Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Friday, October 21, 2016

لمبا پراندہ! چھوٹا قد ونگیاری دا

سب سو رہے تھے۔
کیا مرد کیا عورتیں اور کیا بچے۔ سب لحافوں میں دبکے تھے۔ برف ہوا کے دوش پر اُڑتی ہوئی آئی اور گرنے لگی۔ بڑے بڑے سفید گالوں کی صورت! شاہراہیں برف سے ڈھک گئیں۔ چھتیں سفید ہو گئیں۔ جنگلے چھپ گئے۔ سوراخ بھر گئے۔ اونچی نیچی جگہیں برابر ہو گئیں۔ سات انچ برف پڑی! پھر یوں ہوا کہ تیز ہوا چلی اور برف بنانے اور برسانے والے بادل اُڑتے اُڑتے نگاہوں سے اوجھل ہو گئے۔ صبحدم لوگ بیدار ہوئے تو خلافِ معمول ہر طرف بکھری سفیدی نظروں سے ٹکرائی۔ آنکھیں حیران ہو گئیں۔ پھر بچے سکولوں کو روانہ ہوئے‘ برف کے گولوں سے کھیلتے، گھٹنوں تک دھنستے اور درختوں کی ٹہنیوں کو تعجب سے دیکھتے، جو کیسی کیسی شکلوں میں نظر آرہی تھیں!
رابرٹ برجز (Bridges) کی یہ نظم انگریزی شاعری کے اکثر مجموعوں میں ملتی ہے۔ یہ بھائی صاحب ڈاکٹر تھے مگر آخری عمر میں ادب پر توجہ دی اور شاعری میں نام پیدا کیا۔ یہ نظم جیسے انہوں نے ہمارے لیے ہی لکھی تھی! اٹھارہ اکتوبر کو قوم غفلت کی نیند سو رہی تھی۔ سب کھیل کود میں، لہو و لعب میں، موج میلے میں لگے تھے مگر وہ جن کے دل میں قوم کا درد تھا، جمہوریت کی بساط بچھا رہے تھے۔ انیس کی صبح لوگ اُٹھے تو جمہوریت ہر طرف برف کی طرح سفید نور بن کر چھائی ہوئی تھی۔ سوراخ بھر گئے تھے۔ اونچی نیچی جگہیں برابر ہو چکی تھیں۔ درختوں کی شاخوں پر جمہوریت عجیب و غریب، مختلف شکلوں میں لٹکی تھی۔ آنکھیں جمہوریت کے نور سے چندھیا رہی تھیں۔ خیرہ ہو رہی تھیں۔ آئندہ نسل گھٹنوں گھٹنوں جمہوریت میں دھنسی ابھی سے نظر آرہی تھی۔
شام کی سیاسی جماعت ’’عرب سوشلسٹ بعث پارٹی‘‘ تھی۔ صدر حافظ الاسد تیس سال تک بلا مقابلہ اس کے صدر منتخب ہوتے رہے۔ کوئی نہ کوئی عبدالقادر بلوچ ’’مقابلے‘‘ میں اُٹھتا مگر معلوم ہوتا کہ وہ تو پارٹی آئین کی شق نمبر120 کے تحت مقابلے کا اہل ہی نہیں‘ کیونکہ مرکزی کونسل کی رکنیت اس کے پاس نہیں! تیس سال کے بعد حافظ صاحب یعنی حافظ الاسد بدقسمتی سے جمہوریت کو روتا بلکتا‘ چیخیں مارتا، سینہ کوبی کرتا، سر پیٹتا چھوڑ کر حساب کتاب دینے قبر میں جا لیٹے۔ گزشتہ سولہ سال سے ان کے فرزند ارجمند پارٹی کے سربراہ ’’منتخب‘‘ ہو رہے ہیں۔
ترکمانستان میں ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت ہے۔ 1999ء میں پارٹی نے صدر نیازوف کو تاحیات صدر مقرر کر دیا۔ ملک کی بدقسمتی کہ 2006ء میں آپ داغ مفارقت دے گئے۔ ان کے جانشین بھی تاحیات ہی دکھائی دے رہے ہیں۔
