مسافر چیخ رہے تھے۔ جہاز ہچکولے کھا رہا تھا۔ اب گرا کہ گرا! اچانک ایک آواز ابھری ''گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ نیچے دیکھیے‘ سمندر کے صاف شفاف پانی پر چلتی ایک خوبصورت کشتی نظر آئے گی۔ ہم اسی کشتی سے بول رہے ہیں‘‘۔ اس لطیفہ نما حکایت سے یہ سبق ملتا ہے کہ یہ بات کہ ایک انسان کیا کہتا ہے اور کس طرح کہتا ہے‘ اس امر پر منحصر ہے کہ وہ کہاں ہے اور جو کچھ کہہ رہا ہے‘ کہاں سے کہہ رہا ہے؟ بحر اوقیانوس کے پار‘ امریکہ کی مشفق‘ سرپرستانہ‘ نرم‘ مخملیں گود میں بیٹھ کر اسرائیل کے حق میں بولنا اور پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنا اور بات ہے اور پاکستان کے اندر رہ کر کچھ کہنا اور بات ہے۔
شعائیں‘ Vibes تو اس شخص سے ہمیشہ منفی اور ناپسندیدہ ہی اٹھتی تھیں مگر یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ بے حسی کی آخری حد بھی پیچھے رہ جائے گی۔ تازہ ترین ہزلیات کی جھلکیاں دیکھیے۔
''اگر اسرائیل غاصب ہے تو اس کو ذرا ڈی کوڈ کریں‘ یہ کیا چیز ہے۔ اسرائیل کو وہاں عالمی قوتوں نے بٹھایا ہے۔ وہی عالمی قوتیں کہ جنہوں نے ستاون اسلامی ممالک کی لکیریں کھینچی ہیں!‘‘۔
''یہی مقدمہ طالبان پیش کرتے ہیں کہ یہ غاصب ہیں پاکستانی۔ انہوں نے ڈیورنڈ لائن کو لائن بنا کر ہمیں تقسیم کر دیا ہے‘‘۔
''پھر ہندوؤں کا یہ مقدمہ بھی تسلیم کریں کہ مسلمان غاصب ہیں۔ہندوؤں کے گھر میں ایک ہزار سال تک ہم بیٹھے رہے‘‘۔
اب جب یہ مقدمہ ''قائم‘‘ ہو گیا کہ ''ہم‘‘ بھی غاصب ہیں تو انٹرویو لینے والا پوچھتا ہے کہ ''جب ہم بھی غاصب ہیں اور وہ بھی‘ تو کیا کرنا چاہیے‘ تو یہ بزرجمہر کہتا ہے کہ ''سب سے پہلے اپنی زمین چھوڑیں اور ہندوؤں کے حوالے کریں‘‘۔
ان ''دلائل‘‘ کی صداقت کو تو ہم دیکھیں گے ہی‘ جس تکبر‘ نخوت‘ رعونت اور گھمنڈ کے ساتھ یہ ژاژ خائی اور ہذیان گوئی کی جا رہی ہے اس پر ہنسی بھی آتی ہے اور رحم بھی!! یوں لگتا ہے کہ بہت اونچے تخت پر بیٹھ کر طاقتور ترین ملک کا کوئی بہت بڑا نمائندہ فیصلے صادر کر رہا ہے!! آخر طاقتور ترین ملک میں رہنے سے یہ احساس تو ہو ہی جاتا ہے کہ ''میں بھی طاقتور ترین ہوں‘‘۔
تقسیمِ ہند سے پہلے کا واقعہ ہے۔ لاہور میں مسلم لیگ کا جلوس تھا یا کانگرس کا۔ دو خاکروب جیمز اور سام‘ شاہراہ کے کنارے‘ اپنے اپنے جھاڑو زمین پر رکھے سستا رہے تھے۔ جلوس پاس سے گزرا تو جیمز نے سام سے پوچھا: یار سام! اے کیہ چاہندے نیں۔ یعنی یہ کیا چاہتے ہیں؟ سام نے جواب دیا: اے آزادی چاہندے نے‘ جیہڑی اسی نئیں دینی۔ یعنی یہ آزادی چاہتے ہیں جو ہم نے دینی نہیں!!
