Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, February 04, 2025

وہاں روسی رسم الخط! یہاں انگریزی زبان

!!

استعمار دور اندیش ہوتا ہے۔ وہ ایسے اقدامات اٹھاتا ہے کہ ظاہری غلامی ختم ہو بھی جائے تو تہذیبی غلامی ہمیشہ رہے! اپنے ملک کی مثال ہی لے لیجیے۔ پون صدی ہو چکی ابھی تک انگریزی مسلط ہے۔ بینک کے چیک سے لے کر بجلی کے بل تک‘ سب کچھ انگریزی میں ہے۔ سارا کاروبارِ مملکت فرنگی زبان میں چل رہا ہے۔ بظاہر تبدیلی کا امکان بھی نہیں! ترکی میں دیکھ لیجیے کیا ہوا۔ استعمار تو نہ تھا مگر لباس اور رسم الخط کی تبدیلی بہت بڑا تہذیبی دھچکا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا چند برس پہلے صدر اردوان نے کوشش کی تھی کہ اصل رسم الخط کی طرف‘ جو اتا ترک سے پہلے تھا‘ مراجعت کی جائے۔ صدر اردوان کے الفاظ کچھ اس قسم کے تھے کہ اپنے باپ دادا کی قبروں کے کتبے تو پڑھ سکو! اس پر مغرب نے واویلا کیا اور آسمان سر پر اٹھا لیا کہ عثمانی (آٹومن) رسم الخط واپس لانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس قبیل کی باتیں بھی پھیلائی گئیں کہ سلطنت عثمانیہ کا احیا کیا جا رہا ہے۔ وسط ایشیائی ملکوں پر روسی رسم الخط مسلط کر کے روسی استعمار نے اپنی جڑیں زمین کے اندر دور تک پھیلا دیں۔ بظاہر استعمار کو گئے تین عشروں سے زائد کا عرصہ ہو چکا مگر روسی رسم الخط ایک پہاڑ کی مثل پہلے کی طرح ہی کھڑا ہے۔ اس رسم الخط نے ان ریاستوں کو باقی دنیا سے بدستور کاٹ کر رکھا ہوا ہے اور تعلیم‘ صنعت‘ زراعت‘ میڈیا سمیت ہر شعبے میں روس سے وابستہ کیا ہوا ہے۔ رسم الخط بدلنے کی ہر کوشش‘ جو ان ریاستوں نے کی‘ ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی۔
سب سے پہلے ازبکستان نے فیصلہ کیا کہ روسی کی جگہ لاطینی رسم الخط رائج کیا جائے۔ 1993ء میں ازبک حکومت نے قانون بھی پاس کر دیا۔ رسم الخط بدلنے کیلئے فنڈز درکار ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی سیاسی اور معاشرتی الجھنیں بھی ابھر آتی ہیں۔ ازبک حکومت کو یہ مشکلات نظر آ رہی تھیں۔ قانون تو منظور ہو گیا تھا مگر اس کا عملی نفاذ آسان نہیں تھا؛ چنانچہ پارلیمنٹ نے عملیت پسندی اور حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے ایک اور قانون منظور کیا کہ نئے رسم الخط کا نفاذ مرحلہ وار ہو گا اور یہ تبدیلی مکمل طور پر 2010ء تک واقع ہو گی۔ مگر عملی طور پر ایسا نہ ہو سکا۔ آج بھی روسی رسم الخط رائج ہے۔ ہر جگہ پڑھا‘ لکھا‘ سمجھا اور قبول کیا جاتا ہے۔ لاطینی رسم الخط بھی چل رہا ہے مگر لُولے لنگڑے انداز میں۔ 2017ء میں قازقستان کے صدر نور سلطان نذر بے نے حکم جاری کیا کہ ملک میں روسی رسم الخط کی جگہ لاطینی رسم الخط لایا جائے گا۔ مگر آج بھی روسی رسم الخط وہاں غالب ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ روس کا منفی پروپیگنڈا ہے۔ فوراً شور برپا ہو جاتا ہے کہ یہ اُن روسیوں کے بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے جو ان ریاستوں میں آباد ہیں۔ ساتھ ہی اس ایشو کو سیاسی رنگ دیا جاتا ہے کہ یہ روس کے دائرۂ اثر کو کم کرنے کی کوشش ہے۔ سوویت یونین تو اپنی موت مر چکا مگر روس کا سامراجی طرزِ فکر جوں کا توں موجود ہے۔ وہ اپنے زعم میں ان ریاستوں کا سرپرست ہے اور رہنما۔ رسم الخط بدلنے سے اس کے سیاسی اور عسکری غلبے کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے روسی میڈیا‘ روسی حکومت اور روس کی اَپر کلاس‘ سب وسط ایشیائی ریاستوں کی اُن تمام کوششوں کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں جو وہ رسم الخط بدلنے کے لیے کی جا رہی ہیں!ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اس لٹریچر کا کیا بنے گا جو روسی رسم الخط میں شائع ہو چکا ہے اور لاکھوں کتابوں کی شکل میں موجود ہے۔ مگر جب رسم الخط عربی سے لاطینی اور پھر روسی کیا گیا تھا تو اس وقت یہ سوال کیوں نہ اٹھایا گیا؟
اس مسئلے میں ایک پیچیدگی بھی نظر آتی ہے۔ کیا ان ریاستوں کی حکومتیں‘ یعنی برسر اقتدار طبقہ‘ صدقِ دل سے رسم الخط کی تبدیلی چاہتا ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈتے اور دیتے ہوئے یہ حقیقت سامنے رکھنی چاہیے کہ ان ریاستوں میں بدترین قسم کی آمریت رائج ہے۔ حکمران وہی چلے آ رہے ہیں جو سوویت یونین کے انہدام سے پہلے بھی کسی نہ کسی صورت اقتدار میں تھے۔ روسی رسم الخط کا سب سے زیادہ فائدہ اسی کلاس کو ہے۔ اس رسم الخط کی وجہ سے عوام جمہوری دنیا سے کٹے ہوئے ہیں۔ انہیں معلوم ہی نہیں باقی دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ انٹرنیٹ بھی ان کے لیے بیکار ہے۔ انٹرنیٹ پر بھی وہ وہی کچھ پڑھیں اور جانیں گے جو روسی زبان میں موجود ہوگا۔ یوں روسی رسم الخط‘ آمریت کے لیے ایک سہارے سے کم نہیں۔ لاطینی رسم الخط آمریت کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہو سکتا ہے۔ عوام ذہنی طور پر بیدار ہو گئے اور ہم عصر دنیا کے حقائق سے آشنا‘ تو آزاد اور صاف ستھرے انتخابات کا مطالبہ کریں گے!! پاکستان میں بھی کم وبیش یہی صورت حال ہے۔ بیورو کریسی اردو کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس وقت بیورو کریسی ایک ایسی کلاس ہے جو انگریزی کی وجہ سے عوام سے دور ہے۔ کل سرکاری احکام کی زبان اردو ہو گئی تو بیورو کریسی کا سامراجی رنگ پھیکا پڑ جائے گا۔ کابینہ ڈویژن‘ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں جو بیورو کریٹ براجمان ہیں وہ فائلوں پر جو کچھ لکھتے ہیں‘ انگریزی میں لکھتے ہیں۔ سرکاری احکام انگریزی میں جاری کرتے ہیں۔ اس سے انہیں عوام سے الگ ایک خاص مقام حاصل ہے۔ یہ مقام مکروہ سہی‘ ہے تو اعلیٰ! چنانچہ وہ اردو کو نافذ کر کے عوام کے ساتھ شراکتِ اقتدار کبھی نہیں کریں گے!! تقریریں اردو کے حق میں ہوتی رہیں گی! نعرے لگائے جاتے رہیں گے۔ کانفرنسیں ہوتی رہیں گی! پانی کے ڈول نکالے جاتے رہیں گے مگر کتے کی لاش کنویں کے اندر ہی رہے گی! چھتیس برس اعلیٰ بیورو کریسی کا حصہ ہونے کی وجہ سے مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ بیورو کریسی کے جسم میں پیپ کہاں پڑی ہوئی ہے‘ اور اس پیپ کا علاج کس نشتر میں ہے۔ یہ موضوع تفصیل کا متقاضی ہے!
تاجکستان کی طرف واپس آتے ہیں۔ تاجکستان وسط ایشیا کی واحد ریاست ہے جو ترکی الاصل (Turkic) نہیں ہے بلکہ فارسی الاصل ہے۔ اس کے لیے فارسی رسم الخط کی طرف واپس آنا‘ دوسری ریاستوں کی نسبت آسان ہے۔ دوسری ریاستوں کے سامنے کوئی ماڈل موجود نہیں مگر تاجکستان‘ ایران اور افغانستان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ یہ دونوں ممالک کاروبارِ حکومت فارسی زبان کے ذریعے چلا رہے ہیں اور دونوں میں رسم الخط فارسی ہی ہے۔ کی بورڈ سے لے کر ویب سائٹس تک ہر شے تیار ہے۔ صرف ''گنجور‘‘ ویب سائٹ ہی کا اندازہ لگائیے۔ فارسی ادب کے تمام ذخائر‘ کیا نثر اور کیا شاعری ''گنجور‘‘ میں دستیاب ہیں۔ مگر اس کے باوجود معاملہ اس قدر سادہ نہیں۔ فرض کیجیے تاجکستان فارسی عربی رسم الخط کی طرف پلٹنے کا اعلان کرتا ہے۔ فوراً پہلا اعتراض یہ کیا جائے گا کہ اس سے وسط ایشیا میں انتہا پسندی پھیلے گی۔ بدقسمتی سے اس وقت افغانستان اور ایران کی حکومتوں کو انتہا پسندی کے ساتھ بریکٹ کیا جاتا ہے! تاجکستان کی حکومت رسم الخط تبدیل کر کے ان ملکوں کے دروازے اپنے ملک میں کیوں کھولے گی؟؟ رسم الخط کی تبدیلی روس کو تو خیر کیا راس آئے گی‘ خود ان ریاستوں کی حکومتوں کو راس نہیں آ سکتی! چنانچہ یہ طے ہے کہ ان ملکوں میں‘ بشمول تاجکستان‘ غالب رسم الخط روسی ہی رہے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے پاکستان میں اردو کے نفاذ کا خواب ایک سراب سے زیادہ نہیں!! بقول محب عارفی
شریعت خس و خار ہی کی چلے گی
علم رنگ و بو کے نکلتے رہیں گے
مچلتے رہیں روشنی کے پتنگے
دیے میرے کاجل اگلتے رہیں گے
رواں ہر طرف ذوقِ پستی رہے گا
بلندی کے چشمے ابلتے رہیں گے

Monday, February 03, 2025

تاجکستان کا رسم الخط …غلطیاں اور غلط فہمیاں

Tajiki or persian Tajik is a dialect of Persian written in Cyrillic. Anyone passionate about the Persian language can learn Tajik Script.
''تاجکی یا تاجک فارسی‘ فارسی کا ایک لہجہ ہے جو روسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ فارسی زبان کا کوئی بھی شائق تاجکی رسم الخط سیکھ سکتا ہے‘‘۔
''تناقض فی الاصطلاح‘‘ 

(Contradiction in terms) 

کا یہ مایوس کُن مظاہرہ میڈیا کرتا یا کوئی اور‘ تو قابلِ توجہ نہ ہوتا مگر یہ اعلان ایک یونیورسٹی کی طرف سے ہے۔ ایک ایسی یونیورسٹی جو زبانوں کی تعلیم کے لیے معروف ہے اور دارالحکومت کی بااعتبار یونیورسٹیوں میں سرفہرست ہے۔ یہ اعلان تاجکی پڑھانے کے کسی پروگرام کے حوالے سے ہے۔ جس طرح تاریخ پڑھانے کے لیے فلسفۂ تاریخ کا علم لازم ہے اور جس طرح اقتصادیات کے استاد کے لیے ترقی یافتہ ملکوں کی معاشی تاریخ کا علم ضروری ہے‘ بالکل اسی طرح زبان پڑھانے کے لیے اس زبان کی تاریخ اور تاریخی ادوار سے آشنائی ازحد ضروری ہے۔ اب اگر پڑھانے والا روسی اور تاجکی رسم الخط کو متبادل لفظ کے طور پر استعمال کر رہا ہے‘ اور وہ بھی ایک یونیورسٹی میں‘ تو یہ علم کے ساتھ زیادتی ہے۔
تاجکی زبان روسی رسم الخط 

(Cyrillic) 

