جی ! بالکل درست فرمایا !
’’طالبان فقط ایک مذہبی اور سیاسی گروہ نہیں‘ پشتونوں کی قومی تحریک ہے۔‘‘
ہم جیسے ’’ہماتڑ‘‘ عشروں سے چیخ رہے ہیں کہ یہ پختون‘ غیر پختون کا مسئلہ ہے۔ خدا کا شکر ہے ؎
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے راز داں اور بھی ہیں
احمد شاہ ابدالی نادر شاہ کا ملازم تھا۔ جرنیل بنا۔ نادر شاہ کے بعد اس نے 1747ء میں افغان قبیلوں کو متحد کیا اور ’’افغانستان‘‘ کی بنیاد رکھی۔ یہ بنیادی طور پر پختون نیشن سٹیٹ تھی یعنی پشتون قومی ریاست! سوویت یونین نے حملہ کیا تو 1979ء میں دو سو بتیس سال بعد پختون غلبہ اختتام کو پہنچا۔ یہاں ایک سوال اٹھتاہے کہ اتنے طویل عرصہ تک ازبک ‘ تاجک‘ ترکمان اور ہزارہ اقلیتیں کیوں خاموش رہیں؟ ایک وجہ تو یہ تھی کہ حکومت پختونوں کی تھی مگر غلبہ فارسی( دری) زبان کا تھا۔ کابل مجموعی طور پر فارسی سپیکنگ شہر رہا۔ غیر پختونوں کو اجنبیت کا احساس نہیں تھا۔ پھر سیاسی شعور بھی نہ تھا۔
تاہم ایسا بھی نہیں کہ سب اچھا تھا۔1975ء میں وادی پنج شیر میں بغاوت ہوئی جو دائود خان کی پختون حکومت کے خلاف تھی۔ ’’ستمِ ملی‘‘ کی تحریک اٹھی جو ازبکوں نے اٹھائی اور اصلاً پشتون غلبے کے خلاف ردعمل تھا۔’’شعلہ جاوید‘‘ بھی ایسی ہی تحریک تھی۔ مگر پشتون حکومتوں کے ہاتھ میں ایک نسخہ کیمیا تھا کہ ہر سیاسی تحریک کو مسلکی تحریک کا نام دے دیتے۔ کبھی شیعہ سنی مسئلہ بنا دیتے کبھی کچھ اور۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے افغان طالبان میں کچھ ازبک اور تاجک بھی شامل ہیں مگر یہ وہ عناصر ہیں جو ’’اسلامی تحریک آف ازبکستان‘‘ کے ہم خیال ہیں۔ شمال مشرق میں بدخشاں سے اور شمال مغرب میں جو زجان اور فاریاب سے جو بھی غیر پختون ‘ طالبان سے آ ملے ہیں‘ ان کی شمولیت کی اپنی اپنی وجوہ ہیں۔ تاریخ جذبات سے ہٹ کر‘ ٹھنڈے دل و دماغ سے تجزیہ کرنے کا نام ہے۔ اورنگزیب عالم گیر نے اپنے عہد اقتدار کے آخری پچیس برس جنوب میں مرہٹوں کو تسخیر کرنے میں گزار دیے تاریخ ایک طرف اعتراف کرتی ہے کہ اس کے زمانے میں مغل سلطنت کے پاس سب سے زیادہ رقبہ تھا۔ مگر اسی سانس میں تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ یہ سب زوال کا پیش خیمہ تھا۔ سلطنت اندر سے کھوکھلی ہو چکی تھی۔ بادشاہ ربع صدی دارالحکومت سے دور رہا اور اسی برس کی عمر میں جنگوں کی کمان کرتا رہا۔ یوں ترجیحات میں عدم توازن سلطنت کو لے بیٹھا۔
آج ہم پاکستانی بھی طالبان کے مسئلے میں سراسر جذباتی ہو کر بات کرتے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ افغانستان کے عوام پر کیا گزری اور کیا گزر رہی ہے؟ طالبان کا یہ قول فخر سے سنایا اور بتایا جاتا ہے کہ گھڑی دشمن کے پاس مگر وقت طالبان کے پاس ہے۔ یعنی وہ برسوں تک‘ عشروں تک لڑیں گے اور لڑتے رہے۔ تو غیر جنگجو آبادی پر کیا گزری؟ یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں! مقصد غیر ملکیوں کا انخلا ہی نہیں‘ حکومت کا حصول بھی ہے۔ عوام کے لئے امن و امان‘ صحت اور تعلیم کی فراہمی‘ زراعت اور صنعت کی ترقی‘ بنیادی ضروریات کا لحاظ ‘ ان میں سے کچھ بھی ان کے لئے اہم نہیں۔ وہ فخر سے کہتے ہیں کہ ہم غاروں میں رہتے ہیں۔ عجم کے ساتھ جنگ آزمائی سے پہلے امیر المومنین عمر فاروقؓ حسرت سے کہا کرتے تھے کہ کاش آگ کا پہاڑ ہمارے اور ان کے درمیان ہوتا۔ وہ ادھر رہتے اور ہم اس طرف! تو کیا امیر المومنین عجم کی قوت سے خائف تھے؟ نہیں! وہ جنگ کی ہولناکیوں سے اپنے عوام کو ہر ممکن حد تک بچانا چاہتے تھے۔
کھیل اس وقت شروع ہو گا جب امریکی افواج نکل جائیں گی۔ اول تو یہ ع
اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی
والی ہے۔ کیا امریکی افواج مکمل طور پر چلی جائیں گی یا کچھ نہ کچھ باقی رہے گا۔ اگر مسلح حصے رخصت ہو بھی گئے تو کیا مشیر‘ ٹھیکیدار اور امریکی کمپنیاں بھی چلی جائیں گی؟ گمان غالب یہ ہے کہ امریکہ مکمل انخلا پر راضی نہیں ہو گا اور یوں مذاکرات کا مسئلہ کھٹائی میں پڑ سکتا ہے۔
فرض کیجیے امریکی مذاکرات میں طالبان کا مطالبہ مان کر‘ اپنا سارا بوریا بسترا اور ٹِنڈ پھوہڑی ترڈا باندھ کر چلے جاتے ہیں تو بعد کا منظر نامہ کیا ہو گا؟ کیا طالبان الیکشن کرانے پر رضا مند ہو جائیں گے یا بزور کابل پر حکمرانی کرنا چاہیں گے؟ یہاں یہ یاد رہے کہ طالبان جس دیو بندی مکتب فکر کے علمبردار ہیں۔ اس کے نزدیک ’’جمہوریت‘‘ اور ’’الیکشن‘‘ غیر اسلامی ہیں اور مغرب کا تحفہ ہیں اس مکتب فکر میں مفتی محمد رفیع عثمانی اور مولانا فضل الرحمن جیسے صرف چند علماء جمہوریت کے حامی ہیں ورنہ مدارس کی اکثریت جمہوریت کے حق میں نہیں!اور مولانا مفتی رفیع عثمانی اور مولانا فضل الرحمن جیسے متوازن علماء سے طالبان فکری طور پر ہم آہنگ بھی نہیں! وہ اپنی شوریٰ سے فیصلہ لیں گے اور اس بات کا امکان کم ہے کہ ان کی شوریٰ یا علماء کی جو بھی کونسل ہے‘ جمہوریت اور الیکشن کو جائز قرار دے۔
پھر‘ غیر پختون قومیتوں کے ساتھ ان کا سلوک کیا ہو گا؟ کیا وہ رشید دوستم کو حکومت میں شامل کریں گے؟ وسطی افغانستان میں رہنے والی ہزارہ کی شیعہ برادری کے ساتھ ان کا سلوک کیا ہو گا؟ رشید دوستم تنہا ہے نہ ہزارہ! ایک کی پشت پر ترکی ہے اور دوسرے کے ساتھ ایران کی ہمدردی ہے۔ یوں بھی ازبک اور تاجک ‘ آمو کے پار‘ ازبکستان ترکمانستان اور تاجکستان کے ساتھ نسلی‘ لسانی اور ثقافتی لحاظ سے جُڑے ہوئے ہیں۔
امریکی انخلاء کے بعد والا افغانستان‘ اس افغانستان سے بہت مختلف ہو گا جس پر 1747ء سے لے کر 1979ء تک پختون اجارہ داری رہی۔ سوویت یونین کی افواج افغانستان میں جنوب سے داخل ہوئیں نہ مشرق سے! وہ شمال سے داخل ہوئیں جو تاجکوں اور ازبکوں کا علاقہ ہے۔ تاریخ کے اس دھچکے نے افغان ازبکوں اور تاجکوں کو اڑھائی سو سالہ نیند سے اٹھا دیا۔ انہیں رشید دوستم‘ احمد شاہ مسعود اور برہان الدین ربانی جیسے رہنما ملے۔ اب یہ قومیتیں خوابیدہ نہیں رہیں! امریکہ کے انخلا کے بعد یہ حکومت میں حصہ مانگیں گی۔ یہ اپنی زبان‘ اپنے کلچر‘ اپنی روایات کے لئے قومی سطح پر حقوق کا مطالبہ کریں گی! تو کیا طالبان افغانستان کو ’’نیشن سٹیٹ‘‘کے طور پر قبول کر لیں گے یا ’’امارتِ اسلامی‘‘ بنانے پر اصرار کریں گے؟ کیا وہ ایسے افغانستان پر رضا مند ہو جائیں گے جس میں ازبک ہزارہ تاجک ترکمان اور باقی گروہ اقتدار میں جمہوری طریقے سے شریک ہوں۔ ملک ترقی کا رُخ کرے‘ عشروں کی بدامنی کا مداوا ہو سکے۔ دوسرے ملکوں کے ساتھ بین الاقوامی قوانین کے مطابق نارمل تعلقات ہوں؟ یا طالبان بدستور‘ شمشیر بدست‘ ایک بار پھر قتل و غارت کا راستہ اختیار کر کے اعلان کریں گے کہ وقت انہی کے تصرّف میں ہے!!
ایک خوشحال اور نارمل افغانستان پاکستان کے حق میں نعمت سے کم نہ ہو گا! افغانستان کے پختون بچوں کا حق ہے کہ ان کے ہاتھ میں بندوق نہ ہو۔ کتاب اور لیپ ٹاپ ہو! گری ہوئی دیوارِ برلن کے ٹکڑے ڈرائنگ روم میں فخر سے رکھنے والے‘ افغان جہاد کے نام نہاد ٹھیکیدار اپنے بچوں کو بزنس سکھاتے رہے اور افغان بچوں کو جنگ! اب یہ تماشا ختم ہونا چاہیے! اس آرام دہ زندگی پر افغانوں کا بھی حق ہے جس سے انہیں جہاد میں دھکیلنے والے ڈیلر لطف اندوز ہوتے رہے!
No comments:
Post a Comment