نور کے قافلے رواں ہیں۔
ہزاروں لاکھوں قافلے۔ چہار دانگِ عالم سے! مشرق سے اور مغرب سے۔ شمال سے اور جنوب سے! ان قافلوں کے غبار کا ایک ذرّہ یہ کالم نگار بھی ہے۔ ایک حقیر ذرہ۔ ان قافلوں کے مسافروں کے جوتوں پر پڑا ہوا ایک ذرّہ۔ مگر کیا اس سے بڑا بھی کوئی اعزاز ہے؟
چودہ صدیوں سے یہ قافلے رواں ہیں۔ بطحا کی وادی میں اور مدینہ کے شہر میں پہنچتے ہیں۔ سبز گنبد کو دیکھتے ہیں۔ نگاہوں سے چومتے ہیں۔ اُن گلی کوچوں پر پلکیں بچھاتے ہیں جہاں مقدس پائوں پڑے تھے۔ اور کیا ہی مقدس پائوں تھے۔ محبت کرنے والے ان پیروں کے نقوش کو اپنے سینوں میں اتارتے تھے جہاں یہ ستارے بن جاتے تھے۔ پھر یہ قافلے اپنے ملکوں کو پلٹتے ہیں۔ پھر دوبارہ جاتے ہیں۔ جانے اور واپس آنے میں اور پھر جانے میں عمریں کٹ جاتی ہیں مگر حاضری کی حسرت ہے کہ پوری نہیں ہوتی۔
اس وقت جب کالم نگار استانبول میں بیٹھا یہ سطریں لکھ رہا ہے، اور اس وقت جب پڑھنے والے یہ سطریں پڑھ رہے ہیں، ہاں! عین اس لمحے بھی ہزاروں لاکھوں قافلے رواں ہیں۔ ہزاروں لاکھوں آنکھیں سبزگنبد پر نظریں جمائے ہیں۔ ہزاروں لاکھوں آنسو جالیوں کے سامنے رخساروں پر گر رہے ہیں۔ مدینہ کی گلیاں چلنے والوں سے بھری ہیں۔ جو پیدا ہوں گے، وہ بھی مدینہ کی طرف جائیں گے۔ جا کر واپس آئیں گے۔ سینوں میں دوبارہ جانے کی حسرت پالتے ہوئے۔ قیامت تک لاکھوں کروڑوں اربوں کھربوں اور اس سے بھی زیادہ لوگ مدینہ کی طرف چلتے رہیں گے۔ رات کے وقت بھی، دن کے وقت بھی، صبح بھی شام بھی، موسم بدلتے رہیں گے۔ چرم کی پوستینیں اور فرغل زیب تن کیے، لوگ یثرب کی وادی کی طرف چلتے رہیں گے۔ پھر گرما آئے گا۔ پسینے بہیں گے، دھوپ کوڑے برسائے گی۔ قافلے رواں رہیں گے۔ بارشوں میں، آندھیوں کے دوران، طوفانوں کے درمیان، بہار میں بھی، خزاں میں بھی۔ کیا اس سے بڑا بھی کوئی معجزہ کسی پیغمبر کا ہو سکتا ہے۔ سورج ابھرے یا ڈوبے، چاند چمکے یا اماوس میں گم ہو جائے۔ بادلوں کا راج ہو یا ستاروں کا، دھوپ ہو یا چھائوں، قافلے مدینۃ النبی کی طرف چلتے رہے، چل رہے ہیں۔ چلتے رہیں گے۔ سائبیریا سے، جاپان سے، بحرالکاہل کے کناروں سے، اوقیانوس کے ساحلوں سے،
دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں جو ان قافلوں میں نہ بولی جاتی ہو۔ کرۂ ارض کا کوئی لباس ایسا نہیں جو ان مسافروں کے تن پر دیکھا نہ جا سکتا ہو۔ روئے زمین پر کھائی جانے والی کون سی حلال اور طیب غذا ہے جو ان قافلوں میں کھائی نہ جا رہی ہو ان میں مرد بھی ہیں، عورتیں بھی، ضعیف بھی، تنومند بھی، اپاہج بھی، بچے بھی، ہائے! کیا عالی ظرف دربار ہے، باریش بھی حاضر ہوتے ہیں، بے ریش بھی، وہ مرد بھی جنہوں نے پونیاں رکھی ہوئی ہیں، وہ عورتیں بھی جن کے گیسو بریدہ ہیں، ماڈرن بھی، دقیانوسی بھی، متوازن بھی، انتہا پسند بھی، لباس فاخرہ پہننے والے بھی، تار تار لباس والے بھی، یہاں کسی فقہ پر کوئی پابندی نہیں، وہ بھی دست بستہ کھڑے ہیں جو ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں، وہ بھی ہاتھ لٹکائے حاضر ہیں جو ہاتھ باندھ کر قیام کرتے ہیں۔ ہاتھوں کو کانوں تک لے جانے والے بھی۔ نہ لے جانے والے بھی، وہ بھی جو نماز کے دوران کھڑے ہو کر دعا کرتے ہیں، وہ بھی جو بیٹھ کر گڑ گڑاتے ہیں۔
