Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, March 07, 2018

ایک کلو گرام دودھ میں ایک قطرہ گندگی


سینیٹ کے انتخابات میں کرنسی نوٹو ں کی بوریاں ، بیل گاڑیو ں ،کارگو ٹرینوں،ٹرکوں ،بھڑولوں میں بھر کر ایک دوسرے کے ہاں بھیجی گئیں ۔ دوروازے کھٹکھٹائے گئے ۔اندر سے جو باہر نکلا ،اس نے نوٹ گنے، قبول کئے اور اپنی عزت کا سودا عصمت کے سودے کی طرح کیا۔ تف اس ذہنیت پر جو عصمت بیچنے والی ڈیرہ دارن کو برا بھلا کہتی ہے مگر ووٹ بیچنے والے کو عصمت فروش سے زیادہ گنہگار نہیں گردانتی! یہ ضمیر کا سودا کرنے والے ننگ خلائق ہیں !مگر المیہ یہ نہیں اصل المیہ اور ہے۔
جمہوریت یہاں زور والوں کی شکایت کرتی تھی۔ بندوق والوں سے زیادہ ڈرتی تھی ۔تلوار کے زخم دکھاتی تھی۔ اب زر کا زمانہ آگیا ہے ۔جس ملک میں قائداعظم تھے،لیاقت علی خان تھے،عبدالرب نشتر تھے،مولوی تمیز الدین ،مولوی فرید احمد ،نور الامین تھے،سب فقیر۔ دولت سے بے نیاز ۔یہاں تک کہ بیوروکریٹ بھی سرکاری گاڑی ذاتی مقصد کے لیے استعمال کرتے تھے  تو خزانے میں  رقم جمع کراتے تھے ۔چوہدری محمد علی نے سابق وزیر اعظم کے طور پر بیرون ملک علاج کرانے کے لیے اٹھارہ (یا بیس) ہزار روپے حکومت سے ادھار لیے۔ایک ایک پائی واپس کی۔ اس ملک میں اب زرداری ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا روپیہ ہے۔ ان کے شش جہات ۔دائیں بائیں آگے پیچھے اوپر نیچے ۔سب روپےسے عبارت ہیں ۔ وہ کچھ بھی خرید سکتے ہیں ۔ اسی ملک میں اب نواز شریف ہیں ۔ جو کسی سنجیدہ موضوع پر گفتگو نہیں کرسکتے۔ کسی غیر ملکی رہنما سے بات چیت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ مگر دولت کے ان کے پاس انبار ہیں ۔ اتنے انبار کہ دنیا کی کوئی مشین ان کی کل دولت کا اندازہ نہیں کرسکے گی ،جو عدالت بھی جائیں تو درجنوں گاڑیوں کے پروٹوکول میں جاتے ہیں ،جو یہ کہتے ہوئے رمق   بھر جھجھک محسوس نہیں کرتے کہ دولت کمائی ہے حساب نہیں دیا تو تمہیں کیا؟ افسوس! یہ نوا زشریف ،جن کا واحد حوالہ دولت ہے ،ا س بات کے متمنی ہیں کہ آئندہ سالہا سال تک اقتدار انہی کے خاندان میں رہے ۔مگر اصل المیہ یہ بھی نہیں ۔اصل المیہ اور ہے!!!
اصل المیہ ابلیس کا رویہ ہے  ۔ ابلیس جس رویے کی وجہ سے مردود ٹھہرا،وہ رویہ اب ہمارے ہاں مقبول ہورہا ہے۔ ابلیس معصیت کی وجہ سے رد خلائق نہیں ٹھہرایا گیا ۔اس کا جرم معصیت نہیں ۔اصرار علی المعصیت تھا۔ یعنی گناہوں پر اصرار ،اکڑ،اپنی غلط حرکت کی توجیہ ! جواز! دلائل!
اہل دانش اب باقائدہ تھیوریاں پیش کررہے ہیں کہ کرپشن ہوئی تو کیا ہوا، آخر کام بھی تو ہوا ہے۔ اہل قلم مسلسل کرپشن پر پردہ ڈالنے کی کوششوں میں ہیں جو افسر پکڑے جارہے ہیں ان کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ بہت مستعد تھے،ان کی کارکردگی    خوب تھی۔کرپشن کی تو کیا ہوا ،کون ساثبوت مل گیا۔
اب سینیٹ کے الیکشن کے بارے میں بھی یہی کہا جائے گا کہ جمہوریت مضبوط ہورہی ہے۔پھر نوٹوں سے بھری بوریوں کے مزید کارگو ٹرک راتوں کو دروازے کھٹکھٹا کر منز ل  مقصود پر پہنچا دئیے جائیں گے ۔ اور چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدے پُر ہوں گے۔
