Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, February 03, 2019

ماسیاں‘ بیگمات اور وارداتیں



’’یہ عورت‘ گھر کا کام کاج کرنے کیلئے‘ تم نے کہاں سے ڈھونڈی ہے؟‘‘


 ’’یہ گلی میں سے گزر رہی تھی مجھ سے اس نے کہا کہ کام چاہیے۔ آپ نے کہا ہوا تھا کہ ماسی درکار ہے‘ میں اسی کو لے آئی ہوں۔ 


کچھ عرصہ بعد‘ شہروں میں بڑے ہونے والے بچے یہی سمجھیں گے کہ ’’ماسی‘‘ گھر کی نوکرانی کو کہتے ہیں۔ اُس وقت شاید انہیں کوئی بتانے والا ہی نہ ہو کہ ماسی‘ پنجابی میں خالہ کو کہتے ہیں۔ یعنی ماں کی بہن‘ ہماری تہذیب یہ تھی کہ گھر میں کام کرنے والی عورت کو بچے نام لے کر نہیں پکارتے تھے۔ یہ شائستگی کے خلاف تھا۔ اسے ماسی یا پھپھی کہا جاتا تھا۔ مرد ملازم کو چاچا یا ماما کہتے تھے۔ رفتہ رفتہ ماسی کا لفظ خادمہ کے لئے مخصوص ہو گیا۔ جو اصل ماسی تھی یعنی ماں کی بہن۔ وہ آنٹی بن گئی۔ اب کراچی میں بھی ماسی کا مطلب نوکرانی ہی لیا جاتا ہے۔ 


آج تو ٹیوشن پڑھانے جو استاد آتا ہے‘ اسے بھی ملازم سمجھا جاتا ہے۔ ماں باپ ‘ پابندی سے فاسٹ فوڈ لے کر جاتے ہیں‘ مگر یہ نہیں بتاتے کہ تمیز کیا ہے اور ادب آداب کیا ہیں! ایک عشرہ ہوا یا کچھ زیادہ۔ کہ لاہور میں ایک گھریلو ملازم نے صاحب‘ بیگم اور بچوں کو بے دردی سے قتل کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ لوگ مجھے انسان نہیں سمجھتے تھے۔ بچے کے ہاتھ میں گلاس ہوتا تو گلاس ہی کھینچ کر میرے چہرے پر دے مارتا! کہاں یہ حال کہ بچہ گھر کے ملازم کو نام لے کر بلاتا تو بچے کو تھپڑ پڑتا کہ یہ چاچا ہے اسے نام لے کر نہیں بلاتے! 


یہ ساری بات جملہ معترضہ تھی۔ جس واقعہ سے اوپر تحریر کی ابتدا ہوئی وہ دارالحکومت کے ایک کھاتے پیتے امیر سیکٹر کا واقعہ ہے اور چار دن پرانا ہے۔ گھر کی مالکن نے کسی سے کہا کہ کام کرنیوالی عورت درکار ہے‘ وہ گلی میں سے گزرتی بظاہر مزدوری ڈھونڈتی‘ عورت کو لے آیا۔ بیگم صاحبہ نے اس سے شناختی کارڈ مانگا اس نے کہا کل لے آئوں گی! کام آج سے شروع کرا دیجیے۔ دوسرے دن آئی تو شناختی کارڈ کا پوچھا ہی نہ گیا دوسرے دن اس کے ساتھ ایک اور عورت بھی تھی۔ کہنے لگی مہمان ہے۔ اسے بھی ساتھ لے آئی ہوں۔ اس ساتھ آنے والی نے ’’رضا کارانہ‘‘ طور پر برتن دھونے شروع کر دیئے اسی اثناء میں خاتون خانہ نے اپنے لیے چائے کا کپ بنایا اور لے کر کمرے میں آ گئی۔ ابھی ایک آدھ گھونٹ ہی چائے کا لیا تھا کہ ’’مہمان‘‘ خادمہ نے پوچھا۔’’بیگم صاحبہ برتن کہاں رکھوں؟‘‘ بیگم صاحبہ نے کمرے ہی سے بتایا کہ کچن میں جگہ بنی ہوئی ہے۔ وہیں رکھ دو۔ وہ پھر پکاری کہ آ کر بتائیے’ مجھے نہیں معلوم ہو رہا! گھر کی مالکن چائے کا کپ وہیں رکھ کر کچن میں چلی گئی۔ اسے بات سمجھائی واپس آئی تو ’’اصل‘‘ خادمہ کمرے میں بستر کی چادر ٹھیک کر رہی تھی۔ 


