Tuesday, June 29, 2021
فرشتہ جو گھر میں تھا
Monday, June 28, 2021
انہاں فارسیاں گھر پٹیا
“” ایرانی خفیہ ایجنسی کا نمائندہ حاجی ناصر جو کہ پاکستان میں کاروباری شخصیت بن کر آتا جاتا رہتا ہے، سے رابطہ کیا۔ حاجی ناصر کے ساتھ ایران گیا اور اس نے ایرانی خفیہ ایجنسی کے افسران سے ملاقات کرائی۔ ایرانی خفیہ ایجنسی نے میری حفاظت کی ضمانت دی۔ اور بدلے میں مجھ سے معلومات دینے کا مطالبہ کیا جس پر میں راضی ہو گیا۔ ایرانی انٹیلی جنس کو میں نے کراچی میں آرمڈ فورسز کے اعلیٰ افسران کے نام اور رہائش گاہوں کی معلومات بھی دیں۔ کراچی میں قائم حساس اداروں کے دفاتر اور تنصیبات کے نقشے دیے اور تصاویر دینے کا وعدہ کیا۔ اہم تنصیبات کے داخلی و خارجی راستوں کی نشاندہی کرائی اور سیکیورٹی پر مامور لوگوں کی تعداد، رہائش اور آمد و رفت کا بھی بتایا۔ کراچی اور کوئٹہ کی آرمی کی تنصیبات سے متعلق معلومات دینے کا وعدہ کیا۔“
جاسوسی اور غداری کے یہ اعترافات کسی سول یا ملٹری ملازم کے نہیں۔ یہ کسی عام پاکستانی کے بھی نہیں۔ ایسا ہوتا تو یہ اعترافات کرنے والا آہنی گرفت میں ہو تا۔ پاکستان کے سیکیورٹی ادارے ملک کی سالمیت پر خشخاش کے دانے کے برابر بھی سمجھوتا نہیں کرتے۔ اس ضمن میں کوئی سویلین بچ سکتا ہے نہ کوئی فوجی! یہاں تک کہ بڑے سے بڑے جرنیل کو بھی معاف نہیں کیا جاتا۔ سیکیورٹی ادارے اس سلسلے میں بڑے بڑے سے افسر کا نام بھی خفیہ رکھنے کے روادار نہیں نہ کسی کو رعایت دیتے ہیں۔
پاکستان کے معروف ترین اور قدیم ترین انگریزی معاصر نے اپنی تیس مئی 2019 ء کی اشاعت میں مندرجہ ذیل خبر شائع کی
” چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو سینئر ریٹائرڈ آرمی افسروں اور ایک سول افسر کی سزاؤں کی توثیق کر دی۔ ان کے خلاف چارج یہ ہے کہ انہوں نے جاسوسی کی اور حساس اطلاعات غیر ملکی ایجنسیوں کو دیں جو قومی سیکیورٹی کے خلاف ہے۔ یہ بیان آئی ایس پی آر نے دیا ہے۔ افسروں پر مقدمہ پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت چلایا گیا۔ مندرجہ ذیل تفصیل تینوں افراد کے نام اور سزاؤں کو بیان کرتی ہے۔
1۔ ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل جاوید اقبال چودہ سال قید با مشقت
2۔ ریٹائرڈ بریگیڈیر راجہ رضوان۔ سزائے موت
3۔ ڈاکٹر وسیم اکرم ( جو ایک حساس ادارے میں ملازم تھا ) سزائے موت۔ ”
”آئی ایس پی آر نے ایک وڈیو بھی ریلیز کی ہے جس میں میجر جنرل آصف غفور نے دو نوں افسروں کی گرفتاری اور کورٹ مارشل کی تصدیق کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اگر ہم نے ان افراد کو پکڑ لیا ہے اور مسئلے کی شناخت کر لی ہے، تو یہ ہماری کامیابی ہے“ ۔
