Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, March 06, 2025

یہاں اب مرے ہم نوا اور بھی ہیں


بہت ہی محترم جناب سہیل وڑائچ کے اس مؤقف سے مجھے اختلاف ہے کہ نئے صوبے نہیں بننے چاہئیں۔ مگر یہ آج کا موضوع نہیں! آج تو اس اطمینان کا اظہار کرنا ہے کہ جس ایشو کو میں ایک مدت سے اُٹھا رہا تھا‘ سہیل وڑائچ صاحب کی توانا آواز نے اس کی حمایت کی ہے۔ وہ ایشو ہے ضلعی حکومتوں کا قیام! مجھ بے بضاعت نے اس پر بارہا لکھا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا‘ دونوں پر اس ایشو کو مکمل طور پر بلیک آؤٹ کیا جا رہا ہے۔ نہیں معلوم اس بلیک آؤٹ کی پشت پر منظم منصوبہ بندی ہے یا صرف تغافل اور سرد مہری ہے۔ جو بھی ہے‘ نقصان دہ ہے!
سب سے پہلے تو دارالحکومت اسلام آباد کی بات کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ کے لیے ایک میئر آیا تھا۔ اس کے بعد پھر وہی کلائیو اور وارن ہیسٹنگز کا نظام! اندازہ لگائیے! دارالحکومت کے باشندوں کو اپنے شہر کے انتظام وانصرام میں رمق بھر دخل دینے کی اجازت نہیں۔ کبھی ہم آہنی پردے کے پیچھے کی اصطلاح استعمال کرتے تھے جس سے مراد سوویت یونین کا جابرانہ نظام تھا۔ مگر پاکستانی بیورو کریسی کا آہنی پردہ کئی گنا زیادہ دبیز اور مضبوط ہے۔ سات پردوں میں چھپی بیورو کریسی صرف ان آقاؤں کو خوش کرتی ہے جن کے ہاتھ میں ان کی تعیناتیاں اور ترقیاں ہیں۔ اسلام آباد کی اس بے بسی پر اس کالم نگار نے کئی کالم تحریر کیے مگر سب صدا بصحرا ثابت ہوئے۔ ع کس نمی پرسد کہ بھیّا کیستی!!
جنرل پرویز مشرف کے ناقابلِ رشک عہد میں ضلعی حکومتوں کا قیام ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ کچھ اچھے کام تو سامراجی دور میں بھی ہو گئے اور یہ آمر تو پھر بھی پاکستانی تھا۔ ہم جن رینگنے والے اور مکڑی نما حشرات سے ڈرتے ہیں اور ان سے نفرت کرتے ہیں‘ قدرت ان سے بھی کچھ مفید کام لیتی ہے۔ جنرل کا ضلعی حکومتوں کا نظام کئی سو برسوں کی نوکر شاہی کی گھٹن کے بعد تازہ ہوا کا ایک جھونکا تھا۔ ضلعی ناظم مقامی سیاستدان تھا۔ اس نے وہیں جینا اور وہیں مرنا تھا۔ اس نے ووٹ بھی لینے تھے اور مخالفین کی لعن طعن سے بچنے کے لیے سیدھے راستے پر بھی چلنا تھا۔ اگر میں اپنے ضلع اٹک کی بات کروں تو جو تھوڑا سا عرصہ میجر طاہر صادق ضلعی ناظم رہے‘ اُس تھوڑے سے عرصے کے دوران ضلع کے اطراف واکناف کے جتنے دورے انہوں نے کیے‘ ڈپٹی کمشنروں نے گزشتہ کئی دہائیوں میں اتنے نہیں کیے ہوں گے۔ ہاں‘ انگریز ڈپٹی کمشنروں کی بات اور تھی۔ وہ ملکہ کی سرفرازی کے لیے اور اپنے ملک کی خاطر جان مار کر کام کرتے تھے۔ ضلعی گزٹ جو وہ چھوڑ گئے ان کی محنت کا ثبوت ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آمریت کی وجہ سے ضلعی حکومتیں آئیڈیل حکومتیں نہیں تھیں۔ مگر کوئی بھی نیا سسٹم نقائص سے مبرّا نہیں ہوتا۔ پختگی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ ارتقا ایک لمبا پروسیس ہے۔ اگر جنرل مشرف کے بعد برسر قتدار آنے والے سیاستدان ضلعی حکومتوں کے نظام پر شب خون نہ مارتے تو آج پاکستان کئی لحاظ سے ایک بہتر جمہوری ملک ہوتا۔ مگر افسوس! صد افسوس! اہلِ سیاست نے اپنی آمرانہ اور غیر جمہوری سرشت سے مجبور ہو کر ضلعی حکومتوں کو قتل کر دیا اور وہی فرسودہ نظام دوبارہ لے آئے جس کا عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہاں تختِ لاہور کا رونا رویا جاتا ہے مگر تختِ پشاور‘ تختِ کراچی اور تختِ کوئٹہ بھی مرکزیت کی بدترین مثالیں ہیں! ضلعی حکومتوں کا نظام ختم کرنے کی دو وجوہ تھیں۔ ایک تو مالیاتی کنٹرول کا ایشو تھا۔ بٹوہ چیف منسٹر اپنی جیب میں رکھنا چاہتے ہیں۔ ضلعی حکومتوں کو فنڈز ٹرانسفر کیے تو مالیاتی چودھراہٹ ختم ہو جائے گی۔ پورے صوبے کا بجٹ جب تک جیب میں نہ ہو چیف منسٹری میں مزہ ہے نہ شکوہ وجلال! بعض مردوں میں بیماری ہوتی ہے کہ خاتونِ خانہ کو کچن اور گھر کے انتظام کے لیے یکمشت پیسے نہیں دیتے۔ وہ بیچاری کبھی دہی کے لیے سو روپے مانگتی ہے کبھی ڈبل روٹی کے لیے۔ یہی بیماری سیاستدانوں میں ہے۔ دوسرے محتاج رہیں‘ ہر کام کے لیے آکر عرض گزاری کریں اور سیکرٹری فنانس حکم کا منتظر ہو تو تب ہی تو حکمرانی میں لذت ہے! کیسے کیسے کمپلیکس ہیں اور احساسِ کمتری کی بھی کیا کیا شکلیں ہیں! کیسے کیسے نفسیاتی عوارض ہیں! خدا کی پناہ!! اختیارات کی 
decentralization
 بادشاہت کے لیے موت سے کم نہیں۔ کہتے ہیں کہ جاگیرداری‘ سرداری یا فیوڈلزم ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے۔ اس کیفیت کو اپنے اوپر طاری کرنے کے لیے لازم نہیں کہ ملکیت میں زمین بھی ہو۔ ہمارے اکثر اہلِ سیاست ذہنی طور پر شہری ہونے کے باوجود‘ فیوڈل ذہنیت رکھتے ہیں۔ وہ ''نہ‘‘ تو سننا ہی نہیں چاہتے! دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ نوکر شاہی جس طرح حالتِ رکوع میں ہو کر احکام کی تعمیل کرتی ہے‘ ضلعی ناظم یا ضلعی حکومتوں کے سربراہ اس طرح کبھی نہیں کریں گے! ضلعی حکومت کا سربراہ سیاستدان ہو گا۔ وہ چیف منسٹر سے براہِ راست رابطہ رکھنے کی کوشش کرے گا۔ اس سے رعب کم ہونے کا خدشہ ہے۔ اس کے مقابلے میں ڈپٹی کمشنر چیف سیکرٹری یا پرنسپل سیکرٹری سے اوپر بات کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔وہ تو ''تھرو پراپر چینل‘‘ کی زنجیروں میں جکڑا ہوا روبوٹ ہے۔ اس کی زندگی کے دو مقاصد ہیں۔ اول اگلی تعیناتی کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا اور اس مقصدِ جلیلہ کے حصول کے لیے حکامِ بالا کو خوش رکھنا۔ دوم اگلے گریڈ میں ترقی۔ ضلع کی فلاح وبہبود اگر تیسرے نمبر پر بھی اس کی ترجیح ہو تو غنیمت ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر نے دو یا تین سال ضلع میں گزارنے ہیں اس کے بعد‘ اکثر حالات میں‘ ساری زندگی اس نے ضلع کی زمین پر پاؤں نہیں دھرنے! اس کی جوتی کو بھی پروا نہیں کہ اس کے بعد کیا ہو گا؟ آپ خود سوچیے اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ اس نے عوام کی کیا خدمت کرنی ہے؟ عوام کے ساتھ تو اس کا براہِ راست رابطہ ہی نہیں۔
جمہوریت کی روح عوام کو جوابدہی ہے۔ ضلع کا ڈپٹی کمشنر ہو یا وفاقی دارالحکومت کا چیف کمشنر یا ترقیاتی ادارے کا چیئرمین‘ عوام کو جوابدہ نہیں! یہ تو عوام کو ملتے ہی نہیں۔ ان سے تو فون پر بات کرنا ناممکن ہے۔ یہ ذہنی طور پر سو سال پہلے کی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ رعونت مآب ہیں اور صاحب بہادر!
تم ہمیں کیا نئی منزل کی بشارت دو گے
تم تو رستہ نہیں دیتے ہمیں چلنے کے لیے
ڈپٹی کمشنری کا یہ فرسودہ‘ ازکار رفتہ اور مکروہ نظام دنیا کے کسی مہذب‘ جمہوری ملک میں رائج نہیں! یورپ اور امریکہ کو تو چھوڑیے‘ بھارت نے اپنے آئین کی 73ویں اور 74ویں ترامیم کے ذریعے مقامی حکومتوں کو انتظامی اختیارات بھی دیے اور فنڈز بھی! جب تک مقامی حکومتیں انتخابات کے ذریعے وجود میں نہیں آتیں اور جب تک انہیں مالیاتی خود مختاری نہیں حاصل ہوتی‘ جمہوریت ہمارے ہاں صرف نام کی ہے اور دنیا میں ہمارے لیے ہرگز قابلِ عزت نہیں۔ وہی کلائیو اور کرزن والا زمانہ بدستور چل رہا ہے۔ بس اتنا فرق پڑا ہے کہ پہلے وڈیرے اور گدی نشین‘ اچکنیں لشکاتے‘ طرے لہراتے‘ عید کے موقع پر انگریز ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی کے لان میں کھڑے رہتے تھے۔ کافی دیر کے بعد ڈپٹی کمشنر کا نوکر اندر سے آکر بتاتا کہ صاحب نے عید مبارک قبول کر لی ہے۔ اس پر یہ ٹوڈی ایک دوسرے سے معانقے کرتے اور مبارکبادیں دیتے! اب ڈپٹی کمشنر کوٹھی کے اندر بلا لیتا ہے اور چائے کی پیالی بھی پلا دیتا ہے!! اور ہاں‘ یہ وڈیرے اے سی اور ڈی سی کے گھر بھینس بھی بھجوا دیتے ہیں! وہی اڑھائی سو سال پرانا سسٹم!
انجم غریبِ شہر تھے اب تک اسیر ہیں
سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے

