Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, November 17, 2018

زیارت حرمین۔چند مشاہدات


فیس بُک پر اپنے حج اور عمرے کا اعلان کرنے والوں کو تو آپ اَن فرینڈ یا بلاک کر سکتے ہیں مگر اُن کا کیا کریں گے جو احرام باندھ کر ‘ کعبہ کے گرد‘ طواف کے دوران سیلفیاں لیتے ہیں؟ 

عجیب ہوا چلی ہے۔ عام طواف کی نسبت عمرے کا طواف ایک نازک عبادت ہے۔ لاکھوں روپے خرچ کر کے جانا‘ جسمانی مشقت برداشت کرنا اور پھر طواف کے دوران دعا مانگنے‘ تسبیح و تہلیل کرنے یا درود پاک پڑھنے کے بجائے سیلفیاں لینا ایک ناقابل فہم سرگرمی ہے۔ اس میں حسب توفیق پاکستانی اور غیر پاکستانی سب شامل ہیں۔ ہم کوئی فتویٰ نہیں لگا رہے نہ یہ ہمارا منصب ہے نہ اس کا شوق۔ مگر اتنا ضرور عرض کریں گے کہ یہ ایسے ہی ہے جیسے فصل بو کر‘ کاٹنے کا وقت آئے تو سونڈی کے حوالے کر دی جائے۔ سُوت کات کر کپڑا بُنا جائے اور لباس تیار کرتے وقت کپڑے کو تار تار کر دیا جائے! 

حرمین شریفین میں سب سے زیادہ تعداد میں زائرین انڈونیشیا اور ملائشیا کے نظر آتے ہیں یہ منظم ترین اور تربیت یافتہ زائر تھے۔ہر گروہ کی خواتین یونیفارم کی طرح یکساں لباس میں تھیں یہ اس لیے کہ کوئی خاتون اپنے گروپ سے الگ ہو جائے تو دور ہی سے اسے گروپ کے ارکان نظر آ جائیں۔ مشرق بعید کے زائرین ہوٹلوں میں اپنے کھانے کا انتظام بھی ہوٹل انتظامیہ کی وساطت سے اجتماعی کرا لیتے ہیں۔ 

غیر منظم زائرین بہت ملکوں سے ہیں۔ پاکستانی‘ بھارتی‘ افغان اور بنگلہ دیشی ان میں سرفہرست ہیں! ان کی شناخت آسان ہے۔مخصوص لباس‘ زیادہ تر کثیف! اکثریت نہیں تو اچھی خاصی تعداد ناخواندہ مردوں اور عورتوں کی! اندرون مسجد کے بجائے یہ لوگ نمازیں زیادہ تر باہر کے پختہ فرش پر ادا کرتے ہیں۔ کچھ تو مناسک ہی سے بے خبر ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ بنیادی باتوں سے بھی لاعلم! مضحکہ خیز مناظر بھی نظر آ جاتے ہیں۔ عصر کی نماز با جماعت کا انتظار تھا۔ سب صفیں باندھ کر بیٹھے تھے۔ اچانک ایک عورت ظاہر ہوئی ٹھیٹھ پنجابی میں کہنے لگی کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے۔ اب باہر جانا ہے۔ اسے سمجھایا گیا کہ ابھی تو نماز ہوئی ہی نہیں۔ اس پر وہ عورتوں کے حصے کی جانب پلٹ گئی۔ 

مکہ مکرمہ میں حرم پاک کے احاطے کو چاروں طرف سے فلک بوس ‘ ہائی رائز‘ عمارتوں نے محصور کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ کثیر المنزلہ پلازے ہیں۔ ٹاور ‘ فائیو سٹار اور سیون سٹار ہوٹل!! انہیں دیکھ کر اتنی خوشی نہیں ہوتی جتنا قلق ہوتا ہے۔ حرم کے بالکل ساتھ یہ انتہائی مہنگے کمرے اور اپارٹمنٹس امرا ہی کے دائرہ استطاعت میں آتے ہیں۔ رہے عام زائرین تو ان کی اقامت گاہیں پیچھے دھکیل دی گئی ہیں۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ عام زائرین کے لیے سستے ہوٹل اور رہائش گاہیں حرم کے قریب تعمیر کی جاتیں۔ فائیو سٹار ہوٹل اور پلازے دور بنائے جاتے۔ امرا دور سے گاڑیوں پر آ سکتے ہیں جب کہ عام لوگ ہر نماز کے لیے میلوں پیدل چلنے پر مجبور ہیں۔ 

یہ حقیقت بھی خاص و عام سب کے علم میں ہے کہ ملوکیت نے مسجد کی حدود کے اندر فلک بوس محلات بنا لیے ہیں تاکہ جماعت کے ساتھ وہیں نماز ادا کر لیں۔ طواف کے دوران گزشتہ ہفتے عجیب منظر دیکھا۔ اچانک بہت سے پولیس کے سپاہی نظر پڑے ۔انہوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ کر ایک حصار بنایا ہوا تھا ۔ ہٹو بچو کی آوازوں کے درمیان‘ اس حصار میں کوئی بڑی شخصیت طواف کر رہی تھی۔
اہل اقتدار یہ بنیادی حقیقت کبھی نہیں سمجھتے کہ پروٹوکول‘ وہ بھی عبادت میں ایک کار لاحاصل ہے۔ موت کے بعد حساب کتاب کی منزل تن تنہا سر کرنی ہو گی۔ وہاں پروٹوکول ملے گا نہ ترجیحی سلوک!! ان حضرات کو چاہیے کہ کم از کم عبادت کے لئے عام مسلمانوں کی طرح آئیں اور عام مسلمانوں کے ساتھ عبادت کریں! پروٹوکول کے لیے ایک اور بھی دن ہے جب ’’ذُق اِنک انتَ العزیزُ الکریم!!‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جائے گا!! یعنی چکھ! بڑا ہی عزت والا اور زبردست ہے تو! 