اب قزاقستان کی سنیے۔ وہاں کی برسرِ اقتدار پارٹی نور وطن کہلاتی ہے۔ 1991ء سے لے کر اب تک صدر نور سلطان نذر بایوف اس کے سربراہ چلے آرہے ہیں۔ سربراہی کا ایک ضمنی فائدہ یہ ہے کہ وہ ملک کے بھی صدر ہیں۔ انتخابات باقاعدہ ہوتے ہیں۔ پارٹی میں بھی اور ملک میں بھی مگر اٹھانوے فیصد ووٹ صدر ہی کو ملتے ہیں۔ ایک بار ایک صاحب مقابلے کے لیے اُٹھے۔ یہ ہمارے عبدالقادر بلوچ صاحب کی طرح نہیں اُٹھے تھے بلکہ واقعتاً مقابلہ کرنا چاہتے تھے مگر نااہل ٹھہرائے گئے۔ انہوں نے ایک ’’غیر آئینی‘‘ اجلاس میں شرکت کی تھی اس اجلاس کا نام تھا ’’تحریک برائے آزاد انتخابات‘‘!
مصر میں جب تک صدر ناصر برسرِ اقتدار رہے، سنگل پارٹی سسٹم رہا۔ پھر صدر انور السادات تخت نشین ہوئے۔ آپ جمہوریت کے سچے عاشق تھے۔ آپ نے عرب سوشلسٹ پارٹی پر پابندی لگا کر نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی قائم کی اور دوسری پارٹیوں کو بھی سیاست کرنے کی ’’اجازت‘‘ مرحمت فرمائی۔ سارے محبِ وطن افراد راتوں رات سوشلسٹ سے ڈیموکریٹک ہو گئے اور صدر کی بنائی ہوئی نئی پارٹی میں شامل ہو گئے۔ انور السادات جمہوریت کی شہزادی کو جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے قتل ہو گئے۔ ان کے جانشین حسنی مبارک نے انور السادات کے اس معروف قول کو ہمیشہ اپنا رہبر و رہنما بنایا کہ ’’عوام کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جمہوریت کے بھی اپنے دانت ہوتے ہیں‘‘۔ حسنی مبارک تیس سال تک پارٹی کے بلا مقابلہ صدر منتخب ہوتے رہے یہاں تک کہ 2011ء میں گردشِ زمانہ الٹ چل پڑی۔ حسنی مبارک اور ان کے خاندان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب ان کی حکومت کو ختم کر دیا گیا۔
الحمدللہ! ثُمَّ الحمدللہ! ہم جمہوریت کے حوالے سے مصر‘ شام‘ ترکمانستان‘ ازبکستان اور قزاقستان جیسے ملکوں کی صف میں شامل ہیں۔ ’’اندر‘‘ ہونے والے انتخابات کو ’’انٹرا پارٹی‘‘ الیکشن کہا جاتا ہے۔ یہ باہر کے انتخابات کی طرح نہیں ہوتے بلکہ اصل ہوتے ہیں۔ وزیراعظم ایک بار پھر بلا مقابلہ پارٹی کے سربراہ منتخب ہو گئے۔ نائب صدر بھی سارے بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو بھی پنجاب مسلم لیگ کا صدر منتخب کر لیا گیا۔ پارٹی موجودہ صدر کی صدارت سے صرف اُس زمانے میں محروم رہی جب وہ جدہ اور لندن میں مقیم تھے!
