دیکھنے والے کو دستار ہاتھوں سے سنبھالنا پڑتی تھی کہ گر نہ پڑے‘ فارغ ہو کر گھر واپس آ گئے۔ گھر کیا تھا۔ فارم ہائوس تھا‘ اسلام آباد کے نواح میں طاقتور ترین اور امیر ترین عمائدین یہیں ان کے اردگرد رہتے تھے۔ 
پھر کیا ہوا؟ ایک صبح جب پَو ابھی نہیں پھوٹی تھی اور پرندے آشیانوں سے نکلنے کی تیاریوں میں تھے‘ چار ڈاکو ان کے فارم ہائوس یعنی محل میں گھُس آئے۔ اہل خانہ کو رسیوں سے باندھا۔ میڈیا کی رپورٹ کے مطابق دو کروڑ کا کیش‘ ڈیڑھ سو تولے سونا اور دیگر مال و اسباب لے کر چلتے بنے۔
وسیم سجاد صاحب بارہ سال سینیٹ کے چیئرمین رہے۔ انصاف اور قانون کے وزیر رہے‘ داخلہ کے وزیر رہے۔ اگر وہ چاہتے تو ملک میں پولیس کے نظام کو ازسر نو ترتیب دلوا سکتے تھے۔ ایوان بالا کے صدر نشین کی حیثیت سے وہ وفاقی حکومت کو ناکوں چنے چبوا کر پولیس کی سیاسی مداخلت سے پاک کر سکتے تھے۔ نظام کو میرٹ پر استوار کر سکتے تھے۔ مگر انہوں نے کبھی نہ سوچا کہ عوام‘ جن کے گھروں میں ڈاکے پڑتے ہیں‘ کس عذاب سے گزرتے ہیں اور کن قیامتوں کا سامنا کرتے ہیں۔ وسیم سجاد صاحب نے ایک دن بھی اِس ’’بیکار‘‘ مسئلے پر ضائع نہ کیا اور پولیس کو باور نہ کرایا کہ پولیس کا کام ڈاکے کے بعد اجلاس کرنا نہیں‘ ڈاکے کو روکنا ہے۔ آپ دنیا کے کامیاب ترین حکمرانوں کا حال پڑھ ڈالیے۔ خلجی تھا یا شیر شاہ سوری‘ یا گورنر جنرل ولیم بٹنک! سب نے ڈاکوئوں کا قلع قمع پہلے کیا۔ دوسرے کام بعد میں کیے۔
یہ دنیا عبرت سرائے ہے! جو بوتا ہے‘ کاٹتا ہے۔ جو کرتا ہے بھرتا ہے۔ جو کنواں کھودتا ہے‘ اس میں گرتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے میرٹ کو قتل کر کے ضیاء الحق کو نوازا۔ اسی ضیاء الحق نے پھانسی دی۔ ضیاء الحق نے اس ملک کے غریب عوام پر ہزاروں بندوق بردار ’’جہادی‘‘ مسلط کیے۔ بارڈر ختم کر دیا۔ اپنے عوام کے منُہ سے مزدوری‘ ٹرانسپورٹ‘ جائیدادیں چھین کر اُن غیر ملکیوں کو دیں جو اس ملک کے کبھی وفادار نہیں ہو سکتے۔ فضا میں ٹکڑے ٹکڑے ہوئے۔ میاں نوازشریف صاحب نے ایک بار پھر وہی گناہ کیا۔ میرٹ کا خون کیا۔ جس کو ناجائز نوازا اُسی نے جیل بھیجا۔ دھکے دیے۔ پھر وطن کی مٹی کے لیے ترساتا رہا۔ پھر جنرل مشرف ڈالروں کے بدلے انسانوں کو بیچتا رہا۔ اب جلاوطن ہے اور ارب پتی سہی، خاک وطن کا متبادل ڈالر ہیں نہ پائونڈ!
تیس سال سے برسراقتدار شہبازشریف صاحب سارے دعوئوں کے باوجود تھانہ کلچر میں ایک رمق بھر تبدیلی نہ لا سکے۔ بہت انگلی لہرائی۔ اس قدر کہ ٹریڈ مارک بن گئی۔ بہت بڑھکیں ماریں۔ انقلاب کے نعرے لگائے۔ شیخ چلی کے سے مضحکہ خیز دعوے کیے‘ یہ کروں گا‘ وہ کروں گا۔ چین سے نہ بیٹھوں گا۔ مائک تک توڑ ڈالے‘ مگر حالت یہ ہے کہ پولیس کو ایک ذرہ بھر‘ ایک قیراط بھر‘ ایک قطیر کے برابر‘ ایک رتی بھر‘ ایک مثقال بھر تبدیل نہ کر سکے۔ تھانہ کلچر جو تھا وہی ہے۔ چاول جتنا‘ رائی برابر‘ خشخاش کے ایک حقیر دانے جتنا‘ ایک ریزہ‘ ایک بھورہ تک نہ بدلا گیا۔ معروف ادیب علی اکبر ناطق کی بہن کو سفاکی کے ساتھ قتل کر دیا گیا ہے۔ مظلوم خاندان کے ساتھ تھانے والوں نے وہی سلوک کیا جو تیس سالہ شریف اقتدار سے پہلے ہوا کرتا تھا۔ ورثا کو میڈیکل رپورٹ نہ دی گئی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ حاصل کرنے کے لیے منتیں کرتے رہے۔ صبح و شام‘ رات دن‘ تھانے کے چکر لگوائے گئے۔ تھانیدار روزانہ بلاتا اور کہتا ڈی پی او نے مقدمہ درج کرنے کی اجازت نہیں دی۔ کبھی کہا لیبارٹری سے رپورٹ نہیں آ رہی۔ کس سنگدلی‘ سفاکی اور بے شرمی سے کہا کہ قتل تو ہوتے رہتے ہیں۔ پھر مظلوموں نے ڈی پی او آفس کے سامنے مظاہرہ کیا۔ ایف آئی آر درج کرانا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ پھر ناطق اپنے روابط بروئے کار لایا۔ ایک ادیب کے روابط لکھنے والوں ہی سے ہوتے ہیں۔ اسی دن ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ والے اس کا انٹرویو لے رہے تھے۔ اُس نے قتل کا ذکر کیا مگر غیر ملکی اخبار کو ہرگز یہ نہ بتایا کہ پولیس اُس کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے۔ پھر صوبے کے وزیراعلیٰ تک رسائی حاصل کی گئی۔ پھر وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے ’’نوٹس لے لیا‘‘۔ اپنے سٹاف کو واقعہ کی ’’فوری تحقیقات‘‘ کی ہدایت جاری کر دی۔ وہی پولیس جو کہہ رہی تھی کہ قتل ہوتے رہتے ہیں‘ گھُٹنوں کو ہاتھ لگا کر رِِیں رِیں کرنے لگی کہ حضور! پہلے بتایا ہوتا آپ کی پہنچ کہاں تک ہے!
یہ ہے تھانہ کلچر کی تبدیلی! اس سے اندازہ لگائیے کہ بین الاقوامی شہرت رکھنے والے ادیب کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے تو عام شہری کے ساتھ کیا ہو رہا ہو گا!
میاں شہبازشریف اس معاملے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ سراسر ناکام! دعوئوں‘ بڑھکوں‘ انگلی لہرانے کے باوجود! ہر معاملے میں ان کا ذاتی نوٹس لینا ضروری ہے۔ کیا یہ سسٹم ہے؟ کیا یہ نظام ہے؟ کیا یہ تبدیلی ہے؟
مگر وہ مانیں گے نہیں کہ ناکام ہو گئے ہیں۔ میراثی جوا کھیل رہا تھا۔ سب کچھ ہارتا گیا۔ کیش‘ غلّہ‘ پھر کچّا کوٹھا بھی جس میں رہ رہا تھا! آخر میں بیوی کو دائو پر لگا دیا۔ بیوی نے کہا‘ بدبخت ہار گئے تو وہ مجھے لے جائیں گے۔ میراثی ہنسا، بھاگوان عورت! کیسے لے جائیں گے؟ میں مانوں گا کہ ہار گیا ہوں‘ تبھی لے جائیں گے نا! مانوں گا ہی نہیں!
آج میاں صاحب اقتدار کی آخری سیڑھی پر ہیں! وہ گھر سے باہر نکلیں تو ٹریفک رُک جاتی ہے۔ ہیلی کاپٹر‘ جہاز ان کے لیے ایسے ہیں جیسے عام انسان کے لیے سائیکل اور بس! ان کے مُنہ سے نکلا ہوا لفظ قانون ہے۔ ان کے صاحبزادے ان سے بھی بڑے حاکم ہیں۔ ان حضرات کے جہاں جہاں محل ہیں‘ وہاں پولیس شہد کی سینکڑوں مکھیوں کی طرح بھنبھناتی پھر رہی ہے۔ مگر آہ! انہیں ایک نہ ایک دن اسی پولیس سے واسطہ پڑے گا۔ وسیم سجاد کے ساتھ کیا ہوا؟ بی بی کے نیویارک کے پینٹ ہائوس اور دبئی کے جگمگاتے آنکھوں کو خیرہ کرتے محل۔ اور کفن ایک روایت کے مطابق ایدھی کا نصیب ہوا! اس لیے کہ اللہ کی سنت نہیں بدل سکتی! نہ بی بی کے لیے‘ نہ بھٹو صاحب کے لیے‘ نہ مضبوط کرسی کا حوالہ دینے والے جنرل ضیاء الحق کے لیے‘ نہ کراچی کی طاقت پر غرور کرنے والے اور اکبر بگٹی کو اڑا دینے کی دھمکی دینے والے پرویز مشرف کے لیے۔۔۔۔ اور نہ کسی اور شاہی اقتدار والے خاندان کے لیے! 
ہتھیلی پر بال اُگ سکتے ہیں‘ پانی سے آگ نکل سکتی ہے‘ مرد کو حمل ٹھہر سکتا ہے‘ کبوتری انڈے دینے کے بجائے بچے جن سکتی ہے‘ مائونٹ ایورسٹ گائوں کے چھوٹے سے جوہڑ میں ڈوب سکتی ہے مگر یہ نہیں ممکن کہ کیا دھرا سامنے نہ آئے۔ یہ نہیں ممکن کہ جس گندے پانی میں عوام کو غوطے دیے جا رہے ہیں‘ اس میں خود نہ گریں‘ یہ نہیں ممکن کہ جس تھانہ کلچر کو تیس سال میں نہیں بدلا‘ اس کو بھگتنا نہ پڑے! شاہ کو گدا اور گدا کو بادشاہ بننے میں کتنی دیر لگتی ہے! سال 1974ء تھا۔ شہر کراچی تھا۔ سی ایس ایس کر کے آئے ہوئے نوجوان‘ نئے نویلے افسر‘ ٹریننگ کے سلسلے میں ایک بہت ہی سینئر افسر کے سامنے حاضر ہوئے۔ بہت بڑا افسر۔ بہت بڑے منصب پر‘ جہاں پہنچنے میں اسے بیس سال لگ گئے تھے۔ نوجوان افسروں کو تعارف کرانے کا حکم ہوا۔ ان میں سے ایک کی باری آئی تو وہ کھڑا ہوا مگر کرسی کے ساتھ لگ کر کھڑا تھا۔ سر میرا نام نواب رشید احمد خان ہے! افسر تضحیک کرنے کے موڈ میں تھا: ’’یہ نواب کیا ہوتا ہے؟ اور سیدھے کھڑے ہوا کرو‘‘۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ دو سال بعد نواب رشید احمد خان نے وفاقی ملازمت کو خیرباد کہا اور صوبائی سول سروس میں مجسٹریٹ تعینات ہو گیا۔ اسی شہر کراچی میں مسجد خضریٰ کے آس پاس اس کی عدالت تھی۔ ایک مقدمے میں وہی سینئر‘ بھد اڑانے والا افسر گواہ کے طور پر پیش ہوا۔ آپ کا نام کیا ہے؟ مجسٹریٹ نے پوچھا۔ عبدالحمید خان! ’’یہ خان کیا ہوتا ہے اور سیدھے کھڑے ہوا کریں‘‘!
تخت پر فائز حکمران اپنی ناکامی کہاں تسلیم کریں گے! مگر ہائے افسوس! ’’یہ دن ہیں کہ ہم ان کو لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں‘‘۔

Saturday, October 29, 2016

حل

بہت ہو چکی۔
خشکی اور پانی پر فساد اپنی حدوں کو عبور کرنے لگا ہے۔
خلقِ خدا معصوم ہے یا گناہ گار‘ جو کچھ بھی ہے عاجز آ چکی ہے۔
یہ روز روز کے الزامات ‘ پھر جوابی الزامات۔ یہ الزام در الزام۔ یہ جواب در جواب!
یہ ٹیلی ویژن پر اور پرنٹ میڈیا پر دھوئے جانے والے گندے کپڑے‘ یہ اُٹھی ہوئی‘ پیٹ کو ننگا کرتی قمیضیں! یہ پارسائی کے دعوے! یہ جلسے‘ یہ جلوس‘ یہ عدالتیں! یہ عشروں تک لٹکتے اصغر خان کیس! یہ مجرم جو اس لیے سزانہیں پا رہے کہ بڑے بڑے منصبوں سے ریٹائر ہوئے! یہ پھانسیاں جو مقدموں کے فیصلوں سے پہلے دے دی گئیں! یہ رہائی کے پروانے جو قیدیوں کی موت کے بعد جاری ہوئے ؎
فصلِ گُل آئی یا اجل آئی‘ کیوں درِ زنداں کھلتا ہے
کیا کوئی وحشی اور آپہنچا یا کوئی قیدی چھوٹ گیا
یہ سب کیا ہے؟ یہ انصاف انصاف کے نعرے‘ یہ احتساب احتساب کی چیخیں‘ یہ تلاشی کے مطالبے یہ سارے جھکڑ‘ یہ سارے طوفان اب تھم جانے چاہئیں ؎
ہٹا لے جائو سب دریوزہ گر کشکول اپنے
کہ ہم یہ سلسلہ اب ختم کرنا چاہتے ہیں
کیا زمانہ تھا‘ جب ہر طرف امن و امان تھا۔ عدالتیں تھیں نہ اپوزیشن! کوئی الزام لگانے والا تھا نہ محاسبے کا تقاضا کرنے والا‘ کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ خلقِ خدا کو ظلِّ الٰہی کے خلاف مشتعل کرے۔ شاہ جہاں نے تاج محل بنوایا۔ اکیس سال سے زیادہ عرصہ لگا۔ اُس زمانے کے ساڑھے تین کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آج کے باون ارب روپے بنتے ہیں۔ بیس ہزار راج مزدور کام کرتے رہے۔ کئی کام کرتے کرتے مر گئے۔ کتنوں ہی کو ٹی بی ہوئی۔ ایک ہزار ہاتھی تعمیر کے سامان ڈھونے پر مامور تھے۔ یہ سارا خرچ سرکاری خزانے سے ہوا‘ کسی نے اعتراض کیا‘ نہ چوں کی۔ آخر مخالف اس زمانے میں بھی برسرِ اقتدار گروہ کے تھے۔ کسی کے پیٹ میں قولنج کا درد اٹھا نہ ہَول پڑے۔ سرکاری رقم تھی۔ کسی کے باپ کی نہ تھی۔ بادشاہ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ تاج محل کو روضۂ منوّرہ کہا جاتا تھا۔ وفا اور یگانگت کا زمانہ تھا۔ عوام شہنشاہ پر جان چھڑکتے تھے۔ 
عرصہ ہوا گائوں کی مسجد میں بیٹھے ہم سب مغرب کی اذان کا انتظار کر رہے تھے۔ تہمد باندھے بابے چاچے مامے بیٹھے تھے۔ آسمان کو تکتے تھے اور بتاتے تھے کہ ابھی وقت نہیں ہوا۔ اتنے میں ایک لڑکے نے دوسرے سے‘ جس نے اتفاق سے کلائی پر گھڑی باندھی ہوئی تھی‘ وقت پوچھا۔ بس کیا تھا‘ تہمد والے بابے کو غصہ آ گیا۔ طنز سے بھرپور فقرہ بابے نے اچھالا… ’’اوئے تم گامے مستری کے پتر نہیں ہو؟ تم بھی اب گھڑیوں کے وقت پوچھنے لگ گئے ہو۔ اپنی اوقات نہ بھولو! اذان کا وقت ہو گیا تو ہم بتا دیں گے۔ ہم کیا کل پیدا ہوئے ہیں؟‘‘
تہمد والے بابے کی بات درست تھی۔ انسان کو اپنی اوقات میں رہنا چاہیے۔ کہاں کی جمہوریت اور کیسا احتساب؟ تلاشی کون سی؟ کیا ہمارے اجداد، خلجی اور تُغلق، لودھی اور سوری، جہانگیر اور شاہ جہاں تلاشیاں دیتے تھے؟ شرم آنی چاہیے انہیں جو آج اپنی اوقات بھول گئے ہیں۔ لال قلعے دہلی میں بنے‘ شاہی قلعے لاہور میں تعمیر ہوئے، موتی مسجدیں بنیں‘ باغ بنے، مقبرے وجود میں آئے۔ تغلق نے دارالحکومت تبدیل کیا۔ ہزاروں جاتے ہوئے مرے۔ پھر واپسی کا حکم ہوا۔ ہزاروں پھر مر گئے۔ کیا کسی نے اعتراض کیا؟ کیا کسی دماغ میں احتساب کا کیڑا چلا؟ آج اگر ستر کروڑ یا ستر ارب یا ستر لاکھ کی چاردیواری بن گئی تو کون سی قیامت آ گئی۔ مغل بادشاہ کشمیر جاتے تھے تو بھمبر سے آگے ہاتھی نہ جا سکتے تھے۔ سامان قلی اُٹھاتے تھے۔ صرف بادشاہ کا سامان پانچ ہزار قلی اُٹھاتے تھے۔ کسی نے نہ پوچھا، اخراجات کتنے ہیں اور کون ادا کر رہا ہے۔ لندن میں فلیٹ خریدے‘ تو کیا قیامت آ گئی؟ بیرونی سودوں میں مبیّنہ کمیشن کھائے گئے تو کیا آسمان ٹوٹ پڑا؟ ہنگامہ برپا کیا ہوا ہے۔ عوام کا سکھ چین لوٹ لیا گیا ہے۔ دھاندلی دھاندلی کا شور مچایا جاتا ہے!
چودہ سو سال سے جمعہ کے خطبوں میں کہا جا رہا ہے اور سنایا جا رہا ہے اور باوضو ہو کر سنا جا رہا ہے کہ سلطان ظل اللہ ہے! کیا ہمارے دینی علوم میں‘ فقہ میں‘ احتساب کا‘ نیب کا‘ ایف آئی اے کا ذکر ہے؟ بابے عبیر ابوذری سے کسی نے شکوہ کیا کہ بابا جی آپ نے چائے پر کوئی نظم نہیں لکھی۔ بابا جی نے زلفیں کاندھے سے ہٹاتے ہوئے کہا، پتر! ہر چیز پر لکھنا ضروری تو نہیں، کیا قرآن پاک میں سائیکل کا ذکر ہے؟
بادشاہت، خاندانی بادشاہت! شہنشاہی، یہی ہمارے مسائل کا حل ہے۔ اسی کے ہم عادی ہیں۔ وزیر اعظم کی ٹیم جب کہتی ہے‘ حساب وزیر اعظم کا نہیں ہو گا‘ تو بالکل ٹھیک کہتی ہے۔ وزیر اعظم کی عدم موجودگی میں ان کی دختر نیک اختر نے زمامِ سلطنت سنبھالی تو کون سا گناہ سرزد ہو گیا؟ وزیر اعظم بادشاہ ہیں۔ ان کے بچے شہزادے! جس کو تکلیف ہے، ٹکٹ خریدے اور جہاز میں بیٹھ کر کسی دوسرے ملک میں جا بسے۔ کل تک تو تمہارے باپ دادا کی کھالیں تغلق اور خلجی کے حکم سے اتاری جا رہی تھیں، آج تم پر جمہوریت کا بھوت سوار ہو گیا ہے! کچھ شرم چاہیے۔ حیا بھی کوئی شے ہے یا نہیں!
خدا کے بندو! یہ امریکہ ہے نہ برطانیہ‘ کینیڈا ہے نہ سنگاپور، جرمنی ہے نہ فرانس! یہ پاکستان ہے۔ بادشاہت ہماری گھٹی میں ہے۔ ہماری رگ رگ میں خون بن کر دوڑ رہی ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ سفید سروں والے عمر رسید بابے مریم بی بی کے سامنے اور حمزہ شہباز کے آگے اور بلاول شہزادے کے حضور دست بستہ کھڑے ہیں۔ یہ خاندانی بادشاہت نہیں تو کیا ہے؟ تو یہی بادشاہت اگر حکومت کی سطح پر قائم ہو جائے تو کیا حرج ہے؟ آئین کو بدلو۔ باریاں تحریری طور پر مقرر کرو۔ دس سال شریف خاندان حکومت کرے۔ پھر دس سال بھٹو یا زرداری خاندان! صوبے میں بھی باریاں مقرر کر لو۔ پنجاب میں دس سال شریف خاندان۔ پھر دس سال گجرات کے چوہدری۔ پھر دس سال جنوبی پنجاب کے کھوسے، پھر دس سال گوجر خان کے راجے۔ یہی پُرامن راستہ کے پی کو بھی جاتا ہے۔ دس سال غفار خان کی اولاد حکمرانی کرے۔ مخالفت کوئی نہ کرے۔ جیو اور جینے دو۔ پھر دس سال ڈی آئی خان کا شاہی اسلامی خاندان تخت پر بیٹھے۔ بلوچستان کا معاملہ اور بھی آسان ہے۔ سردار پہلے سے موجود ہیں۔ اب تک وہی حکومت کرتے رہے ہیں۔ ان کی بھی باریاں اور مدتیں طے کر لو۔ بگتی، مری، منگل، رئیسانی، اچکزئی‘ سب دس دس سال حکومت کریں۔
جب پارٹیوں پر خاندانوں نے حکومت کرنی ہے تو ملک پر خاندانی حکمرانی نافذ کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟ عدالتیں، نیب، ایف آئی اے‘ آڈیٹر جنرل، بیسیوں ادارے، سب لاحاصل ہیں۔ ہمارے خمیر سے‘ ہمارے مزاج سے، ہماری تاریخ سے، ہمارے ماضی سے یہ ادارے کوئی مناسبت نہیں رکھتے۔ کیا سلاطینِ دہلی کے زمانے میں نیب اور ایف آئی اے تھے؟ کیا اورنگ زیب کے آڈیٹر جنرل کا کسی کو نام معلوم ہے؟ یہ اسمبلیاں، یہ انتخابات‘ یہ نام نہاد پارلیمانی سسٹم، سب بکواس ہے۔ ہمیں بادشاہت چاہیے۔ اِس روز روز کے حساب کتاب کے ٹنٹے سے، اس کرپشن کے نعرے سے، عوام اُکتا چکے ہیں۔ خدا کے لیے انصاف کرو، کیا ہماری تاریخ میں کرپشن کا لفظ موجود ہے؟ کیا کسی نے ہمارے بادشاہوں پر کرپشن کے اوچھے الزامات لگائے تھے؟ کیا کسی نے ابراہیم لودھی سے اور سکندر سوری سے پوچھا تھا کہ تم ہر جگہ بھائی کو کیوں ساتھ لیے پھرتے ہو؟ اور تمہاری بیٹی کیوں امور مملکت میں دخیل ہے؟
حالات غیر معمولی ہیں تو ان کا سدِباب معمول کے مطابق کیسے ہو گا؟ فرحت اللہ بیگ نے قانون کے ایک طالب علم کا احوال لکھا ہے۔ ایک شخص نے دوسرے کو قتل کر دیا۔ گواہ موجود ہیں۔ پوچھا گیا‘ کیا فیصلہ کرو گے؟ جواب دیا کہ مقتول کی بیوہ کی قاتل کے ساتھ شادی تجویز کروں گا۔ مقتول کے بچوں کو یتیم خانے میں داخل کرائیں گے۔ رہے گواہ، تو انہیں جیل بھیج دیا جائے گا۔ ایسا ہی غیر معمولی حل ہمیں بھی درکار ہے۔ وزیر اعظم کو بادشاہ قرار دے دیا جائے۔ صدر کا عہدہ ختم ہو جانا چاہیے۔ کسی اسمبلی یا الیکشن کی ضرورت نہیں۔ عمران خان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ضبط کرکے پاکستان کی شہریت منسوخ کر دی جائے اور پچاس سال کے لیے اُسے جلا وطن کر دیا جائے۔ رہے تحریکِ انصاف کے کارکن، تو انہیں بیگار کیمپوں میں بھیج دیا جائے۔ اور ہاں اپنے سید خورشید شاہ ہر بادشاہ کے زمانے میں ’’وزیرِ دربار‘‘ کے منصب پر فائز رہیں۔
وضاحت: کل کے کالم میں علامہ اقبال کا ذکر، کمپوزنگ کی غلطی کا نتیجہ تھا۔ علامہ اقبال کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں!