چائے کا کپ بیگم نے ختم کیا تو حواس مختل ہونا شروع ہو گئے۔ آنکھیں کھلی تھیں‘ مگر بولنے کی ہمت نہ تھی۔ پھر وہ بے سدھ ہو کر بستر پر گر پڑی۔ گھنٹے گزر گئے۔ بیٹی آئی تو اس نے جگانے کی کوشش کی۔ ہسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ اگر چائے میں یہ چیز… جو کچھ بھی تھی۔ ذرا زیادہ ڈال دی جاتی تو مہلک ثابت ہوتی! گھر کے مال اسباب کا صفایا تو ہو ہی چکا تھا۔ 


گزشتہ ہفتے‘ اس نوعیت کے کم از کم چار واقعات دارالحکومت کے مختلف حصوں میں پیش آئے۔ ایک گھر میں شادی کا ہنگامہ بھی برپا تھا۔ زیورات تو زیورات‘ قالین تک اٹھا کے لے گئے۔ حواس مختل کرنے والی دوا چائے میں جس’’درست‘‘ مقدار میں ڈالی گئی‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت محتاط منصوبہ بندی کے بعد لوٹ مار کا کام کیا جا رہا ہے۔ عورت کو معلوم تھا یا اسے تلقین کی گئی تھی کہ چائے میں کتنی مقدار ڈالنی ہے ! تاکہ کام بھی بن جائے اور ہلاکت بھی نہ ہو۔ اب حکومت کو یا پولیس کو مطعون کرنے سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ گھر والوں نے اپنی ذمہ داری ادا کی یا نہیں! 




کھاتے پیتے گھرانے کی تعلیم یافتہ خاتون کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ ریفرنس کے بغیر گھر میں کسی کو ملازم یا ملازمہ ہرگز نہیں رکھنا چاہیے۔ کوئی اس کا جاننے والا ہو‘ کوئی گارنٹی دے تبھی کام اسے سونپا جانا چاہیے۔ اس کے بعد اس کا شناختی کارڈ‘ جس پر رہائش کا ایڈریس درج ہوتا ہے۔ ضرور دیکھنا چاہیے۔ اس کی نقل اپنے پاس محفوظ رکھنی لازم ہے۔ اس زمانے میں کون ہے جو ہر وقت اپنی جیب میں شناختی کارڈ(اصل یا فوٹو کاپی) نہیں رکھتا یا نہیں رکھتی۔ جب ایک عورت کہتی ہے کہ میرے پاس نہیں ہے تو یہ اسے مشکوک قرار دینے کے لئے کافی ہے! اس سیاق و سباق میں اگر یہ کہا جائے کہ غلطی سوفیصد خاتون خانہ کی ہے تو شاید بے جا نہ ہو۔ 


رہا معاملہ چائے کے کپ کو کمرے میں چھوڑ کر باہر نکلنے کا۔ تو یہ تو ایک زیادہ باریک معاملہ تھا جو خاتون اتنی سادہ اور عام بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ ریفرنس کے بغیر اور وہ بھی شناختی کارڈ کے بغیر کسی کو کام پر نہیں لگانا چاہیے وہ اتنی گہرائی میں کہاں جائے گی کہ دوسری عورت کہاں ہے اور دو اجنبی عورتیں گھر میں کچھ بھی کر سکتی ہیں جب کہ اس قسم کی وارداتیں عام ہیں اور ہر کسی کو حد درجہ احتیاط کرنی چاہیے۔


 ملازم اگر پرانا اور قابل اعتبار ہے تو اسے بھی آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ اس کے پیٹ میں گھونسہ مار کر اسے جرم پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔ من کستم سرہ بلغ مرادہ۔ جس نے اپنے راز کی حفاظت کی وہ کامران ہوا۔ ملازم کو یہ نہیں معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کی جمع پونجی کہاں پڑی ہے۔ زیور کتنا ہے اور کس جگہ رکھا ہے۔ ایک دوست کے بھائی اپنے ملازم کے سامنے پرائز بانڈز گن رہے تھے۔ اس کی نیت خراب ہو گئی۔ قتل کر کے پرائز بانڈ لے اڑا۔ جو عورتیں گھروں میں کام کرتی ہیں۔ ان میں سے اکثر کے شوہر بیکار‘ نکھٹو‘ منشیات کے عادی اور جرائم پیشہ ہوتے ہیں۔ وہ بیویوں سے کرید کرید کر گھروں کے حالات پوچھتے ہیں۔ ان کے اپنے گروہ ہوتے ہیں۔ حاصل شدہ اطلاعات کی بنیاد پر وہ ڈاکے ڈالتے ہیں اور چوریاں کرتے ہیں! اہل مغرب نے اپنا لائف سٹائل بدل کر گھریلو ملازموں سے نجات حاصل کر لی۔ پہلے تو ان کے گھر‘ فلیٹ‘ اپارٹمنٹ ‘ چھوٹے ہوتے ہیں۔ ہر کمرے کے ساتھ باتھ روم نہیں ہوتا۔ پھر انہوں نے مشینیں ایجاد کیں کہ ہر کام آسانی سے خود کر سکیں۔ فرش صاف کرنے کے لئے ویکیوم کلینر بنایا۔ کپڑے دھونے کے لئے واشنگ مشین‘ برتن دھونے کے لئے ڈش واشر‘ کھانا گرم کرنے کے لئے مائیکرو ویو اور دیگر مشینیں ایجاد کیں۔ آٹا گوندھنے والی مشینیں بھی بازار میں آ چکی ہے۔ اب خبر یہ ہے کہ بھارتیوں نے ایک مشین ایجاد کی ہے جس میں خشک آٹا ڈالیں گے۔ تو مشین خود ہی آٹا گوندھے گی۔ پیڑا بنائے گی اور پکی پکائی روٹی مشین سے باہر آ جائے گی۔ 


