Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, March 06, 2018

ٰٰعمران خان بذریعہ جان فرانسس --۲--


جان فرانسس سے ایک دن باتوں باتوں میں ذکر کیا کہ “دی ایج” (آسٹریلیا کے معروف روزنامہ) کو مضمون بھیجا ہے ۔ابھی تک چھپنے یا نہ چھپنے کی اطلاع نہیں آئی۔ جان مسکرایا ۔کہنے لگا ‘یہاں ایسا نہیں ہوتا۔ایک تو یہ ہے کہ کوئی صحافی تمہارے  بارے میں تعارفی نوٹ اخبار کو بھیجے ۔دوسرے یہ کہ وہ خود تمہیں کوئی موضوع دے کر کہیں یعنی Requisition
 کریں ۔چنانچہ جان نے جسے ہم نے محض باغبان سمجھا تھا ۔دی ایج کو میرے بارے میں تعارفی نوٹ بھیجا۔ان دنوں پاکستان میں تباہ کن سیلاب آیا ہوا تھا۔ چند دنوں بعد “دی ایج" کی طرف سے فرمائش کی گئی کہ سیلاب کے بارے میں تفصیلی مضمون لکھ کر بھیجا جائے، چنانچہ دی ایج میں میرا پہلا مضمون
After the Deluge:Disaster Begets Dissent Begets Disaster
چودہ اگست 2010 کو شائع ہوا۔ اس کے بعد “یوریکا سٹریٹ” میں بھی چھپنے لگے۔
جب بھی کچھ دن گزرتے ‘جان کا فون آتا کہ شام کو برگنڈی سٹریٹ جاکر کافی پیتے ہیں۔ بھابھی بریسی جب بھی چلی سے ہو کر آتیں ‘کوئی نہ کوئی سوغات ہمارے لیے ضرور لاتیں ۔ایک دن جان کا فون آیا کہ میلبورن کے ثقافتی مرکز میں شام کو فاطمہ بھٹو نے گفتگو کرنی ہے۔ وہاں ضرور جانا ہے۔چنانچہ ہم نے وہاں جاکر فاطمہ بھٹو کو سنا۔ جان کے اکسانے پر میں نے ایک دو سوال پوچھے’ کچھ لوگوں نے وہاں سے فاطمہ بھٹو کی کتاب بھی خریدی۔ اگر یادداشت غلطی نہیں کررہی تو یہ فاطمہ بھٹو کا ناول “دی شیڈو آف دی کریسنٹ مون”تھا۔ فاطمہ نے ناول کے متعدد نسخے دستخط کرکے وہاں رکھوادیے تھے۔
جب بھی آسٹریلیا جانا ہوتا ہے’جان اور بریسی ضرور دعوت کرتے ہیں ۔ جو بھی وہاں کا کلچر اور رسم و رواج ہے اس کے مطابق خوب خاطر تواضح ہوتی ہے۔ خصوصی طور پر حلال گوشت کا اہتمام کرتے ہیں ۔ ہماری  موجودگی میں پانی اور سافٹ ڈرنک  کے علاوہ کوئی اور مشروب کبھی نظر نہیں آیا۔ سال میں ایک آدھ بار جب ان کے ہاں باربی کیو کی بڑی ضیافت ہوتی ہے تو ہم اور ہمارے بچے ضرور مدعو ہوتے ہیں ۔ بریسی چونکہ جنوبی امریکہ سے ہے  اور ہسپانوی ہے’اس  لیے اس میں ، اس کی بیٹیوں اور بیٹیوں کی اولاد میں ایک قسم کی مشرقیت پائی جاتی ہے۔ ان کا خاندان تارو پود  یورپ اور شمالی امریکہ کی طرح ابھی بکھرا نہیں جب کہ 
آسٹریلوی الاصل جان کے بچوں  کا کلچر سیٹ اپ ذرا مختلف 
ہے