Friday, October 28, 2016

نواب ، ساہوکار اور سولہ بار معافی

محل شدید بد انتظامی کا شکار تھا۔ نواب صاحب کے اللّے تللّے جاری تھے۔ رقم پوری نہیں پڑ رہی تھی اب ایک ہی حل تھا کہ لالہ لاجپت رائے سے قر ض لے کر نوابی شان قائم رکھی جائے۔ تین سال کا معاہدہ لالہ کے ساتھ ہؤا۔ اس عر صہ میں لالہ کا منشی قر ض دیتا رہے گا اور محل کی معیشت میں ’’اصلاح‘‘ کرتا رہے گا۔
تین سال گزر گئے۔ آپ کا کیا خیال ہے کیا لالہ یا اس کا منشی یہ مانیں گے کہ قرض بڑھ گیا مگر حالات خراب ہی ہیں جیسے تھے؟ نہیں ! کبھی نہیں! اگر وہ سچے تجزیے کرنے لگیں تو چل چکا ان کا ساہو کارہ! 
آئی ایم ایف نے ہمارے ملک کو تین سال کا پروگرام دیا تھا۔ 2012-13ء سے لے کر 2015-16ء تک۔ پروگرام اختتام کو پہنچا تو آئی ایم ایف کی سربراہ بی بی لگارڈے بنفسِ نفیس تشریف لائیں ۔ بظاہر کہا کہ پروگرام کامیاب ٹھہرا۔ بین السطور مارکٹائی بھی کی!پاکستان کے تین چوٹی کے ماہرین اقتصادیات نے چار دن پہلے آئی ایم ایف کو کھلا خط لکھا ہے جس میں تصویر کا دوسرا رُخ پیش کر کے کہا ہے کہ    ع
سخن شناس نہ ای دلبرا! خطا اینجاست
حضور! سخن شناس کیسی ہیں آپ؟ مسئلہ تو دوسرا ہے۔ اُس کی آپ بات ہی نہیں کرتیں!
یہ تین معیشت دان ڈاکٹر عبدالحفیظ پاشا، ڈاکٹر اشفاق حسن اور ڈاکٹر سلمان شاہ ہیں۔ یہ وزارتِ مالیات چلاتے رہے ہیں۔ کوئی وزیر رہا کوئی مشیر! آئی ایم ایف کی رگ رگ سے واقف ہیں۔ کھُلا خط خاصی ٹیکنیکل زبان میں ہے۔ہم اس اہم خط کے خاص خاص مندرجات عام فہم زبان میں، اصطلاحات کے گرداب میں پڑے بغیر، قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ بد قسمتی ہے اُردو اخبارات عمومی طور پر اِن پیچیدہ اور ٹیکنیکل مسائل کی اشاعت سے گریز کرتے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ انگریزی اخبارات میں شائع شدہ یہ مواد، اقتصادیات کے اساتذہ اور طلبہ کے لیے ہوتا ہے۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ غلط رویہ ہے۔ پاکستان کے مالک عوام ہیں۔ عوام کی نوے پچانوے فیصد اکثریت اُردو اخبارات کا مطالعے کرتی ہے۔ ان کا حق ہے کہ معیشت کے اصل مسائل سے واقفیت حاصل کریں۔ ان کا یہ بھی حق ہے کہ ٹیکنیکل اصطلاحات میں اُلجھائے بغیر انہیں اصل بات بتائی جائے۔ عام آدمی کاروبار کر سکتا ہے، اپنا گھر چلا سکتا ہے، فیکٹری لگا سکتا ہے تو ملک کی معیشت کو کیوں نہیں سمجھ سکتا؟ یہ تو وہی بات ہوئی جیسے ایک مذہبی گروہ اپنے وابستگان کو قرآن سمجھ کر پڑھنے سے کھلم کھلا منع کرتا ہے کہ یہ علما کا کام ہے! مشکل اصطلاحات کا قصہ یہ ہے کہ ایک شخص مالٹے فروخت کر رہا تھا۔ علامہ اقبال کا گزر ہوا۔ پوچھنے لگے، ارے میاں! عدداً فروخت کر رہے ہو یا وزناً؟ دکاندار نے کانپتے ہوئے ہاتھ جوڑے اور کہا، علامہ صاحب! میں غریب آدمی ہوں۔ میرے پاس عدداً ہے نہ وزناً، میں تو بس مالٹے بیچ رہا ہوں! 
تین ماہرینِ اقتصادیات نے آئی ایم ایف کو جو آئینہ دکھایا ہے، اس کی چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیے۔
اس تین سالہ پروگرام کے تحت پاکستان نے آئی ایم ایف سے چھ اعشاریہ ایک (6.1) ارب ڈالر کا قرض لیا ہے۔ طے یہ ہؤا تھا اس عرصہ میں معیشت کے ڈھانچے میں ضروری تبدیلیاں لائی جائیں گی۔ میکرو اکنامکس پالیسی کا رُخ اس طرح موڑا جائے گا کہ شرحِ نمو بڑھے گی اور زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا جائے گا۔
تین سال کا عرصہ گزر گیا۔ آئی ایم ایف والے آئے اور فتح کے پھریرے لہرا دیے۔ مگر اصل حقیقت اور ہے۔ 
زرِ مبادلہ کے ذخائر پر آئی ایم ایف کا زور بنیادی طور پر اس لیے تھا کہ پاکستان آئی ایم ایف سے لیے ہوئے قرض کی قسطیں وقت پر ادا کرتا رہے۔ اسی لیے سیانے معیشت دان اس پروگرام کو ’’اپنی خدمت آپ‘‘ قرار دیتے رہے۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر جمع کرنے کے لیے حکومت مزید قرض لیتی رہی۔ اس عرصہ میں یعنی پروگرام کے تین سالوں میں بارہ ارب ڈالر کا قرض مزید لیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس عرصہ میں زرِ مبادلہ میں اضافہ بھی بارہ ارب ڈالر ہی کا ہوا۔ جون 2013ء میں یہ ذخائر چھ ارب ڈالر تھے۔ تین سال بعد جون 2016ء میں اٹھارہ ارب تھے۔ گویا اضافہ بارہ ارب ڈالر کا ہوا۔ اتنا ہی قرض لیا گیا۔ تو یہ اضافہ، اضافہ نہ ہؤا اصل میں قرض بڑھایا گیا۔ ایک شخص تھا۔ نام اس کا نندا تھا۔ وہ دس دن باہر دوسروں کے گھر مہمان رہا اور حساب یہ کرتا رہا کہ دس دن اُس کا اپنا باورچی خانہ بند رہا اور بچت ہوتی رہی۔ واپس آیا تو دس مہمان آ گئے۔ حساب برابر ہو گیا یعنی    ؎
دس دِن نندا باہر رہیا تے دس نندے دے گھر
نندے آکے لیکھا کیتا نندا گھر دا گھر
نندے نے حساب کیا تو یوں لگا جیسے دس دن نندا گھر ہی رہا! بارہ ارب ڈالر کا زرِ مبادلہ میں اضافہ ہؤا اور اتنا ہی قرض چڑھا! واہ! جی واہ! کیا بات ہے! 
آئی ایم ایف جب قرض کی قسط دیتا ہے تو معائنہ کرتا ہے کہ اس کی شرائط پوری ہوئی ہیں یا نہیں! یعنی معیشت میں مطلوبہ تبدیلیاں لائی گئیں یا نہیں؟ اگر مطلوبہ تبدیلیاں نہ نظر آئیں اور مقروض ملک قرضہ کی اگلی قسط لینے پر مصر ہو تو آئی ایم ایف ’’معافی‘‘ دیتا ہے۔ اس معافی کو باعزت یعنی ٹیکنیکل زبان میں 
Waiver
 کہتے ہیں! آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ تین سالہ پروگرام کے دوران آئی ایم ایف نے پاکستان کو یہ معافی
 (Waiver) 
سولہ بار دی! یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پروگرام کے تحت ہونے والی تبدیلیاں واقع بھی ہوئیں یا نہیں؟ گویا قرضہ کی قسطیں پاکستان وصول کرتا رہا مگر جو تبدیلیاں معاشی ڈھانچے میں ملک کی بہتری کے لیے لائی جانی تھیں، وہ نہ لائی جا سکیں۔ آئی ایم ایف ’’معافی‘‘ دے کر مزید قرضہ دیتا رہا۔ ساہوکار کا اصل مقصد قرض دے کر شکار کو مقروض کرنا ہی ہوتا ہے۔
شرحِ نمو میں اضافہ ہؤا یا نہیں؟ یہ متنازع ہے۔ سرکاری ادارہ برائے اعداد و شمار 4.7 تک کا دعویٰ کر رہا ہے مگر تینوں ماہرین اقتصادیات کا موقف ہے کہ یہ مبالغہ ہے۔ شرحِ نمو 3.7 سے زیادہ بڑھ ہی نہ سکی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس ایک مستقل ادارہ ہے جو اس قبیل کے مشکوک اعداد و شمار کی جانچ پڑتال کرتا ہے۔ اس نے اس سلسلے میں کوئی کردار نہیں ادا کیا!بیروزگاری کی شرح اتنی بڑھی کہ گزشتہ تیرہ سال میں اس قدر نہ بڑھی تھی۔ 2008ء اور 2013ء کے درمیانی عرصہ میں تیرہ لاکھ افراد کو مزدوری ملی تھی جب کہ آئی ایم ایف کے اس تین سالہ محکومی کے دوران یہ تعداد صرف ساڑھے چھ لاکھ رہی! زیادہ تشویش ناک صورتِ حال یہ ہے کہ جن نوجوانوں کے پاس گریجوایٹ یا پوسٹ گریجوایٹ ڈگریاں ہیں ان کی بیروزگاری کی شرح بیس فیصد ہے، چوبیس لاکھ تعلیم یافتہ افراد ایسے ہیں جن کے روزگار کا سلسلہ مخدوش ہے۔
رہا یہ دعویٰ کہ افراطِ زر کی شرح نیچے آئی ہے۔ تو صاحب! اس کا تعلق آئی ایم ایف کے پروگرام سے نہیں، جون 2014ء کے بعد بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتیں گرنا شروع ہو گئیں۔ افراطِ زر کی شرح دنیا بھر میں کم ہوئی۔ دوسری طرف ملک میں ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہوتا رہا مگر ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد (ٹیکس نیٹ) میں کوئی اضافہ نہ ہوا۔ بالائی طبقہ خصوصاً سیاست دانوں اور اہلِ اقتدار کی اکثریت نے بدستور ٹیکس نہیں دیا۔ 
سب سے زیادہ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ عوام کا معیارِ زندگی بلند تو کیا ہوتا، پہلے کی نسبت اور کم ہو گیا۔ کھاد کی قیمت زیادہ ہوئی۔ کسان کوبجلی کا بل زیادہ دینا پڑا۔ نتیجہ یہ کہ اشیائے خوردنی کی قیمتیں چڑھ گئیں۔ اس کے مقابلے میں اجرتیں نہ بڑھ سکیں۔ پاکستان میں غذائیت (نیوٹریشن) کی شدید کمی ہے۔ 2016ء کی عالمی فہرست میں پاکستان کا نمبر نیچے کی طرف سے گیارہواں ہے۔ بنگلہ دیش جیسے ممالک بھی ہم سے اوپر ہیں۔ اس فہرست میں کل ایک سو اٹھارہ ممالک شامل ہیں۔ وزیراعظم نے آئی ایم ایف کے دباؤ میں آ کر ستمبر 2015ء میں جو زرعی پیکیج دیا تھا اُس پر بد قسمتی سے عمل ہی نہ ہو سکا!
خراب ترین مسئلہ برآمدات کا رہا۔ پروگرام میں یہ طے ہؤا تھا کہ سالانہ آٹھ فیصد اضافہ ہو گا اور تین سال کے اختتام پر برآمدات 30 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔ مگر ہوا کیا؟ برآمدات گرتی رہیں۔ گذشتہ سال بائیس ارب تک مشکل سے پہنچیں۔ یعنی ٹارگٹ سے 23 فیصد کم! وجوہ کئی ہیں۔ ایک تو قرضے لے کر زرمبادلہ کے ذخائر بھرے گئے۔ دوسرے، انڈسٹری کا بجلی کا بل چالیس فیصد اور گیس کا 64 فیصد زیادہ کر دیا گیا۔ ایف بی آر نے 200 ارب ڈالر کا ری فنڈ روک رکھا ہے۔ یعنی ٹیکس جو زیادہ لیا گیا، اس میں سے 200 ارب ڈالر تاجروں صنعت کاروں کو واپس دینا ہے اور نہیں دیا جا رہا۔ ایسے میں پیداوار کیا ہو اور برآمد کیا ہو! دوسری طرف خام مال کی درآمد پر ٹیکس لگایا جا رہا ہے!
نواب رئیسانی کا یہ قولِ زریں بہت مشہور ہؤا کہ ڈگری ڈگری ہے، اصلی ہو یا جعلی! ساہوکار، ساہوکار ہوتا ہے، لالہ لاجپت رائے ہو یا آئی ایم ایف! افسوس! کشکول ٹوٹ تو نہ سکا۔ ہاں ! کئی گنا بڑا ضرور ہو گیا ہے۔

