Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, April 08, 2025

……ہے کوئی بھارتی مسلمانوں کا والی وارث؟؟


بادشاہ بیمار پڑا! بہت سخت بیمار! کوئی دوا کام نہیں آ رہی تھی۔ کوئی علاج کارگر نہیں ہو رہا تھا۔ پھر اطبّا نے ایک عجیب وغریب نسخہ تجویز کیا۔ ایک نوجوان کا پِتّہ درکار ہو گا مگر صرف اس نوجوان کا جس میں فلاں فلاں خصوصیات ہوں! بادشاہ نے اشارہ کیا اور مملکت میں ڈھنڈیا پڑ گئی۔ بالآخر تلاشِ بسیار کے بعد ایک نوجوان مل گیا۔ اس میں وہ تمام خصوصیات تھیں جن کا طبیبوں نے کہا تھا۔ بادشاہ کی زندگی بچانے کے لیے نوجوان کو موت کے گھاٹ اتار کر اس کا پِتّہ نکالنا تھا۔ اس کام میں دو رکاوٹیں تھی۔ ماں باپ اور عدالت! ماں باپ کے لیے شاہی خزانے کے منہ کھل گئے۔ انہوں نے اجازت دے دی۔ عدالت نے فیصلہ دے دیا کہ ملک کی سلامتی اور عوام کے وسیع تر مفاد کا سوال ہے۔ اس لیے بادشاہ کی زندگی پر رعایا میں سے ایک فرد قربان کیا جا سکتا ہے۔ جلاد جب سر قلم کرنے لگا تو نوجوان آسمان کی طرف دیکھ کر ہنسا۔ اتفاق ایسا تھا کہ بادشاہ نے یہ منظر دیکھ لیا۔ اس نے نوجوان سے پوچھا کہ یہ ہنسنے کا کون سا موقع ہے؟ نوجوان نے جواب دیا کہ اولاد کی حفاظت ماں باپ کرتے ہیں‘ میرے ماں باپ نے دولت لے کر مجھے فروخت کر دیا۔ انصاف عدالت نے دینا تھا۔ عدالت نے میرا قتل جائز قرار دیا ہے۔ آخری اپیل بادشاہ کو کرنی تھی۔ بادشاہ تو خود میری موت چاہتا ہے۔ اب اوپر اس لیے دیکھا ہے کہ خدا ہی آخری پناہ گاہ ہے۔
بھارتی مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے۔ ان کے مفادات کی حفاظت ان کے ملک کی حکومت نے کرنی تھی۔ حکومت ہی تو ان کی دشمن بنی ہوئی ہے۔ انصاف کی توقع انہیں عدالت سے تھی۔ بھارتی عدالتیں مسلمانوں کی کون سی دوست ہیں! حفاظت کے لیے انہوں نے پولیس کے پاس جانا تھا۔ پولیس کا سربراہ امیت شاہ جیسا وزیر ہے‘ آر ایس ایس کا پکا پختہ پیروکار! آخری امید ایک کمیونٹی کی‘ ملک کا حکمرانِ اعلیٰ ہوتا ہے۔ حکمرانِ اعلیٰ مودی ہیں جن کے دامن پر گجرات کے مسلمانوں کا خونِ ناحق لگا ہے! ان کے اقتدار کا مقصد مسلمانوں پر زندگی تنگ کرنا ہے۔ اس کے بعد بھارتی مسلمانوں کا سب سے بڑا سہارا پاکستان تھا۔ لیکن ہائے قسمت!! پاکستان کی اپنی حالت قابلِ رحم ہے۔ جب مودی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا گلا گھونٹا تو پاکستان سوائے اس کے کہ کشمیر ہائی وے کا نام بدل کر سری نگر ہائی وے رکھ دے‘ کچھ نہ کر سکا۔ اس سانپ نے‘ جس کا نام ادتیا ناتھ ہے‘ اور یو پی کا وزیر اعلیٰ ہے‘ مسلمانوں کی زندگی جہنم بنا دی ہے۔ شہروں کے سینکڑوں سال پرانے نام بدل رہا ہے۔ یہ صرف بھارت کا نہیں‘ برصغیر کے تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ یہ نام ہماری میراث کا بھی حصہ ہیں۔ حکومت پاکستان نے تو خیر کیا احتجاج کرنا تھا‘ ہمارا میڈیا بھی اس ظلم کو پی گیا۔ اور وہ جماعتیں جنہیں پوری دنیا کے مسلمانوں کا غم‘ اکثر وبیشتر‘ بے چین رکھتا ہے اور خبروں میں اِن رہنے کے لیے احتجاجی جلوس نکالتی رہتی ہیں‘ بھارتی مسلمانوں کے بارے میں خاموش ہیں۔ بھارتی مسلما نوں کی آخری امید‘ دنیا میں وہ ممالک ہیں جہاں ہمارے مقدس ترین مقامات ہیں‘ عربی جن کی زبان ہے اور اللہ کے آخری رسولﷺ جہاں پیدا ہوئے اور جہاں ان کا وصال ہوا۔ مگر افسوس! صد افسوس! ان ملکوں نے بھارتی مسلمانوں کے سر پر ہاتھ تو کیا رکھنا تھا‘ مودی اور مودی حکومت کی وہ خدمتیں کیں اور کیے جا رہے ہیں کہ انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ کہیں اسے سب سے بڑا اعزاز دیا گیا تو کہیں مندر بنا کر اسے خوش کیا گیا۔ کروڑوں اربوں کی سرمایہ کاری بھارت میں کی جا رہی ہے۔ آج شاہ فیصل زندہ ہوتے تو ان کا ایک جملہ ہی بھارتی حکومت کا دماغ ٹھیک کر دیتا! سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ امت مسلمہ کا تصور آخر ہے کیا؟ بھارت میں جو ناقابلِ بیان سلوک مسلمانوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے‘ اس پر امتِ مسلمہ کیوں خاموش ہے؟ پچاس سے زیادہ مسلمان ملکوں میں سے کسی میں اتنا دم خم نہیں کہ بھارتی سفیر کو بلا کر احتجاجی مراسلہ ہی پکڑا دیں! اس دفعہ ہولی کا تہوار آیا تو مسجدیں ترپالوں سے ڈھانک دی گئیں! کیوں؟ سینکڑوں سال سے ہولی منائی جا رہی ہے! کبھی کسی مسلمان نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ مسجدیں صرف اس لیے ڈھانکی گئیں کہ مسلمان احساسِ کمتری میں مبتلا ہوں۔ انہیں معلوم ہو جائے کہ وہ اب دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ جمعہ کی نماز اور عیدین کی نمازیں‘ کسی سڑک پر یا کھلی جگہ پر نہ ادا کی جائیں۔ یہ پابندی ہندوؤں کے مذہبی جلوسوں پر کیوں نہیں لگائی جاتی؟ کیا سڑک پر نماز ادا کرنے سے کمبھ میلے سے بھی زیادہ شور اور بد امنی ہوتی ہے؟ آسام میں صدیوں سے رہنے والے مسلمانوں سے شہریت کے کاغذات مانگے جا رہے ہیں! سول سروس میں‘ مودی دور میں‘ شاید ہی کوئی مسلمان آ رہا ہو! گائے کے نام پر اب تک سینکڑوں مسلمان قتل کیے جا چکے ہیں۔ ہزاروں گھر اُجاڑے جا چکے ہیں۔ بی جے پی کی حکومت نے ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرتیں بھر دی ہیں۔ نہرو کا سیکولر بھارت عدم برداشت کی انتہاؤں کو چھُو رہا ہے۔ گاندھی جی کے قاتل کو ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
تازہ ترین زخم جو مسلمانوں کو پہنچایا گیا ہے‘ پوری امت مسلمہ کے لیے باعثِ شرم ہے۔ مسلمانوں کی مذہبی املاک کو ہڑپ کرنے کی ابتدا کر دی گئی ہے۔ ماضی میں نہ صرف حکمران بلکہ صاحبِ حیثیت اور آسودہ حال لوگ مسجدوں‘ امام بارگاہوں‘ خانقاہوں اور دیگر امور کے مصارف اور دیکھ بھال کے لیے اپنی جائیدادوں کا کچھ حصہ وقف کیا کرتے تھے۔ نوابوں کے عہد میں یہ سلسلہ اور بھی بڑھ گیا تھا۔ یہ مذہبی املاک بی جے پی کی حکومت کی آنکھوں میں کانٹا بن رہی ہیں۔ اس مقصد کے لیے قانون سازی کر دی گئی ہے۔ بی بی سی کے مطابق ایک نیا بل 1995ء کے وقف ایکٹ میں ترمیم کے لیے لایا گیا ہے۔ نئے بل کی شق کے مطابق صرف وہی شخص زمین عطیہ کر سکتا ہے جو مسلسل پانچ سال تک مسلمان رہا ہو اور عطیہ کی جانے والی جائیداد اس کی اپنی ملکیت ہو۔ نئے بل میں سروے کرانے کا حق وقف کمشنر کے بجائے کلیکٹر کو دیا گیا ہے۔ وقف املاک سے متعلق تنازع میں کلیکٹر کا فیصلہ مؤثر مانا جائے گا۔ اس بل کے مطابق وقف ٹریبونل کے فیصلے کو حتمی نہیں سمجھا جائے گا۔ ''وقف املاک‘‘ کی انتظامیہ میں ہندوؤں کو شامل کیا جائے گا حالانکہ ہندوؤں کے مذہبی معاملات میں کسی غیر ہندو کا کوئی کردار نہیں! یہ ظالمانہ بل ایک ہولناک سکیم کی ابتدا ہے۔ سکیم یہ ہے کہ مسلمانوں کو نیست ونابود کر دیا جائے۔ ملازمتوں کے دروازے ان پر پہلے ہی بند ہیں۔ معاشرتی طور پر انہیں پہلے ہی تنہا کیا جا رہا ہے۔ وقف کے اس ترمیمی بل سے ان کے مذہب اور کلچر پر ایک اور مہلک وار کیا گیا ہے!
کیا پاکستانی سفارت خانے اس ضمن میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟ نہیں! تمام ملکوں میں متعین پاکستانی سفیروں‘ خاص طور پر مسلمان ملکوں میں تعینات شدہ پاکستانی سفیروں پر لازم ہے کہ وہاں کی حکومتوں کو‘ میڈیا کو اور سول سوسائٹی کو بھارت کے ان مسلمان دشمن اقدامات سے آگاہ کریں۔ رائے عامہ کو بیدار کریں اور مسلمانوں کو اصل حقائق سے روشناس کریں! عرب ممالک کی حکومتیں بھارت کو آسانی سے احساس دلا سکتی ہیں کہ بھارتی مسلمان اتنے بھی لاوارث نہیں کہ ظلم وستم کا ایک لامتناہی سلسلہ ان پر روا رکھا جائے اور مسلمان ممالک خاموش رہیں! ان ملکوں کی حکومتیں اگر مصلحت پسندی کا شکار ہیں تو کم از کم وہاں کے عوام کو تو صورتحال سے آگاہ کیا جائے!!

Thursday, April 03, 2025

اے برطانیہ کے بادشاہ! اے امریکہ کے صدر

!

اگر کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان لبریشن آرمی کا مقصد پاکستانیوں کو قتل کرنا ہے تو یہ کام تو ان کے بغیر بھی ہو رہا ہے اور بہت اچھی طرح سے ہو رہا ہے۔ ان تنظیموں سے کوئی پوچھے کہ تم یہ کام کر کے کیوں بدنامی مول لے رہی ہو؟
گزشتہ ہفتے راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر ایک ڈمپر نے پانچ پاکستانیوں کو ہلاک کر ڈالا۔ ان میں ایک 40سالہ خاتون اور ایک 15سالہ لڑکی بھی شامل تھی۔ کئی لوگ زخمی ہوئے۔ ڈمپر کا ڈرائیور بھاگ گیا۔ امید واثق ہے کہ پکڑا نہیں جائے گا! کچھ عرصہ پہلے ملیر ہالٹ کراچی میں میاں بیوی کو ایک ٹینکر نے کچل ڈالا۔ خاتون حاملہ تھی۔ ڈمپر‘ ٹینکر اور ٹریکٹر ٹرالیاں ہر سال سینکڑوں لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد وہ ہے جو رپورٹ ہو جاتی ہے‘ وگرنہ یہ تعداد ہزاروں میں ہو گی۔ حافظ نعیم الرحمن پہلے سیاستدان ہیں جنہوں نے گزشتہ ہفتے ڈمپروں اور ٹینکروں کے ہاتھوں روزانہ کی بنیاد پر ہلاک ہونے والوں کی بات کی ہے۔ اگرچہ یہ بات انہوں نے صرف کراچی کے حوالے سے کی ہے۔ انہوں نے مسئلے کا حل بھی نہیں بتایا۔ صرف یہ مطالبہ کیا ہے کہ جاں بحق ہونے والوں کے پسماندگان کو معاوضہ دیا جائے۔ بہر طور حافظ صاحب کے علاوہ کسی نمایاں عوامی شخصیت نے اس موضوع پر‘ ہمارے علم کی رو سے‘ آج تک احتجاج نہیں کیا۔
کسی بھی حکومت کا‘ وفاقی ہو یا صوبائی‘ اولین فریضہ عوام کی جان کی حفاظت ہے! اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک طویل عرصے سے یہ خوفناک قاتل گاڑیاں شاہراہوں پر خون کے دریا بہا رہی ہیں تو حکومتوں نے اس قتلِ عام کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ لیکن ٹھہریے! یہ سوال ہی غلط ہے۔ یہ سوال تب درست اور منطقی ہوتا جب ہماری حکومتوں کا اولین فریضہ واقعی عوام کی جانوں کی حفاظت ہوتا! ہماری حکومتوں کا اس فریضے سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں! ان کی ترجیحات میں عوام کی زندگیاں آتی ہی نہیں! ٹریفک کا قتلِ عام ہو یا ڈمپروں کی خونریزی‘ حکومتیں مکمل لا تعلق ہیں۔ صرف حکومتوں کی بے اعتنائی کی بات نہیں‘ منتخب عوامی نمائندوں کو بھی ان مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں! حکومتیں اپنے اقتدار کی حفاظت میں مصروف رہتی ہیں یا اقتدار کو مزید طول دینے میں! رہے عوامی نمائندے تو ان کی ترجیحات میں ترقیاتی فنڈز کا حصول ہوتا ہے یا کابینہ میں شمولیت اور اپنے قریبی اعزہ کے لیے ملازمتیں‘ ترقیاں‘ تعیناتیاں اور دیگر فوائد اور مراعات کا حصول!!
اگر کوئی حکومت دلچسپی لیتی تو اس مسئلے سے نمٹنا مشکل نہ تھا! دنیا بھر میں ایسے جرائم سخت سزاؤں سے روکے جاتے ہیں۔ حکومت کو عوام کی فلاح میں دلچسپی ہوتی تو اس ضمن میں قانون سازی کرتی۔ پہلی یہ کہ قاتل ڈرائیور کو سخت ترین سزا دی جائے گی۔ کم از کم چودہ پندرہ سال قید با مشقت کی سزا! دوسری یہ کہ ڈمپر یا ٹینکر یا ٹرالی بحقِ سرکار ضبط کر لی جائے گی۔ تیسری اور اہم ترین یہ کہ مقتول یا مقتولین کے خاندانوں کو گاڑی کا مالک معاوضہ ادا کرے گا جو معمولی یا برائے نام نہیں ہو گا بلکہ کروڑوں میں ہو گا۔ اس کے علاوہ زخمیوں کے علاج کے اخراجات بھی گاڑی کا مالک ہی ادا کرے گا۔ چوتھی یہ کہ اس قبیل کی گاڑیاں دن کی روشنی میں سڑک پر نہیں دکھائی دیں گی۔ یہ اپنا کام راتوں کو کریں گی جب ٹریفک بہت کم ہوتی ہے۔ اگر قانون سازی ان خطوط پر کر دی جائے تو آپ دیکھئے گا کہ ٹینکروں‘ ٹرالیوں اور ڈمپروں کے مالک راتوں رات بے حس حیوانوں کی جگہ انسان بن جائیں گے۔ گاڑیوں کی بتیاں ٹھیک کرائیں گے۔ اَن پڑھ اور اجڈ ڈرائیوروں کی جگہ ایسے ڈرائیور رکھنا شروع کر دیں گے جو اکھڑ ہوں نہ وحشی! جو انسانوں کو انسان سمجھیں اور ٹریفک قوانین کی پابندی کریں!
لیکن یہ محض خیالی پلاؤ ہے۔ کس کے پاس اتنا وقت ہے اور کس کو اتنی فکر ہے کہ لوگوں کی جان بچانے کے لیے قانون سازی کرتا پھرے! بظاہر یہی لگتا ہے کہ قتل و غارت کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ان وحشت ناک گاڑیوں کے مالکان کا بال بیکا نہیں ہو گا۔ یہ پیسے کماتے رہیں گے۔ ان کے رکھے ہوئے ڈرائیور‘ انسان نما جانور ڈرائیور‘ بچوں‘ خواتین اور مردوں کو ہلاک کرتے رہیں گے! تو پھر ہم کیا کریں؟ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہم اپنے مائی باپ‘ اپنے سابق آقاؤں‘ انگریز سرکار کو مدد کے لیے پکاریں! ان سامراجیوں میں کم از کم یہ خصوصیت موجود تھی کہ جب عوام کو کوئی مصیبت پیش آتی تو یہ اس کا استیصال کرتے۔ ہم نے پولیس والوں کی خود نوشتوں میں پڑھا ہے کہ کسی گاؤں میں قتل ہوتا تو انگریز پولیس افسر گاؤں کے باہر تنبو لگا کر بیٹھ جاتا اور اس وقت تک وہاں سے نہ جاتا جب تک قاتل پکڑا نہ جاتا۔ ستی کی ظالمانہ رسم کے خلاف بھی انگریز سرکار ہی نے کارروائی کی۔ یہ عجیب بات ہے کہ انگریز سامراج کا بنیادی مقصد ملکہ کی حکومت کی بقا اور استحکام تھا۔اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے ظلم بھی بہت کیے۔ اس کے باوجود امن و امان کا قیام اور عوام کی حفاظت بھی ان کے زمانے میں پوری پوری ہوئی۔ اس کی ایک مثال ٹھگوں کا خاتمہ تھا۔ ٹھگ وسطی ہند میں عام پائے جاتے تھے۔ انگریزوں سے پہلے بھی مختلف بادشاہوں نے ان کے خاتمے کی کوششیں کیں لیکن مکمل استیصال ان کا ولیم بینٹک کے دور میں ولیم ہنری سلیمن نے کیا۔ ٹھگ دو دو‘ چار چار کی تعداد میں مسافروں کے قافلوں میں شامل ہو جاتے تھے۔ مسافروں کی خدمت کر کے ان کا اعتماد حاصل کر لیتے۔ ساتھ ساتھ یہ معلومات بھی حاصل کرتے رہتے کہ کس مسافر کا سامان قیمتی ہے یا کس کے پاس سونا یا روپے ہیں۔ پھر موقع پا کر اپنے شکار کو مار ڈالتے اور اس کا مال لے کر غائب ہو جاتے۔ ان کے مارنے کا طریقہ بھی خاص تھا۔ یہ ریشمی رومال کے ساتھ گلے میں پھندا ڈالتے اور بندے کو مار دیتے۔ ولیم ہنری سلیمن نے خفیہ اطلاعات (انٹیلی جنس) کی بنیاد پر کام کیا۔ ٹھگوں کے جتھوں کو جاسوسوں کے ذریعے پکڑا۔ 1830ء کے لگ بھگ یہ مہم شروع ہوئی اور 1870ء تک ٹھگی کا خاتمہ ہو گیا۔ ہم پاکستانیوں کو چاہیے کہ بر طانیہ کے بادشاہ کے پاس ایک وفد بھیجیں۔ وفد بادشاہ کو باور کرائے کہ جو پاکستان وہ ہندوستان سے نکال کر ہمیں دے گئے تھے اس کے حالات ابتر ہیں۔ بادشاہ کو بتایا جائے کہ اس کی سابق رعایا کے لیے ٹھگی کی جدید شکل ایک عذاب بنی ہوئی ہے۔ یہ جدید شکل ڈمپروں‘ ٹینکروں اور ٹریکٹر ٹرالیوں کی صورت میں نازل ہوئی ہے۔ بادشاہ سلامت کی سابق رعایا کو مسلسل قتل کیا جا رہا ہے۔ حکومتوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی! بادشاہ سلامت رحم کریں اور ولیم ہنری سلیمن کے پڑپوتے یا پڑپوتے کی اولاد کو حکم دیں کہ آکر مہم چلائے اور آپ کی سابق رعایا کو ان ظالموں کے خونیں پنجے سے نجات دے۔ ٹینکروں‘ ڈمپروں اور ٹرالیوں کے جو ڈرائیور قتل کے مرتکب ہوں انہیں سر عام پھانسی دے اور گاڑیوں کے مالکوں پر اتنے بھاری جرمانے لگائے کہ ان کی کمر ٹوٹ جائے۔
دوسرا آپشن یہ ہے کہ ایک وفد صدر ٹرمپ کی خدمت میں حاضر ہو کر دہائی دے۔ اور کہے کہ اے امریکہ کے صدر! آپ حقیقت میں کرہ ٔارض کے بلا شرکت غیرے شہنشاہ ہیں۔ دنیا پر آپ ہی کا سکہ چلتا ہے۔ ہماری حکومت کو تو پروا نہیں۔ آپ کا اشارۂ ابرو ہی کافی ہو گا۔ آپ کے حکم پر ہماری حکومت ان قاتلوں کا خاتمہ کرے گی۔ ازراہِ کرم! ہمیں اپنی رعایا ہی سمجھئے اور ہماری مدد کو پہنچئے۔ بلکہ بہتر ہو گا کہ کینیڈا اور گرین لینڈ کے ساتھ ہی ہم پر بھی نظر کرم کریں!!