Tuesday, March 04, 2025

رویتِ ہلال کمیٹی کی حمایت میں


اس لحاظ سے ہم خوش بخت ہیں کہ ملک میں ایک رویتِ ہلال کمیٹی قائم ہے۔ چاند کب نظر آتا ہے‘ کب نہیں‘ یہ محکمہ موسمیات کا کام نہیں‘ نہ سائنسدانوں ہی کے بس کی بات ہے۔ یہ صرف اور صرف رویتِ ہلال کمیٹی کا کام ہے اور اسی کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے۔ حال ہی میں رویتِ ہلال کمیٹی کے معزز‘ قابلِ احترام سربراہ نے صوبوں کے گورنروں اور چند وفاقی وزرا سے ملاقاتیں کیں۔ کچھ نالائق لوگ اعتراض کریں گے کہ رویتِ ہلال کمیٹی کا گورنروں سے کیا تعلق؟ مگر انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اربابِ اقتدار سے میل ملاقاتوں کا اثر چاند دیکھنے پر بہت زیادہ پڑتا ہے۔ کچھ احمق سائنسدانوں نے اگلے ایک سو سال کا کیلنڈر بنا کر چاند نکلنے کے دن اور تاریخیں بتا دی ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم بحمدللہ مسلمان ہیں۔ ہم سائنس‘ ٹیکنالوجی اور موسمیات کے علوم پر یقین نہیں رکھتے۔ اگر سائنس پر یقین کریں گے تو رویتِ ہلال کمیٹی کا کیا ہو گا؟
تاہم رمضان میں یہ جو افطار اور سحری کے اوقات گھڑی دیکھ کر طے کیے جاتے ہیں‘ یہ ہرگز مناسب نہیں! قرنِ اول میں گھڑیاں کہاں تھیں؟ ان گھڑیوں کی حیثیت بالکل اُس کیلنڈر جیسی ہے جو کچھ برخود غلط سائنسدانوں نے تیار کیا ہے اور جو اگلے سو سال کے لیے رمضان کے آغاز اور اختتام کا تعین کرتا ہے۔ کہاں لکھا ہے کہ گھڑی دیکھ کر روزہ کھولو اور گھڑی دیکھ کر سحری کے وقت کھانا پینا بند کرو! حکم تو یہ ہے کہ اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک کہ سیاہی ٔشب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ جائے۔ اس صاف اور واضح حکم کی تعمیل کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ رویتِ ہلال کمیٹی کے معزز سربراہ‘ بنفس نفیس یا ان کا کوئی قابلِ اعتماد نمائندہ سحری کے وقت چھت پر چڑھ کر دیکھے اور جیسے ہی سیاہی ٔشب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری نمایاں نظر آ ئے‘ سحری بند ہونے کا اعلان کر ے۔
اور خدا کا خوف کیجیے۔ یہ جو ہر مسجد میں اوقاتِ نماز کے لمبے چوڑے چارٹ لگے ہیں‘ ان کا کیا جواز ہے ؟ اور یہ جو الیکٹرک (برقی) بورڈ ہر مسجد میں محراب کے ساتھ والی دیوار پر ٹنگے ہیں‘ جن پر آنے والی نماز کا وقت روشن ہوتا ہے‘ ان برقی بورڈوں کی حیثیت اسی کیلنڈر کے برابر ہے جو رمضان اور عید کی تاریخوں کا تعین کرتا ہے۔ اگر کیلنڈر کی بنیاد پر روزہ نہیں رکھا جا سکتا اور اگر کیلنڈر کی بنیاد پر عید نہیں منائی جا سکتی تو گھڑیوں اور برقی بورڈوں کی بنیاد پر نمازیں کیسے پڑھی جا سکتی ہیں؟ ایک معروف مذہبی ویب سائٹ پر نماز کے اوقات معلوم کرنے کا جو اصل طریقہ درج ہے‘ اسے ہم یہاں نقل کر رہے ہیں۔
''رات کے آخری پہر میں صبح ہوتے وقت مشرق کی طرف سے آسمان کی لمبائی میں کچھ سفیدی دکھائی دیتی ہے‘ جو تھوڑی دیر میں ختم ہو جاتی ہے‘ اور اندھیرا ہو جاتا ہے‘ اسے ''صبح کاذب‘‘ کہا جاتا ہے‘ اس کے تھوڑی دیر بعد آسمان کے کنارے پر کچھ سفیدی چوڑائی میں دکھائی دیتی ہے جو بڑھتی رہتی ہے‘ اور تھوڑی دیر میں بالکل روشنی ہو جاتی ہے‘ اسے ''صبح صادق‘‘ کہا جاتا ہے‘ جس سے فجر کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ اور سورج نکلنے تک باقی رہتا ہے‘ اور جب سورج تھوڑا سا بھی طلوع ہو جائے تب فجر کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔
سورج طلوع ہوکر جتنا اونچا ہو جاتا ہے‘ ہر چیز کا سایہ گھٹنا شروع ہو جاتا ہے‘ سو جب سورج سر پر آ جائے اور سایہ گھٹنا موقوف ہو جائے‘ یہ دوپہر کا وقت ہے‘ اس وقت ہر چیز کا جو سایہ ہوتا ہے وہ ''اصلی سایہ‘‘ کہلاتا ہے‘ پھر جب سورج ڈھل جائے اور سایہ بڑھنا شروع ہو جائے تو اس کو ''زوال‘‘ کہتے ہیں‘ جس سے ظہر کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ اور جب ہر چیز کا سایہ (اس کے اصلی سایہ کے علاوہ) دو گنا ہو جائے تب ظہر کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بات ملحوظِ خاطر رہے کہ بہتر یہ ہے کہ ظہر کو ہر چیز کا سایہ ایک گنا ہونے تک پڑھ لیا جائے۔اور جب ہر چیز کا سایہ اصلی سایہ کے علاوہ اس کے دو مثل (دو گنا) ہو جائے تو عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ اور سورج ڈوبنے تک باقی رہتا ہے۔اور جب سورج غروب ہو جائے تو مغرب کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ اور جب تک مغرب کی طرف آسمان کے کنارے پر سرخی کے بعد سفیدی باقی رہے‘ اس وقت تک مغرب کا وقت باقی رہتا ہے‘ اور شفقِ ابیض (سرخی کے بعد والی سفیدی) کے بعد مغرب کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔اور جب آسمان کے کنارے مغرب کی طرف کی سرخی کے بعد آنے والی سفیدی جاتی رہے تو عشاء کا وقت شروع ہو جاتا ہے‘ اور صبح صادق ہونے تک باقی رہتا ہے‘‘۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ نماز کے اوقات میں گھڑی کا کوئی عمل دخل نہیں! اب یا تو نمازوں کے اوقات کا اعلان رویتِ ہلال کمیٹی کے سپرد کیا جائے یا ایک اور سرکاری ادارہ بنایا جائے جس کا نام ''اعلانِ نماز کمیٹی‘‘ ہو! یہ کمیٹی رات کے آخری پہر چھت پر جائے اور دیکھے کہ آسمان کی لمبائی میں سفیدی کب دکھائی دیتی ہے اور کب ختم ہوتی ہے۔ اس وقت یہ کمیٹی صبح کاذب ہوجانے کا اعلان کرے۔ کچھ دیر کے بعد کمیٹی دوبارہ چھت پر چڑھے اور نوٹ کرے کہ آسمان کے کنارے پر سفیدی چوڑائی میں کس وقت دکھائی دیتی ہے۔ اُس وقت کمیٹی اعلان کرے کہ صبح صادق ہو گئی ہے۔ ظہر کی نماز کا وقت طے کرنے کے لیے کمیٹی ایک چھڑی یا ڈنڈا زمین میں گاڑے۔ جب اس چھڑی یا ڈنڈے کا سایہ بڑھنا شروع ہو جائے تو کمیٹی اعلان کرے کہ ظہر کے وقت کا آغاز ہو چکا ہے۔ پھر جب چھڑی کا سایہ اس کے اصلی سائے کے علاوہ‘ دو گنا ہو جائے تو کمیٹی اعلان کرے کہ ظہر کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ پھر جب چھڑی کا سایہ‘ اصل سائے کے علاوہ‘ دو گنا ہو جائے تو کمیٹی اعلان کرے کہ عصر کا وقت شروع ہو گیا ہے۔ مغرب کے لیے کمیٹی کو ایک بار پھر چھت پر جانا ہو گا۔ جب سرخی کے بعد والی سفیدی ختم ہو جائے تو کمیٹی اعلان کرے کہ مغرب کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ تب عشاکا وقت شروع ہو جائے گا۔
ہماری تجویز یہ بھی ہے کہ سحری کے وقت کا اختتام دیکھنے کے لیے جو لوگ وفاق میں اور صوبوں میں چھتوں پر چڑھ کر دیکھیں گے کہ سیاہی ٔشب کی دھاری سے سپیدۂ صبح کی دھاری کس وقت نمایاں نظر آ تی ہے‘ ان کے لیے وزارتِ خزانہ ''سحری الاؤنس‘‘ منظور کرے۔ اسی طرح ''اعلانِ نماز کمیٹی‘‘ کے لیے بجٹ میں ''چھت الاؤنس‘‘ رکھا جائے۔ رہنما کمیٹی وفاق میں ہو گی‘ صوبوں کی ''اعلانِ نماز کمیٹیاں‘‘ وفاقی کمیٹی کے ماتحت کام کریں گی۔ ہر ضلعی ہیڈ کوارٹر‘ ہر تحصیل ہیڈ کوارٹر اور ہر گاؤں میں ایسی کمیٹیاں قائم کی جائیں گی۔ اس مقصد کے لیے وفاق اور صوبوں میں نئی وزارتیں تشکیل دی جائیں گی۔ ان وزارتوں کا نام ہو گا ''وزارت برائے اختتام سحری و اوقاتِ نماز‘‘۔
یہ بھی لازم ہے کہ کوئی شخص اگر گھڑی کی مدد سے سحری ختم کرے یا گھڑی دیکھ کر نماز کے وقت کا تعین کرے تو اسے سخت سے سخت سزا دی جائے جو چودہ سال سے لے کر عمر قید تک ہو سکتی ہے۔ اور ہاں‘ اگر کوئی شہری رمضان اور عید کا چاند دیکھنے کے لیے سائنس‘ ٹیکنالوجی یا علومِ موسمیات سے مدد لینے کی بات کرے تو اسے پھانسی کی سزا دی جائے۔ مزید یہ کہ رویتِ ہلال کمیٹی کو تین یا چار چارٹرڈ جہاز اور ایک درجن ہیلی کاپٹر دیے جائیں تا کہ وہ بادلوں سے اوپر جا کر چاند کو نزدیک سے دیکھ سکیں!!