یہ واقعی پاکستان کی کامیابی تھی۔ اس کا اعتراف بھارت نے بھی کیا ہے۔ ابھی جیت آئر مترا ایک سینئر دفاعی محقق ہیں۔ انڈین خارجہ پالیسی بھی ان کا خاص میدان ہے۔ ابھی جیت آئر مترا، مشہور بھارتی تھنک ٹینک Institute of Peace and Conflict Studies میں سینئر ریسرچ فیلو ہیں۔ پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے جب یہ تینوں مجرم پکڑ لیے اور سزاؤں کا اعلان کیا تو ابھی جیت نے واضح طور پر پاکستان کی تعریف کی۔ ان کے الفاظ دیکھیے
” اس میں ( یعنی پاکستان کے اس ایکشن میں) بھارت کے لیے ایک سبق ہے اور وہ ہے ایک طاقتور سیکیورٹی پروگرام! جو ٹاپ کے افسروں کو بھی شک و شبہ سے بالا نہیں سمجھتا اور یہی بہترین اور موثر ترین کاؤنٹر انٹیلی جنس ہتھیار ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ بھارت میں ’سروس وفاداری‘ اور وی آئی پی کلچر، جو سرایت کر چکا ہے، ایسا نہیں ہونے دیتا“ ۔
آپ نے دیکھا کہ ہمارا مضبوط نظام سینئر سے سینئر اور بڑے سے بڑے عسکری یا سول شخصیت کی غداری کو نہیں برداشت کرتا۔ بھارت تک نے ہمارے اس سسٹم کی تعریف کی ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس تحریر کی ابتدا میں جو اعترافی بیان عزیر بلوچ کا ہے اس پر اسے اور اس کے سہولت کاروں کو کیا سزا ملے گی؟ ملے گی یا نہیں؟ یہ انفارمیشن اگرچہ بالکل نئی نہیں ہے مگر پرسوں کے تمام اخبارات میں یہ اعترافات ایک بار پھر تفصیل سے شائع ہوئے ہیں۔ جارج آرویل کا یہ قول اب تو مشہور عالم ہو چکا ہے اور کچھ کچھ پامال بھی۔ کہ سب برابر ہیں مگر کچھ زیادہ برابر ہیں۔ بے یقینی کی کیفیت اس لیے ہے کہ ہمارے ہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بالخصوص جب بڑے لوگوں کے ساتھ کنکشن ہو۔
اس سے پہلے بھارت میں ایک صاحب نے پاکستان کے خلاف زہر بکھیرا اور دل کھول کر بکھیرا۔ یہ نومبر 2004 کی بات ہے۔ ملک کی قسمت کہ اس وقت ان صاحب کا کنکشن بڑے لوگوں کے ساتھ تھا۔ طرفہ تماشا یہ ہوا کہ زہریلی تقریر کے بعد پاکستانی سفارت خانے کو یہ حکم بھی موصول ہوا کہ ان صاحب کے اعزاز میں ضیافت کا انتظام بھی کیا جائے! واہ! آسمان بھی کیا کیا انہونیاں دکھاتا ہے۔ عزیر بلوچ نے ہماری عسکری تنصیبات، آرمی افسروں کی تفصیلات اور دیگر حساس معلومات ایک دوسرے ملک کی خفیہ ایجنسی کو فراہم کیں۔ اس بھیانک جرم کا وہ خود اقرار کر رہا ہے! کہیں ایسا نہ ہو کہ جو اسے استعمال کرتے رہے، اسے بچا لے جائیں!
یہ جو اوپر عرض کیا ہے کہ ہمارے ہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے تو اس میں رمق بھر شائبہ نہیں۔ نہ صرف یہ کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے، بلکہ جو نہیں ہو سکتا وہ بھی ہو جاتا ہے۔ کچھ دنوں سے ہم ایک صحافی کا وی لاگ دیکھ رہے تھے۔ آرا سے اختلاف تو ہوتا ہی ہے مگر اب تازہ ترین خبروں کے لیے سوشل میڈیا کی طرف دیکھنا ہی پڑتا ہے۔ وی لاگر صاحب اچھے خاصے معقول سوشل میڈیا پرسن معلوم ہوتے ہیں۔ متین اور سنجیدہ! گفتگو میں ادبی ٹچ بھی ہے۔ بیچ بیچ میں پنجابی کے دلچسپ محاورے بھی ٹانکتے ہیں جس سے گفتگو دلچسپ ہو جاتی ہے، موثر بھی اور کچھ کچھ زعفران زار بھی۔ مگر ساری ثقاہت دھری کی دھری رہ گئی جب تین دن پہلے ایک ایسے نام نہاد مفتی کا انٹرویو لے رہے تھے جسے مفتی کہنا اس باعزت لقب کی توہین ہے۔ کبھی کسی خواجہ سرا سے نکاح، جہیز اور حق مہر کے معاملات طے کر رہا ہے اور کبھی کسی لڑکی سے تھپڑ کھا رہا ہے۔
