آپ اس طبقے کی طاقت اور دیدہ دلیری کا اندازہ لگائیے ۔کھرب پتی وفاقی وزیر کو وسیع و عریض فارم حاصل کر کے بھی چین نہ آیا۔ چنانچہ انہوں نے ساتھ پڑی ہوئی سرکاری زمین پر قبضہ کر لیا۔ پریس کا کہنا ہے کہ یہ قبضہ کئی کنال پر مشتمل ہے۔ جبکہ وزیر صاحب نے صرف پانچ یا چھ کنال پر قبضے کا اعتراف کیا ہے‘ غیر قانونی باڑ بھی لگائی۔
اب وہ مضحکہ خیز منطق ملاحظہ کیجئے جو اس طبقے کا خاصہ ہے۔ فرماتے ہیں ’’میں پہلے ہی سی ڈی اے سے درخواست کر چکا ہوں کہ میرے فارم ہائوس سے ملحقہ زمین مجھے دے دی جائے۔‘‘ سی ڈی اے نے یہ درخواست منظور نہ کی۔ دوسرے لفظوں میں گستاخ ادارے نے طبقۂ بالا کے اس ممتاز رکن کے حکم کی تعمیل نہ کی۔ چنانچہ بڑے آدمی نے خود ہی آگے بڑھ کر اس زمین پر قبضہ کر لیا۔ غیر قانونی باڑ بھی لگا لی‘ عقب کی طرف دروازہ بھی رکھ لیا۔
اب اس نحوست کا دوسرا پہلو دیکھیے۔ سی ڈی اے کے پاس پورا محکمہ ہے جو قوانین کے نفاذ (انفورسمنٹ) کے لیے ہمہ وقت ہاتھوں میں کدال اٹھائے پھرتا ہے مگر یہاں چونکہ قبضہ بااثر فرد نے کیا تھا اس لیے ترقیاتی ادارے نے قبضہ واپس تو کیا لینا تھا‘ بااثر فرد کے سامنے سیدھا رکوع میں چلا گیا۔ ہماری ریاست کے اکثر و بیشتر ادارے بڑے آدمیوں کی قانون شکنی دیکھ کر ان کے سامنے رکوع میں چلے جاتے ہیں۔ پھر سجدے میں! ترقیاتی ادارے سے کسی سر پھرے نے پوچھا کہ ناروا قبضے پر کیا کارروائی کی؟ ترجمان نے جواب دیا کہ پڑوسیوں کی طرف سے درخواست آئے تب ایکشن لیتے ہیں! کسی نے درخواست ہی نہیں دی! سبحان اللہ! کیا جواز ہے ایکشن نہ لینے کا!!
اب اس ملک پر چھائی ہوئی تیسری نحوست پر غور کیجیے۔ اس شاہانہ فارم کی بغل میں باجوڑ سے آئی ہوئی ایک غریب فیملی رہتی ہے۔ قبضہ مبینہ طور پر اس کا بھی زمین پر ناجائز ہے۔ خبروں میں دلچسپی لینے والے قارئین کو یاد ہو گا کہ جب وفاقی وزیر نے اس فیملی کے ارکان کو پکڑوایا تو باجوڑ سے آئے ہوئے متعدد افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ پھر پریس کانفرنس منعقد کی! غور کرنے کی بات یہ ہے کہ وزیرستان سے باجوڑ سے‘ مہمند سے اور دوسرے قبائلی علاقوں سے لوگ نقل مکانی کر کے اسلام آباد‘ لاہور‘ پشاور‘ ملتان‘ فیصل آباد اور دوسرے شہروں میں کیوں آن بستے ہیں! کیا اپنا آبائی علاقہ کوئی شوق سے چھوڑتا ہے؟ مگر جس علاقے میں زمین پتھریلی ہو‘ کارخانے ناپید ہوں‘ سکول کالج عنقا ہوں‘ ہسپتال نام کے بھی نہ ہوں۔ کوئی اقتصادی سرگرمی ہی نہ ہو‘ وہاں سے لوگ نقل مکانی نہ کریں تو کہاں جائیں؟
ستر برس سے یہ نحوست پاکستان کے قبائلی علاقوں پر چھائی ہوئی ہے۔ ریاست کی مکمل بے نیازی کی نحوست ! حکومتوں کے سوتیلے سلوک کی نحوست! یہ کہنا تو آسان ہے کہ قبائلی نوجوانوں نے بندوق کیوں پکڑ لی؟ یہاں کیوں آن بسے؟ وہاں کیوں ڈیرے ڈال دیے؟ مگر اس سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا کہ ان لوگوں کو غیر تعلیم یافتہ رکھا گیا۔ بے روزگار رکھا گیا۔ ان پر پولیٹیکل ایجنٹ اسی طرح حکومت کرتا رہا جیسے فرنگی عہد میں کرتا تھا۔ فرق صرف یہ پڑا کہ پہلے پولیٹیکل ایجنٹ رچرڈ یا لارنس ہوتا تھا اب عبدالکریم یا احمد خان ہے! انگریز پولیٹیکل ایجنٹ بھی چند ملکوں اور خوانین کو ملکی خزانے کی اُس مد سے بھاری رقوم دیتا تھا جس کا آڈٹ نہیں ہو سکتا تھا۔ پاکستانی پولیٹیکل ایجنٹ بھی ستر سال یہی کام کرتا رہا۔ وزیرستان میں‘ باجوڑ میں اور دوسرے قبائلی علاقوں میں‘ ان ستر برسوں کے دوران کتنی یونیورسٹیاں بنیں؟ کتنے کارخانے قائم ہوئے؟ کتنے ہسپتال بنائے گئے؟ ریاست جب روزگار کے مواقع بھی فراہم نہ کرے‘ علاج کا بندوبست بھی نہ ہو‘ تعلیمی ادارے بھی مفقود ہوں تو دو ہی راستے بچتے ہیں۔ لوگ بندوق اٹھا لیں اور کسی منگل باغ کسی بیت اللہ محسود کسی ملا فضل اللہ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ دوسروں کو مار کر اپنے اندر بھری ہوئی مایوسی اور غصے کو ٹھنڈا کریں اور ’’مال غنیمت‘‘ سے غربت کا بھی علاج کریں‘ یا قبائلی علاقوں کی سنگلاخ پہاڑیوں کو الوداع کہہ کر پشاور‘ اسلام آباد‘ راولپنڈی‘ ملتان اور لاہور کے نخلستانوں میں ڈیرے ڈال دیں۔
یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ناجائز قبضہ کرنے والے شخص کو اس لیے چھوڑ دیا جائے کہ وہ بااثر ہے۔ اور دوسری طرف ایک پورے خاندان کو پکڑ کر حوالات میں بند کر دیا جائے کہ ان کی گائے باغ میں آ گھسی تھی۔ بااثر ‘ کھرب پتی شخص جو سینیٹر کے منصب پر فائز ہوتا ہے‘ کبھی وزارت کی مسند پر متمکن ہوتا ہے۔ یہ بھی تو کر سکتا تھا کہ اس غریب خاندان کو جو اس کے فارم کے عقب میں رہتا ہے۔ اپنی سرپرستی میں لے لیتا۔ اس کے بچوں کو تعلیم دلواتا‘ ان کی مالی اور اخلاقی مدد کرتا۔ خاندان اقتصادی اور تعلیمی ترقی بھی کر جاتا اور بااثر شخص سے محبت بھی کرتا۔ پختون محبت کا جواب وفاداری سے دیتا ہے اور بدسلوکی کا جواب دشمنی سے!
حیرت اس پر ہے کہ بلوچستان کے قبائلی ہجرت کر کے شہروں میں کیوں نہیں آ رہے؟ آج نہیں تو کل وہاں سے بھی محروموں کی ایک لہر اٹھے گی اور کیا پتہ مراعات سے بھرے شہروں سے کیا سلوک کرے؟ بگتی ‘ مری‘ رئیسانی اور دوسرے قبائلی سردار عوام سے جو سلوک کر رہے ہیں اور کرتے آئے ہیں‘ آج کی مہذب دنیا میں اس کا تصور بھی ناممکن ہے!اپنے قبیلے کے کسی فرد کی تعلیمی ترقی ان سے برداشت ہوتی ہے نہ معاشرتی اٹھان! سکولوں کالجوں کی عمارتوں سے یہ کج کلاہ گوداموں کا کام لے رہے ہیں۔ عام قبائلی غلاموں سے بدتر زندگی گزار رہا ہے۔ غلام کے پھر بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں۔
بدترین ظلم یہ ہوا کہ ان قبائلیوں کے اندر ان سرداروں نے قبائلی تعصب کوٹ کوٹ کر بھر دیا ہے۔ انگاروں پر چلا کر جھوٹ اور سچ کی تمیز کرنے والے غیر انسانی عمل کو یہ قبائلی اپنی ’’روایت‘‘سمجھ کر اس کا باقاعدہ دفاع کرتے ہیں! ایک مائنڈ سیٹ بنا دیا گیا ہے جو اقتصادی اور سماجی ترقی سے زیادہ’’بلوچ پرستی‘‘ پر یقین رکھتا ہے!
مائنڈ سیٹ تعلیم کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے اور تعلیم کبھی ترجیح نہ بنی‘ قبائلی سرداروں کی‘ وزیرستان کے خوانین کی نہ ہمارے حکمرانوں کی!! آپ سروے کر کے دیکھ لیں! کاروں اور موٹر سائیکلوں پر لاٹھیاں برسانے والے لوگوں میں تعلیم یافتہ کتنے ہیں؟ یہ درست ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے ڈاکٹر وکیل اور پروفیسر بھی مارپیٹ پر اتر آتے ہیں مگر بہت حقیر تعداد میں! ہزاروں لاکھوں لوگ جو نفرت اور تباہی کا درس دینے والے مولویوں اور ذاکروں کے سامنے بیٹھ کر نعرے لگاتے پھرتے ہیں‘ ان کی اکثریت ناخواندہ ہے یا نیم تعلیم یافتہ!! مولانا فضل الرحمن ہوں یا زرداری صاحب یا شریف برادران‘ سب کو یہ ناخواندہ اور نیم تعلیم یافتہ عوام راس آتے ہیں اس لیے کہ یہ چند قیمہ بھرے پراٹھوں اور بس کی مفت سواری کی مار ہیں! آپ کا کیا خیال ہے کوئی تعلیم یافتہ شخص’’میاں دے نعرے وجّن گے‘‘جیسا اُبکائی لانے والا درشت غیر مہذب نعرہ لگا سکتا ہے! یا گلو بٹ کی طرح گاڑیوں پر ڈنڈے برسا سکتا ہے؟
ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم نے اعظم سواتیوں کے فارموں اور خانوادوں کی خاطر پولیس کے آئی جی کی ٹرانسفریں کرنا ہیں یا باجوڑ کے غریب خاندانوں کو تعلیم دلوانی ہے! چوائس ہمارا اپنا ہے! نتائج بھی ہم ہی بھگتیں گے!!
   
Muhammad Izhar ul Haq
www.izharulhaq.net
No comments:
Post a Comment