میں لکھی جا رہی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ازبک‘ قازق اور کرغستانی زبانیں روسی رسم الخط میں لکھی جا رہی ہیں۔ اگر اسے تاجکی رسم الخط کہیں گے تو پھر کیا یہ بھی کہیں گے کہ قازق اور ازبک بھی تاجکی رسم الخط میں لکھی جا رہی ہیں؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں کہہ سکتے! اگر برطانوی استعمار‘ برصغیر کی زبانوں پر خدا نخواستہ‘ انگریزی رسم الخط مسلط کرتا اور ہم اردو انگریزی رسم الخط میں لکھ رہے ہوتے تو کیا ہم اسے اردو رسم الخط کہتے؟ نہیں بلکہ اسے انگریزی رسم الخط کہتے۔ ترکی لاطینی رسم الخط میں لکھی جا رہی ہے۔ اسے ترکی رسم الخط نہیں کہا جاتا۔ لاطینی ہی کہا جاتا ہے۔
مظالم تو انگریزوں نے برصغیر پر بھی بہت کیے مگر جو سلوک روسیوں نے ترکستان کے ساتھ کیا‘ اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ انیسویں صدی کے وسط میں ٹوٹل بائیس سال کے عرصہ میں زار کی فوجوں نے وہ سارا ترکستان‘ جو سیر دریا کے جنوب میں تھا‘ فتح کر لیا۔ فاتح ترکستان جنرل کوف فرغانہ کی ایک مسجد میں سجدے میں گئے ہوئے نمازیوں کی گردنوں پر پاؤں رکھ کر گزرا۔ پہلی عالمی جنگ کے خاتمے پر بالشویک انقلاب آ گیا۔ سرخ انقلابیوں نے سادہ دل ترکستانیوں کو آزادی کا لالچ دے کر ساتھ ملا لیا اور جب زار سے فارغ ہوئے تو وعدے سے پھر گئے۔ جسے تفصیل میں دلچسپی ہو‘ اسے بسماچی تحریک کی تاریخ پڑھنی چاہیے جو ترکستان کی آزادی کے لیے چلی تھی۔ قصہ مختصر‘ غلام ترکستان زارِ روس سے بالشویک اشتراکیت کو منتقل ہوا۔ اشتراکیوں نے غلامی کو پختہ تر کرنے کے لیے دو زبردست کام کیے۔ ایک یہ کہ ترکستان کو پانچ ریاستوں میں تقسیم کر دیا جو آج قومی ریاستوں (نیشن سٹیٹس) کے طور پر قازقستان‘ ازبکستان‘ کرغزستان‘ تاجکستان اور ترکمانستان کے ناموں سے جانی جاتی ہیں۔ یہ تقسیم اس طرح کی گئی کہ لسانی ہم آہنگی نہ پیدا ہو۔ مثال کے طور پر فارسی بولنے والے دو بڑے شہر‘ سمرقند اور بخارا‘ تاجکستان کے بجائے ازبکستان میں ڈال دیے گئے۔ یہ تقسیم مکمل طور پر بندر بانٹ تھی۔ دوسرا بہت بڑا قدم روسی استعمار نے جو اٹھایا وہ رسم الخط کی جبری تبدیلی تھی۔ عربی رسم الخط کے بجائے لاطینی رسم الخط بزور نافذ کیا گیا۔ اس کے دو مقاصد تھے۔ اول ان ملکوں کو باقی مسلم دنیا سے تہذیبی طور پر کاٹ دینا۔ دوم‘ انہیں اپنے ماضی کے ادبی اور علمی ورثے سے بھی الگ کر دینا اور تہذیبی طور پر مغرب کا دست نگر کر دینا۔ بدقسمتی سے اتا ترک نے ترکی میں لاطینی رسم الخط نافذ کیا تو سوویت استعمار کے دل میں ڈر پیدا ہوا کہ اس طرح یہ ریاستیں ترکی کے قریب ہو جائیں گی۔ چنانچہ رسم الخط دوسری بار تبدیل کر دیا گیا۔ اس بار سیدھا سیدھا روسی رسم الخط مسلط کیا گیا۔ اس سے تاجکستان سمیت ساری ریاستیں ایک بار پھر ایک درد ناک مرحلے سے گزریں۔ سب سے زیادہ قابلِ رحم حالت ترکی کی ہے جو دنیا کی واحد زبان ہے جو آج بیک وقت چار رسم الخط بھگت رہی ہے۔ اول لاطینی رسم الخط جو ترکیہ میں رائج ہے۔ دوم روسی الخط جو وسط ایشیا میں رائج ہے۔ سوم عربی فارسی رسم الخط جو افغانستان کے ازبک استعمال کر رہے ہیں۔ (کیا آپ کو معلوم ہے کہ شمالی افغانستان کو ترکستان صغیر کہا جاتا ہے) اور چوتھا رسم الخط جو سنکیانگ کے ایغور ترک استعمال کر رہے ہیں! یہ ترک ایک دوسرے سے بات چیت کر سکتے ہیں مگر ایک دوسرے کی تحریر نہیں پڑھ سکتے۔ نوے کے عشرے میں جب وسط ایشیائی ریاستوں سے تاجروں کے وفود آنے لگے تو میرے استاد جناب اسد اللہ محقق‘ جو افغان ازبک تھے‘ ان وفود کی ترجمانی کے فرائض سر انجام دیا کرتے تھے۔ وہ اُس زمانے میں نمل میں تاجکی کے استاد کے طور پر بھی کام کرتے تھے۔ جناب اسد اللہ محقق صحیح معنوں میں ہفت زبان تھے اور اردو‘ فارسی‘ ازبک‘ پشتو‘ روسی‘ عربی اور انگریزی پر عبور رکھتے تھے۔ میں ازبک پڑھنے کے لیے دو سال ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا!
رسم الخط کی تبدیلی سے سوویت استعمار اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب ہوا۔ کروڑوں کتابیں راتوں رات بے معنی ہو گئیں۔ لائبریریاں علم کی لاشوں میں بدل گئیں۔ تمام علمی‘ ادبی‘ دینی اور سماجی کتب کے ذخیرے کو نئے رسم الخط میں بدلنا ممکن ہی نہ تھا۔ رسم الخط ایک قوم کی شناخت ہوتا ہے۔ یہ تہذیبی لباس کا درجہ رکھتا ہے‘ روسیوں نے ظاہری لباس کو بھی تبدیل کر دیا اور تہذیبی لباس کو بھی! نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد جو لوگ ان ریاستوں پر آمرانہ اقتدار قائم رکھے ہوئے ہیں وہ اندر سے روسی ہی ہیں۔ کچھ کی بیگمات روسی ہیں۔ یوں روس کے غیر مرئی اثر ونفوذ میں کوئی قابل ذکر کمی نہیں آئی۔ میں وسط ایشیا کے کئی بڑے بڑے شہروں میں کئی بار گیا ہوں خاص طور پر بخارا اور سمرقند کی گلی گلی‘ کوچہ کوچہ ماپا ہے۔ ہفتوں خاک چھانی ہے۔ یوں لگتا ہے سب کچھ وہی ہے مگر زبان (جِیب) کاٹ دی گئی ہے۔ جیسے درمیان میں دیوار نہیں‘ پردہ ضرور لٹکا ہوا ہے۔ فارسی وہی ہے جسے ہم دری کہتے ہیں۔ (غنیمت ہے کہ نام نہاد تہرانی لہجہ جس نے برصغیر کی فارسی کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے‘ سمرقند اور بخارا میں نہیں پہنچ سکا۔ وہاں فارسی اسی طرح شفاف اور خالص ہے جیسی صدیوں یہاں پڑھی جاتی رہی اور پڑھائی جاتی رہی) مگر جیسے ہی آپ کسی کو فارسی میں کچھ لکھ کر دیتے ہیں یا کوئی آپ کو کچھ لکھ کر دیتا ہے تو تاریکی کا ایک پردہ درمیان میں تن جاتا ہے۔ اگر آپ روسی حروفِ تہجی سے نابلد ہیں تو فارسی اور ترکی جانتے ہوئے بھی اَن پڑھ ہیں۔ بدقسمتی کا اندازہ لگائیے کہ آپ درجنوں بار بھی جائیں تو کوئی کتاب نہیں خرید سکتے۔ کتاب فروشوں کے پاس جو کچھ ہے‘ سب روسی رسم الخط میں ہے۔ آپ کسی لائبریری سے متمتع نہیں ہو سکتے۔ جامی اور علی شیرنوائی کے مجسمے تو دیکھ سکتے ہیں مگر ان کی سوانح‘ ان کا کلام نہیں پڑھ سکتے!
کیا کوئی امکان ہے کہ مستقبل میں‘ تاجکستان سمیت ان وسط ایشیائی ریاستوں میں اصل رسم الخط‘ روسی رسم الخط کی جگہ لے سکے؟ اس پر گفتگو ہم کل کی نشست میں کریں گے۔

Monday, January 27, 2025

ایف بی آر میں نئی گاڑیوں کا بکھیڑا

سنگاپور اور متحدہ عرب امارات کی کامیابی کی کئی وجوہات ہیں! مگر ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں‘ نجی شعبے کے برابر ہیں۔ بلکہ متحدہ عرب امارات میں سرکاری شعبے کی تنخواہیں نجی شعبے سے زیادہ ہیں۔ سرکاری شعبہ نجی شعبے کی وہاں قیادت کر رہا ہے۔ سنگاپور کے معمار‘ لی کؤان یئو نے سرکاری شعبے کی تنخواہیں پرائیویٹ سیکٹر کے برابر کیں اور بہترین افرادی قوت حاصل کی۔ اس کے بعد کرپشن کی گنجائش تھی ہی نہیں۔ سزائیں بھی سخت رکھی گئیں! یہ قصہ اس لیے چھیڑنا پڑا کہ ایف بی آر اپنے افسروں کے لیے کچھ گاڑیاں خرید رہا ہے اور قائمہ کمیٹی نے سخت اعتراض کیا ہے کہ کیوں خریدی جا رہی ہیں؟ وفاقی وزیر دفاع نے قائمہ کمیٹی کے اس اعتراض کا پس منظر بھی بتا دیا۔ ان کے بقول ایک کمپنی نے آرڈر لینے کے لیے سفارشیں کرائیں مگر ناکام رہی۔ ''خریداری رکوانے کے لیے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا استعمال کیا گیا‘‘۔

مگر یہ اصل ایشو نہیں۔ اصل ایشو وہ مائنڈ سیٹ ہے جو سرکاری ملازموں کو ہر وقت نشانے پر رکھتا ہے۔ یہ عجیب تضاد ہے کہ افسر دیانت دار بھی ہوں‘ محنتی بھی ہوں مگر انہیں مراعات دی جائیں نہ تنخواہیں بڑھائی جائیں۔ ایسا مائنڈ سیٹ رکھنے والوں کے نزدیک ہر سرکاری افسر رشوت خور ہے‘ گردن زدنی ہے اور اس قابل نہیں کہ اپنے فرائض منصبی سر انجام دینے کے لیے اسے کوئی سہولت دی جائے۔ روزنامہ دنیا واحد اُردو اخبار ہے جس میں کالموں کے نیچے کمنٹ لکھنے کی سہولت موجود ہے۔ اس سہولت کا خوب خوب غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایسے ایسے زہریلے‘ جھوٹے اور دشنام بھرے کمنٹ لکھے جاتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ کالم نگاروں کو تو گالیاں پڑتی ہی ہیں‘ ساتھ سرکاری ملازموں کو بھی طعن وتشنیع اور بہتان طرازی کا ہدف بنایا جاتا ہے۔ ایک اسسٹنٹ کمشنر جو تحصیل کا والی ہے‘ اور ڈپٹی کمشنر جو ضلع کا انچارج ہے‘ گاڑی کے بغیر کس طرح کام کر سکتا ہے؟ کیا وہ ہمہ وقت اپنے دفتر میں بیٹھا رہے؟ امن وامان قائم رکھنا اس کی ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے اسے ہر روز‘ اور دن میں کئی کئی بار سفر کرنا ہوتا ہے۔ پولیس افسر سواری کے بغیر جائے واردات پر کس طرح پہنچے گا؟ ایف بی آر کے نیچے دو بڑے محکمے ہیں۔ کسٹم اور ٹیکس! ایک اسسٹنٹ کمشنر انکم ٹیکس یا ڈپٹی کمشنر انکم ٹیکس کے سامنے کروڑ پتی وکیل پیش ہوتے ہیں۔ ارب پتی بزنس مین حاضر ہوتے ہیں۔ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ ان کا محتاج ہو؟ جو رشوت نہیں لینا چاہتے‘ انہیں بھی آپ مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ ناجائز ذرائع سے گاڑی خریدیں یا دھونس سے حاصل کریں! قائمہ کمیٹی برا نہ منائے تو منتخب نمائندوں کو ملنے والی مراعات کا بھی تجزیہ کرے۔ جب بھی منتخب نمائندوں کی مراعات اور مشاہروں میں اضافے کا بل پیش ہوتا ہے‘ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف باہم شیر وشکر ہو کر حمایت کرتے ہیں۔ ستم در ستم یہ کہ تمام اعتراضات سول افسرشاہی پر ہی کیے جاتے ہیں! معترضین سیانے بہت ہیں!
ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا تمام سرکاری ملازم خائن اور رشوت خور ہیں؟ عام تاثر یہی ہے کہ سب کے سب حرام کھاتے ہیں۔ ظاہر ہے جو ایسا سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں ان کے پاس اس تاثر کے حق میں دلیل کوئی نہیں۔ سرکاری ملازم اسی معاشرے کا حصہ ہیں جس میں سیاستدان‘ وکیل‘ ڈاکٹر‘ تاجر‘ صنعتکار‘ زمیندار اور مذہبی رہنما رہتے ہیں! کیا تمام ڈاکٹر لوٹ مار کر رہے ہیں؟ کیا تمام ڈاکٹر مریضوں کے ساتھ سفاکی سے پیش آتے ہیں؟ کیا تمام وکیل ججوں کو تھپڑ رسید کرتے ہیں؟ کیا ہسپتال پر حملہ کرنے میں ملک کے سارے وکیل شامل تھے؟ کیا تمام سیاستدان مرغانِ باد نما ہیں اور سب کے سب پارٹیاں تبدیل کرتے ہیں؟ کیا تمام تاجر ذخیرہ اندوزی‘ ملاوٹ‘ ٹیکس چوری اور ناروا نفع خوری کے مرتکب ہیں؟ کیا تمام صنعتکار مزدوروں کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں؟ کیا تمام مذہبی رہنما فرقہ وارانہ منافرت پھیلا رہے ہیں؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں!! اس معاشرے پر‘ جتنے بھی بُرے حالات ہیں‘ الحمدللہ خیر غالب ہے۔ جب بھی کسی بس یا ٹرین کا حادثہ ہوتا ہے‘ کچھ بدبخت یقینا زخمیوں اور جاں بحق ہونے والوں کا مال اسباب چرانے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہم سب جانتے ہیں کہ اکثریت اپنی جان کی پروا کیے بغیر‘ رات ہو یا دن‘ امدادی کاموں میں مصروف ہو جاتی ہے۔ اسی معاشرے میں خدا ترس ڈاکٹر بھی موجود ہیں۔ یہیں وہ وکیل پائے جاتے ہیں جو غلط کاموں میں اپنی وکیل برادری کی حمایت نہیں کرتے بلکہ غلط کام کرنے سے منع کرتے ہیں! ہمارے ہی بازاروں اور منڈیوں میں اکل حلال کا التزام کرنے والے تاجر موجود ہیں! جہاں کچھ اہلِ مذہب‘ مذہب کو سیاسی فوائد کے لیے استعمال کر رہے ہیں وہاں ایسے علمائے حق کی کمی نہیں جو چٹائی پر بیٹھ کر‘ روکھی سوکھی کھا کر خیر کی تلقین کر رہے ہیں اور فرقہ واریت کو نزدیک بھی نہیں پھٹکنے دیتے۔ بعینہ یقینا اسی معاشرے میں ایسے سرکاری ملازم بھی موجود ہیں جو حرام سے اجتناب کرتے ہیں اور سائلین کو آرام پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ سب سرکاری ملازم دیانت دار ہوں بالکل اسی طرح یہ بھی ناممکن ہے کہ تمام کے تمام سرکاری ملازم خائن اور رشوت خور ہوں! معاشرے میں مجموعی طور پر خیر کا جو تناسب ہوتا ہے‘معاشرے کے مختلف حصوں میں بھی خیر کا وہی تناسب ہوتا ہے۔ معاشرہ ایک درخت کے مانند ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ آدھے درخت پر لگے ہوئے تمام پھل شیریں ہوں اور دوسرے نصف پر تمام پھل تلخ ہوں۔ معاشرہ خیر اور شر کے آمیزے سے وجود پاتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ ہمارے معاشرے کا غالب حصہ شر پر مشتمل ہو!
پاکستانی بیورو کریسی اس وقت جن مسائل کا شکار ہے‘ ان کا ذمہ دار بیورو کریٹ نہیں بلکہ نظام ہے۔ نظام تین سو سال پرانا ہے۔ اس نظام کو بدلنے کی شدید ضرورت ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ دو تین حکومتیں پے درپے جن صاحب کو اس نظام میں اصلاحات لانے کی ذمہ داری سونپتی رہی ہیں‘ وہ خود اس نظام کے علم بردار تھے۔ انہوں نے ہر بار حلوہ کھایا اور گدڑی کاندھے پر رکھ کر اور سوٹا ہاتھ میں پکڑے گھر چلے گئے۔ اس نظام کو تبدیل وہی لوگ کریں گے جو خود اس نظام کی پیداوار نہیں! صرف ایک مثال پر غور کیجیے۔ یہاں ایک بار جس نے سی ایس ایس پاس کر لیا اور سروس میں آ گیا‘ گویا اس کا سروس کے ساتھ پکا نکاح ہو گیا۔ اب وہ اکیس بائیس تک لڑھکتا چلا جائے گا۔ مگر ترقی یافتہ ملکوں میں ہر مرحلے پر مقابلہ ہوتا ہے۔ سرکاری ملازم ڈپٹی کمشنر ہے یا ڈپٹی سیکرٹری یا ڈپٹی اکاؤنٹنٹ جنرل‘ اگر وہ ایک سٹیج اوپر جانا چاہتا ہے تو ایک بار پھر مقابلہ ہو گا۔ نجی شعبے سے امیدواروں کو مقابلے میں شرکت کی دعوت دی جائے گی۔ ضروری نہیں اس مقابلے میں ڈپٹی کمشنر یا ڈپٹی سیکرٹری یا ڈپٹی اکاؤنٹنٹ جنرل ہی ترقی کے لیے منتخب ہو۔ وہ ناکام بھی ہو سکتا ہے اور اس کے بجائے نجی شعبے سے آیا ہوا امیدوار اس کا باس بن سکتا ہے۔ آپ اگر سرکاری ملازموں کو پیتل کے بجائے سونا بنانا چاہتے ہیں تو ان کی تنخواہ اور مراعات نجی شعبے کے برابر کیجیے اور پھر ہر گریڈ کے لیے مقابلے کا امتحان لیجیے۔ میں ایسے لائق افسروں کو جانتا ہوں جنہیں بین الاقوامی اداروں نے‘ ان کی لیاقت کی وجہ سے‘ بلند تر پوسٹوں اور زیادہ بڑی تنخواہوں کی پیشکش کی اور وہ چلے گئے۔ اگر وہ سرکاری نوکری ہی میں رہتے تو ایسے افراد اُن کے باس بن جاتے جو ان کے مقابلے میں نالائق ہیں۔ ہر مرحلے پر بیورو کریسی میں نیا خون داخل کیجیے۔ تنخواہیں نجی شعبے کے برابر کیجیے۔اس کے بعد بھی کوئی کرپشن کرے تو اسے نشانِ عبرت بنا ئیے مگر کیا ایسا ہو پائے گا؟؟

