Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, October 24, 2016

اور بٹ گئے تم تین گروہوں میں

کمہاروں کا بیٹا سارا دن برتن دھوتا رہا۔ ایک دن پہلے حویلی میں مہمان بہت آئے تھے۔ سو، برتنوں کے ڈھیر لگے تھے۔ وہ رسوئی کے باہر سیمنٹ کے بنے ہوئے چوبچے پر بیٹھا استقامت کے ساتھ برتن دھوتا رہا۔ چاشت دوپہر میں ڈھلی، پھر سہ پہر آ گئی۔ اس اثنا میں چوہدرانی کی اپنی بہوکے ساتھ دو بار جھڑپ ہوئی۔ دونوں نے اپنے اپنے بزرگوں کے کپڑے اُتارے، ننگا کیا۔کمہارکا بیٹا برتن دھوتا رہا اور لڑائیوں کی تفصیلات حافظے میںمحفوظ کرتا رہا۔
اُدھر مردانے میں مُصلی نے بیٹھک کی صفائی کی۔ چارپائیوں پر سفید چادریں بچھائیں۔ کڑھے ہوئے غلافوں والے تکیے دھرے۔ حُقے تازہ کیے۔ پھر تقریباً سارا دن ہی بڑے چوہدری صاحب کی ٹانگیں دباتا رہا۔ اس اثنا میں چوہدری اپنے بیٹوں اور داماد کے ساتھ گھریلو معاملات پر مسلسل بات چیت کرتا رہا۔ یہ بات چیت کبھی اونچی آواز والی بحث میں تبدیل ہو جاتی اور کبھی چوہدری کی ڈانٹ میں۔ خاندان کی ساری کمینگیاں ایک ایک کرکے مصلی کے سامنے آتی رہیں۔ وہ سنتا رہا، پنڈلیوں پر مالش کرتا رہا،کاندھے دباتا رہا، حقے کی چلمیں انڈیل انڈیل دوبارہ بھرتا رہا، خاموشی کے ساتھ، جیسے اس کا وجود ہی نہ تھا۔
پھر شام ڈھلی۔ کمہار کا بیٹا اپنے گھر اور مصلی اپنے گھر روانہ ہوا۔ دونوں نے کھانا کھاتے ہوئے اپنے اپنے گھر والوں کو حویلی کے جھگڑوں، لڑائیوں،گالیوں، طعنوں، کمینگیوںکی ایک ایک تفصیل بتائی۔ سارے ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتے رہے۔ دوسرے دن پوری کمہار برادری میں اور مصلیوں کے سارے گھروں میں یہ تفصیلات مزے لے لے کر عورتیں اور مرد ایک دوسرے کو سناتے رہے۔
آج دیہات میں نقدی کا کلچر آ گیا ہے۔ گندم سے لے کر مونگ پھلی تک، ہر فصل اُٹھانے کے لیے مزدور میسر ہیں، جو دہاڑی پر کام کرتے ہیں۔ کمہاروں، مصلیوں، مراثیوں، موچیوں، لوہاروں، ترکھانوں کے بچے دبئی بیٹھے ہیں۔ بہت سے پڑھ لکھ کر اعلیٰ ملازمتوں پر لگ گئے ہیں۔ مگر پچاس سال پہلے حالات بالکل یہی تھے جو اوپر بیان ہوئے ہیں۔ کیش کا رواج تھا نہ میسر۔ ہاڑی ساونی اجناس ملتی تھیں۔ اہلِ حرفہ کمی کہلاتے تھے۔ چوہدریوں، خانوں، ملکوں، مہروں کے زنان خانوں، مردانوں، حویلیوں، مہمان خانوں میں کام کرتے تھے اور فصل اُترنے پر غلہ لیتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو بڑے خاندانوںکو نظر ہی نہیں آتے تھے۔ بے بضاعت تھے، جیسے ان کا وجود ہی نہ تھا۔ پاؤں دبانا، مہمانوں کے ہاتھ دھلانا، سفر کے دوران گھوڑی کے آگے پیدل چلنا، بچوں کو اٹنڈ کرنا، دن دن بھر دوڑ دھوپ کرنا، ان چھوٹی ذاتوں کے فرائض میں شامل تھا۔ مگر بڑے لوگوں کے گھروں کی ایک ایک بات سے یہ لوگ آگاہ ہوتے تھے۔ آپس میں بیٹھتے تو مذاق اُڑاتے۔ زیادہ جرأت والے حویلی والوں کو گالیاں بھی دے لیتے۔
