اس میں کیا شک ہے کہ سوشل میڈیا جس مقدار اور جس رفتار سے سروں پر سوار ہوا ہے اس سے پناہ مانگنے کو جی چاہتا ہے۔ ایک شترِ بے مہار! جو مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ یہاں تک کہ آپ کے گھر کے اندر‘ آپ کی خواب گاہ میں اور پھر آپ کے بستر پر آبراجمان ہوا ہے۔
مگر جہاں مہمیز لگی ہے‘ وہاں لگام بھی خوش قسمتی سے آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے‘ آپ یہ لگام کسی بھی وقت کھینچ کر سوشل میڈیا کے حملے کو بہت حد تک بے اثر کر سکتے ہیں۔
مکروہ ترین خلل وہ تاجر ڈالتے ہیں جو اپنی اشیا فروخت کرنے کے لئے آپ کے موبائل فون پر اشتہار بھیجتے ہیں۔ اس عذاب پر کچھ دن پہلے یہ کام نگار تفصیل سے لکھ چکا ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی(پی ٹی اے) اس کا سدباب کر دیتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی اے میں نچلی اور درمیانی سطح پر کوئی شنوائی نہ ہوئی مگر اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب ادارے کے نئے سربراہ جنرل عامر نے ٹیلی فون کال کا باقاعدہ جواب دیا اور یقین دہانی کرائی کہ اس مکروہ خلل کا سدباب کرنے میں ان کا ادارہ کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا ہے نہ کرے گا۔ آپ کو جس نمبر سے اشتہارات موصول ہو رہے ہیں۔ پی ٹی اے کے متعلقہ شعبے کو اطلاع کیجیے۔ وہ اس نمبر کو بلاک کر دے گا۔
رہا فیس بک کا معاملہ تو وہ ایک سمندر ہے جس میں مگرمچھ اور کیکڑے سے لے کر ویل اور شارک تک اور رنگین خوبصورت مچھلیوں سے لے کر جواہر تک سب کچھ موجود ہے۔ جو پسند نہ آئے اسے اَن فالو کر دیجیے۔ میسنجر پر آپ جب کسی کو ’’اگنور‘‘ کرتے ہیں تو آئندہ کے لئے اس کے پیغامات براہ راست ردی کی ٹوکری میں چلے جاتے ہیں۔ اس ترکیب کی خوبی یہ ہے کہ ارسال کنندہ کو معلوم نہیں ہو پاتا کہ اس کا دل ہی نہ ٹوٹ جائے۔
کچھ احباب کو اپنی تشہیر اور اپنی پروجیکشن کا اس قدر خبط ہے کہ وہ اپنی ’’تخلیقات‘‘ اپنی ٹائم لائن پر لگانے کے بجائے آپ کے اِن باکس میں بھیجتے ہیں۔اپنی نظمیں‘ اپنی غزلیں‘ اپنی تصویریں اپنے ویڈیو کلپ وہ یہ نہیں سوچتے کہ ان میں ہر شخص کے لئے دلچسپی کا سامان نہیں ہو گا۔ اس کا آسان علاج ہے کہ آپ ان کی ڈاک کو ’’اگنور‘‘ کے خانے میں ڈال دیجیے۔ باقی کام فیس بک کا میکانزم خود کر لے گا۔
ایک اور فیشن یہ چل نکلا ہے کہ جو دعائیں رب العالمین کے حضور مانگنی ہیں وہ آپ کو بھیجی جا رہی ہیں۔ دعا کا اصول قرآن حکیم میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّ عًا وَّ خُفْیَہْ۔ کہ اپنے رب کو عاجزی سے اور چپکے سے پکارو۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کو ربِّ کریم حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ مگر یہاں یہ رجحان دن بدن زیادہ ہو رہا ہے کہ دعائوں کی دعائیں دوسروں کو بھیجی جا رہی ہیں۔ ہر شخص اپنی پسند‘ اپنے ذوق‘ اپنے مبلغ علم اور اپنی ضروریات کے حساب سے دعا مانگتا ہے۔ آپ کسی کو اپنی پسند کی دعا مانگنے پر کیسے آمادہ کر سکتے ہیں؟ یہ تو خالق اور مخلوق کا باہمی معاملہ ہے اور ٹاپ سیکرٹ کی کیٹیگری میں آتا ہے۔ ایک دوست نے مسلسل دعائیں بھیجنا شروع کیں۔ پوچھا یہ زحمت کیوں کر رہے ہیں۔ کہنے لگے آپ یہ دعائیں مانگا کریں۔ انہیں جواب دیا کہ جو دعائیں قرآن پاک میں سکھائی گئی ہیں اور احادیث میں وارد ہوئی ہیں۔ وہ کیوں نہ مانگی جائیں؟ آپ اپنی پسند کی دعا خود مانگیں اور یہ معاملہ اپنے اور اپنے پروردگار کے درمیان رکھیں۔
