Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, February 16, 2019

صرف ایمان نہیں!جہان بھی چاہیے جناب وزیراعظم

 









سگِ خانہ خراب بھی بیٹھتا ہے تو بیٹھنے سے پہلے جگہ کو دُم سے صاف کر لیتا ہے۔ 


دارالحکومت کھنڈر کا سماں پیش کر رہا ہے کیا وزیر اعظم نے ان کے عمائدین نے‘ ان کے وزراء اور امرا نے وہ بڑے بڑے ڈائنو سار جتنے ڈھانچے نہیں دیکھے جو شاہراہ کشمیر کے دائیں کنارے اور بائیں کنارے ایک ایسے شہر کا منظر پیش کر رہے ہیں جس کی آبادی نقل مکانی کر کے کہیں اور جا بسی ہو! 


گائوں کا لڑکا افسر بن گیا تو ایک دن اس کے ایک بزرگ اس سے ملاقات کو آئے۔ انہوں نے اسے وہ فارمولا بتایا جس کی وزیر اعظم عمران خان کو اشد ضرورت ہے! کہا:برخوردار! جب کوئی اقتدار کی کرسی پر بیٹھتا ہے تو لوگ اپنے مسئلے لے کر اس کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ اگر وہ سائل کا کام نہیں کرتا‘ ہاں چائے پانی کا اچھی طرح پوچھتا ہے تو سائل باہر جا کر اس کے بارے میں مشہور کرتا ہے کہ اس کا ایمان تو خوب ہے مگر افسوس! جہان اس کا خراب ہے! اگر وہ سائل کا کام کر دیتا ہے مگر چائے پانی کا‘ خیر خیریت کا نہیں پوچھتا تو سائل اس کی شخصیت کا خاکہ یوں کھینچتا ہے کہ جہان تو اس کا اچھا ہے مگر ایمان نہیں ہے۔ پھر اگر وہ کام بھی کر دے اور مہمان نوازی کا فریضہ بھی سرانجام دے تو سائل اس کا ایمان اور جہان دونوں قابل رشک قرار دیتا ہے۔ کچھ ایسے سوختہ بخت بھی ہوتے ہیں کہ بے فیض رہتے ہیں! کام کیا کریں اور کرائیں گے‘ پانی تک کا نہ پوچھیں! سائل باہر آ کر خلق خدا کو بتاتا ہے کہ اس لکڑی کے بت کے پاس ایمان ہے نہ جہان! 


جناب وزیر اعظم! آپ کا ایمان خوب ہے آپ کرپشن کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ آپ دل سے چاہتے ہیں کہ ملک ترقی کرے۔ آپ کا اپنا کاروبار ہے نہ ذاتی مفاد! نیب اور سپیکر نیشنل اسمبلی سوالیہ نشانوں کا روپ دھار لیتے ہیں مگر پھر بھی آپ کی خواہش ہے اور کوشش کہ جَمَعَ مَالاً وَ عَدَّدَہ جنہوں نے قومی مال میں خیانت کی۔ جمع کیا اور گن گن کر رکھا وہ کیفر کردار کو پہنچیں‘ آپ نے ایک خصوصی کارپرداز‘لوٹا ہوا قومی سرمایہ بیرون ملک سے واپس لانے کے لئے بھی تعینات کیا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ؎ 


اب اُس کا کرم ہے گھٹا بھیج دے 

کہ ہم نے تو جو بیج تھے بو دیے 


مگر جناب وزیر اعظم! یہ سب تو ایمان کا حصہ ہے اور ایمان کا قصہ ہے! آپ کی نیت آپ کی کوشش‘ آپ کی خواہش ! سب بجا مگر بندہ پرور! آپ کا جہان کہاں ہے؟وہ تو نظر ہی نہیں آ رہا! خلقِ خدا باہر آ کر دہائی دے رہی ہے وزیر اعظم کا ایمان اچھا ہے مگر جہان؟ جہان کا خانہ افسوس ناک ہے! 


ملک انفراسٹرکچر کے بغیر نہیں چلتے! آپ کی حکومت نے آ کر نئے تعمیراتی منصوبے تو کیا بنائے تھے۔ جو جاری تھے۔ وہ بھی مکمل فُل سٹاپ کی نذر کر دیے! کیا آپ کشمیر ہائی وے پر سفر کر کے ایئر پورٹ نہیں جاتے؟ دنیا جب دارالحکومت کے ہوائی اڈے سے آتی ہے اور واپس جاتی ہے تو دیکھتی ہے کہ بڑے بڑے سٹرکچر بڑے بڑے ڈھانچے پڑے ہیں۔ یہ وہ تعمیراتی کام ہے جو گزشتہ حکومت نے ایئر پورٹ کی میٹرو بس کے لئے شروع کیا تھا۔ ستون اور سیڑھیاں کشمیر ہائی وے کے درمیان بس کے لئے الگ راستہ جس کے دونوں طرف جنگلہ ہے۔ بڑے بڑے پلیٹ فارم۔ یہ سارا کام رک گیا۔ 


شریفوں کے جاتی امرا کا تو بال بھی بیکا نہ ہوا۔ لندن کی جائیدادوں سے ایک اینٹ واپس پاکستان نہ آئی۔ بچہ بچہ اس خاندان کا آج بھی کھرب پتی ہے۔ سب کچھ ایسے ہی ہے جیسا پہلے تھا۔ مگر انہوں نے جو کام خلق خدا کے لئے شروع کئے تھے وہ رک گئے۔ دارالحکومت کے ہوائی اڈے کی میٹرو بس کے انفراسٹرکچر پر کروڑوں روپے لگے۔ مکمل نہ ہوا۔ اب کوئی اس کا والی ہے نہ وارث! 