Thursday, January 23, 2025

ٹیلنٹ جو مضافات میں ہے


نوجوان شاعر اسد اعوان شکوہ کناں تھے کہ مضافات میں بسنے والے شاعروں اور ادیبوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ غور کیا جائے تو یہ شکوہ بے جا بھی نہیں۔ مشاعروں میں وہی مخصوص چہرے دکھائی دیتے ہیں جنہیں دیکھتے دیکھتے لوگ جوانی سے بڑھاپے تک پہنچ گئے۔ ادبی میلے (فیسٹیول) آغاز ہوئے تو امید بندھی کہ انتخاب کا کینوس ذرا وسیع ہو گا مگر یہاں بھی گروہوں‘ دھڑے بندیوں‘ دوست نوازیوں اور مفادات کا طویل و عریض سلسلہ دیکھنے میں آیا۔ گھمسان کی اس جنگ میں اور اس انتہائی کٹ تھروٹ میرٹ کُش افرا تفری میں جہاں بڑے شہروں کے جینوئن شاعروں اور ادیبوں کو کونوں کھدروں میں دھکیل دیا گیا‘ وہاں مضافات کے اہلِ قلم کو کس نے پوچھنا تھا! بقول شاعر:
یہاں تو بھرتے نہیں زخم زار اپنے ہی
کسی کی زرد محبت کی کیا خبر لیتے
تاہم اکادمی ادبیات کی چیئر پرسن ڈاکٹر نجیبہ عارف نے ایک انقلابی قدم اٹھایا ہے۔ انہوں نے وہ کام کر دکھایا جو آج تک کسی نے نہیں کیا تھا۔ انہوں نے پورے ملک سے 20 نوجوان اہلِ قلم کو اکادمی ادبیات اسلام آباد بلا لیا۔ پہلے تو اکادمی نے اشتہار دے کر نام اور کوائف طلب کیے۔ پھر ایک ثقہ کمیٹی بنی جس نے پوری چھان بین اور غور و خوض کے بعد ان 20 نوجوانوں کو چنا۔ انہیں اکادمی نے اپنے مہمان خانے میں‘ جسے ''رائٹرز ہاؤس‘‘ کہا جاتا ہے‘ ٹھہرایا۔ پھر ایک منظم طریقے سے انہیں سینئر ادیبوں اور شاعروں سے ملوایا۔ ان بچوں کے اس قیام کے دوران اکادمی میں بہت سی تقاریب کا انعقاد بھی کیا گیا۔ یوں ان نوجوان لکھاریوں کو مشاہدہ کرنے کیلئے بہت کچھ میسر آگیا۔ یہ منتخب نوجوان بھکر‘ لودھراں‘ راولپنڈی‘ لاہور‘ جوہر آباد‘ مانسہرہ‘ ڈی آئی خان‘ مردان‘ کوہستان‘ کراچی‘ سانگھڑ‘ گوادر‘ پنجگور‘ خضدار‘ خاران‘ گلگت اور لیپا ویلی سے تعلق رکھتے ہیں۔ گویا ملک کے تمام حصوں کو نمائندگی دینے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ اس انتخاب میں مذہب‘ رنگ‘ نسل اور زبان کو بھی درمیان میں پڑنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ میں نے اکادمی کی چیئرپرسن ڈاکٹر نجیبہ عارف کو تجویز دی ہے کہ ایسا نمائندہ گروپ ہر چھ ماہ میں کم از کم ایک بار ضرور منتخب کیا جائے اور بلایا جائے۔ امید ہے کہ سرخ فیتہ اور فنڈز کی کمی آڑے نہیں آئے گی۔ دور افتادہ بستیوں سے اہلِ قلم کو بلا کر انہیں مین سٹریم میں رکھنا‘ قومی یکجہتی کے حوالے سے بھی بہت بڑی خدمت ہے۔ حب الوطنی کا تقاضا بھی یہی ہے۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ اس گروپ میں قلمکار خواتین صرف تین ہیں۔ یہاں توازن ذرا بگڑ گیا۔ خواتین کی تعداد نصف نہ بھی ہو تو کم از کم ایک تہائی ضرور ہونی چاہیے! امید ہے کہ اکادمی اس گزارش پر مثبت انداز میں غور کرے گی۔
''پاکستانی ادب کے معمار‘‘ ایک کتابی سلسلہ ہے جس کی بنیاد جناب افتخار عارف اکادمی ادبیات میں رکھ گئے تھے۔ اس سلسلے کے تحت نمایاں اور سرکردہ ادیبوں اور شاعروں کے فن اور شخصیت پر کام کرایا جاتا ہے جو اکادمی کی طرف سے کتاب کی صورت میں شائع ہوتا ہے۔ اب تک بہت سی شخصیات پر یہ تحقیقی اور سوانحی کام کرایا جا چکا ہے۔ ڈاکٹر نجیبہ عارف نے تازہ ترین کتابوں کے مصنفین کو بھی اکٹھا کیا اور جن شخصیات پر کام کیا گیا ان میں سے جس جس کا آنا ممکن ہوا‘ اسے بھی آنے کی زحمت دی گئی۔ یاسمین حمید پر ڈاکٹر بی بی امینہ نے کتاب لکھی ہے۔ دونوں تقریب میں موجود تھیں۔ پروفیسر اقبال آفاقی پر ڈاکٹر عامر سہیل نے کام کیا ہے۔ یہ دونوں حضرات بھی تشریف فرما تھے۔ اس لکھنے والے نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ اکادمی جو کتابیں شائع کراتی ہے وہ اس وقت صرف اکادمی ہی سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ ان کتابوں کی پورے ملک میں مارکیٹنگ کا انتظام کرنا ازحد ضروری ہے تاکہ شائقینِ ادب‘ بالخصوص طلبہ و طالبات کو ان کتب کے حصول میں دشواری نہ پیش آئے۔
اس تحریر کے آغاز میں مضافات کے ادیبوں کی بات ہوئی تھی۔ مضافات میں شاعری کمال کی ہو رہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے سرگودھا کے قاسم علی شاہ کی پنجابی نظم سنی تو ہوش اُڑ گئے۔ صرف ایک بند دیکھیے:
دل کردا حال اوئے پہریا روح دیندی پھرے دہائی
اوہدے منہ تے پَے گیاں جھُرڑیاں ‘ تُوں جیڑھی شکل بنائی
اوہدی اَکھ وچ کالا موتیا‘ اوہدی زلف دی پھِکی شائی
اُنہے دل وچ رانجھا سوریا کیوں کھیڑیاں دے گھر آئی
پہلے رنگ پور دے وچ ساڑیائی‘ مُڑ سٹیائی وچ گُستان
اتھے چور اچکّا چوہدری‘ اتھے لُنڈی رَن پردھان

اسد اعوان کی غزل کے تیور دیکھیے:

اونٹ کو باندھ دیا تیغ اتاری میں نے؍ 
شب حریفوں کے علاقے میں گزاری میں نے؍ 
ایسے لوگوں سے کوئی جیتنا مشکل تو نہ تھا
؍ جان کی بازی مگر جان کے ہاری میں نے؍ 
آج دیکھا ہے اسے جاتے ہوئے رستے میں؍ 
آج اس شخص کی تصویر اتاری میں نے؍ 
جنگجوئی میں بھی حساس مزاجی نہ گئی؍ 
اپنے گھوڑے کو کبھی ایڑ نہ ماری میں نے؍ 
توسنِ حرص و ہوس روند بھی سکتا تھا مجھے؍ 
چھوڑ دی ایسی ترے بعد سواری میں نے... 
نئے برس میں محبت نئی کروں گا اسد؍ 
کسی کے ہجر کا یہ آخری مہینہ ہے... 
خرقہ بردوش پھرے بادیہ پیمائی کی؍ 
:ہم نے آباد تری یاد سے تنہائی کی؍
 صحبتِ اہلِ سخن چھوڑ کے اس لڑکے نے
؍ میں سمجھتا ہوں کہ اِس دور میں دانائی کی؍ 
عید کا چاند سبھی دیکھنے نکلے‘ 
ہم نے؍ 
ختم رو رو کے ترے ہجر میں بینائی کی؍ 
ہم نہ مسجد میں گئے اور نہ درگاہوں پر؍ 
تیری چوکھٹ پہ ہمہ وقت جبیں سائی کی... 
درجہ بندی کے لیے خلق کی تقسیم نہ کی؍ 
کجکلاہوں کی کبھی شہر میں تکریم نہ کی؍! 
ساقیا تو نے بھی واعظ کو سبو پیش کی
ا؍ ساقیا! تو نے بھی میخواروں کی تعظیم نہ کی؍ 
یہ الگ بات مجھے تجھ سے جدا ہونا پڑا؍
 تیری تصویر مگر ہجر میں دو نیم نہ کی؍ 
اک ترے واسطے میں نے بھی مکمل اپنی
؍ صورتِ قیس ترے عشق میں تعلیم نہ کی

ایک اور شاعر شہباز راجہ کے چند اشعار:

موزوں نہیں ہے میری طبیعت کے واسطے
؍ لیکن یہ میرے شہر کی آب و ہوا تو ہے... 
سبھی کے ہاتھوں میں ہیں نفرتوں کی تلواریں؍ 
سو درمیاں میں محبت کی ڈھال لایا ہوں؍ 
تماشا کھلنے تلک سب رہیں گے سرگرداں؍ 
کسے خبر ہے کہ اب کیسی چال لایا ہوں
؍ بھلا نہ دے وہ کہیں سلسلے بہاروں کے؍ 
خزاں کی رُت میں بھی پھولوں کا تھال لایا ہوں
؍ چمن میں سارے پرندوں نے دی دعا شہباز
؍ شکاریوں کے چرا کر میں جال لایا ہوں

مضافات کے ایک اور شاعر مستحسن جامی کی تخلیقی صلاحیت ملاحظہ کیجیے
:
رنگ بدلا ہوا تھا پھولوں کا؍
 تم یقینا اداس گزرے تھے
... دستک دینے والے تجھ کو علم نہیں؍ 
دروازے کے دونوں جانب تالا ہے... 
اک کرب کا موسم ہے جو دائم ہے ابھی تک؍
 اک ہجر کا قصہ کہ مکمل نہیں ہوتا... 
ہم تلوار اٹھا نہیں پائے
؍ ہم آواز اٹھا سکتے تھے
... سوائے اس کے کوئی بھی مصروفیت نہیں ہے؍ 
میں ان دنوں بس چراغ تقسیم کر رہا ہوں... 
ہمارے پُرکھوں نے جوتے کی نوک پر رکھی؍ 
ہمارے پاس یہ دنیا جبھی نہیں آتی... 
پاس آنا تو بہت دور کہ اس شہر کے لوگ؍ 
اس کی تصویر میں شامل نہیں ہونے دیتے... 
خدا کا شکر کہ اس بُت نے آزمایا نہیں؍ 
وگرنہ سب کی محبت پہ حرف آنا تھا
... ایسے لگتا ہے بدن کاٹ رہی ہے میرا
؍ جس اذیت کا ابھی نام نہیں ہے کوئی