Monday, March 03, 2025

زینب …( 2)

تلخ نوائی …………

روزنامہ دنیا کا اجرا تین ستمبر 2012ء کو ہوا تھا۔ پہلے روز ہی میرا کالم ''بسم اللہ‘‘ کے عنوان سے چھپا۔ اس کے ٹھیک دس دن بعد یعنی تیرہ ستمبر 2012ء کو اس مضمون (زینب) کی پہلی قسط شائع ہوئی تھی۔ کل کی طرح یاد ہے وہ تحریر میں نے سکردو میں سیبوں کے ایک باغ میں بیٹھ کر لکھی تھی۔ اسی باغ میں لاہور سے فون آیا تھا۔ اس کی اماں نے بتایا کہ رو رہی ہے کہ نانا ابو سے بات کرنی ہے۔ بات کی تو کہنے لگی: ابھی لاہور آ جائیے میرے پاس بس ابھی! تب زینب سات برس کی تھی۔ آج تیرہ برس بعد اس تحریر کی دوسری قسط لکھنے بیٹھا ہوں۔ پیدائش اس کی بحر اوقیانوس کے اُس طرف امریکہ میں ہوئی تھی۔ چند ماہ کی تھی کہ پاکستان آ گئی۔ ہر شخص کا مزاج قسّامِ ازل نے الگ تخلیق کیا ہے۔ ایسے نانے دادے بھی دیکھے ہیں جو نواسوں پوتیوں کا شور نہیں پسند کرتے! اللہ کا شکر ہے کہ ایسے سڑیل اور گلے سڑے بابے زیادہ تعداد میں نہیں پائے جاتے۔ بہرطور میرے لیے زینب ایک عجیب چیز تھی۔ پہلی نواسی یا پوتی یا پوتا یا نواسہ (انگریزی میں سب کے لیے گرینڈ کِڈ کا لفظ استعمال ہوتا ہے) ایک ایسا کھلونا ہوتا ہے جس کا کوئی مثیل ہے نہ اسے لفظوں میں بیان 
(describe)
 ہی کیا جا سکتا ہے۔ میں اسے ہر وقت ساتھ رکھتا۔ واک کے لیے جاتا تو اس کی پریم ساتھ ہوتی۔ دفتر سے سیدھا گھر آتا اور اسے اٹھا کر باہر نکل جاتا۔ ایک دن غباروں والا گھر کے سامنے سے گزرا تو اس سے پوچھا: کتنے غبارے ہیں؟ کہنے لگا: چالیس۔ میں نے کہا: سارے دے دو۔ لا کر زینب کے سامنے ڈال دیے۔ جتنی دیر ان سے کھیلتی رہی‘ میری نظریں ہٹیں نہیں! لاہور سے آتی تو ٹول پلازا پہنچ کر انتظار کرتا۔ اسے اس کی اماں ابا کی گاڑی سے نکال کر اپنی گاڑی میں ڈال لیتا۔ جاتے وقت کئی بار چکری تک اس کے ساتھ گیا۔
وہ بڑی ہوتی گئی اور میرے لیے اس کھلونے کی کشش میں اضافہ ہوتا گیا۔ زندگی بھر کی مطالعہ کی عادت چھوٹ گئی کہ رات کو وہ دیر تک کہانیاں سنتی۔ کبھی کسی پلے لینڈ میں لے جاتا کبھی کسی پارک میں! ماں باپ اس کے لاہور میں تھے اور وہ زیادہ نانا نانی کے پاس اسلام آباد میں رہتی۔ ایک بار لاہور گئی تو ملازمہ سے یہ کہتی پائی گئی کہ ''میں اچھی بھلی اپنی زندگی جی رہی تھی اسلام آباد میں‘ اور یہ لوگ مجھے یہاں لاہور میں لے آئے ہیں‘‘۔ ہم جب بھی لاہور جا کر چند دن رہتے تو ہمارے واپس آنے پر ضرور روتی۔ راستے میں اس کی اماں کا پیغام ملتا کہ کہہ رہی ہے واپس آ جائیے۔ اسلام آباد سے جاتے وقت بھی اس کی ہچکی بندھ جاتی! جوں جوں بڑی ہوتی گئی‘ اس کی محبت اور ہمارے ساتھ اس کی وابستگی وہی رہی مگر انداز‘ اسلوب اور سٹائل بدلتا گیا۔ اب وہ مجھے بتاتی کہ کون سا کوٹ پہننا ہے اور کون سی ٹائی کس قمیض کے ساتھ لگانی ہے۔ لاہور جاتا تو وارننگ دیتی کہ آپ نے دوستوں کے پاس نہیں جانا آپ ہمارے لیے آئے ہیں۔ دوستوں کی کسی محفل میں جانا ہوتا تو ساتھ جاتی۔ ورنہ فون کرتی کہ بہت دیر ہو گئی ہے‘ اب آپ واپس آئیے‘ میں انتظار کر رہی ہوں! اس کا چھوٹا بھائی ہاشم خان بھی بڑا ہو رہا تھا۔ یوسف زئی قبیلے کی روایت کے عین مطابق ہاشم خان پندرہ برس کا ہوا تو قد ماشاء اللہ چھ فٹ دو انچ ہو چکا تھا۔ جس دن ہم نے لاہور سے واپس آنا ہوتا تو اس سے پہلی رات‘ دونوں بہن بھائی آکر ہمارے پاس بیٹھ جاتے اور بحث کرتے کہ کل کیوں جا رہے ہیں؟ وہاں کون سا کام ہے جو آپ کے بغیر رکا ہوا ہے؟ ہمیں چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہیں؟ دوسرے دن اتنا شور مچاتے اور احتجاج کرتے کہ ہمیں ایک دو دن مزید رکنا پڑتا۔
وقت ایک زقند کے بعد دوسری زقند بھرتا گیا۔ اب زینب نے اے لیول پاس کر لیا تھا۔ گاڑی بھی چلانے لگی تھی۔ سہیلیوں کے ساتھ مل کر ضرورت مندوں کے لیے فلاحی کام بھی کر رہی تھی۔ وطن کی زمین پروفیشنل افراد پر تنگ ہو رہی تھی۔ اور تنگ ہو رہی ہے۔ اس کا والد‘ جو دل کا ایک نامور جرّاح ہے‘ واپس امریکہ چلا گیا ہے۔ اور ظاہر ہے بیوی بچوں کو بھی ساتھ لے گیا ہے۔ زینب کی اماں میری بیٹی ہے۔ لخت جگر ہے۔ یاد آتی ہے تو دل میں درد یوں لہراتا ہے جیسے بِین کی آواز پر سانپ لہراتا ہے۔ پھر بیٹی کے ساتھ ہی اس کی بیٹی بھی یاد آتی ہے۔ دونوں کے چہرے ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں۔ ماہ وَش زینب بن جاتی ہے اور زینب ماہ وَش بن جاتی ہے۔ وہ اپنی اماں کے دل کا ٹکڑا ہے۔ اس کی اماں میرے دل کا ٹکڑا۔ گویا میرے دل کے ٹکڑے میں ایک اور دل ہے اور اس دل میں ایک اور ٹکڑا۔ لخت در لخت! پارہ در پارہ! زخم میں مرہم ہے اور مرہم میں زخم!! درد میں دوا ہے اور دوا میں پھر درد ا! آنکھیں بند کر کے سوچتا ہوں کہ ہمارے درمیان کتنے ٹائم زون‘ کتنے سمندر‘ کتنے براعظم‘ کتنے ممالک پڑتے ہیں۔کروڑوں تو بادل ہی ہوں گے! اربوں تو پرندے ہی ہوں گے!
ایک چراغ یہاں میرا ہے ایک دیا وہاں تیرا
بیچ میں اقلیمیں پڑتی ہیں‘ پانی اور اندھیرا
کوئی دوری سی دوری ہے! کوئی فراق سا فراق ہے! کوئی ہجر سا ہجر ہے! کوئی جدائی سی جدائی ہے۔ جسم کے اندر وریدوں میں اور وریدوں کے اندر بہتے لہو میں اور ہڈیوں میں اور ہڈیوں کے اوپر چڑھے ماس میں اور ہڈیوں کے اندر گودے میں لاکھوں چراغ جیسے بجھ گئے ہیں اور ان کا دھواں بھر گیا ہے! یہ کیسا دھواں ہے کہ اندر سے باہر آتا ہے اور آنکھوں سے پانی بہاتا ہے‘ یوں کہ راستہ سجھائی نہیں دیتا! بیٹیاں مصلے پر بیٹھ کر دعائیں کر کر کے مانگی تھیں۔ سخاوت کرنے والے نے بے نوا دریوزہ گر کو دو بیٹیاں عطا کیں۔ صورت میں سیرت سے بڑھ کر اور سیرت میں صورت سے بڑھ کر۔ ایک سمندر پار چلی گئی ہے۔ خود تو گئی ہی تھی‘ ساتھ زینب کو بھی لے گئی۔ گویا بینائی تو گئی ہی تھی ساتھ عصا بھی چلا گیا! میں تو مجید امجد کی طرح یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ:
پلٹ پڑا ہوں شعائوں کے چیتھڑے اوڑھے
نشیبِ زینۂ ایّام پر عصا رکھتا
دوست تسلی دیتے ہیں کہ اب تو وڈیو پر بات ہو جاتی ہے اور مجھے فراز کا شعر یاد آ جاتا ہے:
جس طرح بادل کا سایہ پیاس بھڑکاتا رہے
میں نے یہ عالم بھی دیکھا ہے تری تصویر کا
پھر سوچتا ہوں کرب کے اس ریگستان میں میں اکیلا تو نہیں! ہوا میں اُڑنے والے فولادی پرندوں نے گھر گھر سے ماہ وَش اور زینب اور ہاشم اور قاسم کو نگلا اور دور کے ساحلوں پر جا کر اگل دیا۔ کتنے ہی نانے دادے اور نانیاں دادیاں اپنی اپنی ماہ وَش اور اپنی اپنی زینب کے ہجر میں اداس بیٹھی ہیں۔ سانسوں کی آمد ورفت کا کاروبار ختم ہوا تو کون جانے زمین کے مختلف ٹکڑوں میں پھیلے ہوئے یہ لخت ہائے جگر‘ یہ بیٹے بیٹیاں‘ یہ پوتے پوتیاں‘ یہ نواسے نواسیاں پہنچ پائیں گی یا نہیں! یا بعد میں آکر کچی قبروں پر سبز پودے لگائیں گی! دعا کریں گی۔ آنسو بہائیں گی اور پھر اپنے اپنے اڑن کھٹولے پر بیٹھ کر دور کے دیاروں میں گم ہو جائیں گی! ہجرتوں کا دور ہے! لگتا ہے اس ملک سے سارے ڈاکٹر‘ سارے سائنسدان‘ سارے اہلِ علم‘ سارے صنعتکار ہجرت کر جائیں گے۔ صرف ڈیرے دار وڈیرے‘ حکومتوں کے موروثی دعویدار اور نسل در نسل حکمرانی کرنے والے نیم خواندہ خاندان ہی پیچھے رہ جائیں گے!!