Thursday, March 27, 2025

کیا لاہور کی شناخت صرف کھانوں سے ہے؟؟؟

یہ معروف ومشہور صحافی نیوزی لینڈ کا شہری ہے۔ آباؤ اجداد کا تعلق برصغیر سے تھا۔ اس نے پاکستان کے بہت سے دانشوروں‘ صحافیوں اور سکالروں کے انٹرویو کیے ہیں جو پاکستان اور بھارت‘ دونوں ملکوں میں بے شمار لوگوں نے دیکھے اور سنے۔ چند روز پہلے لاہور میں فیض میلہ منعقد ہوا‘ اس میں ایک سیشن لاہور کے بارے میں بھی تھا۔ یہ صحافی لاہور کی محبت میں نیوزی لینڈ سے‘ جو دنیا کا آخری کنارہ ہے‘ چلا اور لاہور آ پہنچا! سیشن اٹینڈ کیا۔ سٹیج پر بڑے بڑے لوگ براجمان تھے۔ وہ سفید مُو خاتون دانشور بھی جو ادبی میلوں (لٹریری فیسٹیولز) پر چھائے ہوئے مافیا کی مستقل ممبر ہیں! وہ حضرات بھی جو پرانے لاہور کو نیا کرنے پر مامور ہیں۔ یہ اور بات کہ معاملہ دہلی گیٹ سے آگے نہیں بڑھ رہا۔ افسوس کہ لاہور کے بارے میں جو بات چیت بھی ہوئی‘ لاہور کے کھانوں کے بارے میں ہی ہوئی۔ جب نظر آ گیا کہ کھانوں سے باہر نکلنے کے کوئی آثار نہیں‘ تو نیوزی لینڈ سے آیا ہوا لاہور کا شیدائی اٹھا اور سٹیج پر متمکن ماہرین سے کہنے لگا کہ کیا لاہور کھانوں کے علاوہ کوئی صفت‘ کوئی امتیاز‘ کوئی خوبی‘ کوئی تاریخ‘ کوئی روایت‘ کوئی داستان نہیں رکھتا؟ صرف کھانے ہی کھانے ہیں لاہور میں؟ اور کچھ نہیں؟ سنا ہے کہ سفید مُو لٹریری فیسٹیول فیم خاتون نے تو اپنی لاعلمی کی بہت بڑی دلیل یہ دی کہ ان کی تو پیدائش ہی تقسیم کے بعد کی ہے اس لیے انہیں تقسیم سے پہلے کے لاہور کا زیادہ پتا نہیں! ویسے یہ دلیل بہت کارآمد ہے۔ امتحان میں بابر یا سوری یا خلجی یا لارڈ کلائیو کے بارے میں سوال آجائے تو جواب میں لکھنا چاہیے کہ میں تو اُس وقت دنیا میں تھا ہی نہیں! ارے بھائی! آپ لاہور کی تاریخ پر بات کرتے! مختلف ادوار میں مختلف حکمرانوں کا لاہور کے حوالے سے کیا کردار رہا؟ پرانے لاہور کے کتنے دروازے تھے؟ کتنے اب موجود ہیں؟ عمارتیں کون کون سی مشہور ہیں؟ گلیاں‘ کوچے‘ چوک کون کون سے ہیں! گورنمنٹ کالج کی ابتدائی کلاسیں کس عمارت میں منعقد ہوتی رہیں؟ اس کالج کے قیام میں ولیم لائٹنر کا کیا کردار تھا۔ مولانا محمد حسین آزاد گھوڑے پر سوار کس طرح گورنمنٹ کالج آتے تھے جبکہ شاگرد دائیں بائیں ساتھ ساتھ پیدل چلتے ہوئے استفادہ کرتے آتے تھے۔ آزاد کس امام بارگاہ میں نماز کے لیے آتے تھے؟ پرانے لاہور کے ضمن میں علامہ اقبال‘ حکیم احمد شجاع‘ ایم اسلم اور دیگر مشاہیر کا ذکر تو مجھ جیسا عامی بھی کر سکتا ہے۔ جاوید منزل اب اقبال میوزیم ہے۔ اس کا تعارف کرایا جاتا۔ لاہور کا ریلوے سٹیشن کب بنا؟
سکھوں کی عملداری کے دوران شاہی مسجد پر کیا گزری! پرانی حویلیوں کا تفصیلی ذکر ہونا چاہیے تھا۔ سر گنگا رام کی لاہور کے لیے بے پناہ خدمات ہیں۔ ان کی بنائی ہوئی عمارتوں کا ذکر کیا جانا چاہیے تھا۔ عجائب گھر اور نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کی تاریخ کا اہم حصہ ہیں! پنجاب پبلک لائبریری بہت بڑا موضوع ہے۔ لاہور نے وہ دور بھی دیکھا جب کرشن چندر‘ منٹو‘ کنہیا لال کپور‘ پطرس‘ فیض‘ تاثیر‘ حفیظ جالندھری‘ احمد ندیم قاسمی‘ قیوم نظر اور دوسرے دانشور لاہور کے آسمان پر کہکشاں کی طرح جگمگاتے تھے۔ وائی ایم سی اے اور پاک ٹی ہاؤس کی اہمیت پر گفتگو ہونی چاہیے تھی! سید علی ہجویری کب تشریف لائے؟ یہ حضرات جو تقریب میں مسند نشیں تھے‘ کچھ پڑھ کر آتے۔ تیاری کر کے آتے۔
کھانے ہم پاکستانیوں کا اوڑھنا بچھونا ہیں۔ ہماری سوچ کھانوں سے شروع ہوتی ہے اور کھانوں پر ختم ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ ہوا کراچی کی ایک فیملی کی پوسٹ دیکھی۔ ماشاء اللہ کراچی سے روانہ ہوتے وقت جو فہرست لاہور کے مشہور ''مقامات‘‘ کی انہوں نے تیار کی تھی اس میں صرف ریستوران اور ڈھابے تھے! لاہور سے کراچی جانے والوں کا بھی یہی حال ہوگا۔ چند دن ہوئے ریلوے کے ایک صاحب سے گرین لائن ٹرین کی بات ہو رہی تھی۔ میں نے پوچھا کیا: دراز ہونے کے لیے برتھ بھی موجود ہیں؟ ان کا جواب زبردست تھا۔ کہنے لگے: پاکستانیوں کی اوّلین ترجیح کھانا ہوتا ہے۔ ہم کھانا اچھا مہیا کر رہے ہیں۔ باقی سہولتوں کی کسی کو پروا ہے‘ نہ کوئی پوچھتا ہے! یہ ہم پاکستانیوں کے ذوق اور ترجیحات پر بہترین اور مختصر ترین تبصرہ ہے۔ اور کیا ہی سچا تبصرہ ہے۔ ہمارے گھروں میں سب سے زیادہ بحث اس بات پر ہوتی ہے کہ آج کیا پکے گا؟ مجھے نہیں معلوم اس واقعے میں کتنی صداقت ہے مگر سنا ہے کہ بھٹو صاحب نے ہنری کسنجر کے لیے ایک عظیم الشان ڈنر کا اہتمام کیا تھا جس کے لیے پاکستان سے خصوصی طور پر پرندے منگوائے گئے تھے۔ مگر ہنری کسنجر آیا تو اس نے جو میز پہلے پڑا تھا اسی سے کچھ لے لیا۔ دھیان اس کا گفتگو پر ہی رہا۔ بارِ دگر عرض ہے کہ یہ بات سنی سنائی ہے‘ تاہم سچائی سے اتنی بعید بھی نہیں۔ اس لکھنے والے نے امریکہ میں کئی سرکاری لنچ اور ڈنر اٹینڈ کیے ہیں۔ سادہ ترین ہوتے ہیں۔ پہلے سلاد۔ پھر 
Main 
ڈش۔ آخر میں چاکلیٹ یا پنیر کا کیک! سیلاب کے دنوں میں انجلینا جولی پاکستان آئی تھی۔ اس وقت کے وزیراعظم نے انہیں کھانے پر بلایا۔ غالباً وزیراعظم کی فیملی بھی تھی۔ انجلینا نے بعد میں افسوس کا اظہار کیا کہ ادھر سیلاب زدگان پر مصیبت آئی ہوئی ہے اور ادھر میز کھانوں سے اٹا پڑا تھا۔ ہم اس معاملے میں‘ معاف کیجیے گا‘ بہت شُہدے اور گھٹیا ہیں۔ ہم سب! من حیث القوم! کسی کے ہاں جائیں تو واپس آکر کھانے میں کیڑے نکالیں گے۔ کوئی نہ کوئی نقص ضرور تلاش کر لیں گے! ہمارے لیے اہم ترین پہلو کھانے کی مقدار ہے۔ جیسا بھی ہو‘ بس کثیر مقدار میں ہو۔ یہ کھانا ہی تو ہے جس کے لیے ہم شادیوں کی تقاریب میں گھنٹوں نہیں بلکہ پہروں انتظار کرتے ہیں۔ ہمارا کسی نے اصل روپ دیکھنا ہو تو اس وقت دیکھے جب کھانا کھلنے کا اعلان ہوتا ہے۔ اُس وقت ہم انسان نہیں‘ کوئی اور مخلوق بن جاتے ہیں۔ ایک حالتِ جنگ ہے جو ہم پر طاری ہو جاتی ہے۔ ہم جون بدل لیتے ہیں۔ شائستگی‘ تمیز‘ لحاظ‘ شرافت سب کچھ بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ ہمارا ہر کھانا ہماری زندگی کا آخری کھانا ہوتا ہے۔ ہمیں نارمل نہیں کہا جا سکتا۔
مغل جب تک جنگوں میں مصروف رہے‘ کھانوں میں سادگی تھی۔ جوں جوں زوال آتا گیا‘ اصل میدان جنگ کی جگہ دستر خوان میدانِ وغا بنتا گیا۔ اورنگزیب باجرے کی کھچڑی کھاتا تھا۔ پھر جب انتظام وانصرام انگریز بادشاہ نے سنبھال لیا تو بادشاہوں اور نوابوں کے پاس ایک ہی قلمدان رہ گیا اور وہ دستر خوان کا تھا۔ اس میں پھر طرح طرح کے مقابلے ہوئے۔ کبھی نظام کی کوشش ہوتی کہ اودھ کے نواب کے باورچی کو ''فتح‘‘ کر لے۔ کبھی اودھ کا نواب دہلی سے کسی باورچی کو توڑ کر لے آتا تھا۔ ماش کی دال کا باورچی الگ تھا۔ شامی کبابوں کا الگ‘ لکھنؤ کے کھانوں پر بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اردو میں بھی اور انگریزی میں بھی۔ بہت سے آئٹم ایجاد ہی وہیں ہوئے‘ جیسے شیرمال! اور شاید شامی کباب بھی!! اس میں نئے نئے تجربے ہوئے۔ فنکاریاں دکھائی گئیں۔ ایک دعوت میں مہمان جس ڈش سے بھی کھانا لیتے وہ مٹھائی ہوتی‘ کیا چاول‘ کیا روٹی اور کیا سالن! پھر اس کے جواب میں بھی اسی طرح کی کارروائیاں ہوئیں۔ ایک ہمارے سابق حکمران جب ''جلاوطن‘‘ ہوئے تو سنا ہے باقر خانیاں بنانے والا الگ باورچی ساتھ لے کر گئے۔ اور بھی بہت داستانیں ہیں ان کے بارے میں!! اپنا اپنا ذوق اور اپنی اپنی ترجیحات! اصل بات وہی ہے جو اقبال کہہ گئے:
تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیالِ فقر و غنا نہ کر
کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدارِ قوتِ حیدری
نانِ شعیر جَو کی روٹی کو کہتے ہیں!