روزنامہ دنیا

Tuesday, January 21, 2025

پاکستان اور انڈیا کے درمیان کتابوں کی نقل وحمل


لاہور جب بھی آؤں‘ سب سے بڑے کتب فروش سے ضرور پوچھتا ہوں کہ انڈیا سے کتابیں آنے کا سلسلہ شروع ہوا یا نہیں؟ اب کے بھی یہی سوال کیا اور اب کے بھی اس کا جواب نفی میں تھا۔ شاید یہ ملک کا واحد کتاب فروش ہے جس نے اپنی تین چار منزلہ دکان میں کیفے بھی بنا رکھا ہے۔ مغربی ملکوں میں ایسے کیفے عام ہیں۔ آپ کتابیں بھی دیکھ اور پڑھ سکیں اور وہیں‘ چائے اور کافی بھی پی سکیں تو اس سے زیادہ لطف آور سچوایشن کیا ہو گی!! اسلام آباد میں ''مسٹر بکس‘‘ کے مالک یوسف صاحب نے‘ جو بہت اچھے دوست تھے‘ ایک بار بتایا تھا کہ وہ سٹار بکس کافی کی برانچ اپنی بک شاپ میں لانا چاہتے ہیں۔ اب تو یوسف مرحوم ہو گئے۔
بھارت سے کتابیں آنے اور کتابیں وہاں بھیجنے کا سلسلہ بند ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ زیادہ نقصان پاکستان کا ہو رہا ہے یا بھارت کا؟ 2012-13ء میں پاکستان میں 3811 کتابیں شائع ہوئیں جن میں سے ساڑھے آٹھ سو کے قریب انگریزی میں تھیں۔ اسی سال بھارت میں نوّے ہزار کتابیں چھپیں جن میں بائیس ہزار انگریزی زبان میں تھیں۔ یہ بائیس ہزار کتابیں ہمیں اُن کتابوں سے سستی مل سکتی ہیں جو اَب ہم یورپ یا امریکہ سے مہنگی منگوا رہے ہیں۔ آپ یہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ انڈیا کی آبادی زیادہ ہے اس لیے کتابیں بھی زیادہ تعداد میں شائع ہوتی ہیں۔ مگر ایران کے بارے میں کیا خیال ہے جس کی آبادی نو کروڑ ہے اور ایک سال میں چھپنے والی کتابوں کی تعداد ایک لاکھ سے اوپر ہے! برادر ملک ترکیہ کی آبادی بھی ساڑھے آٹھ کروڑ کے لگ بھگ ہے مگر ایک سال میں شائع ہونے والی کتابوں کی تعداد پچھتر‘ اسی ہزار سے کم نہیں ہوتی! ایک وجہ خواندگی کی شرح بھی ہے۔ ایران اور ترکیہ کی شرح خواندگی ہماری مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ آج اگر پیاز یا ٹماٹر کی قلت ہو جائے تو فوراً انڈیا سے منگوا لیے جائیں گے۔ کتابیں ہماری ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ اس وقت ڈالر اور پاؤنڈ کا جو ریٹ ہے اس میں یورپ اور امریکہ سے درآمد کی جانے والی کتابیں خریدنا آسان نہیں۔ اور جب کتابیں بکیں گی نہیں تو درآمد کون کرے گا؟ شاید وہ وقت قریب آ رہا ہے جب مطالعہ کے شائق جو چند پاگل ملک میں پائے جاتے ہیں وہ بھی ناپید ہو جائیں گے! حکومتیں ہمیں اشاریوں کی مار دیتی ہیں کہ معاشی اشاریے بہتر ہو رہے ہیں مگر اصل اشاریے اور ہیں! ہماری کرنسی کہاں کھڑی ہے؟ ہمارے پاسپورٹ کا عالمی رینکنگ میں کیا مقام ہے؟ ہماری کتنی فیصد آبادی ہوائی جہاز میں سفر کرتی ہے؟ اور ہر سال کتنے لوگ دوسرے ملکوں میں صرف سیر وتفریح کے لیے جاتے ہیں اور جا سکتے ہیں؟ کتنی کتابیں ہر سال چھپتی ہیں اور کتنی باہر سے منگوائی جاتی ہیں؟ یہ سب اشاریے وہ ہیں جو ہمیں کمزور‘ لاغر‘ نحیف اور غریب ثابت کرتے ہیں۔ مگر اب ایک اور اشاریہ بھی نمایاں ہو رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر سال کتنے پاکستانی سرسبز چراگاہوں کو تلاش کرتے ہوئے‘ وطن سے دور‘ کشتیوں میں سفر کرتے مر جاتے ہیں؟ یہ نوجوان کیوں جاتے ہیں؟ کیا انہیں جانا چاہیے؟ یہ ایک متنازع ایشو ہے۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ یہاں جو اقتصادی صورتحال ہے اس کے پیش نظر لوگ جانے پر مجبور ہیں۔ یہاں رہ کر وہ اچھے گھر بنا سکتے ہیں نہ اپنے خاندانوں کا معیارِ زندگی بہتر کر سکتے ہیں۔ مگر کیا مجبوری اس قدر ہے کہ جان کا خطرہ مول لیا جائے؟ اگر نوبت فاقہ کشی تک جا پہنچے اور یہاں بھی بھوک سے مر جانے کا اندیشہ ہو تو پھر تو کشتی میں مرنے کا خطرہ مول لینے کا جواز ہے۔ مگر کیا یہ لوگ جو کشتیوں میں مر جاتے ہیں یا جنہیں کشتیوں میں مار کر سمندروں میں پھینک دیا جاتا ہے‘ واقعی وطن میں بھوک سے مر رہے تھے؟ نہیں! ان کی حالت ایسی نہ تھی۔ سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ جو چالیس‘ پچاس لاکھ روپیہ یہ نوجوان فریبی ایجنٹوں کو دے کر اپنے لیے موت اور پسماندگان کے لیے عمر بھر کا ماتم خریدتے ہیں اسی سے یہاں رہ کر کوئی کاروبار کر کے خوشحالی کا سفر شروع کر سکتے ہیں۔ اس بہت بڑی آبادی والے ملک میں کچھ اشیا کی طلب مسلسل بڑھ رہی ہے۔ اشیائے خور ونوش کی دکانیں ہمیشہ چلیں گی۔ ریستوران اور ڈھابے کہیں بھی ویرانی کا شکار نہیں۔ ادویات کا بھی یہی حال ہے۔ بچوں کے ملبوسات اور جوتے غریب سے غریب کنبے بھی ضرور خریدتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بیسیوں نسخے ہیں۔ آخر اسی ملک میں قلاش کاروبار کر کے آسودہ حال ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ ہاں اگر قانونی طریقے سے جا سکتے ہیں تو ضرور جائیے۔ ایک مصیبت ہمارے معاشرے میں دوسروں کو دیکھنے اور دوسروں کو دکھانے کی ہے۔ ریس‘ حرص اور حسد کے عارضے عام ہیں۔ یہ بیماری گاؤں میں زیادہ ہے۔ فلاں باہر گیا اور اس نے اب کوٹھی تعمیر کر لی ہے‘ یہ ترقی کئی نوجوانوں کو بے چین کر دیتی ہے۔ گھر والے بھی سوچتے ہیں کہ اگر فلاں کا بیٹا جا سکتا ہے تو ہمارا بھی جائے‘ اسی لالچ اور امید میں لاکھوں روپے مانگ تانگ کر بچے کو روانہ کر دیتے ہیں‘ یہ سوچے بغیر کہ منزل تک پہنچنے والے چند ہی ہوتے ہیں باقی ریگستان کے سراب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک اور بیماری راتوں رات امیر بننے کی ہے۔ یہ سوچ کم ہی لوگوں میں پائی جاتی ہے کہ جائز طریقے سے راتوں رات امیر کوئی بھی نہیں بنتا‘ نہ بن سکتا ہے۔ سرکاری شعبہ ہو یا نجی‘ کسی اچھی پوزیشن تک پہنچنے میں دہائیاں صرف ہوتی ہیں۔ سپاہی کو تھانیدار بننے میں‘ بابو کو افسر بننے میں‘ لیکچرر کو پرنسپل بننے میں‘ ٹیچر کو ہیڈ ماسٹر بننے میں‘ مزدور کو ٹھیکیدار بننے میں‘ رپورٹر کو ایڈیٹر بننے میں‘ نئے انجینئر کو جی ایم بننے میں آدھی عمر کھپ جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح کاروبار میں بھی عروج تک پہنچنے میں عشرے صرف کرنا پڑتے ہیں۔ مشہور شاعر سنائی کے بقول پتھر کے ٹکڑے کو لعلِ بدخشاں یا عقیقِ یمن بننے میں کئی برس لگتے ہیں۔ کپاس کے بیج کو کتنے ہی مہینے مٹی اور پانی میں رہنا پڑتا ہے تب جا کر کسی معشوق کا لباس یا کسی شہید کا کفن بنتا ہے۔ بھیڑ کی پشت سے اتاری گئی اُون کو کسی عابد وزاہد کا جُبّہ بننے میں کتنے ہی دن لگ جاتے ہیں۔ ایک موزوں طبع بچے کو عالمِ باعمل یا شیریں کلام شاعر بننے کے لیے ایک عمر درکار ہے۔ اور اویس قرنی جیسی ہستیاں صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں! تیز رفتار بے ہنگم گاڑی راستے میں الٹ جاتی ہے‘ آہستہ اور محتاط ڈرائیور‘ تاخیر سے سہی‘ منزلِ مقصود پر پہنچ جاتے ہیں۔ کوئی ہے جو ان نوجوانوں کو بتائے کہ ہزاروں میل دور‘ موت کے بے رحم پنجوں کا شکار ہونے کے بجائے وطن ہی میں محنت کریں اور مستقل مزاجی سے کام لیں! یا پھر ایسی اہلیت حاصل کریں کہ دوسرے ملکوں میں جانے کے لیے قانونی راستہ کارگر ثابت ہو۔
بات کتابوں سے چلی تھی اور کہیں دور جا پہنچی! کوئی ہے جو حکومت کرنے والے صاحبان کو قائل کرے کہ بھارت سے گفت وشنید کر کے دونوں ملکوں کے درمیان کتابوں کی نقل وحمل کو ممکن بنائیں! بڑے میاں صاحب انڈیا سے تعلقات کو نارمل رکھنے کے حامی ہیں۔ آج ملک میں ان کی پارٹی حکمرانی کر رہی ہے۔ ان کے بھائی وزیراعظم ہیں۔ صاحبزادی وزیراعلیٰ ہیں۔ کاش بڑے میاں صاحب کو کتابوں میں دلچسپی ہوتی اور حکومت کو حکم دیتے کہ یہ بندش کھلوائیں۔ کتابیں بھیجنے اور منگوانے سے ہمارے دفاع کو کوئی خطرہ ہے نہ آن کو۔ بھارت میں اُردو پڑھنے لکھنے والوں کو بھی پاکستان میں چھپنے والی ادبی کتابوں اور رسالوں کی اشد ضرورت ہے۔

Monday, January 20, 2025

ایسا بھی تو ہو سکتا تھا



پہلا منظر ۔ 
جناب وزیر اعظم! یہ عثمان بزدار ہیں! ازراہ کرم انہیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ تعینات کر دیجیے؟ “

“   میں انہیں نہیں جانتا! ا ن میں ایسی کون سی خصوصیت ہے کہ انہیں پنجاب جیسے بڑے صوبے کا حکمران مقرر کیا جائے۔ “؟
” جناب ! ان کی خصوصیت یہ ہےکہ ان کی بیگم میری بیگم کی سہیلی ہیں اور میری بیگم کے متعلق تو آپ جانتے  ہی ہیں  کہ مرشدہ کے بہت قریب ہیں! “ 
“نہیں! یہ ممکن نہیں! وہ اس منصب کا اہل نہیں! میں پنجاب کا وزیر اعلی اسے لگاؤں گا جو لائق ہو اور تجربہ کار ہو!  “ 

{
دوسرا منظر ۔
” جناب وزیر اعظم! بہت افسوسناک خبر ہے ۔  پولیس افسر کو ، جو، پاک پتن کا انچارج ہے،    وزیر اعلیٰ ہاؤس میں طلب کیا گیا۔  وزیر اعلی کی موجودگی میں گجر صاحب نے پولیس افسر سے حاکمانہ لہجے میں باز پرس کی۔ وزیر اعلی ،خاموش، دیکھتے رہے! گجر صاحب  نہ جانے کس حیثیت میں  یہ رعب جھاڑتے رہے۔” 

“ یہ ناقابل برداشت ہے۔ وزیر اعلی کو بتائیے کہ یہ واقعہ ان کے لیے باعث شرم ہے۔ آئندہ ایسی لا قانونیت کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ گجر سے کہا جائے کہ پولیس افسر سے معذرت کرے!”

{
 تیسرا منظر ۔
” جناب وزیر اعظم! ہوابازی  کے وفاقی وزیر نے قومی اسمبلی میں ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان داغا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ پاکستان کی قومی ائر لائن کے پائلٹوں کے لائسنس جعلی ہیں۔ یہ بیان حقیقت کے خلاف ہے۔اس کی وجہ سے بہت سے ملک ہماری ائر لائن پر پابندی لگا رہے ہیں! مستقبل قریب  میں اس پابندی کے ہٹنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں! “ 
 
“ وزیر ہوابازی کو میرا حکم پہنچایا جائے کہ اعداد و شمار سے اپنا دعوی ثابت کرے۔ ورنہ اسے وزارت کے منصب سے ہٹا دیا جائے”  
{
چوتھا منظر۔
  “جناب وزیر اعظم! یہ ایک سیکرٹ فائل ہے جو آپ کی خدمت میں پیش کر رہاہوں۔ کیس  نازک ہے کیونکہ اس کا تعلق آپ کے گھر سے ہے۔  اس میں ایک معروف پراپرٹی ٹائیکون کا   نام آرہا ہے۔ کچھ تحائف  کا معاملہ ہے۔  یہ آپ کی عزت کا سوال ہے اس لیے فائل آپ کی خدمت میں  پیش کرنے کی جسارت کی جا رہی ہے۔”  

“ بہت شکریہ جنرل!  اگر ایسا ہؤا ہے تو غلط ہؤا ہے۔ میں فائل پڑھوں گا اور اس کی روشنی میں مناسب اقدامات اٹھاؤں گا ۔ اصولی بات یہ ہے کہ میرے اہل خانہ کو  کسی سے بھی مالی فائدہ اٹھانے کا حق نہیں ہے۔ امیں یہ ہر گز نہیں برداشت کر سکتا کہ میری شہرت داغدار ہو۔  اور جنرل! تم نے مجھے اطلاع دے کر  اپنا فرض بخوبی نبھایا ہے ۔ میں تمہاری اس کوشش کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں! مجھے امید ہے کہ تم آئندہ بھی   اپنے فرائض اسی طرح بے خوفی اور دیانتداری سے سرانجام دو گے۔ “
{
  پانچواں منظر ۔ 
“جناب وزیر  اعظم ! خفیہ ادروں نے خبر دی ہے کہ توشہ خانہ سے  کچھ تحائف آپ کے گھر میں آئے ہیں۔یہ بھی خبر ہے کہ انہیں فروخت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ “۔ 
“ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے۔ اگر میں یا میرے اہل خانہ توشہ  خانے  کے معاملات میں ملوث ہو گئے تو مجھ میں اور گذشتہ حکمرانوں میں کیا فرق رہ جائے گا۔ وہ بھی تو یہی کچھ کرتے رہے ہیں! میں ان پر اس حوالے سے کڑی تنقید کرتا رہا ہوں ۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ اب میں خود توشہ خانے میں دلچسپی لوں یا کوئی اور ، میرا نام لے کر،  یہ کھیل کھیلے۔  میں توشہ خانے کے مال اموال کو ٹھوکر پر رکھتا ہوں۔ میں نے جو دعوے کیے ہیں اور قوم سے جو عہدو پیمان کر رکھے ہیں، ان کے بعد مجھے زیب نہیں   دیتا کہ میرا نام بھی دوسروں کی طرح توشہ خانے کے ساتھ منسلک ہو۔  میرے سٹاف اور ملٹری سیکرٹری کو بتا دیا جائے کہ میرے گھر سے توشہ خانے کے حوالے سے کوئی فرمائش ہو تو معاملہ فورا” میرے علم میں لایا جائے۔ “  
{
چھٹا منظر ۔ 
“ جناب وزیر اعظم!  وفاقی دارالحکومت میں جتنی غیر قانونی تعیرات تھیں ، آپ کی حکومت نے گرا دی ہیں۔ بد قسمتی سے آپ کا گھر بھی اُسی کیٹیگری میں آتا ہے۔ خوشامدی مصاحبین کی رائے ہے کہ  عدالت سے معمولی  سا جرمانہ عائد کرا کے  آپ کے گھر کو 
Regularise 
کرا لیا جائے تاکہ معاملہ رفع دفع  ہو جائے۔”  