Thursday, February 27, 2025

خواجہ آصف۔ بارش کا پہلا قطرہ


ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے تین باتیں کہی ہیں۔ اوّل یہ کہ افغان جہاد درست نہ تھا۔ دوم یہ کہ اسّی کی دہائی میں نصاب کو مسخ کیا گیا کیونکہ ہم نے افغان جہاد کی تیاری کرنا تھی۔ اقتدار کو طول دینے کے لیے نصاب میں وہ پڑھایا گیا جس کا حقیقت سے تعلق نہیں۔ ہمارا جغرافیہ 71ء میں بدلا گیا اور نصاب اسّی کی دہائی میں تبدیل کیا گیا۔ سوم یہ کہ جنگ ختم ہو گئی مگر افغان مہاجرین ابھی تک یہیں بیٹھے ہیں۔
خواجہ آصف مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما ہیں۔ ان کے والد مرحوم جنرل ضیا کے رفقا میں سے تھے اور جنرل صاحب کی اُس مجلسِ شوریٰ کے چیئرمین تھے جو مرغانِ دست آموز 
(Hand picked persons) 
پر مشتمل تھی۔ خواجہ آصف نے یہ اخلاقی جرأت دکھائی کہ ایک ڈکٹیٹر کا ساتھ دینے پر اپنے والد کی طرف سے قوم سے معافی مانگی۔ مسلم لیگ (ن)‘ خواجہ آصف جس کے دیرینہ رکن ہیں‘ آغاز میں جنرل ضیا الحق ہی کی پروڈکٹ تھی۔ جنرل صاحب نے یہاں تک کہا تھا کہ ان کی عمر میاں نواز شریف کو لگ جائے۔ جنرل ضیاالحق کی وفات کے بعد میاں صاحب ان کی برسی بھی اٹینڈ کرتے رہے۔ جب میاں صاحب وزیراعظم بنے تو جنرل ضیا الحق کی بیوہ نے کہا تھا کہ یوں لگتا ہے ان کا بیٹا وزیراعظم بنا ہے۔ غرض افغان جہاد جنرل ضیا کا بے بی تھا اور مسلم لیگ (ن) کی جنرل ضیا سے وابستگی تاریخ کا غیر متنازع حصہ ہے۔ اس پس منظر میں خواجہ آصف کا یہ بیان نہ صرف سچ پر مبنی‘ دلیرانہ اور خوش آئند ہے بلکہ حیران کن بھی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے کسی دوسرے رہنما نے (ہمارے علم کی رُو سے) ابھی تک اس سچائی کا اعتراف نہیں کیا۔ جنرل ضیا الحق نے جن طبقات اور جن افراد کو نوازا تھا ان کی رائے ہمیشہ یہی رہی ہے کہ اس لڑائی میں حصہ نہ لیا جاتا تو سوویت یونین پاکستان کو بھی تر نوالہ بنا دیتا۔ ایک دلیل یہ بھی دی جاتی تھی کہ روس کو گرم پانیوں کی تلاش ہے اس لیے وہ بحیرۂ عرب تک آنا چاہتا ہے۔ آرا اِن خیالات کے خلاف بھی بہت سی ہیں۔ بحر اسود کی بندرگاہ 
Sevastopol 
سارا سال روس کو بحیرۂ روم سے منسلک رکھتی ہے۔ لیکن اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ افغانستان اور روس کی لڑائی میں افغانوں کا ساتھ دینا ملکی بقا کے لیے ضروری تھا‘ تب بھی جنرل ضیا کے چند دوسرے اقدامات کی حمایت کوئی کور چشم ہی کر سکتا ہے۔ ان اقدامات کو ملکی جرائم کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اول: جنرل ضیا الحق نے افغان پناہ گزینوں کو عملاً پورے پاکستان کا مالک بنا دیا۔ انہیں کیمپوں تک محصور اور محدود نہ کیا گیا۔ یہ مہاجرین کراچی سے لے کر گلگت تک پھیل گئے۔ انہوں نے کاروبار شروع کر دیے۔ جائدادیں خرید لیں۔ کہاں افغانستان کی تباہ و برباد زمین‘ جس کا تھوڑا بہت انفراسٹرکچر جو تھا وہ بھی تاراج ہو گیا اور کہاں پاکستان‘ جہاں ان نام نہاد مہاجرین کو بے پناہ سہولیات میسر آئیں! یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ‘ جو تیس لاکھ کے لگ بھگ ہیں‘ واپس جانے کا نام نہیں لیتے۔ اگر انہیں کیمپوں میں رکھا جاتا تو یہ کب کے واپس جا چکے ہوتے۔ آج بھی پاکستانی بازاروں اور منڈیوں پر یہ غیر ملکی چھائے ہوئے ہیں۔ جنرل ضیا الحق نے طولِ اقتدار کی دہلیز پر ملکی مفاد کو ذبح کر دیا اور ان مہاجرین کی بدولت تیزی سے پھیلتی منشیات اور اسلحہ سے آنکھیں بند رکھیں۔ کیا یہ ملک کے خلاف بہت بڑا جرم نہیں؟ آج پاکستان منشیات اور اسلحہ کی لعنت میں گلے تک دھنسا ہوا ہے۔ یہ ''صدقۂ جاریہ‘‘ ہے جو آمرِ مطلق اس بدقسمت ملک کیلئے چھوڑ گیا۔
افغانوں کی مدد کرنا بھی تھی تو اس کیلئے اپنے ملک کی سرحدوں کو کالعدم کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ سیاہ و سفید کے مالک اس طالع آزما نے ہزاروں غیرملکی جنگجوؤں کو کسی پاسپورٹ‘ کسی ویزے کے بغیر ملک کے اندر لا بسایا۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے ملکوں میں ناپسندیدہ عناصر سمجھے جاتے تھے۔ اس پر مزید ظلم یہ کیا گیا کہ یہ سب لوگ مسلح تھے۔ آج تک ان کے اثرات ملک پر باقی ہیں۔ یہ یہاں آباد ہوئے۔ شادیاں کیں۔کیا یہ ملک کی سلامتی کے خلاف جرم نہیں تھا۔ ان جرائم میں ایک مذہبی سیاسی جماعت اور کچھ طالع آزما جرنیل بھی بڑھ چڑھ کر شامل تھے۔ اس مذہبی جماعت کے مرحوم سربراہ نے بعد میں اخبارات میں مضامین لکھے جن میں اعتراف کیا کہ اس دور میں کس طرح غیرملکیوں کو پاکستان میں لاکر خفیہ ٹھکانوں میں رکھا جاتا تھا۔ ان لوگوں نے دوسروں کے بچوں کو آگ اور خون میں نہلایا مگر ان کے اپنے بچے ''جہاد‘‘ اور شہادت سے کوسوں دور رہے۔ امریکہ میں پڑھتے رہے۔ آج بھی بزنس کر رہے ہیں اور پھل پھول رہے ہیں۔ دوسرے طالع آزماؤں کی اولاد بھی کروڑوں اربوں میں کھیل رہی ہے۔ اوجڑی کیمپ سے جڑی داستانیں سب کو معلوم ہیں!
خواجہ آصف نے یہ کہہ کر کہ افغان جہاد درست نہ تھا‘ بہت بڑا سچ بولا ہے۔ اس جہاد کا سب سے بڑا فائدہ آمرِ مطلق کو ملا جس کا اقتدار اس جنگ کی بدولت طویل ہوتا گیا۔ اُن طبقات اور افراد کو بھی فائدہ ہوا جن پر ڈالر ہُن کی طرح برستے رہے۔ اس جہاد نے پاکستان کی سیاست‘ معیشت‘ معاشرت‘ اخلاق‘ تعلیم‘ سلامتی‘ سکیورٹی سب پر منفی اثرات ڈالے جو پاکستانی عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔ خواجہ آصف کا تیسرا الزام کہ اسّی کی دہائی میں نصاب کو مسخ کیا گیا‘ انتہائی سنجیدہ الزام ہے۔ اسّی کی دہائی میں 1988 ء تک جنرل ضیا ہی کی حکومت تھی۔ سوال یہاں یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا نصاب صرف مدارس کا بدلا گیا یا صرف سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کا؟ یا سب کا؟ اس کام میں کون کون سے افراد اور ادارے اُس وقت کی حکومت کے معاونین تھے؟ اس حوالے سے امریکی حکومت کی طرف سے فوکل پرسن کون تھا؟ اس کارِ قبیح کے لیے کتنے فنڈز آئے؟ کیا ان کا آڈٹ کیا گیا؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری تفتیش کر کے مکمل سچ سامنے لایا جائے۔ یہ بھی لازم ہے کہ اُس وقت امریکہ کی خوشنودی کے لیے نصاب پر جو تبدیلیاں مسلط کی گئیں‘ انہیں ہٹایا جائے۔
خواجہ آصف نے سچ بولا ہے اور بہادری سے بولا ہے‘ مگر وہ سچ بولنے والے آخری فرد نہیں ہیں۔ ابھی اور لوگوں کے ضمیر بھی جاگیں گے۔
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں
ابھی جنرل ضیا الحق کے کیمپ سے اور آوازیں بھی اٹھیں گی۔ سچ کو روکا جا سکتا ہے مگر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ نام نہاد افغان جہاد کو آج بھی یہ ملک بھگت رہا ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی اسی عہدِ تاریک کا شاخسانہ ہے۔ خواجہ آصف بارش کا پہلا قطرہ ہیں۔ ابھی بارش ہونی ہے اور موسلا دھار ہونی ہے۔ (معترضین کی اطلاع کیلئے یہاں یہ وضاحت لازم ہے کہ اِس لکھنے والے کی خواجہ آصف سے ملاقات ہے نہ تعارف! نہ ہی ان سے کوئی کام یا غرض ہے۔ ہم جیسے لوگوں کا وزیروں اور امیروں سے بھلا کیا کام پڑ سکتا ہے! ہم تو اقبال کے مرید ہیں جن کے مزار پر‘ چھت کے قریب‘ یہ ہدایت لکھی ہے:
در آ بسجدہ و یاری ز خسروان مطلب
کہ روزِ فقر نیاگانِ ما چنین کردند 
اہلِ اقتدار سے مدد مت مانگ! سجدہ کر کیونکہ ضرورت کے وقت ہمارے اجداد نے سجدہ ہی کیا تھا!)

Tuesday, February 25, 2025

ہمارے چوہدری صاحب


چوہدری صاحب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ منطق اور عقل ان کے رہنما ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کے سارے فیصلے سو فیصد عقل کی بنیاد پر کیے ہیں اور اللہ کے فضل وکرم سے سب ٹھیک ثابت ہوئے۔ سوچ سمجھ کر بچوں کے رشتے طے کیے۔ عقل کو بروئے کار لا کر بزنس کیا‘ مکان تعمیر کیا۔ انگریزی میں کوئی تبصرہ کرے تو چوہدری صاحب کو ضرور 

Rational

 کہے گا۔ ان کی زندگی میں توہم پرستی اور ضعیف الاعتقادی کی کوئی گنجائش نہیں۔ مذہب کے حوالے سے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ فرائض سرانجام دیں اور کبائر سے اجتناب کریں۔ مگر وہ ان بکھیڑوں میں نہیں پڑتے کہ کسی مزار کی طرف پیدل چل پڑیں۔ یہ اکبر بادشاہ کا طریقہ تو ہو سکتا ہے مگر اہلِ بیتؓ اور صحابہ کرامؓ کے ہاں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ کسی کے بارے میں رائے دینی ہو تو چوہدری صاحب اس کا پورا پروفائل دیکھ کر رائے دیتے ہیں۔ غلطی ان کا قریبی عزیز بھی کرے تو اسے غلطی ہی کہتے ہیں۔
یہ سب کچھ تو ہے‘ مگر ان کی شخصیت میں ایک عجیب وغریب تضاد ہے جو حیران کن ہے۔ جب ان کے پسندیدہ لیڈر کی بات ہو تو ان کی ساری عقلیت‘ منطق پرستی‘ 