ساری بادشاہیاں چمک کر دمک کر ختم ہو گئیں۔ جرمن سلطنت بھی، افریقی ملک مالی کا چودھویں صدی کا بادشاہ منسا موسیٰ بھی نہ رہا جو آج کی دنیا میں بھی امیر ترین انسان سمجھا جاتا ہے۔ زار ختم ہو گئے، اموی، عباسی، سلجوق، مغل، عثمانی، صفوی قاچار ساری شہنشاہیاں غروب ہو گئیں۔ کیا ہٹلر کیا مسولینی، کیا نپولین، کیا سکندر! سب مٹ گئے۔ جنہیں دعویٰ تھا کہ ان کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا، سمٹ کر جزیرے میں بیٹھ گئے۔ مگر محمد عربی(صلی اللہ علیہ وسلم) کی سلطنت آج بھی قائم ہے۔ یہ وہ سلطنت ہے جس کی کوئی سرحد ہے نہ مدت! پوری دنیا اس سلطنت کا حصہ ہے۔ کوئی توپ ہے نہ تفنگ جو لوگوں کو آنے پر مجبور کرے، مگر کشاں کشاں محمد عربی(صلعم) کی رعیت ان کے دربار کی طرف آتی ہے۔ کسی کے رکنے سے نہیں رکتی، غریب ہے تو پائی پائی جمع کرتا ہے کہ حاضر ہو۔ امیر ہے تو مسجد نبوی میں زائرین کے آگے گڑ گڑاتا ہے کہ اس کے دستر خوان پر روزہ افطار کریں۔ قیامت تک ایسا شہنشاہ پھر نہیں پیدا ہو گا اور پیغمبری کے آگے شہنشاہیت کی بھی کیا حیثیت ہے۔ شہنشاہ تو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے دربانوں کے جوتے صاف کرتے ہیں۔ چوبداروں کے آگے سر جھکاتے ہیں۔ غلاموں کے قدموں کی خاک کو آنکھوں کا سرمہ بناتے ہیں۔
پیغمبر پردہ کر جاتے تو ان کے معجزے بھی ساتھ ہی ختم ہو جاتے۔ مگر محمد عربیﷺ کے معجزے آج بھی برپا ہیں۔ کیا یہ معجزہ نہیں کہ دنیا میں بچوں کا رکھا جانے والا سب سے زیادہ نام محمد ہے۔ کیا یہ معجزہ نہیں کہ رات دن کروڑوں زبانوں پر درود جاری ہے۔ کیا یہ معجزہ نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری گئی کتاب کا ان چودہ صدیوں میں ایک لفظ تک نہیں بدلا۔ لفظ تو دور کی بات ہے، ایک حرف، ایک زبر، ایک زیر، ایک پیش، ایک شوشہ تک نہیں بدلا جا سکا۔ کیا یہ معجزہ نہیں کہ یہ کتاب دنیا کے ہر حصے ہر ملک ہر گوشے میں ہر وقت پڑھی اور پڑھائی جا رہی ہے اور لفظ تو کیا، تلفظ تک دنیا کے ہر حصے ہر ملک اور ہر گوشے میں وہی ہے۔
مکہ مکرمہ کا سفر فرض کا سفر ہے۔ یہ ڈیوٹی ہے۔ یہ خدائے ذوالجلال کی قہاری اور جبروت کا سفر ہے۔ مدینہ کا سفر محبت کا سفر ہے، شوق کا سفر ہے۔ اسے فرض نہیں قرار دیا گیا مگر اس کی فرضیت رگوں میں خون بن کر دوڑ رہی ہے۔ مدینہ بھی کیا شہر ہے۔ جب مکہ فتح ہو گیا تو اہلِ مدینہ خوف زدہ ہو گئے کہ کہیں آپ واپس نہ تشریف لے جائیں مگر وفا کے پیکر نے فرمایا! نہیں، میں تمہارے پاس ہی رہوں گا۔ کیا بھاگ لگے اس شہر کو۔ جو رہتی دنیا تک تمنائوں کا مرکز رہے گا۔ جہاں کی مٹی سونا ہے۔ کنکر ہیرے ہیں۔ جہاں درختوں پر طائر بہشتی ہیں۔ جہاں کی خاک پر آسمان رشک کرتا ہے۔ اقبال عظیم نے کہا ہے ؎
کہاں میں کہاں مدحِ ذات گرامی
میں سعدی نہ قدسی نہ رومی نہ جامی
غالب نے کہا ؎
غالبؔ ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم
کان ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است
حافظ محمد ظہورالحق ظہور نے کہا ؎
ہے شان تری اس سے کہیں ارفع و اعلیٰ
جو لفظ تری شان کے شایاں نظر آیا
قافلوں کے غبار میں مٹی کا یہ ذرہ بھی اُڑ کر اُسی سمت جا رہا ہے،پاشکستہ، سربریدہ اور آرزو کی معراج کیا ہے؟ دہلیز کا بوسہ!!
   
Muhammad Izhar ul Haq
www.izharulhaq.net
No comments:
Post a Comment