قطار طویل تھی اور صبر آزما!
ہم انچوں کے حساب سے آگے بڑھ رہے تھے سب کچھ نہ کچھ زیر لب پڑھ رہے تھے۔ کچھ حمدو ثنا‘ کچھ درود شریف، کچھ کلام پاک کی تلاوت کرتے جا رہے تھے۔ پھر بائیں طرف جالیاں دکھائی دیں۔ زردی مائل سنہری جالیاں‘ دائیں جالی پر جلی حروف میں آیت لکھی تھی۔’’اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی ﷺ کی آواز سے زیادہ بلند نہ کرو اور نہ ان کی خدمت میں حاضری کے وقت زور سے بولو جیسے ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو۔ ایسا نہ ہو تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں‘‘
روضۂ مبارک پر یہ ایک مجرم کی حاضری تھی۔ رواں رواں کانپنے لگا۔ جس ہستی کے سامنے آواز بلند کرنے سے بھی اعمال ضائع ہو سکتے ہیں‘ اس ہستی کے احکام کی مخالفت! رات دن مخالفت! صبح شام مخالفت سال کے بارہ ماہ ! مہینے کے تیس ایام! ہفتے کے سات دن! دن کے چوبیس گھنٹے مخالفت! مخالفت! اور مخالفت!!
جس عظیم ہستی کے سامنے صحابہ کے پر جلتے تھے‘ جس کے ذکر سے اولیاء اللہ کانپ کانپ جاتے کہ ؎
ادب گاہیست زیرِ آسماں ازعرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
اس ہستی کی نافرمانی یہاں معمول بن چکی ہے! حکم تو یہ فرمایا کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں‘‘ میں بازار میں بیٹھ کر دن دہاڑے ہر شے میں ملاوٹ کر رہا ہوں۔ گاڑیوں کے تیل سے لے کر ادویات تک! غذا سے لے کر بچوں کے دودھ تک! شیمپو سے لے کر بیسن تک ! اور پھر ڈھٹائی کے اوپر بے حیائی! کہ نمازیں بھی ہو رہی ہیں اور عمرے بھی! آپ نے متنبہ کیا تھا۔ منافق کی تین علامتیں ہیں۔ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کا مرتکب ہوتا ہے۔ امانت سپرد کی جائے تو خیانت کرتا ہے!‘‘ میرے تو جھوٹ رگ رگ میں خون کے ہر قطرے میں رچا ہے! میں تو اسمبلی سے لے کر بازار تک دفتر سے لے کر کارخانے تک‘ کھیت سے لے کر گھر تک ہر جگہ ہر وقت جھوٹ بولتا ہوں۔ میں باپ ہوں تو اولاد سے ‘ اولاد ہوں تو ماں باپ سے، ملازم ہوں تو مالک سے‘ مالک ہوں تو ملازم سے، استاد ہوں تو شاگرد سے‘ شاگرد ہوں تو استاد سے‘ رعایا ہوں تو حاکم سے اور حاکم ہوں تو رعایا سے جھوٹ بولتا ہوں۔ شے بیچتے وقت ٹیکس دیتے وقت ‘ فائل پر لکھتے وقت۔ اسمبلی میں بیان دیتے وقت۔ یہاں تک کہ عدالت میں گواہی دیتے وقت‘ جھوٹ بولتا ہوں پھر بے شرمی سے جھوٹ کا جواز تراشتا ہوں۔ کبھی کہتا ہوں فلاں تقریر تو سیاسی تھی کبھی کہتا ہوں وعدہ قرآن حدیث تو نہیں! وعدہ وفا کرنے کا میرے پاس تصور ہی نہیں! تاجر ہوں یا عام شہری، ڈاکٹر ہوں یا وکیل‘ وزیر ہوں یا سفیر وعدہ خلافی کی چکی رات دن چلتی ہے۔ مقررہ وقت پر پہنچنا سٹیٹس کے خلاف ہے! سائل گھنٹوں پہروں کھڑا رہتا ہے‘ اس سے کیا ہوا وعدہ خال خال ہی پورا ہوتا ہے۔
رہی امانت! تو اقتدار سے لے کر مال تک ہر شے میں خیانت کرتا ہوں ارشاد تو یہ ہے کہ ’’امانتیں حقداروں کو پہنچائو‘‘ مگر میں ملازمت اسے دیتا ہوں جو اس کا اہل نہیں ترقی اس کی کرتا ہوں جو نااہل ہے۔!سینٹ اور اسمبلی کی نشستیں اہل خواتین کے بجائے اپنے حواریوں کی بہنوں بیٹیوں اور بیگمات کو سونپتا ہوں۔ زبان سے مدینہ کی ریاست کا بتاتا ہوں! عمل سے دوست نوازی کرتا ہوں!