Tuesday, March 25, 2025

تین انقلابی اقدامات


پاکستان کے حالات اطمینان بخش نہیں! بلوچستان ایک خطرناک اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ بھارت ہماری غلط پالیسیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر اعلانیہ مداخلت کر رہا ہے۔ اربوں روپے جھونک رہا ہے۔ افغانستان سے مسلسل در اندازی ہو رہی ہے۔ ہمارے لوگ مارے جا رہے ہیں۔ دن رات لاشوں کا کاروبار ہو رہا ہے۔ عوام خوف زدہ ہیں۔ بیرونی دنیا نے ہم پر کیمرے لگا رکھے ہیں۔ غیر ملکی مبصر لمحہ لمحہ دیکھ رہے ہیں۔ جانچ رہے ہیں۔ اسلام آباد میں تعینات سفیر روزانہ کی بنیاد پر رپورٹیں اپنے اپنے ملک کو ارسال کر رہے ہیں۔
خدا نخواستہ آپ یہ تو نہیں سوچ رہے کہ ہماری حکومت‘ ہمارے ادارے اور ہمارے منتخب ایوان اس نازک صورتحال سے بے خبر ہیں! خدا نہ کرے ایسا ہو! یہ ناممکن ہے کہ حکومت‘ ادارے اور منتخب نمائندے اس صورتحال میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔ تین ایسے اقدام‘ چند روز پہلے اٹھائے گئے ہیں جو بگڑے ہوئے حالات کو یوں ٹھیک کریں گے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے‘ جیسے اجوائن پیٹ کے درد کو ختم کر دیتی ہے اور جیسے تلوار گلے کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ پہلا قدم یہ اٹھایا گیا ہے کہ وفاقی وزیروں کی تنخواہیں ایک سو اٹھاسی فیصد بڑھا دی گئی ہیں۔ پہلے دو لاکھ کے لگ بھگ لے رہا تھا ایک وفاقی وزیر! اب سوا پانچ لاکھ لے گا۔ چونکہ یہ تنخواہیں عوام کا پیٹ کاٹ کر ادا کی جائیں گی اس لیے اسے عوام کی طرف سے صدقہ خیرات سمجھا جائے گا۔ اس وقت ہمارے وفاقی وزیروں جتنا مفلس اور قلاش کوئی نہیں۔ کچھ بداندیش کہہ رہے ہیں کہ یہ سب ارب پتی ہیں اور کروڑوں روپے الیکشن پر لگا کر ایوان میں پہنچے ہیں‘ یہ کہ ان میں وڈیرے ہیں‘ صنعتکار ہیں‘ اور یہ کہ یہ پہلے ہی مراعات سے لدے پھندے ہیں۔ ایسی باتیں صرف وہ لوگ کر رہے ہیں جنہیں ملکی سلامتی کی پروا نہیں! سچ یہ ہے کہ وفاقی وزیر بیچارے‘ تمام کے تمام‘ افلاس زدہ ہیں۔ بچے ان کے خیراتی سکولوں میں تعلیم پا رہے ہیں۔ روٹیاں ان کی لنگروں‘ مزاروں‘ درباروں سے آتی ہیں اور اُن دسترخوانوں سے جو فی سبیل اللہ قائم ہیں اور طعام المسکین کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ وزرا پہلے ہی قوم کے لیے بے انتہا قربانیاں دے رہے ہیں۔ سرکاری گاڑیاں بھی نہیں لی ہوئیں۔ پٹرول بھی جیب سے ڈلواتے ہیں۔ سب اپنے ذاتی گھروں میں رہتے ہیں۔ یہ تنخواہ ان کی مشقت بھری‘ افلاس زدہ زندگی کو تھوڑا سا سکون دے گی۔ بچے دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کر کھا سکیں گے۔ یوں بھی انصاف کیجیے‘ سوا پانچ لاکھ روپے کی وقعت ہی کیا ہے؟ اس سے زیادہ تو ایک مزدور یا ریڑھی والا ایک دن میں کما لیتا ہے۔ قوم کو چاہیے کہ قومی اسمبلی کو اس زبردست اقدام پر سلام پیش کرے! یہ ملک پر ایک احسانِ عظیم ہے! ایک ایسا احسان جسے آئندہ نسلیں فخر سے یاد کریں گی۔ تاریخ میں اس اقدام کا ذکر سنہری الفاظ میں ہو گا۔
دوسرا انقلابی قدم جو اٹھایا گیا ہے‘ پہلے سے بھی زیادہ طلسمی ہے اور رہتی دنیا تک یاد رہ جانے والا۔ جنوبی پنجاب کے ایک تعلیمی ادارے میں ایک استاد (یا چند اساتذہ) اور طالبات نے قوالی پر دھمال ڈالا۔ قوالی اور دھمال؟ جی ہاں! متعلقہ حکام نے اس وطن دشمن سرگرمی کا فوری نوٹس لیا اور دھمالیوں کے خلاف سخت ایکشن لیا۔ اصل میں اس قوالی اور اس دھمال سے ملکی حالات خراب سے خراب تر ہونے کا احتمال تھا۔ اس سے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے زیادہ طاقتور ہو سکتے تھے۔ اس سے بھارت کی دفاعی اور سفارتی قوت میں بھی اضافہ ہو سکتا تھا۔ اس قوالی اور اس تباہ کن دھمال سے امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات میں رخنہ پڑ سکتا تھا۔ ترکیہ اور چین بھی‘ جو ہمارے قریبی دوست ہیں‘ ناراض ہو سکتے تھے۔ جاپان بھی بدظن ہو سکتا تھا۔ خدائے برتر کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس خانہ خرابی کے خلاف بروقت ایکشن لیا گیا اور دشمنوں کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ حکومت سے ہماری مخلصانہ اور عاجزانہ التماس ہے کہ مزاروں اور عرسوں پر منعقد ہونے والی قوالیوں اور دھمال پر بھی پابندی لگائے کیونکہ جو سرگرمی ایک جگہ ناجائز ہو سکتی ہے‘ وہ دوسری جگہ جائز کیسے ہو سکتی ہے؟ سیہون شریف اور دوسری درگاہوں پر برپا ہونے والی قوالیوں اور دھمالوں کا بھی فی الفور نوٹس لیا جائے۔ ہماری تصوف کی کتابوں میں جا بجا لکھا ہے کہ صوفیائے کرام سماع پر رقص کرتے تھے۔ یہ رقص دھمال ہی تو ہوتا تھا۔ اور یہ دھمال رقص ہی تو ہے۔ ہم پُرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسی تمام کتابوں کی اشاعت اور خرید وفروخت پر پابندی لگائی جائے۔ کیونکہ اگر سماع اور دھمال خلافِ قانون ہے تو ان کتابوں کی تشہیر کیسے جائز ہو سکتی ہے۔ اور یہ جو شادیوں اور مہندیوں کی خالص گھریلو تقریبات میں رقص کیا جاتا ہے یعنی دھمال ڈالا جاتا ہے اسے بھی حکماً اور قانوناً بند کرایا جائے۔ مہندی کی تقریبات میں ہونے والا رقص تو بدرجہ اتم خطرناک ہے کیونکہ اس میں گھر کی اور باہر کی خواتین بھی شامل ہوتی ہیں اور مرد بھی! یہ تو سوسائٹی کے لیے زہر قاتل ہے۔ اس کی سزا عبرتناک ہونی چاہیے اور سبق آموز! اب یہ بھی سنیے کہ اس ہولناک جرم کے مرتکب افراد کو بروقت سزا دینے کے نتائج کیا ہوئے؟ آپ کو یہ جان کر مسرت ہو گی کہ ملک دشمن سرگرمیوں میں معتد بہ کمی واقع ہوئی ہے۔ بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کی بندوقوں کو فوراً زنگ لگ گیا۔ بھارت کی توپوں میں کیڑے پڑ گئے۔ مودی کو تو دل کا دورہ پڑنے لگا تھا۔ ٹرمپ نے ہمارے حکمرانوں کو تحسین سے بھرا خط لکھا۔ برازیل اور ارجنٹائن میں ان حکام کے مجسمے بنا کر چوکوں پر رکھے گئے ہیں جنہوں نے اس صوفیانہ سرگرمی کے خلاف ایکشن لیا۔
اب دل تھام کر بیٹھیے! ہم تیسرے انقلابی اقدام کا ذکر کرنے لگے ہیں۔ کمزور دل یہ نہ پڑھیں‘ کیونکہ اس اقدام سے پاکستان کے دشمنوں پر ہول طاری ہو گیا ہے۔ وزیراعظم سعودی عرب کے دورے پر گئے تو ایک صوبے کی وزیراعلیٰ کو ساتھ لے گئے اور باقی صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو ساتھ نہیں لے کر گئے۔ شہزادہ ایم بی ایس کے ساتھ جو خالص سرکاری میٹنگ ہوئی اس میں وزیر اعظم کے ساتھ نائب وزیراعظم کے علاوہ ایک صوبے کی وزیراعلیٰ بھی تھیں۔ یہ ایسا زبردست اقدام ہے جو قومی یکجہتی کو دوچند کرے گا اور صوبوں اور وفاق کے درمیان محبت میں اضافہ کرے گا۔ رموزِ مملکتِ خویش خسروان دانند! ہو سکتا ہے ولی عہد کے ساتھ ہونے والی گفتگو اتنی حساس ہو اور اتنی سیکرٹ ہو کہ صرف ایک صوبے کی حکمران ہی کو اس میں شامل کیا جا سکتا تھا۔
پاکستان اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ دہشت گردی کا ناسور رِس رہا ہے۔ بلوچستان ملک دشمن سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے۔ ایسے میں اگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ یکساں سلوک رکھا جاتا تو دشمن اس سے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ یہ ہماری حکومت کا کمال کا 

Vision 

ہے اور حد درجہ دور اندیشی! یہ تدبّر اور حکمت کی انتہا ہے! روشن ترین پہلو اس اقدام کا یہ ہے کہ وزیراعظم پر کوئی شخص اقربا پروری کا الزام نہیں لگا سکتا! جس صوبے کی حکمرانِ اعلیٰ کو وہ ساتھ لے گئے اس سے ان کا دور دور تک کوئی رشتہ نہ تھا۔ بلکہ دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ان کے قریبی اعزہ تھے۔ اگر وہ انہیں بھی اس دورے پر ساتھ لے جاتے تو ان پر الزام لگتا کہ رشتہ داروں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں! الحمدللہ ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ ہمارے حکمران حد درجہ محتاط ہیں۔ وہ کوئی ایسا کام کرتے ہی نہیں جس پر لوگ انگلیاں اٹھا سکیں!! بس قوم کی یہ خواہش ہے کہ ایسے مزید اقدام بھی اٹھائے جائیں!!

Thursday, March 20, 2025

ارشاد بھٹی صاحب اور حضرت مولانا طارق جمیل



ہمارے محترم دوست جناب ارشاد بھٹی نے حضرت مولانا طارق جمیل کا تفصیلی انٹر ویو کیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کام کر کے انہوں نے نیکی کی ہے۔ مولانا صاحب کی خدمات گراں قدر ہیں۔ لاکھوں‘ کروڑوں مسلمان ان کے بیانات سنتے ہیں۔ فرقہ واریت کے اس دور میں حضرت مولانا مسلسل اتحادِ امت کی تلقین کر رہے ہیں۔ ان کا ہر جگہ یہی پیغام ہوتا ہے کہ ایک دوسرے سے نفرت نہ کرو‘ آپس میں محبت سے پیش آؤ۔ کسی کو کافر یا جہنمی نہ کہو۔ ان کی یہ بات دلچسپ بھی ہے اور قیمتی بھی کہ جنت بہت بڑی ہے۔ دوسروں کو بھی جنت میں آنے دو۔ کسی کی جگہ کم نہ ہو گی۔ سچ یہ ہے کہ اس زمانے میں جب کچھ یوٹیوبر فخر سے کہہ رہے ہیں کہ وہ تو بات ہی اختلافی مسائل پر کرتے ہیں‘ مولانا طارق جمیل کا اختلافی مسائل سے گریز کرنا اور محبت پر زور دینا بہت بڑا کنٹری بیوشن ہے۔ ان کی ایک اور بڑی خدمت ان کی تالیف کردہ کتاب ''گلدستۂ اہلِ بیت‘‘ ہے۔ اس میں آقائے دو جہانﷺ کی ازواجِ مطہرات اور ان کی اولاد کے حالاتِ زندگی ہیں۔ اسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ بنو امیہ اور بنو عباس کے حکمرانوں نے اہلِ بیت کے ساتھ کیا کیا ظلم کیے۔ بدقسمتی سے ہم سُنیوں میں سے بہت سے لوگ ان تفصیلات سے ناواقف ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ اہلِ بیت کی محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے‘ خواہ وہ کسی بھی فرقے سے ہو!
مولانا پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ ان کا میعارِ زندگی امیرانہ ہے اور وہ بڑی بڑی گاڑیوں میں پھرتے ہیں۔ یہ بھی ہمارے ذہنوں میں ایک عجیب 
Paradox 
ہے! ہم یہ فرض کیے بیٹھے ہیں کہ جو بھی واعظ یا مولانا ہو گا اسے غریب ہی ہونا چاہیے۔ وہ ہمارا محتاج ہی ہو۔ ہم کسی مولانا کو بڑی گاڑی میں دیکھیں یا اس کی خوش لباسی دیکھیں تو فوراً اس کے لیے ''نیب‘‘ بن جاتے ہیں! علما میں سے ہمارے دو بزرگ شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان اور مولانا احتشام الحق تھانوی حد درجہ خوش لباس تھے۔ مولانا طارق جمیل نے ارشاد بھٹی صا حب کو اپنے خاندانی بیک گراؤ نڈ کی تفصیل بتائی کہ وہ کئی نسلوں سے آسودہ حال ہیں۔ جب وہ یہ تفصیل بتا رہے تھے تو کچھ کچھ احساسِ تفاخر بھی جھلک رہا تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ قدرتی ہے اور فطری!! جب ہم بتا رہے ہوں کہ ہمارے آبائو اجداد بڑے لوگ تھے تو احساسِ تفاخر کا آجانا بشری تقاضا ہے۔ اگر حضرت مولانا سخت 

class conscious 
ہیں تو اس میں اعتراض کی بات کوئی نہیں! اللہ ہم سب کو آسودہ حال کرے۔
بھٹی صاحب نے سوالات کھل کر کیے اور دلیری سے کیے۔ ایک اچھے صحافی کا یہی کام ہے۔ کچھ سوالات ہمارے ذہن میں بھی ہیں۔ اگرچہ ہم اُس دلیری سے پوچھنے کی ہمت نہیں رکھتے جو بھٹی صاحب میں ہے! بھٹی صاحب ایک طاقتور راجپوت ہیں اور ہم نحیف اور کمزور اعوان! اس لیے حضرت مولانا سے جو سوالات پوچھیں گے فروتنی سے پوچھنے کی جسارت کریں گے۔ سچ یہ ہے کہ بھٹی صاحب کا انٹرویو دیکھ کر ہی ہمیں بھی ہمت ہوئی ہے۔ حضرت مولانا نے فرمایا کہ پرتھوی راج کو سلطان محمد غوری نے 1442ء میں شکست دی اور وہ قتل ہوا۔ ایسا نہیں ہے۔ سلطان محمد غوری کی وفات 1206ء میں ہو چکی تھی جس کے بعد قطب الدین ایبک نے خود مختاری کا اعلان کر دیا تھا۔ اصل میں سلطان محمد غوری نے پرتھوی راج کو 1192ء میں شکست دی تھی اور وہ قتل ہوا تھا۔ 1442ء میں تو محمد غوری کی وفات کو دو سو چھتیس برس گزر چکے تھے۔ اس وقت دہلی کے تخت پر سید خاندان کی حکومت تھی اور سلطان محمد شاہ بادشاہ تھا۔ حضرت مولانا نے فرمایا کہ چوہان راجپوتوں کی حکومت ہندوستان میں چھ سو سال رہی۔ گزارش ہے کہ اس کی کوئی سند یا حوالہ؟ سند یا حوالے سے یاد آیا کہ جب بھٹی صاحب نے ''لاعبہ‘‘ والی حدیث کا راوی پوچھا تو حضرت مولانا نے جواب دیا: ''میں کوئی یاد کر کے تو نہیں بیٹھا‘‘۔ لاعبہ والا قصہ مولانا یوں بیان فرماتے ہیں کہ جنت کی لڑکی ہے جسے دیکھ کر کلیجے پھٹ جائیں گے۔ ایک مسکراہٹ سے سب مر جائیں گے۔ قد اتنے فٹ ہو گا۔ گزارش ہے کہ ہم جیسے عقیدت مند تو آپ پر اندھا یقین رکھتے ہیں۔ اگر آپ فرمائیں گے کہ حور کا قد ایک لاکھ فٹ ہو گا تو ہم آمنا وصدقنا کہیں گے لیکن حضرت! پرابلم یہ ہے کہ اب پانچویں جماعت کے بچے بھی ثبوت اور حوالہ طلب کرتے ہیں۔ ہارون الرشید ہر روز سو نفل پڑھتا تھا۔ اس کا بھی حوالہ مرحمت فرما دیجیے۔ حوروں کی جسمانی تفصیلات چونکہ آپ کے مواعظ کا مرکزی نکتہ ہوتا ہے‘ اس لیے لازم ہے کہ جناب کے پاس حوالہ اور سند ہونی چاہیے تا کہ کسی کو اعتراض کا موقع نہ ملے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ضعیف احادیث واقعات اور فضائل میں معتبر ہیں۔ یہ کس کا فیصلہ ہے؟ ظاہر ہے ضعیف حدیث صحیح حدیث جتنی معتبر نہیں ہے‘ سو فیصد یقین نہیں ہے کہ ضعیف حدیث والی بات آقاﷺ نے فرمائی ہو گی۔ مگر آپ بہت اعتماد کے ساتھ کہہ دیتے ہیں کہ لاعبہ اور حوروں کے بارے میں دیگر عجائبات رسول اکرمﷺ نے فرمائے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب صحیح احادیث سینکڑوں ہزاروں موجود ہیں تو ضعیف احادیث بیان کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ سنسنی پھیلانے کے کئی طریقے اور بھی ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ آپ کی باتیں من گھڑت ہوتیں تو کیا اللہ چھ بر اعظموں میں پھیلنے دیتا۔ درست فرمایا۔ ویسے امریکہ اور اسرائیل کے ذرائع ابلاغ بھی چھ بر اعظموں میں اپنے مطلب کی باتیں پھیلا رہے ہیں۔ مسیحی پادری تو دو سو سال پہلے ہی چھ براعظموں میں‘ پاناما سے لے کر نیوزی لینڈ تک تبلیغ کر رہے تھے۔ تو کیا ان کی باتیں بھی من گھڑت نہیں ہیں؟ ویسے حضرت مولانا کی جرأت کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔ آپ نے تبلیغی جماعت کی نصابی کتاب فضائل اعمال کے بارے میں صاف کہا کہ اس میں ''واقعات بے بنیاد ہیں۔ فضول باتیں ہیں اور میں انہیں رد کرتا ہوں‘‘۔ یہ حضرت کے صدقِ مقال کی مثال ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ایک اور معاملے میں بھی حضرت کی رہنمائی مطلوب ہے۔ حجامہ سے متعلق مولانا کے کلپ وائرل ہیں۔ پچیس لاکھ سے زیادہ لوگ اسے دیکھ چکے ہیں۔ اس میں آپ نے تلقین کی ہے کہ حجامہ کراؤ۔ یہ ''تمہیں ڈاکٹروں سے نجات دے گا‘‘۔ مگر حضرت مولانا خود تکلیف کے وقت ہسپتال جاتے رہے۔ دل میں سٹنٹ ڈلوائے۔ حجامہ اگر ستر بیماریوں کا علاج ہے تو دل کی بیماری بھی اس میں شامل ہو گی۔ آپ کا بیان ہے کہ معراج کی رات ہر آسمان پر فرشتوں نے آپ کو حجامہ کی تلقین کی۔ اس کا ریفرنس بھی عطا فرمائیے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ رسول اکرمﷺ نے حجامہ کروایا اور اپنا خون جو پیالے میں تھا‘ عبد اللہؓ بن زبیر کو دیا کہ دفن کر دیں مگر عبدللہؓ بن زبیر نے اسے پی لیا۔ یہ روایت کس کتاب میں ہے‘ رہنمائی فرمائیے! آقا صل اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت عبد اللہ بن زبیر کی عمر آٹھ سال تھی
اور ہاں حضرت! وہ شعر (غم عاشقی ترا شکریہ! میں کہاں کہاں سے گزر گیا) پروین شاکر کا ہر گز نہیں ہے۔ یہ عرش ملسیانی سے منسوب ہے!! آخر میں بصد احترام سعدی کا شعر نذرانے کے طور پر پیش خدمت ہے۔ ہر بیشہ گماں مبر کہ خالیست۔ شاید کہ پلنگ خفتہ باشد! چونکہ صرف جناب کے لیے ہے‘ اس لیے اس کا ترجمہ دینے کی ضرورت نہیں!!!

