سات برس کا عثمانی گریڈ ون کا طالب علم تھا۔ گھر سے سکول اور سکول سے گھر، سکول کی بس میں آتا جاتا تھا۔ اُس دن اس کے ساتھ انوکھا ہی معاملہ ہوا۔ پانچ ہم عمر بچوں نے اسے پاکستانی کہا، پہلے آوازے کسے، پھر ایک نے اس کے چہرے پر مُکا رسید کیا۔ پھر دوسرے نے اُس کے دونوں بازو پکڑ کر اُس کی پیٹھ کے ساتھ لگا لیے۔ دو بچے اسے ٹھوکریں مارنے لگے۔
بچہ دہشت زدہ ہو گیا۔ اس کی نفسیات پر گہرا اثر پڑا۔ سکول میں شکایت کی گئی۔ تفتیش شروع ہوئی۔ اس اثنا میں عثمانی فیملی نے سامان باندھا اور واپس پاکستان منتقل ہو گئی۔ امریکہ اب ان کے رہنے کے لیے ایک محفوظ ملک نہیں تھا۔
اس کیس کو ہم اسلاموفوبیا کی واضح مثال قرار دے سکتے ہیں۔ ہم اسے ’’ٹرمپ کا امریکہ‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے ہم ایسے تمام واقعات کی مذمت کرتے ہیں اور مذمت کرنا بھی چاہیے۔
تاہم معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے اپنے آپ سے بھی کچھ سوال کرنے ہوں گے۔ اس قبیل کے اکثر واقعات پاکستانیوں کے ساتھ ہی کیوں پیش آتے ہیں؟ پاکستانی نصف صدی سے امریکہ میں‘ یورپ میں، آسٹریلیا اور جاپان میں رہ رہے ہیں۔ ان تمام ملکوں نے پاکستانیوں کو ملازمتیں دیں۔ شہریت دی۔ جائدادیں ان کے نام منتقل کرنے کی اجازت دی۔ اس کا کیا سبب ہے کہ کچھ برسوں سے پاکستانیوں کو دہشت گردی کے ہر معاملے میں گھسیٹا جا رہا ہے؟
ہم ایک ذہنی حصار کے اندر رہنے کے عادی ہیں۔ بیرونی دنیا کے تاثرات سے آگاہی تو ہے مگر ہم اس کی پروا نہیں کر رہے۔ ہمیں ایک بار اپنے آپ سے ضرور پوچھنا چاہیے کہ اگر ساری دنیا پاکستان کو دہشت گردی کا گڑھ سمجھ رہی ہے تو کیا ساری دنیا کو پاکستان سے دشمنی ہے؟ اور کیا اس کا سبب اسلام دشمنی ہے؟ اگر پاکستان کو مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے تو پھر یہ سزا مراکش، مصر، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، ملائیشیا اور ترکی کے مسلمانوں کو کیوں نہیں دی جا رہی؟ کیا وہ سب مسلمان نہیں ہیں؟
یہ ایک وسیع موضوع ہے۔ اس کی اتنی جہتیں ہیں کہ ایک اخباری کالم میں سب کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرف ملک کی اکثریت اخبارات ہی کا مطالعہ کرتی ہے۔ تحقیقی مضامین، بھاری بھرکم کتابیں اور مقالات سے بھرے جریدے چند افراد ہی پڑھتے ہیں‘ جبکہ معاملے کی تہہ تک پہنچنا ہر پاکستانی کے لیے ضروری ہے۔
ایک وجہ پاکستان کی بدنامی کی‘ ہماری ناکام خارجہ پالیسی بھی ہے۔ بھارت، افغانستان اور امریکہ ہمارے خلاف مسلسل پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس پروپیگنڈے کا ہمارے پاس جواب کیوں نہیں ہے؟
معروف انگریزی روزنامے میں سول حکومت اور آرمی کے حوالے سے جو خبر چھپی، اس پر غور کیا جائے تو بہت سے عقدے وا ہوتے ہیں۔ جو تازہ ترین بیانات فوج کی طرف سے الیکٹرانک میڈیا نے نشر کیے ہیں، ان میں خبر کی حقانیت پر اعتراض نہیں کیا گیا۔ یہ پوچھا گیا ہے کہ اتنی حساس خبر، بند کمرے میں ہونے والے اجلاس سے باہر کیسے آئی؟
اس اجلاس میں سیکرٹری خارجہ نے جس بے بسی کا اظہار کیا، وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ لبِ لباب یہ ہے کہ غیر ریاستی عناصر (نان سٹیٹ ایکٹرز) کے بارے میں دنیا جب سوالات اُٹھاتی ہے تو پاکستانی ڈپلومیٹ کوئی جواب نہیں دے سکتے۔
یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ کچھ حوالوں سے پاکستان دوسرے تمام مسلمان ملکوں سے الگ ہے۔ مثلاً یہی غیر ریاستی عناصر کا معاملہ لے لیجیے۔ اس قبیل کے غیر ریاستی عناصر، جو خارجہ پالیسی میں ہمہ وقت دخیل ہوں، کسی اور مسلمان ملک میں نہیں پائے جاتے۔ عرب ملکوں کے سر پر اسرائیل کی تلوار لٹک رہی ہے۔ ترکی کی یونان کے ساتھ قبرص کے معاملے میں نہ جانے کب سے کھینچا تانی چل رہی ہے۔ مگر کسی ملک نے اپنے دفاع کے لیے غیر ریاستی عناصر کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ کیا آپ نے دفاع ترکی کونسل اور دفاع سعودی عرب کونسل کے نام کبھی سنے ہیں؟