rationalty

 غائب ہو جاتی ہے۔ اس معاملے میں وہ شخصیت پرستی کی تمام حدود پار کر جاتے ہیں اور ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ میرے لیڈر میں کسی غلطی یا خامی ہونے کا امکان ہی نہیں! لیڈر کے فیصلے ہوں یا اقدامات‘ چوہدری صاحب ایسی توجیہات پیش کرتے ہیں کہ انسان حیرت سے گنگ ہو جاتا ہے اور اپنے آپ سے سوال کرتا ہے کہ کیا یہ وہی چوہدری صاحب ہیں جو عقل اور دلیل کے علمبردار ہیں! یوں لگتا ہے کہ لیڈر کے معاملے میں وہ آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے ہیں۔ ان سے پوچھا جائے کہ بزدار صاحب کو سب سے بڑے صوبے کا حکمران بنانے کی آخر کیا ضرورت تھی۔ ان کا جواب ہوتا ہے کہ وہ جینئس تھا۔ راجہ ٹوڈرمل اور اکبر کے نورتن تو خیر بزدار کے سامنے صفر تھے ہی‘ کوئی انگریز گورنر بھی اس کا ہم پلہ نہیں ہو سکتا۔ پھر وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ بزدار صاحب کے دور میں پنجاب سوئٹزر لینڈ اور سنگاپور جیسے ملکوں کا مقابلہ کرتا تھا۔ جب انہیں بتایا جائے کہ خان صاحب تو بزدار صاحب کو جانتے ہی نہیں تھے۔ یہ تو گجر صاحب تھے جو بزدار کو لے کر آئے تھے تو چوہدری صاحب پورے صدقِ دل کے ساتھ جواب دیتے ہیں کہ گجر صاحب جیسا مردم شناس شخص گزشتہ کئی صدیوں میں نہیں پیدا ہوا۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ان دنوں جب گجر صاحب پوشیدگی اور روپوشی کے عالم میں ہیں‘ تو اصل میں وہ ایک یورپی حکمران کے چیف ایڈوائزر ہیں! جب انہیں بتایا گیا کہ پارٹی کے کئی ثقہ ارکان نے وٹس ایپ پر شکایت کی تھی کہ سول سروس کی تعیناتیاں فروختنی ہیں اور فلاں خاتون کا نام اس ضمن میں اوپن سیکرٹ ہے مگر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا تو چوہدری صاحب نے انتہائی سنجیدگی سے دعویٰ کیا کہ فلاں نام کی کوئی خاتون پاکستان میں گزشتہ دو سو سال سے پیدا ہی نہیں ہوئی۔ آخری خاتون اس نام کی رنجیت سنگھ کے دور کے اوائل میں پیدا ہوئی تھی۔ اس نے بھی کثرتِ اسہال کی وجہ سے جان دے دی تھی‘ چنانچہ یہ الزام ہی بے سروپا ہے۔ جب چوہدری صاحب کو بتایا گیا کہ ایک بڑی ایجنسی کے سربراہ نے حاضر ہو کر اہلِ خانہ کے حوالے سے کرپشن کی اطلاع دی تھی تو بجائے اس کے کہ اطلاع دینے والے کا شکریہ ادا کیا جاتا‘ الٹا اسی کو عتاب کا نشانہ بنایا گیا تو انہوں نے تاریخ فرشتہ کھولی اور کہا کہ یہ واقعہ ضرور رونما ہوا تھا مگر 1600ء سے پہلے‘ دکن کی ریاست بیجاپور میں عادل شاہی دور میں رونما ہوا تھا۔ دشمنوں نے اسے ہمارے لیڈر کے سر تھوپ دیا۔ چوہدری صاحب سے پوچھا گیا کہ تلوّن کی انتہا ہے کہ جسے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا گیا‘ اسے سینے سے لگا لیا گیا اور اس پر بزدار جیسی نابغہ روزگار شخصیت کو قربان کر دیا گیا۔ جسے چپڑاسی کے قابل بھی نہیں سمجھا گیا تھا اسے داخلہ جیسی حساس وزارت دے دی گئی۔ جسے جلسوں میں ڈیزل کہا جاتا تھا اس کی چوکھٹ پر پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں کو رکوع کی حالت میں دیکھا گیا۔ جس کی تضحیک کرنے کے لیے اس کے سٹائل میں چادر اوڑھ کر جلسوں کے شرکا کو ہنسایا جاتا تھا‘ اسے بڑی بڑی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ آخر ان ڈاکوئوں‘ چپڑاسیوں‘ ڈیزلوں کو کیوں قبول کیا گیا؟ چوہدری صاحب ہنسے۔ کہنے لگے: یہ وہ مصلحتیں ہیں جسے تم جیسے عامی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ میرے لیڈر کو پورا حق ہے کہ اپنے قول سے پھر جائے۔ اگر وہ ہزار بار بھی پھرے گا‘ تب بھی میں اسے درست ہی کہوں گا!! چوہدری صاحب سے پوچھا گیا کہ اگر سب سے بڑے ڈاکو سے بغل گیر ہوا جا سکتا ہے تو جن دو سیاستدانوں کو چور کہا جاتا ہے ان سے معانقہ کیوں حرام ہے؟ چوہدری صاحب نے جواب دیا: جس وقت میرا لیڈر چاہے گا ان چوروں کی بھی ڈرائی کلیننگ کر دی جائے گی اور انہیں بھی اپنا لیا جائے گا اس لیے کہ لیڈر کے پاس مافوق الفطرت طاقت ہے۔ وہ نیکوکاروں کو گنہگار اور گنہگاروں کو صاف ستھرا کر سکتا ہے۔ جب سب سے بڑے ڈاکو کو سب سے بڑے صوبے کا حکمرانِ اعلیٰ بنایا گیا تو اسے دودھ سے دھو کر پاک صاف کیا گیا تھا۔ جو چپڑاسی بننے کے لائق بھی نہ تھا‘ اسے وزیر داخلہ جیسی بلند ترین پوسٹ پر بٹھانے سے پہلے جنات کے پاس بھیجا گیا تھا جنہوں نے اس کے سینے کو ان تمام علوم سے بھر دیا تھا جو کیمبرج‘ آکسفرڈ‘ ہارورڈ اور جان ہاپکنز میں پڑھائے جاتے ہیں۔ جسے ڈیزل کہا جاتا تھا‘ اس کی چوکھٹ پر اپنے بندے بھیجنے سے پہلے اسے عرقِ گلاب سے دھویا گیا تھا اور ڈیزل کی بو کو ختم کر دیا گیا تھا۔ چوہدری صاحب کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ جو شخص ایک خاتون کے کہنے پر ایک چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو جائے‘ اسے پورے ملک کا انتظام وانصرام کیسے سونپا جا سکتا ہے! اس پر چوہدری صاحب نے لاحول پڑھی اور کہنے لگے تمہاری عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ ارے بیوقوفو! خاتون مافوق الفطرت طاقتوں کی مالک ہے۔ اسی کے عمل سے وزارتِ عظمیٰ ملی۔ وہی تو فیصلے کرتی تھیں کہ کس بیورو کریٹ کو کہاں لگانا ہے۔ کس سے کس وقت بات کرنی ہے۔ جب وزارتِ عظمیٰ ملی اور حلف برداری کی تقریب منعقد ہونا تھی تو خاتون ہی کو تو خواب میں بتایا گیا تھا کہ پارٹی کا فلاں پرانا جان نثار تقریب میں شامل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان تو کیا‘ مؤکلین پوری دنیا کی ایڈمنسٹریشن سنبھال سکتے ہیں۔ چوہدری صاحب سے آخری سوال‘ اپنی ایجو کیشن کے لیے‘ پوچھا کہ برطانیہ سے جو بھاری رقم قومی خزانے میں جمع ہونے کے لیے آئی تھی وہ ایک پراپرٹی ٹائیکون کے جرمانے کے طور پر کہیں اور کیوں جمع کرا دی گئی اور کابینہ سے بند لفافے کی‘ مندرجات بتائے بغیر‘ منظوری کیوں لی گئی! یہ وہ ہیں جن کے خلاف کی گئی تقریریں ریکارڈ پر ہیں۔ یعنی:
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
اس آخری سوال پر چوہدری صاحب نے کمال کی بات کہی جو یقینا سارے معاملے کی کنجی ہے۔ فرمایا: بھائی! ہم نے اپنے لیڈر کے ہر اقدام کو درست قرار دینا ہے۔ سیاہ کرے یا سفید‘ قرمزی کرے یا ارغوانی‘ دن کو کہے رات ہے یا رات کو کہے دن ہے‘ ہم نے اس کی ہر بات کو درست سمجھنا ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ غلطیوں سے مبرا ہے۔ تم دلائل دیتے رہو‘ ہماری ایک ہی دلیل ہے کہ ہمارا لیڈر غلطی کر ہی نہیں سکتا!!

Monday, February 24, 2025

مہمان کرکٹ ٹیموں کا حق ہم ادا ہی نہیں کر رہے

!