ایسے شخص کی پروجیکشن اپنے اچھے بھلے معتبر وی لاگ کے ذریعے کر دی۔ گویا ریٹنگ کا ساہوکارہ الیکٹرانک میڈیا سے سفر کرتا ہوا سوشل میڈیا تک بھی آ پہنچا ہے۔ ایک لڑکا دو دن ایران کیا رہا، آپے سے باہر ہو گیا۔ گھر واپس آیا تو بیمار پڑ گیا۔ آب آب پکارتا رہا مگر بیچاری ماں کو کیا پتہ تھا کہ آب کیا ہوتا ہے۔ پیاس سے مر گیا تو ماں نے وہ جملہ کہا جو زندہ جاوید ہو گیا۔ آب آب کریندا مویا بچڑا، انہاں فارسیاں گھر پٹیا! اس ریٹنگ نے بھی خوش گمانیوں کے ہنستے بستے گھر اجاڑ دیے۔ اب تو ریٹنگ ہی سٹیٹس سمبل ہے۔ یعنی گھوڑا اور پرچم! سب اس ریٹنگ کے پیچھے یوں دوڑ رہے ہیں جیسے اسی میں کامیابی ہے۔ مگر کامیابی اور وہ بھی ایسی! مل بھی گئی تو پھر کیا! نظیر اکبر آبادی یاد آ گئے
گر تاج سر پہ رکھ کر افسر ہوا تو پھر کیا
اور بحر سلطنت کا گوہر ہوا تو پھر کیا
ماہی، علم، مراتب، پر زر ہوا تو پھر کیا
نوبت، نشاں، نقارہ، در پر ہوا تو پھر کیا
سب ملک سب جہاں کا سرور ہوا تو پھر کیا!
بشکریہ۔ ہم سب
Thursday, June 24, 2021
کیا حارث سکّہ اچھال کر فیصلہ کرے گا؟
Tuesday, June 22, 2021
پاکستان کیلئے احمد شاہ مسعود کی ’’ خدمات”
Monday, June 21, 2021
ہم شریف لوگ ہیں
Thursday, June 17, 2021
ہمارے کلچر میں ایسا شخص کیا کہلاتا ہے؟
Tuesday, June 15, 2021
کون سے اعداد و شمار میں لپیٹو گے
Monday, June 14, 2021
……میں کیا چاہتا ہوں؟
Thursday, June 10, 2021
History Made Easy
کچھ سوال ہر امتحان میں ضرور پوچھے جاتے ہیں۔ مغل سلطنت کے زوال کے اسباب کیاتھے؟ ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاؤں کیسے جمے؟ انگریزوں کی حکومت کیسے قائم ہوئی؟
آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا اسباب تھے؟ درسی کتابوں میں کچھ اسباب رٹائے جاتے ہیں۔ رہےمؤرّخ تو سب نے اپنی اپنی ڈفلی بجائی ہے۔ انگریز مؤرخ اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہیں، ہندواپنا! مسلمانوں کی لکھی ہوئی کتابیں تعداد میں نسبتاً کم ہیں۔ ان کا موقف الگ ہے مگر آج ہمآپ کے لیے تاریخ کا یہ باب آسان کیے دیتے ہیں۔ آپ کو ضخیم کتابیں چھاننے کی ضرورتنہیں۔ صرف عبدالحلیم شرر کا تحریر کردہ سلطنت اودھ کا حال پڑھ لیجیے۔ یہ احوال تاریخ کیکئی کتابوں پر بھاری ہے۔ مولانا عبدالحلیم شرر مؤرخ سے زیادہ ناول نگار، صحافی، مترجم،ڈرامہ نگار اور مضمون نگار تھے؛ تاہم لکھنؤ کا حال جس طرح شرر نے لکھا ہے اسے پڑھ کرانسان صرف ایک نتیجہ نکالتا ہے اور وہ یہ کہ اگر زوال نہ آتا تو یہ ایسے ہی ہوتا جیسے گندمبونے سے آم کے درخت اُگ آئیں!