آج میڈیا پر دو گروہ چھائے ہوئے ہیں۔ پہلا گروہ وہ ہے جسے میاں محمد نواز شریف کی حکومت اور خاندان میں سوائے برائی کے کچھ نہیں نظر آتا۔ نظر آتی ہے تو صرف کرپشن، صرف بادشاہت، صرف خاندانی اجارہ داری، صرف بدامنی، صرف مہنگائی، صرف ڈاکے اور اغوا، صرف وزیرخارجہ کا نہ ہونا، صرف عالمی تنہائی، صرف کشمیری برادری اور صرف لاہورگروپ! یہ گروہ عینک کے شیشوں کا نمبر بدلنے پر تیار نہیں! شریف حکومت نے موٹروے بنائی، میٹرو بسیں چلائیں، لاہور کی شکل بدل ڈالی، یہ ایک بڑی اور مثبت تبدیلی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کی جھلک اپنے ہاں بھی نظر آنے لگی ہے۔ میاں صاحب نے اقلیتوں کے حوالے سے وسیع الظرفی اور رواداری کے مظاہرے کیے ہیں۔ یہاں تک کہ دقیانوسی طبقے نے ان پر کفر کے فتوے لگائے اور نام نہاد مذہبی سکالروں نے اخباروں میں مضامین لکھ کر تنقید کے نشتر چلائے۔ دانش سکول تھے یا لیپ ٹاپ کی تقسیم، عوام کو فائدہ ضرور پہنچا، مگر یہ گروہ یہ سب کچھ دیکھنے سے قاصر ہے۔
یہ وہی گروہ ہے جو عمران خان کی ہر پالیسی پر آنکھیں بند کر کے آمنّا و صدّقنا کہہ رہا ہے۔ تیس کروڑ روپے کی خطیر رقم ایک مخصوص مکتبِ فکر، ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کو دے کر یا دلوا کر، عمران خان نے جو پہاڑ جتنی غلطی کی ہے، اس کی بھی یہ گروہ تاویلیں کرتا پھرتا ہے۔ آرمی ایکشن کی مخالفت کو بھی جائز ثابت کرتا ہے۔
میڈیا کے چوہدریوں، خانوں، ملکوں، سرداروں، مخدوموں کا دوسرا گروہ وہ ہے جو حکومت کو فرشتوں کی حکومت سمجھتا ہے۔ اسے شریف خاندان کی اجارہ داری میں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔کرپشن پر بات کرنے کے لیے توکیا، بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں۔ لاہور کی آبادی پنجاب کی آبادی کا آٹھ فیصد ہے اور پنجاب کے بجٹ کا اکاون فیصد اس شہر پر خرچ ہو رہا ہے۔ ایک مخصوص برادری اور گروپ بیورو کریسی پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ وفاق کا سربراہ ملک سے باہر ہو تو شہزادی تخت پر بیٹھ جاتی ہے۔ صوبے میں شہزادہ عملاً حکمرانی کر رہا ہے۔ ایک وزیر کے سوا کسی صوبائی وزیر کا کسی کو نام پتہ نہیں معلوم! وزارت خارجہ بھی خاندان ہی کے پاس ہے۔ ملک میں ٹریفک سے لے کر امن و امان تک حکومت کا وجود کہیں نظر نہیں آتا۔ یہی وہ گروہ ہے جسے عمران خان کبھی یہودیوں کا ایجنٹ لگتا ہے اور کبھی اسٹیبلشمنٹ کا۔ رائے ونڈ کے جلسے میں اُس نے جو سلائیڈز دکھائیں ان کا یہ گروہ ذکر کرنے یا سننے کو تیار نہیں مگر شوکت خانم ہسپتال میں اسے کرپشن ضرور نظر آرہی ہے۔کے پی میں تین سال سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے، عمران خان پر مالی بددیانتی یا اقربا پروری کا کوئی الزام بھی لگانا ممکن نہیں مگر یہ گروہ اسے کبھی فساد کا پیغمبر اور کبھی قوم کے لیے فتنہ قرار دیتا ہے۔ یہ گروہ اس سچائی کو مسلسل جھٹلا رہا ہے کہ مڈل کلاس کی بہت بڑی تعداد عمران خان کی حمایت کر رہی ہے اور پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے گٹھ جوڑ سے چھٹکارا حاصل پانا چاہتی ہے۔ اس گٹھ جوڑ نے جمہوریت کو زر خرید لونڈی بنا کر رکھ دیا ہے۔