روزنامہ دنیا

Friday, March 14, 2025

بطور قوم ہم حریص کیوں ہیں؟

اگر آپ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کو باڑے میں بند کر دیں اور کئی دن بھوکا رکھیں۔ پھر باڑے سے کچھ دور‘ ان کے لیے گھاس‘ چارہ وغیرہ رکھ دیں۔ پھر باڑے کا گیٹ کھول دیں تو مجھے یقین ہے کہ بھوکی بھیڑ بکریاں دوڑ کر کھانے پر حملہ نہیں کریں گی۔ وہ آرام سے چل کر جائیں گی۔ کیا عجب ان کے چل کر جانے میں متانت بھی ہو!
کل پرسوں وفاقی دار الحکومت (غالباً فیصل مسجد) میں عوامی افطار کا بندوبست تھا۔ اس کی وڈیو دیکھ کر تعجب تو نہیں ہوا‘ دُکھ ضرور ہوا۔ ہجوم دوڑ رہا تھا۔ ہجوم بھاگ رہا تھا۔ ہجوم ایک دوسرے کو دھکے دے رہا تھا۔ ہجوم شور مچا رہا تھا۔ قیامت کا منظر تھا۔ یوں لگتا تھا ان لوگوں نے مہینوں کچھ نہیں کھایا۔ یہ بھکاری نہیں تھے۔ یہ مزدور نہیں تھے نہ مدرسوں کے طالب علم تھے نہ کسی یتیم خانے کے بچے تھے۔ یہ قلاش بھی نہیں تھے۔ ان میں سے اکثر نے شلوار قمیضوں پر کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ یہ معاشرے کے عام لوگ تھے۔ زیادہ سے زیادہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ زیریں کلاس سے تعلق رکھنے والے ہوں گے۔ تو کیا مڈل کلاس اور اَپر کلاس کے لوگ ایسا نہیں کرتے! کیا آپ نے مڈل کلاس اور اَپر کلاس کی پاکستانی شادیوں کے کھانے نہیں دیکھے؟ بہترین پوشاکیں پہنے یہ کھاتے پیتے لوگ کھانے پر کس طرح ٹوٹتے ہیں! انتہا یہ ہے کہ یہ نام نہاد شرفا شادی ہال میں بیٹھتے وقت جنگی حکمت عملی اپناتے ہیں۔ ایک صاحب کو کہتے سنا کہ ''یہاں بیٹھتے ہیں۔ کھانا یہاں سے نزدیک پڑے گا‘‘۔ اعلان تو یہ ہوتا ہے کہ کھانا کُھل گیا مگر اصل میں کھانا نہیں‘ بندے کھول دیے جاتے ہیں! پھر جس طرح یہ ازلی بھوکے پلیٹیں بھرتے ہیں‘ خدا کی پناہ! شرم آتی ہے لالچ کے اس مظاہرے پر! اور یہ جو شادیوں پر اور دیگر تقریبات پر پکوانوں کی بھرمار ہوتی ہے اور کئی کئی طرح کے کھانوں کے بے ہنگم ڈھیر پکوائے جاتے ہیں‘ یہ بھی احساسِ کمتری کا اظہار ہے! تہذیب کا تقاضا تو یہ ہے کہ اعتدال سے کام لیا جائے۔ پکواتے وقت بھی اور کھاتے وقت بھی! مگر وہ جو کسی نے کہا ہے کہ صدیوں کی بھوک ہے! جاتے جاتے جائے گی! تو درست ہی کہا ہے!
2021ء کی بات ہے۔ فیصل آباد میں پاکستان انجینئرز کونسل کا الیکشن تھا۔ اس موقع پر عشائیے کا بندوبست بھی تھا۔ کھانا کھلنے سے پہلے یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ مہندسینِ کرام پلیٹیں لے کر ڈشوں کے سر پر کھڑے تھے۔ جیسے ہی کھانا کھلا‘ تاتاریوں کی طرح ٹوٹ پڑے۔ چمچوں کو کسی نے پوچھا ہی نہیں۔ ڈشوں سے ڈائریکٹ پلیٹیں بھری گئیں! یہ قتل عام کا منظر تھا۔ بس اتنا سا فرق تھا کہ کھوپڑیوں کے مینار نہیں تھے! جس کسی نے اس منظر سے عبرت پکڑنی ہو‘ انٹرنیٹ پر جائے اور یہ لکھ کر دیکھ لے 

engineers attack on dinner at Faisalabad۔


خدا کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے مرحوم حکیم سعید صاحب کو‘ انہوں نے بڑے شہروں میں شامِ ہمدرد کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ یہ ہماری طالب علمی کا زمانہ تھا۔شامِ ہمدرد میں اُس عہد کے بڑے بڑے سکالرز‘ دانشور‘ معیشت دان‘ مورخ‘ صحافی اور قانون دان آکر لیکچر دیتے تھے۔ لیکچر کے بعد چائے ہوتی تھی۔ ساتھ کچھ کھانے کو بھی ہوتا تھا۔ اچکنوں‘ پتلونوں اور سوٹوں کا رواج تھا۔ یہ تو بہت بعد کی بات ہے جب جنرل ضیا الحق نے قوم کی ناؤ کو بھنور میں دھکیل کر قومی لباس رائج کیا۔ ان کے زمانے میں نوکر شاہی صبح دفتر آکر واسکٹ کو ایک کونے میں لٹکا دیتی تھی اور کہتی تھی ''وہ لٹکی ہے نوکری‘‘۔ تب واسکٹ کی طرح نماز بھی دفتروں میں لازم قرار دی گئی تھی۔ خدا ہی کو معلوم ہے کتنے حکومتی عہدیدار وضو کر کے پڑھتے تھے۔ ہمارے ایک سینئر افسر تھے‘ بہت فربہ! ہم نے ان سے پوچھا: سر! آپ نماز نہیں پڑھتے! کہنے لگے: یار اس تن وتوش کے ساتھ کیسے پڑھوں۔ ہِل تو سکتا نہیں! بس جسمانی معذوری سمجھو! شامِ ہمدرد کی بات ہو رہی تھی۔ چائے پر اچکنیں‘ سوٹ اور نکٹائیاں جس طرح ٹوٹ پڑتی تھیں‘ لگتا تھا ان کی زندگی کی یہ آخری چائے اور آخری بسکٹ ہے! شیخ سعدی نے کہا تھا:
خوردن برایِ زیستن و ذکر کردن است
تو معتقد کہ زیستن از بہرِ خوردن است
کھانا اس لیے کھاتے ہیں کہ زندہ رہیں اور خدا کو یاد کریں! مگر تمہارا اعتقاد یہ ہے کہ زندگی کا مقصد صرف کھانا ہے! پھر فرماتے ہیں:
چو کم خوردن طبیعت شد کسی را؍ چو سختی پیشش آید‘ سھل گیرد
وگر تن پرور است اندر فراخی؍ چو تنگی بیند‘ از سختی بمیرد
اگر کسی کو کم کھانے کی عادت پڑ گئی ہے تو اس کا فائدہ یہ ہے کہ مصیبت کے وقت اسے مشکل نہیں پیش آئے گی۔ اور اگر خوشحالی میں کوئی زیادہ کھاتا ہے تو حالات خراب ہونے پر مر جائے گا۔
اکثر وبیشتر اخبارات میں خبر چھپتی ہے کہ فلاں سیاسی جماعت کے کارکن‘ جلسے کے بعد‘ کھانے پر ٹوٹ پڑے اور تقریب بدنظمی کا شکار ہو گئی۔ ایسا مظاہرہ کم وبیش تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے کیا ہے۔ آخر ہمارے ساتھ بحیثیتِ قوم مسئلہ کیا ہے؟ اس پر کوئی ریسرچ‘ کوئی تحقیق نہیں ہوئی۔ سوشیالوجسٹ حضرات اور ماہرین نفسیات کو اس پر کام کرنا چاہیے۔ یہ بھوک ہماری پسلیوں سے کیوں نہیں نکلتی؟ ہمیں سیر چشمی کی نعمت کب نصیب ہو گی؟ ہم ہڑپ کرنے کے بجائے آرام سے کیوں نہیں کھاتے؟ کہیں بھی کھانے کی مقدار کم نہیں ہوتی! ہر شخص کے لیے کھانا میسر ہوتا ہے۔ پھر بھی ہم چھینا جھپٹی کرتے ہیں جیسے حملہ نہ کیا تو محروم رہ جائیں گے۔ اس نفسیاتی خوف اور عدم اطمینان کا مظاہرہ ہمارے حکمران بھی کرتے آئے ہیں! بالخصوص آزادی کے پہلے تیس پینتیس برس کے بعد والے زمانوں میں!!! سرکاری خزانے پر بالکل اسی طرح ہاتھ صاف کیے گئے جیسے ہم عوام کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں! کسی نے سیلاب زدگان کے لیے ہار دیا تو وہ دبا لیا۔ کسی نے گاڑی دی تو توشہ خانے میں رکھنے کے بجائے یا سرکاری ملکیت میں دینے کے بجائے گھر لے گئے جیسے زندگی میں پہلے گاڑی دیکھی ہی نہ تھی۔ جنرل مشرف مرحوم کے پاس کس چیز کی کمی تھی کہ ایک بادشاہ کے سامنے جھولی پھیلا دی! اتنے بڑے بڑے چمکدار اور زبردست عہدوں پر فائز رہنے کے بعد کوئی کسی ٹائیکون کی ملازمت کر رہا ہے اور کوئی کسی بادشاہ کی نوکری کر لیتا ہے! کوئی نہیں کہنے والا کہ بس کرو یار! اپنی عزت کا خیال نہیں تو ملک کے وقار ہی کا سوچ لو! اور یہ صاحب جو پلاسٹک کے بنے ہوئے وزیراعظم تھے‘ ساری زندگی بین الاقوامی سطح کے ٹاپ کلاس بینکوں میں اعلیٰ درجے کی نوکری کی‘ جہاں تنخواہیں آسمان کو چھوتی ہیں‘ مگر اتنے ندیدے‘ حریص اور فاقہ زدہ ثابت ہوئے کہ توشہ خانے سے تحائف کی گٹھریاں باندھ کر ساتھ لے گئے اور چھوٹی سے چھوٹی شے بھی نہ چھوڑی۔ پھر جن کے بارے میں سنتے آئے تھے کہ پیسے سے بے نیاز ہیں‘ ان کی باری بھی دیکھ لی۔ اپنے پیشروئوں سے مختلف نہ نکلے اور جس ٹائیکون کے خلاف تقریریں کرتے تھے‘ اسی سے گٹھ جوڑ کر لیا۔
اقبال نے کہا تھا:
یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے 
کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف
ہمیں بھی مبارک ہو کہ بطور قوم‘ ہم سب‘ کیا غریب‘ کیا امیر‘ کیا نچلا طبقہ‘ کیا اَپر کلاس‘ کیا عوام‘ کیا حکمران‘ حرص اور لالچ میں یکتا اور بے مثال ہیں! کوئی کھانے پر ٹوٹ پڑتا ہے تو کوئی خزانے پر!! جہاں تک بھی کسی کا ہاتھ پہنچ سکتا ہے‘ جو کچھ لے سکتا ہے‘ لے اُڑتا ہے!!

Tuesday, March 11, 2025

پہنچے ہوؤں تک پہنچنا

جو ظاہر ہے وہ دھوکا ہے۔ جو چھپا ہوا ہے وہ اصل ہے۔ اسی لیے اس مضمون کی دعا منقول ہے کہ اے خدا ہمیں چیزیں اس طرح دکھا جیسی ان کی حقیقت ہے‘ اس طرح نہیں جیسے دکھائی دیتی ہیں!
جو نیک دکھائی دیتے ہیں‘ ضروری نہیں وہ نیک ہوں! اکثر حالات میں وہ نیکی سے بہت دور ہوتے ہیں۔ جو برے دکھائی دیتے ہیں‘ لازم نہیں کہ برے ہوں۔ جو پہنچے ہوئے ہوتے ہیں وہ اشتہار دیتے ہیں نہ اپنی تشہیر دیتے ہیں۔ انہیں ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کا ظاہر ایسا نہ ہو جیسے دعویٰ کرنے والوں کا ہوتا ہے۔ وہ ہاتھ میں تسبیح نہیں رکھتے۔ وہ لباس ایسا نہیں پہنتے جو سکہ رائج الوقت کے لحاظ سے خلقِ خدا کو اپنی طرف کھینچے‘ وہ ''ہجوم بازی‘‘ نہیں کرتے۔ وہ نہیں چاہتے کہ میڈیا میں ان کا ذکر کیا جائے‘ وہ پسند نہیں کرتے کہ ان کے کشف و کرامات کا پرچار ہو اور لوگوں کا رُخ ان کی طرف ہو جائے۔ وہ خلق سے کنارہ کرتے ہیں اس لیے کہ انہیں چہروں کے نیچے اصل چہرے نظر آ جاتے ہیں۔ وہ دیکھ لیتے ہیں کہ اس بظاہر معزز انسان کا چہرا اصل میں فلاں جانور کا چہرا ہے۔ اور یہ جو عقیدت مندوں کا بازار لگاتا ہے‘ کس جانور کے مشابہ ہے۔ نیک انسان کو‘ پہنچے ہوئے انسان کو ڈھونڈنا نقلی اور کھرے سونے میں امتیاز کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔ ہر شے دو صورتوں میں میسر ہوتی ہے۔ ایک صورت اصل ہے۔ دوسری صورت نقل ہے۔ نقل عام ہے۔ اصل خاص ہے۔ جو عام ہے اسے ڈھونڈنا آسان ہے۔ جو خاص ہے اسی کو تلاش کرنا مشکل ہے۔
کیا عجب وہ اَن پڑھ عورت جو گائوں میں بوسیدہ لباس پہنے اپنے گھر کے جانوروں کا گوبر سنبھال رہی ہے‘ جو دودھ بلو رہی ہے‘ جو گھاس کاٹ رہی ہے‘ وہ خدا کے نزدیک معتبر اور پسندیدہ ہو۔ خداوندِ قدوس ڈگریاں نہیں دیکھتا۔ لباس بھی اس کے لیے کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔ اس کا معیار اور ہے جو صرف اسی کو معلوم ہے۔ یہ وہ نصاب ہے جو بتایا نہیں جاتا۔ کیا عجب جس انسان کو ہم کوٹ پتلون میں دیکھتے ہیں‘ جو سوٹڈ بوٹڈ رہتا ہے‘ جو امیر بھی ہے جودنیا کے نقطۂ نظر سے کامیاب ہے‘ وہ پہنچا ہوا بھی ہو! ہمیں اس کے تمام اعمال کا علم نہیں۔ ہو سکتا ہے وہ کوئی ایسی نیکی کرتا ہو‘ یا اس نے ایسی نیکی کی ہو جس نے اسے مقبولِ الٰہی بنا دیا ہے۔ ہو سکتا ہے جو خاتون فیشن ایبل نظر آتی ہے‘ جسے اہلِ مذہب گنہگار سمجھتے ہیں‘ پہنچی ہوئی ہو۔ وہ ایک ہائوس وائف بھی ہو سکتی ہے‘ ایک افسر بھی ہو سکتی ہے‘ کسی کالج کی پرنسپل بھی ہو سکتی ہے‘ ایک خادمہ یا آیا بھی ہو سکتی ہے۔ ہمیں کیا علم اس کے اعمال کیا ہیں؟ یہ جو موچی ہے‘ بازار کے نکڑ پر بیٹھا ہوا‘ زمین پر اپنا سامان رکھے‘ یہی مستجاب الدعوات ہو! یہ جو قلی ہے‘ سر پر بھاری صندوق رکھے‘ لال قمیض پہنے‘ کیا عجب یہی وہ مردِ کامل ہو جس کی ہمیں تلاش ہے۔ مدت ہوئی ایک واقعہ پڑھا تھا‘ شاید احسان دانش صاحب کے حوالے سے کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ کسی مستجاب الدعوات بندے کا پتا ہے؟ وہ پوچھنے والے کو لے کر شہر کی پُرپیچ گلیوں میں چلتے رہے۔ بالآخر ایک تھڑے پر پہنچے جس پر بیٹھا ایک موچی پرانے جوتوں کی مرمت کر رہا تھا۔ بتایا کہ یہ مستجاب الدعوات ہے۔ ایک صاحب ہیں‘ ایک ادارے میں عام قسم کی ملازمت کرتے ہیں۔ دیکھنے میں مذہبی نہیں لگتے۔ ( دیکھنے میں مذہبی لگنا بہت آسان ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس کے لیے کیا کرنا پڑتا ہے) مگر وہ دعا کریں تو کام بن جاتا ہے۔ کوئی ورد‘ وظیفہ‘ تجویز کریں تو قدرت کرم کرتی ہے۔ ایک صاحب نے ان سے پوچھا کہ اسے بھی کچھ تعلیم دیں تاکہ وہ بھی ان جیسا ہو جائے۔ انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے غیبت مکمل طور پر‘ سو فیصد‘ چھوڑنا ہو گی! پوچھنے والے صاحب ہنسے! کہا: حضرت! غیبت چھوڑیں گے تو دن کیسے گزرے گا اور شام کیسے کٹے گی؟ غور فرمائیے! غیبت سے اجتناب کتنا مشکل کام ہے۔ یہ تو کوہِ ہمالیہ پر چڑھنے والی بات ہے‘ مگر کچھ لوگ اسی دنیا میں موجود ہیں جو کسی اپنے پرائے کی غیبت نہیں کرتے! جو جھوٹ نہیں بولتے۔ واقعی جھوٹ نہیں بولتے! جو کم تولنے کو موت گردانتے ہیں۔ جو گالی نہیں دیتے! جو اپنے کام پر وقت پر پہنچتے ہیں تاکہ ان کی آمدنی میں ناجائز نہ مکس ہو جائے۔ جو ہر حال میں وعدہ پورا کرتے ہیں۔ جو قطع رحمی سے بچتے ہیں‘ جنہیں غلطی یا کوتاہی پر معافی مانگنے سے شرم نہیں آتی۔ جو پوشیدہ رہ کر مستحقین کی خدمت کرتے ہیں‘ یوں کہ خود مستحقین کو معلوم نہیں ہو پاتا کہ کس نے مدد کی ہے۔ جو اتنے محتاط ہیں کہ اپنی آمدنی میں رمق بھر آلودگی کی آمیزش نہیں ہونے دیتے! جو بیوی بچوں کے تمام حقوق پورے کرتے ہیں۔ وہ شخص پہنچا ہوا ہو ہی نہیں سکتا جو تارک الدنیا ہو جائے یا اپنے فرائض سے کنارہ کش ہو کر مہینوں مسجد میں بیٹھا رہے۔ کوئی پیغمبر دنیا کو عاق کر کے کسی کونے میں نہیں بیٹھا۔ پہنچا ہوا وہ ہو گا جو دنیا کے جبڑوں میں رہ کر دنیا کے دندانِ آز سے بچنے میں کامیاب ہو جائے۔ جو بازار‘ کارخانے ‘کھیت‘ دفتر بھی جائے‘ اپنی فیملی میں بھی رہے‘ اعزّہ واقارب سے بھی ملے‘ قوم اور ملک کے لیے بھی کام کرے اور یوں دنیا کے درمیان رہ کر لباسِ زندگی پر دنیا کی آلائشوں کا چھینٹا تک نہ پڑنے دے۔ جسے معلوم ہو کہ قلم کی روشنائی کا‘ سٹیپلر کی سوئی کا‘ گاڑی کے پٹرول کا‘ کارخانے کے تیل کا اور کھیت کے دانے کا بھی حساب ہو گا۔
پہلے بھی عرض کیا اور اس امر کی مسلسل یاددہانی لازم ہے کہ ہر مرد اور عورت کے دو پہنچے ہوئے بزرگ اور پیر اس کے گھر میں موجود ہیں اور وہ اس کے ماں باپ ہیں۔ ماں باپ کی فرمانبرداری کا حکم دیتے وقت یہ نہیں کہا گیا کہ وہ نیک ہوں۔ وہ جیسے بھی ہیں‘ وہی اولاد کے پیر ہیں اور بزرگ ہیں۔ پِیروں کے پائوں میں جرابیں پہناتے ہو‘ ان کے جوتے سیدھے کرتے ہو‘ انہیں جھک کر ملتے ہو‘ انہیں نذرانے دیتے ہو‘ وہ کھڑے ہوں تو تم بیٹھتے نہیں‘ ان کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کرتے‘ اپنے بچوں کو ان کی زیارت‘ خدمت اور اطاعت کے لیے آمادہ کرتے ہو‘ خدا کے بندو! یہ سب کچھ اپنے ماں باپ کے لیے کیوں نہیں کرتے؟ پیر صاحب کو نذرانہ دیتے ہو تو وہ مزید کی توقع رکھتے ہیں۔ ماں باپ پر خرچ کرتے ہو تو وہ کہتے ہیں کہ خرچہ کیوں کیا؟ انہیں تمہارے خون پسینے کی کمائی کا درد ہے۔ باپ اس زمین کے سینے پر اور اس آسمان کے نیچے وہ واحد مرد ہے جو تمہاری ترقی پر جلتا نہیں اور تمہاری کامیابی سے حسد نہیں کرتا۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ تم اس سے پیچھے رہو۔ صرف باپ چاہتا ہے کہ تم اس سے بھی آگے بڑھو! صرف ماں ہے جو اپنی جان تم پر نچھاور کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہے۔ تم کسی کے گھر میں ایک ماہ رہو تو ساری زندگی اس کا احسان یاد رکھتے ہو۔ ماں تمہیں اپنے گھر میں نہیں‘ اپنے کمرے میں نہیں‘ اپنے بستر پر نہیں‘ اپنے وجود کے اندر نو ماہ رکھتی ہے اور اپنی خوراک‘ اپنا خون سب کچھ تمہیں عطا کرتی ہے۔ کیا کسی پیر نے‘ کسی اور بزرگ نے‘ کسی سوامی‘ کسی مہاتما‘ کسی سادھو نے تم پر اتنا بڑا احسان کیا ہے ؟ 
پہنچے ہوئے کو پانا اتنا آسان نہیں! پاس ہو تو ہمیں نظر نہیں آتا۔ دور ہو تو ہم پہنچ نہیں پاتے!!

