)
(State of Denial)
Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact |
(State of Denial)
ء کے اوائل میں میری تعیناتی بطور کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس ڈیفنس پرچیز
(Defence Purchase)
ہو گئی۔ یہ تعیناتی بہت بڑا چیلنج تھا۔ تینوں مسلح افواج کی تمام ضروریات کے لیے جو کچھ بھی خریدا جاتا تھا اس کا پے ماسٹر کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس ڈیفنس پرچیز تھا۔ پاکستان میں اس جتنی یا اس سے زیادہ ادائیگیاں کسی اور ادارے یا محکمے میں نہیں ہوتیں۔ پٹرول‘ آئل‘
Lubricants‘
اسلحہ‘ سپیئر پارٹس‘ ادویات‘ چارپائیاں‘ یونیفارم‘ ہیلمٹ‘ جوتے‘ چینی‘ گھی‘ آٹا‘ گوشت کے لیے جانور‘ بلند پہاڑوں پر مقیم عساکر کے لیے ڈبوں میں بند خوراک اور دیگر ضروریات‘ ہر شے بھاری مقدار
(bulk)
آپ لاکھ کہیں کہ ہم عرب ہیں‘ ہم ایرانی ہیں‘ ہم ترک ہیں‘ ہم نیشن سٹیٹ ہیں۔ مغرب نے آپ کو مسلمان ہی سمجھنا ہے۔ ترکی نے کیا نہیں کیا۔ لباس چھوڑا‘ رسم الخط کی قربانی دی‘ اسرائیل سے اس کے آج بھی سفارتی تعلقات ہیں‘ مگر اسے یورپی یونین کی رکنیت ہزار کوششوں کے باوجود نہیں ملی! اس لیے کہ مغرب کے نزدیک وہ یورپی ہے نہ ترک! وہ صرف اور صرف مسلمان ہے۔ آج اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ حملہ ایران پر ہوا ہے مجھے کیا‘ میں تو عرب ہوں! تو یہ سیاسی کم نظری
(Myopia)
(David Blow)
کی تصنیف ''شاہ عباس‘‘ سے استفادہ کیا گیا ہے)
سری لنکا ایئر لائن کا یہ پہلا تجربہ تھا اور بے حد خوش گوار!! ہماری قومی ایئر لائن کی روایت کے بالکل بر عکس جہاز وقت پر روانہ ہوا! ساڑھی پوش میزبان خواتین نے بے حد خیال رکھا۔ اس سے بھی زیادہ تعجب کولمبو ایئر پورٹ پر ہوا۔ یہ ایئر پورٹ ہمارے اسلام آباد ایئر پورٹ سے کہیں زیادہ بڑا‘ زیادہ منظم اور زیادہ خوبصورت ہے۔ بڑے بڑے بازار ہیں جبکہ اسلام آباد ایئر پورٹ پر‘ جس کی تعمیر میں گیارہ سال صرف ہوئے‘ صرف ایک کیفے ٹائپ دکان ہے۔ سراندیپ‘ سری لنکا کا پرانا نام ہے۔ یہی نام ایئر پورٹ پر واقع لاؤنج کا تھا جس میں تمام سہولتیں وافر مقدار میں موجود تھیں‘ یہاں تک کہ وہ عظیم الجثہ صوفے بھی جن پر نیم دراز ہوا جا سکتا تھا۔ کولمبو سے میلبورن کا نو گھنٹوں کا سفر خاصا آرام دہ تھا مگر ذہنی اذیت ساتھ رہی اور ذہنی اذیت یہ تھی کہ کیا ہم سری لنکا سے بھی پیچھے ہیں؟ گویا:
انجم غریبِ شہر تھے‘ اب تک اسیر ہیں
سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے
نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں لاکھوں پاکستانی رہتے ہیں۔ ان سب نے پاکستان آنا ہوتا ہے اور کچھ دن رہ کر واپس بھی جانا ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ لاکھوں وہ ہیں جو ان پاکستانیوں کو ملنے کے لیے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جاتے ہیں اور پھر واپس آتے ہیں! ان تمام پاکستانیوں کی سہولت کے لیے پاکستان کی قومی ایئر لائن نے ایک کام کمال کا کیا ہے۔ قومی ایئر لائن کا کوئی جہاز آسٹریلیا جاتا ہے نہ آسٹریلیا سے پاکستان آتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ لاکھوں پاکستانی دھکے کھا رہے ہیں۔ وہ بھی جو آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ میں آباد ہیں اور وہ بھی جو پاکستان سے انہیں ملنے جاتے ہیں۔ کبھی وہ تھائی ایئر لائن پر سوار ہوتے ہیں جو بنکاک میں انہیں بارہ گھنٹے بے یار و مددگار چھوڑ دیتی ہے اور اگلی فلائٹ بارہ گھنٹوں بعد ملتی ہے۔ کبھی وہ پندرہ گھنٹے کی اذیتناک پرواز گزار کر دبئی‘ ابو ظہبی یا قطر پہنچتے ہیں۔ وہاں ان سے و ہی سلوک ہوتا ہے جو مشر قِ وسطیٰ والے ہم پاکستانیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ بہت سے دوسرے ملکوں کے شہریوں کو یو اے ای یا قطر کے اندر جانے کا ویزا ایئر پورٹ پر مل جاتا ہے‘ پاکستانیوں کو دس دس پندرہ پندرہ گھنٹے ایئر پورٹ کے اندر ہی رہنا پڑتا ہے۔ بھارت کی آسٹریلیا کے لیے ہفتے میں چودہ پروازیں جانے کی ہیں اور چودہ ہی آنے کی۔ میلبورن سے ہر روز ایک پرواز دہلی جاتی ہے اور ہر روز ایک پرواز سڈ نی سے دہلی! چلئے بھارتیوں کی تعداد آسٹریلیا میں بہت زیادہ ہے۔ 2023ء کے اعداد و شمار کی رُو سے بھارتی نژاد آبادی آسٹریلیا میں ساڑھے آٹھ لاکھ ہے۔ مگر سری لنکا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی آبادی تو پاکستانی تارکین وطن کی نسبت بہت زیادہ نہیں۔ 2023ء ہی کے اعداد و شمار کے مطابق سری لنکا سے آئے ہوئے افراد کی تعداد آسٹریلیا میں ایک لاکھ اٹھاون ہزار ہے۔ پاکستانیوں کی تعداد ایک لاکھ اکیس ہزار ہے۔ دوسری طرف حالت یہ ہے کہ سری لنکا سے ہر روز ایک ہوائی جہاز میلبورن آتا ہے۔ اس حساب سے پاکستان سے ہفتے میں کم از کم چار پروازیں تو آنی چاہئیں! تو گویا اس لحاظ سے ہم سری لنکا سے بھی پیچھے ہیں۔ کیا عجب کل کلاں افغانستان‘ نیپال اور بھوٹان بھی اس میدان میں ہم سے آگے نکل جائیں!
یہاں ایک سوال ذہن میں یہ اُبھرتا ہے کہ آسٹریلیا میں پاکستانی سفارت خانے کا اس معاملے میں کیا کردار ہے؟ اوپر جو اعداد و شمار دیے گئے ہیں‘ خوش گمانی یہی ہے کہ سفیر حضرات کے علم میں بھی آئے ہوں گے! کیا سفارت خانے نے اس حوالے سے پاکستانیوں کے لیے زور لگایا ہے؟ نہیں معلوم آج کل کون صاحب سفیر ہیں۔ تاہم چند برس پہلے کا تجربہ اتنا برا تھا کہ آج تک یاد ہے۔ اُن دنوں ایک خاتون پاکستان کی ہائی کمشنر تھیں۔ اُن آسٹریلوی مردوں اور خواتین کی پاکستانی شہریت کا مسئلہ تھا جنہوں نے پاکستانیوں سے شادیاں کر رکھی تھیں۔ خاتون ہائی کمشنر بات تک کرنے کی روادار نہ تھیں۔ تب نفیس زکریا صاحب وزارتِ خارجہ کے ترجمان تھے۔ انہوں نے بات سنی اور پوری کوشش بھی کی۔ سیکرٹری خارجہ جتنے گزرے ہیں ان میں اس کالم نگار کے تجربے کی رُو سے صرف جلیل عباس جیلانی ای میل کا جواب دیتے تھے یا واپس ٹیلی فون کرتے تھے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر آسٹریلیا میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر وضاحت کر دیں کہ اس ضمن میں سفارت خانے نے اب تک کیا کوششیں کی ہیں اور آئندہ کا پلان کیا ہے؟ آخر پاکستان کی قومی ایئر لائن آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے پاکستانیوں سے کیوں ناراض ہے؟
