وہ گھر میں بند ہو گیا۔ ایک تجربہ تھا جو وہ کرنا چاہتا تھا۔ یہ کہ اگر وہ چھ ماہ تک گھر سے نہ نکلے اور صرف انٹرنیٹ کے ذریعے باہر کی دنیا سے رابطہ رکھے، تو کیا ایسا ممکن ہے؟
اُس نے ایسا ہی کیا۔ گھر میں بند ہو گیا۔ وہ تھا اور دیواریں اور ایک انٹرنیٹ کنکشن جو اسے دنیا سے جوڑے ہوئے تھا۔ اپنی کمپنی سے اس نے طے کر لیا تھا کہ وہ گھر میں بیٹھ کر کام کرے گا۔ کمپنی کو آم کھانے سے غرض تھی۔ یوں بھی ترقی یافتہ ملکوں میں یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ بہت لوگ گھر بیٹھ کر اچھا خاصا پیسہ کما رہے ہیں۔
اگلا اہم مرحلہ خوراک تھا۔ بہت سی کمپنیاں تھیں جو گھر کا سودا سلف (گراسری) گھر کی دہلیز تک پہنچاتی تھیں اور اس خدمت کا معاوضہ لیتی تھیں۔ اس نے ایک معروف کمپنی کو ای میل کی اور اپنی ضروریات کی فہرست بھیجی۔ کچھ کمپنیاں جو بیس گھنٹے لیتی تھیں مگر یہ کمپنی اُسی دن سودا سلف پہنچاتی تھی۔ یہاں تک کہ اگر بلب فیوز ہو جائے اور اسے میل کر دی جائے تو رات سے پہلے گھر میں بلب پہنچ جاتا۔ مشروبات سے لے کر ٹائلٹ پیپر تک، ادویات سے لے کر تازہ سبزی اور پھل تک، ضرورت کی ہر شے گھر پہنچنے لگی۔ وہ ورزش بھی گھر ہی میں کر تا۔ ورزش والی سائیکل اور ٹریڈ مل، دونوں سیکنڈ ہینڈ، سستے داموں مل گئیں۔ اس عرصہ میں ایک بار اس کی طبیعت بھی خراب ہوئی۔ اس نے ڈاکٹر کو گھر پر بلا لیا اور جتنی فیس بنتی تھی، ادا کر دی۔
پورے چھ ماہ اس نے گھر کے اندر گذارے۔ یہ ایک کامیاب تجربہ تھا۔ اس نے ثابت کر دیا کہ انٹرنیٹ کے اس زمانے میں ایسا کیا جا سکتا ہے! ورزش سے لے کر خوراک تک ہر شے گھر منگوائی جا سکتی ہے!
چھ ماہ کے بعد وہ اپنی کمپنی کے دفتر گیا۔ دوستوں نے ہار پہنائے۔ ٹی پارٹی منعقد ہوئی۔ اس کے باس نے شہادت دی کہ کمپنی نے اُسے جو ذمہ داری دی، اس نے گھر بیٹھے بھی اسی خوبی سے نبھائی جیسی دفتر میں نبھاتا تھا۔ اُس نے اسی ٹی پارٹی میں اعلان کیا کہ کچھ عرصہ بعد وہ یہ تجربہ ایک سال کی مدت کے لیے کرے گا!
یہ تجربہ آج کل ہم بھی کر رہے ہیں۔ ہمارا تعلق بھی بیرونی دنیا سے ختم ہو چکا ہے! ہم اس زعم میں ہیں کہ ہر شے گھر کی دہلیز پر پہنچ جائے گی، مگر افسوس! ایک فرد تو یہ تجربہ کر سکتا ہے ایک ملک نہیں کر سکتا! یہ اور بات کہ ہمیں اس کی فکر نہیں!
غور کیجیے! مشرقی طرف بھارت ہے۔ وہ یوں ہی ہمارا دشمن نمبر ایک ہے! اس کے ساتھ تعلقات رکھنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ افغانستان شکوہ کناں ہے کہ پاکستان، افغانی اشیا، بھارتی سرحد تک لے جانے دیتا ہے مگر بھارتی اشیائے تجارت پاکستان کے راستے افغانستان تک نہیں لے جائی جا سکتیں! یہ صرف ایک مثال ہے!
