’’ہم لڑیں گے۔ ہم پانیوں میں لڑیں گے۔ سمندروں میں لڑیں گے۔ ہم فضاؤں میں لڑیں گے۔ روز افزوں اعتماد کے ساتھ! بڑھتی ہوئی قوت کے ساتھ! ہم اپنے جزیرے کا دفاع کریں گے۔ ہر قیمت پر! ہر حال میں! ہم ساحلوں پر لڑیں گے۔ ہم لینڈ کرنے کے گراؤنڈز میں لڑیں گے! ہم کھیتوں میں لڑیں گے۔ ایک ایک گلی ایک ایک کوچے میں لڑیں گے! ہم پہاڑیوں میں لڑیں گے لیکن ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے!‘‘
یہ ہوتا ہے جنگ کے ہنگام ایک اصل لیڈر کا لہجہ اور یہ ہوتی ہے لہجے کی سچائی! چرچل نے جب وزیراعظم کا منصب سنبھالا اور پہلی تقریر میں کہا کہ ’’میرے دامن میں لہو، مشقت، آنسوؤں اور پسینے کے سوا کچھ نہیں جو پیش کروں‘‘۔
تو مورخ لکھتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو جیسے بجلی کا کرنٹ لگ گیا تھا! پھر جب اتحادیوں نے العالمین میں فتح حاصل کی تو چرچل نے قوم کو سانس نہ لینے دیا۔۔۔۔’’کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ جنگ کا خاتمہ ہے۔ یہ تو خاتمے کا آغاز بھی نہیں! ہاں، شاید یہ آغاز کا خاتمہ ہے!‘‘
اوّل تو مودی میں اتنا حوصلہ ہی نہیں کہ جنگ چھیڑے اور اگر وہ اُس وائرس کا مقابلہ نہ کر سکا جو رانا سانگا سے شیواجی میں، شیواجی سے بہت سوں میں ہوتا ہوا ولبھ بھائی پٹیل میں اور پھر منزلوں پر منزلیں مارتا مودی میں در آیا اورکیڑے کی طرح اسے مسلسل اندر سے کاٹ رہا ہے، تو پاکستانی قوم اور پاکستانی مسلح افواج یہ جنگ جیت کر دکھائیں گی مگر کسی کو یہ غلط فہمی نہ رہے کہ اس جنگ میں لیڈر بھی شریک ہوں گے۔ لیڈر! جن میں حکمران شامل ہیں اور سیاست دان!!
مسلح افواج بھی جان لیں اور قوم بھی سُن لے کہ یہ جنگ صرف ان دونوں ہی کو لڑنا ہو گی! وائرس مودی کو چین نہیں لینے دے رہا۔ وہ بیمار ہے۔ کیا کوئی بیماری اس سے بھی زیادہ مہلک ہو گی جس میں مودی مبتلا ہے؟ وہ گجرات کا حکمران اعلیٰ تھا، حکمران اعلیٰ رعایا کے ایک ایک بچے، ایک ایک عورت، ایک ایک مرد کا باپ ہوتا ہے۔ باپ بچوں کا کفیل ہوتا ہے۔ مگر یہ کیسا وزیر اعلیٰ تھا، یہ کیسا حکمران اعلیٰ تھا، یہ کیسا باپ تھا جس نے رعایا کا قتل عام کیا! ہزاروں مسلمانوں کو مروایا، یہاں تک کہ مغربی ملکوں نے اس کا اپنے ہاں داخلہ بند کر دیا!
نہیں! وہ قصاب نہیں! قصاب انسانوں کو ذبح نہیں کرتے! خدا کے بندو! کبھی قصابوں نے بھی انسانوں کو مارا ہے؟ قصاب تو خود انسان ہوتے ہیں! یہ تو ایک پیشہ ہے اور دنیا میں لاکھوں کروڑوں بھلے مانس اس پیشے سے وابستہ ہیں! مودی تو درندہ ہے! بخدا! اس لیے نہیں کہ اس نے مسلمانوں کو مروایا! اس لیے کہ اس نے انسانوں کو مروایا! وہ مسلمان پہلے انسان تھے اور انسان کی حیثیت سے حکمرانِ اعلیٰ پر ان کی حفاظت، ان کی کفالت فرض تھی!