اب تک تو یہی سننے میں آیا   تھا کہ ایک کلو گرام دودھ میں ایک قطرہ پیشاب مل جائے تو وہ پینے کے قابل نہیں رہتا ۔غلیظ ہوجاتا ہے۔اب کرپشن کی طرف داری میں جو دانش بکھیری جارہی ہے ،اس میں ثابت کیا جارہا ہے کہ پیشاب کا قطرہ ہے تو کیا ہوا ۔آخر بالائی بھی تو ہےاور پھر دودھ تو دودھ ہے۔ یہاں ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ پڑھنے والوں کے ساتھ شیئر کرنے میں کیا حرج ہے ۔عورت نے گائے دوہی ، دیگچی دودھ سے بھر گئی ،کسی کام کے لیے باہر نکلی تو گھر میں چھوٹے بچے کے سوا کوئی نہ تھا۔ اسے کہہ گئی کہ دودھ کا خیال رکھنا ،واپس آئی تو بچے نے رپورٹ دی کہ باقی سب خیریت گزری۔ بس یہ ہوا کہ ایک دو گھنٹ دودھ کے پالتو کتے نے پی لیے۔ ماں پریشان ہوگئی۔ سوچنے لگی اب اس دودھ کا کیا کیا جائے ! بچے نے تجویز پیش کی کہ کیا ہوا!آخر دو گھونٹ ہی پئے ہیں ۔ استعمال کرلیتے ہیں۔ ماں نے کہا نہیں! سارا دودھ ناپاک ہے۔ بچے نے پھر دماغ لڑایااور کہاکہ پھر ضائع کردیتے ہیں۔ نالی میں گرا دیتے ہیں ۔ یہ تجویز بھی ماں نے رد کردی کہ خدا کا نور ہے نالی میں کیسے بہا سکتے ہیں۔ بلآخر فیصلہ یہ ہوا کہ محلے کی مسجد کے مولوی صاحب کی خدمت  میں پیش کردیا جائے۔ بچہ لے گیا۔ مولوی صاحب نے غٹا غٹ پی لیا۔ پوچھا ،خیریت تو ہے ،کاکے! تیرے گھرسے تو کھٹی باسی  لسی  کبھی نہیں آئی ،آج دودھ اور وہ بھی اتنا سارا۔ کیا معاملہ ہے ۔بچے نے بلا کم و کاست سارا معاملہ گوش گزار کردیا۔ مولوی صاحب نے غصے میں آکر بوتل پھینک دی ،شیشے کی بوتل تھی ۔اینٹو ں والے فرش پر گری تو ریزہ ریزہ ہوگئی ، بچہ رونے لگ گیا۔ مولوی صاحب مزید طیش میں آگئے۔۔ “کم بخت!ایک تو کتے کا جوٹھا دودھ پلایا ۔الٹا اب ٹسوے بہا رہا ہے “ بچہ پورا منہ کھول کر اور زور سے بھاں بھاں کرنے لگا۔ روتے ہوئے اس نے کچھ کہا ۔مولوی صاحب جو کچھ سمجھے وہ یہ تھا کہ   آپ نے بوتل توڑدی ۔اب میرا ابا پیشاب کس میں کرے گا۔
لیکن اب اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ دودھ میں کتنے قطرے غلاظت کے ہیں، کتے کا جوٹھا ہے یا بلی کا اور کس بوتل میں یا برتن میں ڈالا گیا ہے۔ بس دودھ ہونا چاہیے ۔سڑکیں بن رہی ہیں ،رنگ رنگ کی ٹرینیں چل رہی ہیں ،کروڑوں اربوں کی کرپش ہورہی ہے تو کیا ہوا؟
سنگا پور کی مثال دی جائے تو ایک اعتراض اس پر یہ ہوتا ہے کہ وہ تو چھوٹا سا ملک ہے ۔ہمارے ایک ضلع جتنا۔ تو ،چلئے آپ کراچی کو ہی سنگا پور کی مثال بنا دیجئے۔ تاہم یہاں ہم قانون کی بات کررہے ہیں ،جو قوانین سنگا پور نے کرپشن سے جنگ کے بنائے ۔ہم ان کی پیروی تو کرسکتے ہیں۔1996 میں سنگا پور کا معمار لی کوان یو،وزارتِ اعظمٰی کے کئی عشرے گزارنےکے بعد سینئر وزیر کے طور پر کابینہ میں شامل تھا، اس کا بیٹا اس وقت ڈپٹی پرائم منسٹر تھا۔ خبر یہ مشہور ہوگئی کہ لی اور اس کے بیٹے نے جائیداد خریدی ہے اور اس پر ناجائز ڈسکاؤنٹ حاصل کیاہے۔ اس وقت گوہ چوک تانگ وزیراعظم تھا اس نے مکمل تفتیش کرائی۔ معلوم ہوا، ناجائز ڈسکاؤنٹ والی بات درست نہیں ۔ وزیراعظم سارا معاملہ پارلیمنٹ میں لے گیا۔پورے تین دن ،جی ہاں پورے تین دن پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہوتی رہی،اس موقع پر لی نے پارلیمنٹ کو مخاطب کرتے کہا کہ : “مجھے فخر ہے اور اطمینان کہ میری اور میرے بیٹے دونوں کی خریداریوں کی مکمل تفتیش ہوئی ہے اور یہ معاملہ تفتیش سے مستثنیٰ نہیں کیا گیا۔ اہم ترین یہ ہے کہ سنگا پور ایسی جگہ ہے جہاں کسی کو بھی  استثنٰی نہیں حاصل۔ اور کوئی  حکمران ،جتنا بھی سینئر کیوں نہ ہو ،اس بات سے مستثنٰی نہیں کہ بااثر ہونے کی وجہ سے کرپشن نہ کرسکے”۔
مئی 2016 میں لندن میں ایک اینٹی کرپشن کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس میں سنگا پور کے بارے شرکا نے یہ جاننے کی خواہش کا اظہار کیا کہ آخر شفافیت کا راز کیا ہے۔ سنگا پور کے وزیراعظم نے اس موقع پر چار عوامل کا ذکر کیا۔

