Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, November 27, 2018

آٹھ لاکھ روپے کی چربی ……


دل دہل گیا۔ 

جانے کیا ایمرجنسی تھی! ابھی گائوں جانے کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ 

میں بھی انہی بدقسمت لوگوں میں سے ہوں جو گائوں واپس جا کر بسنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں مگر شہر ایک کمبل ہے جو چھوڑتا نہیں۔ ویسے فرق ہی کیا ہے‘ ایک طرف لاہور‘ کراچی‘ اسلام آباد اور دوسری طرف نیویارک‘ لندن‘ سڈنی جا کر بس جانے والوں میں۔ لاہور‘ کراچی‘ اسلام آباد والوں کی ساری زندگی اس منصوبہ بندی میں گزر جاتی ہے کہ بچے نوکریوں پر لگ جائیں تو واپس گائوں چلے جائیں گے۔ کھیتی باڑی کریں گے‘ حویلی کو پکا کریں گے‘ بچوں کو گندم اور سبزیاں بھجوایا کریں گے۔ نیویارک‘ لندن‘ سڈنی والے ارادے باندھتے رہتے ہیں کہ بس ریٹائر ہوتے ہی‘ بچوں کی شادیاں کرتے ہی واپس پاکستان چلے جائیں گے۔ دوست احباب اور اعزہ و اقارب کے درمیان رہیں گے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ! نہ لاہور‘ کراچی والے واپس گائوں آپاتے ہیں نہ لندن نیویارک والے پاکستان پلٹ سکتے ہیں‘ یہ کھیل تقدیر کا ہے۔ یہاں پلاننگ‘ منصوبہ بندی‘ ارادے سب ناکام رہتے ہیں‘ مختار صدیقی نے کہا تھا ؎ 

پیر‘ فقیر‘ اوراد‘ وظائف اس بارے میں عاجز ہیں 
ہجر و وصال کے باب میں اب تک حکم چلا ہے ستاروں کا 

گائوں پہنچا۔ شام ڈھل رہی تھی۔ ڈھور ڈنگر واپس آ رہے تھے۔ تنوروں سے دھواں اٹھتا‘ مرغولے بناتا‘ ہوا میں تحلیل ہورہا تھا۔ میں بھی حقیر سا زمیندار ہوں۔ دو تین کھیتوں کا مالک۔ نوجوان جو میرے کھیتوں کا انتظام و انصرام کرتا ہے‘ بے چینی سے منتظر تھا۔ ڈانٹتے ہوئے میں نے پوچھا۔ یار‘ ایسی کیا مصیبت پڑی تھی کہ تم نے فوراً آنے کے لیے کہا۔ پریشان حال نوجوان نے بتایا کہ بڑے والا یعنی بوڑھا دنبہ دو دن اور دو راتوں سے مسلسل ڈھاں ڈھاں کر رہا ہے۔ رخ دارالحکومت کی طرف کر کے پیر زمین پر زور زور سے مارتا ہے اور آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ 

شکاری کتے اور باز رکھنے والے بابے گامے کی روح کو خدا سکون بخشے‘ بچپن میں مجھے بھیڑ بکریوں کی بولی سکھا دی تھی۔ میں شروع سے ہی ان مخلوقات سے محو کلام رہتا تھا۔ دنبے نے مجھے دیکھتے ہی سر جھکا لیا اور گردن میرے کوٹ کے ساتھ رگڑنے لگ گیا۔ معانقہ ختم ہوا تو پوچھا۔ 

تم تو سب سے سینیئر دنبے ہو‘ بجائے اس کے کہ دوسروں کو صبر و رضا کی تلقین کرو‘ تم نے خود ہی ہنگامہ کھڑا کر رکھا ہے۔ 

بوڑھے‘ موٹے دنبے نے میری طرف دیکھا۔ جھیل سی گہری آنکھوں میں شکایت تھی۔ آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ میرے بھی‘ اس کے بھی۔ رہا نہ گیا‘ میں نے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ 

میری جان‘ بتائو‘ مسئلہ کیا ہے۔ 

دنبے نے زیر لب کہا۔ 

صاحب جی‘ پہلے اس نوجوان کو اندر بھیجئے جو آپ کی غیر حاضری میں میرے ساتھ کھردرا سلوک کرتا ہے۔ 

نوجوان کو اندر بھیج دیا۔ دنبہ کہنے لگا‘

یہ آپ میری بیس کلو کی چکی دیکھ رہے ہیں؟ چربی سے بھری ہوئی؟ 

ہاں‘ دیکھ رہا ہوں‘ یہی تو تمہارے حسن کا راز ہے۔ 

نہیں‘ صاحب جی‘ مجھے یہ حسن نہیں چاہیے۔ اس بوجھ کو اٹھا اٹھا کر تنگ آ گیا ہوں۔ بس آپ میرا آپریشن کرا دیجئے۔ چربی کے اس پہاڑ سے میری جان چھوٹے۔ 