مودی بیمار ہے۔ وائرس نے اسے جنگ پر مجبور کیا تو مسلح افواج بھی جان لیں اور قوم بھی سن لے جنگ یہ لیڈر، یہ سیاست دان یہ حکمران نہیں لڑیں گے۔ قوم لڑے گی، مسلح افواج لڑیں گی اور بس!
کیا یہ مولانا لڑے گا جو اس نازک موقع پر بھارت کا ساتھ دے رہا ہے؟ کھلم کھلا! ڈنکے کی چوٹ پر! جو کہہ رہا ہے کہ فاٹا میں حالات مقبوضہ کشمیر کی نسبت زیادہ خراب ہیں۔ انڈیا کا میڈیا بھنگڑے ڈال رہا ہے! اس بیان کو حلوہ سمجھ رہا ہے! لاٹری نکل آئی ہے! کیا یہ اچکزئی لڑے گا جو کہہ رہا ہے کہ چادر لے کر ہندوستان یا افغانستان چلاجاؤںگا۔ کیا یہ اسفند یار صاحب لڑیں گے جو افغان کہلانا ہو تو بلبل کی طرح چہکتے ہیں مگر جب بھارت جنگ کی دھمکی دیتا ہے تو یوں چُپ ہو جاتے ہیں جیسے کھلونے میں جس نے بھی سیل ڈالے تھے نکال کر لے گیا ہے۔ کیا یہ حکمران لڑیں گے جو قومی خزانے کے اربوں روپوں سے فصیلیں بنوا کر ان کے پیچھے چھُپے ہیں۔ خدا کی قسم! جنگ ہوئی تو ان کی تو گھگھی بندھ جائے گی! کیا یہ زرداری صاحب لڑیں گے جو ایوانِ صدر سے پانچ برسوں میں ایک بار بھی کسی شہید کے گھر یا دہشت گردی کا شکار کسی جگہ پر نہ گئے اور جن کی دولت کا شمار خود ان کے حساب سے باہر ہے! لیڈر تو چرچل جیسے لڑتے ہیں، ڈیگال جیسے لڑتے ہیں۔ قائداعظم جیسے لڑتے ہیں جو جائیدادوں، بینک بیلنسوں، کارخانوں، کوٹھیوں سے بے نیاز ہوتے ہیں! دنیا نے دیکھا کہ چرچل، اُس سلطنت کا سابق وزیراعظم جس کی حدود میں سورج نہیں غروب ہوتا تھا، لندن میں مسافروں کی قطار میں کھڑا ہوکر بس میں سفر کرتا تھا!
