Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Sunday, November 18, 2018

کہ ہم یہ سلسلہ اب ختم کرنا چاہتے ہیں


انوریؔ بارہویں صدی عیسوی کے اوائل میں موجودہ ترکمانستان میں پیدا ہوا۔ مشکل پسند شاعر تھا۔ قصائد معرکے کے لکھے۔ ایک بہت معروف قطعہ ہے جو انوری کے مقام کی نشاندہی کرتا ہے: 

در شعر سہ کسی پیمبرانند 
ہر چند کہ ’’لانبیّ بعدی‘‘ 
ابیات و قصیدہ و غزل را 
فردوسی و انوری و سعدی 

یعنی یہ درست ہے کہ اب کسی نبی نے نہیں آنا مگر یہ تین اشخاص شعر کی دنیا کے پیغمبر ہیں۔ اشعار (یعنی مثنوی) میں فردوسی‘ قصیدہ گوئی میں انوری اور غزل میں سعدی !

اگر یادداشت غلطی نہیں کر رہی تو یہ مشہور عالم فقرہ۔ ’’شعرِ مرا بہ مدرسہ کہ بُرد’’بھی انوری ہی کا ہے۔ اس کی شاعری اہل مدرسہ تک پہنچی تو انہوں نے خوب بال کی کھال اتاری‘ پوسٹ مارٹم کیا۔ کیا خبر فتویٰ بھی لگا دیا ہو۔ انوری کو معلوم ہوا تو برافروختہ ہو کر پوچھا۔ آخر میرے اشعار کو مدرسہ تک لے کر کون گیا۔ چند دن پہلے کچھ دوستوں نے ایک نوجوان دستار پوش مولوی صاحب کا ویڈیو کلپ بھیجا۔ یہ صاحب اختلافی مسائل خوب خوب اچھال رہے ہیں۔ اقبال کے اس شعر میں اپنی دانست میں ’’غلطیاں‘‘ نکال رہے تھے: 

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق 
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی 

علم و فضل میں ’’کمال‘‘ کا یہ حال تھا کہ محوِ تماشائے لبِ بام کو ’’محوِ تماشا۔ لبِ بام‘‘ پڑھ رہے تھے۔اقبال کی زندگی میں تو ان پر ملاّئیت نے خوب خوب فتوے پھینکے مگر لگتا ہے شاعرِ مشرق کی ابھی تک جان نہیں چھوٹی۔ 

انوری کی بات ہو رہی تھی۔ وفات اس کی بلخ میں ہوئی جو اب افغانستان میں ہے اور تب خراسان کہلاتا تھا۔ ایک بار انوری نے دیکھا کہ شہر کے چوک میں بہت سے لوگ جمع ہیں۔ نزدیک جا کر دیکھا تو ایک شاعر‘ اشعار سنا رہا تھا۔ انوری نے اشعار سُنے تو معلوم ہوا یہ تو اُس کے (یعنی انوری) کے اشعار ہیں۔ وہ سنانے والے کے پاس گیا اور پوچھا یہ کس کی شاعری ہے۔ اس نے جواب دیا انوری کی۔ انوری نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ تو اس نے کہا میں انوری ہی تو ہوں۔ اس پر انوری نے بے اختیار کہا کہ شاعری تو چوری ہوتی ہی آئی ہے۔ اب شاعر خود بھی چرایا جانے لگا ہے! 

پاکستان میں بہت کچھ چرایا جاتا رہا۔ اب بھی چرایا جا رہا ہے۔ دولت بھی‘ تعیناتیاں بھی۔ ترقیاں بھی یہاں تک کہ انتخابات بھی: یوں بھی ہوتا ہے کہ آزادی چرا لیتے ہیں لوگ قیس کے محمل سے لیلیٰ کو اٹھا لیتے ہیں لوگ مگر اب کے بار چوری کی ایک نئی قسم دریافت ہوئی۔ اسمبلی کی پوری نشست چوری کر لی گئی! بلوچستان اسمبلی کی ایک نشست پر الیکشن کمیشن نے دوبارہ انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے کیوں کہ جو صاحب جیتے تھے وہ پاکستانی نہیں تھے۔ وہ غیر ملکی نکلے!! ہنسا جائے یا رویا جائے؟ یہی وہ ملک ہے جہاں ’’نادرہ‘‘ جیسے حساس محکمے میں بھی غیر ملکی باقاعدہ ملازمت کرتے ہوئے پائے گئے۔ نہ جانے اب بھی’’خدمات‘‘ سرانجام دے رہے ہیں یانکال دئے گئے! 

