جان فرانسس سے پہلی ملاقات ایک خوشگوار حادثہ تھی
یہ 2010 کی بات ہے۔ ہم میا ں بیوی میلبورن میں تھے۔ صاحبزادے نے اپارٹمنٹ چھوڑ کر صحن والا گھر لے لیا۔ اس لیے کہ اسے معلوم تھا باپ صحن کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جون جولائی کی کڑکتی ظہر بھی کمرے میں پنکھے کے نیچے نہیں ‘شیشم یا کیکر کے نیچے پڑھنا پسند کرتا ہوں ۔اور جاڑوں میں تو جب تک سورج کی آخری کرن رہتی ہے دھوپ کے ساتھ چمٹا رہتا ہوں۔
صحن کیا تھا ‘گھر کے عقبی حصے میں بڑا لان تھا اور سامنے والے حصے میں بھی۔بیگم نے لان کا چارج فوراً لے لیا اس لیے کہ گھاس پودوں پھولوں اور سبزیوں کی پرورش کا شوق اس راجپوت خاتون کے اندر یوں سمایا ہوا ہے کہ کوئی اور شوق ‘شغل, ہمسری نہیں کرسکتا۔
نرسری دیکھ کر قدم اس کی طرف یوں بے اختیار بڑھتے ہیں جیسے میاں کے بک شاپ کی طرف ! علم اس حوالے سے اس قدر ہے کہ پودا دیسی ہو یا فرنگی ۔اس کی تاریخ اس کی پیدائش اور پرورش کا ماحول ‘اس کے بڑھنے یا نہ بڑھنے کے اسباب’ سب معلوم ہیں سرکاری رہائش گاہوں کے ارد گرد ‘چاروں طرف صحن ہوتے تھے ۔سبزیاں شاید ہی بازار سے آئی ہوں ۔ ایک دفعہ چھت پر جانا ہوا تو منوں کے حساب سے پیاز ‘بکھرا پڑا تھا ،پوچھا کہاں سے آیا بتایا کہ خود اگایا ہے ۔
یہاں جہالت کا یہ عالم ہے کہ آتے جاتے کبھی غور نہ کیا ۔انگوروں کی فصل اترتی تو اقارب کے علاوہ محلے میں بھی بٹتی۔ سٹرابیری تک گھر میں اگائی۔ انجیر،مالٹے ،لیموں امرود تو خیر گھر کے ہوتے ہی ہیں۔ جس ملک سے بھی واپس آئیں سامان میں وہاں کے پودے بھی شامل ہوتے!
میلبورن والے گھر کے لان کا انتظام عفیفہ نے سنبھال لیا ۔وہاں باغبان کہاں ! ہر شخص خود ہی گھر کا باغبان ہے،خود ہی باورچی ہے، خود ہی خاکروب ہے اور خود ہی ڈرائیور بھی ہے! بلکہ مستری اور الیکٹریشن بھی خود ہی ہے۔ اس لیے کہ الیکٹریشن دس بیس منٹ کے ایک سو ڈالر لے لیتا ہے۔ کموڈ ٹوٹے تو نیا کموڈ تو تھوڑے پیسوں میں آئے گا مگر لگانے والا سینکڑوں ڈالر چارج کرے گا۔ اسی لیے اکثر لوگ وہاں گھر کے مالک ہونے کے ساتھ
Handy man
بھی ہوتے ہیں ۔
کیاریاں بنائیں ‘مٹی ہموارکی’کھاد منگوا کر ڈالی ۔پھولوں والے پودے لگائے۔ سبزیوں کے بیج بوئے، گھاس کی نوک پلک سنواری! پانی دیا ،روشوں کے ارد گرد اینٹوں کی حفاظتی دیوار بنائی، مگر کہاں تک خود کرتیں !لان درختوں سے اٹا تھا ۔بے ہنگم ٹہنیاں بے مہاراونٹ کی طرح ہر طرف جارہی تھیں۔ یہ ان کے بس کا کام نہ تھا۔ اس میں کلہاڑی کا عمل دخل تھا۔ چنانچہ صاحبزادے کو کہہ کر ایک دن کے لیے باغبان کی خدمات حاصل کیں ۔ سفید فام آسٹریلوی باغبان آیا، سارا دن لگا رہا۔ کلہاڑی سے شاخیں کاٹیں،درختوں کو آراستہ کیا، خاتون کا علم اس باب میں باغبان سے زیادہ اور ذوق زیادہ گہرا۔ دو یا تین سو ڈالر ادا کرتے ہوئے عدم اطمینان کا اظہار کردیا۔