Thursday, March 06, 2025

یہاں اب مرے ہم نوا اور بھی ہیں


بہت ہی محترم جناب سہیل وڑائچ کے اس مؤقف سے مجھے اختلاف ہے کہ نئے صوبے نہیں بننے چاہئیں۔ مگر یہ آج کا موضوع نہیں! آج تو اس اطمینان کا اظہار کرنا ہے کہ جس ایشو کو میں ایک مدت سے اُٹھا رہا تھا‘ سہیل وڑائچ صاحب کی توانا آواز نے اس کی حمایت کی ہے۔ وہ ایشو ہے ضلعی حکومتوں کا قیام! مجھ بے بضاعت نے اس پر بارہا لکھا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا‘ دونوں پر اس ایشو کو مکمل طور پر بلیک آؤٹ کیا جا رہا ہے۔ نہیں معلوم اس بلیک آؤٹ کی پشت پر منظم منصوبہ بندی ہے یا صرف تغافل اور سرد مہری ہے۔ جو بھی ہے‘ نقصان دہ ہے!
سب سے پہلے تو دارالحکومت اسلام آباد کی بات کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ کے لیے ایک میئر آیا تھا۔ اس کے بعد پھر وہی کلائیو اور وارن ہیسٹنگز کا نظام! اندازہ لگائیے! دارالحکومت کے باشندوں کو اپنے شہر کے انتظام وانصرام میں رمق بھر دخل دینے کی اجازت نہیں۔ کبھی ہم آہنی پردے کے پیچھے کی اصطلاح استعمال کرتے تھے جس سے مراد سوویت یونین کا جابرانہ نظام تھا۔ مگر پاکستانی بیورو کریسی کا آہنی پردہ کئی گنا زیادہ دبیز اور مضبوط ہے۔ سات پردوں میں چھپی بیورو کریسی صرف ان آقاؤں کو خوش کرتی ہے جن کے ہاتھ میں ان کی تعیناتیاں اور ترقیاں ہیں۔ اسلام آباد کی اس بے بسی پر اس کالم نگار نے کئی کالم تحریر کیے مگر سب صدا بصحرا ثابت ہوئے۔ ع کس نمی پرسد کہ بھیّا کیستی!!
جنرل پرویز مشرف کے ناقابلِ رشک عہد میں ضلعی حکومتوں کا قیام ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ کچھ اچھے کام تو سامراجی دور میں بھی ہو گئے اور یہ آمر تو پھر بھی پاکستانی تھا۔ ہم جن رینگنے والے اور مکڑی نما حشرات سے ڈرتے ہیں اور ان سے نفرت کرتے ہیں‘ قدرت ان سے بھی کچھ مفید کام لیتی ہے۔ جنرل کا ضلعی حکومتوں کا نظام کئی سو برسوں کی نوکر شاہی کی گھٹن کے بعد تازہ ہوا کا ایک جھونکا تھا۔ ضلعی ناظم مقامی سیاستدان تھا۔ اس نے وہیں جینا اور وہیں مرنا تھا۔ اس نے ووٹ بھی لینے تھے اور مخالفین کی لعن طعن سے بچنے کے لیے سیدھے راستے پر بھی چلنا تھا۔ اگر میں اپنے ضلع اٹک کی بات کروں تو جو تھوڑا سا عرصہ میجر طاہر صادق ضلعی ناظم رہے‘ اُس تھوڑے سے عرصے کے دوران ضلع کے اطراف واکناف کے جتنے دورے انہوں نے کیے‘ ڈپٹی کمشنروں نے گزشتہ کئی دہائیوں میں اتنے نہیں کیے ہوں گے۔ ہاں‘ انگریز ڈپٹی کمشنروں کی بات اور تھی۔ وہ ملکہ کی سرفرازی کے لیے اور اپنے ملک کی خاطر جان مار کر کام کرتے تھے۔ ضلعی گزٹ جو وہ چھوڑ گئے ان کی محنت کا ثبوت ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آمریت کی وجہ سے ضلعی حکومتیں آئیڈیل حکومتیں نہیں تھیں۔ مگر کوئی بھی نیا سسٹم نقائص سے مبرّا نہیں ہوتا۔ پختگی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ ارتقا ایک لمبا پروسیس ہے۔ اگر جنرل مشرف کے بعد برسر قتدار آنے والے سیاستدان ضلعی حکومتوں کے نظام پر شب خون نہ مارتے تو آج پاکستان کئی لحاظ سے ایک بہتر جمہوری ملک ہوتا۔ مگر افسوس! صد افسوس! اہلِ سیاست نے اپنی آمرانہ اور غیر جمہوری سرشت سے مجبور ہو کر ضلعی حکومتوں کو قتل کر دیا اور وہی فرسودہ نظام دوبارہ لے آئے جس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں تختِ لاہور کا رونا رویا جاتا ہے مگر تختِ پشاور‘ تختِ کراچی اور تختِ کوئٹہ بھی مرکزیت کی بدترین مثالیں ہیں! ضلعی حکومتوں کا نظام ختم کرنے کی دو وجوہ تھیں۔ ایک تو مالیاتی کنٹرول کا ایشو تھا۔ بٹوہ چیف منسٹر اپنی جیب میں رکھنا چاہتے ہیں۔ ضلعی حکومتوں کو فنڈز ٹرانسفر کیے تو مالیاتی چودھراہٹ ختم ہو جائے گی۔ پورے صوبے کا بجٹ جب تک جیب میں نہ ہو چیف منسٹری میں مزہ ہے نہ شکوہ وجلال! بعض مردوں میں بیماری ہوتی ہے کہ خاتونِ خانہ کو کچن اور گھر کے انتظام کے لیے یکمشت پیسے نہیں دیتے۔ وہ بیچاری کبھی دہی کے لیے سو روپے مانگتی ہے کبھی ڈبل روٹی کے لیے۔ یہی بیماری سیاستدانوں میں ہے۔ دوسرے محتاج رہیں‘ ہر کام کے لیے آکر عرض گزاری کریں اور سیکرٹری فنانس حکم کا منتظر ہو تو تب ہی تو حکمرانی میں لذت ہے! کیسے کیسے کمپلیکس ہیں اور احساسِ کمتری کی بھی کیا کیا شکلیں ہیں! کیسے کیسے نفسیاتی عوارض ہیں! خدا کی پناہ!! اختیارات کی 
decentralization
 بادشاہت کے لیے موت سے کم نہیں۔ کہتے ہیں کہ جاگیرداری‘ سرداری یا فیوڈلزم ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے۔ اس کیفیت کو اپنے اوپر طاری کرنے کے لیے لازم نہیں کہ ملکیت میں زمین بھی ہو۔ ہمارے اکثر اہلِ سیاست ذہنی طور پر شہری ہونے کے باوجود‘ فیوڈل ذہنیت رکھتے ہیں۔ وہ ''نہ‘‘ تو سننا ہی نہیں چاہتے! دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ نوکر شاہی جس طرح حالتِ رکوع میں ہو کر احکام کی تعمیل کرتی ہے‘ ضلعی ناظم یا ضلعی حکومتوں کے سربراہ اس طرح کبھی نہیں کریں گے! ضلعی حکومت کا سربراہ سیاستدان ہو گا۔ وہ چیف منسٹر سے براہِ راست رابطہ رکھنے کی کوشش کرے گا۔ اس سے رعب کم ہونے کا خدشہ ہے۔ اس کے مقابلے میں ڈپٹی کمشنر چیف سیکرٹری یا پرنسپل سیکرٹری سے اوپر بات کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔وہ تو ''تھرو پراپر چینل‘‘ کی زنجیروں میں جکڑا ہوا روبوٹ ہے۔ اس کی زندگی کے دو مقاصد ہیں۔ اول اگلی تعیناتی کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا اور اس مقصدِ جلیلہ کے حصول کے لیے حکامِ بالا کو خوش رکھنا۔ دوم اگلے گریڈ میں ترقی۔ ضلع کی فلاح وبہبود اگر تیسرے نمبر پر بھی اس کی ترجیح ہو تو غنیمت ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر نے دو یا تین سال ضلع میں گزارنے ہیں اس کے بعد‘ اکثر حالات میں‘ ساری زندگی اس نے ضلع کی زمین پر پاؤں نہیں دھرنے! اس کی جوتی کو بھی پروا نہیں کہ اس کے بعد کیا ہو گا؟ آپ خود سوچیے اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ اس نے عوام کی کیا خدمت کرنی ہے؟ عوام کے ساتھ تو اس کا براہِ راست رابطہ ہی نہیں۔
جمہوریت کی روح عوام کو جوابدہی ہے۔ ضلع کا ڈپٹی کمشنر ہو یا وفاقی دارالحکومت کا چیف کمشنر یا ترقیاتی ادارے کا چیئرمین‘ عوام کو جوابدہ نہیں! یہ تو عوام کو ملتے ہی نہیں۔ ان سے تو فون پر بات کرنا ناممکن ہے۔ یہ ذہنی طور پر سو سال پہلے کی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ رعونت مآب ہیں اور صاحب بہادر!
تم ہمیں کیا نئی منزل کی بشارت دو گے
تم تو رستہ نہیں دیتے ہمیں چلنے کے لیے
ڈپٹی کمشنری کا یہ فرسودہ‘ ازکار رفتہ اور مکروہ نظام دنیا کے کسی مہذب‘ جمہوری ملک میں رائج نہیں! یورپ اور امریکہ کو تو چھوڑیے‘ بھارت نے اپنے آئین کی 73ویں اور 74ویں ترامیم کے ذریعے مقامی حکومتوں کو انتظامی اختیارات بھی دیے اور فنڈز بھی! جب تک مقامی حکومتیں انتخابات کے ذریعے وجود میں نہیں آتیں اور جب تک انہیں مالیاتی خود مختاری نہیں حاصل ہوتی‘ جمہوریت ہمارے ہاں صرف نام کی ہے اور دنیا میں ہمارے لیے ہرگز قابلِ عزت نہیں۔ وہی کلائیو اور کرزن والا زمانہ بدستور چل رہا ہے۔ بس اتنا فرق پڑا ہے کہ پہلے وڈیرے اور گدی نشین‘ اچکنیں لشکاتے‘ طرے لہراتے‘ عید کے موقع پر انگریز ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی کے لان میں کھڑے رہتے تھے۔ کافی دیر کے بعد ڈپٹی کمشنر کا نوکر اندر سے آکر بتاتا کہ صاحب نے عید مبارک قبول کر لی ہے۔ اس پر یہ ٹوڈی ایک دوسرے سے معانقے کرتے اور مبارکبادیں دیتے! اب ڈپٹی کمشنر کوٹھی کے اندر بلا لیتا ہے اور چائے کی پیالی بھی پلا دیتا ہے!! اور ہاں‘ یہ وڈیرے اے سی اور ڈی سی کے گھر بھینس بھی بھجوا دیتے ہیں! وہی اڑھائی سو سال پرانا سسٹم!
انجم غریبِ شہر تھے اب تک اسیر ہیں
سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے

Tuesday, March 04, 2025

رویتِ ہلال کمیٹی کی حمایت میں


اس لحاظ سے ہم خوش بخت ہیں کہ ملک میں ایک رویتِ ہلال کمیٹی قائم ہے۔ چاند کب نظر آتا ہے‘ کب نہیں‘ یہ محکمہ موسمیات کا کام نہیں‘ نہ سائنسدانوں ہی کے بس کی بات ہے۔ یہ صرف اور صرف رویتِ ہلال کمیٹی کا کام ہے اور اسی کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے۔ حال ہی میں رویتِ ہلال کمیٹی کے معزز‘ قابلِ احترام سربراہ نے صوبوں کے گورنروں اور چند وفاقی وزرا سے ملاقاتیں کیں۔ کچھ نالائق لوگ اعتراض کریں گے کہ رویتِ ہلال کمیٹی کا گورنروں سے کیا تعلق؟ مگر انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اربابِ اقتدار سے میل ملاقاتوں کا اثر چاند دیکھنے پر بہت زیادہ پڑتا ہے۔ کچھ احمق سائنسدانوں نے اگلے ایک سو سال کا کیلنڈر بنا کر چاند نکلنے کے دن اور تاریخیں بتا دی ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم بحمدللہ مسلمان ہیں۔ ہم سائنس‘ ٹیکنالوجی اور موسمیات کے علوم پر یقین نہیں رکھتے۔ اگر سائنس پر یقین کریں گے تو رویتِ ہلال کمیٹی کا کیا ہو گا؟
تاہم رمضان میں یہ جو افطار اور سحری کے اوقات گھڑی دیکھ کر طے کیے جاتے ہیں‘ یہ ہرگز مناسب نہیں! قرنِ اول میں گھڑیاں کہاں تھیں؟ ان گھڑیوں کی حیثیت بالکل اُس کیلنڈر جیسی ہے جو کچھ برخود غلط سائنسدانوں نے تیار کیا ہے اور جو اگلے سو سال کے لیے رمضان کے آغاز اور اختتام کا تعین کرتا ہے۔ کہاں لکھا ہے کہ گھڑی دیکھ کر روزہ کھولو اور گھڑی دیکھ کر سحری کے وقت کھانا پینا بند کرو! حکم تو یہ ہے کہ اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک کہ سیاہی ٔشب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ جائے۔ اس صاف اور واضح حکم کی تعمیل کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ رویتِ ہلال کمیٹی کے معزز سربراہ‘ بنفس نفیس یا ان کا کوئی قابلِ اعتماد نمائندہ سحری کے وقت چھت پر چڑھ کر دیکھے اور جیسے ہی سیاہی ٔشب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ ئے‘ سحری بند ہونے کا اعلان کر ے۔
اور خدا کا خوف کیجیے۔ یہ جو ہر مسجد میں اوقاتِ نماز کے لمبے چوڑے چارٹ لگے ہیں‘ ان کا کیا جواز ہے ؟ اور یہ جو الیکٹرک (برقی) بورڈ ہر مسجد میں محراب کے ساتھ والی دیوار پر ٹنگے ہیں‘ جن پر آنے والی نماز کا وقت روشن ہوتا ہے‘ ان برقی بورڈوں کی حیثیت اسی کیلنڈر کے برابر ہے جو رمضان اور عید کی تاریخوں کا تعین کرتا ہے۔ اگر کیلنڈر کی بنیاد پر روزہ نہیں رکھا جا سکتا اور اگر کیلنڈر کی بنیاد پر عید نہیں منائی جا سکتی تو گھڑیوں اور برقی بورڈوں کی بنیاد پر نمازیں کیسے پڑھی جا سکتی ہیں؟ ایک معروف مذہبی ویب سائٹ پر نماز کے اوقات معلوم کرنے کا جو اصل طریقہ درج ہے‘ اسے ہم یہاں نقل کر رہے ہیں۔
''رات کے آخری پہر میں صبح ہوتے وقت مشرق کی طرف سے آسمان کی لمبائی میں کچھ سفیدی دکھائی دیتی ہے‘ جو تھوڑی دیر میں ختم ہو جاتی ہے‘ اور اندھیرا ہو جاتا ہے‘ اسے ''صبح کاذب‘‘ کہا جاتا ہے‘ اس کے تھوڑی دیر بعد آسمان کے کنارے پر کچھ سفیدی چوڑائی میں دکھائی دیتی ہے جو بڑھتی رہتی ہے‘ اور تھوڑی دیر میں بالکل روشنی ہو جاتی ہے‘ اسے ''صبح صادق‘‘ کہا جاتا ہے‘ جس سے فجر کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ اور سورج نکلنے تک باقی رہتا ہے‘ اور جب سورج تھوڑا سا بھی طلوع ہو جائے تب فجر کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔
سورج طلوع ہوکر جتنا اونچا ہو جاتا ہے‘ ہر چیز کا سایہ گھٹنا شروع ہو جاتا ہے‘ سو جب سورج سر پر آ جائے اور سایہ گھٹنا موقوف ہو جائے‘ یہ دوپہر کا وقت ہے‘ اس وقت ہر چیز کا جو سایہ ہوتا ہے وہ ''اصلی سایہ‘‘ کہلاتا ہے‘ پھر جب سورج ڈھل جائے اور سایہ بڑھنا شروع ہو جائے تو اس کو ''زوال‘‘ کہتے ہیں‘ جس سے ظہر کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ اور جب ہر چیز کا سایہ (اس کے اصلی سایہ کے علاوہ) دو گنا ہو جائے تب ظہر کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بات ملحوظِ خاطر رہے کہ بہتر یہ ہے کہ ظہر کو ہر چیز کا سایہ ایک گنا ہونے تک پڑھ لیا جائے۔اور جب ہر چیز کا سایہ اصلی سایہ کے علاوہ اس کے دو مثل (دو گنا) ہو جائے تو عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ اور سورج ڈوبنے تک باقی رہتا ہے۔اور جب سورج غروب ہو جائے تو مغرب کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ اور جب تک مغرب کی طرف آسمان کے کنارے پر سرخی کے بعد سفیدی باقی رہے‘ اس وقت تک مغرب کا وقت باقی رہتا ہے‘ اور شفقِ ابیض (سرخی کے بعد والی سفیدی) کے بعد مغرب کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔اور جب آسمان کے کنارے مغرب کی طرف کی سرخی کے بعد آنے والی سفیدی جاتی رہے تو عشاء کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ اور صبح صادق ہونے تک باقی رہتا ہے‘‘۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ نماز کے اوقات میں گھڑی کا کوئی عمل دخل نہیں! اب یا تو نمازوں کے اوقات کا اعلان رویتِ ہلال کمیٹی کے سپرد کیا جائے یا ایک اور سرکاری ادارہ بنایا جائے جس کا نام ''اعلانِ نماز کمیٹی‘‘ ہو! یہ کمیٹی رات کے آخری پہر چھت پر جائے اور دیکھے کہ آسمان کی لمبائی میں سفیدی کب دکھائی دیتی ہے اور کب ختم ہوتی ہے۔ اس وقت یہ کمیٹی صبح کاذب ہوجانے کا اعلان کرے۔ کچھ دیر کے بعد کمیٹی دوبارہ چھت پر چڑھے اور نوٹ کرے کہ آسمان کے کنارے پر سفیدی چوڑائی میں کس وقت دکھائی دیتی ہے۔ اُس وقت کمیٹی اعلان کرے کہ صبح صادق ہو گئی ہے۔ ظہر کی نماز کا وقت طے کرنے کے لیے کمیٹی ایک چھڑی یا ڈنڈا زمین میں گاڑے۔ جب اس چھڑی یا ڈنڈے کا سایہ بڑھنا شروع ہو جائے تو کمیٹی اعلان کرے کہ ظہر کے وقت کا آغاز ہو چکا ہے۔ پھر جب چھڑی کا سایہ اس کے اصلی سائے کے علاوہ‘ دو گنا ہو جائے تو کمیٹی اعلان کرے کہ ظہر کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ پھر جب چھڑی کا سایہ‘ اصل سائے کے علاوہ‘ دو گنا ہو جائے تو کمیٹی اعلان کرے کہ عصر کا وقت شروع ہو گیا ہے۔ مغرب کے لیے کمیٹی کو ایک بار پھر چھت پر جانا ہو گا۔ جب سرخی کے بعد والی سفیدی ختم ہو جائے تو کمیٹی اعلان کرے کہ مغرب کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ تب عشاکا وقت شروع ہو جائے گا۔
ہماری تجویز یہ بھی ہے کہ سحری کے وقت کا اختتام دیکھنے کے لیے جو لوگ وفاق میں اور صوبوں میں چھتوں پر چڑھ کر دیکھیں گے کہ سیاہی ٔشب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری کس وقت نمایاں نظر آ تی ہے‘ ان کے لیے وزارتِ خزانہ ''سحری الاؤنس‘‘ منظور کرے۔ اسی طرح ''اعلانِ نماز کمیٹی‘‘ کے لیے بجٹ میں ''چھت الاؤنس‘‘ رکھا جائے۔ رہنما کمیٹی وفاق میں ہو گی‘ صوبوں کی ''اعلانِ نماز کمیٹیاں‘‘ وفاقی کمیٹی کے ماتحت کام کریں گی۔ ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر‘ ہر تحصیل ہیڈ کوارٹر اور ہر گاؤں میں ایسی کمیٹیاں قائم کی جائیں گی۔ اس مقصد کے لیے وفاق اور صوبوں میں نئی وزارتیں تشکیل دی جائیں گی۔ ان وزارتوں کا نام ہو گا ''وزارت برائے اختتام سحری و اوقاتِ نماز‘‘۔
یہ بھی لازم ہے کہ کوئی شخص اگر گھڑی کی مدد سے سحری ختم کرے یا گھڑی دیکھ کر نماز کے وقت کا تعین کرے تو اسے سخت سے سخت سزا دی جائے جو چودہ سال سے لے کر عمر قید تک ہو سکتی ہے۔ اور ہاں‘ اگر کوئی شہری رمضان اور عید کا چاند دیکھنے کے لیے سائنس‘ ٹیکنالوجی یا علومِ موسمیات سے مدد لینے کی بات کرے تو اسے پھانسی کی سزا دی جائے۔ مزید یہ کہ رویتِ ہلال کمیٹی کو تین یا چار چارٹرڈ جہاز اور ایک درجن ہیلی کاپٹر دیے جائیں تا کہ وہ بادلوں سے اوپر جا کر چاند کو نزدیک سے دیکھ سکیں!!

