اگر اب بھی ہمالیہ الٹ کر اوپر نہیں آن گرتا تو کب گرے گا ؟ اگر اب بھی بحر ہند کا پانی اس دھرتی کو نگل نہیں جاتا تو کب نگلے گا ؟
خدا کا خوف کرو اہل پاکستان ،اللہ کے غضب سے ڈرو ،تمہاری بد بختی اسفل السافلین کے اس شرم ناک درجے پر پہنچ چکی ہے کہ فرشتے تاسف سے اور حیرت سے انگلیاں دانتوں میں دابے حکم الٰہی کا انتظار کررہے ہیں ، کیا عجب تم پر پتھر برسیں ،کیا عجب زمین دھنس جائے اور تم اس میں غرق ہوجاؤ۔
اے اہل پاکستان !شرم کرو ،شرم سے ڈوب مرو ،ایک عورت جس کی آمدنی شفاف ہے نہ شہرت ۔وہ تمہارے سامنے اپنا موازنہ جگر گوشہء رسول سے کررہی ہے اور اپنے باپ کا موازنہ اس پاک ہستی سے کررہی ہے جس کے ساتھ موازنہ کوئی صحابی کرسکتا ہے نہ کوئی تابعی ،کوئی ولی نہ کوئی صوفی!
نقل کفر کفر نہ باشد
“حضرت محمد ﷺ جب خانہ کعبہ میں نماز ادا کرتے تھے تو جب وہ سجدے میں جاتے تھے ،کفار کیا کرتے تھے؟تو کیا جو گھناؤنی حرکت کرتے تھے تو وہ حضرت فاطمہ الزہرہ ان کے اوپر سے وہ ہٹاتی جاتی تھیں تو میرے بھائیو! چونکہ فتح ہوئی نہ پھر !!،کیونکہ والد حق پر تھا۔ والد سچے راستے پرتھا تو نواز شریف جو آپ کا لیڈر ہے ،میرا لیڈر ہے، میرا باپ ہے ،وہ بھی حق کے راستے پر ہے”۔
کیا اس سے بڑی گستاخئ رسول ہو سکتی ہے؟ پہلے سرور کائنات ﷺ کا ذکر “کیونکہ والد حق پر تھا۔ والد سچے راستے پر تھا”
اس کے فوراً بعد یہ کہنا کہ “نواز شریف جو میرا باپ ہے وہ بھی حق پر ہے”
تمہیں کیا ہوگیا ہے َتمہاری غیرت کہاں گئی؟ اب میاں نواز شریف کا ذکر انبیا کے امام،دوجہانوں کے سردار کے بعد” وہ بھی حق کے راستے پر ہے” کے پیرائے میں آئے گا؟ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
یہ الفاظ ۔یہ موازنہ ‘سننے سے پہلے زمین پھٹ جاتی اور میں اس میں سما جاتا۔ یہ الفاظ ۔یہ موازنہ، اس عورت کے منہ سے نکلنے سے پہلے آسمان گر پڑتا اور میں ہلاک ہوچکا ہوتا۔ یہ موازنہ میرے کانوں میں پڑنے سے پہلے بہتر تھا کہ پگھلا ہوا سیسہ میرے کانوں میں پڑتا ۔یہ ویڈیو کلپ جو اس ناپاک گستاخ موازنےپر مشتمل ہے اس کلپ کو دیکھنےسے پہلے میری آنکھوں میں سلائی پھر جاتی ،میری آنکھیں نکال لی جاتیں ۔
اس خدا کی قسم جس نے اس قوم کے سر پر اس خاندان کو عذاب کے طور پر مسلط کیا ہے۔کروڑوں اربوں کھربوں مریم نواز آجائیں ،اپنی ساری دولت کے ساتھ تو فاطمۃ الزہرہ،جگر گوشہء رسول کے مقدس پاؤں کے نیچے آنے والی مٹی کے ایک حقیر ،مشکل سے نظر آنے والے ذرے کے برابر بھی نہیں ہوسکتیں ۔ نہیں ۔میں نے غلط کہا۔ خدا مجھے معاف کرے ،جگر گوشہء رسول کے پاؤں کے نیچے آنے والی مٹی کا ذرہ تو سوچ سے بھی پرے ہے حسن اور حسین کی والدہ ماجدہ کے غلاموں کے غلاموں اور پھر ا ن کے غلاموں کے غلاموں کے پاؤں کی مٹی کے ذرے کے برابر بھی اس جیسی اربوں کھربوں عورتیں نہیں ہوسکتیں ۔