Wednesday, October 26, 2016

کلائیو کی یہ بات آئی پسند کہ وہ مر گیا

کیا آپ نے کبھی لارڈ کلائیو کی تصویر دیکھی ہے؟
کلائیو! جو اورنگ زیب عالم گیر کی وفات کے اٹھارہ سال بعد پیدا ہوا اور مرنے سے پہلے اورنگ زیب عالم گیر کی سلطنت میں اتنے چھید کر گیا کہ آج تک سِل نہیں پائے! بنگال کو سلطنتِ برطانیہ کے تاج میں ٹانک دیا۔ جنگیں لڑیں۔ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے گھوڑے کی پیٹھ پر رہا۔ فراڈ کیے‘ دھوکے دیے‘ وعدہ خلافیاں کیں‘ مگر انگریزی راج کی بنیادیں اتنی مستحکم کر دیں کہ دو سو سال تک برطانیہ برصغیر کو چھری کانٹے کے ساتھ آرام سے بیٹھ کر کھاتا رہا!
تو کیا آپ نے کلائیو کی تصویر دیکھی ہے؟ تاریخ کی کوئی پُرانی کتاب کھنگال کر دیکھ لیجیے۔ ہوبہو وہی تصویر ہے جو آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لگارڈے کی ہے۔ لگارڈے بی بی کی تصویر دیکھی تو حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ہمارے سارے سابق آقاؤں کی روحیں حلول کرکے اِس بی بی کی شخصیت میں جمع ہو گئی ہیں۔ کیا وارن ہیسٹنگز، کیا کرزن، کیا ولزلے، لگتا ہے سب کی پڑپوتی ہے!
ضمیر جعفری نے کہا تھا؎
کلائیو کی یہ بات آئی پسند
کہ وہ مر گیا
مگر کلائیو مرا نہیں زندہ ہے! آئی ایم ایف کیا ہے؟ ایسٹ انڈیا کمپنی ہی تو ہے! نام کا فرق ہے۔ کام وہی ہے۔ اندازہ لگائیے ہماری بے شرمی کا اور بے حیائی کا، نعرے لگا رہے ہیں، بھنگڑے ڈالے جا رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کی سربراہ نے کہا ہے پاکستان معاشی بحران سے نکل چکا۔ 
تو کیا اب معیشت کے بارے میں اُس ساہوکار کی رائے معتبر سمجھی جائے گی جس سے قرضے لے کر گزارہ کیا جا رہا ہے؟ ساہوکار تو چاہتا ہے کہ ہم قرضے لیے جائیں! قرضے اُس سے لیتے رہیں گے۔ وہ کہتا رہے گا ’’تمہاری معیشت بحران سے نکل آئی ہے تاہم یہ قرض مزید لو‘‘۔
اگر پاکستان کی معیشت بحران سے نکل آئی ہے تو وزیر اعظم آنسو کیوں بہا رہے تھے؟ تیس سال سے حکمران ہیں اور ملک تو کیا، صوبہ تو کیا، اپنی بغل میں واقع رائے ونڈ کا ہسپتال تک نہیں ٹھیک کر سکے۔ وزیر اعلیٰ نے برملا اعتراف کیا:
’’اگر موثر نگرانی کا سسٹم موجود ہوتا تو ادویہ کی خریداری میں تاخیر نہ ہوتی‘‘۔
گویا ان سارے عشروں میں موثر نگرانی کا کوئی سسٹم نہ بنا سکے! پھر نہلے پر دہلا یہ کہ شیخ چلی کی طرح دعوے! 
میں قوم کے پیسے کو ضائع نہیں ہونے دوں گا۔
میں نے ہسپتالوں کو درست کرنے کا بیڑا اُٹھا لیا ہے۔
جب تک مریضوں کو معیاری طبی سہولتیں نہیں ملیں گی تب تک چین سے نہیں بیٹھوں گا۔
بخدا لوگوں کو ان دعووں‘ ان بڑھکوں پر ہنستے دیکھا ہے!
کیا پورے صوبے میں‘ اور پوری مسلم لیگ نون میں‘ اور پورے خاندان میں کوئی رجلِ رشید نہیں‘ جو رمق بھر متانت سکھا دیتا اور اس قسم کے مضحکہ خیز دعووں سے روکنے کی کوشش کرتا۔ ہسپتالوں کے دوروں کا ڈرامہ عرصے سے جاری ہے۔ قصور ہسپتال میں یہ ڈرامہ دو بار ہو چکا ہے۔ دوسری بار بھی حالت اتنی ہی بُری تھی جتنی پہلی بار! مگر وزارتِ صحت رکھنی بھی اپنے پاس ہے! اَلْہَاکُمُ التَّکَاثُر! یہ بھی تکاثر ہی کی ایک قسم ہے۔ مال و دولت کی طرح جاہ و اقتدار کی حرص بھی نہیں ختم ہوتی۔ 
آئی ایم ایف کی سربراہ نے اگر کہا کہ پاکستان معاشی بحران سے نکل آیا ہے تو اس لیے کہا کہ مہمان آئی ہے۔ سفارتی نزاکتوں سے آگاہ ہے۔ مگر سبحان اللہ! بی بی نے کیا بھگو بھگو کر لگائی ہیں! بھارت کے گروتھ ریٹ (شرحِ نمو) کا ذکر کر کے کرارا، مصالحوں سے بھرپور تھپڑ پاکستان کے گال پر رسید کیا ہے! ہماری بے شرمی کہ اسے تعریف سمجھ کر تین تین فٹ اچھل رہے ہیں! 
بی بی لگارڈے وہ سب کچھ کہہ گئی ہے جسے اہلِ اقتدار سننا پسند نہیں کرتے۔ اس نے بتایا کہ قرضہ انیس ٹریلین (کھرب) روپے سے بڑھ چکا ہے جو کل قومی پیداوار کا 65 فیصد ہے! کسی معیشت کی اس سے خراب تر حالت کیا ہو گی! ایک اور کرارا تھپڑ یہ لگایا کہ بدبختو! قرضوں پر جتنا سود ادا کر رہے ہو اس کی مقدار تمہارے سارے ترقیاتی بجٹ سے بھی زیادہ ہے! 
پھر لگارڈے کہتی ہے کہ شرحِ نمو بڑھانے کے لیے نجی سرمایہ کاری ضروری ہے۔ پاکستان میں نجی سرمایہ کاری، معیشت کا صرف دس فیصد ہے! جن ملکوں میں معیشت جاندار ہے وہاں نجی سرمایہ کاری کا تناسب اٹھارہ فیصد ہے اور جگر تھام کر سنیے کہ پاکستان کی برآمدات کل ملکی پیداوار کا صرف دس فیصد ہیں‘ جبکہ یہ چالیس فیصد ہونی چاہئیں!
نجی سرمایہ کاری کیوں نہیں ہو رہی! اس کا سبب بھی خاتون بتا گئی۔ کرپشن! اس وقت لگارڈے بی بی کے بقول کرپشن کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 168 ملکوں میں 117 ہے۔ یعنی 116 ملک ایسے ہیں جہاں کرپشن پاکستان کی نسبت کم ہے! کرپشن کی وجہ سے ملک کی شہرت اس قدر داغدار ہے کہ سرمایہ کاری کرتے ہوئے لوگ ڈرتے ہیں۔ کرپشن ہے یا نہیں، کرپشن کا تاثر ضرور موجود ہے۔ یہ تاثر بھی نجی سرمایہ کاری کے لیے زہرِ قاتل ہے! پھر ترقی تعلیم میں بھی ضروری ہے۔ سکول نہ جانے والا دنیا کا ہر بارہواں بچہ پاکستان میں ہے۔ باعزت ملکوں میں قومی آمدنی کا چار فیصد تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں فقط اڑھائی فیصد!
خواتین کی شمولیت معاشی جدوجہد میں، آئی ایم ایف کے بقول‘ حد سے زیادہ غیر تسلی بخش ہے۔ 30 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے سسک رہی ہے! مجموعی طور پر اس صورتحال کا سبب اس نے گورننس کی کمزوری کو بھی قرار دیا!
یہ سب کچھ‘ جو لگارڈے نے کہا، ایک طرف رکھ دیا گیا ہے اور ایک فقرہ کہ معیشت بحران سے نکل آئی ہے، خوب خوب اُچھالا جا رہا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی مریض کے بارے میں کہا جائے کہ خطرے سے تو نکل آیا ہے‘ ہاں گردے خراب ہیں اور پھیپھڑے کمزور ہیں اور سانس کی نالی میں ورم ہے اور جگر ضعیف ہے! 
اپنی ٹیم سے نجی گفتگو میں لگارڈے خوب ہنستی ہو گی۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ حکمرانوں کی سرمایہ کاری کا کثیر حصہ بیرونِ ملک ہے۔ وہ یہ بھی جانتی ہو گی کہ گورننس نام کی کسی شے کا کوئی وجود نہیں۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن‘ سی ایس ایس کا امتحان لینے والا ادارہ ہے اور اس کے چیئرمین بی اے تھرڈ ڈویژن پاس ہیں۔ یہ صرف وزیر اعظم بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے یہ تقرری کس انصاف کے تحت کی۔ جس ملک میں وزیر اعظم کی غیر حاضری میں ان کی بیٹی ملک کو چلائے، اس کی گورننس کی اصلیت سے لگارڈے بخوبی واقف ہو گی! دو کروڑ سے زیادہ بچے سکولوں سے باہر جوتیاں چٹخا رہے ہیں، ورکشاپوں میں گاڑیوں کے نیچے لیٹے ہیں، ریستورانوں میں دیگیں دھو رہے ہیں۔ سکولوں میں پینے کا پانی نہیں۔ دیہات میں ہزاروں اساتذہ دن کے وقت کھیتوں میں ہل چلا رہے ہیں، دکانوں میں سودا بیچ رہے ہیں۔
آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ معیشت بحران سے نکل آئی ہے۔ گویا ایسٹ انڈیا کمپنی ملک پر قبضہ کر لینے کے بعد آزادی کی مبارک دے رہی ہے۔

Monday, October 24, 2016

اور بٹ گئے تم تین گروہوں میں

کمہاروں کا بیٹا سارا دن برتن دھوتا رہا۔ ایک دن پہلے حویلی میں مہمان بہت آئے تھے۔ سو، برتنوں کے ڈھیر لگے تھے۔ وہ رسوئی کے باہر سیمنٹ کے بنے ہوئے چوبچے پر بیٹھا استقامت کے ساتھ برتن دھوتا رہا۔ چاشت دوپہر میں ڈھلی، پھر سہ پہر آ گئی۔ اس اثنا میں چوہدرانی کی اپنی بہوکے ساتھ دو بار جھڑپ ہوئی۔ دونوں نے اپنے اپنے بزرگوں کے کپڑے اُتارے، ننگا کیا۔کمہارکا بیٹا برتن دھوتا رہا اور لڑائیوں کی تفصیلات حافظے میںمحفوظ کرتا رہا۔
اُدھر مردانے میں مُصلی نے بیٹھک کی صفائی کی۔ چارپائیوں پر سفید چادریں بچھائیں۔ کڑھے ہوئے غلافوں والے تکیے دھرے۔ حُقے تازہ کیے۔ پھر تقریباً سارا دن ہی بڑے چوہدری صاحب کی ٹانگیں دباتا رہا۔ اس اثنا میں چوہدری اپنے بیٹوں اور داماد کے ساتھ گھریلو معاملات پر مسلسل بات چیت کرتا رہا۔ یہ بات چیت کبھی اونچی آواز والی بحث میں تبدیل ہو جاتی اور کبھی چوہدری کی ڈانٹ میں۔ خاندان کی ساری کمینگیاں ایک ایک کرکے مصلی کے سامنے آتی رہیں۔ وہ سنتا رہا، پنڈلیوں پر مالش کرتا رہا،کاندھے دباتا رہا، حقے کی چلمیں انڈیل انڈیل دوبارہ بھرتا رہا، خاموشی کے ساتھ، جیسے اس کا وجود ہی نہ تھا۔
پھر شام ڈھلی۔ کمہار کا بیٹا اپنے گھر اور مصلی اپنے گھر روانہ ہوا۔ دونوں نے کھانا کھاتے ہوئے اپنے اپنے گھر والوں کو حویلی کے جھگڑوں، لڑائیوں،گالیوں، طعنوں، کمینگیوںکی ایک ایک تفصیل بتائی۔ سارے ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتے رہے۔ دوسرے دن پوری کمہار برادری میں اور مصلیوں کے سارے گھروں میں یہ تفصیلات مزے لے لے کر عورتیں اور مرد ایک دوسرے کو سناتے رہے۔
آج دیہات میں نقدی کا کلچر آ گیا ہے۔ گندم سے لے کر مونگ پھلی تک، ہر فصل اُٹھانے کے لیے مزدور میسر ہیں، جو دہاڑی پر کام کرتے ہیں۔ کمہاروں، مصلیوں، مراثیوں، موچیوں، لوہاروں، ترکھانوں کے بچے دبئی بیٹھے ہیں۔ بہت سے پڑھ لکھ کر اعلیٰ ملازمتوں پر لگ گئے ہیں۔ مگر پچاس سال پہلے حالات بالکل یہی تھے جو اوپر بیان ہوئے ہیں۔ کیش کا رواج تھا نہ میسر۔ ہاڑی ساونی اجناس ملتی تھیں۔ اہلِ حرفہ کمی کہلاتے تھے۔ چوہدریوں، خانوں، ملکوں، مہروں کے زنان خانوں، مردانوں، حویلیوں، مہمان خانوں میں کام کرتے تھے اور فصل اُترنے پر غلہ لیتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو بڑے خاندانوںکو نظر ہی نہیں آتے تھے۔ بے بضاعت تھے، جیسے ان کا وجود ہی نہ تھا۔ پاؤں دبانا، مہمانوں کے ہاتھ دھلانا، سفر کے دوران گھوڑی کے آگے پیدل چلنا، بچوں کو اٹنڈ کرنا، دن دن بھر دوڑ دھوپ کرنا، ان چھوٹی ذاتوں کے فرائض میں شامل تھا۔ مگر بڑے لوگوں کے گھروں کی ایک ایک بات سے یہ لوگ آگاہ ہوتے تھے۔ آپس میں بیٹھتے تو مذاق اُڑاتے۔ زیادہ جرأت والے حویلی والوں کو گالیاں بھی دے لیتے۔
آج میڈیا پر دو گروہ چھائے ہوئے ہیں۔ پہلا گروہ وہ ہے جسے میاں محمد نواز شریف کی حکومت اور خاندان میں سوائے برائی کے کچھ نہیں نظر آتا۔ نظر آتی ہے تو صرف کرپشن، صرف بادشاہت، صرف خاندانی اجارہ داری، صرف بدامنی، صرف مہنگائی، صرف ڈاکے اور اغوا، صرف وزیرخارجہ کا نہ ہونا، صرف عالمی تنہائی، صرف کشمیری برادری اور صرف لاہورگروپ! یہ گروہ عینک کے شیشوں کا نمبر بدلنے پر تیار نہیں! شریف حکومت نے موٹروے بنائی، میٹرو بسیں چلائیں، لاہور کی شکل بدل ڈالی، یہ ایک بڑی اور مثبت تبدیلی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کی جھلک اپنے ہاں بھی نظر آنے لگی ہے۔ میاں صاحب نے اقلیتوں کے حوالے سے وسیع الظرفی اور رواداری کے مظاہرے کیے ہیں۔ یہاں تک کہ دقیانوسی طبقے نے ان پر کفر کے فتوے لگائے اور نام نہاد مذہبی سکالروں نے اخباروں میں مضامین لکھ کر تنقید کے نشتر چلائے۔ دانش سکول تھے یا لیپ ٹاپ کی تقسیم، عوام کو فائدہ ضرور پہنچا، مگر یہ گروہ یہ سب کچھ دیکھنے سے قاصر ہے۔
یہ وہی گروہ ہے جو عمران خان کی ہر پالیسی پر آنکھیں بند کر کے آمنّا و صدّقنا کہہ رہا ہے۔ تیس کروڑ روپے کی خطیر رقم ایک مخصوص مکتبِ فکر، ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کو دے کر یا دلوا کر، عمران خان نے جو پہاڑ جتنی غلطی کی ہے، اس کی بھی یہ گروہ تاویلیں کرتا پھرتا ہے۔ آرمی ایکشن کی مخالفت کو بھی جائز ثابت کرتا ہے۔
میڈیا کے چوہدریوں، خانوں، ملکوں، سرداروں، مخدوموں کا دوسرا گروہ وہ ہے جو حکومت کو فرشتوں کی حکومت سمجھتا ہے۔ اسے شریف خاندان کی اجارہ داری میں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔کرپشن پر بات کرنے کے لیے توکیا، بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں۔ لاہور کی آبادی پنجاب کی آبادی کا آٹھ فیصد ہے اور پنجاب کے بجٹ کا اکاون فیصد اس شہر پر خرچ ہو رہا ہے۔ ایک مخصوص برادری اور گروپ بیورو کریسی پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ وفاق کا سربراہ ملک سے باہر ہو تو شہزادی تخت پر بیٹھ جاتی ہے۔ صوبے میں شہزادہ عملاً حکمرانی کر رہا ہے۔ ایک وزیر کے سوا کسی صوبائی وزیر کا کسی کو نام پتہ نہیں معلوم! وزارت خارجہ بھی خاندان ہی کے پاس ہے۔ ملک میں ٹریفک سے لے کر امن و امان تک حکومت کا وجود کہیں نظر نہیں آتا۔ یہی وہ گروہ ہے جسے عمران خان کبھی یہودیوں کا ایجنٹ لگتا ہے اور کبھی اسٹیبلشمنٹ کا۔ رائے ونڈ کے جلسے میں اُس نے جو سلائیڈز دکھائیں ان کا یہ گروہ ذکر کرنے یا سننے کو تیار نہیں مگر شوکت خانم ہسپتال میں اسے کرپشن ضرور نظر آرہی ہے۔کے پی میں تین سال سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے، عمران خان پر مالی بددیانتی یا اقربا پروری کا کوئی الزام بھی لگانا ممکن نہیں مگر یہ گروہ اسے کبھی فساد کا پیغمبر اور کبھی قوم کے لیے فتنہ قرار دیتا ہے۔ یہ گروہ اس سچائی کو مسلسل جھٹلا رہا ہے کہ مڈل کلاس کی بہت بڑی تعداد عمران خان کی حمایت کر رہی ہے اور پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے گٹھ جوڑ سے چھٹکارا حاصل پانا چاہتی ہے۔ اس گٹھ جوڑ نے جمہوریت کو زر خرید لونڈی بنا کر رکھ دیا ہے۔
تیسرا گروہ اتنا حقیر، اتنا بے بضاعت اور اتنا مختصر ہے کہ ان دونوںکھڑ پینچ گروہوں کو نظر ہی نہیں آتا۔ یہ گروہ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہتا ہے۔ یہ میاں نواز شریف کو اور عمران خان کو توازن کی نظر سے دیکھتا ہے۔ انصاف کرتا ہے، دونوں کی خوبیاں مانتا ہے اور غلطیوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس گروہ کے نزدیک وزیراعظم فرشتہ ہیں نہ عمران خان شیطان۔ یہ گروہ شریف خاندان کی حکومت کی خدمات تسلیم کرتا ہے اور عمران خان کی انتہا پسند پالیسیوں پر تنقید کرتا ہے۔ یہ گروہ عمران خان کے طریقِ کار سے کئی حوالوں سے اختلاف کرتا ہے مگر اُن ٹھوس شواہد سے انکار نہیں کرتا جو عمران خان نے بورڈ پر لکھ کر پوری دنیا کو دکھائے۔ یہ گروہ وزیراعظم کو محاسبے سے بالاتر نہیں سمجھتا اور کلنٹن کی طرح انہیں کٹہرے میں دیکھنا چاہتا ہے، مگر انصاف کے ساتھ!
یہ تیسرا گروہ میڈیاکی حویلیوں، چوباروں بیٹھکوں، مہمان خوانوں پر کم ہی جگہ پاتا ہے،اس لیے کہ وہاں دونوں بڑے گروہوں کی اجارہ داری ہے۔ مگر اس گروہ سے کوئی شے چھپی ہوئی نہیں۔ یہ دونوں گروہوں پر ہنستا ہے اور ان کی چوہدراہٹ پر رحم کھاتا ہے۔ یہ چوہدراہٹ کیا ہے؟ یہ چوہدراہٹ تعصبات پر مبنی ہے۔ ایک گروہ کو آسمان پر چودھویں کا چاند دکھائی دیتا ہے، دوسرے کو کالی گھٹا۔ حقیقت درمیان میں ہے اور یہ حقیقت صرف تیسرے گروہ کو نظر آرہی ہے۔ یہ دونوں گروہ، اس تیسرے چھوٹے سے بے بضاعت گروہ کو اُنہی نظروں سے دیکھتے ہیں جن نظروں سے فیوڈل اپنے ملازموں کو دیکھتے تھے۔ اس گروہ کی آواز شور میں دب رہی ہے۔ ایک طرف واہ واہ کے ڈونگرے ہیں، دوسری طرف تُف کے نعرے ہیں۔ نقارخانے میں طوطی کی آوازکوئی نہیں سن رہا۔
عرصہ ہوا ایک کتاب اتری تھی۔ اُسے ریشمی غلاف میں لپیٹ کر گھر کی سب سے اونچی الماری میں رکھ دیا گیا ہے۔ دلہن آتی ہے تو چوم کر اُتارا جاتا ہے اور دلہن کو اس کے نیچے سے گزارا جاتا ہے۔ اُس کے بعد وہ کتاب دلہن کو دکھائی دیتی ہے نہ اس کے میاں کو، نہ ساس کو نہ دلہن کو۔ اُس کتاب میں کہا گیا ہے: ’’اللہ کے واسطے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو‘‘۔
ان دونوں بڑے گروہوں کو ایک بات ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ تیسرا گروپ میڈیا کے حوالے سے چھوٹا سہی، خاموش اکثریت اسی کے ساتھ ہے۔ گھروں، تھڑوں، گلیوں اور میدانوں میں یہ اکثریت دونوں گروہوں پر ہنس رہی ہے!