مسلمان ہی نہیں‘ غیر مسلم بھی دہائی دے رہے ہیں کہ اسرائیل غاصب ہے! اس بزرجمہر کی ممدوح عالمی قوتوں نے جب اسرائیل کو جنم دیا تھا تو اس وقت فلسطین کی کتنی زمین تھی یہودیوں کے قبضے میں؟ کالم نگار آصف محمود نے اعداد وشمار دیے ہیں۔ اسرائیل کے قیام کے وقت یہودیوں کے پاس صرف چھ فیصد زمین تھی۔ یروشلم میں دو فیصد اور باقی شہروں میں ان کے پاس ایک فیصد سے بھی کم زمین تھی۔ کیا آج بھی یہودیوں کے پاس اتنی ہی زمین ہے؟ کیا نئی یہودی بستیوں کو دنیا بھر نے ظلم اور ڈاکہ نہیں قرار دیا؟ کون سا ظلم ہے جو اہلِ فلسطین پر نہیں ہوا۔دنیا بھر سے غول در غول یہودی آتے گئے اور فلسطینیوں کو پیچھے دھکیلتے گئے۔ آئے دن ان کا قتلِ عام ہوتا ہے۔ المناک ترین حصہ اس یاوہ گوئی کا وہ ہے جس میں پاکستان کو بھی لپیٹ میں لیا گیا۔ یعنی بازی بازی باریشِ بابا ہم بازی! کہ طالبان بھی تو پاکستان کو غاصب کہتے ہیں۔ یہ بہت بڑا جھوٹ ہے۔ کسی طالبان رہنما نے پاکستان کو کبھی غاصب نہیں کہا۔ اسرائیل کے ضمن میں پاکستان کا ذکر کہاں سے اور کیسے آ گیا؟ پاکستان ہماری جان ہے اور زندگی! پاکستان ہماری ریڈ لائن ہے۔ اس ریڈ لائن کو جو کراس کرے گا ہم اس کا تعاقب کریں گے‘ خواہ وہ کسی کی گود ہی میں کیوں نہ بیٹھا ہو۔ پاکستان کا موازنہ اسرائیل سے وہی کر سکتا ہے جو عقل سے عاری ہو اور تاریخ سے مکمل بے بہرہ! کیا پاکستان میں بسنے والے دوسرے ملکوں سے لائے گئے؟ ہم اس خطے میں ہزاروں سال سے رہ رہے ہیں۔ پاکستان ایک تحریک کے نتیجے میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ اسے کسی عالمی قوت نے تخلیق نہیں کیا۔ یہ اقبال کے تصور اور قائداعظم کی بے پناہ ذہانت‘ محنت اور دیانتداری کا ثمر ہے! اس کی تشکیل میں یہودیوں کی دولت کا نہیں‘ مسلمانوں کی کوشش اور دعاؤں کا حصہ ہے۔ یہ اُس مسلم لیگ نے بنوایا جس کی تاسیس 1906ء میں ڈھاکہ میں ہوئی تھی۔ کیا یہ مسلم لیگ نام نہاد عالمی قوتوں نے بنوائی تھی؟ بنگلہ دیش الگ ہو کر بھی ثابت کر رہا ہے کہ برصغیر کے مسلمان اپنی الگ حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کا موازنہ اسرائیل کے ساتھ کوئی محب وطن پاکستانی نہیں کر سکتا! جسے رمق بھر بھی احساس ہو کہ اس نے اس سرزمین سے اُگنے والا اناج کھایا ہے‘ اس کے چشموں کا پانی پیا ہے‘ اس کی دھوپ اور چاندنی نے اس کے جسم کی نشو ونما کی ہے‘ اس کی ہواؤں‘ فضاؤں‘ بہاروں‘ موسموں اور خوشبوؤں سے وہ لطف اندوز ہوا ہے‘ وہ کبھی بھی پاکستان کے بارے میں ایسے فاسد خیالات نہیں رکھ سکتا۔ وہ تو اس کے ذرے ذرے کو مقدس سمجھتا ہے۔ پاکستان کے دفاع میں ہمارے بیٹوں نے اپنا خون دیا ہے اور مسلسل دے رہے ہیں۔ اس کی خاطر ہمارے بچے یتیم ہوئے ہیں۔ ہماری خواتین بیوہ ہوئی ہیں۔ ہماری ماؤں نے اپنے جگر گوشے قربان کیے ہیں اور جب ان ماؤں کو شہادت کی خبر ملتی ہیں تو الحمدللہ کہتی ہیں۔ ایسی مقدس سرزمین کو اسرائیل کے ساتھ تشبیہ دینے والے کے بارے میں نرم ترین الفاظ میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ جس تھالی میں کھایا اسی میں چھید کر ڈالا!
ان افسوسناک جملوں سے ایک بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ بیک وقت‘ اور بیک آواز‘ بھارت اور اسرائیل دونوں کی خدمت کی جا رہی ہے۔ یہ بات کہ مسلمان ایک ہزار سال سے ہندوؤں کی زمین پر قابض ہیں اور یہ کہ انہیں یہ زمین ہندوؤں کے حوالے کر دینی چاہیے‘ آر ایس ایس اور بی جے پی کا مؤقف ہے۔ یہی کچھ تو مودی‘ ادتیا ناتھ اور امیت شاہ جیسے اکھنڈ بھارتی کہتے اور چاہتے ہیں! یہی راگ تو بھارتی جنرل گگن دیپ بخشی‘ ارناب گوسوامی اور ان کے ہم نوا رات دن الاپ رہے ہیں! اندازہ لگائیے! کیا کوئی پاکستانی مسلمان‘ کوئی بنگلہ دیشی مسلمان‘ کوئی بھارتی مسلمان کہہ سکتا ہے کہ ہم ہندوؤں کے گھروں میں ایک ہزار سال سے بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ کہ اسرائیل کا کچھ کرنے سے پہلے مسلمانوں کو چاہیے کہ برصغیر خالی کر دیں اور زمین ہندوؤں کے حوالے کر دیں!! انا للہ وانا الیہ راجعون! تفو بر تو اے چرخِ گردوں تفو!!
میر جعفر اور میر صادق کے سروں پر سینگ نہیں تھے۔ وہ بھی انسانی شکل ہی میں تھے۔ وہ بھی سر پر ٹوپی پہنتے تھے اور نئے نئے برانڈڈ ملبوسات! وہ بھی معروف لوگوں کے داماد ہی تھے!
بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں
اگرچہ پیر ہے آدم‘ جواں ہیں لات ومنات
یہ صرف مذمت کا نہیں‘ ماتم کا بھی مقام ہے! ایک انسان کتنا گر سکتا ہے؟ نہیں معلوم یہ خدمت طویل المیعاد ویزے کے صلے میں سر انجام دی جا رہی ہے یا گرین کارڈ یا پاسپورٹ کے صلے میں! یا کسی اور سلسلے میں! مؤقف یہ ہو بہو‘ حرف بحرف وہی ہے جو امریکہ میں مقیم بھارتی اور اسرائیلی لابیاں رکھتی ہیں! ظفر اقبال یاد آ گئے:
دیکھ حسرت کوئی رہ جائے نہ دل میں تیرے
شور کر اور بہت‘ خاک اڑا اور بہت