Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, February 10, 2019

خدا کا نام لیجیے وزیر اعظم صاحب !

خدا کا نام لیجیے وزیراعظم صاحب!

………………………………………

 



نہیں! جناب وزیراعظم! نہیں! 


آپ وہی کچھ کر رہے ہیں جو پہلوں نے کیا اور کچھ نتیجہ نہ نکلا۔ وہی پامال راستے‘ وہی گھسے پٹے نسخے‘ وہی افرادی پاٹ پوری جو ہر حکمران کے سامنے میز کے اردگرد بیٹھی نظر آئی ع 


میں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہوگا


 ویٹی کن میں جا کر حرم مکی کی توسیع پر تبادلہ خیال۔ 


مودی سے ملت اسلامیہ کے لیے مشورے‘ 


بلیوں کے ذمے دودھ کی سلطنت کا انتظام‘ 


واہ‘ واہ‘ ارادے وزیراعظم کے نیک‘ ان ارادوں کی تکمیل کے لیے کدال‘ تیشے مٹی کے‘ مٹی بھی وہ جو کچھ نہ اگا سکے۔ ایسا کرنا ممکن ہوتا تو ستر سال کے سامراجی دور میں ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ کے نواح میں روسی میلوں تک خوبانی اور آڑو کے باغات لگا دیتے مگر ووڈکا کے علاوہ وہاں کچھ نہ حاصل ہوا۔ 


نئی نسل کو اسلامی تاریخ اور علامہ اقبال کے فلسفے سے روشناس کرانے کے لیے وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس ہوا۔ اللہ‘ اللہ۔ اب شفقت محمود اور یوسف بیگ مرزا جیسے ’’ماہرین‘‘ اسلامی تاریخ اور فلسفہ اقبال پر کام کریں اور کرائیں گے۔ چیونٹیوں کے کندھوں پر گندم کی بوریاں لاد دیجیے۔ گودام ماشاء اللہ بھر جائیں گے۔ 


عمران خان صاحب کا مسئلہ ہی تو یہی ہے کہ نیا کام ان لوگوں سے لینا چاہتے ہیں جنہوں نے ستر سال سے کوئی کام سرے سے ہونے ہی نہیں دیا۔ پرسوں اس ٹاسک فورس سے آپ نے خطاب فرمایا جو سول سروس میں اصلاحات کے لیے بنائی گئی ہے۔ پہلے خطاب کے چیدہ چیدہ نکات دیکھیے۔ ٭ 


:-احتساب اور میرٹ ہی نظام میں بہتری لانے کے اصول ہیں۔ 

:-٭ وسائل کے ضیاع کو روکنا ہوگا۔ ٭ سپیشلائزیشن کا دور ہے۔ ہر شعبے میں ماہر افراد ہی کام کرسکتے ہیں۔ ٭ 

:-لوکل گورنمنٹ کا ایسا ماڈل لا رہے ہیں جس میں مقامی نمائندے عوامی فلاح و بہبود میں بھرپور کردار ادا کریں۔ 

٭ :-سیاستدانوں کی ٹریننگ بھی ضروری ہے تاکہ سول سروس کو سیاسی مداخلت سے بچایا جا سکے۔ 

:-٭ ہر تقرری صرف میرٹ کی بنیاد پر کی جائے۔ ٭ 

:-بیوروکریسی کو سیاسی مداخلت سے بچانا ہمارا مشن ہے۔ 


٭ ہر واقف حال شخص احتجاج کر چکا ہے کہ اس ٹاسک فورس کا سربراہ ڈاکٹر عشرت حسین کو بنانا ایسے ہی ہے جیسے ایک ایسے درخت کو پانی دینا جس کی جڑیں کٹ کر زمین سے باہر آ چکی ہیں۔ عمران خان‘ ڈاکٹر عشرت حسین سے یہ تو پوچھ لیتے کہ بھائی میاں ڈاکٹر صاحب! صدر پرویز مشرف کے زمانے میں بھی آپ نے یہی کام سنبھالا تھا۔ ذرا اس کا نتیجہ‘ اس کے ثمرات تو دکھا دیجئے۔ 


ہمیشہ ان رہنے کے شوقین ڈاکٹر صاحب نے شہبازشریف کے دور ہمایونی میں ایک کتاب تصنیف کی جس کی افتتاحی تقریب اور تشہیر کے لیے ’’سائنسی‘‘ بنیادوں پر مہم چلائی گئی۔ اس تصنیف لطیف میں ڈاکٹر صاحب نے شہبازشریف کے انداز حکمرانی کو خراج تحسین پیش کیا۔ پرسوں جب وزیراعظم عمران خان نے ٹاسک فورس سے خطاب کیا تو ٹاسک فورس کے سدا بہار سربراہ عشرت حسین صاحب نے وزیراعظم کو یقینا بتایا ہو گا کہ شہبازشریف صاحب ہی کا انداز حکمرانی آئیڈیل ہے۔ 