Sunday, October 23, 2016

ٹماٹر

جان نکس پھلوں اور سبزیوں کا تاجر تھا۔ اُس زمانے کے نیویارک میں وہ مارکیٹ میں چھایا ہوا تھا۔ شاید ہی کوئی اور تاجر اِس شعبے میں اس کی ٹکر کا ہو۔ 1839ء میں اس نے چھوٹے پیمانے پر کام کا آغاز کیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ اس کی کمپنی دوسری ریاستوں اور برمودا کے جزائر سے سبزیاں اور پھل درآمد کرنے والی پہلی کمپنی تھی۔ جان نکس 1895ء میں وفات پا گیا۔ اس کی وفات کو ایک سو اکیس سال ہو گئے ہیں مگر آج بھی امریکہ میں اس کا اور اس کی کمپنی کا نام زندہ ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ امریکہ میں اُس وقت سینکڑوں ہزاروں لوگ سبزیوں اور فروٹ کا کاروبار کرتے ہوں گے۔ اگر جان نکس نیویارک کی منڈی پر چھایا ہوا تھا تو آخر واشنگٹن، بوسٹن اور کئی دوسرے شہروں میں بھی تو سبزیوں اور پھلوں کے بڑے بڑے تاجر ہوںگے۔ آخر ان کا نام آج کیوں کسی کو نہیں معلوم!
جان نکس کو تاریخ میں زندہ رکھنے والا مُحسن کوئی انسان نہیں تھا بلکہ ٹماٹر تھا! ہوا یہ کہ نکس نے بیرونِ ملک سے ٹماٹر درآمد کیا۔ امریکہ میں اس وقت ایک قانون رائج تھا جس کا نام ’’ٹیرف ایکٹ 1883ء‘‘ تھا۔ اِس ایکٹ کی رُو سے درآمد شدہ سبزیوں پر بھاری محصول ادا کرنا پڑتا تھا۔ جان نکس کا مال اُترا تو نیویارک کی بندرگاہ پر تعینات کلکٹر نے جس کا نام ہیڈن تھا، اس پر محصول عائد کر دیا۔ مال چھڑانے کے لیے اور خراب ہونے سے بچانے کے لیے نکس نے محصول تو ادا کر دیا مگر وہ کلکٹر کے خلاف عدالت میں چلا گیا۔ اس کا موقف یہ تھا کہ سائنس کی رُو سے ٹماٹر سبزی نہیں، پھل ہے اور ایکٹ میں صرف سبزی پر محصول لگایا جا سکتا ہے، اس لیے عدالت اُسے محصول کی رقم واپس دلوائے۔ دونوں طرف کے وکیلوں نے دھواں دار بحث کی۔ یہ مقدمہ 
مشہور ہو گیا۔ نکس کے وکیل نے مستند ڈکشنریوں سے فروٹ اور سبزی کی تعریف پڑھ کر سنائی اور ثابت کیا کہ علمِ نباتات کی رُو سے ٹماٹر پھل ہے اورکوئی ایسا قانون نہیں جو ڈکشنری میں دیئے گئے معنی کو تجارت پر نافذ نہ کرنے دے۔ مگر عدالت نے فیصلہ نکس کے خلاف دیا۔ عدالت کا نکتہ یہ تھا کہ عملی طور پر سب لوگ ٹماٹر کو سبزی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اسے سویٹ ڈش میں نہیں بلکہ سالن میں کھایا جاتا ہے۔ اس وقت سے لے کر اب تک امریکی عدالتوں میں نکس کے نام کی گونج سنائی دیتی ہے۔ جب بھی کسی وکیل نے ثابت کرنا ہو کہ سائنس یا ڈکشنری نہیں، بلکہ عوامی استعمال فیصلے کی بنیاد ہوتا ہے تو نکس کے مقدمے کا حوالہ دیا جاتا ہے۔
عدالت نے تو فیصلہ دے دیا مگر یہ تنازع آج تک جاری ہے کہ ٹماٹر سبزی ہے یا پھل؟ سیاسی تجزیہ کار سیاست دانوں کے نام پھلوں پر رکھ دیتے ہیں یا دوسری خوردنی اشیا پر! مثلاً ڈیوڈ کیمرون کو برطانوی صحافی ٹافی کہتے تھے کہ دیکھنے میں میٹھا ہے مگر اندر سے سخت! ایک اور سیاست دان کو پیاز کہا جاتا تھا کہ وہ لوگوں کی آنکھوں میں آنسو لے آتا ہے۔ ڈیوڈ کیمرون کی کابینہ کے ایک وزیر کو ٹماٹر کہتے تھے کیونکہ اس کا موقف ’’ہرچند کہ ہے مگر نہیں ہے‘‘ والا تھا۔
کیا آپ نے سید خورشید شاہ صاحب کے بیانات پر کبھی غور کیا ہے؟ کریں گے تو آپ کے ذہن میں لامحالہ ٹماٹر کی صورت ابھرے گی۔ سبزی ہے یا فروٹ؟ آج تک فیصلہ نہیں ہو سکا۔ آپ شاہ صاحب کے بارے میں کبھی بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپوزیشن میں ہیں۔ حزبِ اقتدار میں تو وہ یوں بھی نہیں! مگر اصل کریڈٹ آصف زرداری صاحب کو جاتا ہے۔ وہ اس جادو سے ہمیشہ بچتے ہیں جو سر چڑھ کر بولنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ انہوں نے سید یوسف رضا گیلانی اور پھر راجہ صاحب کو وزیر اعظم اس لیے بنایا تھا کہ وہ ان دونوں صاحبان سے محبت کرتے تھے؟ نہیں! اس لیے کہ مردم شناس زرداری کو معلوم تھا کہ یہ دونوں خم ٹھونک کر سامنے کھڑے والے ہونے  والے نہیں! ان میں گہرائی نہیں۔ یہ
 Vegetables 
ہیں۔ بولنے میں متاثر کر سکتے ہیں نہ لکھنے میں۔ اسی طرح سید خورشید شاہ صاحب کو پارٹی کے مالک نے پارلیمانی لیڈر مقرر کیا، اس لیے کہ وہ کسی بھی موقع پر اپنی رائے نہیں دیں گے۔ وہ رائے دینے کے اہل ہی نہیں۔ یہ بات ہمیشہ سے طے ہے کہ زرداری صاحب نواز شریف صاحب کی حکومت کے ہمیشہ حامی رہیں گے کیونکہ اگراحتساب ایک کا ہوا تو دوسرا بھی اسی کشتی میں سوار ہے۔ چنانچہ فرینڈلی اپوزیشن کے لیے شاہ صاحب سے زیادہ مناسب شخص کون ہوسکتا ہے! وہ ایک سانس میں جو بات کہتے ہیں دوسری سانس میں اس پرجھاڑو پھیر دیتے ہیں۔ پھر تیسرے فقرے میں جوکچھ کہتے ہیں، چوتھے فقرے میں اس کی تردید کردیتے ہیں۔ مثلاً ’’وزیراعظم کی پالیسیوں سے وفاق اورحکومت کو خطرہ ہے‘‘۔
 اس بیان میں اگلا جملہ دیکھیے: ’’اسلام آباد بند کرنے سے دنیا میں غلط تاثر جائے گا‘‘۔ اب تیسرا فقرہ سنیے’’اگر حالات خراب ہوئے تو ذمہ دار نوازشریف اور عمران خان دونوں ہوںگے‘‘۔ پھر فرمایا: ’’حکومت ’جاگ پنجابی جاگ‘ کی سیاست سے باہر نکلے اور وفاق کی سیاست کرے تاکہ ایک صوبہ اور ایک شہر نہیں بلکہ پورا ملک مضبوط اور طاقتور بن سکے‘‘۔ اسی سانس میں کہا: ’’دارالحکومت کو لاک ڈائون کرنا اور اس کو مفلوج کرنا سراسر غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام ہے ہے‘‘۔
شاہ صاحب سبزی  ہیں یا پھل؟ اس ابہام کی بہترین مثال دیکھنا ہو تو ان کے دو ایسے بیانات پر غور کیجیے جن کو تشریح، توجیہ، تاویل، کچھ بھی نہیں ہوسکتی اور کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ فرمایا: ’’پیپلزپارٹی لانگ مارچ کی چیمپئن ہے‘‘۔ ساتھ ہی حکومت کو اطمینان بھی دلا دیا کہ ’’اگرمطالبات نہ مانے گئے تو ہم پارلیمنٹ میں احتجاج کریں گے‘‘۔
کل کو اگر زمین پر کھینچے گئے زائچے اورآسمان پر بدلتے ستارے شاہ صاحب کو وزیراعظم بنادیں تو وہ گورنر عشرت العباد کی طرح عشروں پر عشرے کوئی ٹھوس بات کیے بغیر گزار سکتے ہیں۔ مصطفیٰ کمال نے عشرت العباد صاحب کے رویے کا کمال تجزیہ  کیا ہے اور یوں کیا ہے کہ تصدیق کرنے کے ساتھ داد بھی دینا پڑتی ہے۔ مصطفیٰ کمال نے کہا کہ عشرت العباد صاحب نے کسی کے لیے کبھی رائے یا منفی رائے کھل کر نہیں دی۔ کسی کی کبھی موافقت کی نہ مخالفت، اس لیے کہ موافقت یا مخالفت کرنے کے لیے دلائل دینے پڑتے ہیں۔ دلائل دیے جائیں تو معلوم ہوجاتا ہے کہ موقف کیا ہے۔ مگر عشرت العباد صاحب یا سید خورشید شاہ صاحب جیسے مرنجاں مرنج حضرات کسی کی موافقت یا طرف داری کیوں کریں؟ آخر کیوں اپنا موقف واضح کریں؟ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ موقف رکھیں ہی کیوں؟ کسی ایشو پر واضح موقف اختیار نہ کرنا، سیاسی بقا کا بہترین نسخہ ہے۔ Survive کرنے کے لیے اس سے بہتر کشتی نہیں مل سکتی۔ یہ کشتی ہر طرف، ہر سمت چلتی ہے۔ ابھی کنارے پر لگی تھی تو ابھی پانی پر رواں ہے۔ ابھی اس رخ پر تھی تو ابھی ہوا کے رخ کے ساتھ اپنا رخ بھی بدل لیا ہے۔
ٹھوس رائے نہ رکھنے والے کو 
Vegetable 
بھی کہتے ہیں! میڈیکل سائنس میں ایسا مریض جو زندہ تو ہے، سانس تو لیتا ہے مگر اس کا دماغ کام نہیں کر رہا
 Vegetable 
کہلاتا ہے۔ تاہم روز مرہ کی گفتگو میں
 Vegetable
 وہ ہوتا ہے جو قیادت نہ کرسکے۔ کھوکھلا ہو۔ ادراک نہ رکھتا ہو۔ کسی مسئلے کی گہرائی میں نہ جا سکے۔ آپ اس سے گفتگو کریں تو آپ کو یوں لگے جیسے آپ سپاٹ دیوار کے سامنے کھڑے ہیں!
عرصہ ہوا ایک بیورو کریٹ سے گپ شپ ہو رہی تھی۔ باتوں باتوں میں اظہار افسوس کیا کہ آج بھی ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم کی ضیافتوں میں بیرے دستاراور اچکن میں ملبوس ہیں! بیورو کریٹ کہنے لگا اچھے لگتے ہیں۔ کیا برائی ہے۔ ایک  اور صاحب نے جوپاس تھے غیراختیارت طور پر بیورو کریٹ سے کہا: ’’اوہو! تم 
Vegetable
ہو!‘‘

Friday, October 21, 2016

لمبا پراندہ! چھوٹا قد ونگیاری دا

سب سو رہے تھے۔
کیا مرد کیا عورتیں اور کیا بچے۔ سب لحافوں میں دبکے تھے۔ برف ہوا کے دوش پر اُڑتی ہوئی آئی اور گرنے لگی۔ بڑے بڑے سفید گالوں کی صورت! شاہراہیں برف سے ڈھک گئیں۔ چھتیں سفید ہو گئیں۔ جنگلے چھپ گئے۔ سوراخ بھر گئے۔ اونچی نیچی جگہیں برابر ہو گئیں۔ سات انچ برف پڑی! پھر یوں ہوا کہ تیز ہوا چلی اور برف بنانے اور برسانے والے بادل اُڑتے اُڑتے نگاہوں سے اوجھل ہو گئے۔ صبحدم لوگ بیدار ہوئے تو خلافِ معمول ہر طرف بکھری سفیدی نظروں سے ٹکرائی۔ آنکھیں حیران ہو گئیں۔ پھر بچے سکولوں کو روانہ ہوئے‘ برف کے گولوں سے کھیلتے، گھٹنوں تک دھنستے اور درختوں کی ٹہنیوں کو تعجب سے دیکھتے، جو کیسی کیسی شکلوں میں نظر آرہی تھیں!
رابرٹ برجز (Bridges) کی یہ نظم انگریزی شاعری کے اکثر مجموعوں میں ملتی ہے۔ یہ بھائی صاحب ڈاکٹر تھے مگر آخری عمر میں ادب پر توجہ دی اور شاعری میں نام پیدا کیا۔ یہ نظم جیسے انہوں نے ہمارے لیے ہی لکھی تھی! اٹھارہ اکتوبر کو قوم غفلت کی نیند سو رہی تھی۔ سب کھیل کود میں، لہو و لعب میں، موج میلے میں لگے تھے مگر وہ جن کے دل میں قوم کا درد تھا، جمہوریت کی بساط بچھا رہے تھے۔ انیس کی صبح لوگ اُٹھے تو جمہوریت ہر طرف برف کی طرح سفید نور بن کر چھائی ہوئی تھی۔ سوراخ بھر گئے تھے۔ اونچی نیچی جگہیں برابر ہو چکی تھیں۔ درختوں کی شاخوں پر جمہوریت عجیب و غریب، مختلف شکلوں میں لٹکی تھی۔ آنکھیں جمہوریت کے نور سے چندھیا رہی تھیں۔ خیرہ ہو رہی تھیں۔ آئندہ نسل گھٹنوں گھٹنوں جمہوریت میں دھنسی ابھی سے نظر آرہی تھی۔
شام کی سیاسی جماعت ’’عرب سوشلسٹ بعث پارٹی‘‘ تھی۔ صدر حافظ الاسد تیس سال تک بلا مقابلہ اس کے صدر منتخب ہوتے رہے۔ کوئی نہ کوئی عبدالقادر بلوچ ’’مقابلے‘‘ میں اُٹھتا مگر معلوم ہوتا کہ وہ تو پارٹی آئین کی شق نمبر120 کے تحت مقابلے کا اہل ہی نہیں‘ کیونکہ مرکزی کونسل کی رکنیت اس کے پاس نہیں! تیس سال کے بعد حافظ صاحب یعنی حافظ الاسد بدقسمتی سے جمہوریت کو روتا بلکتا‘ چیخیں مارتا، سینہ کوبی کرتا، سر پیٹتا چھوڑ کر حساب کتاب دینے قبر میں جا لیٹے۔ گزشتہ سولہ سال سے ان کے فرزند ارجمند پارٹی کے سربراہ ’’منتخب‘‘ ہو رہے ہیں۔
ترکمانستان میں ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت ہے۔ 1999ء میں پارٹی نے صدر نیازوف کو تاحیات صدر مقرر کر دیا۔ ملک کی بدقسمتی کہ 2006ء میں آپ داغ مفارقت دے گئے۔ ان کے جانشین بھی تاحیات ہی دکھائی دے رہے ہیں۔
اب قزاقستان کی سنیے۔ وہاں کی برسرِ اقتدار پارٹی نور وطن کہلاتی ہے۔ 1991ء سے لے کر اب تک صدر نور سلطان نذر بایوف اس کے سربراہ چلے آرہے ہیں۔ سربراہی کا ایک ضمنی فائدہ یہ ہے کہ وہ ملک کے بھی صدر ہیں۔ انتخابات باقاعدہ ہوتے ہیں۔ پارٹی میں بھی اور ملک میں بھی مگر اٹھانوے فیصد ووٹ صدر ہی کو ملتے ہیں۔ ایک بار ایک صاحب مقابلے کے لیے اُٹھے۔ یہ ہمارے عبدالقادر بلوچ صاحب کی طرح نہیں اُٹھے تھے بلکہ واقعتاً مقابلہ کرنا چاہتے تھے مگر نااہل ٹھہرائے گئے۔ انہوں نے ایک ’’غیر آئینی‘‘ اجلاس میں شرکت کی تھی اس اجلاس کا نام تھا ’’تحریک برائے آزاد انتخابات‘‘!
مصر میں جب تک صدر ناصر برسرِ اقتدار رہے، سنگل پارٹی سسٹم رہا۔ پھر صدر انور السادات تخت نشین ہوئے۔ آپ جمہوریت کے سچے عاشق تھے۔ آپ نے عرب سوشلسٹ پارٹی پر پابندی لگا کر نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی قائم کی اور دوسری پارٹیوں کو بھی سیاست کرنے کی ’’اجازت‘‘ مرحمت فرمائی۔ سارے محبِ وطن افراد راتوں رات سوشلسٹ سے ڈیموکریٹک ہو گئے اور صدر کی بنائی ہوئی نئی پارٹی میں شامل ہو گئے۔ انور السادات جمہوریت کی شہزادی کو جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے قتل ہو گئے۔ ان کے جانشین حسنی مبارک نے انور السادات کے اس معروف قول کو ہمیشہ اپنا رہبر و رہنما بنایا کہ ’’عوام کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جمہوریت کے بھی اپنے دانت ہوتے ہیں‘‘۔ حسنی مبارک تیس سال تک پارٹی کے بلا مقابلہ صدر منتخب ہوتے رہے یہاں تک کہ 2011ء میں گردشِ زمانہ الٹ چل پڑی۔ حسنی مبارک اور ان کے خاندان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب ان کی حکومت کو ختم کر دیا گیا۔
الحمدللہ! ثُمَّ الحمدللہ! ہم جمہوریت کے حوالے سے مصر‘ شام‘ ترکمانستان‘ ازبکستان اور قزاقستان جیسے ملکوں کی صف میں شامل ہیں۔ ’’اندر‘‘ ہونے والے انتخابات کو ’’انٹرا پارٹی‘‘ الیکشن کہا جاتا ہے۔ یہ باہر کے انتخابات کی طرح نہیں ہوتے بلکہ اصل ہوتے ہیں۔ وزیراعظم ایک بار پھر بلا مقابلہ پارٹی کے سربراہ منتخب ہو گئے۔ نائب صدر بھی سارے بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو بھی پنجاب مسلم لیگ کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ پارٹی موجودہ صدر کی صدارت سے صرف اُس زمانے میں محروم رہی جب وہ جدہ اور لندن میں مقیم تھے!
علم کی ایک شاخ وہ بھی ہے جو ٹرکوں بسوں اور رکشوں کے پیچھے جلوہ افروز ہوتی ہے۔ ایک بار ایک رکشے کے پیچھے کمال کا فقرہ نظر پڑا: ’’نیز انجن اِدھر بھی نیا ہے‘‘۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وزیر اعظم اپنی پارٹی کے سربراہ منتخب ہوئے۔ نیز چوہدری پرویز الٰہی بھی اپنی پارٹی کے صدر بلا مقابلہ ہی منتخب ہو گئے ہیں۔ دوسری سیاسی جماعتوں کا تذکرہ دس اکتوبر کے روزنامہ دنیا میں پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔
برطانیہ، امریکہ، فرانس، سنگاپور، کینیڈا اور کئی دوسرے ممالک جمہوریت کے حوالے سے کئی نوری سال پیچھے ہیں۔ اعتماد کا اس قدر ان ملکوں میں فقدان ہے کہ ایک سیاستدان پارٹی کا لیڈر بن جائے تو پارٹی اراکین اسے کچھ عرصہ بعد پارٹی کی سربراہی سے فارغ کر دیتے ہیں۔ اس کے خاندان یا اس کی اولاد کو اس کا جانشین بنانے کا تو یہ ناپختہ اذہان سوچ بھی نہیں سکتے۔ برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کی مثال لے لیجئے۔ مارگریٹ تھیچر 1975ء میں پارٹی کی قائد بنیں۔ پندرہ سال پارٹی کی خدمت کی‘ مگر احسان فراموش قوم نے 1990ء میں جان میجر کو پارٹی کی قیادت سونپ دی۔ ابھی چند دن پہلے تک ڈیوڈ کیمرون پارٹی کے لیڈر تھے۔ اِس جولائی میں انہیں قیادت سے فارغ کر دیا گیا۔ اپنا سامان خود پیک کرتے پائے گئے۔ چند دن پہلے ایک دکان کے سامنے، سڑک کے کنارے، چبوترے پر بیٹھے، بیوی کے ساتھ آئس کریم کھا رہے تھے۔ اب تھریسا مے نے پارٹی کی سربراہی سنبھال لی ہے۔ یہ اقوام، ذہنی پختگی میں ہماری سطح پر کب پہنچیں گی؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جس سطح پر ہم ہیں، اس تک پہنچنا ہر قوم کے بس کی بات نہیں۔ ع
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
اصل میں جمہوریت لمبا قد مانگتی ہے۔ اِن مغربی ملکوں کی قامتیں پست ہیں۔ یہ ہماری طرح طویل قامت نہیں۔ کان لگا کر سنیے۔ مُغنی، مطرب پر کیا گا رہا ہے ع
لمبا پراندہ! چھوٹا قد ونگیاری دا
چوڑیاں بیچنے والی کا قد چھوٹا ہے اور پراندہ اس حرافہ نے بالوں میں لمبا باندھ رکھا ہے۔ اب برادرم رؤف کلاسرا کہیں گے کہ یہ تو سرائیکی کا لوگ گیت ہے۔ مگر کیا کیجیے کہ یہ تو ہمارے ہاں فتح جنگ‘ پنڈی گھیب‘ اٹک اور تلہ گنگ میں بھی گایا جاتا ہے۔ میانوالی کی زبان بھی تقریباً ملتی جلتی ہے مگر میانوالی والوں نے کالی قمیض کے ساتھ ساتھ سرائیکی ہونا بھی قبول کر لیا ہے۔ کسی نے ایک صاحب سے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے۔ اس نے جواب دیا عبدالرؤووووف! اب اس نے پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟ جواب ملا، نام تو میرا بھی یہی ہے مگر اس قدر لمبا نہیں! زبان تو ہماری بھی میانوالی سے ملتی جلتی ہے مگر ہمیں کیا پڑی ہے کہ تخت لاہور کو چھوڑ کر تختِ ملتان کی نوکری اختیار کر لیں۔ نوکری ہی کرنی ہے تو تختِ لاہور کیا بُرا ہے! کم از کم یہاں پارٹی کے ’’اندر‘‘ انتخابات تو خالص جمہوری روایات کے مطابق ہوتے ہیں۔