اب یہاں ہمارا اور ا ن سفید چمڑی والوں کا فرق واضح ہوتا ہے! مقطع میں سخن گسترانہ بات آپڑتی ہے۔ گاہک کا اور کسٹمر کا اور کلائنٹ کا عدم اطمینان ہمارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ تاجر سے مال کی شکایت کریں گے تو بہت تیر مارے گا تو مسکرا کر بات سن لے گا۔ اکثریت اتنا بھی نہیں کرتی! سکول جاکر بچوں کے استاد یا استانی سے پوری داستان کہہ ڈالیں گے۔ردِ عمل میں کچھ بھی نہیں دکھائی دے گا۔ ترقی یافتہ ملکوں کی جان ہی اس طوطے میں ہے۔ معذرت کہ یہ کمال صرف سفید چمڑی والوں کا نہیں ‘ سنگاپور ‘ہانگ کانگ اور جاپان کے زرد فام بھی ا س ضمن میں کمال کو پہنچے ہوئے ہیں ۔ جاپان میں ایک بار ایک ٹرین تین منٹ تاخیر سے پہنچی تو معتبر روایت ہے کہ ایک ایک مسافر سے انتظامیہ نے فرداً فرداً معافی مانگی! ایسے کئی واقعات کی چشم دید گواہی کالم نگار کے پاس ہے سڈنی سے وزیٹنگ کارڈ چھپوائے ۔قیمت ادا کردی ۔صرف اتنا شکوہ کیا ‘وہ بھی مدھم لہجے میں کہ طباعت پسند نہیں آئی ۔رنگ شارپ نہیں ہیں ۔ تین دن بعد پوری قیمت واپس آگئی ،ساتھ ڈھیروں معذرت کہ آپ کو اطمینان نہیں ہوا۔سخت افسوس ‘اور ندمت ہے۔اگلی بار آپ کا کام آپ کے ذوق اور اطمینان سے ہم آہنگ ہوگا۔ اس بار کام آپ کو پسند نہیں اس لیے اس کے دام لینا مناسب نہیں ۔
تیرہ چودہ برس پہلے صاحبزادے لندن سے مارک اینڈ سپنسر کا کوٹ لے آئے۔ پہنا تو گھٹنوں سے بھی نیچے آرہا تھا۔بالکل کسی کی والدہ لگنے لگا۔ ڈانٹا کہ بغیر ما پ کے اندازے سے’جناب لے آئے۔ سو ڈیڑھ سو (یا جتنے بھی تھے) پاؤنڈ بیکار گئے۔ اسرار صاحب ہنسے ‘ابو! جب لندن آئیں گے تو تبدیل کرالیں گے۔ بتایا کہ لندن جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔اسرار خاموش ہوگئے۔ بزرگوں کی دعا ہے’ اپنا کوئی کمال نہیں ‘بچے جو باپ سے زیادہ پڑھے لکھے ہیں ۔بحث نہیں کرتے ‘غیر منطقی بات سن کر بھی خاموش ہو جاتے ہیں ۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ کوٹ الماری میں رکھ دیا دو سال گزر گئے ۔ان دنوں مزدوری وزارت خزانہ کے عسکری حصے میں لگی ہوئی تھی۔ورلڈ بنک کے ساتھ میٹنگ کے ضمن میں واشنگٹن جانا ہوا۔ واپسی پر کچھ تعطیل لی اور انگلستان میں ٹھہرا۔ اسرار ان دنوں ایک قصبے گلوسٹر میں ملازمت کررہے تھے۔ کیا نظم و ضبط ہے۔ ۔بتایا کہ وہ ائیر پورٹ نہیں آسکیں گے اس لیے کہ ڈیوٹی پر ہیں اور چھٹی نہیں مل سکتی۔ ہاں کام سے فارغ ہو کر پہنچ جائیں گے۔ یہاں تو چھوٹا ملاز م ہے یا بڑا ‘باپ تو باپ ہے’دور کا رشتہ دار بھی آ رہا ہو تو دفتر سے سکول سے ہسپتال سے الغرض ڈیوٹی سے غیر حاضر ! آسمان گرتا ہے نہ زمین پھٹتی ہے۔تنخواہ پوری وصول کی جاتی ہے اور پھر یہ اصرار ہوتا ہے کہ آمدنی حلال ہے۔