آج کل زرد فام غیر ملکیوں کی وطن عزیز میں بہتات ہے! کچھ عرصہ ہوا ایک کالم بعنوان’’2040ء میں لکھا گیا ایک کالم‘‘ تحریر کیا۔ یہ وائرل ہوا۔ اس میں یہی رونا رویا تھا۔ کہ خدا نخواستہ ایسا نہ ہو کہ کچھ عشروں بعد ہمارے حاکم‘ والی اور اسمبلی کے ممبران تک زرد فام ہوں۔ ہم اپنے ہی گھر میں محکوم ہو جائیں! 

تاریخ کسی کی رشتہ دار نہیں! کیا ہم آج تک محمد تغلق کے کھاتے میں دہلی کی تباہی نہیں ڈال رہے؟ دارالحکومت وہ جنوبی ہند میں لے گیا۔ دہلی کی آبادی کو بزور نکالا۔ کچھ جاتے ہوئے مر گئے۔ کچھ عرصہ بعد واپسی کا فرمان جاری کیا۔ بہت سے واپس آتے ہوئے سفر کی اذیتوں کی نذر ہو گئے۔ تاریخ آئینہ ہے۔ جو چہرہ سامنے ہو گا وہی نظر آئے گا۔ اگر چہرہ بھدا ہے اور زخم خوردہ بھی! تو سلامت کیسے دکھائی دے؟ جنرل ضیاء الحق کے بارے میں بات کی جائے تو کچھ محبان گرامی کو قلق ہوتا ہے مگر سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ نہیں کہا جا سکتا۔ ’’جہاد‘‘ تک تو مان لیتے ہیں کہ جنرل صاحب مرحوم کا موقف درست تھا۔ یہ اور بات کہ اس جنگ کو جہاد کہنا قدرے مشکل ہے۔ کم از کم حقائق یہی بتاتے ہیں۔ مگر اس پالیسی کی حمایت کیسے کی جا سکتی ہے جو انہوں نے افغان مہاجرین کے ضمن میں بنائی اور پھر نافذ کی۔ لاکھوں غیر ملکی آئے اور ملک کے طول و عرض میں پھیل گئے۔ ان پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ پشاور سے لے کر کراچی تک کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ کاروبار پر چھا گئے۔ شاہراہیں ان کی مال بردار گاڑیوں سے بھر گئیں بازاروں میں وہ دکانیں ڈال کر بیٹھ گئے۔ خیبر پختون خواہ میں مقامی لوگوں کو مزدوری ملنا بند ہو گئی۔ مکانوں کے کرائے آسمان پر پہنچ گئے۔ کیا ایسا بھی کہیں ہوتا ہے؟ ملک کی سرحدیں مقدس ہوتی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق اور ان کے مذہبی اور عسکری ساتھیوں نے ملکی سرحد کو ملیا میٹ کر دیا۔ لاکھوں لوگ روزانہ دستاویزات کے بغیر آتے اور جاتے۔ کون سا پاسپورٹ اور کہاں کا ویزا! 

پھر افغان ہی نہیں پوری دنیا سے لوگ‘ ہتھیاروں سمیت آئے اور پاکستان میں مقیم ہو گئے۔پھر انہوں نے مقامی عورتوں سے شادیاں کر لیں۔ نسلوں کی نسلیں یہاں پروان چڑھیں۔ مگر پاکستان سے وفاداری خون میں شامل نہ ہو سکی۔ گندم پاکستان کی۔ پانی پاکستان کا‘ دھوپ چاندنی ہوا اور بارش سب کچھ پاکستان کا۔ مگر ان احسان فراموشوں نے پاکستانیوں ہی کو شہید کیا۔ یہ ہر اُس طاقت کے آلۂ کار بنے جو پاکستان کی مخالف تھی۔ ان کے گڑھ ‘ خودکش جیکٹوں کے گودام بن گئے۔ پاکستان کے بازاروں مزاروں مسجدوں اور سکولوں کو ان لوگوں نے بموں سے تباہ و برباد کیا۔ بے گناہ پاکستانی موت کے گھاٹ اتارے۔ یہاں تک کہ جب پانی سر سے گزر گیا تو پاکستانی فوج کو مداخلت کرنا پڑی اور سرحدی علاقوں سے ان کے مراکز کو ختم کرنا پڑا۔ 

ہو سکتا ہے جدید تاریخ میں ایسا واقعہ کسی اور ملک میں نہ پیش آیا ہو کہ ایک غیر ملکی اسمبلی کا ممبر تک ہو گیا۔ یہ ہماری ناعاقبت اندیشی کی انتہا ہے۔ ہم غیر ملکیوں کے سامنے بچھ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے مفادات کو بھی قربان کر دیتے ہیں‘ یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے: ع

ہٹا لے جائیں سب دریوزہ گر کشکول اپنے 
کہ ہم یہ سلسلہ اب ختم کرنا چاہتے ہیں



Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com