Wednesday, October 19, 2016

اصل سبب! اللہ کے بندو! اصل سبب


یہ ایک وسیع و عریض علاقہ تھا اور قبیلے کا سردار اس علاقے کا بلاشرکت غیرے حکمران تھا۔ اس حکمرانی کی سب سے بڑی خاصیت یہ تھی کہ رعایا کو یا سردار کے ماتحتوں میں سے کسی کو مسئلہ درپیش ہوتا تو اُسے یہ نہ معلوم ہو پاتا کہ کس کے پاس جانا ہے۔ بس کسی نہ کسی طرح سردار تک رسائی حاصل کرنا ہوتی۔ سردار مسئلہ سنتا اور کسی کو حکم دیتا کہ مسئلہ حل کرے۔ وہ کسی کو بھی یہ حکم دے سکتا تھا۔ عام طور پر جو بھی اُس وقت پاس ہوتا‘ اسے ہی یہ ذمہ داری سونپ دیتا۔ وہ شخص‘ جو کام پہلے سے کر رہا ہوتا‘ اسے چھوڑ دیتا‘ نئے سائل کو پکڑ کر دربار سے نکلتا اور اپنی دانست میں مسئلہ حل کرتا۔ حل کرتا یا خراب تر کرتا‘ یہ اُس کی ذہانت پر اور سائل کے بخت پر منحصر ہوتا۔
اردگرد کے علاقوں پر جو نواب حکمران تھے‘ ان میں سے بعض کے ساتھ تعلقات خوشگوار تھے اور اکثر کے ساتھ کشیدہ۔ ایک صبح شمالی سرحد کے پار حکمرانی کرنے والے نواب کا پیغام آیا کہ وہ ملاقات کے لیے اپنے عمائدین کے ہمراہ آنا چاہتا ہے۔ اُس وقت سردار کا منجھلا بیٹا اُس کے ساتھ بیٹھا گوسفند کے گوشت اور اونٹنی کے دودھ کے ساتھ ناشتہ کر رہا تھا۔ سردار نے نواب کے استقبال کی ذمہ داری اُسے ہی سونپ دی۔ عشائیے میں سردار نے جو تقریر کرنا تھی‘ وہ بھی منجھلے بیٹے ہی نے لکھنی یا لکھوانی تھی۔چھ ماہ بعد جنوبی سرحد پر جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ سردار نے اپنے بھتیجے کو طلب کیا‘ یہ ایک پچیس سالہ اتھرا نوجوان تھا۔ اسے مذاکرات کے لیے بھیج دیا۔
سردار کی بیگم نے خریداری کے لیے بڑے شہر میں جانا تھا۔ اس کے سفر کی تیاری اور پروٹوکول کے لیے ایک خدمت گار کو مامور کیا جو اصل میں حقہ بھرنے کا ماہر تھا۔ کچھ دنوں بعد سردار کی بڑی بہن نے اُسی شہر کا دورہ اور شاپنگ کرنا تھی۔ اب کے پروٹوکول کی ڈیوٹی سر پر مالش کرنے والے نائی کی لگی۔ وہ بہت تیز تھا اور اپنے آپ کو ہیئر ڈریسر کہلواتا تھا۔ اس نے اپنے دل کے نہاں خانے میں نصب العین یہ رکھا کہ سردار کی بہن کا دورہ‘ سردار کی بیگم کے دورے سے زیادہ کامیاب اور ہنگامہ خیز ہو۔ خریداری کاوقت آیا تو اس نے کاریگروں اور اچھی شہرت رکھنے والے ملبوسات سازوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کیا۔ واپسی پر حرم سرا میں سرد جنگ شروع ہو گئی۔ سردار کی بہن نے خریداری کی بھرپور نمائش کی۔ اس کے مقابلے میں بیگم صاحبہ کی خریداری ماند پڑ گئی۔ کشمکش حرم سے نکل کر دربار میں پہنچی اور پھر پورا قبیلہ اس کی لپیٹ میں آ گیا۔ بیگم کا تعلق قبیلے کی جس شاخ سے تھا وہ سردار سے ناراض ہو گئی۔ یوں سازش کی بنیاد پڑی۔
علاقے کے جنوب میں شاہراہ کی تعمیر اُس درباری کے سپرد کر دی گئی جس کی ڈیوٹی ہسپتالوں کی تعمیر تھی۔ قبیلے کے صدر مقام میں ریل کی پٹڑی بچھانے کا وقت آیا تو سردار نے سوتیلے بھائی کو اس کا انچارج لگا دیا۔ دوسرے علاقوں کے گورنر بھائی کے مخالف ہو گئے۔ ان کے پروپیگنڈے کی بنیادی دلیل یہ تھی کہ صدر مقام پر سارے علاقوں کا حق ہے۔ اسے اپنے بھائی کے سپرد کرنا ناانصافی اور برادر نوازی ہے۔
کچھ نوجوان جو بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آئے تھے‘ اس صورتحال کے انجام سے لرزہ براندام تھے۔ انہوں نے باہر رہ کر دیکھا اور پڑھا تھا کہ نظام علاقے کا ہو یا پورے ملک کا‘ یارا جواڑے کا یا جاگیر کا‘ تقسیم کار کے بغیر نہیں چلتا۔ ہر شعبے کے ماہرین الگ ہوتے ہیں‘ ان نوجوانوں نے کوشش کی کہ کوئی سسٹم‘ کوئی نظام‘ کوئی قاعدہ کوئی رولز آف بزنس بنیں اور سردار اس کے مطابق سرداری کرے مگر کامیاب نہ ہوئے۔ سردار ان کی بات ضرور سنتا‘ وعدہ کرتا۔ شکریہ ادا کرتا‘ حوصلہ افزائی بھی کرتا مگر دوسرے دن وہی افراتفری ازسر نو شروع ہو جاتی۔ ایک ایک شعبے کو کئی کئی افراد سنبھالنے لگتے۔ پھر غلط فہمیاں دور دور تک مار کرنے لگیں۔ سردار کو علم ہی نہ ہوا اور خبریں پھیلانے والے متعدد ادارے اور افراد ایک ایک خبر کو کئی رنگ دے کر گردش کرانے لگے۔ کچھ باتیں اس بدانتظامی کے طفیل لشکر کے سپہ سالار کو پہنچیں اور وہ بھی بدظن ہو گیا۔یہ ہے اصل سبب اُس ہڑبونگ کا 
جو معروف انگریزی روزنامے میں ایک خبر شائع ہونے سے ایک افق سے دوسرے افق تک چھا گئی ہے یہ کوئی سازش ہے نہ کوئی منصوبہ بندی۔ جو لوگ حکومت کے ساتھ ہیں اور وزیراعظم کے اردگرد ہیں وہ کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوئے۔ وہ بہت ذہین ہیں۔ ان میں سے ہر ایک ’’دیوانہ بکار خویش‘‘ ہشیار ہے‘ یہ سب وہ گروہ اور وہ افراد ہیں جو اس حکومت کے 
BENEFICIARIES
 ہیں۔ فائدے اٹھانے والے ہیں‘ مستفید ہیں! انہیں کیا پڑی ہے کہ حکومت اور میر سپاہ کے درمیان غلط فہمی پھیلا کر اُس دریا کا رُخ موڑیں جو ان کے کھیتوں کو سیراب کر رہا ہے؟ کسی نے یہ خبر بدنیتی یا سازش کے ارادے سے نہیں لیک کی۔ اصل وجہ وہ قبائلی طرز حکومت ہے جو میاں صاحب کے خمیر میں ہے اور جس سے وہ چھٹکارا نہیں پا سکتے۔ 
اللہ کے بندو! غور کرو! کیا تمہیں کوئی سسٹم‘ کوئی نظام‘ کوئی قاعدہ‘ کوئی ضابطہ دکھائی دے رہا ہے۔ رولز آف بزنس جو نظم و نسق کی بنیاد ہوتے ہیں‘ پارہ پارہ کر دئیے گئے ہیں۔ تقسیم کار‘ڈویژن آف ورکس‘ کا وجود ہی نہیں۔ حکومت کا کوئی شعبہ ‘جی ہاں‘ کوئی شعبہ‘ اٹھا کر دیکھ لو۔

OVERLAPPING
 یعنی تداخل کا بدترین نمونہ ہیِ‘ یہ تو سب جانتے ہیں کہ ایک مرد کی کئی بیویاں ہوں تو اسے پولی گیمی
 POLYGAMY
 کہتے ہیں۔ یعنی کثرت ازدواج‘ تو جو نہیں جانتے وہ یہ بھی جان لیں کہ جب بیوی ایک ہو اور اس کے شوہر ایک سے زیادہ ہوں تو اسے 
POLYANDRY
 کہتے ہیں۔ معلوم نہیں اردو میں اس کے لیے کوئی لفظ مینوفیکچر ہوا ہے یا نہیں‘ بہرطور فارسی میں اسے ’’چند شوہری‘‘ کہتے ہیں۔ اس کا رواج آج بھی نیپال‘ تبت اور جنوبی بھارت کے بعض قبائل میں موجود ہے۔ ہمارے یہاں حکومت اسی چند شوہری یعنی پولی اینڈری کے سسٹم پر چل رہی ہے۔ یعنی    ؎
بزمِ ساقی سے اٹھا ہے کوئی یوں رات گئے
پا بدستِ دگرے‘ دست بدستِ دگرے
کسی کا ہاتھ کسی کے پائوں پر ہے اور کسی کا پائوں کسی کے ہاتھ میں! وزارت اطلاعات کو لے لیجئے۔ کچھ محکموں کے سرکاری ملازم الگ یہ کام کر رہے ہیں۔ شہزادی کا میڈیا گروپ الگ مشہور ہے۔ وزارت اطلاعات کا تنظیمی ڈھانچہ تتر بتر ہے۔ پرنسپل انفارمیشن افسر کہاں ہے۔ کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ سی پیک جو وزارت کمیونی کیشن کے پاس ہونا چاہیے تھا‘ منصوبہ بندی ڈویژن کے تھیلے میں ہے۔ قطر سے گیس لانی ہے تو ایک صوبائی وزیراعلیٰ یہ کام کر رہا ہے۔ دارالحکومت میں میٹرو چلانی ہے تو دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ عضو معطل ہے اور فیصلہ سازی ایک صوبے کے پاس ہے۔ ایک صوبے کا وزیراعلیٰ بیک وقت وزیر خارجہ ہے اور ہر اُس اجلاس میں دکھائی دیتا ہے جہاں باقی وزرائے اعلیٰ نہیں بلائے جاتے جبکہ دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کا نمونہ بنے ہیں۔ وزارت خارجہ پر مشیر مسلط ہیں جبکہ وزیر خارجہ ایک بھی نہیں۔ ہر وفاقی وزیر ہر اُس شعبے کے بارے میں بیانات دے رہا ہے جو اُس کے دائرہ اختیار میں موجود ہی نہیں۔ یعنی پطرس بخاری کے بقول سائیکل کا ہر پرزہ بج رہا ہے سوائے گھنٹی کے۔ بے شمار اہم فیصلوں کی پارلیمنٹ کو ہوا ہی نہیں لگتی۔ کابینہ کے اجلاس کی باقاعدگی سے ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اندازہ لگائیے‘ قبائلی نظام کا کہ وزیراعظم پارلیمنٹ میں تشریف لائیں یا کابینہ کا اجلاس بلائیں تو یہ ایک باقاعدہ خبر ہوتی ہے جو شہ سرخیوں کے ساتھ چھپتی ہے۔ ابھی اپریل میں میڈیا میں بھونچال آ گیا کہ وزیراعظم نے سات ماہ کے بعد کابینہ کا اجلاس بلا لیا ہے گویا    ؎
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پہ ٹوٹنے والا ہے آسماں جیسے
وزیر داخلہ ایوان میں خارجہ پالیسی پر بولتے ہیں۔ صوبائی وزیر قانون‘ وفاقی معاملات پر طبع آزمائی فرماتے ہیں۔ چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ ایک وفاقی وزیر بھرے اجلاس میں فریاد کرتے ہیں کہ فلاں جانب سے ان کی وزارت میں مداخلت ہو رہی ہے۔ یہ ان کی بہادری تھی ورنہ مداخلت سے کون سی وزارت بچی تھی؟ یا بچی ہے؟ ایک وزیر نے تاریخ کا شعبہ بھی سنبھال لیا ہے۔ پرسوں ہی قوم کو سبق یاد کرایا ہے کہ وزیراعظم نے قائداعظمؒ ثانی کا کردار بار بار دہرایا ہے۔ تعجب ہے کہ اصل قائداعظمؒ نے قائداعظمؒ اوّل کا کردار ایک ہی بار ادا کیا۔ یعنی پاکستان بنوایا! تاریخ کے اگلے سبق میں قائداعظم ثالث اور قائداعظم رابع پر بھی نئے باب باندھے جا سکتے ہیں۔ 
صوبے پر نظر ڈالیں تو یہ عہدے پُر کرنا چنداں مشکل نہیں! فاطمہ جناح ثانی بھی موجود ہیں!
یہ ایک قبائلی نظام ہے۔ بھرپور‘ پورا پورا قبائلی نظام حکومت! خبر کا لیک ہونا سازش نہیں! اللہ کے بندو! سازش کے لیے ذہانت درکار ہے! یہ تو بدانتظامی اور نااہلی کا شاخسانہ تھا۔ قبیلے کے سردار نے ایک ایک کام اتنے افراد کو سونپا ہوا ہے کہ اب اسے خود بھی معلوم نہیں ہو رہا کہ کون سی غلطی کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائے!!!

