(ہمارے مخاطب مسلم لیگ نون کے وہ ارکان ہیں جو شریف خاندان کے رشتہ دار نہیں )
آپ میں سے ‘سارے نہیں ‘تو اکثر تعلیم یافتہ ہیں ۔ آپ نے تاریخ یقیناً پڑھی ہوگی۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ جن لوگوں نے بادشاہوں اور ان کے جانشینوں کے لیے گردنیں کٹوائیں ‘آج انہیں کوئی نہیں جانتا ۔ کچھ اورنگزیب کے ساتھ ہوگئے تھے۔ کچھ مراد کے ساتھ کچھ داراشکوہ کے ہمنوا بن گئے اور کچھ شجاع کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر پھرتے رہے۔ سر قلم کرا لیے۔ جنگ کے میدانوں میں کھیت رہے،خاندان اجڑ گئے۔ مخالف شہزادوں نے جائیدادیں مسمار کروا دیں ۔ ہاتھیوں کے نیچے روند ڈالا۔ کیا آج ان میں سے کسی کا نام تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے؟ نہیں! سوائے چند ایک کے ‘ورنہ تو ہزاروں میں تھے! نام صرف شاہوں اور شہزادوں کے محفوظ ہیں ۔
معزز سیاستدانو تم بھی انہی کی طرح ایک خاندان کی بقا کے لیے اپنے آپ کو ایندھن بنارہے ہو۔ تم نے اپنے آپ کو’اپنے خاندانون کو ‘اپنی قیمت کو’اپنے مستقبل کو میاں نواز شریف ‘مریم نواز، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے ساتھ وابستہ کرلیا ہے۔ مگر یہ اچھی طرح جان لو کہ شریف خاندان کے ان رہنماؤں کے نام تو تاریخ میں ‘بُرے یا بھلے حوالے سے’زندہ رہ جائیں گے ۔تمہارے نام محفوظ نہیں رہیں گے۔ تم تو ایندھن ہو ۔ تمہارے جلنے سے ان رہنماؤں کے اپنے چراغ جلیں گے !ہاں !جب تک عوام کو اس خاندان کی تاریخ یاد رہے گی ‘تمہیں اور تمہارے پس ماندگان کو یہ طعنے ضرور ملیں گے کہ یہ شریف خاندان کے غلام تھے!
حقیقت تمہارے سامنے ہے!تم میں سے کچھ جو دفاع میں اور حمایت میں سب سے آگے ہیں ’تمہیں اچھی طرح معلوم ہے خلق خدا ان کے بارے میں کیا کہہ رہی ہے؟ کیا لوگ نہیں کہہ رہے کہ فلاں پرویز الٰہی کی چلتی گاڑی کے آگے رقص کرتا تھا؟ کیا خلق خدا ہنس نہیں رہی کہ فلاں جنرل مشرف کی قمیض میں خیالی گرد اپنے ہاتھوں سے کیسے جھاڑتا تھا؟ کیا چودھری شجاعت حسین کا یہ کہنا وائرل نہیں ہوگیا کہ مجھے فلاں اور فلاں کے ساتھ چھوڑ جانے کا دکھ اس زیادہ ہے کہ صبح آکر پیمان ِوفا کی تجدید کی اور شام کو دوسرے کیمپ میں چلے گئے۔سب کچھ تمہارے سامنے ہے ۔کیمپ تبدیل کرنے والے ان گرگٹوں کی جو عزت معاشرے میں اس وقت ہے تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو ! پھر بھی تم عبرت نہیں پکڑ رہے ! خدا تمہاری آنکھو ں کو چند فٹ دور دیکھنے کی صلاحیت عطا کرے! صرف چند فٹ دور دیکھنے کی کوشش کرو !اس خاندان کے پار دیکھو !دنیا کتنی بڑی ہے۔افسوس!تم نےایک خاندان کے محل کے دروازے پر اپنے آپ کو بٹھا کر اپنے بلند سیاسی مقام کو پست کر ڈالا!