خدا کی پناہ !چکی پیستے پیستے مقدس ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے،کائنات کے سردار کی بیٹی ،باب علم علی المرتضی کی زوجہ،جنت کےسردار حسن اور حسین رض کی ماں اور موازنہ مریم نواز سے ۔تو پھر اے اہل پاکستان،تیار ہوجاؤ ،تعجب نہیں اگر چیخ آسمانوں سے اترے ،اس کی گرج سے تمہارے محلات منہدم ہوجائیں اور تم یوں اوندھے گر پڑو جیسے بے جان درختوں کے تنے گرتے ہیں ۔
یہ خاندان اقتدار اور بے ہنگم بے پایاں دولت کے نشے میں اب خاندان نبوت کے ساتھ اپنا موازنہ کرنے لگ گیا ہے ۔مگر افسوس! دولت کے نشے میں مست اس خاندان کا تو ذکر ہی کیا ، رونا تو یہ ہے کہ حرمت رسول پر کٹ مرنے کا دعویٰ کرنے والے یہ سب کچھ دیکھ کر ،زندہ ہیں ، کھانا کھا رہے ہیں ، پانی پی رہے ہیں ، سانس لے رہے ہیں ، یہاں تو حالت یہ ہے کہ اس گستاخ موازنے پر کائنات کی سانس رک گئی یے ،پہاڑ حکم کے منتظر ہیں کہ ماتم میں ریزہ ریزہ ہوجائیں ،سمندر غم میں سوکھ جانا چاہتے ہیں اور جب خدا نے اپنا فیصلہ دے دیا تو ایسا ہی ہوگا،اے اہل پاکستان،ایسا ہی ہوگا۔
پھر اس گستاخی سے بڑھ کر ایک اور گستاخی ،آقائے کائنات کا ذکر
“کہ والد حق پر تھا، والد سچے راستے پر تھا”
اور اسی سانس میں،اسی فقرے میں یہ کہنا کہ
“میرا باپ بھی حق کے راستے پر ہے”۔
نعوذ باللہ !ایک لاکھ بار ،ایک کروڑ بار، ایک ارب بار، ایک کھرب بار ،نعوذباللہ! کس کا موازنہ کس کے ساتھ۔
بسی نادیدنی را دیدہ ام من
مرا ای کاشکی مادر نہ زادی
کاش ! میری ماں مجھے نہ جنتی اور میں یہ الفاظ نہ سنتا ۔
کیااس عورت کو اپنے باپ کے ساتھ موازنہ کرنے کے لیے پندرہ سو سال کے عرصے میں اور کوئی نہیں ملا۔؟ یہ اپنے باپ کا موازنہ کرنے سیدھی دربارِ رسالت جاپہنچی
کیوں ؟ کیا اندھیر پڑ گیا ہے ؟کیا مسلمان یہ برداشت کرلیں گے؟ خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے والے سید مکی مدنی العربیﷺ کا ذکر اور ساتھ یہ الفاظ کہ میرا باپ بھی حق کے راستے پر ہے۔
نواز شریف حق کے جس راستے پر ہے ،کیا یہ حق کا وہی راستہ ہے جس پر خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے والے آمنہ کے لعل چل رہے تھے؟ استغفار،کروڑ بار استغفار، تین کروڑ کی گھڑی پہننے والا باپ،منی لانڈرنگ کے مقدموں میں ملوث باپ ،ایک مل سے درجنوں فیکٹریاں ملیں کارخانے بنانے والا باپ ،دہلی سے لے کر مری تک بھارتیوں کے ساتھ ،وزارت خارجہ سے ماورا، ملنے والا باپ ،ایک طرف دھماکے میں سسکتے پاکستانی اور دوسری طرف اسی دن تقریر میں ظہرانے کے “کمزور” ہونے کا ذکر کرنے والا باپ، ایک غیر ملک میں چند ٹکو ں کی نوکری کا اقامہ بردار باپ، اپنے مال و دولت کے انبار در انبار کا حساب نہ دے سکنے والا باپ ،سچا اتنا کہ خالو کو پہچاننے میں گھنٹوں لگانے والا باپ، اور غضب خدا کا موازنہ خاتون جنت کے والد محترم کے ساتھ۔