نوجوان غصے میں تھا۔ نوجوان مشتعل تھا۔ نوجوان بر افروختہ تھا۔ نوجوان دُکھی تھا۔
میں وفاقی دارالحکومت کے قدیم ترین اور سب سے بڑے بازار آب پارہ‘ میں پھر رہا تھا۔ جیسا کہ میں نے اپنے پڑھنے والوں کو بتایا تھا‘ میں کبھی کبھی اس بازار کا چکر لگاتا ہوں۔ یہاں اصل پاکستان دیکھنے کو ملتا ہے۔ واکنگ سٹک پکڑے‘ سر پر ٹوپی اوڑھے‘ کئی موسموں اور کئی برسوں سے گزری ہوئی جیکٹ پہنے‘ جب اس گنجان بازار کا چکر لگاتا ہوں تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں اپنے ملک سے اور اپنے لوگوں سے بغل گیر ہو رہا ہوں۔ ادھیڑ عمر شخص‘ جو مشین سامنے رکھے چھریاں اور قینچیاں تیز کر رہا ہے۔ پھلوں کا رس بیچنے والا‘ جو گاہکوں کی بھیڑ سے نمٹ رہا ہے۔ ٹوکرے میں کچھ پھل رکھے بوڑھا‘ جو گزرتے گاہکوں کو دیکھے جا رہا ہے۔ قصاب جو بکرے لٹکائے‘ خریداروں سے بحث کر رہے ہیں۔ ریستوران سے باہر بیٹھا لڑکا جو آلو چھیلے جا رہا ہے۔ کباڑیا جو دکان میں پرانے لوہے کے مال واسباب میں گھرا‘ ردی تول رہا ہے۔ تنگ سی گلی کی چھوٹی چھوٹی ڈربہ نما دکانوں میں‘ قطار اندر قطار بیٹھے درزی جو سر جھکائے سلائی مشینیں چلائے جا رہے ہیں۔ فریموں کی دکان کے اندر‘ تصویروں کو شیشوں کے نیچے فِٹ کرتا نوجوان۔ اے ٹی ایم کے سامنے لائن میں لگے لوگ۔ کھولتے پانی والی کڑاہی میں دوپٹوں کو بھگوتا رنگ ساز۔ خشک میووں کی دکان میں کھڑا بَلتی۔ مخصوص قینچی نما اوزار سے گنڈیریاں کاٹتا ریڑھی بان۔ کونے میں جوتے گانٹھتا موچی‘ بوٹ پالش کرتا سرخ رخساروں والا خوبصورت پیارا سا معصوم بچہ۔ چاٹ کی دکان پر چاٹ اڑاتی لڑکیاں۔ سبزی خریدتے‘ کوٹ پتلون میں ملبوس دفتری بابو۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جن کے دم سے پاکستان آباد ہے۔ کوئلوں پر مرغیوں کے ٹکڑے رکھے ہیں۔ سڑک کنارے کرسیوں پر بیٹھے لوگ کھانا کھا رہے ہیں! سموسوں اور پکوڑوں کے سٹالوں پر خوب رش ہے۔ میں آگے بڑھا۔ گھر والوں کے لیے کچھ سموسے خریدے۔ ایک نوجوان جو سموسہ پلیٹ پکڑے کھڑا تھا‘ مجھے غور سے دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے سلام کیا اور پوچھا ''آپ ہی ہیں نا تلخ نوائی لکھنے والے؟‘‘ نوجوان غصے میں تھا۔ کہنے لگا ''کیا آپ کو معلوم ہے اس شہر کے لوگ کس عذاب سے گزر رہے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا ''کیا ہوا بیٹے؟ تم کیوں پریشان ہو؟‘‘ جواب میں اس نے اپنا کلیجہ باہر نکال کے رکھ دیا۔ کہنے لگا ''یہ جو کرکٹ ٹیمیں اس بدبخت شہر میں قیام پذیر ہیں‘ ان کی وجہ سے شہری ایک ایسا عذاب سہہ رہے ہیں جو کسی مہذب‘ ترقی یافتہ ملک میں ممکن نہیں۔ راستے بند ہیں۔ ٹریفک معطل ہے۔ عوام کے ساتھ بدترین مذاق کیا جا رہا ہے۔ کبھی ایک شاہراہ بند کی جاتی ہے‘ کبھی دوسری‘ کبھی تیسری! جنازے رک جاتے ہیں۔ دودھ پیتے بچے ہلکان ہو جاتے ہیں۔بوڑھے بے جان ہوتے ہیں۔ عورتیں گاڑیوں‘ بسوں‘ ویگنوں میں بیٹھی بیٹھی رو پڑتی ہیں۔ حاملہ عورتیں جان سے جا سکتی ہیں۔ مریض بلکتے اور سسکتے ہیں۔ جہاں جانے میں دس منٹ لگنے چاہئیں‘ وہاں ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان غیر ملکی ٹیموں کو معروف ترین ہوٹل میں ٹھہرایا جاتا ہے جو شہر کے وسط میں واقع ہے‘ اور پھر بار بار ٹریفک روک کر ساری دنیا کو اطلاع دی جاتی ہے کہ دیکھو! یہ ہے وہ جگہ جہاں ہمارے حساس مہمان قیام پذیر ہیں۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے ایک بے وقوف نے بینک کے لاکر سے زیورات نکالے۔ تھیلے میں ڈالے اور بینک سے باہر نکلا۔ بجائے اس کے کہ وہ نارمل انداز سے چلتا‘ اس نے پہلے تو تھیلے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر سینے سے لگایا‘ پھر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ اس کے پاس تھیلے میں کوئی قیمتی شے ہے‘ کرنسی یا سونا‘ جس کی وجہ سے وہ ڈر رہا ہے‘ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا ہے۔ خوف زدہ ہے کہ کوئی چھین نہ لے۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ سڑک کے کنارے دو اوباش قسم کے نوجوان بیٹھے تھے۔ وہ اس کے پیچھے لگ گئے۔ جیسے ہی ایک سنسان جگہ آئی‘ انہوں نے اچانک اس پر حملہ کیا اور تھیلا لے کر فرار ہو گئے۔ سکیورٹی کا تقاضا تو یہ ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو کہ غیر ملکی ٹیمیں کہاں ٹھہری ہیں۔ غضب خدا کا! شاہراہوں پر ٹریفک روک کر ساری دنیا کو خبر دی جا رہی ہے کہ دیکھ لو اور جان لو کہ ہماری غیر ملکی ٹیمیں یہاں‘ اس ہوٹل میں قیام پذیر ہیں! یعنی کچھ کر لو نوجوانو!! اٹھتی جوانیاں ہیں! ہونا یہ چاہیے کہ ان کی قیام گاہ کو ٹاپ سیکرٹ رکھا جائے۔ ایجنسیوں کے پاس سیف ہاؤسز ہیں۔ وہاں انہیں کیوں نہیں ٹھہرایا جاتا؟ عسکری میس محفوظ ترین مقامات ہیں۔ جتنا زر کثیر حکومت ہوٹلوں کو دے رہی ہے اس سے کم خرچ پر یہ کام عساکر کے میسوں سے لیا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد میں فضائیہ اور نیوی کے میس‘ فائیو سٹار ہوٹلوں سے کئی گنا بہتر اور محفوظ ہیں۔ یہاں ٹھہرانے سے پبلک پر بھی عذاب کا کوڑا نہیں برسے گا!‘‘۔
میں خاموشی اور صبر کے ساتھ نوجوان کی گفتگو سنتا رہا۔ اردگرد سے لوگ بھی اکٹھے ہو گئے تھے۔ ان میں سے اکثر اس کی تائید میں سر ہلا رہے تھے۔ میں محسوس کر رہا تھا کہ نوجوان لوگوں کے جذبات سے کھیل رہا ہے جو غلط بات ہے۔ اسے خاموش کرایا اور سمجھایا کہ دو باتیں اہم ہیں‘ جو اسے ذہن میں رکھنی چاہئیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ کرکٹ ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ خاص طور پر بھارت کے مقابلے میں! بھارت ہم سے ہر شعبے میں آگے نکل گیا ہے۔ معیشت‘ زراعت‘ صنعت‘ سیاحت‘ آئی ٹی‘ خلا بازی‘ فارن ریزرو‘ ریلوے‘ زیر زمین ریلوے‘ ایئر لائنز‘ برآمدات‘ حتیٰ کہ جمہوریت میں بھی مگر پاکستان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے لیے یہ سب بے معنی ہے۔ ہم ان شعبوں میں ترقی کرنے کے بجائے آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک‘ ایشیائی بینک اور دیگر قرض دہندگان سے اپنی ضروریات آسانی کے ساتھ پوری کر سکتے ہیں۔ اگر مودی نے کہہ بھی دیا ہے کہ پاکستانیوں نے ہاتھ میں کٹورا ( کشکول) پکڑا ہوا ہے تو کیا ہوا! اصل مقابلہ کرکٹ میں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ دوسرے ملکوں سے آئی ہوئی کرکٹ ٹیمیں ہماری مہمان ہیں۔ انہیں ایسے ہوٹل میں ٹھہرانا ضروری ہے جو شہر کے بالکل درمیان میں ہو۔ اگر ان مہمانوں کے لیے راستے بند کیے جاتے ہیں اور مریض مر جاتے ہیں یا حاملہ عورتیں اذیت میں ہوتی ہیں یا بچے سسکتے‘ بلکتے اور روتے ہیں یا بوڑھے نیم جان ہو جاتے ہیں تو یہ کوئی ایسی بڑی قربانی نہیں! یہ سب مہمان نوازی کا تقاضا ہے۔ ان کرکٹ ٹیموں کے مقابلے میں ہمارے عوام کی حیثیت ہی کیا ہے! یہ تو کیڑے مکوڑے ہیں! سچی بات یہ ہے کہ ہم ان مہمانوں کا حق ادا ہی نہیں کر رہے۔ راستے بند کر دینا کوئی مہمان نوازی نہیں! ہمیں تو چاہیے کہ جتنے دن یہ غیر ملکی کرکٹ ٹیمیں ہمارے ہاں قیام فرما ہیں‘ پورے ملک کی ٹریفک‘ بازار‘ سکول کالج‘ یونیورسٹیاں‘ ہوائی اڈے‘ ریستوران‘ ریل‘ بسیں سب کچھ بند کر دینا چاہیے۔ دہشت گرد کسی بھی بس‘ کسی بھی ٹرین اور کسی بھی ہوائی جہاز میں سوار ہو کر آ سکتا ہے! اگر ریستوران کھلے ہوئے تو دہشت گرد کسی بھی ریستوران سے کھانا کھا سکتا ہے! خاص طور پر جس شہر میں یہ ٹیمیں مقیم ہوں‘ اس میں تو کرفیو نافذ کر دینا چاہیے! بجائے اس کے کہ ہم راستے بند کر کے عوام کو اذیت دے دے کر ماریں‘ گولی سے مارنا بہتر ہوگا کیونکہ اس میں تکلیف کم ہوتی ہے۔ جس ہوٹل میں یہ ٹیمیں قیام کر رہی ہوں‘ اس ہوٹل کے گرد توپیں نصب کرنی چاہئیں‘ چاروں طرف اسلحہ بردار گوریلے کھڑے ہوں جن کے ہاتھوں میں‘ دیگر اسلحہ کے علاوہ‘ ننگی تلواریں بھی ہوں! صرف راستہ بند کر دینے سے مہمان کرکٹ ٹیموں کا حق نہیں ادا کیا جا سکتا!

Thursday, February 20, 2025

پنجاب کے سرکاری کالج اور دیگر مسئلے



ایک معاصر نے گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی کے بارے میں ایک نوٹ شائع کیا ہے۔ یہ کالج پوٹھوہار میں سرکاری سیکٹر کا قدیم ترین تعلیمی ادارہ ہے۔ پروفیسر اشفاق علی خان اور ڈاکٹر سید صفدر حسین جیسے مشاہیر یہاں پرنسپل رہے ہیں۔ ہم جیسے طالب علموں نے بھی یہیں سے گریجوایشن کی۔ امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ کالج میگزین کی ایڈیٹری کی۔ کتابیں بھی لکھیں۔ ماڑے موٹے انعامات اور اعزازات بھی حاصل کیے‘ مگر کالج کے سابق طلبہ کا ذکر ہو تو نام کھلاڑیوں اور اداکاروں کے لیے جاتے ہیں! بقول مجید امجد: دنیا تیرا حُسن یہی بد صورتی ہے!