Monday, October 17, 2016

مراد علی شاہ صاحب! ڈٹ جائیے

بلیک میلنگ کا پہلا تحریری تذکرہ 1530ء کے کاغذات میں ملتا ہے۔ آدم سکاٹ‘ ایک غنڈہ تھا جو بلیک میل کر کے لوگوں کو لوٹتا تھا۔ اُسے موت کی سزا دی گئی۔ 
یہ اُس زمانے کی بات ہے جب بلیک میلنگ کا مطلب محض یہ تھا کہ لوگوں کو ڈرا دھمکا کر ان سے نقد روپیہ یا اشیا بٹوری جائیں۔ بلیک میل کے لفظ میں اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ’’میل‘‘ کا مطلب ڈاک ہے تو آپ غلطی پر ہیں۔ سولہویں صدی کی انگریزی میں یہ لفظ
 MAILL  
تھا۔ یعنی ایل کا لفظ حرف دو بار لکھا جاتا تھا۔ اس میل کا مطلب خطوط یا ڈاک نہیں تھا۔ اس کا مطلب کرایہ تھا یا ٹیکس۔ ہم اسے جگا ٹیکس بھی کہہ سکتے ہیں جو غنڈے وصول کرتے ہیں۔ سکاٹ لینڈ کے بارڈر پر رہنے والے انگلینڈ کے کسان سکاٹ لینڈ کے ظالم جاگیرداروں کو نقد رقم دیتے تھے یا مویشی اور غلہ۔ ایک دوسری روایت میں انگلینڈ کے زمیندار‘ سکاٹ لینڈ کے کسانوں سے یہ سب کچھ بٹورتے تھے۔
یہ سب ماضی کے قصے ہیں۔ آج کی بلیک میلنگ کا مقصد ضروری نہیں‘ دھمکی دے کر رقم بٹورنا ہو‘ اس سے مراد اپنی بات منوانا بھی ہے۔ مشہور تفریحی ڈرامے ’’تاقے کی آئے گی برات‘‘ میں بشریٰ انصاری ایک نٹ کھٹ شوخ چنچل بیگم کا کردار ادا کرتی ہیں۔ ڈرامے میں ان کا شوہر دوسری شادی کر لیتا ہے۔ وہ سب سے اوپر والی چھت پر جا کر پلنگ پر چڑھ جاتی ہیں اور دھمکی دیتی ہیں کہ اگر میاں نے دوسری بیوی کو فوراً طلاق نہ دی تو وہ چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیں گی۔ دوسرے لفظوں میں آج کی بلیک میلنگ کا مطلب ہے دوسرے پر کنٹرول حاصل کرنا! اس کی مثال ہماری موجودہ سیاست میں ان دنوں نمایاں ہے۔ جب کرپٹ سیاست دانوں کے احتساب کا معاملہ آتا ہے تو شور مچایا جاتا ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ یہ غوغا برپا کر کے سیاست دان اپنے ناقدوں پر کنٹرول حاصل کر لیتے ہیں۔
مگر ایک طبقہ پاکستان میں ایسا بھی ہے جو بلیک میلنگ کے مقابلے میں ہر بار اول آتا ہے۔ اگر آپ کا ذہن ڈاکٹروں کی طرف جا رہا ہے تو ایک بار پھر آپ غلطی پر ہیں۔ یہ درست ہے کہ ڈاکٹر اپنے کسی بھی ساتھی کی حمایت میں ہڑتال کر کے مطالبات منوا لیتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ ہیں تو سرکاری ملازم! اس لیے ایک حد سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ورنہ حکومت انہیں ملازمت سے برطرف کر کے بیروزگار ڈاکٹروں کو رکھ لے گی۔ جس زمانے میں ہمارے شہروں میں فلش سسٹم نہیں شروع ہوا تھا‘ بھنگی کمیونٹی بہت کامیابی سے بلیک میلنگ کرتی تھی اور دو دن میں سب کا دماغ درست کر کے رکھ دیتی تھی۔
پاکستان میں کامیاب ترین اور بیک وقت مکروہ ترین بلیک میلنگ تاجر برادری کرتی ہے۔ کوئی وفاقی یا صوبائی حکومت آج تک اس بلیک میلنگ کا توڑ نہیں کر سکی۔ تاجر دو بنیادی مسئلوں پر ڈنکے کی چوٹ پر بلیک میلنگ کرتے ہیں۔ اول اُس وقت جب ان سے کہا جائے کہ ٹیکس پورا ادا کرو۔ بچے کو بھی معلوم ہے اور دیوانہ بھی اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ تاجروں کی اکثریت ٹیکس دیانت داری سے ادا نہیں کرتی اور یہی وہ کمیونٹی ہے جو ٹیکس کے اہلکاروں کو کرپشن کا راستہ دکھاتی ہے۔ مگر جب کبھی حکومت سختی سے محاسبہ کرتی ہے تو تاجر برادری ہڑتال کی دھمکیاں دے کر بلیک میلنگ کرتی ہے۔ اس وقت ان لوگوں کو اچانک یاد آتا ہے کہ ٹیکس کی رقم کا استعمال درست طور پر نہیں ہو رہا۔ حالانکہ یہ ایک دوسرا مسئلہ ہے۔ بجا کہ ٹیکس کی ساری رقم ہماری حکومتیں عوام کی فلاح و بہبود پر نہیں خرچ کرتیں اور اللّے تللّے ضائع کر دیتی ہیں مگر اس کا حل یہ نہیں کے ٹیکس نہ دیا جائے۔ اس کا حل حکومت کا محاسبہ اور الیکشن میں اہل امیدواروں کا انتخاب ہے۔ دوم‘ ایک عرصہ سے حکومتیں کاوش کر رہی ہیں کہ تاجر برادری بزنس کے اوقات میں اعتدال لائے اور ترقی یافتہ ملکوں کی طرح سرشام دکانیں بند کر دے‘ مگر یہاں پھر بلیک میلنگ پر کمر باندھ لی جاتی ہے اور خوئے بد را بہانہ بسیار کے مطابق سو طرح کے عذر پیش کئے جاتے ہیں۔ پھر ہٹ دھرمی سے کام لے کر صاف انکار کیا جاتا ہے اور پوری تاجر برادری خم ٹھونک کر ریاست کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔ اپریل 2010ء میں اُس وقت کے وزیر داخلہ رحمن ملک نے کوشش کی کہ دکانیں شام آٹھ بجے بند ہو جائیں مگر یہ کوشش ناکام بنا دی گئی۔ 2015ء کے اپریل میں موجودہ حکومت نے ایک بار پھر کوشش کی کہ شادی کی تقریبات رات دس بجے تک اختتام کو پہنچ جائیں‘ ریستوران رات کو گیارہ بجے اور عام دکانیں آٹھ بجے تک بزنس کریں۔ اس پر وہ بلیک میلنگ کی گئی کہ حکومت نے ہتھیار ڈال دیے۔ ایک وجہ فوراً ہتھیار ڈالنے کی یہ بھی تھی کہ وفاق اور پنجاب میں خود تاجر برادری کی حکومت ہے۔ اس سے پہلے شوکت عزیز کی حکومت تھی تو بینک اور بینکار کھُل کھیلتے رہے۔ صرف عوام ہی وہ بدقسمت ’’طبقہ‘‘ ہے جس کی طرف داری کرنے والا کوئی نہیں!
اب کے سندھ کے جواں مرد وزیراعلیٰ نے پھر عزم کیا ہے کہ اس خودسر‘ اتھرے‘ اونٹ کو نکیل ڈالی جائے۔ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ بازار سات بجے تک اور شادی ہال دس بجے تک کاروبار بند کر دیں۔
حسب توقع تاجر برادری نے ’’میں نہ مانوں‘‘ کی گردان شروع کر دی ہے۔ کراچی تاجر اتحاد کے سربراہ عتیق میر نے فیصلے کو چیلنج کر دیا ہے۔ سب سے بڑی دلیل وہی گھسی پٹی ہے کہ فیصلہ کرتے وقت تاجر برادری کو ’’آن بورڈ‘‘ نہیں لیا گیا‘ ظاہر ہے آن بورڈ لینے یا نہ 
لینے سے فرق نہیں پڑتا۔ تاجر برادری اپنی روش بدلنے کے لیے تیار ہی نہیں۔ دلائل اس کے اتنے بودے‘ ضعیف اور مضحکہ خیز ہیں کہ ایک بچہ بھی انہیں رد کر سکتا ہے۔ دلائل کیا ہیں؟ یہ کہ یورپ میں تو غروب آفتاب کے بعد شدید سرما کی وجہ سے کاروبار ہو ہی نہیں سکتا جبکہ یہاں موسم گرم ہے اور لوگ ٹھنڈے موسم میں شاپنگ کرنا پسند کرتے ہیں۔ عتیق میر صاحب یقیناً کئی بار سمندر پار گئے ہوں گے۔ انہیں چاہیے کہ ایک بار پھر ہیوسٹن‘ امریکہ کی جنوبی ریاستوں‘ آسٹریلیا کے شہروں‘ سنگاپور‘ ہانگ کانگ اور دوسرے ایشیائی ملکوں میں جا کر گرما کا موسم گزاریں۔ پرتھ‘ ایڈی لیڈ‘ برسبن‘ میلبورن اور سڈنی میں بے تحاشا گرمی پڑتی ہے۔ یہی حال امریکہ میں جنوبی ریاستوں کا ہے۔ مگر ان سب مقامات پر گرمیوں میں بھی کاروبار سرشام بند ہو جاتا ہے۔ چنانچہ سرد موسم کی دلیل بودی اور بے بضاعت ہے۔ رہی یہ بات کہ پاکستانی ٹھنڈے موسم میں شاپنگ کرنا چاہتے ہیں تو میرؔ صاحب بتائیں کہ دکانیں صبح نو بجے کیوں نہیں کھُل سکتیں؟ کیا اس وقت موسم ٹھنڈا نہیں ہوتا۔ تاجر حضرات دن کو بارہ بجے دکانیں کھولتے ہیں۔ کیا اُس وقت برفباری ہو رہی ہوتی ہے؟
تاجروں نے یہ بھی کہا ہے کہ دکانیں جلد بند کرانے سے پہلے کچرے اور سٹریٹ کرائمز کا خاتمہ اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی مرمت کرائی جائے۔ اسے کہتے ہیں ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ! اگر یہ کوئی دلیل ہے تو پھر تاجر حضرات بھی حکومت سے اپنی بات منوانے سے پہلے اُن چھ برائیوں کا خاتمہ کریں جن میں یہ برادری کمر تک نہیں‘ گلے تک دھنسی ہوئی ہے۔ عتیق میر صاحب اور ان کے ہمنوا کیا انکار کر سکتے ہیں کہ اوّل: تاجروں کی اکثریت ملاوٹ جیسے گھنائونے جرم میں ملوث ہے۔ خوردنی تیل سے لے کر مرچوں‘ آٹے‘ گھی‘ دودھ اور خوراک کے اکثر آئٹموں میں مکروہ اور ناقابل تردید ملاوٹ کی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ دوائوں اور معصوم بچوں کے دودھ میں ملاوٹ کرتے وقت بھی ان صاحبان کو خوف خدا نہیں آتا۔ ملاوٹ کے اعتبار سے پاکستان پوری دنیا میں بدنام ہے۔ دوم: تاجروں کی اکثریت ٹیکس چور ہے۔ دُہرے رجسٹر رکھتے ہیں۔ گاہکوں کو رسید نہیں دیتے۔ سوم : 
Refund
 پالیسی کا کوئی وجود نہیں۔ یہ جو دکانوں میں ’’خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہو گا‘‘ کے بورڈ گاہکوں کا اور قانون کا منہ چڑا رہے ہیں تو یہ دھاندلی‘ یہ سینہ زوری اور یہ بدتمیزی دنیا کے کسی مہذب ملک میں نہیں پائی جاتی۔ شے واپس یا تبدیل کرنا گاہک کا بنیادی حق ہے بشرطیکہ پیکنگ خراب نہ ہوئی ہو اور رسید دکھائی جائے۔ چہارم: تاجروں کی اکثریت وعدہ خلافی کا کھلم کھلا ارتکاب کرتی ہے۔ شادی کے ملبوسات اور جہیز کا سامان خریدنے کے لیے ان کے پاس خواتیں آتی ہیں۔ مقررہ تاریخ پر شاذ و نادر ہی کام مکمل ملتا ہے۔ ان خواتین کو بے رحمی سے پھیرے پہ پھیرا ڈالنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ نوے فیصد تاجر تاریخ طے کر کے وعدہ خلافی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ پنجم: پورے ملک میں تاجروں کی اکثریت ناجائز تجاوزات کی مرتکب ہو رہی ہے۔ یہ گھنائونا جرم شرعی‘ قانونی اور اخلاقی لحاظ سے بدترین فعل ہے۔ شاہراہوں پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ فٹ پاتھ ہڑپ کئے ہوئے ہیں۔ برآمدوں کو دکانوں کا حصہ بنایا ہوا ہے۔ دکانوں کے سامنے ٹھیکے والوں اور سٹال لگانے والوں کو بٹھا کر رشوت وصول کی جاتی ہے۔ اس سے آمدنیاں مشکوک ہو رہی ہیں۔ یہ ایسا ظلم ہے جس سے شاید ہی کوئی واقف نہ ہو اور انکار کر سکے! ششم: سب سے بڑا ظلم تاجر برادری یہ کر رہی ہے کہ مذہب کو تجارت کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ چندہ وصول کرنے والے مذہبی عناصر ان کے ساتھ ہیں۔ حج‘ عمرے‘ نمازیں‘ دیگیں‘ خیرات‘ ان پانچ جرائم کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں۔ دکانوں اور کمپنیوں کے نام رکھتے وقت عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال کیا جاتا ہے۔
تاجر برادری کو توانائی کے مسئلے پر ملک سے کوئی ہمدردی نہیں۔ دوپہر کے بعد کاروبار شروع کرنے اور آدھی رات کے وقت بند کرنے پر یہ برادری تلی ہوئی ہے۔
مراد علی شاہ صاحب! اس وطن دشمن رویے کیخلاف ڈٹ جائیے! میڈیا آپ کیساتھ ہے! عوام آپ کے لیے دعا کر رہے ہیں۔