“ ہر گز نہیں!  میں اپنے ساتھ ترجیحی سلوک کی اجازت ہر گز نہیں دوں گا۔ جو  قانونی حکم دوسروں پر نافذ کیا گیا ہے، مجھ پر بھی نافذ ہو گا۔ خوشامد کرنے والے عمائدین کو  احساس کرنا  چاہیے کہ میں دوسرے حکمرانوں سے مختلف ہوں۔ میں نے میرٹ  پر چلنے کے وعدے کیے ہیں۔ میں نے عوام کے سامنے  خلافت راشدہ کی مثالیں پیش کی ہیں۔ میں نے ہمیشہ  مغرب کے جمہوری ملکوں کے طریقوں کا ذکر کیا ہے۔ قانون سےکوئی بھی مستثنیٰ نہیں ہو گا۔ یہاں تک کہ میں بھی نہیں! دوسروں کے گھروں کی طرح میرا گھر بھی گرایا جائے ۔ اس کی تعمیر نو میرے ذاتی وسائل سے ہو گی! “
“ ساتواں منظر ۔
جناب وزیر اعظم! ہوا بازی کی وزارت میں   میرٹ کو کچل کر غیر قانونی تعیناتی کی گئی ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی ( سی اے اے ) کے ڈائرکٹر جنرل کی اسامی پُر کرنے کے لیے  اشتہار دیے گئے تھے۔ اشتہار میں مطلوبہ   اہلیت کی تفصیلات دے دی گئی تھیں۔  چھ سو امیدواروں نے درخواستیں دیں۔ ان میں سے اٹھارہ امیدواروں کو شارٹ لسٹ کیا گیا۔ان اکا انٹرویو کیا گیا۔ مگر بدقسمتی سے کسی درخواست دہندہ کو چُننے کے بجائے گورنر سندھ کے سیکرٹری کو اس پوسٹ پر تعینات کر دیا گیا جس کا اس شعبے سے کوئی تعلق ہے نہ اس نے درخواست دی نہ اس کا انٹر ویو ہؤا۔  ۔ اس ناجائز تعیناتی کو عدالت میں چیلنج بھی کیا گیا ہے۔ “۔ 

“ایسی ایک بھی تعیناتی  میری حکومت کے ماتھے پر بد نما داغ ہے۔ یہ سراسر ظلم ہے۔یہ اُن تمام امیدواروں کی توہین ہے جنہوں نے اشتہار  پڑھ کر درخواستیں دیں اور  جن کے انٹر ویو ہوئے ۔میں نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ تعیناتیاں میرٹ پر ہوں گی، بیک ڈور سے نہیں ہوں گی ۔ گورنر سندھ کے سیکرٹری کو اس منصب سے فورا” سبکدوش کیا جائے ۔ سیکرٹری ہوابازی کو نوٹس جاری کیا جائے اور پوچھا جائے کہ یہ غلط بخشی اس نے کس کے دباؤمیں آ کر کی۔ جن اٹھارہ امیدواروں کے انٹرویو کیے گئے ، ان کے نتائج  مجھے پیش کیے جائیں! “
{
  آٹھواں منظر۔
“جناب وزیر اعظم! آپ کے مشیر برائے احتساب ایک خطرناک کھیل کھیلنا چاہتے ہیں! برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے معروف پراپرٹی ٹائیکون سے ایک سو نوّے ملین پاؤنڈ  بر آمد کر کے  حکومت پاکستان کو بھجوائے ہیں۔ یہ رقم پاکستان کے قومی خزانے میں جمع ہونی ہے۔ یہ عوام کی ملکیت ہے۔ مگر مشیر احتساب کی تجویز ہے کہ یہ رقم پراپرٹی ٹائکون کی طرف سے ، جرمانے کی مد میں، سپریم کورٹ کو دی جائے ۔  دوسرے لفظوں میں یہ بھاری رقم پراپرٹی ٹائکون کو واپس کر دی جائے۔اس کے بدلے میں پراپرٹی ٹائیکون سے زمین لی جائے اور  اس پر یونی ورسٹی کی عمارت تعمیر کرائی جائے۔ پھر اسے ایک ٹرسٹ کی شکل دی جائے جس کے ٹرسٹی وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ ہوں! جناب وزیر اعظم! مشیر احتساب کی یہ تجویز انتہائی خطرناک  بلکہ مہلک ہے۔  اس سے آپ پر واضح کرپشن کا الزام لگے گا۔ آپ کی شہرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا!”

 “ مشیر احتساب کی یہ تجویز مکمل طور پر رد کی جاتی ہے۔   قوم سے شفافیت کا وعدہ کر کے میں ایسا اندھیر برپا کرنے کی اجازت ہر گز نہیں دے سکتا۔ یہ رقم  فورا” قومی خزانے  میں جمع کرائی جائے۔ مشیر احتساب کو کہا جائے کہ اپنے عہدے سے استعفی دے! 
……………………………………………………………………………………………………………

Thursday, January 16, 2025

وقت کی گنجلک


اس حجام کی دکان میں تقریباً پچاس‘ پچپن سال کے بعد جانا ہوا۔
ہم 1966ء میں اسلام آباد منتقل ہوئے۔ میں اس وقت اصغر مال کالج میں بی اے کا طالب علم تھا۔ دارالحکومت میں سب سے پہلا سکول‘ سکول نمبر ایک تھا جہاں والد گرامی مرحوم پڑھاتے تھے۔ اس وقت کا اسلام آباد بہت مختصر تھا۔ دو تین سیکٹر ہی مکمل طور پر آباد تھے۔ آبپارہ سے زیرو پوائنٹ تک پیدل جانا عام بات تھی۔ سب سے پرانا ہوٹل‘ جو آج شہر کے تین بڑے ہوٹلوں میں شمار ہوتا ہے‘ تب زیر تعمیر تھا۔ ہم چند دوست شام کو نکلتے تو بہت سے لوگ کھڑے ہو کر ہوٹل کو تعمیر ہوتے دیکھ رہے ہوتے۔ سوشل میڈیا تھا نہ ٹی وی چینلوں کی بہتات! لوگ باگ شام کو باہر نکلتے تھے اور ہوا خوری کرتے تھے۔ جلد ہی یہ ہوٹل مکمل ہو گیا‘ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے آرکیڈ (گیلری) میں دکانیں بھی بن گئیں۔ انہی میں ایک دکان اس حجام کی بھی تھی۔ خیال یہ تھا کہ اتنے بڑے ہوٹل میں حجام کی یہ دکان مہنگی ہو گی مگر اس کے نرخ بالکل عام دکانوں جتنے تھے۔ یہ جان صاحب کی دکان تھی۔ جان صاحب دبلے پتلے تھے۔ سمارٹ اور اپنے فن کے ماہر! ہاتھ ان کے بہت تیز چلتے۔
اس کے بعد سال دہائیاں بنتے گئے۔ گردشِ زمانہ مجھے ادھر ادھر‘ یہاں سے وہاں‘ اور وہاں سے نہ جانے کہاں کہاں لیے پھرتی رہی۔ تاہم ہیڈ کوارٹر اسلام آباد ہی رہا۔ ہم گاؤں کے لوگوں کا ایک مسئلہ‘ بلکہ عادت یہ ہوتی ہے کہ حجام گھر میں آئے۔ اس کا بھی بندوبست ہوتا رہا! ایک شہری دوست نے ایک بار چوٹ کی کہ یہ فیوڈل کلچر ہے۔ اسے سمجھایا کہ بابا یہ فیوڈل کلچر نہیں‘ Rural کلچر ہے۔ گاؤں میں حجام کی دکان نہیں ہوتی تھی۔ جس بیگ میں اس کے اوزار ہوتے تھے اسے ''رچھانی‘‘ کہتے تھے۔ وہ رچھانی اٹھائے گھر گھر جاتا۔ بال کاٹتا‘ داڑھی مُونڈتا‘ خط بناتا‘ ناخن اُتارتا‘ سر کی مالش کرتا۔ فصل اترتی تو سب اسے غلہ دیتے۔ یہی اس کی مزدوری ہوتی۔ شادی اور موت کی خبر بھی گاؤں گاؤں پہنچاتا۔ ایسے مواقع پر دیگیں بھی پکاتا۔ غرض گاؤں کا حجام اور اس کی پوری فیملی‘ ایک ایسا انسٹیٹیوشن تھا جس کا کردار گاؤں کے معاشرے میں انتہائی اہم تھا! اس ہوٹل کے اردگرد ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ اُس دن وہاں بہت سے کام تھے۔ ان سے فارغ ہو کر گھر واپس جانے والا تھا کہ سوچا بال کٹوا لوں اور خط بنوا لوں۔ جان صاحب یاد آئے تو قدم دکان کی طرف اُٹھنے لگے۔ تقریباً پچاس برس بعد اس دکان میں آنا ہوا تھا۔ اندر داخل ہوا تو جان صاحب کاؤنٹر پر بیٹھے تھے۔ داڑھی سفید تھی‘ سر پر بال نہیں تھے مگر ماشاء اللہ چست اور ہشاش بشاش نظر آ رہے تھے۔ حجامت کرانے کے بعد انہیں بتایا کہ اتنی مدت بعد آنا ہوا۔ مسکرائے اور اپنا کارڈ دیا جس پر فون نمبر لکھے تھے۔
وہاں سے نکلا تو اُسی مارکیٹ میں ایک پرانے دوست ہیں جو شہر کے بہترین ڈریس ڈیزائنرز میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کے والد مرحوم میرے والد مرحوم کے بہت اچھے دوست تھے۔ ہم نے یہ دوستی دونوں بزرگوں کی رخصت کے بعد نبھائی۔ میں کبھی کبھی وہاں بیٹھتا ہوں اور اُس زمانے کو یاد کرتا ہوں جب پنڈی گھیب میں ابا جی شام کے وقت بازار کا چکر لگاتے تھے اور دوستوں کے پاس بیٹھتے تھے۔ میں اس دوست کے پاس بیٹھ کر چائے کا کپ پیتا ہوں اور اس سے گپ شپ کرتا ہوں۔ کبھی کبھی ساتھ گرم اور تازہ سموسہ بھی ہوتا ہے۔ مجھے یہ نشست شاعروں‘ ادیبوں اور بیورو کریٹس کی ہم نشینی سے بہتر لگتی ہے۔ اس میں کسی کی غیبت ہوتی ہے نہ افلاطون ہونے کے دعوے! نہ یہ بَڑ کہ فلاں مشاعرہ لُوٹ لیا نہ یہ دعویٰ کہ فلاں فائل میں یہ تیر مارا۔ سیدھے سادھے دنیاوی معاملات پر ہم گفتگو کرتے ہیں جسے فرنگی زبان میں 
Mundane Matters 
کہتے ہیں۔ باتوں باتوں میں اپنے دوست سے ذکر کیا کہ ایک مدت بعد جان صاحب کی دکان پر جانا ہوا اور یہ کہ وہ بہت زیادہ بوڑھے نہیں ہوئے۔ داڑھی تو سفید ہونی ہی تھی۔ میرے دوست نے میری طرف غور سے دیکھا‘ پھر کہا: جان صاحب تو انتقال کر چکے ہیں! جنہیں آپ جان صاحب سمجھ رہے ہیں وہ ان کے صاحبزادے ہیں۔ مجھ پر جیسے سکتہ طاری ہو گیا۔ حیرت سے زبان جیسے بند ہی ہو گئی! میرا دوست بولا: جان صاحب عمر میں آپ سے بڑے تھے‘ حیات ہوتے تو پچاسی کے لگ بھگ ہوتے!
رات گئے تک عجیب سی کیفیت طاری رہی۔ میں خاموش رہا۔ لاؤنج میں بچوں کے ساتھ بھی نہ بیٹھا۔ اپنے کمرے ہی میں رہا۔ وقت کا پھیلاؤ کتنا عجیب ہے۔ ہم اس پھیلاؤ کی کبھی بھی درست پیمائش نہیں کر سکتے! ہم طویل وقفے کو مختصر سمجھتے ہیں! اور وقت کے مختصر ٹکڑے کو زمانوں کاہم پلہ قرار دے دیتے ہیں۔ احمد مشتاق نے اسی حوالے سے کہا ہے:
باقی تو مکمل ہے تمنا کی عمارت
اک گزرے ہوئے وقت کا شیشہ نہیں ملتا
جاتے ہوئے ہر چیز یہیں چھوڑ گیا تھا
لوٹا ہوں تو اک دھوپ کا ٹکڑا نہیں ملتا
وہی دکان تھی‘ جان صاحب بھی وہیں بیٹھے تھے۔ وہ جان صاحب تھے مگر وہ جان صاحب نہیں تھے! یہی تو گنجلک ہے! یہی تو معمہ ہے! جو کچھ نظر آتا ہے وہ اصل نہیں ہوتا! عکس ہوتا ہے! ہم اسے اصل سمجھ بیٹھتے ہیں! وقت کا پیمانہ جو ہمارے ہاتھ میں ہے‘ درست نہیں! ہمیں اس کا تجربہ ہوتا ہے مگر کم کم! کبھی کبھی! ہم پڑھتے تو ہیں کہ اصحابِ کہف اٹھے تو کہنے لگے کہ ایک دن سوئے ہیں یا اس سے بھی کم! اور جو سکّے جیب میں تھے‘ لے کر بازار چلے گئے۔ مگر ہم پر وہ کیفیت نہیں گزرتی! ہم اُس تجربے سے نہیں گزرتے! میں جب جان صاحب کے صاحبزادے کو جان صاحب سمجھ رہا تھا تو درمیانی عرصے کو‘ جو عشروں پر محیط تھا‘ محض ''کل یا پرسوں‘‘ سمجھ رہا تھا۔ حالانکہ تقریباً نصف صدی گزر چکی تھی۔ ایک شخص دنیا سے چلا گیا تھا۔ اس کی جگہ پر ایک اور شخص بیٹھا تھا جو اسی کی طرح تھا مگر وہ نہیں تھا! عمر کے پیڑ پر لگے ہوئے سال اور مہینے لمحوں میں بدل جاتے ہیں! ہمیں محسوس ہی نہیں ہوتا۔ ہم یہی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ سب کچھ وہی ہے! وقت کی پرت بدلتی ہے مگر غیر محسوس انداز میں! فنا کی چکی چلتی ہے مگر ہمیں نہیں معلوم ہوتا کہ چل رہی ہے۔ دس سال گزرتے ہیں۔ کچھ لوگ غائب ہو جاتے ہیں مگر سب نہیں! بیس برس اور گزر جاتے ہیں! کچھ اور لوگ اُٹھ جاتے ہیں مگر بہت سے وہ لوگ ابھی باقی ہوتے ہیں جو گزشتہ بیس‘ تیس سال سے چلے آ رہے ہیں! مگر کیا سو سال پہلے کا کوئی شخص باقی ہے؟ شاید ایک بھی نہیں! کلچر اور اس کے اجزا بھی اسی طرح بتدریج تبدیل ہوتے ہیں! آج سو سال پہلے والا لباس معدوم ہے۔ غور کیجیے‘ تہمد آہستہ آہستہ گاؤں سے بھی جا رہا ہے‘ بلکہ جا چکا ہے۔ ہم چھوٹے تھے تو ابھی مردوں میں سر ڈھانکنے کا رواج موجود تھا۔ اب نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہر تبدیلی وجود میں آنے کے لیے لمبا عرصہ مانگتی ہے۔ یہی وہ لمبا عرصہ ہے جو ہمیں محسوس نہیں ہوتا! نظر نہیں آتا! بالکل اسی طرح جیسے زمین پھر رہی ہے مگر ہمیں اس کا پھیر محسوس نہیں ہوتا! مجید امجد کے بقول‘ بوڑھے پنواڑی کی جگہ اس کا کمسن بالا بیٹھا پان لگا رہا ہوتا ہے مگر کچھ ہی عرصے میں وہ باپ کا روپ دھار لیتا ہے۔ گاہک سمجھتا ہے وہی پنواڑی ہے! وہی بوڑھا پنواڑی!! یہاں تک کہ شاعر پکار اٹھتا ہے:
پِیستا ہے مجھے چکّی میں مگر چُھپ چُھپ کر
وقت سے میری گزارش ہے کہ باہر نکلے