فرمان یہ تھا کہ عورتوں کا خیال رکھو۔ میں انہیں انسان ہی نہیں سمجھتا! بیٹی کو وارثت میں سے حصہ دیناہو تو وہ حصہ میرے گلے میں پھنس جاتا ہے۔ میں نے دستار اور عبا پہنی ہو یا تھری پیس فرنگی سوٹ‘ بیٹی کو اس کا حق دیتے وقت موت پڑ جاتی ہے۔یہاں تک کہ اس کی شادی بھی اس کی مرضی کے صریحاً خلاف کرتا ہوں۔ بیوی کو خادمہ گردانتا ہوں! آپ ؐ اپنے کپڑے بھی دھو لیتے تھے۔ جوتا بھی گانٹھ لیتے تھے۔ گھر کے کام بھی کر دیتے تھے۔ میں گھر کا کام کرنا مردانگی کے خلاف سمجھتا ہوں۔ عورت کے ساتھ برابری کا سلوک کرنا میرے لیے ناقابل تصور ہے۔ یہاں تک کہ مذہبی جماعت کا سربراہ ہو کر میں علی الاعلان کہتا ہوں کہ عورت کی آبروریزی ہوئی ہے تو وہ خاموش ہو کر بیٹھ جائے۔
میں جالیوں کے سامنے کھڑا ہوں! نظریں نیچے گڑی ہیں! مطہر جسم کھجور کی چٹائی پر استراحت فرماتا تھا تو اس پر چٹائی کے نشان پڑ جاتے تھے۔ میں اعلیٰ سے اعلیٰ بیڈ پر نرم سے نرم‘ دبیز سے دبیز بچھونا بچھاتا ہوں۔ آپؐ عموماًفاقے سے رہتے تھے۔ میں پو پھٹے سے نصف شب تک مسلسل کھاتا ہوں۔ آپؐ جو کچھ پاس ہوتا خیرات میں بانٹ دیتے، میں پیسہ پیسہ سینت کر رکھتا ہوں۔ پڑوسیوں کی خبر ہے نہ اہل محلہ کی۔ یہاں تک کہ اپنے نوکروں کی ضروریات سے بے نیاز ہوں۔ آپؐ نے فرمایا تھا غلاموں کو وہی کچھ کھانے کو اور پہننے کو دو جو خود کھاتے اور پہنتے ہو۔میں ملازموں کو بچا کھچا کھلاتا ہوں اور پہننے کے لیے اترن دیتا ہوں۔ آپ دوسروں کو ہمیشہ مسکرا کر ملتے تھے‘ میں گردن اکڑا کر اور چہرے پررعونت کا بدبودار غازہ مل کر ملتا ہوں۔ آپؐ کو عجز و انکسار پسند تھا۔ مجھے تکبر بھاتا ہے، آپؐ سادگی پسند تھے۔ میں تصنع کا غلام ہوں۔ آپؐ کا دل بڑا تھا۔ میرا دل تنگ ہے! آپ ؐمعاف فرماتے تھے، میں بدلہ لینے پر یقین رکھتا ہوں!
بدو مسجد نبوی کے صحن میں پیشاب کر دیتا ہے لوگ اسے مارنے کے لیے دوڑتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا رک جائو! اسے کرنے دو۔ آج میرے سامنے کوئی ایسا کرے تو اس کے پرخچے اڑا دوں! آپؐ کو گوہ کا گوشت پسند نہ تھا۔ نہیں تناول فرمایا مگر آپ کے سامنے آپ کے صحابہ نے کھایا۔میں وہاں ہوتا تو کھانے والوں پر توہین کا الزام لگاتا۔ آپؐ کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اور غرض کیا کہ میں اپنے شوہر سے علیحدگی چاہتا ہوں۔ آپؐ نے وجہ پوچھی تو کہا مجھے پسند نہیں! آپؐ نے کوئی جرح نہیں فرمائی کہ کیوں نہیں پسند؟میں عورت کو یہ حق دینے کو تیار نہیں۔ میں تو اسے ہندو دھرم کا اصول سکھاتا ہوں کہ اب اس گھر سے تمہاری میت ہی نکلے تو نکلے۔ آپؐ نے منافق کا بھی جنازہ اس امید پر پڑھایا کہ کیا خبر پروردگار بخش دے۔ میں ہر اس شخص کو جہنم کا حقدار قرار دیتا ہوں جو میرے مسلک سے سرِ مو بھی انحراف کر رہا ہو! آپؐ مریضوں کی عیادت فرماتے تھے میرا معیار یہ ہے کہ مریض صحت مند ہو کر میرے کام آ سکتا ہے یا نہیں! آپؐ بچوں کے لیے سراہا شفقت اور محبت تھے میں بچوں کے لیے غیض و غضب کی علامت ہوں!
کس منہ سے مقدس جالیوں کو دیکھوں! شرم سے زمین میں گڑا جا رہا تھا اچانک شُرطے کی کڑ کڑاتی آواز کوڑے کی طرح سر پر پڑی۔ یہاں سے ہٹو۔ آگے بڑھو! یوں لگا جیسے شرطے نے میرے اندر کا حال جان لیا ہے اسے معلوم ہے میں یہاں کھڑا ہونے کے قابل نہیں۔ باہر نکلا تھوڑی دور جا کر پلٹ کر دیکھا سبز گنبد سامنے تھا، آسمان اور زمین کے درمیان ایک ابدی نشان! ایسا نشان جس کے گرد وقت گھومتا ہے! جس کے سامنے زمانے دست بستہ کھڑے ہیں۔ یہاں فرشتے چوبدار ہیں اور جن و انس زائر! عورتیں اور مرد مسجد کے وسیع و عریض صحن پر جس اطمینان ‘ جس اپنائیت جس مان کے ساتھ چل پھر رہے تھے‘ لگتا تھا ازل سے ان کا گھر یہی ہے ابد تک یہ گھر ان کے لیے پناہ گاہ رہے گا۔ ستونوں پر چھتریاں کھلی تھیں مدینتہ النبی کا آسمان روشن اور صاف تھا۔ گرد کا درمیان میں کوئی ذرہ نہ تھا۔
میں کتنا بدقسمت ہوں، دنیا کی آلودگیوں اور علائق کی آلائشوں میں دوبارہ الجھ جانے کے لئے واپس جا رہا ہوں! اس التجا کے ساتھ کہ مجھے پھر بلا لیجیے! آقا! پھر بلا لیجیے۔
    
Muhammad Izhar ul Haq
www.izharulhaq.net
No comments:
Post a Comment