جب پارلیمنٹ ایک دکان ہے اور دکان کے اندر مختلف سبزیاں بکنے کے لیے رکھی ہیں تو اس سےکیا فرق پڑتا ہے کہ کون سی سبزی کہاں پر رکھی جائے’ چیئرمین رضا ربانی ہوں یا مشاہد حسین یا کوئی اور’ بکنے والی سبزی’ بکنے والی سبزی ہی رہے گی! فرنگی زبان میں ایسے شخص کو جو سوچنے سمجنے سے عاری ہو ‘اپنی رائے نہ رکھتا ہو’ ویجی ٹیبل ہی کہتے ہیں ‘ ا س مریض کو بھی ویجی ٹیبل کہتے ہیں ۔ جو بستر پر پڑا ہو۔ نلکیاں لگی ہوں ۔بات نہ کرسکتا ہو، سُن ’سمجھ نہ سکتا ہو!
دلچسپ ترین مطالعہ ان سیاست دانوں کے دلوں اور ضمیروں اور دماغوں اور روحوں کا وہ تصویریں ہیں جو ان دنوں دکھائی دے رہی ہیں ۔بندر بادشاہ بنا تو جنگل کے تمام جانور اپنے اپنے مسائل لے کر حاضر ہوئے۔ بند ر درخت پر چڑھ گیا ۔ایک ڈال سے پھدکتا تو دوسرے پر بیٹھ جاتا ہے۔ دوسرے سے تیسرے پر !جانوروں نے مسائل کا حل پوچھا تو کہنے لگا آپ حضرات میری آنیاں جانیاں تو ملاحظہ فرمائیے!
تصویروں سے ان حضرات کی آنیاں جانیاں پتہ چل رہی ہیں ۔ان کے چہرے دیکھ کر ان کی حیثیتیں معلوم ہو رہی ہیں ، اور یہ بھی مترشح ہورہا ہے کہ ان کی سوچ کی بلندی کتنی ہے۔ ایک تصویر میں زرداری صاحب اور مولانا نظر آرہے ہیں ۔ مسکراہٹیں ایک کان سے دوسرے کان تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ دونوں کے حواری ‘پیچھے بیٹھے بھی ٹوتھ پیسٹوں کا اشتہار بنے ہوئے ہیں ، کوئی پوچھے کہ کس کارنامے پر آپ اور آپ کے لیڈر ہنس رہے ہیں ۔ ؟دونوں کو خلق خدا نے کیا کیا نام دے رکھے ہیں ۔ ‘کیا یہ کامیابی کی دلیل ہے؟ ڈیرہ اسماعیل خان کے نواح میں فوجی زمینوں کے عطیے سے لے کر نیویارک فرانس اور برطانیہ میں پھیلی ہوئی جائیدادوں کے علاوہ اس بیگ میں اور کیا ہے جسے ان میں سے ہر ایک نے اٹھایا ہوا ہے۔
اور تصویر میں یہی مولانا’ نواز شریف صاحب کے ساتھ بیٹھے ہیں ۔ یہاں بھی مسکرا رہے ہیں۔ اس تصویر کو غور سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک کی قسمت پر مُہر لگی ہے ۔ایک طرف ایک صاحب بیٹھے ہنس رہے ہیں جو حال ہی میں ایک پارٹی کو چھوڑ کر نو ن لیگ میں دوبارہ'یا شاید سہہ بار’داخل ہوئے ہیں ۔ ہنسی بتا رہی ہے کہ ضمیر نام کی کوئی شے نہیں ! پارٹیاں بدلتے جائیے ‘عہدے مراعات لیتے جائیے !اور ہنستے جائیے ! جب حیا کی پرت چہرے سے اتر جائے تو ہنسنے میں کیا حرج ہے ! نواز شریف کے دائیں ہاتھ ایک چادر پوش بیٹھا ہنس رہا ہے۔میڈیا دہائی دے چکا ہے کہ اس شخص کے تعلقات پڑوسی ملک کی پاکستان دشمن خفیہ تنظیم کے سربراہ سے ہیں ۔ گاڑیاں اور کرنسی وہاں سے آتی رہی ہے۔ یہ شخص پاکستان کے علاقوں کو ایک دوسرے ملک کی ملکیت’ واضح طور پر نہیں ‘تو اشاروں کنایوں سے ثابت کرتا رہا ہے۔ برترین شہرت کا ملک ہے۔آبائی طور پر قیام پاکستان کا مخالف رہا ۔ مگر میاں نواز شریف کا پھر بھی دست راست رہا اور تصویر میں بھی دائیں ہاتھ بیٹھا دکھائی دے رہا ہے ۔ا سی تصویر میں ایک اور صاحب دکھائی دے رہے ہیں جو ڈان لیکس کے شہرت یافتہ ہیں ۔ ذاتی وفاداری کے علاوہ ان کے تھیلے میں کوئی شئے نہیں ! اس سطح تک گرے کہ لندن کے معروف علاقے مڈل سیکس کے بارے میں کہا کہ اس علاقے کا نام نہیں لینا چاہتا، کیوں کہ مسلمان کی زبان پر اس علاقے کا نام آجائے تو وضو کرنا پڑتا ہے ۔وجہ یہ تھی کہ اس علاقے میں عمران خان کے بچے رہتے تھے۔ مڈل سیکس میں سیکس کا جو لفظ ہے وہ saxon سے نکلا ہے، جو مشہور برطانوی قبیلہ ہے۔