شرم آنی چاہیے مسلم لیگ نون کو جس کے اتحادی فاٹا کو مقبوضہ کشمیر سے بدتر قرار دے کر بھارت کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں! اور مسلم لیگ نون اس پر خاموش ہے۔ مسلم لیگ نون کے عام محبِ وطن ورکر کو سوچنا چاہیے کہ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ملک کے ساتھ وفاداری کے حوالے سے سب متنازع سیاست دان مسلم لیگ نون کی حکومت کے اتحادی ہیں؟ اسفند یار ولی سے لے کر اچکزئی تک؟ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ فیکٹریوں میں بھارتی ورکروں کی باتیں ہوئی ہیں؟ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ سارے سیاست دانوں میں صرف وزیراعظم ہی کی خاندانی تقریب میں مودی شریک ہوتا ہے اور کیا یہ بھی محض اتفاق ہے کہ پاکستانی وزیراعظم بھارتی دورے کے دوران نجی کاروباری ملاقاتیں کرتے پھرتے ہیں؟ مسلم لیگ نون کے ورکروں کو اپنے لیڈروں سے پوچھنا چاہیے کہ اِس موقع پر ان کے اتحادی فاٹا کو مقبوضہ کشمیر سے بدتر کیوں قرار دے رہے ہیں؟ کیا غداری کے سر پر سینگ ہوتے ہیں؟
اور معاف کیجیے گا، ایک وائرس عمران خان کے اندر سے بھی نہیں نکل رہا۔ اس کی تقریر سفید براق دودھ سے بھری اُس بالٹی کی طرح تھی جسے دودھ دینے والی گائے خود ہی آخر میں لات مار کر الٹا دیتی ہے! یہ جھاگ والے صحت بخش دودھ کی طرح تھی جس میں بکری مینگنیاں ڈال دیتی ہے۔ ایک مدلل تقریر! جس میں پاناما لیکس کا معاملہ دو اور دو چار کی طرح واضح کر دیا۔ کھرے کو کھوٹے سے وکھرا کر دیا! مودی کو للکارا اور حق ادا کر دیا! مگر بُرا ہو اس وائرس کا جو عمران خان کے اندر گھُسا ہوا ہے۔ بسا اوقات حیرت ہوتی ہے کہ وائرس ہے یا سانپ جو عمران خان کے خوبصورت دل کے ایک گوشے میں کنڈلی مار کر براجمان ہے اور جب بھی موقع ملتا ہے پھنکارنے لگتا ہے! عمران خان کو ابھی تک درد ہے کہ وزیرستان اور سوات میں فوج نے ایکشن کیوں لیا؟ فوج کراچی میں ایکشن لے سکتی ہے تو وزیرستان اور سوات میں کیوں نہیں لے سکتی؟ عمران خان اُس وقت کہاں تھے جب مسلم خان نے ٹیلی ویژن پر کروڑوں سننے والوں کے سامنے کہا تھا کہ ہاں! ہم لوگوں کو ذبح کرتے ہیں! بوسینا میں سربیاکے بھیڑیوں کے بعد یہ صرف پاکستان میں ہوا کہ انسانوں کو لِٹا کر بکروں کی طرح ذبح کیا گیا! عمران خان اُس وقت بے چین نہ ہوئے جب پاکستانی عساکر کے سروں سے فٹ بال کھیلا گیا اور مسجدوں، مزاروں، بازاروں، سکولوں اور چوراہوں پر نہتے معصوم پاکستانیوں کے پرخچے اُڑائے گئے۔ تیس کروڑ روپوں کا عطیہ محض اتفاق نہیں۔ سارا مسئلہ اُس وائرس سے جُڑا ہوا ہے جو اندر بیٹھا کاٹ رہا ہے! تحریک انصاف کے کارکنوں کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ مودی کو للکارتے وقت یہ کہنا کیا ضروری تھا کہ پاکستانی فوج نے سوات اور وزیرستان میں جاکر غلطی کی؟ ایک تو بات ہی متنازعہ ہے! سخت متنازعہ! پاکستانیوں کی غالب اکثریت اس معاملے میں عمران خان سے اختلاف کرتی ہے! شدید اختلاف! ہاں وہ لوگ اس ضمن میں اس کی حمایت ضرور کریں گے جن کے تعلیمی اداروں سے لے کر گھروں تک قائد اعظم کا ذکر تک ممنوع ہے! پھر ایک متنازع بات مودی کو للکارتے وقت!! اسے کہتے ہیں بے وقت کی راگنی!
تہذیب اور دانش کا منبع دیہات ہیں۔ گاؤں میں کہتے ہیں کہ بے وقوف کی دو نشانیاں ہیں۔ سردیوں میں پانی پلانے کا کہا جائے تو ٹھنڈے یخ پانی سے کٹورا لبالب بھر کر دے گا اور سرما میں کمرے میں آتے وقت یا وہاں سے نکلتے ہوئے دروازہ کھُلا چھوڑ دے گا! اہلِ دیہہ کو چاہیے کہ اس میں تیسری کا اضافہ کردیں! کہ یہ نہیں معلوم کس وقت کون سی بات نہیں کرنا!
No comments:
Post a Comment