ننگی چٹائی پر سونے سے جن کے جسم اطہر پر نشان پڑ جاتے تھے ،پیٹ پر جن کے پتھر بندھے تھے، پتے اپنے صحابہ کے ساتھ جنہوں نے ابال ابال کر کھائے، فاقوں میں جن کے کئی کئی دن گزرتے تھے،روٹی پر گوشت کا ٹکڑا رکھ کر فرمایا یہ جاکر فاطمہ کو دو وہ کئی دن سے فاقہ ہے، میرے خدا! اس قوم پر رحم کر، کس کا موازنہ کس کے ساتھ !! سن رہی ہے اور چپ ہے۔
حق کا راستہ ایک ہے، صرف ایک،جس پر فاطمۃ الزہرہ کے گرامی قدر والد چلے۔ اس راستے پر چلنے والے حلال حرام اکٹھا نہیں کرتے۔ کروڑوں کی گھڑی نہیں باندھتے ،حق کے اس واحد راستے پر چلنے والوں کے بیٹے فخر کے ساتھ نہیں کہتے کہ ہم پاکستانی نہیں ، حق کے راستے پر چلنے والے قوم کی ماؤں بیٹیوں ،بوڑھوں ،یتیموں اپاہجوں کے خون پسینے کی کمائی سے اکٹھی کی گئی تیس تیس گاڑیوں میں بیٹھ کر عدالتوں میں تکبر سے نہیں پیش ہوتے۔
ہاں !حق کا راستہ صرف ایک ہے۔ جس پر فاطمہ کے والد اور حسن حسین کے نانا چلے۔ اس عورت کو کوئی بتاؤ کہ سارے اموی اور سارے عباسی اور سارے عثمانی اور سارے اندلسی اور سارے فاطمی خلفا مل کر بھی جرات نہیں کرسکتے کہ اپنا موازنہ نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ محبوب خدا احمد مجتبی ،محمد مصطفی ﷺ سے کرسکیں ۔ سلطان الپ ارسلان ،سلطان محمود غزنوی ،سلطان التمش، صلاح الدین ایوبی، نواز الدین زنگی، اورنگزیب عالم گیر جیسے شہنشاہ جن کی سلطنتیں ملکوں اور کشوروں اور اقلیموں پر پھیلی ہوئی تھیں ! ذات گرامی کا ذکر کرتے ہوئے کانپ کانپ اٹھتے، موازنہ کرنے کا سوال ہی نہیں تھا، تمہارا تو یہ حال ہے کہ اپنے چھوڑے ہوئے گاؤں کے نام پر تم نے محلات قطار اندر قطار اندر قطار کھڑے کئے، عوام کے بیت المال سے تم ایک غسل خانے پر کروڑوں روپے لگاتے ہو،چھوڑے ہوئے گاؤں کے نام پر جو محلات کا شہر بسایا ہے ،اس کے گرد چار دیواری ۔اس تک جانے والی شاہراہیں ، سب قوم کے خزانے سے،ہردوسرے محل کو سرکاری اقامت گاہ قرار دیتے ہوتاکہ اپنی جیب سے کچھ خرچ نہ کرنا پڑے، اور اب تمہاری دیدہ دلیری ،تمہاری جرات ،یہاں تک آ پہنچی ہے کہ تمہیں اپنا موازنہ کرنے کے لیے خدا اور پیغمبر اور ان کی مقدس صاحبزادی کے علاوہ اور کوئی نہیں ملتا۔ تم میں تو یہ بھی ہمت نہیں کہ اتنا ہی بتا دو کہ آخر حلف نامے میں ختم نبوت کی شق کس کے کہنے پر بدلی گئی۔
ہم شرمندہ ہیں !اے دخترِ رسول
ہم شرمندہ ہیں !اے جگر گوشہء رسول ! ہم مجرم ہیں !
No comments:
Post a Comment