حکومتی پارٹی کے جس ایم این اے کی کچھ حلقے مذمت کر رہے ہیں، اس نے بھی کچھ نہیں کہا سوائے اس کے کہ جو کچھ اس پر فرانس میں گزری، اس نے وہ بیان کر دی۔ قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے امور خارجہ میں رانا افضل نے بتایا کہ غیر ریاستی عناصر کی بنیاد پر بھارت نے ہمارے خلاف ایسا کیس بنایا ہے کہ غیر ملکی مندوب اسی کا ذکر کرتے ہیں۔ فرانس میں اس ایم این اے کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے دہشت گرد ایسے پکڑے گئے جن کا مدارس سے براہِ راست تعلق نہ تھا۔ نہ ہی وہ غریب طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوئے تھے مگر سوال یہ ہے کہ یہ مائنڈ سیٹ، کہاں پرورش پا ر ہا ہے؟ اس کی جڑ کہاں ہے؟
غیر ریاستی عناصر کے علاوہ دو دوسرے پہلوؤں سے بھی ہم بقیہ عالم اسلام سے مختلف ہیں۔ نہ صرف مختلف بلکہ انوکھے اور نرالے ہیں؎
انوکھی وضع ہے، سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں
ترکی، مصر، سعودی عرب، کویت، یو اے ای اور دوسرے مسلمان ملکوں میں مسجدیں ریاست کی تحویل میں ہیں۔ خطیب اور امام حضرات سرکار کی قائم کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے خطبہ دیتے ہیں۔ اسی طرح مدارس کا جس طرح پاکستان میں جال بچھا ہے، ویسا جال کسی دوسرے قابلِ ذکر اسلامی ملک میں نہیں پایا جاتا۔ اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے والا شخص سب سے پہلے اپنے معاش کے لیے مسجد ڈھونڈتا ہے۔ نہیں ملتی تو نئی بنانے یا بنوانے پر کمر باندھ لیتا ہے۔ پھر ساتھ مدرسہ بنا لیتا ہے۔ کیا سعودی عرب، مصر، یو اے ای اور ترکی میں ایسا کرنے کی اجازت ہے؟ کیا یہ حقیقت مضحکہ خیز نہیں کہ کوئی شخص کہیں بھی ایک مدرسہ کھول سکتا ہے؟ ان مدارس کے طلبہ کی اکثریت نہ صرف تاریخِ پاکستان نے نابلد ہے بلکہ اکثر میں قائدِ اعظم کا نام تک نہیں لیا جاتا۔ ہر مکتبِ فکر کے الگ مدارس ہیں۔ دوسرے مکاتبِ فکر یا فرقوں کے بارے میں اِن مدارس کا جو رویہ ہے، اسے بیان کرنے کی یا اس پر تبصرہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے ہر پڑھا لکھا شخص بخوبی آگاہ ہے! طرفہ تماشا یہ ہے کہ کچھ مذہبی گروہوں پر‘ جن کے ہیڈ کوارٹر ہی پاکستان میں قائم ہیں، مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں پابندی لگی ہوئی ہے! سوال یہ ہے کہ اِن گروہوں پر اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی لگا کر کیا سعودی عرب اور یو اے ای جیسے ممالک دائرۂ اسلام سے خارج ہو گئے ہیں۔ ہم جو موقف اختیار کریں، ہمارا حق ہے! مگر ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ دہشت گردی پر، غیر ریاستی عناصر پر، دوسرے ملکوں میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات پر، باقی دنیا کا موقف مختلف ہے۔ ہمارے سفارت کار، ہمارے عوامی نمائندے‘ ہمارے طلبہ، ہمارے سکالر، جب دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں تو جو کچھ ان سے پوچھا جاتا ہے، وہ اس کا جواب نہیں دے سکتے! اس بے بسی کا، اس شرمندگی کا حل تلاش کرنا ہو گا!
اور ہاں! دنیا ہم سے ایک اور سوال بھی پوچھتی ہے۔ پاکستان کے لوگ کٹڑ مذہبی ہیں۔ یہاں لاتعداد مذہبی مدارس قائم ہیں۔ مذہبی اور تبلیغی سرگرمیاں دنیا کے کسی بھی دوسرے مسلمان ملک سے زیادہ ہیں۔ ہم اسلام کا قلعہ ہیں۔ ہمارا رویہ وہی ہے جو ایک ٹھیکیدار کا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود اس ملک میں دروغ گوئی، پیمان شکنی، ملاوٹ، ماپ تول میں بددیانتی، چور بازاری، ناقص عمارتوں اور شاہراہوں کی شرح دوسرے ملکوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے! اب تو ٹیلی ویژن کو حرام قرار دینے والے اور بے شمار گھروں میں ٹی وی سیٹ تڑوانے والے، ٹیلی ویژن چینلوں پر دن رات وعظ بھی فرما رہے ہیں۔ پھر بھی معاملات میں ہم بدترین شہرت کے مالک ہیں۔ آخر کیوں؟ لازم نہیں کہ ہر سوال کا جواب دینے کے لیے حشر کا انتظار کیا جائے۔
No comments:
Post a Comment