چند ماہ پہلے کالج کے پرنسپل‘ معروف عربی دان‘ پروفیسر ڈاکٹر محسن کبیر نے کالج میں مدعو کیا اور طلبہ اور طالبات سے گفتگو کرنے کا موقع دیا۔ کالج کی مجموعی حالت دیکھ کر شدید رنج پہنچا۔ اس کالج کی اصل شناخت اُس قدیم عمارت سے ہے جو 1903ء میں تعمیر ہوئی تھی۔ تب یہ سناتن دھرم ہائی سکول تھا۔ پاکستان بنا تو اسے کالج کا درجہ دیا گیا۔ المیہ یہ ہے کہ یہ اصل عمارت کھنڈر بن چکی ہے۔ پُرشکوہ مینار زبانِ حال سے اپنی ویرانی کا ماتم کر رہے ہیں! برآمدے گریہ کر رہے ہیں۔ فرش اُکھڑے ہوئے ہیں۔ عمارت کا بیشتر حصہ ناقابلِ استعمال ہے۔ چند ہی کمرے ہیں جو آباد ہیں! کالج عملاً نئی عمارات میں منتقل ہو چکا ہے۔ یہی اصول رہا تو نئی بلڈنگز جب بوسیدہ ہو جائیں گی تو کیا انہیں متروک قرار دے کر مزید عمارتیں تعمیر کی جائیں گی؟ اسے کہتے ہیں ''اَگوں دوڑ تے پچھوں چَوڑ‘‘۔ دیکھ بھال‘ مرمت ساتھ ساتھ ہوتی رہتی تو یہ عمارت تندرست رہتی! اس سے زیادہ پرانی عمارتیں پاکستان اور بھارت میں موجود ہیں اور اچھی حالت میں ہیں! سوال یہ ہے کہ اس افسوسناک صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ پنجاب میں تعلیم کے کئی سیکرٹری ہیں۔ سکول ایجوکیشن کے سیکرٹری صاحب الگ ہیں۔ ہائر ایجو کیشن کے الگ ہیں۔ لٹریسی اور نان فارمل بیسک ایجوکیشن کے الگ ہیں اور سپیشل سکولز کے الگ ہیں۔ ان حضرات کی ماتحتی میں ایڈیشنل سیکرٹریوں اور ڈپٹی سیکرٹریوں کے ڈھیر لگے ہیں! ایک شہری کی حیثیت سے اور اصغر مال کالج کے سابق طالب علم کے طور پر میرا سوال ہے کہ کیا پنجاب ایجوکیشن کے کسی سینئر یا جونیئر افسر نے اس بدقسمت کالج کا کبھی معائنہ کیا؟ بلڈنگ کی مرمت بر وقت کیوں نہیں کرائی گئی؟ فنڈز کیوں نہیں دیے گئے؟ جتنے فنڈز ان با رعب اور عالی قدر افسران کی فوج ظفر موج کی پرورش اور کفالت پر لگتے ہیں‘ ان سے کہیں کم فنڈز میں اس یادگار‘ شاندار عمارت کو سنبھالا جا سکتا تھا! ممکن ہوتا تو عمارت کی خستگی اور بدحالی کی وڈیو اس کالم کے ساتھ اٹیچ کی جاتی مگر اخبار میں ایسا ہو نہیں سکتا! کیا پنجاب کے وزیر تعلیم اس بدقسمتی کا نوٹس لیں گے؟ یا ایک ایک کالج‘ ایک ایک عمارت کے لیے چیف منسٹر صاحبہ کو پکارنا پڑے گا؟ یا سناتن دھرم والوں کو سرحد پار سے بلانا پڑے گا کہ بلڈنگ بنائی تھی تو اب آکر اس کی مرمت اور تزئینِ نو بھی کریں ؟
پس نوشت1: حمیت نام تھا جس کا‘ تیمور کے گھر سے تو گئی ہی تھی ہمارے گھر سے بھی جا چکی ہے۔ پہلے ہمارے ایک سابق وزیراعظم مشرقِ وسطیٰ کے ایک بادشاہ کے سالہا سال ''مہمان‘‘ رہے۔ ایک سابق صدر نے‘ جو جنرل بھی تھے‘ ایک بادشاہ کی عطا کردہ رقم سے جائداد خریدی۔ معروف انگریزی معاصر نے 15 فروری 2017ء کی اشاعت میں ان سابق صدر اور جنرل صاحب کا بیان شائع کیا تھا کہ موصوف نے 2009ء میں شاہ عبد اللہ بن عبدالعزیز السعود سے لاکھوں ڈالر کا عطیہ لیا اور اس رقم سے دبئی اور لندن میں اپارٹمنٹ خریدے! فرمایا کہ ''شاہ عبد اللہ میرے بھائی کی طرح تھے ‘‘۔ ان مرحوم جنرل صاحب‘ سابق صدر سے کوئی پوچھتا کہ بھائی تھے تو آپ نے بھی کبھی ان کو کچھ دیا یا آپ صرف لینے والے ''بھائی‘‘ تھے؟ اندازہ لگائیے مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت کے سابق صدر اور دنیا کی چھٹی طاقتور ترین فوج کے کمانڈر انچیف ایک اور ملک کے بادشاہ سے خیرات لے رہے ہیں۔ خیرات نہیں تھی تو یہ کیا تھا؟ پھر ایک سابق وزیراعظم ایک شہزادے کے جہاز پر امریکہ گئے۔ خدا کے بندے! دستِ سوال دراز کرنے کے بجائے کمرشیل فلائٹ پر چلے جاتے۔ ملک کی بے عزتی تو نہ ہوتی! پَھٹ پڑے وہ سونا جس سے ٹوٹیں کان! اور پھر واپسی پر شہزادے نے راستے ہی میں اُتار دیا! شاید تاریخ میں اس کی مثال کوئی نہ ہو گی! سینے کے یہ سب داغ اس لیے تازہ کرنا پڑے ہیں کہ اب خواری اور رسوائی کا ایک اور کام کیا جا رہا ہے۔ وہ امریکی عورت جو پاکستانی لڑکے کے چکر میں پاکستان آئی تھی‘ اس کی نگہداشت اور خوش سلوکی پر ہماری ایف آئی اے‘ پولیس اور ایئر پورٹ میڈیکل سٹاف کے سولہ افسروں اور اہلکاروں کو تعریفی اسناد دی جائیں گی! یہ تعریفی اسناد کون دے گا؟ حکومت پاکستان ؟ نہیں! یہ تعریفی سرٹیفکیٹ امریکی قونصل جنرل دے گا!! انا للہ و انا الیہ راجعون!! افسروں اور اہلکاروں کے نام بھی بتائے گئے ہیں۔ جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں یہ بخشش کی جارہی ہو گی!! حمیت اور غیرت کا‘ اور عزتِ نفس کا تقاضا یہ تھا کہ امریکی قونصل جنرل کو کہا جاتا کہ حضور! ٹھیک ہے‘ دنیا آپ کی مٹھی میں ہے مگر ہماری بھی کوئی عزت ہے! ہمیں آپ کی تعریفی اسناد کی کوئی ضرورت نہیں! ہم نے جو کچھ کیا وہ ہمارا فرض تھا۔ ہماری ڈیوٹی تھی۔ ہمیں ہمارا ملک اس کام کیلئے تنخواہ دیتا ہے!! میرا دعویٰ ہے کہ جس وقت یہ تقریب ہو رہی ہو گی اور جس وقت امریکی قونصل جنرل یہ اسناد دے رہا ہو گا تو وہ اپنے آپ کو آقا سمجھ رہا ہو گا اور ہمارے افسروں اور اہلکاروں کو اپنی کالونی کا حصہ!! مجھے یقین ہے بھارت‘ ترکیہ‘ ایران یا کوئی اور ملک ایسی ''مشفقانہ‘‘ اور ''پدرانہ‘‘ تعریفی اسناد قبول کرنے سے صاف انکار کر دیتا۔ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ ایمل کانسی کو جب پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا گیا تھا تو امریکیوں نے کیا کہا تھا؟ انہوں نے کہا تھا کہ پاکستانی ڈالروں کے لیے اپنی ماں کو بھی بیچ سکتے ہیں۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں‘ چار دانگِ عالم میں پھیل گئی تھی!!
پس نوشت2: پنجاب کی وزیر اطلاعات نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ڈمپر روزانہ کی بنیاد پر کراچی کے شہریوں کو مار رہے ہیں!! ہم وزیر اطلاعات کے اس افسوس میں برابر کے شریک ہیں! سندھ حکومت کو اس قتل عام کا سدِ باب کرنا چاہیے۔تاہم ہم پنجاب کی وزیر سے یہ پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں کہ اس ضمن میں پنجاب میں کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟ ان صفحات پر کئی بار حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کرائی گئی ہے۔ پنجاب میں ٹریکٹر ٹرالیاں اور ڈمپر‘ شاہراہوں پر موت کا رقص کر رہے ہیں‘ دیوانہ وار کر رہے ہیں اور رات دن کر رہے ہیں! ماضی میں راولپنڈی کے ہر دلعزیز پروفیسر ڈاکٹر طیب منیر ایک ڈمپر کی بھینٹ چڑھ گئے۔ حال ہی میں ملتان میں ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ کو ٹریکٹر ٹرالی قسم کی شے نے کچل دیا۔ ہر ماہ کئی شہری ان جناتی گاڑیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ اصل میں یہ صرف سندھ یا صرف پنجاب کا مسئلہ نہیں‘ یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ پورے ملک میں ڈمپروں اور ٹریکٹر ٹرالیوں کے انسان نما اَن پڑھ ڈرائیور انسانوں کو کچل رہے ہیں۔ سارے صوبوں کو مل بیٹھ کر اس ایشو کا حل ڈھونڈنا ہو گا۔ ترقی یافتہ ملکوں میں ''آہستہ چلنے والی زرعی گاڑیوں‘‘ کے مسئلے پر توجہ دی جا رہی ہے۔ ان سے بچنے کے لیے عام ڈرائیوروں کو بھی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ اس مسئلے پر صوبے آپس میں لفظی لڑائی لڑیں گے تو فائدہ کسی کو بھی نہیں ہو گا!!

Tuesday, February 18, 2025

کیا ادیب‘ شاعر ہونے کیلئے بیروزگاری ضروری ہے؟


میرا دوست لاہور‘ پنجاب سیکرٹریٹ میں تعینات تھا۔ میں اسے ملنے کے لیے پہنچا تو وہ اپنے دفتر کے باہر کھڑا گاڑی کا انتظار کر رہا تھا۔ گاڑی آئی تو اس نے اپنے ساتھ مجھے بھی بٹھا لیا۔ پوچھا: کہاں جا رہے ہو؟ کہنے لگا: یار اقبال ساجد آ رہا ہے‘ اس لیے فی الحال بھاگنے ہی میں عافیت ہے‘ اس نے آکر پیسے ہی مانگنے ہیں۔ اب بندہ کب تک دیتا رہے۔ اقبال ساجد باکمال شاعر تھا مگر مستقل ذریعۂ آمدنی کوئی نہیں تھا۔ مانگ تانگ کر گزر اوقات ہوتی تھی۔ یہ مصرع اُسی کی ایک غزل کا ہے۔
میں بھوک پہنوں‘ میں بھوک اوڑھوں‘ میں بھوک دیکھوں‘ میں پیاس لکھوں
اقبال ساجد کے علاوہ بھی کچھ ادیب اور شاعر ایسے گزرے ہیں جن کا مستقل ذریعۂ آمدنی نہیں تھا‘ ان سب کی کہانیاں مشہور ہیں۔ یہ قصہ اس لیے یاد آیا کہ چند دن پہلے پاکستان اکادمی ادبیات نے ملک کے اطراف واکناف سے 20 نوجوان ادیبوں اور شاعروں کو اسلام آباد مدعو کیا تھا۔ اکادمی نے ان کے قیام وطعام کا بندو بست کیا تھا۔ انہوں نے اسلام آباد کے شاعروں اور ادیبوں سے ملاقاتیں کیں۔ ایک شام انہوں نے میرے ساتھ بھی بسر کی۔ جہاں اور بہت سی باتیں ہوئیں وہاں میں نے انہیں اس بات کی بھی تلقین کی کہ ادبی مشاغل کے علاوہ کوئی نہ کوئی ایسی مستقل مصروفیت ضرور ہونی چاہیے جس سے باقاعدہ آمدنی حاصل ہوتی رہے کیونکہ پاکستان جیسے ملک میں قلم کے ذریعے روزی کمانا جان جوکھوں کا کام ہے۔ جہاں نثر کی کتاب ہزار کی تعداد میں چھپے اور شاعری کی پانچ سو‘ وہاں ادب سے گھر کیسے چلے گا؟ ایک بار تاشقند میں وہاں کے ادیبوں کے ساتھ گپ شپ ہو رہی تھی۔ اُس وقت ازبکستان کی آبادی دو کروڑ تھی۔ بتایا گیا کہ کسی بھی کتاب کا پہلا ایڈیشن پچاس ہزار چھپتا ہے۔ پھر اگر کتاب ہِٹ ہو جائے تو دو لاکھ کی تعداد میں دوبارہ شائع کی جاتی ہے۔ ازبکستان کی شرح خواندگی سو فیصد ہے۔ ہمارا سرکاری دعویٰ پچپن یا اٹھاون فیصد ہے مگر اصل شرح خواندگی اس سے بہت کم ہے۔ متعدد علاقے ایسے ہیں جہاں خواتین کی تعلیم تو دور کی بات ہے‘ گھر کی خواتین کی تعداد پوچھنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ خواتین کی تعلیم کے حوالے سے افغانستان کے طالبان کا جو مائنڈ سیٹ ہے‘ وہ پاکستان کے کچھ طبقات اور کچھ علاقوں میں بھی بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں قلم اور کتاب کے ذریعے گھر کی رسوئی کا خرچ چلانا ممکن ہی نہیں! چنانچہ ان نوجوانوں کو نصیحت کی کہ ادب کو ایک طرف رکھ کر پہلے بیوی بچوں کے مستقل اور باعزت نان نفقے کا بندوبست کریں۔ کسی سکول کالج میں پڑھانے کا کام ہو یا کسی دفتر میں ملازمت یا کوئی کاروبار‘ روزی کمانے کا مستقل بندوبست لازم ہے۔ ہمارے شاعروں اور ادیبوں میں سے کچھ بیروزگار تو تھے ہی‘ انگور کی بیٹی کے بھی دلدادہ تھے۔ چنانچہ روٹی کیلئے تو مانگتے ہی تھے‘ مے نوشی کیلئے بھی دستِ سوال دراز کرتے تھے۔ کچھ باروزگار ہونے کے باوجود شغلِ بادہ نوشی کے طفیل‘ کنگال رہتے تھے۔ ایک شاعر کو اس کی اہلیہ نے کچھ روپے دیے کہ بچہ بیمار ہے‘ دوا لے کر آؤ۔ موصوف تین دن کے بعد لوٹے! عبد الحمید عدم ملٹری اکاؤنٹس میں کلرک تھے۔ ریٹائرمنٹ سے پہلے اکاؤنٹ افسر ہو گئے تھے۔ ان کے محکمے والے آدھی تنخواہ براہِ راست ان کے اہلِ خانہ کو بھجواتے تھے کیونکہ عدم صاحب گھر کیلئے کچھ بچا نہیں پاتے تھے۔ ان کے اشعار سے ان کے طرزِ زندگی معلوم ہو جاتا ہے۔ جیسے:
لوگ کہتے ہیں عدم نے میگساری چھوڑ دی
افترا ہے‘ جھوٹ ہے‘ بہتان ہے‘ الزام ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ شاعر وہ بہت بڑے تھے۔
بے روزگاروں کی ایک قسم اور بھی ہے۔ یہ شاعر نہیں لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ یہ کوئی باقاعدہ پروفیشن نہیں اپناتے۔ پڑھانے کا کام کرتے ہیں نہ بینکار ہوتے ہیں۔ صحافت میں جاتے ہیں نہ فوج میں‘ نہ کہیں اور ملازمت کرتے ہیں‘ نہ ہی کوئی کاروبار! کبھی کسی ادارے میں عارضی نوکری کر لی‘ کبھی ٹی وی کا کوئی پروگرام مل گیا۔ کبھی کسی تنظیم سے وابستہ ہو گئے۔ انہیں کسی نہ کسی حکومت کے بھی نزدیک رہنا پڑتا ہے۔ چونکہ کسی بھی پروفیشن سے تعلق نہیں رکھتے اس لیے خانہ بدوش 