اول۔ برطانوی استعمار نے جو ورکنگ سسٹم چھوڑا تھا، کرپشن فری تھا ،سنگا پور نے اسے  جوں کا توں قائم رکھا۔ استعمار کی  ہر نشانی کو سنگا پور مٹا  دینا چاہتا تھا مگر اداروں کو نہ چھیڑا گیا۔ سول سروس اور عدلیہ دیانت دار تھی۔ اسے ایسے ہی رہنے دیا۔ سیاسی مفادات ،اقربا پروری اور دوست نوازی کی نذر نہ کیا۔
دوم۔ پیپلز ایکشن پارٹی کو (لی جس کا سربراہ تھا) حکومت ملی تو حلف اٹھاتے وقت لی اور اس کے ساتھیوں نے سفید قمیضیں اور سفید پتلونیں پہنی ہوئی تھیں ۔یہ سفید لباس اس عزم کی علامت تھا کہ کرپشن کو مٹانا ہوگا اور شفافیت لانا ہوگی۔ سول سروس کی تنخواہیں نجی شعبے کے برابر کردی گئیں مگر پھر کسی سول سرونٹ کی ذرہ بھر کرپشن کو برداشت نہ کیا گیا۔

سوم۔ اینٹی کرپشن قوانین کا نفاذ ایسی بے مثال سختی سے کیا گیا کہ کوئی بچ نہ سکا ۔” انسداد کرپشن ایکٹ “ 
CPA
میں یہ شق رکھی گئی کہ  کوئی  جائیداد ،آمدنی یا معیار زندگی  اگر قانونی اور معلوم آمدنی سے مناسبت نہیں رکھنا تو بار ثبوت ملزم کے سر ہے۔ اسے ہی ثابت کرنا ہوگا کہ اس نے سب کچھ جائز طریقے سے بنایا ہے ۔اس قانون کا نفاذ سنگا پور کے ہر شہری پر کیا جاتا ہے۔ جو ملک سے باہر ہے۔بیرون ملک اس کا ہر اقدام ،ہر کمائی ،ہر خریدو فروخت اسی طرح چھانی پرکھی  اور تولی جاتی ہے جیسے اندرون ملک رہنے والوں کی۔ سنگا پور کا نیب یعنی تفتیشی ایجنسی کسی بھی وزیر ،کسی بھی ممبر پارلیمنٹ یہاں تک کہ وزیراعظم کی بھی تفتیش کر کے اسے  کٹہرے میں کھڑا کرسکتی ہے۔

چہارم۔ سماجی سطح پر بڑا کام یہ کیا گیا کہ سنگا پور کے شہری کرپشن کو کسی طور برداشت نہیں کرتے۔ وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کرپشن ہوئی تو کیا ہوا ،کام بھی تو ہوا۔ کسی شہری کو کرپشن کی کہیں بھنک بھی پڑ جائے تو فوراً حرکت میں آتا ہے اور متعلقہ محکموں کو رپورٹ کرکے منطقی نتیجہ نکلنے تک معاملے کو دانتوں سے پکڑے رکھتا ہے ۔یہاں یہ سوال نہیں پیدا ہوتا کہ کسی کی بے عزتی نہ ہو۔ سنگا پور میں ایک روایت مشہور ہے کہ ایک  دوسرے ایشیائی ملک سے ایک بزنس مین آیا۔ پوری کوشش کے باوجود اسے یہ نہ معلوم ہوسکا کہ رشوت کا نرخ کیا ہے۔ اس نے غلط نتیجہ نکالا کہ شاید نرخ بہت زیادہ بلندہے۔ حالانکہ کسی شعبے، کسی محکمے کسی ادارے میں رشوت لینے کا تصور تک نہ تھا۔
مگر کرپشن انسان کی جبلت میں ہے۔کچھ عرصہ پہلے سنگا پور میں ایک سرکاری افسر کو سترہ لاکھ ڈالر غبن کرنے کے الزام میں پکڑا گیا۔ کرپشن کی کوشش وہاں ضرور ہوگی جہاں انسان بستے ہیں۔اصل کارنامہ یہ ہے کہ کرپشن  کی کسی بھی مقدار کو معاف نہ کیا جائے۔
لعنت ہے اس نام نہاد ترقی پر جو کرپشن کے ذریعے وجود میں آئے ۔ناجائز بچہ ،کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو ،ناجائز ہی رہے گا۔


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com