Monday, March 03, 2025

زینب …( 2)

تلخ نوائی …………

روزنامہ دنیا کا اجرا تین ستمبر 2012ء کو ہوا تھا۔ پہلے روز ہی میرا کالم ''بسم اللہ‘‘ کے عنوان سے چھپا۔ اس کے ٹھیک دس دن بعد یعنی تیرہ ستمبر 2012ء کو اس مضمون (زینب) کی پہلی قسط شائع ہوئی تھی۔ کل کی طرح یاد ہے وہ تحریر میں نے سکردو میں سیبوں کے ایک باغ میں بیٹھ کر لکھی تھی۔ اسی باغ میں لاہور سے فون آیا تھا۔ اس کی اماں نے بتایا کہ رو رہی ہے کہ نانا ابو سے بات کرنی ہے۔ بات کی تو کہنے لگی: ابھی لاہور آ جائیے میرے پاس بس ابھی! تب زینب سات برس کی تھی۔ آج تیرہ برس بعد اس تحریر کی دوسری قسط لکھنے بیٹھا ہوں۔ پیدائش اس کی بحر اوقیانوس کے اُس طرف امریکہ میں ہوئی تھی۔ چند ماہ کی تھی کہ پاکستان آ گئی۔ ہر شخص کا مزاج قسّامِ ازل نے الگ تخلیق کیا ہے۔ ایسے نانے دادے بھی دیکھے ہیں جو نواسوں پوتیوں کا شور نہیں پسند کرتے! اللہ کا شکر ہے کہ ایسے سڑیل اور گلے سڑے بابے زیادہ تعداد میں نہیں پائے جاتے۔ بہرطور میرے لیے زینب ایک عجیب چیز تھی۔ پہلی نواسی یا پوتی یا پوتا یا نواسہ (انگریزی میں سب کے لیے گرینڈ کِڈ کا لفظ استعمال ہوتا ہے) ایک ایسا کھلونا ہوتا ہے جس کا کوئی مثیل ہے نہ اسے لفظوں میں بیان 
(describe)
 ہی کیا جا سکتا ہے۔ میں اسے ہر وقت ساتھ رکھتا۔ واک کے لیے جاتا تو اس کی پریم ساتھ ہوتی۔ دفتر سے سیدھا گھر آتا اور اسے اٹھا کر باہر نکل جاتا۔ ایک دن غباروں والا گھر کے سامنے سے گزرا تو اس سے پوچھا: کتنے غبارے ہیں؟ کہنے لگا: چالیس۔ میں نے کہا: سارے دے دو۔ لا کر زینب کے سامنے ڈال دیے۔ جتنی دیر ان سے کھیلتی رہی‘ میری نظریں ہٹیں نہیں! لاہور سے آتی تو ٹول پلازا پہنچ کر انتظار کرتا۔ اسے اس کی اماں ابا کی گاڑی سے نکال کر اپنی گاڑی میں ڈال لیتا۔ جاتے وقت کئی بار چکری تک اس کے ساتھ گیا۔
وہ بڑی ہوتی گئی اور میرے لیے اس کھلونے کی کشش میں اضافہ ہوتا گیا۔ زندگی بھر کی مطالعہ کی عادت چھوٹ گئی کہ رات کو وہ دیر تک کہانیاں سنتی۔ کبھی کسی پلے لینڈ میں لے جاتا کبھی کسی پارک میں! ماں باپ اس کے لاہور میں تھے اور وہ زیادہ نانا نانی کے پاس اسلام آباد میں رہتی۔ ایک بار لاہور گئی تو ملازمہ سے یہ کہتی پائی گئی کہ ''میں اچھی بھلی اپنی زندگی جی رہی تھی اسلام آباد میں‘ اور یہ لوگ مجھے یہاں لاہور میں لے آئے ہیں‘‘۔ ہم جب بھی لاہور جا کر چند دن رہتے تو ہمارے واپس آنے پر ضرور روتی۔ راستے میں اس کی اماں کا پیغام ملتا کہ کہہ رہی ہے واپس آ جائیے۔ اسلام آباد سے جاتے وقت بھی اس کی ہچکی بندھ جاتی! جوں جوں بڑی ہوتی گئی‘ اس کی محبت اور ہمارے ساتھ اس کی وابستگی وہی رہی مگر انداز‘ اسلوب اور سٹائل بدلتا گیا۔ اب وہ مجھے بتاتی کہ کون سا کوٹ پہننا ہے اور کون سی ٹائی کس قمیض کے ساتھ لگانی ہے۔ لاہور جاتا تو وارننگ دیتی کہ آپ نے دوستوں کے پاس نہیں جانا آپ ہمارے لیے آئے ہیں۔ دوستوں کی کسی محفل میں جانا ہوتا تو ساتھ جاتی۔ ورنہ فون کرتی کہ بہت دیر ہو گئی ہے‘ اب آپ واپس آئیے‘ میں انتظار کر رہی ہوں! اس کا چھوٹا بھائی ہاشم خان بھی بڑا ہو رہا تھا۔ یوسف زئی قبیلے کی روایت کے عین مطابق ہاشم خان پندرہ برس کا ہوا تو قد ماشاء اللہ چھ فٹ دو انچ ہو چکا تھا۔ جس دن ہم نے لاہور سے واپس آنا ہوتا تو اس سے پہلی رات‘ دونوں بہن بھائی آکر ہمارے پاس بیٹھ جاتے اور بحث کرتے کہ کل کیوں جا رہے ہیں؟ وہاں کون سا کام ہے جو آپ کے بغیر رکا ہوا ہے؟ ہمیں چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہیں؟ دوسرے دن اتنا شور مچاتے اور احتجاج کرتے کہ ہمیں ایک دو دن مزید رکنا پڑتا۔
وقت ایک زقند کے بعد دوسری زقند بھرتا گیا۔ اب زینب نے اے لیول پاس کر لیا تھا۔ گاڑی بھی چلانے لگی تھی۔ سہیلیوں کے ساتھ مل کر ضرورت مندوں کے لیے فلاحی کام بھی کر رہی تھی۔ وطن کی زمین پروفیشنل افراد پر تنگ ہو رہی تھی۔ اور تنگ ہو رہی ہے۔ اس کا والد‘ جو دل کا ایک نامور جرّاح ہے‘ واپس امریکہ چلا گیا ہے۔ اور ظاہر ہے بیوی بچوں کو بھی ساتھ لے گیا ہے۔ زینب کی اماں میری بیٹی ہے۔ لخت جگر ہے۔ یاد آتی ہے تو دل میں درد یوں لہراتا ہے جیسے بِین کی آواز پر سانپ لہراتا ہے۔ پھر بیٹی کے ساتھ ہی اس کی بیٹی بھی یاد آتی ہے۔ دونوں کے چہرے ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں۔ ماہ وَش زینب بن جاتی ہے اور زینب ماہ وَش بن جاتی ہے۔ وہ اپنی اماں کے دل کا ٹکڑا ہے۔ اس کی اماں میرے دل کا ٹکڑا۔ گویا میرے دل کے ٹکڑے میں ایک اور دل ہے اور اس دل میں ایک اور ٹکڑا۔ لخت در لخت! پارہ در پارہ! زخم میں مرہم ہے اور مرہم میں زخم!! درد میں دوا ہے اور دوا میں پھر درد ا! آنکھیں بند کر کے سوچتا ہوں کہ ہمارے درمیان کتنے ٹائم زون‘ کتنے سمندر‘ کتنے براعظم‘ کتنے ممالک پڑتے ہیں۔کروڑوں تو بادل ہی ہوں گے! اربوں تو پرندے ہی ہوں گے!
ایک چراغ یہاں میرا ہے ایک دیا وہاں تیرا
بیچ میں اقلیمیں پڑتی ہیں‘ پانی اور اندھیرا
کوئی دوری سی دوری ہے! کوئی فراق سا فراق ہے! کوئی ہجر سا ہجر ہے! کوئی جدائی سی جدائی ہے۔ جسم کے اندر وریدوں میں اور وریدوں کے اندر بہتے لہو میں اور ہڈیوں میں اور ہڈیوں کے اوپر چڑھے ماس میں اور ہڈیوں کے اندر گودے میں لاکھوں چراغ جیسے بجھ گئے ہیں اور ان کا دھواں بھر گیا ہے! یہ کیسا دھواں ہے کہ اندر سے باہر آتا ہے اور آنکھوں سے پانی بہاتا ہے‘ یوں کہ راستہ سجھائی نہیں دیتا! بیٹیاں مصلے پر بیٹھ کر دعائیں کر کر کے مانگی تھیں۔ سخاوت کرنے والے نے بے نوا دریوزہ گر کو دو بیٹیاں عطا کیں۔ صورت میں سیرت سے بڑھ کر اور سیرت میں صورت سے بڑھ کر۔ ایک سمندر پار چلی گئی ہے۔ خود تو گئی ہی تھی‘ ساتھ زینب کو بھی لے گئی۔ گویا بینائی تو گئی ہی تھی ساتھ عصا بھی چلا گیا! میں تو مجید امجد کی طرح یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ:
پلٹ پڑا ہوں شعائوں کے چیتھڑے اوڑھے
نشیبِ زینۂ ایّام پر عصا رکھتا
دوست تسلی دیتے ہیں کہ اب تو وڈیو پر بات ہو جاتی ہے اور مجھے فراز کا شعر یاد آ جاتا ہے:
جس طرح بادل کا سایہ پیاس بھڑکاتا رہے
میں نے یہ عالم بھی دیکھا ہے تری تصویر کا
پھر سوچتا ہوں کرب کے اس ریگستان میں میں اکیلا تو نہیں! ہوا میں اُڑنے والے فولادی پرندوں نے گھر گھر سے ماہ وَش اور زینب اور ہاشم اور قاسم کو نگلا اور دور کے ساحلوں پر جا کر اگل دیا۔ کتنے ہی نانے دادے اور نانیاں دادیاں اپنی اپنی ماہ وَش اور اپنی اپنی زینب کے ہجر میں اداس بیٹھی ہیں۔ سانسوں کی آمد ورفت کا کاروبار ختم ہوا تو کون جانے زمین کے مختلف ٹکڑوں میں پھیلے ہوئے یہ لخت ہائے جگر‘ یہ بیٹے بیٹیاں‘ یہ پوتے پوتیاں‘ یہ نواسے نواسیاں پہنچ پائیں گی یا نہیں! یا بعد میں آکر کچی قبروں پر سبز پودے لگائیں گی! دعا کریں گی۔ آنسو بہائیں گی اور پھر اپنے اپنے اڑن کھٹولے پر بیٹھ کر دور کے دیاروں میں گم ہو جائیں گی! ہجرتوں کا دور ہے! لگتا ہے اس ملک سے سارے ڈاکٹر‘ سارے سائنسدان‘ سارے اہلِ علم‘ سارے صنعتکار ہجرت کر جائیں گے۔ صرف ڈیرے دار وڈیرے‘ حکومتوں کے موروثی دعویدار اور نسل در نسل حکمرانی کرنے والے نیم خواندہ خاندان ہی پیچھے رہ جائیں گے!!