ہماری تاریخ میں منحوس ترین دن وہ تھا جب 1764ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے بکسر کی جنگجیت لی۔ دہلی کا بادشاہ شاہ عالم‘ اودھ کا نواب شجاع الدولہ اور بنگال کا حکمران میر قاسمتینوں مشترکہ فوج لے کر آئے مگر پھر بھی ہار گئے۔ مغل سلطنت کے تین انتہائی خوش حالصوبوں بنگال، بہار، اڑیسہ میں عوام سے براہ راست ٹیکس لینے کی اتھارٹی انگریزوں کو ملگئی۔ لکھنؤ (اودھ) کے نواب شجاع الدولہ نے انگریز کی سرپرستی قبول کر لی۔ اس کے بعدبانوے سال (یعنی تقریباً ایک صدی) اودھ کے نوابوں نے مکمل عیاشی میں گزارے جس کیتفصیل میں جائیں تو حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اصل حکومت انگریز ریذیڈنٹ کے ہاتھمیں تھی۔ بنیادی طور پر اودھ کے حکمران تین قسم کی لذتوں میں غرق تھے۔ موسیقی، خوراککا چٹخارہ اور جنسی چٹخارہ۔ جانوروں کی لڑائیاں دیکھنا بہت بڑا مشغلہ تھا۔ شیر کی لڑائی، چیتےکی لڑائی، تیندوے کی لڑائی، ہاتھی کی لڑائی، اونٹ کی لڑائی، گینڈے کی لڑائی‘ بارہ سنگھے کیلڑائی، مینڈھے کی لڑائی، طیور کی لڑائی۔ یہ سب لڑائیاں بادشاہ اور امرا کی سرپرستی میں کرائیجاتی تھیں۔ بازیاں اس کے علاوہ تھیں جن میں مرغ بازی، بٹیر بازی، تیتر بازی، کبوتر بازی اورپتنگ بازی پر بادشاہ اور رعایا یکساں طور پر جان دیتے تھے۔ موسیقی کا الگ سلسلہ تھا۔کتھک اور دوسرے ناچ شرفا کے گھروں تک پہنچ گئے تھے۔ بھانڈ اور ڈومنیاں عالی مرتبت ہوگئی تھیں۔ جو عیاشیاں کھانے پینے کے حوالے سے تھیں ان کا ذکر پڑھ کر دماغ چکرانے لگجاتا ہے۔ انتظام سلطنت انگریز کے پاس تھا۔ کٹھ پتلی بادشاہ اور پست ذہن امرا و عمائدینپیٹ پوجا کے نئے نئے تجربے کر رہے تھے۔ نواب اور بیگم کے لیے کھانا ہر روز چھ مختلفباورچی خانوں سے آتا۔ واجد علی شاہ نے دہلی کے شہزادے کی دعوت کی۔ دستر خوان پر مربہرکھا گیا۔ مہمان نے لقمہ کھایا تو چکرا گیا۔ یہ اصل میں قورمہ تھا۔ اب شہزادے نے بدلہ لیناتھا۔ جوابی دعوت ہوئی۔ پلاؤ، بریانی، قورمہ، کباب، چپاتیاں، اچار، چٹنیاں، پراٹھے سب شکرکے بنے ہوئے تھے۔ سالن بھی شکر کا، چاول بھی شکر کے! ایک شہزادے کی شادی پر سترقسم کے چاول پکائے گئے۔ کھچڑی جو دیکھنے میں چاول کی لگتی اصل میں بادام اور پستے کیہوتی۔ باورچی تو تھے ہی، ایک خاص پیشہ رکاب دار تھا‘ یعنی چھوٹی مگر حد درجہ نفیس ہانڈیاںپکانے والے! نواب غازی الدین کے لیے چھ پراٹھے تیس سیر گھی میں پکتے۔ وزیر ذرا با ضمیرتھا۔ اس نے گھی کی مقدار کم کروا دی۔ نواب کو معلوم ہوا تو وزیر کو تھپڑ اور گھونسے رسیدکیے۔ ایک رئیس صاحب کے خاصے کا پلاؤ 43 سیر گوشت کی یخنی میں پکتا۔ شیر مال کو لکھنؤ کینیشنل روٹی قرار دیا گیا۔ ایک خاص پلاؤ ایجاد ہوا جسے موتی پلاؤ کہا گیا۔ ترکیب یوں تھی کہچاندی اور سونے کے ورق انڈے کی زردی میں حل کیے جاتے۔ پھر اس محلول کو مرغ کےنرخرے میں بھر کر نرخرے کے ہر ہر جوڑ پر باریک دھاگا باندھ دیا جاتا۔ پھر جوش دیا جاتا۔پھر چاقو سے نرخرے کی کھال چاک کی جاتی۔ اس میں سے موتی نکل آتے جو پلاؤ میں گوشتکے ساتھ دم کیے جاتے۔ کچھ رکاب دار پنیر کے موتی بناتے اور ان پر چاندی کے ورق چڑھادیتے۔ یہ بھی ہوا کہ گوشت کی چھوٹی چھوٹی چڑیاں بنا کر اس طرح پکائی گئیں کہ صورت نہبگڑے۔ انہیں پلیٹ میں بٹھا دیا گیا۔ چاولوں کی شکل دانے جیسی کر دی گئی۔ یوں معلومہوتا جیسے مہمان کے سامنے پلیٹ میں چڑیاں دانہ چُگ رہی ہیں۔ کریلے دیکھنے میں کچے لگتےمگر کاٹ کر کھائے جاتے تو عجیب لذت اور ذائقہ ہوتا۔بہت سے کھانوں کے مجموعے کو لکھنؤمیں تورا کہا جاتا۔ ایک تورے میں مندرجہ ذیل غذائیں لازمی طور پر ہوتیں: پلاؤ۔ متنجن، شیرمال‘ سفیدہ (میٹھے چاول بغیر رنگ کے)‘ قورمہ‘ تلی ہوئی اروی گوشت کے ساتھ‘ شامی کباب‘ کئی اقسام کے مربے، اچار اور چٹنیاں۔ اس زمانے میں لکھنؤ نے عالم‘ یا سپاہی، یا سائنسدان نہیں، صرف باورچی پیدا کیے۔ ہندوستان بھر میں لکھنؤ کے باورچیوں کی دھوم تھی۔دکن، بھوپال، رام پور، بنگال غرض ہر جگہ باورچی لکھنؤ کے ہوتے۔ لکھنؤ والوں نے ملائی کانام بدل کر بالائی رکھا۔ بالائی کی تہہ پر تہہ ایک خاص طریقے سے بٹھائی جاتی۔ باقر خانی بھیوہیں کی ایجاد ہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر نے اپنے مضمون گزشتہ لکھنؤ میں منشی پریم چند کے ایک افسانے کا اقتباسنقل کیا ہے... “
“”نواب واجد علی شاہ کا زمانہ تھا۔ لکھنؤ عیش و عشرت کے رنگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ چھوٹےبڑے سب رنگ رلیاں منا رہے تھے۔ کہیں نشاط کی محفلیں آراستہ تھیں۔ کوئی افیون کیپینک کے مزے لیتا تھا۔ زندگی کے ہر شعبے میں رندی و مستی کا زور تھا۔ امور سیاست میں،شعر و سخن میں، طرز معاشرت میں، صنعت و حرفت میں، تجارت و تبادلہ میں، سبھی جگہ نفسپرستی کی دُہائی تھی۔ اراکین سلطنت مے خواری کے غلام ہو رہے تھے۔ شعرا بوس و کنارمیں مست، اہل سیف تیتر بازی میں، ہر کوئی سرمہ و مسّی، عطر و تیل کی خرید و فروخت کادلدادہ، غرض سارا ملک نفس پرستی کی بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا۔ سب کی آنکھوں میں ساغر وجام کا نشہ چھایا ہوا تھا۔ دنیا میں کیا ہو رہا ہے، علم و حکمت کن کن ایجادوں میں مصروفہے، بحر و بر پر مغربی اقوام کس طرح حاوی ہوتی جا رہی ہیں، اس کی کسی کو خبر نہ تھی۔ بٹیرلڑ رہے ہیں۔ تیتروں کی پالیاں ہو رہی ہیں۔ کہیں چوسر ہو رہی ہے۔ کہیں شطرنج کےمعرکے چھڑے ہوئے ہیں۔ نواب کا حال اس سے بھی بد تر تھا۔ حظِ نفس کے لیے نئےنئے نُسخے سوچے جاتے تھے یہاں تک کہ فقرا خیرات کے پیسے پاتے تو روٹیاں خریدنے کےبجائے مدک اور چنڈو کے مزے لیتے۔ رئیس زادے حاضر جوابی اور بذلہ سنجی کی تعلیمحاصل کرنے کے لیے ارباب نشاط سے تلمذ کرتے تھے۔ فکر کو جولاں، عقل کو رسا اور ذہنکو تیز کرنے کے لیے شطرنج کو کیمیا سمجھا جاتا تھا—“”
۔ دلی کا حال اس سے مختلف نہ تھا۔ جامع مسجد کی سیڑھیوں کے کباب سے لے کر افیون کیپینک تک سب کچھ مست کر دینے والا تھا۔ سات سمندر پار سے آئے ہوئے انگریز مکار اورظالم تو تھے، جفاکش اور محنتی بھی تھے۔ ہماری لکھی ہوئی تاریخ میں ان کی مکاری کا ذکر توبہت ہے، ان کی جفا کشی اور شدید محنت کا کوئی ذکر نہیں۔ گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھے ہوئےکلائیو کا مقابلہ پالکی میں سوار، تکیے پر ٹیک لگانے والے سراج الدولہ کرتے بھی تو کیسے کرتے
بشکریہ روزنامہ دنیا