رہا افغانستان تو اُس سے بھی تعلقات کشیدہ ہیں۔ کرزئی صدر تھے تب بھی مخالفت تھی۔ اشرف غنی آئے، کچھ عرصہ ہنی مون چلا، مگر اب وہ شدومد سے مخالفانہ بیانات کے گولے برساتے ہیں۔ جنوب مغرب میں ایران ہے۔ اس سے بھی تعلقات خراب ہیں۔ کلبھوشن سے لے کر چاہ بہار تک، سرد مہری کی چادر یوں تنی ہے کہ دوستی کا آسمان کہیں سے بھی نہیں دکھائی دیتا۔
ایران سے آگے متحدہ عرب امارات ہے۔ بھارتی یوم جمہوریہ کی تقریب میں متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شیخ محمد بن زید النہیان اب کے مہمانِ خصوصی ہوں گے۔ بھارت نے ان کا انتخاب کیوں کیا؟ کاش پاکستان میں کسی کو فرصت ہوتی یا ہوش ہوتا۔ امارات کے ولی عہد کو دعوت دینا ایک سیاسی کھیل ہے جو بھارت اصل میں پاکستان کے ساتھ کھیل رہا ہے!
مشرقِ وسطیٰ کے دوسرے بڑے ملک جس سے ہماری مذہبی، جذباتی اور روحانی وابستگیاں ہیں، ان میں سے کسی نے حالیہ بحران کے دوران کشمیریوں کے لیے کوئی بیان تک نہیں دیا۔ یوں بھی پچھلے مالی سال کے دوران سعودی عرب، یو اے ای، اومان، بحرین، کویت اور قطر کو بھارتی برآمدات کی مالیت بیالیس ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے! اٹھانوے ارب ڈالر کی دو طرفہ تجارت اس کے علاوہ ہے!
امریکہ کھل کر بھارت کے ساتھ ہے۔ ابھی چند دن ہی تو ہوئے جب اس کے عوامی نمائندے پاکستان کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ اور بات کہ ظفر یاب نہ ہو سکے۔ یوں بھی آپ اُس ریت پر تو اعتماد کر سکتے ہیں جو آپ کے پیروں کے نیچے سرک رہی ہو اور برف کے اُس تودے پر تو بھروسہ کر سکتے ہیں جس پر آپ کھڑے ہیں اور وہ کڑکتی دھوپ میں لمحہ بہ لمحہ پگھل رہا ہے اور آپ سانپ کے اُس بچے پر تو اعتماد کر سکتے ہیں جسے آپ دُودھ پلاتے رہے اور آگ کے اُن شعلوں پر تو اعتبار کر سکتے ہیں جنہوں نے آپ کی چادر کے ایک کونے کو لپیٹ میں لے رکھا ہے مگر آپ امریکہ کی دوستی پر اعتماد نہیں کر سکتے! امریکی تاریخ میں دوستی نبھانے کا باب ہی نہیں ہے۔ اس ضمن میں اگر کسی نے امریکی کیریکٹر کو پوری طرح جاننا ہے تو اُن وعدوں کا مطالعہ کرے جو ریڈ انڈین قائدین کے ساتھ امریکی کرتے رہے!
حالیہ دنوں میں روس کے فوجی دستے پاکستان آئے اور ہماری فوج کے ساتھ مشترکہ مشقیں کیں۔ اس پر بہت سی مسکراہٹیں بکھریں کہ امریکہ بھارت کے ساتھ ہے تو کیا ہوا، اب روس ہماری طرف بڑھ رہا ہے۔ اِن خوش گمان دانشوروں سے پوچھا جائے کہ ’’اندرا‘‘ کسے کہتے ہیں تو کہیں گے اندرا گاندھی کو کون نہیں جانتا، مگر نہیں! یہ وہ اندرا نہیں ہے۔ یہ INDRA روس اور انڈیا کا مخفف ہے۔ اس سے مراد وہ سلسلہ ہے جس کے تحت روسی اور بھارتی افواج سالہا سال سے مشترکہ مشقیں کر رہی ہیں۔ جن دنوں روسی دستے پاکستان میں تھے، انہی ایام میں بھارتی فوج کے دستے روسی شہر ولادی ووسٹوک میں ’’دہشت گردی‘‘ کا مقابلہ کرنے کی مشترکہ مشقیں کر رہے تھے! یہ مشقیں 2003ء سے سال میں دوبار ہو رہی ہیں!