Thursday, February 27, 2025

خواجہ آصف۔ بارش کا پہلا قطرہ


ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے تین باتیں کہی ہیں۔ اوّل یہ کہ افغان جہاد درست نہ تھا۔ دوم یہ کہ اسّی کی دہائی میں نصاب کو مسخ کیا گیا کیونکہ ہم نے افغان جہاد کی تیاری کرنا تھی۔ اقتدار کو طول دینے کے لیے نصاب میں وہ پڑھایا گیا جس کا حقیقت سے تعلق نہیں۔ ہمارا جغرافیہ 71ء میں بدلا گیا اور نصاب اسّی کی دہائی میں تبدیل کیا گیا۔ سوم یہ کہ جنگ ختم ہو گئی مگر افغان مہاجرین ابھی تک یہیں بیٹھے ہیں۔
خواجہ آصف مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما ہیں۔ ان کے والد مرحوم جنرل ضیا کے رفقا میں سے تھے اور جنرل صاحب کی اُس مجلسِ شوریٰ کے چیئرمین تھے جو مرغانِ دست آموز 
(Hand picked persons) 
پر مشتمل تھی۔ خواجہ آصف نے یہ اخلاقی جرأت دکھائی کہ ایک ڈکٹیٹر کا ساتھ دینے پر اپنے والد کی طرف سے قوم سے معافی مانگی۔ مسلم لیگ (ن)‘ خواجہ آصف جس کے دیرینہ رکن ہیں‘ آغاز میں جنرل ضیا الحق ہی کی پروڈکٹ تھی۔ جنرل صاحب نے یہاں تک کہا تھا کہ ان کی عمر میاں نواز شریف کو لگ جائے۔ جنرل ضیاالحق کی وفات کے بعد میاں صاحب ان کی برسی بھی اٹینڈ کرتے رہے۔ جب میاں صاحب وزیراعظم بنے تو جنرل ضیا الحق کی بیوہ نے کہا تھا کہ یوں لگتا ہے ان کا بیٹا وزیراعظم بنا ہے۔ غرض افغان جہاد جنرل ضیا کا بے بی تھا اور مسلم لیگ (ن) کی جنرل ضیا سے وابستگی تاریخ کا غیر متنازع حصہ ہے۔ اس پس منظر میں خواجہ آصف کا یہ بیان نہ صرف سچ پر مبنی‘ دلیرانہ اور خوش آئند ہے بلکہ حیران کن بھی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے کسی دوسرے رہنما نے (ہمارے علم کی رُو سے) ابھی تک اس سچائی کا اعتراف نہیں کیا۔ جنرل ضیا الحق نے جن طبقات اور جن افراد کو نوازا تھا ان کی رائے ہمیشہ یہی رہی ہے کہ اس لڑائی میں حصہ نہ لیا جاتا تو سوویت یونین پاکستان کو بھی تر نوالہ بنا دیتا۔ ایک دلیل یہ بھی دی جاتی تھی کہ روس کو گرم پانیوں کی تلاش ہے اس لیے وہ بحیرۂ عرب تک آنا چاہتا ہے۔ آرا اِن خیالات کے خلاف بھی بہت سی ہیں۔ بحر اسود کی بندرگاہ 
Sevastopol 
سارا سال روس کو بحیرۂ روم سے منسلک رکھتی ہے۔ لیکن اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ افغانستان اور روس کی لڑائی میں افغانوں کا ساتھ دینا ملکی بقا کے لیے ضروری تھا‘ تب بھی جنرل ضیا کے چند دوسرے اقدامات کی حمایت کوئی کور چشم ہی کر سکتا ہے۔ ان اقدامات کو ملکی جرائم کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اول: جنرل ضیا الحق نے افغان پناہ گزینوں کو عملاً پورے پاکستان کا مالک بنا دیا۔ انہیں کیمپوں تک محصور اور محدود نہ کیا گیا۔ یہ مہاجرین کراچی سے لے کر گلگت تک پھیل گئے۔ انہوں نے کاروبار شروع کر دیے۔ جائدادیں خرید لیں۔ کہاں افغانستان کی تباہ و برباد زمین‘ جس کا تھوڑا بہت انفراسٹرکچر جو تھا وہ بھی تاراج ہو گیا اور کہاں پاکستان‘ جہاں ان نام نہاد مہاجرین کو بے پناہ سہولیات میسر آئیں! یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ‘ جو تیس لاکھ کے لگ بھگ ہیں‘ واپس جانے کا نام نہیں لیتے۔ اگر انہیں کیمپوں میں رکھا جاتا تو یہ کب کے واپس جا چکے ہوتے۔ آج بھی پاکستانی بازاروں اور منڈیوں پر یہ غیر ملکی چھائے ہوئے ہیں۔ جنرل ضیا الحق نے طولِ اقتدار کی دہلیز پر ملکی مفاد کو ذبح کر دیا اور ان مہاجرین کی بدولت تیزی سے پھیلتی منشیات اور اسلحہ سے آنکھیں بند رکھیں۔ کیا یہ ملک کے خلاف بہت بڑا جرم نہیں؟ آج پاکستان منشیات اور اسلحہ کی لعنت میں گلے تک دھنسا ہوا ہے۔ یہ ''صدقۂ جاریہ‘‘ ہے جو آمرِ مطلق اس بدقسمت ملک کیلئے چھوڑ گیا۔
افغانوں کی مدد کرنا بھی تھی تو اس کیلئے اپنے ملک کی سرحدوں کو کالعدم کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ سیاہ و سفید کے مالک اس طالع آزما نے ہزاروں غیرملکی جنگجوؤں کو کسی پاسپورٹ‘ کسی ویزے کے بغیر ملک کے اندر لا بسایا۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے ملکوں میں ناپسندیدہ عناصر سمجھے جاتے تھے۔ اس پر مزید ظلم یہ کیا گیا کہ یہ سب لوگ مسلح تھے۔ آج تک ان کے اثرات ملک پر باقی ہیں۔ یہ یہاں آباد ہوئے۔ شادیاں کیں۔کیا یہ ملک کی سلامتی کے خلاف جرم نہیں تھا۔ ان جرائم میں ایک مذہبی سیاسی جماعت اور کچھ طالع آزما جرنیل بھی بڑھ چڑھ کر شامل تھے۔ اس مذہبی جماعت کے مرحوم سربراہ نے بعد میں اخبارات میں مضامین لکھے جن میں اعتراف کیا کہ اس دور میں کس طرح غیرملکیوں کو پاکستان میں لاکر خفیہ ٹھکانوں میں رکھا جاتا تھا۔ ان لوگوں نے دوسروں کے بچوں کو آگ اور خون میں نہلایا مگر ان کے اپنے بچے ''جہاد‘‘ اور شہادت سے کوسوں دور رہے۔ امریکہ میں پڑھتے رہے۔ آج بھی بزنس کر رہے ہیں اور پھل پھول رہے ہیں۔ دوسرے طالع آزماؤں کی اولاد بھی کروڑوں اربوں میں کھیل رہی ہے۔ اوجڑی کیمپ سے جڑی داستانیں سب کو معلوم ہیں!
خواجہ آصف نے یہ کہہ کر کہ افغان جہاد درست نہ تھا‘ بہت بڑا سچ بولا ہے۔ اس جہاد کا سب سے بڑا فائدہ آمرِ مطلق کو ملا جس کا اقتدار اس جنگ کی بدولت طویل ہوتا گیا۔ اُن طبقات اور افراد کو بھی فائدہ ہوا جن پر ڈالر ہُن کی طرح برستے رہے۔ اس جہاد نے پاکستان کی سیاست‘ معیشت‘ معاشرت‘ اخلاق‘ تعلیم‘ سلامتی‘ سکیورٹی سب پر منفی اثرات ڈالے جو پاکستانی عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔ خواجہ آصف کا تیسرا الزام کہ اسّی کی دہائی میں نصاب کو مسخ کیا گیا‘ انتہائی سنجیدہ الزام ہے۔ اسّی کی دہائی میں 1988 ء تک جنرل ضیا ہی کی حکومت تھی۔ سوال یہاں یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا نصاب صرف مدارس کا بدلا گیا یا صرف سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کا؟ یا سب کا؟ اس کام میں کون کون سے افراد اور ادارے اُس وقت کی حکومت کے معاونین تھے؟ اس حوالے سے امریکی حکومت کی طرف سے فوکل پرسن کون تھا؟ اس کارِ قبیح کے لیے کتنے فنڈز آئے؟ کیا ان کا آڈٹ کیا گیا؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری تفتیش کر کے مکمل سچ سامنے لایا جائے۔ یہ بھی لازم ہے کہ اُس وقت امریکہ کی خوشنودی کے لیے نصاب پر جو تبدیلیاں مسلط کی گئیں‘ انہیں ہٹایا جائے۔
خواجہ آصف نے سچ بولا ہے اور بہادری سے بولا ہے‘ مگر وہ سچ بولنے والے آخری فرد نہیں ہیں۔ ابھی اور لوگوں کے ضمیر بھی جاگیں گے۔
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں
ابھی جنرل ضیا الحق کے کیمپ سے اور آوازیں بھی اٹھیں گی۔ سچ کو روکا جا سکتا ہے مگر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ نام نہاد افغان جہاد کو آج بھی یہ ملک بھگت رہا ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی اسی عہدِ تاریک کا شاخسانہ ہے۔ خواجہ آصف بارش کا پہلا قطرہ ہیں۔ ابھی بارش ہونی ہے اور موسلا دھار ہونی ہے۔ (معترضین کی اطلاع کیلئے یہاں یہ وضاحت لازم ہے کہ اِس لکھنے والے کی خواجہ آصف سے ملاقات ہے نہ تعارف! نہ ہی ان سے کوئی کام یا غرض ہے۔ ہم جیسے لوگوں کا وزیروں اور امیروں سے بھلا کیا کام پڑ سکتا ہے! ہم تو اقبال کے مرید ہیں جن کے مزار پر‘ چھت کے قریب‘ یہ ہدایت لکھی ہے:
در آ بسجدہ و یاری ز خسروان مطلب
کہ روزِ فقر نیاگانِ ما چنین کردند 
اہلِ اقتدار سے مدد مت مانگ! سجدہ کر کیونکہ ضرورت کے وقت ہمارے اجداد نے سجدہ ہی کیا تھا!)

Tuesday, February 25, 2025

ہمارے چوہدری صاحب


چوہدری صاحب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ منطق اور عقل ان کے رہنما ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے سارے فیصلے سو فیصد عقل کی بنیاد پر کیے ہیں اور اللہ کے فضل وکرم سے سب ٹھیک ثابت ہوئے۔ سوچ سمجھ کر بچوں کے رشتے طے کیے۔ عقل کو بروئے کار لا کر بزنس کیا‘ مکان تعمیر کیا۔ انگریزی میں کوئی تبصرہ کرے تو چوہدری صاحب کو ضرور 

Rational

 کہے گا۔ ان کی زندگی میں توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی کی کوئی گنجائش نہیں۔ مذہب کے حوالے سے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ فرائض سرانجام دیں اور کبائر سے اجتناب کریں۔ مگر وہ ان بکھیڑوں میں نہیں پڑتے کہ کسی مزار کی طرف پیدل چل پڑیں۔ یہ اکبر بادشاہ کا طریقہ تو ہو سکتا ہے مگر اہلِ بیتؓ اور صحابہ کرامؓ کے ہاں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ کسی کے بارے میں رائے دینی ہو تو چوہدری صاحب اس کا پورا پروفائل دیکھ کر رائے دیتے ہیں۔ غلطی ان کا قریبی عزیز بھی کرے تو اسے غلطی ہی کہتے ہیں۔
یہ سب کچھ تو ہے‘ مگر ان کی شخصیت میں ایک عجیب وغریب تضاد ہے جو حیران کن ہے۔ جب ان کے پسندیدہ لیڈر کی بات ہو تو ان کی ساری عقلیت‘ منطق پرستی‘ 

rationalty

 غائب ہو جاتی ہے۔ اس معاملے میں وہ شخصیت پرستی کی تمام حدود پار کر جاتے ہیں اور ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ میرے لیڈر میں کسی غلطی یا خامی ہونے کا امکان ہی نہیں! لیڈر کے فیصلے ہوں یا اقدامات‘ چوہدری صاحب ایسی توجیہات پیش کرتے ہیں کہ انسان حیرت سے گنگ ہو جاتا ہے اور اپنے آپ سے سوال کرتا ہے کہ کیا یہ وہی چوہدری صاحب ہیں جو عقل اور دلیل کے علمبردار ہیں! یوں لگتا ہے کہ لیڈر کے معاملے میں وہ آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے ہیں۔ ان سے پوچھا جائے کہ بزدار صاحب کو سب سے بڑے صوبے کا حکمران بنانے کی آخر کیا ضرورت تھی۔ ان کا جواب ہوتا ہے کہ وہ جینئس تھا۔ راجہ ٹوڈرمل اور اکبر کے نورتن تو خیر بزدار کے سامنے صفر تھے ہی‘ کوئی انگریز گورنر بھی اس کا ہم پلہ نہیں ہو سکتا۔ پھر وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بزدار صاحب کے دور میں پنجاب سوئٹزر لینڈ اور سنگاپور جیسے ملکوں کا مقابلہ کرتا تھا۔ جب انہیں بتایا جائے کہ خان صاحب تو بزدار صاحب کو جانتے ہی نہیں تھے۔ یہ تو گجر صاحب تھے جو بزدار کو لے کر آئے تھے تو چوہدری صاحب پورے صدقِ دل کے ساتھ جواب دیتے ہیں کہ گجر صاحب جیسا مردم شناس شخص گزشتہ کئی صدیوں میں نہیں پیدا ہوا۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ان دنوں جب گجر صاحب پوشیدگی اور روپوشی کے عالم میں ہیں‘ تو اصل میں وہ ایک یورپی حکمران کے چیف ایڈوائزر ہیں! جب انہیں بتایا گیا کہ پارٹی کے کئی ثقہ ارکان نے وٹس ایپ پر شکایت کی تھی کہ سول سروس کی تعیناتیاں فروختنی ہیں اور فلاں خاتون کا نام اس ضمن میں اوپن سیکرٹ ہے مگر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا تو چوہدری صاحب نے انتہائی سنجیدگی سے دعویٰ کیا کہ فلاں نام کی کوئی خاتون پاکستان میں گزشتہ دو سو سال سے پیدا ہی نہیں ہوئی۔ آخری خاتون اس نام کی رنجیت سنگھ کے دور کے اوائل میں پیدا ہوئی تھی۔ اس نے بھی کثرتِ اسہال کی وجہ سے جان دے دی تھی‘ چنانچہ یہ الزام ہی بے سروپا ہے۔ جب چوہدری صاحب کو بتایا گیا کہ ایک بڑی ایجنسی کے سربراہ نے حاضر ہو کر اہلِ خانہ کے حوالے سے کرپشن کی اطلاع دی تھی تو بجائے اس کے کہ اطلاع دینے والے کا شکریہ ادا کیا جاتا‘ الٹا اسی کو عتاب کا نشانہ بنایا گیا تو انہوں نے تاریخ فرشتہ کھولی اور کہا کہ یہ واقعہ ضرور رونما ہوا تھا مگر 1600ء سے پہلے‘ دکن کی ریاست بیجاپور میں عادل شاہی دور میں رونما ہوا تھا۔ دشمنوں نے اسے ہمارے لیڈر کے سر تھوپ دیا۔ چوہدری صاحب سے پوچھا گیا کہ تلوّن کی انتہا ہے کہ جسے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا گیا‘ اسے سینے سے لگا لیا گیا اور اس پر بزدار جیسی نابغہ روزگار شخصیت کو قربان کر دیا گیا۔ جسے چپڑاسی کے قابل بھی نہیں سمجھا گیا تھا اسے داخلہ جیسی حساس وزارت دے دی گئی۔ جسے جلسوں میں ڈیزل کہا جاتا تھا اس کی چوکھٹ پر پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں کو رکوع کی حالت میں دیکھا گیا۔ جس کی تضحیک کرنے کے لیے اس کے سٹائل میں چادر اوڑھ کر جلسوں کے شرکا کو ہنسایا جاتا تھا‘ اسے بڑی بڑی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ آخر ان ڈاکوئوں‘ چپڑاسیوں‘ ڈیزلوں کو کیوں قبول کیا گیا؟ چوہدری صاحب ہنسے۔ کہنے لگے: یہ وہ مصلحتیں ہیں جسے تم جیسے عامی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ میرے لیڈر کو پورا حق ہے کہ اپنے قول سے پھر جائے۔ اگر وہ ہزار بار بھی پھرے گا‘ تب بھی میں اسے درست ہی کہوں گا!! چوہدری صاحب سے پوچھا گیا کہ اگر سب سے بڑے ڈاکو سے بغل گیر ہوا جا سکتا ہے تو جن دو سیاستدانوں کو چور کہا جاتا ہے ان سے معانقہ کیوں حرام ہے؟ چوہدری صاحب نے جواب دیا: جس وقت میرا لیڈر چاہے گا ان چوروں کی بھی ڈرائی کلیننگ کر دی جائے گی اور انہیں بھی اپنا لیا جائے گا اس لیے کہ لیڈر کے پاس مافوق الفطرت طاقت ہے۔ وہ نیکوکاروں کو گنہگار اور گنہگاروں کو صاف ستھرا کر سکتا ہے۔ جب سب سے بڑے ڈاکو کو سب سے بڑے صوبے کا حکمرانِ اعلیٰ بنایا گیا تو اسے دودھ سے دھو کر پاک صاف کیا گیا تھا۔ جو چپڑاسی بننے کے لائق بھی نہ تھا‘ اسے وزیر داخلہ جیسی بلند ترین پوسٹ پر بٹھانے سے پہلے جنات کے پاس بھیجا گیا تھا جنہوں نے اس کے سینے کو ان تمام علوم سے بھر دیا تھا جو کیمبرج‘ آکسفرڈ‘ ہارورڈ اور جان ہاپکنز میں پڑھائے جاتے ہیں۔ جسے ڈیزل کہا جاتا تھا‘ اس کی چوکھٹ پر اپنے بندے بھیجنے سے پہلے اسے عرقِ گلاب سے دھویا گیا تھا اور ڈیزل کی بو کو ختم کر دیا گیا تھا۔ چوہدری صاحب کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ جو شخص ایک خاتون کے کہنے پر ایک چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو جائے‘ اسے پورے ملک کا انتظام وانصرام کیسے سونپا جا سکتا ہے! اس پر چوہدری صاحب نے لاحول پڑھی اور کہنے لگے تمہاری عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ارے بیوقوفو! خاتون مافوق الفطرت طاقتوں کی مالک ہے۔ اسی کے عمل سے وزارتِ عظمیٰ ملی۔ وہی تو فیصلے کرتی تھیں کہ کس بیورو کریٹ کو کہاں لگانا ہے۔ کس سے کس وقت بات کرنی ہے۔ جب وزارتِ عظمیٰ ملی اور حلف برداری کی تقریب منعقد ہونا تھی تو خاتون ہی کو تو خواب میں بتایا گیا تھا کہ پارٹی کا فلاں پرانا جان نثار تقریب میں شامل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان تو کیا‘ مؤکلین پوری دنیا کی ایڈمنسٹریشن سنبھال سکتے ہیں۔ چوہدری صاحب سے آخری سوال‘ اپنی ایجو کیشن کے لیے‘ پوچھا کہ برطانیہ سے جو بھاری رقم قومی خزانے میں جمع ہونے کے لیے آئی تھی وہ ایک پراپرٹی ٹائیکون کے جرمانے کے طور پر کہیں اور کیوں جمع کرا دی گئی اور کابینہ سے بند لفافے کی‘ مندرجات بتائے بغیر‘ منظوری کیوں لی گئی! یہ وہ ہیں جن کے خلاف کی گئی تقریریں ریکارڈ پر ہیں۔ یعنی:
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
اس آخری سوال پر چوہدری صاحب نے کمال کی بات کہی جو یقینا سارے معاملے کی کنجی ہے۔ فرمایا: بھائی! ہم نے اپنے لیڈر کے ہر اقدام کو درست قرار دینا ہے۔ سیاہ کرے یا سفید‘ قرمزی کرے یا ارغوانی‘ دن کو کہے رات ہے یا رات کو کہے دن ہے‘ ہم نے اس کی ہر بات کو درست سمجھنا ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ غلطیوں سے مبرا ہے۔ تم دلائل دیتے رہو‘ ہماری ایک ہی دلیل ہے کہ ہمارا لیڈر غلطی کر ہی نہیں سکتا!!

Monday, February 24, 2025

مہمان کرکٹ ٹیموں کا حق ہم ادا ہی نہیں کر رہے

!