حضور!یہ سب کچھ چیچو کی ملیاں میں نہیں ہوا نہ چیچہ وطنی میں! یہ سب اس شاہراہ کے کناروں پر دیکھا جا رہا ہے جس کے ذریعے لاکھوں لوگ ملک بھر سے اور دنیا بھر سے ہر روز دارالحکومت آتے ہیں اور جاتے ہیں۔ غیر ملکی سیاح حکومتوں کے سفیر۔ سلطنتوں کے سربراہ ‘ عمائدین کیا سوچتے ہوں گے۔ کیا کہتے ہوں گے؟ کہ یہ کام‘ عوام کی سہولت کے لئے شریفوں نے شروع کیا تھا۔ عمران خان کی حکومت نے ان کی دشمنی میں آ کر اسے بھی بند کر دیا!! ؎


 سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا 

کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا


 چاہیے تو یہ تھا کہ آپ تخت پر بیٹھتے ہی حکم دیتے کہ یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے کہ عام لوگوں کو ایئر پورٹ پر جانے کے لئے وسیلہ مل جائے ! مگر افسوس! صد افسوس! حکومت کے سربراہ سے لے کر وزیروں تک‘ اعلیٰ نوکر شاہی سے لے کر ادنیٰ اہلکاروں تک کسی کو یہ بھی پروا نہیں کہ ان بدنما ڈھانچوں کا کیا بنے گا؟ یا انہیں اکھاڑ دیجیے اور ملبہ پورے شہر میں بکھیر دیجیے خواہ اس انہدام پر کروڑوں مزید لگ جائیں۔ نانی نے خصم کیا۔ بُرا کیا۔ کر کے چھوڑ دیا اور بھی بُرا کیا!!


 آپ کے اعلیٰ خیالات کرپشن کے خلاف قابلِ قدر ہیں مگر زندگی کے حقائق‘ اس سے آگے ‘ کچھ اور بھی چاہتے ہیں ؎ 


بھرا نہ مر مر و اطلس سے پیٹ خلقت کا 


یہ بدنہاد اب آب و گیاہ‘ مانگتی ہے 


آسمانی من و سلویٰ بنی اسرائیل کو مطمئن نہ کر سکا۔ انہیں پیاز اور مسور درکار تھی! سعدی نے کہا ؎ 


شَبِ جو عقدِ نماز می بندم 

چہ خورد بامراد فرزندم



عابد ہو یا زاہد ! رات کو نماز کے لیے نیت باندھتا ہے تو ذہن اس مشکل میں الجھا ہوتا ہے کہ صبح اہل و عیال کے نان نفقہ کا کیا بنے گا؟ شریف حکومت نے دارالحکومت کی حبل الورید۔ یعنی رگِ گلو۔ کو جسے ایکسپریس ہائی وے کہتے ہیں‘ بنایا۔ آدھی سے زیادہ بنا ڈالی۔ زیرو پوائنٹ سے لے کر فیض آباد تک۔ پھر فیض آباد سے گلبرگ تک مکمل ہو گئی۔ اب جو چند کلو میٹر کا حصہ رہتاہے۔ اس کے بننے کے کوئی آثار نہیں! لاکھوں لوگ بے پناہ اذیت سے دوچار ہیں۔ کوئی نہیں جو وزیر اعظم کو بتائے کہ چکوال اور جہلم کے ‘روات اور گوجر خان کے ‘ مندرہ اوردینہ کے‘ بحریہ ‘ ڈیفنس ‘پی ڈبلیو ڈی اور بیسیوں دیگر آبادیوں کے لوگ تحریک انصاف کو اس شاہراہ کی وجہ سے ووٹ نہیں دیں گے۔ جب آپ لوگوں کے پیٹ پر مکہ ماریں گے تو چہرے پر غازہ ملنے کا کوئی فائدہ نہیں! 


کیا اس سے بڑی ناکامی بھی کوئی ہے کہ لوگ ادھورے منصوبے دیکھ کر شریف حکومت کو یاد کریں کہ آج ہوتے تو یہ کام مکمل ہو چکے ہوتے! 


جہان کی فکر کیجیے! جناب وزیر اعظم! جہان کی!! صرف ایمان سے کام نہیں بنے گا! اب بھی وقت ہے ! اپنی ترجیحات پر نظرثانی کیجیے کہ کل عوام ایمان نہیں‘ جہان دیکھ کر فیصلہ کریں گے! 





No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com