یہ سب اور گزشتہ کالم دراصل تمہید ہے اس بات کی کہ طالبان اور مذہبی انتہا پسندی کے موضوع پر جان اور میں طویل بحث و گفتگو کرتے رہے ہیں ۔وہ امریکی استعمار کے خلاف ہے اور اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ امریکہ اپنے مفاد کے لیے قتل و غارت ،جنگ و جدل اور مہلک جاسوسی سرگرمیوں  کو ہمیشہ بروئے کار لاتا ہے۔ تاہم وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہا ہے کہ طالبان  ‘خوہ   افغان طالبان یا پاکستانی طالبان ‘اپنے ہی لوگوں کو غارت گری کا نشانہ کیوں بناتے ہیں ۔ میں اسے ہمیشہ قائل کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ پاکستان میں بالخصوص ‘اور بقیہ عالم اسلام میں بالعموم ‘مسلمانوں کی اکثریت طالبان کے نکتہ نظر کی حامی نہیں ! جان ایک صحافی ہونے کے ناطے ‘سلفیت ‘تکفیر ‘دیو بندی ‘بریلوی’شیعہ اور اس قسم کی دیگر اصطلاحات سے بخوبی واقف ہے۔اس کے اس سوال کا مجھ سے کوئی جواب نہیں بن پایا کہ مسلمانوں کے ہاں تعلیمی نظام میں اتنی شدید دو عملی کیوں ہے؟ اور مدارس اور یونیورسٹیوں کے تعلیمی نظام اور پیداوار کے درمیان بعد المشرقین کیوں ہے؟۔
اب کےتین ماہ آسٹریلیا میں رہنا ہوا مگر ہم میلبورن میں کم اور  جیلانگ میں زیادہ رہے۔ بچوں کے خانگی امور، پوتے کی پیدائش اور اپنی بیگم کی صحت کے مسائل کے پیش نظر اس قدر مصروف رہے کہ پہلی بار اپنے قیام کے دوران جان اوربریسی  کو مل سکے نہ ہی اپنی آمدو رفت سے آگا ہ کرسکے۔وقفہ طویل ہوجائے تو جان میل ضرور کرتا ہے۔گزشتہ ماہ سترہ فروری کو جان کی ای میل موصول ہوئی۔ گھر کے حالات اور خیریت  کی اطلاع دینے کے بعد  جان نے توجہ ایک خبر کی طرف مبذول کرائی جو روزنامہ دی ٹیلی گراف لندن نے چار فروری کو شائع کی۔ خبر کا متن اس لنک پر دیکھا جاسکتا ہے

Https://www.telegraph.co.uk/news/20180204/imran.khan.defends.talban.against.western.liberals.third.blood/

خبر کا ترجمہ ہوں ہے۔
عمرا ن خان خون کے پیاسے مغربی” لبرلز” کے مقابلے میں طالبان کا دفاع کرتے ہیں.
عمران خان’سابقہ پلے بوائے کرکٹر اور متوقع وزیراعظم پاکستان’ نے طالبان کا نیٹو کے مقابے میں دفاع کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ وہ (نیٹو) مغرب کے لبرلز کی نمائندگی کرتے ہیں جو خون کے پیاسے ہیں ۔
“سنڈے ٹائمز “ سے گفتگو کرتے ہوئے آکسفورڈ کے پڑھے ہوئے کھلاڑی نے ‘جس نے پاکستان میں اپنی الگ سیاسی جماعت بنائی ہے ۔انتہا پسندوں کے خلاف نیٹو  کی جن پر  شدید تنقید کی ۔”انہیں بالکل کچھ معلوم نہیں ! یہ ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہیں،یہ انگریزی اخبارات پڑھتے ہیں جو اصل میں پاکستان سے بہت کم مشابہت رکھتے ہیں ۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ وہ ہمارے دیہات میں گم ہوجائیں گے۔ “اس نے مغربی ملکوں  کے خلاف شدید اظہار ناپسندیدگی کیا ۔مثلاً امریکہ جس پر اس نے الزام لگایاکہ وہ اس ملک کے لیے قصاب بنا ہوا ہے۔ پاکستان میں امریکی ڈرون حملے لازماً بند ہونے چاہیئں ،چھیاسٹھ سالہ عمران نے کہا!