مسلمان بزنس کرتے ہیں تو عجیب بددلی اور بیزاری سے! اوجِ کمال تک پہنچنا شاید ان کا نصب العین ہی نہیں ہوتا۔ مارکیٹنگ پر زور نہ تشہیر پر پوری توجہ! آج تک کسی مسلمان ملک کا کوئی برانڈ کسی شعبے میں بھی بین الاقوامی منڈی کو تسخیر نہیں کر سکا۔ سعودی عرب کی معروف فاسٹ فوڈ چین’’البیک‘‘ اس کی نمایاں مثال ہے۔ کھانا اس کا پسند کیا جاتا ہے مگر فروخت کے مراکز گویا منصوبہ بندی کر کے کونوں کھدروں میں بنائے گئے ہیں جنہیں زائرین ڈھونڈتے ہی رہ جاتے ہیں! مکہ مکرمہ کی معروف شاہراہ ابراہیم خلیل پر البیک کہیں نہیں نظر آتا۔ نہ ہی کلاک ٹاور اور بن دائود پلازا کے نزدیک! کہیں کوئی رہنمائی یا تشہیر کرنے والا بورڈ نہیں! یہی حال مدینہ منورہ میں ہے۔ تلاش شروع کی تو ایک دور افتادہ مارکیٹ کے دور افتادہ گوشے میں ملا۔ اس کے برعکس مغربی فاسٹ فوڈ کا کاروبار دیکھیے۔ میکڈونلڈ کا ’’ایم‘‘ میلوں دور‘ ہوا میں نصب نظر آ جاتا ہے۔ سفید فاموں کے فاسٹ فوڈ اور مشروبات پوری دنیا پر چھا گئے ہیں۔ آخر سوچنے کی بات ہے کہ البیک کی شاخیں دوسرے ملکوں میں کیوں نہیں قائم کی گئیں؟ ایران نے ’’زم زم‘‘ کے نام سے کولڈ ڈرنک نکالا۔ 2002ء میں سعودی عرب نے اس کا بائی کاٹ کر دیا۔ اسی سال ایک مسلمان کاروباری شخص نے فرانس سے ’’مکہ کولا‘‘ لانچ کیا مگر آج تک اسے شہرت نہیں نصیب ہوئی۔ برطانیہ میں دو مسلمان بہنوں نے ’’قبلہ کولا‘‘ نکالا۔ کیا آپ نے کبھی مکہ کولا یا قبلہ کولا کا نام سنا ہے؟ ان میں اتنی عقل نہیں کہ مذہب کو کاروبار سے وابستہ نہ کریں اور ایسے نام نہ رکھیں جن سے کسی خاص مذہب کا نام یا نشان واضح ہو۔ کیا کوکا کولا اور دوسرے مشروبات نے مذہبی حوالے استعمال کئے؟ اکثر و بیشتر یہ رونا بھی رویا جاتا ہے کہ میڈیا کے میدان میں مسلمانوں نے کوئی بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی نہیں قائم کی! لے دے کے ایک ’’الجزیرہ‘‘ ہے جس کی جڑیں مسلم شرق اوسط میں ہیں!

مدینہ منورہ کی خریداری میں سرفہرست کھجوریں ہیں۔ منظم مارکیٹنگ نہ ہونے کی وجہ سے زائرین کو معلوم نہیں ہو پاتا کہ وہ منڈی کہاں ہے جہاں تمام اقسام دستیاب ہوں۔ اب روایتی کُھلی منڈی جانا ضروری نہیں۔حرم (مسجد نبوی) کے جنوب مغربی کونے میں جہاں بیرونی گیٹ نمبر چھ اور گیٹ نمبر سات واقع ہیں‘ منڈی بالکل سامنے ہے اور گیٹ نمبر چھ سے بمشکل دو منٹ کے پیدل فاصلے پر ہے۔ یہ منڈی روایتی کھلی منڈی نہیں یعنی کسی میدان میں نہیں۔ یہ عمارتی بلاک ہیں، ہر بلاک میں متعدد دکانیں ہیں۔ اکثر سیلز مین پاکستانی ہیں۔ یہاں تمام اقسام کی کھجور تھوک کے حساب سے مہیا ہیں۔ اس کا مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اس خریداری پر زیادہ وقت نہیں لگانا پڑتا۔ 

یوں بھی مدینہ منورہ میں ترجیح خریداری کی نہیں ہونی چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ وقت حرم میں گزارنا چاہیے۔ روضہ مبارک پر زیادہ سے زیادہ حاضریاں ہوں! ریاض الجنہ میں نوافل ادا کرنے کے مواقع ملیں اور سبزگنبد کی دید سے نظروں کو منور کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جائے! پاکستان میں ہر شے دستیاب ہے۔ دیارِ حبیبؐ میں اولین ترجیح ذکرِ حبیبؐ ہی ہو تو مقدر کے سنورنے کی امید کی جا سکتی ہے! 

ہاں ’’پیشہ ور‘‘ زائرین کی اور بات ہے!! مباح امور کی ادائیگی میں توازن لازم ہے! تجارتی اور مالی سرگرمیاں وہاں حاوی ہو جائیں تو ہوس کی طنابیں کھینچ لینی چاہئیں!!

   


Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com