Tuesday, January 14, 2025

اسلام آباد ٹھیکے پر دے دیجیے



ہماری بیورو کریسی اس وقت اَسفلَ سافِلین کے درجے میں ہے۔ اس کا زندہ ثبوت اسلام آباد کا شہر ہے۔
یہ حقیقت ذہن میں رہے کہ یہ شہر مسلم دنیا میں واحد ایٹمی ملک کا دار الحکومت ہے۔ یہ کوئی ضلعی ہیڈ کوارٹر ہے نہ کسی تحصیل کا صدر مقام ! یہ کوئی تجارتی منڈی ہے نہ بندر گاہ! یہ کراچی یا فیصل آباد کی طرح بزنس کا مرکز بھی نہیں۔ نہ ہی یہ صنعتی شہر ہے۔ مگر اس کے باوجود یہ شہر اتنا غیر منظم ‘بدصورت اور بے ترتیب ہو چکا ہے کہ غلہ منڈ ی لگتا ہے یا مچھلی بازار! اس شہر کا سب سے بڑا چارم '' بلیو ایریا‘‘ ہے جو شہر کے وسط میں ‘ مشرق سے لے کر مغرب تک‘ پلازوں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ یہ پلازے دونوں طرف ہیں۔ ان کا منہ شمال کی طرف بھی ہے اور جنوب کی طرف بھی۔ آپ بلیو ایریا کی شمالی جانب ڈرائیو کریں یا جنوبی جانب‘ آپ قدم قدم پر بد ترین ٹریفک جام کا سامنا کریں گے۔ جب آپ بلیو ایریا کی مغربی انتہا پر پہنچیں گے‘ جہاں نادرا کا دفتر ہے تو آپ اچانک پکار اٹھیں گے کہ یہ دارالحکومت ہے یا کوئی غلہ منڈی ہے۔گاڑی چل سکتی ہے نہ پارک کرنے کی جگہ ہے۔ کئی لوگوں سے بات کی۔ تقریباً سبھی نے کہا کہ اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ ون وے ٹریفک کا بندو بست کیا جائے۔ بلیو ایریا والی سائیڈ سے گاڑیاں جائیں اور فضل الحق روڈ والی سائیڈ سے واپس آئیں۔ عقل کی یہ بات جو لوگ کر رہے تھے ان کم بختوں میں سے کوئی بھی سی ایس ایس پاس نہ تھا! سوال یہ ہے کہ مقابلے کا امتحان پاس کر کے‘ جو بزرجمہر شہر کے والی مقرر کیے گئے ہیں ‘ ان کے بلند مرتبہ جینئس دماغوں میں یہ بات کیوں نہیں آتی ؟ آئیے ! اس کی وجہ جاننے کی سعی کرتے ہیں!
کوئی بھی شہر‘ بڑا ہو یا چھوٹا‘ اس وقت تک خوش انتظامی کا نمونہ نہیں بن سکتا جب تک اس کا حاکم اس کے بازاروں میں‘ اس کے گلی کوچوں میں اور اس کے گنجان ترین حصوں میں ‘ اکثرو بیشتر‘ چلتا پھرتا نظر نہ آئے۔ یہ جو ہم کہانیوں میں پڑھتے ہیں کہ بادشاہ بھیس بدل کرشہر میں پھرا کرتے تھے تو یہ محض افسانہ نہیں‘ حقیقت ہے۔ اکثر و بیشتر بادشاہ ایسا ہی کرتے تھے۔ یوں وہ شہر کے حالات سے براہِ راست آشنائی حاصل کرتے تھے۔آج کے زمانے میں جب حکومتی طریق کار بدل چکا ہے‘ شہروں کو منتخب میئرز کے سپرد کیا گیا ہے جو شہر کے والی ہوتے ہیں اور انچارج!! اسلام آباد کی قسمت کھوٹی یوں ہے کہ یہاں میئر کوئی نہیں! کیوں؟ شاید اس لیے کہ الیکشن جیت کر آنے والا میئر وزیر اعظموں اور وزیروں کے ہر حکم پر '' یس سر ‘‘ نہیں کہے گا۔ وہ شہریوں کے ووٹوں کی مدد سے آئے گا تو شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنے پر مجبور ہو گا؛ چنانچہ اسلام آباد میں میئر حکمرانوں کو راس نہیں آسکتا۔ انہیں سرکاری ملازم راس آتا ہے جو حکم کا غلام ہو۔ جس نے ترقی پانی ہو‘ سیکرٹری بننا ہو ‘ ریٹائرمنٹ کے بعد نوکری میں توسیع لینی ہو! ایسا حاکمِ شہر کسی وزیر کو '' نو ‘‘ کر سکتا ہے نہ کسی اور اتھارٹی کو! تو پھر اسے کیا ضرورت ہے کہ شہر کے دورے کرتا پھرے‘ گلی کوچوں میں چل پھر کر شہر کے حالات دیکھے اور پھر شہریوں کے مسائل حل کرے!
پوزیشن یہ ہے کہ شہر کا انتظام و انصرام سی ڈی اے کے سپرد ہے جس کا چیئرمین بیک وقت شہر کا چیف کمشنر بھی ہے! آپ کا کیا خیال ہے کہ چئیرمین صاحب ، یعنی چیف کمشنر صاحب، خود گاڑی چلاتے ہوئے، کبھی بلیو ایریا سے گذرے ہوں گے ؟ کیا وہ کبھی بلیو ایریا میں واقع شہر کی مقبول ترین بیکری سے ڈرائیو کر کے نادرا کے دفتر تک گئے ہوں گے؟ اور پھر واپس آئے ہوں گے ؟ منطق اس کا جواب نفی میں دیتی ہے۔ اس لیے کہ اگر انہوں نے یہ تجربہ کیا ہوتا‘ بے شک گاڑی خود نہ بھی چلائی ہوتی‘ بے شک ڈرائیور ہی کے ساتھ گئے ہوتے‘ تو یہ ناممکن ہے کہ انہوں نے ٹریفک پولیس کو حکم نہ دیا ہوتا کہ بلیو ایریا میں ون وے ٹریفک سسٹم رائج کیا جائے!! کوئی بھی ذی ہوش آدمی بلیو ایریا میں جائے تو اسی نتیجے پر پہنچے گا!! یہی اس کا واحد حل ہے۔ پوری دنیا میں ایسا ہی کیا جاتا ہے۔
یہ جو ہم نے آغاز میں کہا ہے کہ ہماری بیورو کریسی اس وقت اَسفلَ سافِلین کے درجے میں ہے اور اس کا زندہ ثبوت اسلام آباد کا شہر ہے تو یہ بات علم ‘ مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر کہی ہے اور پوری ذمہ داری سے کہی ہے۔ بیورو کریسی کا دوسرا نام سول سرونٹس ہے۔ سرونٹ خادم کو کہتے ہیں۔ مشہور محاورہ ہے سیّد القومِ خادِمْہْم ! یعنی قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے۔ یعنی عوام کا سرونٹ! آج بیورو کریسی کا دردناک المیہ یہ ہے کہ وہ عوام سے مکمل طور پر کٹی ہوئی ہے۔ آپ چیف کمشنر صاحب سے فون پر بات کر نے کی کوشش کیجیے۔ ناممکن ہو گا۔ آپ خط لکھیے‘ عرضی ڈالیے‘ ای میل کیجیے‘ آپ کو کوئی جواب نہیں ملے گا۔ آپ کو شہر کے اس والی کا فون نمبر ہی نہیں ملے گا۔ ای میل ایڈریس ہی نہیں ملے گا۔ اس کے ارد گرد سٹاف کی کئی پرتیں ہیں‘ کئی حصار ہیں! ایک کے بعد دوسرا حصار! دوسری کے بعد تیسری پرت! پھر چوتھی! آپ تھک ہار کر بیٹھ جائیں گے۔ یہی وہ اسفل سافلین درجہ ہے ‘ بد ترین درجہ‘ جس پر ملک کی نوکر شاہی پہنچ چکی ہے۔ اسلام آباد کو تو چھوڑیے کسی ضلع کے ڈپٹی کمشنر سے بات کرنے کی کوشش کر دیکھیے! آپ کو بطور ایک شہری‘ بطور ایک ٹیکس دہندہ‘ اپنی اوقات کا پتا لگ جائے گا!!
اسلام آباد جو کبھی خطے کا خوبصورت ترین شہر تھا‘
Slums 
میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس کے وہ مقامات جنہیں دیکھنے اور جن سے لطف اندوز ہونے کیلئے پورے ملک سے لوگ آتے تھے‘ سپر مارکیٹ‘ جناح سپر‘ میلوڈی مارکیٹ اور دیگر مقامات ‘ خستہ آبادیوں اور گندی بستیوں میں بدل چکے ہیں۔ اب یہ کثافت کے مرکز ہیں۔ پارکنگ کی تو بات ہی نہ کیجیے! غدر کا لفظ بھی کفایت نہیں کر رہا۔ شہر کا کوئی والی وارث ہوتا‘ کوئی مائی باپ ہوتا تو کب کا جفت اور طاق نمبر کی گاڑیوں کا طریقہ رائج ہو چکا ہوتا۔ یعنی ایک دن ‘ خاص طور پر شام تین یا چار بجے کے بعد‘صرف وہ گاڑیاں باہر نکلیں گی جن کے رجسٹریشن نمبر طاق ہیں۔ دوسرے دن صرف وہ گاڑیاں بازاروں میں آئیں گی جن کے رجسٹریشن نمبر جفت ہیں۔ اٹلی سے لے کر ایران تک یہ نظام کار فرما ہے۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ اسے مقامی حکومتوں ( لوکل گورنمنٹس ) سے مسلسل محروم رکھا جا رہا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے ایک کام یقینا انقلابی کیا تھا کہ ضلعی حکومتیں قائم کر کے ضلع کا انتظام ناظم کے سپرد کیا تھا۔ مگر اہلِ سیاست آئے تو انہیں یہ جمہوری نظام راس نہ آیا۔ تختِ لاہور‘ تختِ کراچی‘ تختِ کوئٹہ‘ تختِ پشاور اور تختِ اسلام آباد کے اپنے ہی مزے ہیں۔ ضلعی ناظموں سے جان چھڑائی گئی۔ لارڈ کرزن اور لارڈ میکالے کے زمانے کی نوکر شاہی کو واپس لایا گیا۔ ڈی سی‘ کمشنر ‘ چیف کمشنر۔ ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ ضلع اور تحصیل سطح پر عوامی نمائندوں کو مالی اختیارات دینا چیف منسٹر اور چیف سیکرٹری کیلئے زہر کے پیالے سے کم نہیں! یہی حال اسلام آباد کا ہے۔ اسلام آباد کے شہری لارڈ کرزن کے زمانے میں رہ رہے ہیں۔ انہیں اس امر کی اجازت نہیں کہ وہ اپنے شہر کا میئر خود چنیں! شہر کی حالت عبرتناک ہے۔ اے اربابِ اختیار! خدا کے بندوں پر کچھ رحم کرو! اسلام آباد کو سنگاپور یا امریکہ یا جاپان کو کچھ عرصہ کے لیے ٹھیکے پر ہی دے دو!!