ناراض کیا ہو گی! ناراض ہونے کی سکت ہی کہاں ہے! ہماری قومی ایئر لائن تو سانس لینے کے لیے خود آکسیجن سلنڈر کی محتاج ہے۔ یہ آکسیجن ہم پاکستانیوں کے خون پسینے کی کمائی سے ہر سال حکومت مہیا کر رہی ہے۔ جہاز چلیں یا نہ چلیں‘ قومی ایئر لائن میں کام کرنے والے ملازمین خوب عیش کر رہے ہیں! بڑی بڑی تنخواہیں‘ الاؤنسز‘ گاڑیاں‘ مراعات کے موٹے موٹے پیکیج‘ مفت کے سفر! یہ سفید ہاتھی چلتا ہے نہ جان چھوڑتا ہے۔ آئے دن خبریں سنتے ہیں اور پڑھتے ہیں کہ قومی ایئر لائن کے ماتھے پر ''فار سیل‘‘ کا بورڈ لگا ہے مگر بِک نہیں رہی! کیوں نہیں بِک رہی؟ اس لیے کہ حکومت کی نیت درست نہیں۔ حکومت بیچنا چاہتی ہی نہیں! یہ مفادات کا معاملہ ہے۔ (نگران حکومت کے وزیر نجکاری کے بیانات اور سوالات اس ضمن میں قابلِ غور ہیں!) قومی ایئر لائن میں کام کرنے والوں کی اکثریت سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہوئی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے چہیتے اس میں ٹھنسے ہوئے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کئی دہائیوں تک اس کی ملازمتیں پچھلے دروازے پر بانٹی جاتی رہیں! ملازموں کی اکثریت کے سر پر طاقتور شخصیات کا ہاتھ ہے۔ چنانچہ ایئر لائن نے فروخت نہیں ہونا۔ یہ اسی طر ح حکومتی امداد کے سہارے بیساکھیاں گھسیٹتی رہے گی۔ عوام اور آئی ایم ایف کی آنکھوں میں دھو ل جھونکنے کے لیے فروخت کے اشتہار لگتے رہیں گے۔ اس کی یونینیں دندناتی رہیں گی۔ مراعات کے مزے لیے جاتے رہیں گے۔ قومی خزانہ اس کے بوجھ تلے سسکتا‘ دہرا ہوتا رہے گا! پاکستانی مسافر دوسری ایئر لائنوں پر دھکے کھاتے رہیں گے۔ بنکاک‘ ابو ظہبی‘ دوحہ‘ دبئی‘ کولمبو اور استنبول کے ہوائی اڈوں پر رُلتے رہیں گے۔
ایک طرف یہ حالت کہ قومی ایئر لائن‘ قومی زیادہ اور ایئر لائن کم‘ دوسری طرف قومی ایئر لائن کو بیٹھنے کی جگہ ہی نہیں مل رہی!! پہلے شہری ہوا بازی کا شعبہ وزارتِ دفاع کا حصہ تھا۔ پھر اس کا الگ ڈویژن اور الگ وزارت بن گئی۔ ہوا بازی کو اپنا الگ وزیر مل گیا۔ ایک وزیر تو ایسا ملا کہ اس نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر دنیا بھر کو بتایا کہ اتنے پاکستانی پائلٹوں کی ڈگریاں جعلی ہیں۔ گویا گھوڑے نے بم کو لات مار دی۔ دنیا بھر میں اس کا ردِ عمل ہوا اور ملک کو بے پناہ نقصان پہنچا۔ تاہم اس وقت کی حکومت نے اس بہت بڑی حماقت پر جھرجھری تک لی نہ کسی کو سزا ہی دی گئی۔ اب شہری ہوا بازی (سول ایوی ایشن) کی الگ وزارت کا ایک بار پھر خاتمہ کر دیا گیا ہے اور شعبے کو دوبارہ وزارتِ دفاع کا حصہ بنا دیا گیا ہے! آفرین ہے پالیسیوں کے تسلسل پر اور مستقل مزاجی پر!! مشرق کی طرف پڑوس کے ملک میں شہری ہوا بازی کا نہ صرف مرکزی وزیر الگ ہے بلکہ وزیر مملکت بھی ہے! دنیا ترقی کر رہی ہے اور ہم ترقیٔ معکوس! آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں آباد پاکستانیوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ افغان ایئر لائن یا سکم ایئر لائن کے جہازوں کی امید رکھیں مگر اپنی قومی ایئر لائن کے جہازوں کی نہیں!!
Senility
Sadist
سراج کَورڈ
(Covered)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved
powered by worldwanders.com