خود نمائی کی ایک مضحکہ خیز قسم یہ بھی ہے اپنی بیماریوں کا ڈھنڈورا پیٹا جائے۔ معمولی سردرد سے لے کر زیادہ خطرناک بیماری تک کے اعلانات فیس بک پر کئے جاتے ہیں کچھ تو ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد کی تصویر بھی پوسٹ کرتے ہیں۔ دارالحکومت کے ایک شاعر کے بارے میں جو مرحوم ہو چکے ہیں‘ مشہور تھا کہ لخت جگر کی میت گھر پڑی تھی مگر وہ خبر لگوانے کے لئے اخبارات کے دفاتر کے چکر لگا رہے تھے۔ اس زمانے میں تشہیر کا یہی ذریعہ تھا۔ ایک زمانے میں ایسے شاعر ہوا کرتے تھے جو محبوب کے سامنے‘ دل کے مقام پر ہاتھ رکھ کر درد کی شکایت کرتے تھے۔ یہ مضحکہ خیز عمل اب سوشل میڈیا پر دکھایا جاتا ہے۔ کچھ تو دل کی دھڑکن تیز ہونے اور آنکھ پھڑکنے کی خبر بھی شیئر کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
افسوس ناک ترین عمل اپنی نیکی کی تشہیر ہے۔ احرام باندھتے ہی سب سے پہلے سیلفی لی جاتی ہے جو فوراً فیس بک پر ظاہر ہوتی ہے۔ پھر ایئر پورٹ پہنچنے کی تصویر! یہ فکر نہیں کہ مناسک بخیرو خوبی تکمیل کو پہنچیں اور یہ عبادت قبولیت کا شرف حاصل کر لے۔ انسان پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں جب طواف کعبہ کے دوران سیلفیاں لیتے ہوئے زائر‘ اپنے عمرے کو خود ہی غیر سنجیدہ کر لیتے ہیں۔ اس نرگسیت کا ماشاء اللہ دیگر ملکوں کے مسلمان بھی شکار ہیں۔ اپنی نیکی کی تشہیر ہمارے کلچر کا افسوس ناک حصہ‘ ویسے بھی ہو چکی ہے۔
’’میں اتنے روزے رکھتا ہوں‘‘
’’میں اتنی تسبیحات پڑھتا ہوں‘‘
’’میں اتنی خیرات کرتا ہوں‘‘
ایسی گفتگو اکثر سننے میں آتی ہے۔ سیاست دان اس خودنمائی میں حصہ یوں ڈال رہے ہیں کہ کسی بیوہ کو مشین دیتے وقت‘ یا کسی غریب دلہن کو جہیز دیتے وقت تصویر کھنچواتے ہیں جو میڈیا پر اچھالی جاتی ہے۔
عمرہ اور حج عبادات کا حصہ ہیں۔ عبادت کی تشہیر کرنا ریا کاری میں شمار ہوتا ہے۔ کیا عجب اب نماز پڑھتے ہوئے بھی ایسے اصحاب تصاویر کھینچوانا شروع کر دیں اور پوسٹ کے نیچے عنوان اس قسم کا ہو’’نماز ظہر کی ادائیگی‘‘ یا نماز جمعہ کے لئے مسجد میں ورود‘‘!ایسے احمقوں کو اگر ان فرینڈ یا اَن فالو نہ کیا جائے تو پھر یہ جو سہولت ہے ان فرینڈ یا اَن فالو کرنے کی تو یہ کس دن کام آئے گی؟
کچھ مکروہ پوسٹیں ایسی بھی ہیں جن کے لگانے والوں کو محض اَن فرینڈ کرنا یا اَن فالو کرنا کافی نہیں! اس کیٹیگری میں سرِ فہرست وہ بدبخت ہیں جو دشنام طرازی کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں جس سیاسی یا مذہبی شخصیت سے اختلاف ہے‘ اسے گالی دیتے ہیں وہ بھی فیس بُک پر۔ کچھ لوگ کمنٹس لکھتے وقت بھی مغلظات بکتے ہیں۔ یعنی لکھتے ہیں! ان میں متشرع چہرے بھی شامل ہیں‘ ظاہر ہے وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں‘ جہاں عدم برداشت کا دور دورہ ہے! اس میں کیا شک ہے کہ دشنام طرازی عدم برداشت کی بدترین صورت ہے۔ اختلافِ رائے کا۔ یہ اسلوب غیر انسانی اور سراسر وحشیانہ ہے۔ یہ کالم نگار گالی دینے والے کو‘ خواہ کسی کو بھی دی گئی ہو۔ بلاک کر دیتا ہے۔ جن سے اختلاف ہے اور اختلاف بھی شدید ان کے خلاف بھی دشنام طرازی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
لسانی‘ مسلکی اور گروہی اختلافات کو ہوا دینے والوں کو بھی بلاک کر دینا چاہیے کچھ لوگ ایسی احمقانہ پوسٹیں لگاتے ہیں کہ ان میں مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے علما کی تصاویر ہوتی ہیں۔ پھر پوچھتے ہیں کہ آپ ان میں سے کس کو پسند کرتے ہیں۔ یہ بھی مسلکی اختلافات پھیلانے کی ایک مکروہ صورت ہے۔ ایسے حضرات ذہنی طور پر ناپختہ اور قابل اصلاح ہیں۔ یہ اور بات کہ فیس بک پر انہیں سمجھانے کا مطلب بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا ہے!
مگر شاعر ہونے کے حوالے سے میرے نزدیک خارج از وزن شاعری لکھنا ناقابل معافی جرم ہے۔ ایسے نام نہاد شعرا کو بلاک نہ کیا جائے تو سعدی سے لے کر غالب تک تمام شعرا کی ارواح بے چین ہوں گی!
یہ سب کچھ تو ہے مگر یہ بتائیے کہ کیا جمعہ مبارک کا پیغام بھیجنے والوں اور ہر روز صبح گلدستہ ارسال کرنے والوں سے بھی آپ تنگ آ رہے ہیں؟
No comments:
Post a Comment