Monday, January 13, 2025

ایک بار پھر دوہری شہریت کا شوشہ


حکومت پاکستان ہر سال دو شوشے چھوڑتی ہے اور ایسا کئی برسوں سے ہو رہا ہے۔
پہلا یہ کہ ریٹائرمنٹ کی عمر تبدیل کی جا رہی ہے۔ یہ کھیل دو دہائیوں سے جاری ہے۔ بلکہ اس سے بھی پہلے سے! کبھی کہا جاتا ہے کہ اٹھاون سال ہو رہی ہے۔ پھر حکومت کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ بڑھائی جا رہی ہے۔ ساٹھ سے باسٹھ سال ہو رہی ہے۔ ایک بار پینسٹھ سال کا شوشہ بھی چھوڑا گیا۔ اس بار (دس دسمبر) کو پچپن کی خبر چلی کہ وزیراعظم کو اس سلسلے میں بریف کیا گیا۔ یہ بھی کہ تجویز ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور یہ کہ اگر یہ فیصلہ کر لیا گیا تو اس کا اطلاق صرف سول ملازمین پر کیا جائے گا۔ ایسی خبر پڑھ کر غیر ارادی طور پر منہ سے جو الفاظ نکلتے ہیں وہ ہوتے ہیں'آہ! بے چارے سول ملازمین‘‘!! موجودہ قانون یہ ہے کہ ساٹھ سال کی عمر پر ریٹائرمنٹ ہو جاتی ہے۔ مگر یہ قانون '' اپنے‘‘ بندوں کے لیے قانون نہیں‘ کانون بن جاتا ہے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے اسّی اسّی سال کے‘ بیٹری پر چلنے والے‘ بابے دفتروں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایک سابق وزیراعظم جن کے بارے میں مشہور تھا (دروغ بر گردنِ راوی) کہ سنجیدہ اجلاس کے دوران اچانک پوچھتے تھے کہ لہوروں مچھی آ گئی اے کہ نئیں! (یعنی لاہور سے مچھلی پہنچ گئی ہے کہ نہیں)‘ پوچھتے تھے کہ بندہ اپنا ہے؟ جواب اثبات میں ہو تو ملازمت میں توسیع مل جاتی۔ ایسی دوست نوازیاں صرف انہوں نے ہی نہیں کیں‘ سب نے کیں! اس سے بڑی دوست نوازی کیا ہو گی کہ طبیب کو پٹرولیم کا وزیر لگا دیا گیا۔ پچپن سال پر ریٹائرمنٹ کر بھی دی گئی تو ''اپنوں‘‘ کو پھر بھی توسیع بلکہ توسیع در توسیع ملتی رہے گی۔ جنرل پرویز مشرف کے مبارک دور میں ایک بریگیڈیئر صاحب کو وفاقی حکومت میں شعبہ تعلیم کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ (اصل میں یہ پوسٹ سول کی تھی! آہ بے چارے سول ملازمین!!) ان بریگیڈیئر صاحب کی ملازمت میں پانچ بار توسیع کی گئی!!
دوسرا شوشہ جو کئی برسوں سے چھوڑا جا رہا ہے‘ بیورو کریسی کی دہری شہریت کا ہے۔ ہر سال یہ قصہ چھیڑا جاتا ہے۔ ایک بار ان افسروں کی فہرست بھی شائع کی گئی جن کے پاس دوسرے ملکوں کی شہریت ہے۔ دو دن پہلے سینیٹ کی ایک قائمہ کمیٹی نے ایک بل پر غور کیا ہے جس کا مقصد سول سرونٹس کی دہری شہریت پر پابندی لگانا ہے۔ جن سینیٹر صاحب نے یہ بل پیش کیا انہوں نے فرمایا کہ سول سرونٹس ملک کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں جبکہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی شخص دو ملکوں کا وفادار رہے۔ اصولی طور پر بات صحیح ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ پابندی تمام سرکاری ملازمین کے لیے ہو گی یا صرف بیچارے سول ملازمین کے لیے؟ کیا منتخب نمائندوں کے لیے بھی یہ پابندی ہو گی؟ ہم سب جانتے ہیں کہ کچھ سیاستدانوں کے کنبے امیر ملکوں میں رہ رہے ہیں‘ مستقل رہ رہے ہیں اور لاس اینجلس اور ہیوسٹن جیسے شہروں کے مہنگے علاقوں میں رہ رہے ہیں۔ اب جس کے بیوی بچے کسی اور ملک میں رہ رہے ہوں تو وہ اُس ملک کا بھی تو وفادار تو رہے گا۔ اگر کسی کے بیوی بچے‘ یا بیویاں بچے‘ امریکہ یا کینیڈا وغیرہ میں رہ رہے ہوں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ امریکہ یا کینیڈا کے ساتھ وفادار نہ ہو جبکہ پاکستان میں وہ وزیر بھی ہو یا اسمبلی کا رُکن بھی ہو یا کوئی اور حساس ذمہ داری بھی سنبھالے ہو؟
یہ بھی عجیب ستم ظریفی ہے کہ سیاستدان امریکہ‘ یورپ‘ یو اے ای‘ ہسپانیہ اور جرمنی میں جائدادوں پر جائدادیں بنائیں‘ وہاں کارخانے لگائیں‘ عیدیں شبراتیں وہیں کریں‘ ان کی اولاد فخر سے کہے کہ ہم وہاں کے شہری ہیں‘ چھینک بھی آ جائے تو علاج کے نام پر وہاں پہنچ جائیں‘ اس کے باوجود وزیراعظم بھی بنا دیے جائیں‘ صدارت کا منصب بھی سنبھال لیں‘ وزارتوں پر بھی فائز ہو جائیں مگر ان کی وفاداری کے حوالے سے کوئی چُوں بھی نہ کرے! اور سول سرکاری ملازمین کی کاغذی شہریت آئے دن موضوع بنے! اس ملک میں یہ بھی ہوا ہے کہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے والے کے لیے ایمرجنسی میں قومی شناختی کارڈ بنایا گیا۔ کسی نے نہ پوچھا کہ کہاں کا شہری ہے۔ وزارت عظمیٰ گئی تو سیدھا ایئر پورٹ گیا اور جہاں سے آیا تھا‘ وہیں دفن بھی ہوا! ایک اور وزیراعظم کو حلقہ انتخاب خیرات میں دیا گیا۔ اس کا اس حلقہ انتخاب سے اتنا ہی تعلق تھا جتنا میرا اور آپ کا روس یا جرمنی سے ہے۔ پھر اسے وہاں سے جتوایا گیا۔ پھر اسے وزارت عظمیٰ پلیٹ میں رکھ کر پیش کی گئی۔ مگر اس کی وفاداری پر کوئی شک نہ کیا گیا۔ جیسے ہی وزارت کی مسند سے اُترا‘ مال سمیٹا‘ کروڑوں کے سرکاری تحائف کی گٹھڑی سر پر رکھی‘ گیا اور کبھی پلٹ کر نہ آیا!
 کبھی کسی کو فکر نہ دامن گیر ہوئی کہ یہ کھلاڑی جو پاکستان کے لیے کھیلتے ہیں‘ ان کی شہریتیں کہاں کہاں کی ہیں! ان کی وفاداریاں کس کے ساتھ ہیں؟ اور جس دن اہلِ صحافت کی دہری شہریت کی فہرست نکلی تو ایسے ایسے نام سامنے آئیں گے کہ لوگ دنگ رہ جائیں گے۔ مگر سرکاری ملازم پر ہاتھ ڈالنا اس لیے آسان ہے کہ وہ احتجاج کر سکتا ہے نہ بدلے میں حکومت کے خلاف کچھ کہہ سکتا ہے نہ لکھ سکتا ہے۔ آئینی تحفظ کی چھتری جو اس کے سر پر سایہ فگن تھی‘ بھٹو صاحب نے چھین لی۔ پھر آج تک واپس نہ ملی۔ ٹیکس آپ اس کی تنخواہ سے اسے پوچھے بغیر‘ اسے بتائے بغیر کاٹ لیتے ہیں‘ سرکاری رہائش کے لیے وہ دس دس پندرہ پندرہ سال لائن میں کھڑا رہتا ہے‘ جس دن اس کی کوئی بات آپ کو نا گوار گزرتی ہے‘ اسے او ایس ڈی بنا دیتے ہیں‘ اس سے بہتر قربانی کا بکرا 
 (scapegoat)
کون ہو گا؟ ویسے بھی اس جیسا مفید جانور کہاں ملے گا۔ آپ تو فائل پڑھ ہی نہیں سکتے‘ پڑھ سکتے بھی ہوں تو آپ کے پاس وقت کہاں‘ کام تو سارا سول سرونٹ ہی نے کرنا ہے‘ آپ نے صرف دستخط ثبت فرمانے ہیں! مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ بڑے میاں صاحب کی وزارت عظمیٰ کے دوران ایک وفاقی وزیر ایسا بھی تھا جو ہفتے میں صرف ایک دن‘ بدھ کو‘ دفتر آتا تھا۔ مگر اس پاکستان میں سب چلتا ہے۔ اس کی وزارت اہم وزارت تھی۔ پبلک ڈیلنگ بھی تھی۔ کون چلاتا تھا ؟ یہی بدبخت سرکاری ملازم!
سول سرونٹس کی دہری شہریت پر پابندی ضرور لگائیے۔ اصولی طور پر یہ درست اقدام ہے مگر عالی جاہ! بندہ پرور! یہ پابندی سب پر لگائیے۔ صرف سول ملازمین پر کیوں؟ خاکی ملازمین پر بھی لگائیے۔ اہلِ سیاست پر بھی لگائیے! اہلِ وزارت پر بھی لگائیے! قومی ٹیموں میں شامل ہو کر کھیلنے والوں پر بھی لگائیے۔ ان اہل صحافت پر بھی لگائیے جو آئے دن حساس مقامات پر جا کر بریفنگ لیتے ہیں‘ پریس کانفرنسیں اٹینڈ کرتے ہیں اور ضیافتیں اڑاتے ہیں۔ کیا کسی کو معلوم ہے کتنے سابق سفیر دوسرے ملکوں کے شہری بن کر وہاں بیٹھے ہوئے ہیں؟ ان کے سینوں میں بھی تو قومی راز ہیں! انہیں آپ نے ملک چھوڑنے کی اور دوسرے ملکوں کی وفاداری کا حلف اٹھانے کی اجازت کیوں دی ہوئی ہے؟ اور آپ کا کیا خیال ہے کہ ان سابق سفیروں نے یہ غیر ملکی شہریتیں ریٹائرمنٹ کے بعد لی ہیں؟ کیا بات ہے آپ کی!! بہت بھولے ہیں آپ!
وہ شاخّ گُل پہ زمزموں کی دھُن تراشتے رہے
نشیمنوں سے بجلیوں کا کارواں گزر گیا
وضاحت: اس کالم نگار کے پاس صرف اور صرف پاکستانی شہریت ہے۔

Tuesday, January 07, 2025

کون لٹیرا ہے اور کون نہیں


محمود غزنوی لٹیرا تھا یا نہیں‘ احمد شاہ ابدالی یقینا لٹیرا تھا۔ تاریخ کا معتبر ترین حوالہ عوام کی زبان ہوتی ہے۔ اہلِ پنجاب کے ساتھ جو کچھ ابدالی کے سپاہی کرتے رہے‘ اس کی گونج آج تک سنائی دے رہی ہے۔ ''کھادا پیتا لاہے دا تے باقی احمد شاہے دا‘‘ وہ کہاوت ہے جو لوگوں کی زبان پر تھی۔ جو کچھ کھانے پینے سے بچ جاتا تھا‘ احمد شاہ کے لٹیرے چھین کر لے جاتے تھے۔
احمد شاہ ابدالی نے اُس وقت کے ہندوستان پر آٹھ حملے کیے۔ جنوری 1748ء میں وہ لاہور میں داخل ہوا اور قتلِ عام کا حکم دیا۔ معززینِ شہر نے 30لاکھ روپیہ جمع کرکے ابدالی کو پیش کیا اور درخواست کی کہ قتل و غارت اور لوٹ مار بند کرنے کا حکم دے۔ چوتھا حملہ اس نے 1756-57ء میں کیا۔ دہلی میں اتنی لوٹ مار کی کہ شہر کھنڈر بن گیا۔ ابدالی نے اپنی اور بیٹے کی شادیاں بے بس مغل خانوادے میں کیں۔ واپسی پر امرتسر میں غارت گری کی۔ تاریخ میں کوئی ایسی شہادت نہیں ملتی کہ ابدالی نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا ہو کہ قتل و غارت کرتے وقت مسلمانوں کو چھوڑ دیا جائے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ جس طرح سکھ اور مرہٹے لوٹ مار کرتے تھے‘ قتلِ عام کرتے تھے‘ فصلوں کو تہس نہس کرتے تھے‘ گھروں کو برباد کرتے تھے اور چادر اور چار دیواری کے پرخچے اُڑاتے تھے‘ ابدالی کی افغان فوجیں بھی اسی طرح کرتی تھیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ جہاد تھا اور تبلیغ تھی تو اسے تاریخ کا مطالعہ غیرجانبدار ہو کر کرنا چاہیے۔
اصل بات سمجھنے کی یہ ہے کہ افغانستان کبھی بھی ضروریاتِ زندگی میں خود کفیل نہیں رہا۔ صرف پھلوں اور افیون سے اور تلوار اور غلیل سے تو پیٹ نہیں بھرتا۔ موجودہ خیبرپختونخوا‘ پنجاب اور وسطی ہند کے علاقے افغانوں کے لیے ہمیشہ سونے کی مرغی رہے۔ جب بھی افغان حملہ آور آتے‘ واپسی پر ہزاروں اونٹ‘ اجناس اور اموال سے لدے‘ ساتھ لے جاتے۔ بے شمار لوگوں کو قیدی بنا کر لے جاتے۔ لوٹی ہوئی گندم‘ آٹا‘ دالیں اور دیگر اجناس ختم ہوتیں تو پھر ہندوستان کا رُخ کرتے۔ یہ عمل صدیوں جاری رہا تا آنکہ ہر سال حملہ کر کے سال بھر کی خوراک لوٹ لے جانا ممکن نہ رہا۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ لوٹ مار اور ''مالِ غنیمت‘‘ کی جگہ سمگلنگ نے لے لی۔ کسی بھی ملک میں ایسے لوگ مل جاتے ہیں جن کی اولین ترجیح حب الوطنی نہیں بلکہ دولت ہوتی ہے۔ ایسے افراد پاکستان میں بھی موجود ہیں۔ جب سے پاکستان بنا ہے‘ افغانستان کی ضروریاتِ زندگی سمگلنگ کے ذریعے پاکستان سے جا رہی ہیں۔ آٹا‘ گندم‘ چینی‘ دالیں‘ سیمنٹ‘ مویشی غرض ہر شے یہیں سے جاتی ہے۔ عرصہ ہوا میرے والد گرامی مرحوم کے ایک افغان شاگرد نے مجھے افغانستان سے خط بھیجا کہ وہ مکان تعمیر کر رہا ہے‘ کسی نہ کسی طرح اسے سریا اور دیگر سامان بھیجا جائے۔ ظاہر ہے میرے لیے یہ ممکن نہ تھا۔ اب کا تو معلوم نہیں‘ مگر ماضی قریب میں پکی ہوئی روٹیاں تک پشاور سے جلال آباد جاتی رہی ہیں! آج کی صورتحال یہ ہے کہ پشاور سے لے کر لاہور تک کے ہسپتالوں میں بیمار افغانوں کا علاج ہو رہا ہے۔
افغانستان کے حوالے سے پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان جنرل ضیا الحق کی پالیسیوں نے پہنچایا۔ اندرون ملک بھی سب سے زیادہ نقصان اسی عہد میں پہنچا۔ صرف ایک مثال ریلوے ہی کی دیکھ لیجیے۔ پوری دنیا میں ریلوے کے منافع کا کثیر حصہ مسافروں سے نہیں‘ کارگو سے آتا ہے۔ جنرل ضیا الحق سے پہلے کا اور بعد کا ریلوے ریونیو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سب سے بڑا ظلم اُس دور میں یہ ہوا کہ جو این ایل سی کا وزیر تھا‘ اسی کو ریلوے کا وزیر بنایا گیا۔ یعنی بلی کو دودھ کی رکھوالی دی گئی۔ آج ریلوے سسک سسک کر جی رہی ہے۔ مرتی ہے نہ زندہ ہے! ضیا الحق کے زمانے میں عملاً پاکستان‘ افغانستان کا حصہ بن گیا۔ سرحدیں مٹ گئیں۔ اندر آنے کے لیے پاسپورٹ کی ضرورت رہی نہ ویزے کی۔ مہاجر تو ایران میں بھی گئے مگر ایران نے انہیں کیمپوں سے باہر نہ نکلنے دیا۔ ضیا الحق نے پورا پاکستان ان غیرملکیوں کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دیا۔ ٹرانسپورٹ کے بزنس پر ان کا قبضہ ہو گیا‘ خیبرپختونخوا میں مقامی مزدور بے روزگار ہو گئے۔ مکانوں کے کرائے ان غیر ملکیوں کی وجہ سے اتنے بڑھ گئے کہ مقامی ضرورت مندوں کی استطاعت سے باہر ہو گئے۔ ان تمام وطن دشمن پالیسیوں میں سیاستدانوں کا کوئی کردار نہ تھا۔ نام نہاد شوریٰ جنرل صاحب کی جیب میں تھی۔ جنرل صاحب کا ساتھ ان بہت سے سیاستدانوں نے دیا جو خود یا ان کی ذریّت‘ آج بھی پیشِ منظر پر چھائی ہوئی ہے۔ صرف خواجہ آصف نے یہ اخلاقی جرأت دکھائی کہ اپنے والد مرحوم کی طرف سے آمریت کا ساتھ دینے پر قوم سے معافی مانگی! جنرل ضیا الحق نے افغانوں کے علاوہ دنیا بھر کے جنگجو خود اپنے ہاتھوں سے پاکستان میں آباد کر لیے جو علاقوں کے علاقوں پر عملاً حکمران بن گئے۔ کچھ طالع آزما بھی اس کارگزاری میں جنرل صاحب کے ساتھ تھے۔ ان اہلِ نفاق کے اپنے لخت ہائے جگر امریکہ میں پڑھتے رہے اور بزنس کرتے رہے مگر دوسروں کے بچوں کو یہ حاطب اللیل ''جہاد‘‘ پر بھیجتے رہے! عسکری نقطہ نظر سے مدد کرنی بھی تھی تو سرحدوں کا تقدس تو پامال نہ کیا جاتا۔ جو شخص غیر ملکیوں کے لیے‘ جن میں مسلح لوگ بھی ہوں‘ ملک کے دروازے کھول دے‘ اسے محب وطن کیسے کہا جا سکتا ہے؟ پھر بات یہاں تک بڑھی کہ نادرا جیسے حساس ادارے میں یہ غیرملکی ملازمت کرتے پائے گئے۔ لاکھوں نے پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بنوا لیے۔ اس وطن دشمنی میں یقینا ہمارے اپنے گندے انڈے بھی شامل تھے۔ اُس زمانے کی ایک خبر کبھی نہیں بھولتی جو اخبار میں پڑھی تھی۔ خوست کے کچھ باشندوں نے‘ جو پاکستان کبھی نہیں آئے تھے‘ پاکستانی پاسپورٹوں پر حج کیا۔ ایسے سب کاموں میں ہمارے اپنے لوگ ملوث تھے۔ آج ملک جس خطرناک صورتحال میں گھرا ہوا ہے‘ اسی عہد کی پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ نامحمود میں یہ پالیسیاں اور بھی مہلک ہو گئیں۔ ہم امریکہ کے مخلص رہے نہ طالبان کے! آج اچھے طالبان اور برے طالبان کا نام نہاد فرق مٹ چکا ہے: جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے! افغانستان سے پاکستان پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔ جن کے خاندان عشروں تک پاکستان میں پلتے رہے‘ آج پاکستان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ جن کے بچے یہیں پیدا ہوئے‘ یہیں پلے بڑھے‘ یہیں کی چاندنی‘ دھوپ‘ ہوا اور اناج کھایا‘ ہمارے بچوں کو یتیم اور خواتین کو بیوہ کر رہے ہیں! بقول سعدی:
یا وفا خود نبود در عالم
یا مگر کس درین زمانہ نہ کرد
افغان نفسیات کو جاننا ہو تو ولیم ڈالرمپل کی تصنیف ''ریٹرن آف اے کنگ‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ سفاکی کے بدترین نمونے پائے جاتے ہیں۔ کان‘ ناک‘ ہاتھ کاٹنا عام تھا۔ فرنگی جسے Treachery کہتے ہیں‘ بہتات سے پائی جاتی ہے۔ ایک حکمران نے تو اپنے تمام اعزہ و اقربا کی دعوت کی۔ خود باہر نکل گیا۔ کمرے کے نیچے بارود بھرا تھا۔ سارے کے سارے ہلاک ہو گئے۔ تازہ ترین منظر نامہ دیکھ لیجیے۔ پاکستان نے طالبان کے لیے کیا نہیں کیا۔ بھٹو سے لے کر عمران خان تک سب نے بھلائی کے سوا ان کے ساتھ کچھ نہیں کیا۔ پاکستان بار بار کہہ رہا ہے کہ ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے مگر وہ سُن کر ہی نہیں دے رہے۔ یہ ایک لینڈ لاکڈ ملک ہے جس کا انحصار پاکستان پر ہے۔ پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ کی جو سہولت دے رہا ہے‘ صرف اسی کو دیکھیں تو کوئی نعم البدل نہیں! عملاً آج بھی وہی صورتحال ہے۔ کھادا پیتا لاہے دا تے باقی احمد شاہے دا!