“یہ قصاب پن ہے اور اس کی اصل ہولناکی مغرب پر عیاں نہیں “
خان پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت ‘تحریک انصاف کا رہنما ہے اور امید کرتا ہے کہ وزیراعظم بننے کے بعد مغربی اتحاد سے پاکستان کو دور رکھے گا۔
عمران خان کے یہ ریمارک عین اس وقت سامنے آئے ہیں جب طالبان نے وادی ء سوات میں خود کش حملے کا اعترف کیا ہے جس میں گیارہ فوجی جوان مارے گئے ہیں اور تیرہ زخمی ہوئے ہیں ۔ حکام نے بتایا کہ گزشتہ تین برسوں کے درمیان شمال مغربی علاقے میں یہ پہلا حملہ ہوا ہے۔
ایک وقت تھا جب یہاں عسکریت پسند حکومت کررہے تھے۔ انتہا پسند گروہ نے میڈیا کو بیان جاری کیا ہے کہ خود کش بمبار نے یہ حملہ ‘اپنے ساتھی عسکریت پسندوں کے مارے جانے اور زخمی ہونے کے انتقام میں کیا ہے۔ بمبار نے خود کش جیکٹ ایک ایسی جگہ اڑائی جہاں فوجی جوان والی بال کھیل رہے تھے۔اسلامی عسکریت پسند خوبصورت مناظر والی وادیء سوات پر 2007 سے حکومت کررہے تھے ۔2009 میں ایک بڑے فوجی آپریشن نے ان کا قلعہ قمع کردیا ۔پاکستان کا موقف یہ ہے کہ سوات اور دوسرے مقامات سے جو عسکریت پسند بچ نکلے ،اب پڑوسی افغانستان کے صوبے کنہار سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
خان نے ٹوئٹر پر کہا ہے کہ وہ حملے کی مذمت کرتا ہے۔ “اللہ تعالی ان بہادر مردوں کے خاندانوں کو نقصان برداشت کرنے کا حوصلہ دے”۔
ماضی میں عمران خان نے پاکستانی شہروں میں طالبان کے  دفاتر کھولنے کی حمایت کی ہے”
جان کو خط کا جواب دیا اس کا مفہوم و ترجمہ قارئین سے شئیر کیا جاتا ہے۔

ڈئیر جان!
رابطہ کرنے میں تم ہمیشہ نمبر لے جاتے ہو۔اردو کے مشہور شاعر غالب نے کہا تھا
گو میں رہا رہین ستم ہائے روز گار
لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا !
  بس یہی صورت حال میری ہے۔ یہ جو تم نے  بڑے مکان کو چھوڑ کر بلندی پر اپارٹمنٹ لیا ہے تو کیا ہی خوبصورت فیصلہ کیا ہے۔ ہاں ! میں یہ سوچ رہا ہوں کہ تمہارے اور بریسی کے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کے لیے اپارٹمنٹ گھٹن کا باعث نہ بنے۔ تم اپنے پائیں پاغ کو ضرور مس کرو گے۔
عمران خان کے بیان کو مرکزی نکتہ قرار دے کردی گارڈین نے جو  خبر شائع کی ہے وہ تم نے مجھے بھیجی ہے۔بھیجتے وقت تمہارے ذہن میں جو سوالات اٹھ رہے تھے ،میں بخوبی ان کا اندازہ کرسکتا ہوں ۔ مجھے وہ طویل گفتگوئیں یاد آرہی ہیں جو ہم نے جنوبی ایشیا کے سیاسی مذہبی اور اقتصادی پہلوؤں پر کیں ۔
دی گارڈین نے اس خبر میں عمران خان کی اس گفتگو کا حوالہ دیا ہے جو اس نے سنڈے ٹائمز کے ساتھ کی۔ عمران خان نے درست کہا ہے کہ امریکہ کے ڈون حملے پاکستان میں بند ہونے چاہئیں ۔یہ بھی بجا کہا کہ انگریزی (مغربی) اخبارات اصل پاکستان کی تصویر کشی نہیں کرتے۔ اس میں کیا شک ہے کہ ڈرون خون کے پیاسے ہیں ۔