Saturday, October 15, 2016

آدمی کو بھی میسّر نہیں انساں ہونا

مسجد کے بڑے ہال کا دروازہ کھول کر باہر نکلنے لگا تھا کہ ایک بزرگ صورت صاحب نمودار ہوئے۔ یوں تو چٹے سر اور چٹی داڑھی کی وجہ سے میں بھی اچھا خاصا بزرگ لگتا ہوں مگر وہ جینوئن بزرگ دکھائی دے رہے تھے۔ دروازہ کھول کر کھڑا رہا تاکہ وہ پہلے گزریں۔ وہ گزرے مگر یوں جیسے میں کئی نسلوں سے ان کا خاندانی مزارع تھا۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ میری طرح ان پڑھ تھے۔ لباس سے تعلیم یافتہ لگ رہے تھے۔ باہر نکل کر نوٹ کیا کہ وہ جس گاڑی میں بیٹھ رہے تھے‘ وہ پرانی تھی نہ چھوٹی!
آپ ڈرائیو کر رہے ہوں‘ راستہ تنگ ہو یا کسی دوسرے گاڑی والے نے مڑنا ہو‘ اور آپ رک جائیں تاکہ وہ پہلے گزر جائے تو وہ یوں شانِ بے نیازی سے گزرے گا‘ جیسے رکنا آپ کا فرض تھا اور اس کا حق۔ پوری مہذب دنیا میں دوسری گاڑی والا ہاتھ اٹھا کر شکریہ ادا کرتا ہے۔ ہاں! ایک بار ایک ٹیکسی والے نے ہاتھ لہرا کر شکریہ ادا کیا اور موٹر سائیکل پر سوار ایک لڑکے نے‘ جس کے گزرنے کے لیے میں نے بریک لگائی‘ شکریہ ادا کیا۔ مگر یہ شرح اس قدر برائے نام ہے کہ نہ ہونے کے برابر ہے!
آخر ہمارا مسئلہ کیا ہے؟ ہم شکریہ ادا کرنے میں یا ایک مسکراہٹ بکھیرنے میں‘ جس پر کوئی خرچ بھی نہیں اٹھتا‘ اس قدر تنگ دل کیوں ہیں؟ دو افراد بات کر رہے ہوں تو ان کی گفتگو کے ختم ہونے کا انتظار کیوں نہیں کرتے‘ درمیان میں کیوں کود پڑتے ہیں؟ کسی کو فون کریں تو بات کرنے سے پہلے اپنا تعارف کیوں نہیں کراتے؟ وعدہ کرتے ہیں کہ کسی کو فون کریں گے اور مطلوبہ معلومات مہیا کریں گے‘ مگر اس وعدے کی کوئی اہمیت نہیں۔ دوسری بار پوچھے گا تو دیکھیں گے۔ سیڑھیوں کے پاس کھڑے دو اشخاص بغل گیر ہونے کے بعد باتیں کرنے لگتے ہیں۔ آپ نے اوپر جانا ہے۔ وہ راستہ بند کرکے کھڑے ہیں۔ آپ جب راستہ دینے کے لیے کہتے ہیں تو معذرت کرنے کے بجائے یوں دیکھتے ہیں جیسے آپ نے ان کی خواب گاہ کی پرائیویسی میں خلل ڈالا ہے!
آپ دکاندار سے یا کائونٹر پر بیٹھے ہوئے صاحب سے کچھ پوچھتے ہیں‘ وہ یا تو جواب ہی نہیں دیتا یا انتہائی بددلی سے ایک نامکمل جواب دیتا ہے!
اچھی خاصی پارکنگ کی جگہ چھوڑ کر دکان کے عین سامنے گاڑی کھڑی کرتے ہیں۔ اصل میں بس نہیں چلتا ورنہ گاڑی کو اندر لے جائیں اور گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی خریداری کریں۔
اتنی بڑی گاڑی اندھے کو بھی نظر آ جائے لیکن ہمیں نہیں نظر آئے گی۔ اس کے عین پیچھے گاڑی پارک کریں گے۔ واپس آئیں گے تو وہ شخص جس کی گاڑی بلاک تھی‘ کہے گا کہ آپ کو یہاں گاڑی کھڑی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ہم اس سے معذرت کے دو بول نہیں کہیں گے۔ ایک بدبخت گائودی کی طرح‘ ایک نیچ کی بے شرمی کے ساتھ ٹھسّے سے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر چل دیں گے۔
دیکھ رہے ہیں کہ دکاندار ایک گاہک کو اٹنڈ کرنے میں مصروف ہے‘ پھر بھی دکاندار کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس میں بھی اتنا شعور نہیں کہ انتظار کرنے کی تلقین کرے۔ وہ دو گاہکوں کو بیک وقت اٹنڈ کرنے لگے گا۔ ایک کا کام تسلی بخش ہو گا‘ نہ دوسرے کا! اور تو اور‘ اے ٹی ایم کے کیبن میں کھڑے ہو کر ٹیلی فون پر لمبی بات کریں گے‘ یہ سوچے بغیر کہ باہر لائن لگی ہے!
ترقی یافتہ ملکوں میں یہ قاعدہ عام ہے کہ سامنے بیٹھے ہوئے شخص کا آپ کی توجہ پر زیادہ حق ہے بہ نسبت اس کے جو فون پر بات کرنا چاہتا ہے۔ آپ جب تک اپنی بات یا اپنا کام ختم نہیں کر لیتے‘ وہ فون نہیں سنے گا یا فون کرنے والے کو بتائے گا کہ بعد میں بات ہو گی۔ مگر ہم سامنے بیٹھے ہوئے شخص کو عجیب و غریب صورت حال میں ڈالنے کے ماہر ہیں۔ فون پر لمبی غیر ضروری بات ہو رہی ہے۔ ایک کے بعد دوسرا فون اٹنڈ ہو رہا ہے۔ سامنے بیٹھا ہوا سائل یا ضرورت مند‘ یا کلائنٹ‘ اٹھ کر جا سکتا ہے نہ ہی ہماری توجہ حاصل کر پاتا ہے۔
ہماری بداخلاقی سوشل میڈیا پر بھی چھائی ہوئی ہے۔ مہذب دنیا میں جب مارکیٹنگ کے لیے یا کسی اور مقصد کے لیے ای میل کی جاتی ہے تو لامحالہ‘ ای میل کے مضمون کے آخر میں یہ آپشن دیا جاتا ہے کہ اگر آئندہ اس قسم کی میل وصول نہیں کرنا چاہتے تو یہاں کلک کریں۔ اسے UN-Subscribe کرنا کہتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں اس کا رواج نہیں! ہر شخص اپنے مخصوص مذہبی نظریات یا سیاسی نقطہ نظر کی تبلیغ کرنا چاہتا ہے۔ سو ڈیڑھ سو ای میل ایڈریس نہ جانے کہاں سے اکٹھے کر لے گا۔ پھر اللہ دے اور بندہ لے! دھڑا دھڑ ای میلیں آپ کے ان بکس میں اتریں گی۔ آپ ان ای میلوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں مگر وہ آپشن تو دیا ہی نہیں گیا۔ پھر آپ خصوصی ای میل کرتے ہیں کہ جانِ برادر! اِس طویل فہرست سے میرا ایڈریس ازراہ کرم نکال دیجیے۔ تجربہ یہ ہے کہ صرف دس فیصد لوگ اس درخواست کو درخور اعتنا گردانیں گے! ایک ریٹائرڈ وفاقی سیکرٹری نے چند سیاست دانوں کو دام میں لا کر ایک تھنک ٹینک قسم کی شے قائم کی ہے۔ اب ان صاحب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار کون ہو گا؟ بے شمار رپورٹیں‘ جو ردی کی ٹوکری میں پھینکے جانے کے قابل ہیں‘ دھڑا دھڑ بھیج رہے ہیں۔ زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ بدقسمتی سے ایسی ای میلیں بلاک کرنے کی گنجائش بھی کم از کم میرے آئی پیڈ پر نہیں!
ان بداخلاقیوں کے لیے ایس ایم ایس ہی کیا کم تھا کہ وٹس ایپ بھی پلے پڑا ہوا ہے۔ مذہبی روایات‘ سیاسی بحثیں‘ وڈیوز‘ سب کچھ بھیجا جا رہا ہے۔ ساتھ یہ تلقین بھی کہ جان کی خیر چاہتے ہو تو دس افراد کو آگے روانہ کرو۔ خوش قسمتی سے ایسے فارغ اصحاب کے ایس ایم ایس اور وٹس ایپ بلاک کیے جا سکتے ہیں!
یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ من حیث القوم ہم میں پیدائشی نقص یعنی
manufacturing Defect 
ہے۔ ہرگز نہیں! خلاّقِ عالم نے ساری صلاحیتیں‘ حواسِ ظاہری اور غیر مرئی اعضا ہماری قوم کو کمال فیاضی سے عطا کیے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو ہم پاکستانی دوسرے ملکوں میں جا کر جون کیسے بدل لیتے؟ کیا آپ نے بارہا نہیں دیکھا کہ پاکستانی لندن یا نیو یارک کے ہوائی اڈوں پر کتنے خوش اخلاق ہوتے ہیں۔ اپنی باری کا انتظار خوش دلی سے کرتے  ہیں۔ گفتگو آہستہ آواز میں کرتے ہیں۔ مسکرا کر تھینک یو اور پلیزکہنا نہیں بھولتے۔ سپر سٹور پر اگر گوشت ختم ہو رہا ہے تو آخری پیس دوسرے گاہک کو خریدنے کا موقع دیتے ہیں اور ساتھ مسکراہٹ بھی بکھیرتے ہیں۔ سفید فام لوگوں کی دعوت میں وقت پر پہنچتے ہیں۔ جہاں ٹیلی فون کرنا ہے‘ ضرور کرتے ہیں اور تاخیر سے گریز کرتے ہیں۔ مگر جیسے ہی کراچی لاہور یا اسلام آباد کے ایئرپورٹ پر اترتے ہیں‘ کایا کلپ ہو جاتی ہے۔ ایئر ہوسٹس کا لہجہ بھی کھردرا ہو جاتا ہے۔ جیسے ہی اعلان ہوتا ہے کہ ابھی اپنی اپنی نشستوں پر ہی تشریف رکھیے‘ سب یوں اٹھ پڑتے ہیں جیسے نشست پر بجلی کے کرنٹ نے ڈس لیا ہے۔ دوسروں کے سروں کے اوپر سے سامان وحشیانہ سرعت کے ساتھ اتارا جائے گا۔ تھینک یو اور پلیز کے الفاظ لغت میں جیسے کبھی تھے ہی نہیں! چہروں پر مسکراہٹ کی جگہ غیظ و غضب سے بھرے مکروہ نقوش نے لے لی ہے۔ ہر شخص کو جلدی ہے۔ بیلٹ سے سامان اتارتے وقت 
ہمارے اندر کی پاکستانیت عروج پر ہوتی ہے! پھر شاہراہیں تو ہمارے باپ دادا کی ملکیت ہیں۔ سگریٹ کی خالی ڈبیا‘ خالی ماچس‘ پھلوں کے چھلکے‘ خط نکالنے کے بعد خالی لفافہ‘ یہ ساری اشیا صرف ٹیکسیوں اور رکشوں سے باہر نہیں پھینکی جاتیں‘ شاہراہوں پر یہ احسانات بی ایم ڈبلیو‘ مرسڈیز اور پجارو والے بھی کر رہے ہیں۔
بچّے بھی یہی کچھ سیکھ رہے ہیں۔ اس لیے کہ وہ جو کچھ دیکھتے ہیں‘ ان کے کورے ذہنوں پر نقش ہو جاتا ہے۔ ہماری اپنی زندگیاں تو جنگلیوں کی طرح گزر گئیں‘ کم ازکم بچوں کے معاملے میں تو ہوش کے ناخن لیں۔ انہیں سکھائیں کہ شکریہ کہنا ہے۔ کسی کو زحمت دینی ہو تو پلیز یا ’’مہربانی ہو گی‘‘ کے الفاظ کہیں۔ دوسرے بات کر رہے ہوں تو درمیان میں نہ کودیں‘ بلکہ انتظار کریں۔ کھانے میں نقص نہ نکالیں۔ اگر کوئی ڈش پسند نہیں تو بے شک نہ کھائیں‘ مگر تنقید نہ کریں۔ اندھوں‘ لنگڑوں‘ بہروں کا مذاق نہ اڑائیں۔ ان کے تضحیک آمیز نام نہ رکھیں۔ اگر کوئی حال چال پوچھے تو شکریہ ادا کرکے اس کا حال احوال بھی دریافت کریں۔ مہمان سے ہاتھ ملاتے وقت اس کی طرف دیکھیں۔ دوست کے گھر کھانا کھائیں یا پارٹی اٹنڈ کریں تو اس کے ماں باپ کا شکریہ ضرور ادا کریں۔ کسی کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے دستک دیں۔ فون کریں تو پہلے اپنا نام بتائیں اور پھر پوچھیں کہ کیا میں فلاں سے بات کر سکتا ہوں۔ ای میل یا ایس ایم ایس کے ذریعے ضروری پیغام وصول کریں تو وصولی کی اطلاع دیں ’’او کے۔ شکریہ‘‘ لکھ کر بھیجنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟ کسی کے گھر جا کر کوئی دستاویز یا خط یا پیغام دیتے وقت وصول کرنے والے کا نام ضرور پوچھیں۔ مذاق کرتے وقت کسی کی عزت نفس نہ مجروح ہونے دیں۔ چلتے وقت کسی سے ٹکرا جائیں تو معذرت کریں۔ لوگوں کے سامنے ناک میں انگلی نہ ڈالیں۔ تھوکنے سے گریز کریں۔ کھانستے وقت یا جمائی لیتے وقت منہ پر ہاتھ رکھیں۔
خدا کرے ہماری آئندہ نسل صرف آدمی نہ ہو‘ انسان بھی ہو!

Friday, October 14, 2016

انوکھی وضع ہے، سارے زمانے سے نرالے ہیں

سات برس کا عثمانی گریڈ ون کا طالب علم تھا۔ گھر سے سکول اور سکول سے گھر، سکول کی بس میں آتا جاتا تھا۔ اُس دن اس کے ساتھ انوکھا ہی معاملہ ہوا۔ پانچ ہم عمر بچوں نے اسے پاکستانی کہا، پہلے آوازے کسے، پھر ایک نے اس کے چہرے پر مُکا رسید کیا۔ پھر دوسرے نے اُس کے دونوں بازو پکڑ کر اُس کی پیٹھ کے ساتھ لگا لیے۔ دو بچے اسے ٹھوکریں مارنے لگے۔ 
بچہ دہشت زدہ ہو گیا۔ اس کی نفسیات پر گہرا اثر پڑا۔ سکول میں شکایت کی گئی۔ تفتیش شروع ہوئی۔ اس اثنا میں عثمانی فیملی نے سامان باندھا اور واپس پاکستان منتقل ہو گئی۔ امریکہ اب ان کے رہنے کے لیے ایک محفوظ ملک نہیں تھا۔
اس کیس کو ہم اسلاموفوبیا کی واضح مثال قرار دے سکتے ہیں۔ ہم اسے ’’ٹرمپ کا امریکہ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے ہم ایسے تمام واقعات کی مذمت کرتے ہیں اور مذمت کرنا بھی چاہیے۔ 
تاہم معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے اپنے آپ سے بھی کچھ سوال کرنے ہوں گے۔ اس قبیل کے اکثر واقعات پاکستانیوں کے ساتھ ہی کیوں پیش آتے ہیں؟ پاکستانی نصف صدی سے امریکہ میں‘ یورپ میں، آسٹریلیا اور جاپان میں رہ رہے ہیں۔ ان تمام ملکوں نے پاکستانیوں کو ملازمتیں دیں۔ شہریت دی۔ جائدادیں ان کے نام منتقل کرنے کی اجازت دی۔ اس کا کیا سبب ہے کہ کچھ برسوں سے پاکستانیوں کو دہشت گردی کے ہر معاملے میں گھسیٹا جا رہا ہے؟
ہم ایک ذہنی حصار کے اندر رہنے کے عادی ہیں۔ بیرونی دنیا کے تاثرات سے آگاہی تو ہے مگر ہم اس کی پروا نہیں کر رہے۔ ہمیں ایک بار اپنے آپ سے ضرور پوچھنا چاہیے کہ اگر ساری دنیا پاکستان کو دہشت گردی کا گڑھ سمجھ رہی ہے تو کیا ساری دنیا کو پاکستان سے دشمنی ہے؟ اور کیا اس کا سبب اسلام دشمنی ہے؟ اگر پاکستان کو مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے تو پھر یہ سزا مراکش، مصر، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، ملائیشیا اور ترکی کے مسلمانوں کو کیوں نہیں دی جا رہی؟ کیا وہ سب مسلمان نہیں ہیں؟ 
یہ ایک وسیع موضوع ہے۔ اس کی اتنی جہتیں ہیں کہ ایک اخباری کالم میں سب کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرف ملک کی اکثریت اخبارات ہی کا مطالعہ کرتی ہے۔ تحقیقی مضامین، بھاری بھرکم کتابیں اور مقالات سے بھرے جریدے چند افراد ہی پڑھتے ہیں‘ جبکہ معاملے کی تہہ تک پہنچنا ہر پاکستانی کے لیے ضروری ہے۔
ایک وجہ پاکستان کی بدنامی کی‘ ہماری ناکام خارجہ پالیسی بھی ہے۔ بھارت، افغانستان اور امریکہ ہمارے خلاف مسلسل پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس پروپیگنڈے کا ہمارے پاس جواب کیوں نہیں ہے؟
معروف انگریزی روزنامے میں سول حکومت اور آرمی کے حوالے سے جو خبر چھپی، اس پر غور کیا جائے تو بہت سے عقدے وا ہوتے ہیں۔ جو تازہ ترین بیانات فوج کی طرف سے الیکٹرانک میڈیا نے نشر کیے ہیں، ان میں خبر کی حقانیت پر اعتراض نہیں کیا گیا۔ یہ پوچھا گیا ہے کہ اتنی حساس خبر، بند کمرے میں ہونے والے اجلاس سے باہر کیسے آئی؟
اس اجلاس میں سیکرٹری خارجہ نے جس بے بسی کا اظہار کیا، وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ لبِ لباب یہ ہے کہ غیر ریاستی عناصر (نان سٹیٹ ایکٹرز) کے بارے میں دنیا جب سوالات اُٹھاتی ہے تو پاکستانی ڈپلومیٹ کوئی جواب نہیں دے سکتے۔
یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ کچھ حوالوں سے پاکستان دوسرے تمام مسلمان ملکوں سے الگ ہے۔ مثلاً یہی غیر ریاستی عناصر کا معاملہ لے لیجیے۔ اس قبیل کے غیر ریاستی عناصر، جو خارجہ پالیسی میں ہمہ وقت دخیل ہوں، کسی اور مسلمان ملک میں نہیں پائے جاتے۔ عرب ملکوں کے سر پر اسرائیل کی تلوار لٹک رہی ہے۔ ترکی کی یونان کے ساتھ قبرص کے معاملے میں نہ جانے کب سے کھینچا تانی چل رہی ہے۔ مگر کسی ملک نے اپنے دفاع کے لیے غیر ریاستی عناصر کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ کیا آپ نے دفاع ترکی کونسل اور دفاع سعودی عرب کونسل کے نام کبھی سنے ہیں؟ 
حکومتی پارٹی کے جس ایم این اے کی کچھ حلقے مذمت کر رہے ہیں، اس نے بھی کچھ نہیں کہا سوائے اس کے کہ جو کچھ اس پر فرانس میں گزری، اس نے وہ بیان کر دی۔ قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے امور خارجہ میں رانا افضل نے بتایا کہ غیر ریاستی عناصر کی بنیاد پر بھارت نے ہمارے خلاف ایسا کیس بنایا ہے کہ غیر ملکی مندوب اسی کا ذکر کرتے ہیں۔ فرانس میں اس ایم این اے کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے دہشت گرد ایسے پکڑے گئے جن کا مدارس سے براہِ راست تعلق نہ تھا۔ نہ ہی وہ غریب طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوئے تھے مگر سوال یہ ہے کہ یہ مائنڈ سیٹ، کہاں پرورش پا ر ہا ہے؟ اس کی جڑ کہاں ہے؟
غیر ریاستی عناصر کے علاوہ دو دوسرے پہلوؤں سے بھی ہم بقیہ عالم اسلام سے مختلف ہیں۔ نہ صرف مختلف بلکہ انوکھے اور نرالے ہیں؎
انوکھی وضع ہے، سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں
ترکی، مصر، سعودی عرب، کویت، یو اے ای اور دوسرے مسلمان ملکوں میں مسجدیں ریاست کی تحویل میں ہیں۔ خطیب اور امام حضرات سرکار کی قائم کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے خطبہ دیتے ہیں۔ اسی طرح مدارس کا جس طرح پاکستان میں جال بچھا ہے، ویسا جال کسی دوسرے قابلِ ذکر اسلامی ملک میں نہیں پایا جاتا۔ اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے والا شخص سب سے پہلے اپنے معاش کے لیے مسجد ڈھونڈتا ہے۔ نہیں ملتی تو نئی بنانے یا بنوانے پر کمر باندھ لیتا ہے۔ پھر ساتھ مدرسہ بنا لیتا ہے۔ کیا سعودی عرب، مصر، یو اے ای اور ترکی میں ایسا کرنے کی اجازت ہے؟ کیا یہ حقیقت مضحکہ خیز نہیں کہ کوئی شخص کہیں بھی ایک مدرسہ کھول سکتا ہے؟ ان مدارس کے طلبہ کی اکثریت نہ صرف تاریخِ پاکستان نے نابلد ہے بلکہ اکثر میں قائدِ اعظم کا نام تک نہیں لیا جاتا۔ ہر مکتبِ فکر کے الگ مدارس ہیں۔ دوسرے مکاتبِ فکر یا فرقوں کے بارے میں اِن مدارس کا جو رویہ ہے، اسے بیان کرنے کی یا اس پر تبصرہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے ہر پڑھا لکھا شخص بخوبی آگاہ ہے! طرفہ تماشا یہ ہے کہ کچھ مذہبی گروہوں پر‘ جن کے ہیڈ کوارٹر ہی پاکستان میں قائم ہیں، مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں پابندی لگی ہوئی ہے! سوال یہ ہے کہ اِن گروہوں پر اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی لگا کر کیا سعودی عرب اور یو اے ای جیسے ممالک دائرۂ اسلام سے خارج ہو گئے ہیں۔ ہم جو موقف اختیار کریں، ہمارا حق ہے! مگر ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ دہشت گردی پر، غیر ریاستی عناصر پر، دوسرے ملکوں میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات پر، باقی دنیا کا موقف مختلف ہے۔ ہمارے سفارت کار، ہمارے عوامی نمائندے‘ ہمارے طلبہ، ہمارے سکالر، جب دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں تو جو کچھ ان سے پوچھا جاتا ہے، وہ اس کا جواب نہیں دے سکتے! اس بے بسی کا، اس شرمندگی کا حل تلاش کرنا ہو گا!
اور ہاں! دنیا ہم سے ایک اور سوال بھی پوچھتی ہے۔ پاکستان کے لوگ کٹڑ مذہبی ہیں۔ یہاں لاتعداد مذہبی مدارس قائم ہیں۔ مذہبی اور تبلیغی سرگرمیاں دنیا کے کسی بھی دوسرے مسلمان ملک سے زیادہ ہیں۔ ہم اسلام کا قلعہ ہیں۔ ہمارا رویہ وہی ہے جو ایک ٹھیکیدار کا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اس ملک میں دروغ گوئی، پیمان شکنی، ملاوٹ، ماپ تول میں بددیانتی، چور بازاری، ناقص عمارتوں اور شاہراہوں کی شرح دوسرے ملکوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے! اب تو ٹیلی ویژن کو حرام قرار دینے والے اور بے شمار گھروں میں ٹی وی سیٹ تڑوانے والے، ٹیلی ویژن چینلوں پر دن رات وعظ بھی فرما رہے ہیں۔ پھر بھی معاملات میں ہم بدترین شہرت کے مالک ہیں۔ آخر کیوں؟ لازم نہیں کہ ہر سوال کا جواب دینے کے لیے حشر کا انتظار کیا جائے۔

