Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, October 29, 2016

حل

بہت ہو چکی۔
خشکی اور پانی پر فساد اپنی حدوں کو عبور کرنے لگا ہے۔
خلقِ خدا معصوم ہے یا گناہ گار‘ جو کچھ بھی ہے عاجز آ چکی ہے۔
یہ روز روز کے الزامات ‘ پھر جوابی الزامات۔ یہ الزام در الزام۔ یہ جواب در جواب!
یہ ٹیلی ویژن پر اور پرنٹ میڈیا پر دھوئے جانے والے گندے کپڑے‘ یہ اُٹھی ہوئی‘ پیٹ کو ننگا کرتی قمیضیں! یہ پارسائی کے دعوے! یہ جلسے‘ یہ جلوس‘ یہ عدالتیں! یہ عشروں تک لٹکتے اصغر خان کیس! یہ مجرم جو اس لیے سزانہیں پا رہے کہ بڑے بڑے منصبوں سے ریٹائر ہوئے! یہ پھانسیاں جو مقدموں کے فیصلوں سے پہلے دے دی گئیں! یہ رہائی کے پروانے جو قیدیوں کی موت کے بعد جاری ہوئے ؎
فصلِ گُل آئی یا اجل آئی‘ کیوں درِ زنداں کھلتا ہے
کیا کوئی وحشی اور آپہنچا یا کوئی قیدی چھوٹ گیا
یہ سب کیا ہے؟ یہ انصاف انصاف کے نعرے‘ یہ احتساب احتساب کی چیخیں‘ یہ تلاشی کے مطالبے یہ سارے جھکڑ‘ یہ سارے طوفان اب تھم جانے چاہئیں ؎
ہٹا لے جائو سب دریوزہ گر کشکول اپنے
کہ ہم یہ سلسلہ اب ختم کرنا چاہتے ہیں
کیا زمانہ تھا‘ جب ہر طرف امن و امان تھا۔ عدالتیں تھیں نہ اپوزیشن! کوئی الزام لگانے والا تھا نہ محاسبے کا تقاضا کرنے والا‘ کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ خلقِ خدا کو ظلِّ الٰہی کے خلاف مشتعل کرے۔ شاہ جہاں نے تاج محل بنوایا۔ اکیس سال سے زیادہ عرصہ لگا۔ اُس زمانے کے ساڑھے تین کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آج کے باون ارب روپے بنتے ہیں۔ بیس ہزار راج مزدور کام کرتے رہے۔ کئی کام کرتے کرتے مر گئے۔ کتنوں ہی کو ٹی بی ہوئی۔ ایک ہزار ہاتھی تعمیر کے سامان ڈھونے پر مامور تھے۔ یہ سارا خرچ سرکاری خزانے سے ہوا‘ کسی نے اعتراض کیا‘ نہ چوں کی۔ آخر مخالف اس زمانے میں بھی برسرِ اقتدار گروہ کے تھے۔ کسی کے پیٹ میں قولنج کا درد اٹھا نہ ہَول پڑے۔ سرکاری رقم تھی۔ کسی کے باپ کی نہ تھی۔ بادشاہ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ تاج محل کو روضۂ منوّرہ کہا جاتا تھا۔ وفا اور یگانگت کا زمانہ تھا۔ عوام شہنشاہ پر جان چھڑکتے تھے۔ 
عرصہ ہوا گائوں کی مسجد میں بیٹھے ہم سب مغرب کی اذان کا انتظار کر رہے تھے۔ تہمد باندھے بابے چاچے مامے بیٹھے تھے۔ آسمان کو تکتے تھے اور بتاتے تھے کہ ابھی وقت نہیں ہوا۔ اتنے میں ایک لڑکے نے دوسرے سے‘ جس نے اتفاق سے کلائی پر گھڑی باندھی ہوئی تھی‘ وقت پوچھا۔ بس کیا تھا‘ تہمد والے بابے کو غصہ آ گیا۔ طنز سے بھرپور فقرہ بابے نے اچھالا… ’’اوئے تم گامے مستری کے پتر نہیں ہو؟ تم بھی اب گھڑیوں کے وقت پوچھنے لگ گئے ہو۔ اپنی اوقات نہ بھولو! اذان کا وقت ہو گیا تو ہم بتا دیں گے۔ ہم کیا کل پیدا ہوئے ہیں؟‘‘