اسی سےsussexنکلا ہے۔saxon اصل میں seaxہے جو ایک چاقو کا نام تھا ۔لوگ اس چاقو کو اپنے پاس رکھتے تھے ۔اس علاقے کے بارے میں ان صاحب نے کہا کہ مسلمان اس کا نام لے تو وضو کرنا پڑتا ہے۔ اس علاقے میں لاکھوں مسلمان آبادہیں اور کئی مساجد ہیں ۔سچ کہا کسی نے کہ نیچے گرنے کی کوئی حدنہیں ہوتی۔انسان غلامی اختیار کرے تو پھر کرتا ہی چلا جاتا ہے۔ اس پر علم و فضل دیکھیے ۔قبیلے کا نام جنس سے ملا دیا۔ جب بادشاہ کا اپنا مبلغ علم آلو گوشت پر مشتمل ہوگا اور تقریروں میں ظہرانوں کے “کمزور” ہونے کی شکایت ہوگی تو مشیر اور حواری بھی اسی پائے کے ہوں گے!
ایک اور تصویر تحریک انصاف پر ماتم کناں ہے۔ ا س تصویر میں ایک سیاست دان بارعب’ سنجیدہ چہرہ دکھائی دے رہا ہے۔ پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا ۔پھر جنرل مشرف کی کابینہ کا حصہ بن گئے ۔2008 میں مسلم لیگ قاف کی طرف سے الیکشن میں حصہ لیا۔ 2013 میں مسلم لیگ نون کی طرف سے انتخابات میں حصہ لیا اور اب ماشااللہ تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔ شامل ہونے سے پہلے آپ نے عمران خان سے باقاعدہ ملاقات کی! اس کے بعد شمولیت کا اعلان کیا۔ یہ تصویر اس مذاق کا تازہ ترین ثبوت ہے جو تحریک انصاف نے اس ملک کے پڑھے لکھے عوام کے ساتھ مڈل کلاس کے ساتھ اور ان لاکھوں نوجوانوں کے ساتھ کھیلا جو تحریک انصاف کے لیے جوش اور جذبے کا پرچم اٹھائے گھروں سے نکلے تھے۔تحریک انصاف نے ا ن نوجوانوں کے چہروں پر ایسی کالک ملی ہے جو کسی تیزاب سے بھی صاف نہیں ہوگی !زرداری صاحب اور نواز شریف صاحب کا جرم اتنا بڑا نہیں جتنا بڑا جرم عمرا ن خان کا ہے ،اس لیے کہ اول الذکر دونوں سیاسی رہنماؤں نے تبدیلی کا نعرہ لگایا نہ یہ اعلان کیا کہ کرپشن کو ختم کریں گے ۔انہوں نے اسی رویے کا مظاہرہ کیا جس کے لیے وہ مشہورہیں ۔ عمران خان کا جرم ناقابل معافی اس لیے بن جاتا ہے کہ اس نے تبدیلی کا نعرہ لگایا، کرپشن کے خلاف جنگ کا اعلان کیا اور پھر اسی صف میں شامل ہو گیا جس میں زرداری صاحب اور نواز شریف صاحب کھڑے تھے۔تحریک انصاف سے وابستہ “بدلتے پاکستان” کے متوالے نوجوانوں کو چاہیے کہ دوسری سیاسی جماعتوں کو طلاق دے کو جو “ جانے پہچانے “ اور “مشہور و معروف “ سیاستدان تحریک انصاف کے ساتھ ایک اور عقد باندھ رہے ہیں ،ان کی بڑی بڑی قد آدم تصویریں شہروں اور چوراہوں پر رکھیں اور ان تصویروں کے ارد گرد ناچیں ‘ بھنگڑا ڈالیں اور تبدیلی کے نعرے لگائیں ! ہر رطب و یابس کو پارٹی میں لینے کی یہی وہ پالیسی ہے جس کے نتیجہ میں تحریک انصاف کے عوامی نمائندے بھی سینٹ کے انتخابات میں اسی طرح فروخت ہوئے جیسے دوسری پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے نمائندے بکے۔ پرویز خٹک صاحب نے عمران خان کو رپورٹ پیش کی کہ تحریک انصاف کے سترہ سے بیس ارکان پارلیمنٹ نے ووٹ فروخت کیے! اس پر تعجب کیسا ؟ جب آپ ایسے نام نہاد سیاست دانوں کو پارٹی میں قبول کریں گے او رکرتے جائیں گے جو ایک پارٹی سے دوسری’دوسری سے تیسری’ تیسری سے چوتھی اور چوتھی سے پانچویں میں منتقل ہوتے جائیں گے تو انہیں فروخت ہونے سے کیسے روک سکیں گے؟
کیا ہے تحریک انصاف ! ایک ایسی بوتل کےسواکچھ نہیں جس میں شراب پرانی ہے صرف لیبل نیا ہے۔ کراچی میں قتل و غارت شروع ہوئی تو کسی نے خوب کہا تھا کہ کراچی بیروت بننے سے پہلے ہی بیروت بن گیا۔ تحریک انصاف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ بننے سے پپہلے ہی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ بن گئی۔ فرض کیجئے ‘آئندہ انتخابات میں عمران خان کی پارٹی کو حکومت مل جاتی ہے(جس کا بظاہر دور دور تک امکان نہیں ) تو عمران خان کے دائیں بائیں وزراء کون ہوں گے؟ جناب نذر گوندل ‘محترمہ فردوس عاشق اعوان ‘جناب عمر ایوب خان اورجناب رضا حیات ہراج! پھر پاکستان تبدیل ہوجائے گا! کرپشن ختم ہوجائے گی موسم نئے آئیں گے، ملک کا نام روشن ہوجائے گا!
