وہی ہوا جس کا ڈر تھا
وہی ہونے جا رہا ہے جو ہوتا آیا ہے۔
آئی ایم ایف نے واضح کر دیا ہے کہ قرضہ لینا ہے تو روپکی قدر مزید گھٹائو۔ بجلی مہنگی کرو۔ گیس کے نرخ بڑھائو! کس کو نہیں معلوم کہ آئی ایم ایف ترقی پذیر ملکوں کے لئے بدترین ساہوکارہ ہے۔ یہ اندرونی معاملات میں کھلم کُھلا مداخلت کرتا ہے۔ ہاتھ پائوں باندھ دیتا ہے۔ اس کا پسندیدہ کلہاڑا جو یہ قرض خواہ ملک پر چلاتا ہے’’سٹرکچرل(Structural)ریفارمز‘‘ کہلاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے سیاسی اور اقتصادی پالیسیوں کو اپنی مرضی سے تبدیل کرنا۔
آئی ایم ایف کی سخت گیر سربراہ کرسٹائن لگارڈے اصلاً فرانس سے ہے۔ فرانس میں کئی وزارتوں کی انچارج رہی۔2011ء میں آئی ایم ایف کی سربراہ بنی۔ جن ملکوں نے اس کے انتخاب کی حمایت کی ان میں بھارت بھی تھا! اس کے مقابلے میں میکسیکو کے بینک کا گورنر تھا۔ ہسپانیہ سمیت لاطینی امریکہ کے ملکوں نے اس کا ساتھ دیا۔ اگر وہ منتخب ہو جاتا تو آئی ایم ایف کا پہلا غیر یورپی سربراہ ہوتا مگر یورپ نے یہ سرداری اپنے ہاتھ سے نہ نکلنے دی۔ امریکہ نے بھی یورپ کا ساتھ دیتے ہوئے اس سخت گیر خاتون کی حمایت کی۔
اس وقت یونان کی اقتصادی حالت زبوں تھی۔ آئی ایم ایف کا سربراہ بنتے ہی لگارڈے نے یونان کے اندرونی معاملات میں براہ راست مداخلت شروع کر دی۔
’’واحد پیغام جو میں آج یونان کو دینا چاہتی ہوں یہ ہے کہ یونان کی اپوزیشن جماعتیں‘ حکومت کی حمایت کریں۔‘‘
اس نے یونانی عوام کو مُشکیں کسنے کی خوش خبری سنائی۔2016ء میں یونان کی اقتصادی حالت مزید ابتر ہوئی تو یورپ کے ’’یورو‘‘ استعمال کرنے والے ملکوں نے یونان کے لئے ایمرجنسی امداد کی مہم چلائی مگر آئی ایم ایف نے کسی قسم کی امداد دینے سے انکار کر دیا۔ کیوں کہ آئی ایم ایف کے بقول۔’’یونان نے مناسب اقدامات نہیں لیے تھے۔‘‘
یہ مناسب اقدامات کیا ہوتے ہیں؟ یہی کہ ملک اپنی لگام آئی ایم ایف کے ہاتھ میں دیدے۔ پھر یہ آئی ایم ایف کی مرضی ہے کہ جدھر چاہے موڑے۔ ملک کی تمام اقتصادی‘ سیاسی‘ سماجی پالیسیاں اس کے ہاتھ میں آ جاتی ہیں۔ کرنسی کی قیمت گر جاتی ہے۔ ٹیکس ظلم کی حد تک بڑھ جاتے ہیں۔ گیس ‘ پانی‘ بجلی ٹیلی فون کے نرخ‘ وہ ملک خود نہیں‘ آئی ایم ایف طے کرتا ہے۔ یہ ایک شکنجہ ہوتا ہے جس میں قرض لینے والا ملک پھنس جاتا ہے۔ آئی ایم ایف شکنجہ کستا جاتا ہے۔ عوام کی ہڈیاں ٹوٹنے کی آوازیں آتی ہیں مگر جہاں آئی ایم ایف کے کان بند ہوتے ہیں وہاں قرضہ لینے والی حکومت بھی کانوں میں روئی ٹھونس لیتی ہے۔ پھر مزید اقدامات ۔ مزید قرضہ۔ مزید مہنگائی پھر وہ ملک کبھی بھی اس شکنجے کی گرفت ڈھیلی نہیں دیکھ سکتا! ۔
یونان کی مصیبت کم نہ ہوئی۔ حالات بدتر ہوتے گئے ۔ مرے کو مارے شاہ مدار، لگارڈے نے بیان دیا کہ یونان عیش کرتا رہا مگر اب قیمت ادا کرنے کا وقت ہے۔ پھر الزام لگایا کہ یونانی ٹیکس نہیں ادا کرتے۔ یونان کے نائب وزیر اعظم نے اس بیان کو یونانی عوام کی بے عزتی قرار دیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں لگارڈے کی ہمدردی کی کوئی ضرورت نہیں! اُسی دن لگارڈے نے فیس بک پر اپنی پوزیشن کی وضاحت کرتے ہوئے اپنے دفاع میں لکھا کہ میں تو یونانیوں کی ہمدرد ہوں۔ چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر اس پر دس ہزار لوگوں نے کمنٹس دیے جن میں گالیاں بھی شامل تھیں! جہاں تک اس کے اس طعنے کا سوال تھا کہ یونانی عوام ٹیکس نہیں دیتے تو اس کے جواب میں یونیورسٹی آف لندن کے ایک پروفیسر نے کہا کہ اخلاقی طور پر لگارڈے ایسا کہہ نہیں سکتی کیونکہ وہ خود بھاری تنخواہ(468000ڈالر سالانہ) وصول کر رہی ہے اور اس پر ایک پائی ٹیکس نہیں دیتی!