تہمد والے بابے کی بات درست تھی۔ انسان کو اپنی اوقات میں رہنا چاہیے۔ کہاں کی جمہوریت اور کیسا احتساب؟ تلاشی کون سی؟ کیا ہمارے اجداد، خلجی اور تُغلق، لودھی اور سوری، جہانگیر اور شاہ جہاں تلاشیاں دیتے تھے؟ شرم آنی چاہیے انہیں جو آج اپنی اوقات بھول گئے ہیں۔ لال قلعے دہلی میں بنے‘ شاہی قلعے لاہور میں تعمیر ہوئے، موتی مسجدیں بنیں‘ باغ بنے، مقبرے وجود میں آئے۔ تغلق نے دارالحکومت تبدیل کیا۔ ہزاروں جاتے ہوئے مرے۔ پھر واپسی کا حکم ہوا۔ ہزاروں پھر مر گئے۔ کیا کسی نے اعتراض کیا؟ کیا کسی دماغ میں احتساب کا کیڑا چلا؟ آج اگر ستر کروڑ یا ستر ارب یا ستر لاکھ کی چاردیواری بن گئی تو کون سی قیامت آ گئی۔ مغل بادشاہ کشمیر جاتے تھے تو بھمبر سے آگے ہاتھی نہ جا سکتے تھے۔ سامان قلی اُٹھاتے تھے۔ صرف بادشاہ کا سامان پانچ ہزار قلی اُٹھاتے تھے۔ کسی نے نہ پوچھا، اخراجات کتنے ہیں اور کون ادا کر رہا ہے۔ لندن میں فلیٹ خریدے‘ تو کیا قیامت آ گئی؟ بیرونی سودوں میں مبیّنہ کمیشن کھائے گئے تو کیا آسمان ٹوٹ پڑا؟ ہنگامہ برپا کیا ہوا ہے۔ عوام کا سکھ چین لوٹ لیا گیا ہے۔ دھاندلی دھاندلی کا شور مچایا جاتا ہے!
چودہ سو سال سے جمعہ کے خطبوں میں کہا جا رہا ہے اور سنایا جا رہا ہے اور باوضو ہو کر سنا جا رہا ہے کہ سلطان ظل اللہ ہے! کیا ہمارے دینی علوم میں‘ فقہ میں‘ احتساب کا‘ نیب کا‘ ایف آئی اے کا ذکر ہے؟ بابے عبیر ابوذری سے کسی نے شکوہ کیا کہ بابا جی آپ نے چائے پر کوئی نظم نہیں لکھی۔ بابا جی نے زلفیں کاندھے سے ہٹاتے ہوئے کہا، پتر! ہر چیز پر لکھنا ضروری تو نہیں، کیا قرآن پاک میں سائیکل کا ذکر ہے؟
بادشاہت، خاندانی بادشاہت! شہنشاہی، یہی ہمارے مسائل کا حل ہے۔ اسی کے ہم عادی ہیں۔ وزیر اعظم کی ٹیم جب کہتی ہے‘ حساب وزیر اعظم کا نہیں ہو گا‘ تو بالکل ٹھیک کہتی ہے۔ وزیر اعظم کی عدم موجودگی میں ان کی دختر نیک اختر نے زمامِ سلطنت سنبھالی تو کون سا گناہ سرزد ہو گیا؟ وزیر اعظم بادشاہ ہیں۔ ان کے بچے شہزادے! جس کو تکلیف ہے، ٹکٹ خریدے اور جہاز میں بیٹھ کر کسی دوسرے ملک میں جا بسے۔ کل تک تو تمہارے باپ دادا کی کھالیں تغلق اور خلجی کے حکم سے اتاری جا رہی تھیں، آج تم پر جمہوریت کا بھوت سوار ہو گیا ہے! کچھ شرم چاہیے۔ حیا بھی کوئی شے ہے یا نہیں!