تیسرا گروہ اتنا حقیر، اتنا بے بضاعت اور اتنا مختصر ہے کہ ان دونوںکھڑ پینچ گروہوں کو نظر ہی نہیں آتا۔ یہ گروہ سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہتا ہے۔ یہ میاں نواز شریف کو اور عمران خان کو توازن کی نظر سے دیکھتا ہے۔ انصاف کرتا ہے، دونوں کی خوبیاں مانتا ہے اور غلطیوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس گروہ کے نزدیک وزیراعظم فرشتہ ہیں نہ عمران خان شیطان۔ یہ گروہ شریف خاندان کی حکومت کی خدمات تسلیم کرتا ہے اور عمران خان کی انتہا پسند پالیسیوں پر تنقید کرتا ہے۔ یہ گروہ عمران خان کے طریقِ کار سے کئی حوالوں سے اختلاف کرتا ہے مگر اُن ٹھوس شواہد سے انکار نہیں کرتا جو عمران خان نے بورڈ پر لکھ کر پوری دنیا کو دکھائے۔ یہ گروہ وزیراعظم کو محاسبے سے بالاتر نہیں سمجھتا اور کلنٹن کی طرح انہیں کٹہرے میں دیکھنا چاہتا ہے، مگر انصاف کے ساتھ!
یہ تیسرا گروہ میڈیاکی حویلیوں، چوباروں بیٹھکوں، مہمان خوانوں پر کم ہی جگہ پاتا ہے،اس لیے کہ وہاں دونوں بڑے گروہوں کی اجارہ داری ہے۔ مگر اس گروہ سے کوئی شے چھپی ہوئی نہیں۔ یہ دونوں گروہوں پر ہنستا ہے اور ان کی چوہدراہٹ پر رحم کھاتا ہے۔ یہ چوہدراہٹ کیا ہے؟ یہ چوہدراہٹ تعصبات پر مبنی ہے۔ ایک گروہ کو آسمان پر چودھویں کا چاند دکھائی دیتا ہے، دوسرے کو کالی گھٹا۔ حقیقت درمیان میں ہے اور یہ حقیقت صرف تیسرے گروہ کو نظر آرہی ہے۔ یہ دونوں گروہ، اس تیسرے چھوٹے سے بے بضاعت گروہ کو اُنہی نظروں سے دیکھتے ہیں جن نظروں سے فیوڈل اپنے ملازموں کو دیکھتے تھے۔ اس گروہ کی آواز شور میں دب رہی ہے۔ ایک طرف واہ واہ کے ڈونگرے ہیں، دوسری طرف تُف کے نعرے ہیں۔ نقارخانے میں طوطی کی آوازکوئی نہیں سن رہا۔
عرصہ ہوا ایک کتاب اتری تھی۔ اُسے ریشمی غلاف میں لپیٹ کر گھر کی سب سے اونچی الماری میں رکھ دیا گیا ہے۔ دلہن آتی ہے تو چوم کر اُتارا جاتا ہے اور دلہن کو اس کے نیچے سے گزارا جاتا ہے۔ اُس کے بعد وہ کتاب دلہن کو دکھائی دیتی ہے نہ اس کے میاں کو، نہ ساس کو نہ دلہن کو۔ اُس کتاب میں کہا گیا ہے: ’’اللہ کے واسطے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو‘‘۔
ان دونوں بڑے گروہوں کو ایک بات ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ تیسرا گروپ میڈیا کے حوالے سے چھوٹا سہی، خاموش اکثریت اسی کے ساتھ ہے۔ گھروں، تھڑوں، گلیوں اور میدانوں میں یہ اکثریت دونوں گروہوں پر ہنس رہی ہے!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com