علم کی ایک شاخ وہ بھی ہے جو ٹرکوں بسوں اور رکشوں کے پیچھے جلوہ افروز ہوتی ہے۔ ایک بار ایک رکشے کے پیچھے کمال کا فقرہ نظر پڑا: ’’نیز انجن اِدھر بھی نیا ہے‘‘۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وزیر اعظم اپنی پارٹی کے سربراہ منتخب ہوئے۔ نیز چوہدری پرویز الٰہی بھی اپنی پارٹی کے صدر بلا مقابلہ ہی منتخب ہو گئے ہیں۔ دوسری سیاسی جماعتوں کا تذکرہ دس اکتوبر کے روزنامہ دنیا میں پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔
برطانیہ، امریکہ، فرانس، سنگاپور، کینیڈا اور کئی دوسرے ممالک جمہوریت کے حوالے سے کئی نوری سال پیچھے ہیں۔ اعتماد کا اس قدر ان ملکوں میں فقدان ہے کہ ایک سیاستدان پارٹی کا لیڈر بن جائے تو پارٹی اراکین اسے کچھ عرصہ بعد پارٹی کی سربراہی سے فارغ کر دیتے ہیں۔ اس کے خاندان یا اس کی اولاد کو اس کا جانشین بنانے کا تو یہ ناپختہ اذہان سوچ بھی نہیں سکتے۔ برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کی مثال لے لیجئے۔ مارگریٹ تھیچر 1975ء میں پارٹی کی قائد بنیں۔ پندرہ سال پارٹی کی خدمت کی‘ مگر احسان فراموش قوم نے 1990ء میں جان میجر کو پارٹی کی قیادت سونپ دی۔ ابھی چند دن پہلے تک ڈیوڈ کیمرون پارٹی کے لیڈر تھے۔ اِس جولائی میں انہیں قیادت سے فارغ کر دیا گیا۔ اپنا سامان خود پیک کرتے پائے گئے۔ چند دن پہلے ایک دکان کے سامنے، سڑک کے کنارے، چبوترے پر بیٹھے، بیوی کے ساتھ آئس کریم کھا رہے تھے۔ اب تھریسا مے نے پارٹی کی سربراہی سنبھال لی ہے۔ یہ اقوام، ذہنی پختگی میں ہماری سطح پر کب پہنچیں گی؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ جس سطح پر ہم ہیں، اس تک پہنچنا ہر قوم کے بس کی بات نہیں۔ ع
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
اصل میں جمہوریت لمبا قد مانگتی ہے۔ اِن مغربی ملکوں کی قامتیں پست ہیں۔ یہ ہماری طرح طویل قامت نہیں۔ کان لگا کر سنیے۔ مُغنی، مطرب پر کیا گا رہا ہے ع
لمبا پراندہ! چھوٹا قد ونگیاری دا
چوڑیاں بیچنے والی کا قد چھوٹا ہے اور پراندہ اس حرافہ نے بالوں میں لمبا باندھ رکھا ہے۔ اب برادرم رؤف کلاسرا کہیں گے کہ یہ تو سرائیکی کا لوگ گیت ہے۔ مگر کیا کیجیے کہ یہ تو ہمارے ہاں فتح جنگ‘ پنڈی گھیب‘ اٹک اور تلہ گنگ میں بھی گایا جاتا ہے۔ میانوالی کی زبان بھی تقریباً ملتی جلتی ہے مگر میانوالی والوں نے کالی قمیض کے ساتھ ساتھ سرائیکی ہونا بھی قبول کر لیا ہے۔ کسی نے ایک صاحب سے پوچھا: تمہارا نام کیا ہے۔ اس نے جواب دیا عبدالرؤووووف! اب اس نے پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟ جواب ملا، نام تو میرا بھی یہی ہے مگر اس قدر لمبا نہیں! زبان تو ہماری بھی میانوالی سے ملتی جلتی ہے مگر ہمیں کیا پڑی ہے کہ تخت لاہور کو چھوڑ کر تختِ ملتان کی نوکری اختیار کر لیں۔ نوکری ہی کرنی ہے تو تختِ لاہور کیا بُرا ہے! کم از کم یہاں پارٹی کے ’’اندر‘‘ انتخابات تو خالص جمہوری روایات کے مطابق ہوتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com