Thursday, January 02, 2025

گلی گلی میں شور ہے…

نہیں! نہیں! غربت نہیں! بیماری کا سبب کچھ اور ہی ہے!!
کیا آپ کو وہ حادثہ یاد ہے جو جون 2017ء میں احمدپور شرقیہ میں پیش آیا تھا؟ آئل ٹینکر کراچی سے بہاولپور آ رہا تھا۔ احمدپور شرقیہ کے قریب ٹائر پھٹا اور ٹرک الٹ گیا۔ ہزاروں لیٹر پٹرول ٹرک سے نکل کر سڑک اور کھیتوں میں بہنے لگا۔ قریبی بستیوں سے ہزاروں لوگ جری کین‘ پتیلے‘ دیگچیاں‘ ڈرم‘ جگ‘ بوتلیں‘ واٹر کولر یہاں تک کہ کھانا پکانے والے برتن اُٹھائے‘ گھروں سے نکلے اور بہتے ہوئے پٹرول کو مالِ غنیمت‘ بلکہ شِیرِ مادر سمجھتے ہوئے‘ ٹوٹ پڑے۔ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ تیل لُوٹنا چاہتے تھے۔ بچے بوڑھے عورتیں مرد سب لگے ہوئے تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ہائی وے پر سفر کرنے والے افراد نے بھی اپنی گاڑیاں روک کر تیل لُوٹنا شروع کر دیا۔ پھر کسی نے سگرٹ سلگایا یا نہ جانے کیا ہوا کہ تیل نے آگ پکڑ لی۔دھماکا ہوا۔ آگ نے سب کو لپیٹ میں لے لیا۔ ایک سو پچاس سے زیادہ افراد جل کر کوئلہ ہو گئے۔ زخمی اس کے علاوہ تھے۔ آپ کا کیا خیال ہے یہ سب غریب تھے؟ وہ جو اپنی گاڑیوں میں سوار وہاں سے گزر رہے تھے اور رک کر لُوٹ میں شامل ہو گئے کیا وہ غریب تھے؟ آپ سڑک پر چل رہے ہوتے ہیں۔ ایک اچھی خاصی قیمتی گاڑی آپ کے پاس آکر رکتی ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ اس میں ایک صاحب اور ایک بی بی سوار ہیں۔ صاحب باہر نکلتے ہیں۔ اچھے خاصے باعزت لباس میں ہیں۔ آپ گمان کرتے ہیں کہ راستہ پوچھیں گے مگر صاحب کہتے ہیں کہ پٹرول ڈلوانے کے لیے پیسے نہیں ہیں‘ کچھ مدد کیجیے! آپ کا کیا خیال ہے یہ غریب ہیں؟ ایک قریبی دوست نے بتایا کہ انہوں نے مکان کرائے پر دیا تھا۔ کرایہ دار ایک بہت معروف‘ بہت ہی زیادہ معروف‘ سیاست دان تھے۔ گھر چھوڑا تو مالک مکان کا سامان بھی ساتھ لے گئے! سرکاری نوکری کے اوائل تھے۔ ہمارا ایک ساتھی بیچ میٹ‘ ایک یورپی ملک کے پاکستانی سفارت خانے کے آڈٹ پر مامور ہوا۔ بہت بڑی شخصیت وہاں بطور سفیر متعین تھی۔ ہمارے دوست نے بتایا کہ یہ شخصیت جب مقررہ مدت ختم ہونے پر وطن واپس تشریف لائی تو سرکاری سامان بھی ساتھ لے آئی۔ فاروق گیلانی مرحوم کچھ ہنستے ہوئے‘ کچھ روتے ہوئے بتاتے تھے کہ انہوں نے جتنے وزیروں کے ساتھ کام کیا‘ سرکاری لنچ تک دفتر میں ضرور بیٹھتے تھے۔ سرکاری لنچ کھانے کے فوراً بعد چھٹی کر جاتے تھے۔ ان میں بڑے بڑے نام تھے۔ گیلانی مرحوم یہ بھی بتاتے تھے کہ صرف چودھری شجاعت کا کھانا گھر سے آتا تھا۔ توشہ خانے ہی کو لے لیجیے۔ عمران خان تو بھگت رہے ہیں‘ مگر کون ہے جس نے توشہ خانے کے حوالے سے بے نیازی کا‘ سیر چشمی کا اور خاندانی ہونے کا ثبوت دیا ہو؟ کوئی نہیں! کوئی ایک بھی نہیں! جس کو بھی موقع ملا‘ لے اُڑا! سُوئی تھی یا ہاتھی‘ کچھ نہ چھوڑا!
تو جناب ! یہ غربت یا مجبوری کا مسئلہ نہیں! ہماری ساخت ہی ایسی ہے۔ یہ 
Manufacturing Defect
 ہے۔ یہ ڈی این اے کی خرابی ہے۔ آج ایک خبر پڑھی تو دل چاہا کہ لباس تار تار کر کے‘ جنگل کا رُخ کیا جائے۔ روزنامہ دنیا کی رپورٹ ملاحظہ فرمائیے:''حکومت پاکستان نے ایران میں مختلف جرائم میں ملوث دس ہزار سے زائد پاکستانیوں کے پاسپورٹ بلاک کر دیے۔ ان پاکستانی شہریوں پر مختلف جرائم کے الزامات تھے۔ پاکستانی شہری انسانی سمگلنگ‘ غیر قانونی رہائش‘ منشیات‘ شدت پسندی اور دیگر جرائم میں گرفتار کیے گئے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں ایران نے پانچ ہزار سے زائد پاکستانیوں کو ڈی پورٹ (ملک بدر) کر دیا۔ چار ہزار سے زائد تو صرف غیر قانونی طور پر ایران بارڈر کراس کرنے کے جرم میں گرفتار کیے گئے۔ جرائم میں ملوث پاکستانیوں کے پاسپورٹ پانچ اور سات سال کے لیے بلاک کیے گئے ہیں۔ چند روز قبل متحدہ عرب امارات میں منشیات کے جرائم میں ملوث 2470 پاکستانیوں کے پاسپورٹ بلاک کیے گئے ہیں۔ نومبر میں حکومت پاکستان نے عراق سے ڈی پورٹ کیے گئے پندرہ سو پاکستانیوں کے پاسپورٹ بلاک کرنے کا عمل شروع کیا تھا۔ ابتدائی طور پر پچاس پاکستانیوں کے پاسپورٹ سات سال کے لیے بلاک کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزارتِ داخلہ کے ذرائع کے مطابق عراق سے پندرہ سو سے زائد پاکستانی شہری گزشتہ چھ ماہ میں ڈی پورٹ ہوئے۔ ان کے بھی پاسپورٹ بلاک کیے جائیں گے۔ اکتوبر میں حکومت پاکستان نے سعودی عرب میں قید چار ہزار پاکستانیوں کے پاسپورٹ بلاک کیے تھے۔ سعودی عرب کی حکومت نے ان چار ہزار پاکستانی شہریوں کو بھیک مانگنے اور دیگر جرائم میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا تھا۔ ان پاکستانی شہریوں کے پاسپورٹ سات سال کے لیے بلاک کیے گئے ہیں‘‘۔
بتائیے! کیسا محسوس کر رہے ہیں؟ سعودی عرب‘ ایران‘ متحدہ عرب امارات‘ عراق‘ ہر جگہ ملک کی عزت افزائی ہو رہی ہے۔ انتظار کیجیے۔ جلد ہی بحرین اور قطر بھی ایکشن لیں گے۔ کچھ عرصہ پہلے ایسی ہی تطہیر ترکیہ نے بھی کی تھی! یو اے ای نے پاکستانیوں کے ویزے مکمل طور پر بند کر رکھے ہیں! اس میں سرکاری‘ غیر سرکاری پاسپورٹ سب شامل ہیں! گزشتہ سال جن لوگوں کے سعودی عرب میں سر قلم کیے گئے‘ ان میں سب سے زیادہ تعداد پاکستانیوں کی تھی‘ یعنی 21۔ بھارت اور افغانستان سے تین تین تھے اور سری لنکا سے ایک! ان 21میں بیشتر وہ تھے جو منشیات کے حوالے سے پکڑے گئے تھے۔ گدھے کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ جو بھی منشیات میں ملوث ہوگا موت کی سزا پائے گا۔ مگر آفرین ہے ہم پاکستانیوں پر‘ ہماری مستقل مزاجی پر اور ہمارے دماغوں پر کہ ہم مرنے کے لیے تیار ہیں مگر باز نہیں آ سکتے! ابھی تو صرف اُن پاکستانیوں کے اعداد وشمار ظاہر ہوئے ہیں جو مشرقِ وسطیٰ میں قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔ یورپ‘امریکہ اور دیگر ملکوں کے اعداد وشمار معلوم ہوں تو ہماری شان وشوکت کا درست اندازہ لگے!
اس لکھنے والی کی دادی جان کمال حسِ مزاح رکھتی تھیں! اُس زمانے میں بھی ماڈرن خیالات رکھتی تھیں۔ بچوں کی زیادہ تعداد پسند نہیں کرتی تھیں۔ ہمارے ایک رشتے کے ماموں ہمیشہ بندوق ساتھ رکھتے تھے۔ عورتیں لکڑی کے جس ٹیڑھے میڑھے ڈنڈے کے ساتھ تنور کے اندر ایندھن اور آگ کو آگے پیچھے کرتی ہیں اُسے ہمارے علاقے میں ''کُڈھنا‘‘ کہتے ہیں۔ بندوق والے ماموں کو وہ کُڈھنے والا کہا کرتیں۔ ریشِ دراز کا مذاق اڑایا کرتیں! ایک بار بس میں سفر کر رہی تھیں‘ گھر پہنچیں تو دلچسپ واقعہ سنایا۔ کہنے لگیں: بس میں ایک شخص کی لمبی داڑھی تھی‘ کنڈکٹر نے اسے کہا: صوفی صاحب! آپ اپنی سیٹ سے اٹھیں اور فلاں سیٹ پر بیٹھ جائیں۔ وہ اٹھا اور جہاں کنڈکٹر نے کہا تھا وہاں بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد بس میں کوئی نئی سواری داخل ہوئی۔ کنڈکٹر نے پھر صوفی صاحب کو سیٹ تبدیل کرنے کا حکم دیا۔ پھر تیسری بار بھی ایسا ہی ہوا۔ دادی جان کے بقول ''کنڈکٹر سمجھ گیا تھا کہ جَھلا یہی ہے‘‘۔ ہم پاکستانیوں کا بھی یہی حال ہے۔ جہاں بھی کوئی غیر قانونی کام ہو گا‘ کوئی نہ کوئی پاکستانی ہی ملوث ہو گا۔ ایک دوست کچھ عرصہ پیرس میں رہے۔ اس قیام کی انہوں نے روداد لکھی۔ لکھا کہ پیرس میں ہارن بجانے کا رواج بالکل نہیں مگر جب کبھی بجا‘ کسی پاکستانی ہی پر بجا۔ ایک سفر نہیں بھولتا۔ اُن دنوں تاشقند اور لاہور کے درمیان ازبک ایئر لائن کی پروازیں چلتی تھیں! میں تاشقند سے واپس آ رہا تھا۔ دورانِ پرواز دو پاکستانیوں میں جھگڑا ہو گیا۔ بات ہاتھا پائی تک پہنچی۔ دونوں اٹھ کر‘ گتھم گتھا ہو گئے۔ یہ دست بدست لڑائی بہت دیر جاری رہی یہاں تک کہ پائلٹ اور عملے نے بتایا کہ پرواز کا توازن بگڑنے کا اندیشہ ہے۔ بہت مشکل سے انہیں ایک دوسرے سے چھڑایا گیا۔

 

powered by worldwanders.com