مگر جان! افسوس کی بات یہ ہے کہ عمران خان نے آدھا سچ کہا ہے۔ وہ پورا سچ کہنے سے ہمیشہ کتراتا ہے ۔خاص طور پر ا س نے طالبان کی کبھی کھل کر مذمت نہیں کی۔ حالانکہ وہ بھی خون کے اتنے ہی پیاسے ہیں جتنے امریکی ڈرون!سوات تقریباً تین سال تک طالبان کے ظلم و ستم کا شکار رہا۔ مولوی فضل اللہ کے دست راست نے ٹیلی ویژن پر ایک معروف طالبان نواز   کالم نگار کی موجودگی میں اعتراف کیا کہ انسانوں کو بکروں کی طرح ذبح کیا جارہا ہے۔ اس گروہ نے قبر سے مردوں کو نکالا اور چوراہوں پر لٹکایا۔ مگر عمران خان نے کبھی ان کی مذمت کی نہ انہیں للکارا ، لیکن جب پاکستان آرمی نے اس وحشت و بربریت کا خاتمہ کرنے کے لیے ایکشن لیا  تو عمران خان نے پوری قوم کی مخالفت کرتے ہوئے اس ایکشن کے خلاف سٹینڈ لیا۔ پھر وہ یہ بھی کہتا ہے کہ وزیرستان میں فوج کیوں گئی۔ اس کے پاس اس سوال کا جواب نہیں کہ اگر پاکستانی فوج پشاور، لاہور،کوئٹہ،ملتان، کراچی ،بہاولپور ،مری میں موجود رہ سکتی ہے تو وزیرستان میں کیوں نہیں رہ سکتی۔ سنڈے ٹائمز سے جب عمران خان نے گفتگو کی ہے تو اس سے صرف ایک دن پہلے طالبان نے گیارہ پاکستانی فوجیوں کو شہید کیا ہے مگر تم نوٹ کرو کہ وہ طالبان کی مذمت نہیں کرتا ۔ صرف یہ دعا کرتا ہے کہ مقتولین کے خاندان اس صدمے کو برداشت کرلیں ۔ اگر وہ طالبان نوا نہ ہوتا تو ا س گروہ کو خون کا پیاسا کہتا ۔ طالبان نے مذاکرات کے وقت عمران خان کو اپنا نمائندہ قرار دے کر اس کی اصلیت کو مزید آشکارا کردیا تھا۔ پھر خیبر پختون خوا کے سینکڑوں مدارس کو چھوڑ کر ،کچھ عرصہ پہلے عمران خان نے سرکاری خزانے سے تیس کروڑ کی خطیر رقم صرف اس مدرسے کو دی جو طالبان کی نرسری رہا ہے۔ گڑھ ہے اور جس کے سربراہ کو دنیا بابائے طالبان کے نام سے جانتی ہے۔ عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ اس زر کثیر کا مقصد”مدارس “ کو مین سٹریم پر لانے کا مطلب ہی اسے نہیں معلوم! تیس کروڑ روپے لینے والےاس مدرسے میں قائداعظم کا نام کوئی نہیں لے سکتا! سینٹ کے حالیہ الیکشن میں بھی اس نے ایک ایسے مذہبی رہنما کی حمایت کی جو طالبان نواز ہے! عمران خان کا یہ پہلو اتنا عبرت ناک اور قابل رحم ہے کہ اس کے حامی کبھی بھی ا  س کا دفاع نہیں کرسکتے۔
خط طویل ہوجائے گا اگر عمران خان کے تضادات کا مفصل ذکر کیا جائے۔مختصراً یہ کہ جس کرپشن کے خلاف وہ جہاد کررہا ہے اسی کرپشن کے بڑے بڑے ستونوں کو وہ پارٹی میں لے آیا ہے۔ یوں لگتا ہے اس نے سٹیسٹس کو کی علامتیں باقائدہ تلاش کیں اور پارٹی میں داخل کیں ۔سیالکوٹ ہویا اٹک یا ہزارہ ،اس نے در حقیقت اپنے حامیوں کو مایوس کیا ہے۔اب اسے سادگی کہیے یا “لاعملی”(یہاں لفظ ایک اور مناسب ہے مگر مصلحتاً وہ نہیں استعمال کرتا) کہ اسےخود تو یہی نہیں  معلوم کہ مثنوی رومی کے دفتر کتنے ہیں اور فصوص الحکم میں کیا لکھا ہے مگر وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ فلاں ‘رومی اور ابنِ عربی کا عالم یا عالمہ ہے! ذہنی ناپختگی کا یہ عالم ہے کہ اپنی ہر شادی کو اس نے تماشا بنا دیا۔ طلاق کا معاملہ گھر کی چار دیواری میں رکھنے کے بجائے الیکڑانک میڈیا پر سجا دیا  اور یوں اپنے آپ کو نکو بنایا۔
کروڑوں پاکستانیوں نے عمران خان کو اپنی امیدوں کا سہارا بنایا مگر بہت بڑی ٹریجڈی یہ ہوئی کہ عمرا ن خان کی دوٹانگیں ‘دو گہرے اندھے کنوؤں میں لٹکی ہوئی ہیں ۔ ایک ،وہ تیزی سے سٹیسٹس کو کے علم برداروں اور کرپشن کی علامتوں کو اپنی پارٹی میں بھر رہا ہے ۔وہ ‘ہزاروں معصوم پاکستانیوں کو ہلاک کرنے والے عسکریت پسندوں کی کھل کر مذمت کرنے کو تیار نہیں ‘الٹا ان کے مربیوں پر نوازشات کررہا ہے۔
بریسی کو ہم دو نوں  میاں  بیوی کی طرف سے بہت سلام ۔
تمہارا اظہار!


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com