نوجوان غصے میں تھا۔ نوجوان مشتعل تھا۔ نوجوان بر افروختہ تھا۔ نوجوان دُکھی تھا۔
میں وفاقی دارالحکومت کے قدیم ترین اور سب سے بڑے بازار آب پارہ‘ میں پھر رہا تھا۔ جیسا کہ میں نے اپنے پڑھنے والوں کو بتایا تھا‘ میں کبھی کبھی اس بازار کا چکر لگاتا ہوں۔ یہاں اصل پاکستان دیکھنے کو ملتا ہے۔ واکنگ سٹک پکڑے‘ سر پر ٹوپی اوڑھے‘ کئی موسموں اور کئی برسوں سے گزری ہوئی جیکٹ پہنے‘ جب اس گنجان بازار کا چکر لگاتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں اپنے ملک سے اور اپنے لوگوں سے بغل گیر ہو رہا ہوں۔ ادھیڑ عمر شخص‘ جو مشین سامنے رکھے چھریاں اور قینچیاں تیز کر رہا ہے۔ پھلوں کا رس بیچنے والا‘ جو گاہکوں کی بھیڑ سے نمٹ رہا ہے۔ ٹوکرے میں کچھ پھل رکھے بوڑھا‘ جو گزرتے گاہکوں کو دیکھے جا رہا ہے۔ قصاب جو بکرے لٹکائے‘ خریداروں سے بحث کر رہے ہیں۔ ریستوران سے باہر بیٹھا لڑکا جو آلو چھیلے جا رہا ہے۔ کباڑیا جو دکان میں پرانے لوہے کے مال واسباب میں گھرا‘ ردی تول رہا ہے۔ تنگ سی گلی کی چھوٹی چھوٹی ڈربہ نما دکانوں میں‘ قطار اندر قطار بیٹھے درزی جو سر جھکائے سلائی مشینیں چلائے جا رہے ہیں۔ فریموں کی دکان کے اندر‘ تصویروں کو شیشوں کے نیچے فِٹ کرتا نوجوان۔ اے ٹی ایم کے سامنے لائن میں لگے لوگ۔ کھولتے پانی والی کڑاہی میں دوپٹوں کو بھگوتا رنگ ساز۔ خشک میووں کی دکان میں کھڑا بَلتی۔ مخصوص قینچی نما اوزار سے گنڈیریاں کاٹتا ریڑھی بان۔ کونے میں جوتے گانٹھتا موچی‘ بوٹ پالش کرتا سرخ رخساروں والا خوبصورت پیارا سا معصوم بچہ۔ چاٹ کی دکان پر چاٹ اڑاتی لڑکیاں۔ سبزی خریدتے‘ کوٹ پتلون میں ملبوس دفتری بابو۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جن کے دم سے پاکستان آباد ہے۔ کوئلوں پر مرغیوں کے ٹکڑے رکھے ہیں۔ سڑک کنارے کرسیوں پر بیٹھے لوگ کھانا کھا رہے ہیں! سموسوں اور پکوڑوں کے سٹالوں پر خوب رش ہے۔ میں آگے بڑھا۔ گھر والوں کے لیے کچھ سموسے خریدے۔ ایک نوجوان جو سموسہ پلیٹ پکڑے کھڑا تھا‘ مجھے غور سے دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے سلام کیا اور پوچھا ''آپ ہی ہیں نا تلخ نوائی لکھنے والے؟‘‘ نوجوان غصے میں تھا۔ کہنے لگا ''کیا آپ کو معلوم ہے اس شہر کے لوگ کس عذاب سے گزر رہے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا ''کیا ہوا بیٹے؟ تم کیوں پریشان ہو؟‘‘ جواب میں اس نے اپنا کلیجہ باہر نکال کے رکھ دیا۔ کہنے لگا ''یہ جو کرکٹ ٹیمیں اس بدبخت شہر میں قیام پذیر ہیں‘ ان کی وجہ سے شہری ایک ایسا عذاب سہہ رہے ہیں جو کسی مہذب‘ ترقی یافتہ ملک میں ممکن نہیں۔ راستے بند ہیں۔ ٹریفک معطل ہے۔ عوام کے ساتھ بدترین مذاق کیا جا رہا ہے۔ کبھی ایک شاہراہ بند کی جاتی ہے‘ کبھی دوسری‘ کبھی تیسری! جنازے رک جاتے ہیں۔ دودھ پیتے بچے ہلکان ہو جاتے ہیں۔بوڑھے بے جان ہوتے ہیں۔ عورتیں گاڑیوں‘ بسوں‘ ویگنوں میں بیٹھی بیٹھی رو پڑتی ہیں۔ حاملہ عورتیں جان سے جا سکتی ہیں۔ مریض بلکتے اور سسکتے ہیں۔ جہاں جانے میں دس منٹ لگنے چاہئیں‘ وہاں ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان غیر ملکی ٹیموں کو معروف ترین ہوٹل میں ٹھہرایا جاتا ہے جو شہر کے وسط میں واقع ہے‘ اور پھر بار بار ٹریفک روک کر ساری دنیا کو اطلاع دی جاتی ہے کہ دیکھو! یہ ہے وہ جگہ جہاں ہمارے حساس مہمان قیام پذیر ہیں۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے ایک بے وقوف نے بینک کے لاکر سے زیورات نکالے۔ تھیلے میں ڈالے اور بینک سے باہر نکلا۔ بجائے اس کے کہ وہ نارمل انداز سے چلتا‘ اس نے پہلے تو تھیلے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر سینے سے لگایا‘ پھر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ اس کے پاس تھیلے میں کوئی قیمتی شے ہے‘ کرنسی یا سونا‘ جس کی وجہ سے وہ ڈر رہا ہے‘ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہے۔ خوف زدہ ہے کہ کوئی چھین نہ لے۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ سڑک کے کنارے دو اوباش قسم کے نوجوان بیٹھے تھے۔ وہ اس کے پیچھے لگ گئے۔ جیسے ہی ایک سنسان جگہ آئی‘ انہوں نے اچانک اس پر حملہ کیا اور تھیلا لے کر فرار ہو گئے۔ سکیورٹی کا تقاضا تو یہ ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو کہ غیر ملکی ٹیمیں کہاں ٹھہری ہیں۔ غضب خدا کا! شاہراہوں پر ٹریفک روک کر ساری دنیا کو خبر دی جا رہی ہے کہ دیکھ لو اور جان لو کہ ہماری غیر ملکی ٹیمیں یہاں‘ اس ہوٹل میں قیام پذیر ہیں! یعنی کچھ کر لو نوجوانو!! اٹھتی جوانیاں ہیں! ہونا یہ چاہیے کہ ان کی قیام گاہ کو ٹاپ سیکرٹ رکھا جائے۔ ایجنسیوں کے پاس سیف ہاؤسز ہیں۔ وہاں انہیں کیوں نہیں ٹھہرایا جاتا؟ عسکری میس محفوظ ترین مقامات ہیں۔ جتنا زر کثیر حکومت ہوٹلوں کو دے رہی ہے اس سے کم خرچ پر یہ کام عساکر کے میسوں سے لیا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد میں فضائیہ اور نیوی کے میس‘ فائیو سٹار ہوٹلوں سے کئی گنا بہتر اور محفوظ ہیں۔ یہاں ٹھہرانے سے پبلک پر بھی عذاب کا کوڑا نہیں برسے گا!‘‘۔
میں خاموشی اور صبر کے ساتھ نوجوان کی گفتگو سنتا رہا۔ اردگرد سے لوگ بھی اکٹھے ہو گئے تھے۔ ان میں سے اکثر اس کی تائید میں سر ہلا رہے تھے۔ میں محسوس کر رہا تھا کہ نوجوان لوگوں کے جذبات سے کھیل رہا ہے جو غلط بات ہے۔ اسے خاموش کرایا اور سمجھایا کہ دو باتیں اہم ہیں‘ جو اسے ذہن میں رکھنی چاہئیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ کرکٹ ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ خاص طور پر بھارت کے مقابلے میں! بھارت ہم سے ہر شعبے میں آگے نکل گیا ہے۔ معیشت‘ زراعت‘ صنعت‘ سیاحت‘ آئی ٹی‘ خلا بازی‘ فارن ریزرو‘ ریلوے‘ زیر زمین ریلوے‘ ایئر لائنز‘ برآمدات‘ حتیٰ کہ جمہوریت میں بھی مگر پاکستان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے لیے یہ سب بے معنی ہے۔ ہم ان شعبوں میں ترقی کرنے کے بجائے آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک‘ ایشیائی بینک اور دیگر قرض دہندگان سے اپنی ضروریات آسانی کے ساتھ پوری کر سکتے ہیں۔ اگر مودی نے کہہ بھی دیا ہے کہ پاکستانیوں نے ہاتھ میں کٹورا ( کشکول) پکڑا ہوا ہے تو کیا ہوا! اصل مقابلہ کرکٹ میں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دوسرے ملکوں سے آئی ہوئی کرکٹ ٹیمیں ہماری مہمان ہیں۔ انہیں ایسے ہوٹل میں ٹھہرانا ضروری ہے جو شہر کے بالکل درمیان میں ہو۔ اگر ان مہمانوں کے لیے راستے بند کیے جاتے ہیں اور مریض مر جاتے ہیں یا حاملہ عورتیں اذیت میں ہوتی ہیں یا بچے سسکتے‘ بلکتے اور روتے ہیں یا بوڑھے نیم جان ہو جاتے ہیں تو یہ کوئی ایسی بڑی قربانی نہیں! یہ سب مہمان نوازی کا تقاضا ہے۔ ان کرکٹ ٹیموں کے مقابلے میں ہمارے عوام کی حیثیت ہی کیا ہے! یہ تو کیڑے مکوڑے ہیں! سچی بات یہ ہے کہ ہم ان مہمانوں کا حق ادا ہی نہیں کر رہے۔ راستے بند کر دینا کوئی مہمان نوازی نہیں! ہمیں تو چاہیے کہ جتنے دن یہ غیر ملکی کرکٹ ٹیمیں ہمارے ہاں قیام فرما ہیں‘ پورے ملک کی ٹریفک‘ بازار‘ سکول کالج‘ یونیورسٹیاں‘ ہوائی اڈے‘ ریستوران‘ ریل‘ بسیں سب کچھ بند کر دینا چاہیے۔ دہشت گرد کسی بھی بس‘ کسی بھی ٹرین اور کسی بھی ہوائی جہاز میں سوار ہو کر آ سکتا ہے! اگر ریستوران کھلے ہوئے تو دہشت گرد کسی بھی ریستوران سے کھانا کھا سکتا ہے! خاص طور پر جس شہر میں یہ ٹیمیں مقیم ہوں‘ اس میں تو کرفیو نافذ کر دینا چاہیے! بجائے اس کے کہ ہم راستے بند کر کے عوام کو اذیت دے دے کر ماریں‘ گولی سے مارنا بہتر ہوگا کیونکہ اس میں تکلیف کم ہوتی ہے۔ جس ہوٹل میں یہ ٹیمیں قیام کر رہی ہوں‘ اس ہوٹل کے گرد توپیں نصب کرنی چاہئیں‘ چاروں طرف اسلحہ بردار گوریلے کھڑے ہوں جن کے ہاتھوں میں‘ دیگر اسلحہ کے علاوہ‘ ننگی تلواریں بھی ہوں! صرف راستہ بند کر دینے سے مہمان کرکٹ ٹیموں کا حق نہیں ادا کیا جا سکتا!

Thursday, February 20, 2025

پنجاب کے سرکاری کالج اور دیگر مسئلے



ایک معاصر نے گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی کے بارے میں ایک نوٹ شائع کیا ہے۔ یہ کالج پوٹھوہار میں سرکاری سیکٹر کا قدیم ترین تعلیمی ادارہ ہے۔ پروفیسر اشفاق علی خان اور ڈاکٹر سید صفدر حسین جیسے مشاہیر یہاں پرنسپل رہے ہیں۔ ہم جیسے طالب علموں نے بھی یہیں سے گریجوایشن کی۔ امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ کالج میگزین کی ایڈیٹری کی۔ کتابیں بھی لکھیں۔ ماڑے موٹے انعامات اور اعزازات بھی حاصل کیے‘ مگر کالج کے سابق طلبہ کا ذکر ہو تو نام کھلاڑیوں اور اداکاروں کے لیے جاتے ہیں! بقول مجید امجد: دنیا تیرا حُسن یہی بد صورتی ہے!

چند ماہ پہلے کالج کے پرنسپل‘ معروف عربی دان‘ پروفیسر ڈاکٹر محسن کبیر نے کالج میں مدعو کیا اور طلبہ اور طالبات سے گفتگو کرنے کا موقع دیا۔ کالج کی مجموعی حالت دیکھ کر شدید رنج پہنچا۔ اس کالج کی اصل شناخت اُس قدیم عمارت سے ہے جو 1903ء میں تعمیر ہوئی تھی۔ تب یہ سناتن دھرم ہائی سکول تھا۔ پاکستان بنا تو اسے کالج کا درجہ دیا گیا۔ المیہ یہ ہے کہ یہ اصل عمارت کھنڈر بن چکی ہے۔ پُرشکوہ مینار زبانِ حال سے اپنی ویرانی کا ماتم کر رہے ہیں! برآمدے گریہ کر رہے ہیں۔ فرش اُکھڑے ہوئے ہیں۔ عمارت کا بیشتر حصہ ناقابلِ استعمال ہے۔ چند ہی کمرے ہیں جو آباد ہیں! کالج عملاً نئی عمارات میں منتقل ہو چکا ہے۔ یہی اصول رہا تو نئی بلڈنگز جب بوسیدہ ہو جائیں گی تو کیا انہیں متروک قرار دے کر مزید عمارتیں تعمیر کی جائیں گی؟ اسے کہتے ہیں ''اَگوں دوڑ تے پچھوں چَوڑ‘‘۔ دیکھ بھال‘ مرمت ساتھ ساتھ ہوتی رہتی تو یہ عمارت تندرست رہتی! اس سے زیادہ پرانی عمارتیں پاکستان اور بھارت میں موجود ہیں اور اچھی حالت میں ہیں! سوال یہ ہے کہ اس افسوسناک صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ پنجاب میں تعلیم کے کئی سیکرٹری ہیں۔ سکول ایجوکیشن کے سیکرٹری صاحب الگ ہیں۔ ہائر ایجو کیشن کے الگ ہیں۔ لٹریسی اور نان فارمل بیسک ایجوکیشن کے الگ ہیں اور سپیشل سکولز کے الگ ہیں۔ ان حضرات کی ماتحتی میں ایڈیشنل سیکرٹریوں اور ڈپٹی سیکرٹریوں کے ڈھیر لگے ہیں! ایک شہری کی حیثیت سے اور اصغر مال کالج کے سابق طالب علم کے طور پر میرا سوال ہے کہ کیا پنجاب ایجوکیشن کے کسی سینئر یا جونیئر افسر نے اس بدقسمت کالج کا کبھی معائنہ کیا؟ بلڈنگ کی مرمت بر وقت کیوں نہیں کرائی گئی؟ فنڈز کیوں نہیں دیے گئے؟ جتنے فنڈز ان با رعب اور عالی قدر افسران کی فوج ظفر موج کی پرورش اور کفالت پر لگتے ہیں‘ ان سے کہیں کم فنڈز میں اس یادگار‘ شاندار عمارت کو سنبھالا جا سکتا تھا! ممکن ہوتا تو عمارت کی خستگی اور بدحالی کی وڈیو اس کالم کے ساتھ اٹیچ کی جاتی مگر اخبار میں ایسا ہو نہیں سکتا! کیا پنجاب کے وزیر تعلیم اس بدقسمتی کا نوٹس لیں گے؟ یا ایک ایک کالج‘ ایک ایک عمارت کے لیے چیف منسٹر صاحبہ کو پکارنا پڑے گا؟ یا سناتن دھرم والوں کو سرحد پار سے بلانا پڑے گا کہ بلڈنگ بنائی تھی تو اب آکر اس کی مرمت اور تزئینِ نو بھی کریں ؟
پس نوشت1: حمیت نام تھا جس کا‘ تیمور کے گھر سے تو گئی ہی تھی ہمارے گھر سے بھی جا چکی ہے۔ پہلے ہمارے ایک سابق وزیراعظم مشرقِ وسطیٰ کے ایک بادشاہ کے سالہا سال ''مہمان‘‘ رہے۔ ایک سابق صدر نے‘ جو جنرل بھی تھے‘ ایک بادشاہ کی عطا کردہ رقم سے جائداد خریدی۔ معروف انگریزی معاصر نے 15 فروری 2017ء کی اشاعت میں ان سابق صدر اور جنرل صاحب کا بیان شائع کیا تھا کہ موصوف نے 2009ء میں شاہ عبد اللہ بن عبدالعزیز السعود سے لاکھوں ڈالر کا عطیہ لیا اور اس رقم سے دبئی اور لندن میں اپارٹمنٹ خریدے! فرمایا کہ ''شاہ عبد اللہ میرے بھائی کی طرح تھے ‘‘۔ ان مرحوم جنرل صاحب‘ سابق صدر سے کوئی پوچھتا کہ بھائی تھے تو آپ نے بھی کبھی ان کو کچھ دیا یا آپ صرف لینے والے ''بھائی‘‘ تھے؟ اندازہ لگائیے مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت کے سابق صدر اور دنیا کی چھٹی طاقتور ترین فوج کے کمانڈر انچیف ایک اور ملک کے بادشاہ سے خیرات لے رہے ہیں۔ خیرات نہیں تھی تو یہ کیا تھا؟ پھر ایک سابق وزیراعظم ایک شہزادے کے جہاز پر امریکہ گئے۔ خدا کے بندے! دستِ سوال دراز کرنے کے بجائے کمرشیل فلائٹ پر چلے جاتے۔ ملک کی بے عزتی تو نہ ہوتی! پَھٹ پڑے وہ سونا جس سے ٹوٹیں کان! اور پھر واپسی پر شہزادے نے راستے ہی میں اُتار دیا! شاید تاریخ میں اس کی مثال کوئی نہ ہو گی! سینے کے یہ سب داغ اس لیے تازہ کرنا پڑے ہیں کہ اب خواری اور رسوائی کا ایک اور کام کیا جا رہا ہے۔ وہ امریکی عورت جو پاکستانی لڑکے کے چکر میں پاکستان آئی تھی‘ اس کی نگہداشت اور خوش سلوکی پر ہماری ایف آئی اے‘ پولیس اور ایئر پورٹ میڈیکل سٹاف کے سولہ افسروں اور اہلکاروں کو تعریفی اسناد دی جائیں گی! یہ تعریفی اسناد کون دے گا؟ حکومت پاکستان ؟ نہیں! یہ تعریفی سرٹیفکیٹ امریکی قونصل جنرل دے گا!! انا للہ و انا الیہ راجعون!! افسروں اور اہلکاروں کے نام بھی بتائے گئے ہیں۔ جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں یہ بخشش کی جارہی ہو گی!! حمیت اور غیرت کا‘ اور عزتِ نفس کا تقاضا یہ تھا کہ امریکی قونصل جنرل کو کہا جاتا کہ حضور! ٹھیک ہے‘ دنیا آپ کی مٹھی میں ہے مگر ہماری بھی کوئی عزت ہے! ہمیں آپ کی تعریفی اسناد کی کوئی ضرورت نہیں! ہم نے جو کچھ کیا وہ ہمارا فرض تھا۔ ہماری ڈیوٹی تھی۔ ہمیں ہمارا ملک اس کام کیلئے تنخواہ دیتا ہے!! میرا دعویٰ ہے کہ جس وقت یہ تقریب ہو رہی ہو گی اور جس وقت امریکی قونصل جنرل یہ اسناد دے رہا ہو گا تو وہ اپنے آپ کو آقا سمجھ رہا ہو گا اور ہمارے افسروں اور اہلکاروں کو اپنی کالونی کا حصہ!! مجھے یقین ہے بھارت‘ ترکیہ‘ ایران یا کوئی اور ملک ایسی ''مشفقانہ‘‘ اور ''پدرانہ‘‘ تعریفی اسناد قبول کرنے سے صاف انکار کر دیتا۔ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ ایمل کانسی کو جب پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا گیا تھا تو امریکیوں نے کیا کہا تھا؟ انہوں نے کہا تھا کہ پاکستانی ڈالروں کے لیے اپنی ماں کو بھی بیچ سکتے ہیں۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں‘ چار دانگِ عالم میں پھیل گئی تھی!!
پس نوشت2: پنجاب کی وزیر اطلاعات نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ڈمپر روزانہ کی بنیاد پر کراچی کے شہریوں کو مار رہے ہیں!! ہم وزیر اطلاعات کے اس افسوس میں برابر کے شریک ہیں! سندھ حکومت کو اس قتل عام کا سدِ باب کرنا چاہیے۔تاہم ہم پنجاب کی وزیر سے یہ پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں کہ اس ضمن میں پنجاب میں کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟ ان صفحات پر کئی بار حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کرائی گئی ہے۔ پنجاب میں ٹریکٹر ٹرالیاں اور ڈمپر‘ شاہراہوں پر موت کا رقص کر رہے ہیں‘ دیوانہ وار کر رہے ہیں اور رات دن کر رہے ہیں! ماضی میں راولپنڈی کے ہر دلعزیز پروفیسر ڈاکٹر طیب منیر ایک ڈمپر کی بھینٹ چڑھ گئے۔ حال ہی میں ملتان میں ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ کو ٹریکٹر ٹرالی قسم کی شے نے کچل دیا۔ ہر ماہ کئی شہری ان جناتی گاڑیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ اصل میں یہ صرف سندھ یا صرف پنجاب کا مسئلہ نہیں‘ یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ پورے ملک میں ڈمپروں اور ٹریکٹر ٹرالیوں کے انسان نما اَن پڑھ ڈرائیور انسانوں کو کچل رہے ہیں۔ سارے صوبوں کو مل بیٹھ کر اس ایشو کا حل ڈھونڈنا ہو گا۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ''آہستہ چلنے والی زرعی گاڑیوں‘‘ کے مسئلے پر توجہ دی جا رہی ہے۔ ان سے بچنے کے لیے عام ڈرائیوروں کو بھی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ اس مسئلے پر صوبے آپس میں لفظی لڑائی لڑیں گے تو فائدہ کسی کو بھی نہیں ہو گا!!
 

powered by worldwanders.com