خدا کے بندو! یہ امریکہ ہے نہ برطانیہ‘ کینیڈا ہے نہ سنگاپور، جرمنی ہے نہ فرانس! یہ پاکستان ہے۔ بادشاہت ہماری گھٹی میں ہے۔ ہماری رگ رگ میں خون بن کر دوڑ رہی ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ سفید سروں والے عمر رسید بابے مریم بی بی کے سامنے اور حمزہ شہباز کے آگے اور بلاول شہزادے کے حضور دست بستہ کھڑے ہیں۔ یہ خاندانی بادشاہت نہیں تو کیا ہے؟ تو یہی بادشاہت اگر حکومت کی سطح پر قائم ہو جائے تو کیا حرج ہے؟ آئین کو بدلو۔ باریاں تحریری طور پر مقرر کرو۔ دس سال شریف خاندان حکومت کرے۔ پھر دس سال بھٹو یا زرداری خاندان! صوبے میں بھی باریاں مقرر کر لو۔ پنجاب میں دس سال شریف خاندان۔ پھر دس سال گجرات کے چوہدری۔ پھر دس سال جنوبی پنجاب کے کھوسے، پھر دس سال گوجر خان کے راجے۔ یہی پُرامن راستہ کے پی کو بھی جاتا ہے۔ دس سال غفار خان کی اولاد حکمرانی کرے۔ مخالفت کوئی نہ کرے۔ جیو اور جینے دو۔ پھر دس سال ڈی آئی خان کا شاہی اسلامی خاندان تخت پر بیٹھے۔ بلوچستان کا معاملہ اور بھی آسان ہے۔ سردار پہلے سے موجود ہیں۔ اب تک وہی حکومت کرتے رہے ہیں۔ ان کی بھی باریاں اور مدتیں طے کر لو۔ بگتی، مری، منگل، رئیسانی، اچکزئی‘ سب دس دس سال حکومت کریں۔
جب پارٹیوں پر خاندانوں نے حکومت کرنی ہے تو ملک پر خاندانی حکمرانی نافذ کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟ عدالتیں، نیب، ایف آئی اے‘ آڈیٹر جنرل، بیسیوں ادارے، سب لاحاصل ہیں۔ ہمارے خمیر سے‘ ہمارے مزاج سے، ہماری تاریخ سے، ہمارے ماضی سے یہ ادارے کوئی مناسبت نہیں رکھتے۔ کیا سلاطینِ دہلی کے زمانے میں نیب اور ایف آئی اے تھے؟ کیا اورنگ زیب کے آڈیٹر جنرل کا کسی کو نام معلوم ہے؟ یہ اسمبلیاں، یہ انتخابات‘ یہ نام نہاد پارلیمانی سسٹم، سب بکواس ہے۔ ہمیں بادشاہت چاہیے۔ اِس روز روز کے حساب کتاب کے ٹنٹے سے، اس کرپشن کے نعرے سے، عوام اُکتا چکے ہیں۔ خدا کے لیے انصاف کرو، کیا ہماری تاریخ میں کرپشن کا لفظ موجود ہے؟ کیا کسی نے ہمارے بادشاہوں پر کرپشن کے اوچھے الزامات لگائے تھے؟ کیا کسی نے ابراہیم لودھی سے اور سکندر سوری سے پوچھا تھا کہ تم ہر جگہ بھائی کو کیوں ساتھ لیے پھرتے ہو؟ اور تمہاری بیٹی کیوں امور مملکت میں دخیل ہے؟
حالات غیر معمولی ہیں تو ان کا سدِباب معمول کے مطابق کیسے ہو گا؟ فرحت اللہ بیگ نے قانون کے ایک طالب علم کا احوال لکھا ہے۔ ایک شخص نے دوسرے کو قتل کر دیا۔ گواہ موجود ہیں۔ پوچھا گیا‘ کیا فیصلہ کرو گے؟ جواب دیا کہ مقتول کی بیوہ کی قاتل کے ساتھ شادی تجویز کروں گا۔ مقتول کے بچوں کو یتیم خانے میں داخل کرائیں گے۔ رہے گواہ، تو انہیں جیل بھیج دیا جائے گا۔ ایسا ہی غیر معمولی حل ہمیں بھی درکار ہے۔ وزیر اعظم کو بادشاہ قرار دے دیا جائے۔ صدر کا عہدہ ختم ہو جانا چاہیے۔ کسی اسمبلی یا الیکشن کی ضرورت نہیں۔ عمران خان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ضبط کرکے پاکستان کی شہریت منسوخ کر دی جائے اور پچاس سال کے لیے اُسے جلا وطن کر دیا جائے۔ رہے تحریکِ انصاف کے کارکن، تو انہیں بیگار کیمپوں میں بھیج دیا جائے۔ اور ہاں اپنے سید خورشید شاہ ہر بادشاہ کے زمانے میں ’’وزیرِ دربار‘‘ کے منصب پر فائز رہیں۔
وضاحت: کل کے کالم میں علامہ اقبال کا ذکر، کمپوزنگ کی غلطی کا نتیجہ تھا۔ علامہ اقبال کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com