پھر اہل مغرب اپنے کام اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں۔ لان کی گھاس خود کاٹتے ہیں۔ گاڑی خود صاف کرتے ہیں۔ کپڑے خود استری کرتے ہیں اب پٹرول پمپوں سے ملازم ہٹ چکے ہیں۔ آپ اپنی گاڑی میں پٹرول خود ڈالیے اور اندر جا کر قیمت کی ادائیگی کر آئیے۔ انہوں نے کئی فوائد سمیٹ لیے۔ ملازموں کی تنخواہ کا بار نہیں پڑتا۔ نجی زندگی میں کوئی بیرونی عنصر نہیں داخل ہوتا۔ گھرکے راز گھر ہی میں رہتے ہیں۔ ملازم نہ وارداتیں‘ نہ احتیاج! ہمارے ہاں بے روزگاری کا عفریت ایک اور سبب ہے گھریلو ملازمت کا! آپ ایک شخص یا عورت کو گھر میں ملازم رکھتے ہیں تو ایک پورے گھر کی دال روٹی‘ نان نفقہ آپ کے طفیل چل رہا ہے! 


رہا پولیس کا کردار۔ تو اس پر بات کرنا عبث ہے! کالم لکھنے والا ہو یا کالم پڑھنے والا‘ پولیس کا رول‘ پولیس کی 

کارکردگی۔ سب کو معلوم ہے! 












1 comment:

افتخار اجمل بھوپال said...

حضور آپ شاید ہیں تو نئے زمانہ کے لیکن بات کر رہے ہیں پرانے زمانہ کی جب امیر وہ ہوتے تھے جو کئی پُشتیں محنت کرت رہے تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ محنت کرنے والا غریب نہیں ہوتا بلکہ اُس کے پاس سکہ رائج الوقت کی کمی ہوتی ہے ۔ جب میں بچہ تھا (بات کر رہا ہوں 1947ء سے پہلے کی) تو ہمارے ہاں ایک عورت کام کرتی تھی ۔ اُس کا نام عائشہ تھا ۔ مجھے بتایا گیا کہ اُسے میری پیدائش کے وقت گھر کا کانپ سونپا گیا تھا ۔ ایک اور بوڑھی عورت ہمارے گھر آیا کرتی تھی ۔ اُس کانام جی بھری تھا ۔ معلوم ہوا کہ اُسے میرے والد صاحب کی پیدائش کے وقت ہمارے دادی نے یہ کانپ سونپا تھا لیکن اب وہ بوڑھی ہو چکی ہے ۔ پاکستان بننے کے بعد جب میں انجیئرنگ کالج مین پڑھتا تھا اور چھٹیوں میں گھر آیا ہوا تھا ۔ کوئی صاحب والد صاحب سے ملنے آئے ۔ کچھ دیر بعد مجھے اُس سے ملوایا گیا ۔ جونہوں میں کمرے میں داخل ہوا وہ صاحب جو پتلون کوٹ اور ٹائی مین تھے یکدم زمین پر بیٹھ گئے ۔ والد صاحب نے پکڑ کر صوفہ پر بٹھایا پھر مجھے بتایا کہ یہ مائی جی بھری کا بیٹا ہے اور آجکل حکومت میں جوائنٹ سیکریٹری ہے ۔ پھر وہ صاحب بولے ”بھائی اجمل ۔ آپ کے دادا نے مجھے سکول داخل کرایا پھر کالج اور میری تعلیم کا سارا خرچ اُٹھایا ۔ میں جو کچھ بھی ہوں آپ کے خاندان کی وجہ سے ہوں“۔
آجکل لوگوں نے گھر سے باہر کھانا سیکھ لیا ہے ۔ آج سے کچھ دہائیاں قبل گھر سے باہر کھانا معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ میں تو اب بھی گھر سے باہر کھانا اچھا نہیں سمجھتا سوائے اس کے کہ میں کسی ایسے شہر مین گیا ہون جہاں میرا کوئی قریبی عزیز نہ رہتا ہو ورنہ وہ باہر نہیں کھانے دیتے

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com