Wednesday, October 12, 2016

اصل چہرہ

یہ ایک دلدوز منظر تھا۔ اتنا دل دوز کہ دیکھنے والے کا کلیجہ باہر آنے لگتا تھا۔
وہ چار تھے۔ تن پر صرف پتلون نما چیتھڑے تھے۔ ہر ایک کی کمر کے گرد رسی تھی۔ رسی کا دوسرا سرا سامنے کھڑی گاڑی سے بندھا تھا۔ پہلے انہیں بھارتی ریاست کے قصبے اونا کی گلیوں میں پھرایا گیا۔ پھر ایک ایک اونچی ذات کا ہندو آتا اور لکڑی کے بہت چوڑے ڈنڈے کے ساتھ ان کے پیچھے ضرب لگاتا۔ ایک آیا۔ پھر دوسرا‘ پھر تیسرا‘ پھر چوتھا۔ وہ مار کھا کھا کر گر جاتے۔ پھر انہیں اٹھایا جاتا‘ اور مزید افراد آ کر مارتے۔
یہ دلت تھے۔ اچھوت۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ ایک مری ہوئی گائے کی کھال اتار رہے تھے۔ گائے پہلے سے مری ہوئی تھی۔ ان پر الزام لگا کہ انہوں نے گائے کو مارا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مرے ہوئے جانوروں کی کھال اتارنا ان کا پیشہ ہے۔ یہ لوگ صدیوں سے یہی کام کر رہے ہیں۔ مگر مودی کے گجرات میں ہندو دھرم اپنی نئی آفتوں کے ساتھ زور پکڑ رہا ہے۔ ’’گائے بچائو‘‘ جتھے بنے ہوئے ہیں جو شہروں‘ قصبوں اور بستیوں میں گشت کرتے ہیں۔ شائبہ بھی پڑ جائے تو بغیر تحقیق یا تفتیش کیے‘ ’’مجرموں‘‘ کو سزا دینا شروع کر دیتے ہیں۔
مگرگجرات کے اچھوتوں نے ہڑتال کر دی۔ انہوں نے بہت سے مردار سرکاری دفتروں کے آگے ڈال دیے اور کہا کہ گائے تمہاری ماں ہے‘ خود سنبھالو۔ سینکڑوں ہزاروں مردہ جانور پڑے پڑے گلنے سڑنے لگے۔ پھر حکومتی کارندوں نے چمار خاندانوں کی منتیں کیں۔ مگر شیوسینا کے مار دھاڑ کرنے والے جتھوں کو کچھ نہ کہا گیا۔ یہ سب مودی کے چہیتے ہیں۔
اُتر کھنڈ بھارتی پنجاب کے مشرق میں واقع ہے۔ چند دن پہلے وہاں گندم پیسنے کی چکی میں ایک اچھوت سوہن رام کی گندم پیسی جا رہی تھی۔ اوپر سے ماسٹر للت آ گیا۔ وہ اونچی ذات کا تھا۔ اس نے سوہن رام کو گالیاں دینا شروع کر دیں کہ چکّی کو پلید کر دیا۔ سوہن رام نے احتجاج کیا۔ ماسٹر للت کے ہاتھ میں تیز دھار درانتی تھی۔ اس نے سوہن رام کی گردن پر زور سے چلا دی۔ سوہن رام وہیں مر گیا۔
یہ صرف دو واقعات ہیں۔ بھارت میں ہر روز ایسے سینکڑوں واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اچھوتوں کی آبادی بھارت کی کل آبادی کا سولہ فیصد ہے یعنی تقریباً سترہ کروڑ! مگر قیاس یہ ہے کہ حکومتی مشینری یہ تعداد کم سے کم بتاتی ہے۔ گمان غالب یہ ہے کہ اچھوت بائیس اور پچیس کروڑ کے درمیان ضرور ہوں گے یعنی بیس فیصد۔ ان کے حقوق کوئی نہیں۔ صرف فرائض ہیں۔ بھارت میں آبادی کی اکثریت کے گھروں میں بیت الخلا کا رواج نہیں۔ بستیوں کے اردگرد جب غلاظت کے انبار آخری حدوں کو چھونے لگتے ہیں تو اچھوت انہیں ٹھکانے لگاتے ہیں۔ گلیاں صاب کرتے ہیں۔ مردہ جانوروں کی انتڑیاں سنبھالتے ہیں۔ کھالیں اتارتے ہیں۔ ہر گندا اور گھٹیا کام کرتے ہیں۔ پچانوے فیصد سے زیادہ اچھوت مکمل ان پڑھ ہیں۔ یہ فیصلہ صرف اونچی ذات کے ہندو کرتے ہیں کہ اچھوت کون کون سے کام کریں گے اور کون کون سے نہیں کریں گے۔ کہاں رہیں گے‘ کس کس کو پانی پکڑا سکتے ہیں؟ کس کس کے ساتھ کھانا کھا سکتے ہیں‘ شادیاں کہاں کہاں اور کس کس کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ غرض ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اونچی ذات کے ہندوئوں کے ہاتھ میں ہے۔
بھارت ذات پات کے مکروہ نظام میں سر سے پائوں تک جکڑا ہوتا ہے۔ ہندو عقیدے کے مطابق دیوتائوں کے مُونہہ سے برہمن نکلے۔ بازوئوں سے لشکری اور بادشاہ برآمد ہوئے۔ رانوں سے تاجر اور کسان نکلے۔ رہے شودر تو انہوں نے پائوں سے جنم لیا۔ منوں کی تعلیمات آج بھی بھارتی یونیورسٹیوں میں سنسکرت کی ڈگری کورس کا حصہ ہیں۔ ان تعلیمات کے مطابق اچھوت‘ سابق زندگی کے گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ پڑھنا لکھنا بھی جرائم میں شامل ہے۔ اونچی ذات کے کسی ہندو کی توہین کی سزا درد ناک اور اذیت ناک موت ہے۔ اونچی ذات کے ہندو جو چاہیں اچھوتوں کے ساتھ کریں‘ پولیس مداخلت نہیں کرتی۔
مودی کا گجرات صوبہ‘ جسے مثالی صوبہ کہا جاتا ہے‘ اس ضمن میں بدترین ریکارڈ رکھتا ہے۔ پورے بھارت میں اگر کہیں خوفناک ترین سلوک اچھوتوں کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے تو وہ گجرات ہے۔
جس ملک کی بیس فیصد آبادی اچھوتوں پر مشتمل ہو اور وہ ترقی کے دائرے سے ہر امکانی حد تک باہر ہوں‘ وہ ملک حقیقت میں کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چالاک بھارت نے اپنے چہرے کا یہ ڈرائونا حصّہ دنیا سے چھپایا ہوا ہے۔ سکارف باندھنے والی عورتوں کے غم میں دُبلے ہونے والے مغربی ملکوں کے لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ بھارت میں بیس کروڑ افراد جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں اور ان کی اکثریت انسانی غلاظت کو ہاتھوں سے صاف کر رہی ہے۔
کیا پاکستان اس ضمن میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے؟ نہیں! پاکستان پر لازم ہے کہ ظلم کی چکی میں پسنے والے آدم کے ان بیٹوں کی دستگیری کرے اور دنیا کو آگاہ کرے کہ آئی ٹی میں ترقی کے دعوے کرنے والی دنیا کی یہ سب سے بڑی ’’جمہوریت‘‘ اپنے بیس بائیس کروڑ لوگوں کے ساتھ کیا کر رہی ہے۔ کس طرح ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ انہیں مارا پیٹا جاتا ہے۔ بنیادی حقوق سے وہ محروم ہیں۔ سکول اور ہسپتال کے الفاظ ان کی ڈکشنریوں میں ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ مردہ جانوروں کی کھالیں اتارنے کا انہیں حکم دیا جاتا ہے اور پھر کھالیں اتارنے کی سزا دی جاتی ہے۔ وہ گندم جو کھیتوں میں اگتی ہے‘ جب اچھوت کے گھر میں پہنچتی ہے تو پلید ہو جاتی ہے۔ پھر وہ اس چکی میں پیسی تک نہیں جا سکتی جس میں اونچی ذات کے ہندوئوں کی گندم کا آٹا بنتا ہے!
حیرت ہے کہ بلوچستان کے حقوق کی بات کرنے والے مودی کو‘ پاکستانی حکومت کا کوئی وزیر‘ وزیر اعظم‘ ڈپلومیٹ یہ نہیں کہتا کہ تم اپنی آبادی کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہو؟ پہلے ان کے حقوق کی بات کرو!
پاکستان کے دفتر خارجہ پر لازم ہے کہ ایک مستقل شعبہ اپنے ہاں‘ بھارت کے اچھوتوں کی دیکھ بھال کے لیے قائم کرے۔ پھر اسے ہر لحاظ سے مستحکم کرے۔ پاکستان کا ہر سفارت خانہ‘ لازماً‘ بھارت کے اچھوتوں کا احوال دنیا کو بتائے اور ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھائے۔
پاکستانی میڈیا اس سلسلے میں اپنا کردار نہیں ادا کر رہا۔ کیا ہمارے اینکر پرسنوں کو‘ ان کے پروڈیوسروں کو اور مالکان کو سرحد پار دہکا ہوا یہ جہنم نظر نہیں آتا؟ اس پر خصوصی پروگرام نشر ہونے چاہئیں جن میں اعداد و شمار اور حقائق کی مدد سے دنیا بھر کے ناظرین کو بھارت کا اصل روپ دکھایا جائے۔ دلت لیڈروں اور ترجمانوں کو ٹیلی فون لائن پر لے کر ان کا موقف دنیا تک پہنچایا جائے۔
پاکستان کی فلاحی تنظیمیں اگر چاہیں بھی تو بھارتی حکومت انہیں اچھوت آبادی میں کام کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ اس کا حل یہ ہے کہ یہ فلاحی تنظیمیں بین الاقوامی اداروں سے رابطہ کریں اور ان کے ذریعے اچھوتوں تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ حیرت ہے کہ انجلینا جولی اور بل گیٹس جیسی مشہور شخصیات نے‘ جو فلاحی کاموں کی وجہ سے دنیا بھر میں معروف ہیں‘ بھارت کے بیس کروڑ اچھوتوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ کیا انہیں معلوم کہ اچھوت حاملہ عورتیں مر جاتی ہیں لیکن بچوں کو جنم دیتے وقت ڈاکٹروں کی توجہ سے محروم رہتی ہیں کیونکہ ڈاکٹر انہیں ہاتھ لگانا گوارا نہیں کرتے۔ سخت گرمی اور کڑکتی دھوپ میں کوئی اچھوت پانی کا گھونٹ پینے کے لیے نلکے کو ہاتھ لگا دے تو وہیں مار دیا جاتا ہے!
بھارت مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے ساتھ قربت کی پینگیں بڑھا رہا ہے۔ ان ملکوں میں مخیّر عربوں کی کثرت ہے۔ وہ ہر سال کروڑوں ریال خیراتی کاموں پر صرف کرتے ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ مشرق وسطیٰ کے ان ملکوں کو بھارت کے اچھوتوں کے حالِ زار سے آگاہ کرے تاکہ وہ ان کی مدد کے لیے اقدامات کریں۔

Monday, October 10, 2016

بیرم خان

بیرم خان نے مغل خانوادے کی تین نسلوں تک چاکری کی!
وہ بدخشاں میں پید ہوا۔ بدخشاں کے لعل مشہور تھے، جیسے یمن کے عقیق! یہ وہ زمانہ تھا جب لعل فخر سے بادشاہوں کے تاج میں سجتے تھے اور گلے کی مالا کا حصہ بنتے تھے۔ یہی حال پھولوں کا تھا! پھول کسی کے سر پر سجنا اپنے لیے باعثِ افتخار گردانتے تھے۔ اسی لیے تو مومن نے کہا تھا     ؎
بے بخت رنگِ خوبی کس کام کا کہ میں تو
تھا گُل، ولے کسی کی دستار تک نہ پہنچا
اقبال نے آ کر بتایا کہ کسی کی دستار پر لگ کر اونچا ہونا، عزت کی نہیں، محکومی کی نشانی ہے   ؎
نہیں یہ شانِ خوداری چمن سے توڑ کر تجھ کو
کوئی دستار میں رکھ لے کوئی زیبِ گلو کر لے
بیرم خان نے بابر کی نوکری شروع کی تو سولہ سال کا تھا۔ ہمایوں کے سارے عرصۂ اقتدار میں اور عرصۂ مہاجرت میں وہ اس کا ساتھی رہا۔ ہمایوں ایران گیا تو بیرم خان ساتھ تھا۔ شیر شاہ سوری کے خاندان کے ساتھ جنگ ہو رہی تھی کہ ہمایوں دنیا کو چھوڑ گیا۔ بیرم خان نے تیرہ سالہ اکبر کو تخت پر بٹھایا اور پھر جان و دل سے مغل سلطنت کے استحکام میں لگ گیا۔ پانی پت کی دوسری لڑائی میں بیرم خان ہی نے ہیمو کو شکست دی ورنہ مغل سلطنت کو تاریخ میں صرف دو سطریں ملتیں! اُس نے جنگیں لڑیں۔ انتظامِ سلطنت سنبھالا، دشمنوں کی سازشوں کا مقابلہ کیا۔ زندگی کا ہر لمحہ آقا کی خدمت میں گزارا۔ یہاں تک کہ اکبر جوان ہو گیا، حاسدوں کی کمی نہ تھی۔ نا تجربہ کار بادشاہ کے کان بھرے گئے۔ پھر وہ دن بھی آیا جب اکبر نے بیرم خان کو یوں باہر پھینکا جس طرح دودھ سے مکھی نکال کر پھینکی جاتی ہے۔
بیرم خان کا انجام کیا ہوا، یہ آج کا موضوع نہیں! مگر غور اس بات پر کرنا چاہیے کہ کتنے ہی مواقع آئے جب بیرم خان سلطنت پر قبضہ کر سکتا تھا، خود کو بادشاہ قرار دے سکتا تھا۔ یوں اقتدار، ایک خاندانے سے دوسرے میں منتقل ہو جاتا۔ مغلوں سے پہلے سلاطین دہلی کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی تھی۔ مگر چاکری بیرم خان کے خون میں شامل تھی! وفاداری اس کی فطرتِ ثانیہ بن چکی تھی۔ اس کے باپ نے اور اس کے باپ کے باپ نے بابر بادشاہ کی نوکری کی تھی! وہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ نوکری کے حصار سے باہر نکل آئے۔ اس کی ڈیوٹی تھی کہ وہ شہزادے کی حفاظت کرے۔ شہزادے کی تربیت کرے۔ یہاں تک کہ شہزادہ اس قابل ہو جائے کہ ’’پورا‘‘ بادشاہ بن جائے۔ پھر بیرم خان اُس کے دربار میں یوں دست بستہ کھڑا ہو جیسے ہمایوں کے دربار میں اور اس سے پہلے بابر کے دربار میں دستہ بستہ کھڑا ہوتا تھا! بالکل اس طرح جیسے بیرم خان کاباپ اور دادا بابر کے دربار میں کھڑے رہتے تھے۔
سوشل میڈیا پر ایک تصویر ان دنوں گردش کر رہی ہے اور کیا خوب گردش کر رہی ہے! بلاول بھٹو زرداری میاں محمد نواز شریف وزیراعظم پاکستان سے ہاتھ ملا رہے ہیں! بلاول کے پیچھے پیپلز پارٹی کے معمر، تجربہ کار، سرد وگرم چشیدہ رہنما کھڑے ہیں۔ سب کے چہروں پر ایک ایسا اطمینان جھلک رہا ہے جس میں تفاخر کا رنگ شامل ہے!
یہ کون ہیں! یہ سب بیرم خان ہیں! شہزادہ بلاول کون ہے؟ یہ شہزادہ اکبر ہے! ان بیرم خانوں نے نسل در نسل اس خاندان کی چاکری کی ہے۔ پہلے یہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ تھے۔ پھر انہیں ان کی دختر نیک اختر بے نظیر بھٹو کے دربار میں کرسیاں اور مسندیں اور خلعتیں اور وزارتیں ملیں! پھر انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے داماد کو بادشاہ بنایا اور اب بھٹو صاحب کے نواسے، زرداری صاحب اور محترم بے نظیربھٹو کے صاحبزادے کے ساتھ ہیں۔ یہ سب، بشمول خواتین، شہزادے کی تربیت کر رہے ہیں۔ یہ اس خاندان کی خاطر پانی پت کی جنگیں لڑ رہے ہیں۔ دشمنوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہ ایسا کرتے رہیں گے یہاں تک کہ شہزادہ جوان ہو جائے گا۔ پھر وہ مکمل بادشاہ بنے گا اور یہ معزز حضرات اس کے دربار میں اسی طرح خلعتیں اور وزارتیں اور مسندیں پائیں گے جیسے بادشاہ کے نانا کے دربار میں اور بادشاہ کی والدہ محترمہ کے دریار میں اور بادشاہ کے والد گرامی کے دربار میں پاتے تھے۔
کیا کمی تھی بیرم خان میں اگر وہ بادشاہ بن جاتا؟ مگر یہ اس کی سوچ کے دائرے سے باہر تھا۔ ان مصاحبین کا تو یہ حال تھا کہ بادشاہ کسی نالائق ماتحت کو یا کسی نا اہل رشتہ دار کو بنگال یا دکن یا پنجاب جیسے اہم صوبے کا گورنر لگاتا تھا تو آمنّا و صدّقنا کہہ کر، خود اُسی تنخواہ پر کام کرنا جاری رکھتے تھے جو وصول کر رہے تھے! آپ اندازہ لگائیے، جناب یوسف رضا گیلانی کا اور جناب راجہ پرویز اشرف کا قابلیت میں اور تعلیم میں اور گفتگو کے فن میں اور بہت سی دوسری خصوصیات میں میاں رضا ربانی سے اور بیرسٹر اعتزاز احسن سے اور قمر زمان کائرہ سے کیا مقابلہ تھا؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کا دامن دوسروں کی نسبت صاف ہے۔ فرشتے تو یہ بھی نہیں، ہم میں سے کوئی بھی فرشتہ نہیں، مگر ان حضرات کی شہرت اچھی ہے۔ لیکن بادشاہ نے گیلانی صاحب کو اور راجہ صاحب کو وزارتِ عظمیٰ پر بٹھایا تو ان سب نے آمنّا و صدّقنا کہا۔ کون سا سکینڈل ہے جو ان وزرائے اعظم کے زمانوں میں پیپلز پارٹی کے چہرے پر سیاہی مل کر نہیں گزرا مگر ان میں سے کسی نے اُف تک نہ کی! اس لیے کہ بادشاہ کے کسی فیصلے کو چیلنج کرنے کا کوئی تصور نہیں! 
اگر پیپلز پارٹی ایک نظریاتی جماعت ہے اور اگر پیپلز پارٹی ایک خاندانی جماعت نہیں تو رضا ربانی یا کائرہ صاحب یا اعتزاز احسن یا کھوڑو، شیری رحمن یا کوئی اور اس جماعت کا سربراہ کیوں نہیں بن سکتا؟ آخر یہ سب لوگ شہزادے کے بڑے ہونے کا انتظار کیوں کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں؟ رضا ربانی ایوان سے باہر اور ایوان کے اندر آئین کی سربلندی کے لیے آواز اُٹھانے میں مشہور ہیں۔ وہ صوبوں کے اختیارات کے معاملے میں ہمہ وقت چوکس رہتے ہیں۔ وہ جمہوریت کے سپاہی ہیں اور آمریت کے شدید ناقد! مگر وہ پارٹی کے معاملے میں مہر بہ لب ہیں۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ پارٹی پر ایک خاندان کی وراثت کا مسئلہ اُٹھائیں اس لیے کہ بغاوت کرنے سے وفاداری شک میں پڑتی ہے اور جو کچھ مل رہا ہے، وہ بھی کھٹائی میں پڑنے کا امکان ہوتا ہے    ؎
اُٹھاتے کس طرح پلکوں کی لمبائی کا جھگڑا
بہت مشکل سے آنکھیں اور بینائی ملی تھی!
اور صرف پیپلز پارٹی کا کیا ذکر! یہ پشتینی وفادار، یہ بیرم خان ہر پارٹی میں شہزادوں کے سامنے دست بستہ کھڑے ہیں! فرق صرف یہ ہے کہ پیپلز پارٹی میں خاندانی بادشاہت کی تیسری چوتھی پیڑھی جوان ہو چکی ہے جبکہ دیگر جماعتوں میں ابھی پہلی اور کچھ میں صرف دوسری نسل تک معاملہ پہنچا ہے۔ ورنہ بیرم خان ہر جگہ موجود ہیں اور ہر شہزادے کو جوان کر کے تخت پر بٹھانے کا عزمِ صمیم کیے ہیں۔ رائے ونڈ سے لے کر گجرات تک! ڈیرہ اسماعیل خان سے لے کر پشاور تک ہر جگہ بیرم خان دست بستہ کھڑے ہیں، اپنی اپنی ڈیوٹی پر چوکس!

 

powered by worldwanders.com