مسلم لیگ نون کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کرلینے والو! یہ تو سوچو کہ کیا تم اس خاندان کے زر خرید غلا م ہو؟ کیا یہ تمہارے لیے عزت کا باعث ہے کہ تم میاں نواز شریف کے بعد مریم نواز کی وفاداری کا حلقہ اپنے کان میں ڈالو ؟ کیا تمہارا کردار بس اتنا ہی ہے کہ کسی نہ کسی شریف کا تمہارے سر پر ہاتھ ہو؟ کیا تمہاری پارٹی میں مریم نواز شہباز شریف اور حمزہ شہباز جیسا ذہین کوئی بھی نہیں ؟ کیا تم ان سے کم تر ہو؟ کیا تم ان سے کم ذہین ہو؟ کیا تم پارٹی کی کمان نہیں سنبھال سکتے؟ کیوں نہیں سنبھال سکتے ؟ کیا تم انسان نہیں ؟
کیا تم نہیں دیکھتے کہ پارٹی اور پارلیمانی پارٹی کے اجلاسوں کی تصویر میڈیا میں ظاہر ہوتی ہیں تو لوگ نوٹ کرتے ہیں تم مرغی کے چوزوں کی طرح ان اجلاسوں میں بیٹھے ہو ۔تمہاری رائے کو رائے نہیں سمجھا جاتا۔ تم ایک ہجوم سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ تمہاری نظر یں اجلاس کے اس حصے کا طواف کرتی ہیں جہاں میاں صاحب ان کا بھائی ان کی بیٹی اور ان کا بھتیجا تشریف فرما ہوتے ہیں ۔ تم بول نہیں سکتے۔ تم کچھ پوچھ نہیں سکتے۔ تم کوئی اعتراض نہیں کرسکتے۔ تم اگر اپنے آپ کو پارٹی کا ایک معزز رکن سمجھتے ہو تو کسی دن پوچھ کر دیکھ لو۔ کسی دن دست بستہ عرض کرو کہ میاں صاحب ! پارٹی کے اندر انتخابات کب ہوں گے؟ کسی دن ہمت کرکے یہی پوچھ لو کہ میاں صاحب !آپ کی صاحبزادی اور آپ کے بھائی کے علاوہ پوری پارٹی میں کوئی اس قابل نہیں کہ پارٹی سنبھال سکے؟ کیا یہ موروثی پارٹی ہے؟ یہ پوچھ کر اپنی اہمیت کا اندازہ لگا لو! اور اپنا انجام دیکھ لو !
تم نے اپنی محنت سے کمایا۔ زمینیں جائیداد تمہیں اپنے باپ دادا سے وراثت میں ملیں ۔ ووٹ تمہیں تمہارے حلقے کے عوام نے دیا/ خدا کے بندو! پھر تم نے کیوں ایک خاندان کی غلامی کا جوا اپنے کاندھوں پر رکھ لیا ہے؟ تمہارے بیٹے اسی پاکستان میں رہ رہے ہیں ۔میاں نواز شریف کے بیٹے ولایت میں رہ رہے ہیں اور فخر سے کہتے ہیں کہ و ہ پاکستانی نہیں ! کیا اپنے بیٹوں کو غیر پاکستانی بنانے والا تم سے برتر ہوسکتا ہے؟ تمہارا سب کچھ اس پاکستان میں ہے! پھر تم نے ایک ایسے شخص کو ،ایک ایسے خاندان کو اپنی گردنوں پر کیوں مسلط کررکھا ہے جس کے بیٹے پاکستان میں ہیں نہ جائیدادیں ‘تم عقل کو کیوں نہیں برؤئے کار لاتے ؟
تو کیا تمہاری اولادیں سیاست میں آکر مریم نواز کی غلامی کریں گی ؟ کیا تم ا س خاندان کے اقتدار کے لیے اپنے آپ کو اور اپنے وارثوں کو ایندھن بناتے رہو گے؟کیا تم پارٹی اجلاسوں میں ہمیشہ منہ بند کرکے تالیاں ہی بجاتے رہو گے؟ بس ؟ تمہاری حیثیت اتنی ہی رہے گی؟ ایک بھائی ہٹا تو اب تم پر دوسرا بھائی حکمران بن گیا !اب وہ تمہاری ہی سیاسی پارٹی کا سربراہ ہے ۔ کیا تمہاری پوری پارٹی میں کوئی ایک شخص بھی ذہانت دیانت ، حسن انتظام اور قائدانہ صلاحیت میں میاں شہبازشریف کا مقابلہ نہیں کرسکتا؟ کیا اور کوئی پڑھا لکھا نہیں ؟ کیا یہ تاج صرف اسی خاندان کے افراد کے لیے مخصوص ہے ؟ تو پھر تم پارٹی کے رکن نہیں! اس خاندان کے غلام ہو ۔ورنہ تمہیں بھی اجازت ہوتی کہ پارٹی کے اندر مرکزی یا صوبائی سطح پر انتخابات لڑ سکتے !بے شک ہار جاتے مگر تمہاری پارٹی میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی روایت تو پڑتی ! تم کیوں نہیں سوچتے کہ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی میں ایک ذرے کا بھی فرق نہیں ! ایک بھٹو خاندان کی کنیز ہے اور دوسری شریف خاندان کی خادمہ۔
تم جمہوریت کے نعرے لگا رہے ہو ! کیا تمہیں معلوم ہے جمہوری ملکوں میں پارٹی کبھی ایک خاندان کی غلام نہیں بنتی! برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کی لیڈر شپ گزشتہ اٹھارہ سالوں میں چار بار تبدیل ہوچکی ہے۔چاروں مختلف خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں ! ڈیموکریٹک پارٹی امریکہ کی لیڈر شپ گزشتہ سترہ سالوں میں سات بار تبدیل ہوچکی ہے۔ ری پبلکن پارٹی کی قیادت ان سترہ برسوں میں نو ہاتھوں میں منتقل ہوئی ہے۔ اور پارٹیوں کے یہ سربراہ ملک کے صدر نہیں بنتے۔ پارٹی کی کمان اپنی ہے اور صدارتی الیکشن لڑنے والا اور صدر بن جانے والا پارٹی کا ماتحت ہوتا ہے۔ پارٹی کا باپ نہیں بن جاتا۔
تو پھر کیا تم اپنی عزت نفس کو ایک شاپنگ بیگ میں ڈال کر کوڑے دان میں پھینک دو گے؟ کیا فنڈ تمہیں نواز شریف خاندان کا داماد دے گا؟ کیا یہ فنڈ تمہیں خیرات میں ملتے ہیں ؟کیا باپ کے بعد بیٹی تم پر حکمرانی کرے گی۔ ؟کیا ایک کے بعد دوسرا بھائی تمہیں موم کی ناک بنا کر ادھر سے ادھر اور اُدھر سے اِدھر موڑتا رہے گا ؟ کیا تم پتھر کے بت ہو کہ ایک نوجوان جو وفاقی اسمبلی کا رکن ہے ‘صرف اس لیے پنجاب میں تم پر حکومت کرتا ہے کہ وہ حکمران کا فرزند اعلیٰ ہے؟ تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ آخر حکومت پر تمہارے بیٹوں کا حق کیوں نہیں ؟ صرف اس لیے وہ محروم ہیں کہ ان کی جائیدادیں لندن میں نہیں ‘صرف پاکستان میں ہیں؟
یاد رکھو! تاریخ تمہیں دیکھ رہی ہے۔ تمہیں ماپ تول رہی ہے۔ تمہاے پاس دو آپشن ہیں ! تاریخ میں تمہارا نام ایک خاندان کے غلام کے طور پر لکھا جا ئے گا یا جمہوریت کے سپاہی کے طور پر! اگر تم کھڑے ہوکر میاں صاحب سے کہہ سکتے ہو کہ حضور! پارٹی قیادت آپ کے خاندان کی وراثت نہیں ! یہ پارٹی کے ارکان کی مرضی ہے کہ کسے پارٹی کی قیادت کے لیے چنیں۔ایک خاندان کے پانچ افراد کو یہ حق پارٹی کے ہزاروں ارکان نہیں دے سکتے کہ وہ بند کمرے میں بیٹھ کر فیصلہ کریں یہ پارٹی کلثوم نواز ،مریم نواز ، شہباز شریف، اور حمزہ شہباز کی نہیں ‘یہ ارکان کی پارٹی ہے ! آخر خواجہ آصف کیوں نہیں پارٹی کا صدر بن سکتا۔؟ اگر تم ایسا نہیں کرتے تو پھر خاموش ہوکر ‘بارش زدہ مرغی کی طرح پارٹی کے اجلاسوں میں تالیاں بجاتے رہو! مگر یاد رکھو! تاریخ میں تمہاری حیثیت ایک مخصوص خاندان کے گمنام غلام سے زیادہ کچھ نہیں ہوگی!
تمہاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں!
No comments:
Post a Comment