جب یہ دلیل دی جاتی ہے تو آخر انہی سیاست دانوں سے کام چلانا ہے’فرشتے کہاں سے لائیں گے تو تحریک انصاف کے ذہنی افلاس پر رحم آتا ہے!خدا کے بندو! اس ملک کی آبادی بائیس کروڑ سے زیادہ ہے جب تبدیلی کا اعلان کردیا تو پھر آزمائے ہوئے بکاؤ مال کے بجائے جوان خون پر اعتماد کرو’ نئی ٹیم لاتے’کرپشن سے تنگ آئی ہوئی مڈل کلاس نئی ٹیم کو ہاتھوں ہاتھ لیتی۔ اگر آخر میں حکومت کرنے کا موقع نہیں ملنا تو یہ منزل اصولوں پر قائم رہ کر بھی حاصل کی جاسکتی تھی۔ استقامت اور نیک نامی تو مل جاتی! یہ وہی بات ہے جو ایک وکیل نے مقدمہ ہارنے والے سے کہی تھی کہ احمق !فلاں وکیل کو چار لاکھ دے کر مقدمہ ہارے ہو’ یہی کام چالیس ہزار میں کردیتا !
رہے رضا ربانی !جن کے ارشادات عالیہ پر ہمارے کچھ دوست کُڑھ رہے ہیں ۔ رضا ربانی صاحب کو مرفوع القلم قرار دیا جائے تو سارا مسئلہ ہی حل ہوجا تا ہے۔شوکت واسطی مرحوم نے کہا تھا کہ
شوکت ہمارے ساتھ عجب حادثہ ہوا
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ نکل گیا
رضا ربانی صاحب وقت سے پیچھے رہ گئے ۔
نہ پوچھ حال میرا چوپ خشکِ صحرا ہوں
لگا کے آگ جسے کارواں روانہ ہوا!
دہائیوں سے ‘عشروں سے’زمانوں سے اپنے خول میں بند ہیں ۔ وہی ٹریڈ یونین کا مائنڈ سیٹ ‘وہی ٹرک پر چڑھ کر فوج کے خلاف نعرے لگانے والی طفلانہ خواہش !دنیا آگے نکل چکی ہے،اب لوگ پوچھتے ہیں کہ رضا ربانی کو جمہوریت کا درد اس وقت نہ ہوا جب زرداری صاحب کو امارات کا پہاڑ قرار دیا گیا۔ جب یوسف رضا گیلانی صاحب اور راجہ پرویز اشرف کی حکومتوں میں احرام تک بک گئے۔ ٹین ایجر بلاول کے سامنے دست بستہ کھڑے ہونے والے رضا ربانی ایک لطیفے کے سوا کچھ نہیں ۔سینٹ کی چیئرمینی گزار لی۔ زندگی کا مقصد پورا ہوا ۔اپنی پارٹی کی کرپشن تو پسند آئی ہی تھی’مسلم لیگ نون کے زعما کی دولت کے انبار بھی جائز لگے۔جبھی ان کی حمایت میں عدلیہ کے خلاف خم ٹھونک کر کھڑے ہوگئے۔ صلہ بھی جلد ہی مل گیا۔ نواز شریف صاحب نے چیئرمینی کے لیے ان کا نام تجویزکردیا ۔یہ اور بات کہ سنتے ہیں اصل میں کوئی دوسرا نام چلایا ہے،مگر کاسے میں جو سکہ بھی پڑ جائے ‘غنیمت ہے۔کھنکتا تو ہے
No comments:
Post a Comment