شمال میں وسط ایشیائی ریاستیں ہم سے زیادہ بھارت کے قریب ہیں۔ جسے شک ہو ہم عصر تاریخ میں جھانک لے۔ حکیم سعید جیسے دانشور چیختے رہ گئے کہ ان سے تعلقات میں گہرائی پیدا کرو مگر پاکستان نے ان سے خصوصی روابط قائم کرنے میں کبھی کوئی غیر معمولی دلچسپی نہ لی۔ لے دے کر ترکی اور چین ہیں جو ہمارے ساتھ ہیں۔ ترکی کے تعلقات اگرچہ پاکستان کے ساتھ تاریخی حوالے سے ہیں مگر پاکستان کی موجودہ حکومت نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے، صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو شاہی خاندانوں کے باہمی تعلقات ہیں۔ ترکی کے حکمران بارہا لاہور آئے مگر کبھی انہوں نے کوئٹہ، پشاور اورکراچی کو اپنی موجودگی کا شرف نہ بخشا۔
چین ہمارا دوست ہے مگر وہ زمینی حقائق کو کبھی نظر انداز نہیں کرتا۔ اسی لیے تو چین چین ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان تجارتی تعلقات خاصی گرم جوشی پر مبنی ہیں!
دنیا میں ہم اس وقت شدید سفارتی تنہائی کا شکار ہیں۔ وزیر خارجہ ہوتا تو شٹل ڈپلومیسی وقت کی اہم ضرورت تھی! آج ایک وفاقی وزیر نے دانش جھاڑی ہے کہ بھٹو صاحب کے زمانے میں بھی وزیر خارجہ نہیں تھا! یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ قائداعظم کا سپیچ رائٹر نہیں تھا! کوئی وزیر صاحب سے پوچھے کہ کیا موجودہ وزیراعظم عالمی رہنماؤں سے اسی طرح بات چیت کرتے ہیں جیسے بھٹو کرتا تھا؟ ہاں! اگر اِن دنوں ہماری کابینہ میں ’’وزیرِ کاروبار‘‘ کوئی نہیں تو اس میں تعجب قطعاً نہیں ہونا چاہیے! ویسے سچ یہ ہے کہ بھٹو دور میں عزیز احمد وزیر مملکت برائے امور خارجہ تھے۔ ایک منجھے ہوئے سفارت کار اور خارجہ امور کے ماہر۔
مگر اس اندھیرے میں بھی اُمید کا ایک دیا ٹمٹما رہا ہے اور روشنی پھیلانے کی اپنی سی کوشش کر رہا ہے! صدرِ مملکت اس سفارتی تنہائی کو دور کرنے کی پوری پوری کوشش کر رہے ہیں۔ چنانچہ بیرونی دوروں میں انہوں نے ڈرائیوروں، ویٹروں اور سٹاف کے دیگر ارکان کو ساڑھے اکسٹھ لاکھ روپے ٹپ کے طور پر نذر کر دیے۔ یہ اعداد و شمار صرف پانچ چھ دوروں کے ہیں۔ صدر صاحب کو معلوم ہے کہ یہ ڈرائیور اور ویٹر، جب اپنے اپنے ’’صاحب‘‘ کے ساتھ ہوں گے تو ضرور پاکستان کی سفارش کریں گے۔ یوں وزیر خارجہ کی کمی پوری ہو جائے گی۔
صدر صاحب ملک کے اندر بھی ہم آہنگی کے لیے کوشاں ہیں۔ انہیں شدت سے احساس ہے کہ وزیراعظم تحریکِ انصاف کو ناپسند کرتے ہیں۔ تحریکِ انصاف کے پی میں برسرِ اقتدار ہے۔ صدر صاحب توازن قائم کرنے کے لیے اپنا سودا سلف نمک منڈی پشاور سے منگواتے ہیں۔ پچھلے مالی سال کے دوران ایوانِ صدر نے نمک منڈی سے تقریباً پونے چار کروڑ روپے کا سودا منگوایا۔ اس میں گوشت، فروٹ اور دیگر اشیائے خوردنی اور بقول آڈٹ ’’تفریحی‘‘ اشیا شامل ہیں۔ ظاہر ہے یہ ایسی اشیا نہیں جو راولپنڈی اسلام آباد میں نہ مل سکیں۔ ایوانِ صدر تو یہ سب کچھ قومی یکجہتی کے لیے کر رہا ہے۔ ورنہ صدر گرامی قدر عمر کے اس حصے میں پونے چار کروڑ روپے کی اشیا ایک سال میں نوش ہی کہاں کر سکتے ہیں! آڈٹ رو پیٹ رہا ہے کہ اس خریداری پر تیرہ لاکھ کا ٹیکس کٹنا تھا جو سرکار کے خزانے میں جمع نہیں ہوا! کوئی آڈٹ کو سمجھائے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں نہ پڑے۔ ایوانِ صدر کے بلند مقاصد پر غور کرے!
No comments:
Post a Comment