سفارت خانے نے ائیر پورٹ سے لیا ۔سہ پہر کو اچھی طرح یاد ہے بنگالی لنگی( پنجابی دھوتی) میں ملبوس ظہر کی قصر ادا کررہا تھا کہ اسرار آئے! چند گھنٹوں کی ڈرائیو کے بعد گلوسٹر پہنچ گئے۔ اب وہاں روٹین یہ تھی کہ صاحبزادے تو صبح صبح کام پر چلے جاتے باپ آوارہ گردی کرتا ،کتابوں کی دکانیں چھانتا ۔گلوسٹر کے عین وسط میں مسجد ہے۔ڈھلتی ظہر کو وہاں پہنچتا۔وہاں گوا(بھارت) کے عبدالقادر کھوت صاحب سے ملاقات اور واقفیت ہوئی۔ یہ الگ داستان ہے(خود نوشت کا انتظار کیجیے) ایک دن آوارگی کے درمیان مارک اینڈ سپنسر کا بورڈ نظر آیا اندر چلا گیا۔ کاؤنٹر پر جو صاحب بیٹھے تھے انہیں بتایا کہ دو تین سال پہلے کوٹ خریدا تھا جو ماپ کے بالکل الٹ نکلا ،مسکرا کر کہا کل لے آئیے اور بدل لیجیے! احتیاطاً بتایا کہ ایک تو رسید نہیں ہے خریدا لندن کے سٹو رسے تھا۔دوسرے ‘ٹیگ اتر چکے ہیں ۔اس خدا کے بندے نے صرف ایک بات پوچھی “پہنتے تو نہیں رہے”؟ جواب دیا نہیں ! پہنتے کیسے؟ پورا ہی نہیں تھا !کہا ،کل لے آئیے اور ہاں اس کا متبادل ابھی دیکھ لیجیے۔ ایسا نہ ہو کل مال کم ہو! ایک کوٹ پسند آیا ۔اس نے الگ رکھ دیا۔ دوسرے دن کوٹ لاکر دیا اس پروردگار کی قسم جس نے قوموں کو اچھی اور بری قوموں میں تقسیم کیا ہے اور حکومتوں کو عادل اور ظالم حکومتوں میں بانٹا ہے ‘اس نے کوٹ کو ہاتھ میں لیا ‘دیکھے بغیر ‘اچھال کر ایک طرف پھینک دیا اور دوسرا جو کل الگ رکھوایا تھا ‘نکال کر حوالے کیا۔ ساتھ رسید بھی دی جسے واپس آتے وقت ائیر پورٹ پر دکھا کر ٹیکس کی رقم واپس وصول کی! ہائے افسوس ! نہ ہوا ہمارا تاجر ! کوٹ کو پھیلا کر غو ر سے دیکھتا ‘پھر اس کا رخ بجلی کے بلب کی طرف کرکے دوبارہ دیکھتا ‘ کوئی نہ کوئی موری (سوراخ) ڈھونڈتا اور منہ پر مارتا۔ آج بھی نہیں بھول سکتا ‘بہو نے دارالحکومت کی سب سے بڑی شان و شوکت والی ‘مارکیٹ سے میاں کے لیے جوتے خریدے ۔چھوٹے نکلے ،دوسرے دن تبدیل کرانے گئیں ۔رسید دکھائی صرف چوبیس گھنٹے گزرے تھے،تاجر نے بدلنے سے انکار کردیا۔
جان فرانسسس یہ بات ہضم کر ہی نہیں سکتا تھا کہ خاتون اس کے کام سے مطمئن نہیں ہوئیں۔ اس نے اسرار کو اسی شام ای میل کی اور صفائی پیش کی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے اپنی طرف سے مقدور بھر کوشش کی کہ کام صحیح ہو آپ کی والدہ خوش نہیں ہوئیں ۔ اس پر وہ بہت رنجیدہ اور متاسف ہے۔اور یہ کہ وہ آکر ذاتی طور پر معذرت کرنا چاہتا ہے۔
ہم اس سے زیادہ شرمندہ ہورہے تھے۔ دوسرے دن گھر چائے پر بلا لیا۔ اس کی لاطینی امریکہ (چلی) سے تعلق رکھنے والی بیگم ‘بریسی ا’اس کے ساتھ تھیں ۔ یہاں تو قصہ ہی کچھ اور نکلا،جان فرانسس پیشے کے لحاظ سے صحافی تھا۔ چوبیس برس نیوزی لینڈ رہا جہاں ایک معروف ہفت روزے کا ایڈیٹر رہا۔ پھر آسٹریلیا واپس آگیا جہاں کا وہ تھا! میلبورن میں اب وہ صحافت میں فری لانسنگ کررہا تھا ڈاکو منٹریز بنا رہا تھا۔ کیمرے کا اور پروڈکشن کا بادشاہ تھا۔ چند ہفتوں کے لیے گھروں میں باغبانی اس لیے کررہا تھا کہ میاں بیوی نے ورلڈ ٹور پر نکلنا تھا۔ جاپان وہاں سے لاطینی امریکہ’ پھر شمالی امریکہ یعنی یو ایس اے اور کینیڈا ‘پھر یورپ سے ہوتے ہوئے واپس آسٹریلیا آنا تھا۔ رقم زیادہ درکار تھی ۔جان نے باغبانی کا رخ کیا۔ ان ملکوں میں ہاتھ سے کام کرنے والے زیادہ کماتے ہیں ۔ایک دن میں دو یا تین گھروں کے لان درست کرنے اور درخت کاٹنے کا مطلب پانچ چھ سو ڈالر تھا۔ اس اثنا میں بریسی دفتر میں اوور ٹائم لگا رہی تھیں ! جان جب یہ سب بتا رہا تھا تو تیس سال پہلے کی ایک صبح یادآرہی تھی! روم کے وائی ایم سی اے ہوسٹل میں کالم نگار نے ایک کمرہ لیااور رات گزاری کہ اگلے دن نیپلز(ناپولی) روانہ ہونا تھا۔ صبح صبح دروازے پر دستک ہوئی ایک نوجوان وائپر لیے ہوئے کھڑا تھا۔ فرش کی صفائی کرنا تھی۔ باتیں ہوئیں تو اس نے بتایا کہ وہ یونیورسٹی میں لیکچرر ہے۔تعطیلات میں کچھ رقم کمانی ہے۔ صفائی کرنے کے کام میں اجرت خوب ہے ۔ہم نے تو یہ ہر جگہ لکھ دیا کہ الکاسب حبیب اللہ ! مگر حالت یہ ہے کہ جو تھرڈ ڈویژن میں بھی بی اے کرلیتا ہے اپنا سامان خود اٹھانے سے احتراز کرنے لگتا ہے۔ وزیروں سفیروں مشیروں سیکرٹریوں اور ان چھوٹے افسروں کے بریف کیس پکڑنے کے لیے نائب قاصد صبح سے دفتروں کے باہر کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ واہ ! واہ ! الکاسب حبیب اللہ!!
جان فرانسس سے دوستی کا یہ آغاز تھا حسنِ اتفاق یہ کہ اس کا گھر،ہمارے گھر سے دس منٹ کے پیدل فاصلے پر عقبی شاہراہ کے کنارے پر تھا۔ چند دن بعد اس نے ہماری دعوت کی! وسیع و عریض فراخ گھر، کھانے کی میز دیکھ کر اوسان خطا ہوگئے ۔بتایا کہ اٹلی سپیشل آرڈر پر بنوائی اور منگوائی ! بریسی سے اس کی دوسری شادی تھی اور بریسی کی بھی یہ دوسری شادی تھی۔ پہلی شادیوں سے دونوں کے بچے جوان اور شادی شدہ تھے۔ کبھی جان کے پوتے اور نواسے آتے ،کبھی بریسی کے اور دادا دادی یا نانی نانا کے گھر ٹھہرتے۔ یہاں سوتیلے یا سگے کا کوئی سوال نہ تھا۔ جان کے پوتے بریسی کے پاس سوتے اور بریسی کے نواسے جان کے گلےسے لپٹے ہوتے۔ جان میرا ہم عمر تھا ۔جس دن ہم چونسٹھ کے ہوئے، جان اور بریسی ہمارے ہاں آئے کیک اٹھا لائے ۔اس دن جان نے کھڑے ہوکر گیت گایا اور مجھے بھی ساتھ کھڑا کرلیا۔
NOW that we are sixty four
Will they need us?
Will they feed us?
(اب ہم چونسٹھ کے ہوگئے ہیں کیا یہ لوگ ہماری ضروت محسوس کریں گے َکیا یہ ہمارے کھانے پینے کا اہتمام کریں گے؟ )
یاد آیا والد گرامی مرحوم آخری چند برسو ں میں کبھی کبھی فرمایا کرتے تھے تر زقون و تنصرون لضعفا ء کم تمہیں اس لیے رزق دیا جارہا ہے اور اس لیے تمہاری مدد کی جارہی ہے کہ تم اپنے ضعیفوں اور بزرگوں کا خیال رکھتے ہو۔ جانے یہ حدیث نبوی ہے کہ کسی ولی کا قول ! مگر جان کے انگریزی گیت میں کتنی بے یقنی ہے اور اس قول مبارکہ میں کتنی نرمی اور راحت! ایک میں ضعیفوں پر احسان ہے ۔۔دوسرے میں ضعیفوں کا احسان ان پر ہے جو ان کی دیکھ بھال کررہے ہیں !
جان کی داستان عمران تک کس طرح پہنچتی ہے،اگلی نشست کا انتظار فرمائیے!
No comments:
Post a Comment