یہ ایک مہنگی تجویز تھی‘ مگر بوڑھے دنبے کے ساتھ دیرینہ خاندانی تعلقات کا خیال آڑے آیا۔ اس کے دادا نے میرے دادا جان کے ساتھ بہت اچھا وقت گزارا تھا۔ اس کی سگی پھپو‘ تایا جان کے گھر ایک عرصہ رہی‘ انتقال ہوا تو اس کے بڈھے کالے گوشت کو احتراماً خوب خوب بھونا گیا۔ ہم خاندانی حوالے سے نبھانے والے لوگ ہیں۔ میں نے سوچا اب اسلام آباد لے جا کر ڈاکٹر کو دکھائوں تو سہی‘ دیکھوں کیا کہتا ہے۔ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر دنبے کو بٹھایا۔ دارالحکومت ایک پرائیویٹ کلینک پہنچے۔ لمبی قطار تھی۔ بڑے بڑے پیٹوں والے حضرات بیٹھے تھے۔ معلوم ہوا یہ سب چربی سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ کئی گھنٹے انتظار کرنے کے بعد باری آئی۔ ڈاکٹر نے دنبے کا تفصیلی معائنہ کیا۔ پھر دنبے کو باہر بھیج کر بتایا کہ آپریشن کرنا پڑے گا۔ اخراجات کا پوچھا تو آٹھ لاکھ کا تخمینہ بتایا۔ 

میں خاموش ہوگیا۔ ڈاکٹر سمجھ گیا۔ پوچھا‘ کیا اتنی استطاعت ہے؟ بلاتکلف عرض کیا کہ نہیں۔ ڈاکٹر نے پوچھا 

کیا اس دنبے کا ایوان بالا سے یعنی سینٹ سے کوئی تعلق ہے یا ماضی میں رہا ہے؟ 

مجھے یاد آیا کہ اس دنبے کا سگا چچا دنبوں کی سینٹ کا رکن رہا تھا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ سارے ایوان ہائے بالا‘ دنبوں کے ہوں یا انسانوں کے ہار کے موتیوں کی طرح ہیں اور ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ اس کے اخراجات کا بل وفاقی وزارت قومی صحت اپنے بجٹ سے ادا کردے گی۔ 

آپریشن کی تاریخ دو دن بعد کی رکھی گئی۔ آپریشن تھیٹر لے جایا جارہا تھا تو دنبے نے اپنی گردن کو میرے کوٹ کے ساتھ خوب رگڑا اور سرگوشی میں کہا

’’صاحب جی‘ دعا کرنا۔‘‘ 

تین گھنٹے لگے۔ میں بے تابی سے آپریشن تھیٹر کے باہر ٹہلتا رہا۔ بالآخر سٹریچر نمودار ہوا۔ چکی غائب ہو چکی تھی۔ دنبہ ہوش میں آیا تو خوش تھا۔ اس کی خواہش پوری ہو گئی تھی۔ 

اس کے بعد کی کہانی غیرخوشگوار ہے۔ ڈاکٹر نے آٹھ لاکھ روپے کا بل دیا۔ بل لے کر سینٹ کے دفتر پہنچا۔ انہوں نے ٹھپہ لگا کر وفاقی وزارت قومی صحت لے جانے کا کہا۔ وہاں پہنچا تو باہر سے جھگڑے کا شور سنائی دے رہا تھا۔ وفاقی سیکرٹری کی آواز باہر تک آ رہی تھی۔

“ہم یہ آٹھ لاکھ نہیں ادا کرسکتے۔ مولانا صاحب سینٹ کے معزز رکن ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ان کے جسم کی زائد چربی نکلوانے کے اخراجات ادا کریں۔ یہ کاسمیٹک سرجری ہے۔ یہ جان بچانے کے زمرے میں نہیں آتا۔ پھر یہ بھی ہے کہ سرکاری ہسپتال پمز میں اس سرجری کی سہولت موجود ہے۔ نجی کلینک میں آپریشن کرانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ “”

سیکرٹری کے معاون نے اپنے باس کو سمجھایا کہ مولانا صرف سینٹ کے رکن ہی نہیں‘ ایک اور مولانا کے بھائی بھی ہیں جو ان سے بھی بڑے مولانا ہیں۔ بہت بااثر ہیں اور فراست و سیاست کے لیے معروف ہیں مگر سیکرٹری کے ہاتھ قوانین نے باندھے ہوئے تھے۔ 

میں اپنے دنبے کا بل لے کر سیکرٹری صاحب کے سامنے پیش ہوا تو انہوں نے ہمدردی کا اظہار کیا مگر عذر ان کا معقول تھا کہ دنبے کا کیس جائز تو ہے مگر مولانا کا کیس پہلے نامنظور ہو چکا ہے‘ اب دنبے کے بل کی ادائیگی کی تو سینٹ میں تحریک استحقاق پیش ہو جائے گی۔ 

دنبے کی چکی مولانا کی چربی پر قربان ہو گئی تھی۔

   






Muhammad Izhar ul Haq

www.izharulhaq.net

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com