یہ ہے وہ آئی ایم ایف کی سربراہ جس سے وزیر اعظم عمران خان نے دبئی میں ملاقات کی ہے! کیا وہ اصل میں اس ملاقات ہی کے لئے گئے تھے؟ اس کا جواب حکومت تو انکار ہی میں دے گی مگر قرائن بتاتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا۔ کیوں کہ آئی ایم ایف کے سربراہ کی پوزیشن اس وقت غریب ملکوں کے لئے ایسی ہی ہے جیسے استعماری حکومت کا وائسرائے ہوتا ہے۔ مناسب تو یہی تھا کہ وزیر اعظم خود نہ ملتے، ان کا وزیر خزانہ یا کوئی سرکاری ٹیم ملتی!
اس ملاقات کے بعد ‘ آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے اپنی شرائط میں کوئی نرمی نہیں پیدا کی۔ یعنی وہ بدستور بضد ہے کہ ٹیکس مزید لگائے جائیں اور گیس اور بجلی کے نرخ بڑھائے جائیں۔ آئی ایم ایف کی سربراہ نے اپنے اس سٹاف کے مطالبات کی حمایت کی جو نیچے کی سطح پر پاکستانی حکومت کے کار پردازوں کے ساتھ تفصیلی مذاکرات کر رہا ہے دو مطالبات ہوش ربا ہیں۔ گیس اور بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ اور روپے کی قدر میں مزید کمی۔ جس کا مطلب ہے کہ ڈالر کی قیمت ایک سو پچاس یا ایک سو ساٹھ روپے کے لگ بھگ ہو! اس سے ایک تو پاکستان کی ساکھ کو بین الاقوامی سیاسیات میں مزید دھچکا لگے گا۔ دوسرے عوام پس کر رہ جائیں گے۔ اخباری کاغذ مزید مہنگا ہو گا۔ تیل کی قیمت بڑھے گی۔ لائف سیونگ ادویات مزید گراں ہوں گی کیوں کہ ان کا خام مال درآمد کرنا ہوتا ہے۔ دوسری طرف اشیائے تعیش کی درآمد پر حکومت کوئی پابندی لگانے کے موڈ میں نہیں! گاڑیوں کی قیمتیں پہلے ہی آسمان پر پہنچی ہوئی ہیں یہ مزید بڑھیں گی اور چھوٹی سے چھوٹی کار بھی مڈل کلاس کی دسترس سے باہر ہو جائے گی۔ موٹر سائیکل خریدنے کا خواب دیکھنے والے مزید دل شکستہ ہوں گے۔ آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ قرض کے لئے ہمارے حضور حاضر ہونے سے پہلے یہ اقدامات کرو۔ پھر آئو!
کتنا بدبخت ہے یہ ملک جس کے امرا‘ تاجر‘ جاگیر دار ٹیکس نہیں دیتے اور عوام آئی ایم ایف کے شکنجے میں اپنی ہڈیاں ٹوٹنے کی آوازیں سنتے ہیں۔ ستر برس سے یہی ہو رہا ہے۔ آج تک کوئی ملک آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنس کر باہر نہیںنکل سکا۔
زرداری خاندان‘ شریف خاندان‘ ترین خاندان‘ گجرات کا چودھری خاندان‘ علیم خان‘ منشا گروپ اور درجنوں ایسے کھرب پتی خاندان اور افراد ہیں جو اپنی اپنی دولت کا آٹھواں حصہ بھی ملک کو دیں تو آئی ایم ایف کے پاس کشکول بدست نہ جانا پڑے۔ ٹیکس ہی پورا دے دیں تو کام بن جائے۔ بیرون ملک محلات میں نوٹ گننے کی مشینیں نصب ہیں اور ملک بھیک مانگ رہا ہے۔ کبھی سعودی عرب سے، کبھی چین سے، کبھی متحدہ امارات سے اور اب بدترین سامراجی قوت سے جس کا نام آئی ایم ایف ہے!
حکومت ایک طرف رونا روتی ہے کہ آبادی کا آٹھ فیصد حصہ ٹیکس دیتا ہے۔ دوسری طرف ٹیکس نیٹ وسیع کرنے کا کوئی پلان تاحال قوم کے سامنے نہیں پیش کر سکی۔ ڈاکٹر‘ وکیل‘ مکانوں کے نقشے بنانے والے کروڑ پتی آرکیٹکٹ۔ گلی گلی پیسہ بٹورنے والے ہومیو پیتھ۔ میلوں تک پھیلی جاگیروں اور باغات کے مالک جاگیردار اور سب سے بڑھ کر تاجر، جو خریدار کو رسید تک نہیں دیتے۔ ان میں سے کوئی بھی ٹیکس نہیں دیتا۔ فخر سے بتایا جاتا ہے کہ یہ ملک خیرات و صدقات کے حوالے سے نمایاں ترین مقام رکھتا ہے! غنی کاشمیری یاد آ گیا ؎
غنی روزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشا کن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخا را
کنعان کا بوڑھا بینائی کھو بیٹھا کہ
افسوس !! اس کا نورِ چشم زلیخا کی آنکھیں ٹھنڈی کر رہا ہے!
1 comment:
آپ نے جو اعداد و شمار لکھیں ہیں وہ ہوش ربا ہیں اللہ پاک ہم پاکستانیوں پر رحم کا معملا عطا فرمائے ،۔
Post a Comment