ٹاسک فورس کے بشمول ڈاکٹر عشرت حسین‘ انیس ارکان ہیں۔ ان میں سے بارہ یعنی چونسٹھ فیصد‘ اسی بیوروکریسی سے تعلق کھتے ہیں جس کی اصلاح کی جانی ہے۔ اس بیوروکریسی کو اس حالت تک پہنچانے میں ان حضرات نے اپنی عمریں صرف کردیں۔ پھر بیوروکریسی کے مختلف شعبوں سے نہیں‘ صرف ایک شعبے سے‘ صرف ایک ٹکڑے سے‘ نمائندے شامل کئے ہیں۔ یہ بیوروکریسی کا وہی مخصوص گروپ ہے جو ہر دور میں حکرانوں کا حاجب رہا اور ہر دور میں سٹیٹس کو کا مضبوط ترین نمائندہ رہا۔ اس ٹاسک فورس میں فارن سروس کا کوئی نمائندہ ہے نہ پولیس کا‘ ایف بی آر کا ہے نہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا۔ پاکستان ریلوے کا ہے نہ دفاع کے محکمے کا‘ کامرس اینڈ ٹریڈ کا ہے نہ اطلاعات یا مواصلات کا نہ صوبائی سول سروس کا۔


 پھر مکھی پر مکھی مارنے کی بدترین مثال دیکھئے کہ ٹاسک فورس کے ارکان میں نوکرشاہی کی شمولیت بھی خالص پامال شدہ انداز میں کی گئی ہے۔ 

ٹاسک فورس کا گیارہواں رکن سیکرٹری کابینہ یا اس کا نامزد۔ 

بارہواں رکن سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ یا اس کا نامزد۔ 

تیرھواں رکن سیکرٹری پلاننگ یا اس کا نامزد۔ 

چودھواں رکن سیکرٹری خزانہ یا اس کا نامزد۔ 

پندرھواں رکن چیف سیکرٹری یا ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب۔ 

سولہواں رکن چیف سیکرٹری یا ایڈیشنل چیف سیکرٹری سندھ۔ 

سترھواں رکن چیف سیکرٹری یا ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے پی کے۔ 

اٹھارھواں رکن چیف سیکرٹری یا ایڈیشنل چیف سیکرٹری بلوچستان۔ 


انیسویں رکن کا انتخاب تو کمال کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ پوری ٹاسک فورس کا سیکرٹری کون ہوگا؟ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کا تعینات کردہ سرکاری بابو۔ ماں صدقے۔ 


وزیراعظم صاحب‘ اس سے زیادہ بے فیض اور پامال شدہ چنائو کیا ہو گا؟ انہی سیکرٹریوں نے‘ انہی کے نمائندوں نے‘ صوبوں میں تعینات انہی چیف سیکرٹریوں اور ایڈیشنل چیف سیکرٹریوں نے ہی تو سول سروس کو اس پاتال میں پھینکا ہے جس سے نکالنے کی آرزو آپ کر رہے ہیں۔ یہ چیف سیکرٹری‘ یہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری کون ہیں؟ یہ وہی ہیں جو چودہ چودہ انسانوں کو گولیوں سے بھون کر بیرون ملک ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں سفیر لگ جاتے ہیں۔ 


اس ٹاسک فورس میں کیبنٹ‘ اسٹیبلشمنٹ‘ خزانہ اور فنانس کے سیکرٹری اپنے نامزد افسروں کو بھیجیں گے جو جوائنٹ سیکرٹری کی سطح کے بابو ہوں گے۔ اس خدا کی قسم‘ جس نے عمران خان کو تبدیلی لانے کا موقع دیا ہے یہ سرکاری بابو ان اجلاسوں میں بول ہی نہیں سکتے۔ ان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے کسی دوسرے ملک کی بیوروکریسی کے سیٹ اپ کا مطالعہ کیا ہو‘ ان میں سے اکثر تو کتاب پڑھنا ہی گناہ گردانتے ہیں۔ یہ فائلوں پر As Proposed یا Submitted for approval لکھنے کے ماہر ہیں۔ ان کا تو تکیہ کلام ہی یہ ہے کہ ’’جب میں ڈپٹی کمشنر تھا‘‘ ان میں سے کتنوں کو معلوم ہے کہ کامیاب ترین ماڈل سنگاپور کا ہے اور کیوں ہے؟ 


پھر ان کی سربراہی بھی ایک ایسا شخص کر رہا ہے جو انہی کی کلاس سے تعلق رکھتا ہے ع


 وہی دیرینہ بیماری وہی نا محکمی دل کی 


وہی شدید احساس کمتری‘ وہی اہل علم سے گریز کا رجحان‘ نہاں خانہ دل میں تبدیلی کی وہی شدید مزاحمت۔ 


جو اس نظام سے فائدہ اٹھا رہے ہیں کیا وہ اس نظام کو بدلیں گے؟ جو مسئلے کا حصہ ہیں‘ کیا وہ مسئلے کو حل کریں گے؟ 


خدا کا نام لیجیے وزیراعظم صاحب۔ خدا کا نام لیجیے۔ آپ نے سول سروس ریفارم کے لیے جو ٹاسک فورس بنائی ہے وہ تعفن کی گٹھڑی سے زیادہ کچھ نہیں‘ کچھ بھی نہیں۔ 





No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com