۷۸(Rolling stone) 

ہی رہتے ہیں۔ باقاعدہ کیریئر اپنانا ہمارے جیسے ملک میں بہت ضروری ہے۔ آپ پرائمری سکول کے استاد ہیں یا فوجی ملازم ہیں‘ وکیل ہیں یا ڈاکٹر ہیں۔ کلرک ہیں یا افسر یا کسی اور پکی ملازمت میں ہیں یا کاروبار کرتے ہیں اور ساتھ ادب سے وابستہ ہیں تو آپ تخلیقی صلاحیتوں کو بہتر طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ آپ کو یہ فکر نہیں کرنا پڑتی کہ اب فلاں ادارے سے وابستہ ہونے کی کوشش کروں یا فلاں نوکری کے لیے وزرا یا حکام کا دروازہ کھٹکھٹاؤں۔ ایسے افراد جو کسی کیریئر سے وابستہ نہیں ہوتے‘ اپنے آپ کو فری لانسر بھی کہتے ہیں۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ فری زیادہ ہوتے ہیں اور لانسر کم! پریم چند پرائمری سکول میں استاد تھے۔ مجید امجد فوڈ کے محکمے میں ملازم تھے۔ ان حضرات کو نان ونمک کے لیے کہیں ہاتھ نہیں پھیلانے پڑے۔ اس کے بر عکس جوش ملیح آبادی کو کئی دروازے کھٹکھٹانے پڑے۔ کہیں بھی مستقل نہ رہ سکے۔ نظام حیدر آباد کے دارالترجمہ میں رہے۔ کچھ عرصہ انڈین حکومت کے رسالہ 'آج کل‘ کے مدیر رہے۔ پاکستان آئے تو کچھ عرصہ ترقیٔ اردو بورڈ میں کام کیا۔ پھر اسے بھی چھوڑ دیا۔ افتادِ طبع کی بھی بات ہوتی ہے۔ کچھ افراد کے پاؤں میں چکر ہوتا ہے۔ کسی ایک جگہ مستقل رہنا یا ایک ہی ادارے سے وابستگی ان کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہوتی! کچھ ادیب اور شاعر بڑے بڑے مناصب پر فائز رہے۔ ڈپٹی نذیر احمد ڈپٹی کلکٹر کے منصب تک پہنچے۔ مولوی چراغ علی نظام کی حکومت میں سیکرٹری فنانس تھے۔ شفیق الرحمان میجر جنرل تھے۔ پطرس بخاری پروفیسر تھے‘ اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر مقرر ہوئے۔ مغربی میڈیا نے ان کی انگریزی کی تقریروں کی دل کھول کر تعریف کی۔
بادشاہوں اور درباروں کے زمانے میں شاعروں اور ادیبوں کی بے روزگاری چھپ جاتی تھی۔ قصیدہ خوانی کرکے کسی نہ کسی حکمران یا نواب کے دربار سے وابستہ ہو جاتے تھے۔ یوں رزق کا بندوبست ہو جاتا تھا۔ یہ اور بات کہ حضورِ شاہ دست بستہ کھڑا رہنا پڑتا تھا۔ مغل عہد میں شعرا ایران سے یوں آتے رہے جیسے چیونٹیوں کی قطار چلتی ہے۔ صرف ایک مثال دیکھیے۔ نظیری نیشا پوری ایران سے چلا اور آگرہ پہنچ کر عبد الرحیم خانِ خاناں کا قصیدہ کہا۔ پھر خانخاناں کی وساطت سے اکبر تک رسائی ہوئی۔ جہانگیر تخت نشین ہوا تو اس کی تعریف میں قصیدہ پیش کیا۔ انعام میں بادشاہ نے ایک ہزار روپے نقد‘ خلعت اور گھوڑا عطا کیا۔ ایک اور قصیدے کے عوض بادشاہ نے زمین بھی دی۔ مانگنے کے بھی طریقے تھے‘ خانخاناں سے کہنے لگا کہ میں نے ایک لاکھ روپے کا ڈھیر کبھی نہیں دیکھا۔ خانخاناں نے ڈھیر لگوا دیا۔ نظیری نے خوشامد کی کہ خدا کا شکر ہے آپ کی بدولت لاکھ روپے کا ڈھیر دیکھ لیا۔ خانخاناں نے وہ روپیہ اسی کے گھر میں بھجوا دیا۔ آج کل کے زمانے میں بیرونِ ملک کے مشاعرے ان درباروں کے ایک لحاظ سے نعم البدل ہیں۔ قصائد کا دور نہیں مگر بیرونِ ملک رہنے والوں کو دیوان کے دیوان لکھ کر دیے جاتے ہیں جو وہ اپنے نام سے چھپوا کر شاعرہ یا شاعر ہونے کی حسرت پوری کرتے ہیں۔ یہ شعرا وہاں جا کر فرمائشیں بھی کرتے ہیں اور شَرَبَ یَشرِبُ کا شوق بھی پورا کرتے ہیں۔ منیر نیازی نے ایک مرحوم شاعر کے بارے میں کہا تھا کہ باہر سے آٹا ملے تو وہ بھی لے آتا ہے۔
بہرطور نوجوان نسل جو ادب سے وابستگی کا شوق رکھتی ہے‘ لازم ہے کہ کیریئر کی طرف بھی توجہ دے۔ روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر!

Monday, February 17, 2025

ایک کالم پنجاب پولیس کی تعریف میں


پنجاب پولیس سے میری محبت بے وجہ نہیں! یہ جو میں پنجاب پولیس پر صدقے قربان ہوتا ہوں تو اس کے پیچھے اس کی بے مثال فرض شناسی ہے۔
پنجاب پولیس کا بنیادی فرض کیا ہے؟ جرائم کی روک تھام! اس وقت جب یہ کالم لکھا جا رہا ہے‘ سامنے لاہور کی خبروں والا صفحہ کھلا ہے۔ لکھا ہے‘ کاہنہ سے ایک لاکھ 35 ہزار نقد اور زیورات‘ گرین ٹاؤن سے ایک لاکھ تیس ہزار روپے اور موبائل فون‘ غازی آباد سے ایک لاکھ بیس ہزار روپے اور موبائل فون‘ مغل پورہ سے ایک لاکھ دس ہزار روپے اور موبائل فون‘ لاری اڈا سے ایک لاکھ پانچ ہزار روپے اور موبائل فون اور دیگر سامان لوٹ لیا گیا۔ ڈیفنس اور گارڈن ٹاؤن سے گاڑیاں جبکہ مزنگ‘ مانگا منڈی اور یکی گیٹ سے موٹر سائیکلیں چوری ہو گئیں۔ ایک دن پہلے کا اخبار دیکھتا ہوں۔ شمالی چھاؤنی سے ایک لاکھ بیس ہزار روپے اور زیورات‘ نشتر کالونی سے ایک لاکھ دس ہزار روپے اور موبائل فون‘ لیاقت آباد سے ایک لاکھ روپے اور موبائل فون‘ راوی روڈ سے ایک لاکھ روپے اور موبائل فون‘ گلشن راوی‘ انار کلی‘ ساندہ اور بادامی باغ سے گاڑیاں‘ فیصل ٹاؤن‘ شاہدرہ اور سول لائنز سے موٹر سائیکل چوری ہو گئے۔ تھانہ فیکٹری ایریا شیخوپورہ کے علاقے میں ڈاکوؤں نے دورانِ مزاحمت پستول کے بٹ مار کر شہری کو زخمی کر دیا اور اسّی ہزار روپے نقد مع قیمتی موبائل فون چھین کر فرار ہو گئے۔ اُس سے ایک دن پہلے بھی ایسی ہی خبروں سے صفحہ بھرا تھا۔ ایک دن اور پیچھے جاتا ہوں۔ بادامی باغ‘ گجر پورہ‘ مناواں‘ مانگا منڈی اور کاہنہ سے لاکھوں روپے اور بیسیوں موبائل فون لوٹے گئے۔ نولکھا‘ شادمان‘ سبزہ زار‘ نشتر کالونی‘ مانگا منڈی اور سندر سے گاڑیاں اٹھا لی گئیں جبکہ اسلام پور‘ شاہدرہ‘ فیکٹری ایریا‘ شالیمار اور سبزہ زار سے موٹر سائیکل چوری کیے گئے۔ یہ صرف چار دن کے وہ واقعات ہیں جو میڈیا نے رپورٹ کیے ہیں۔ منطق کہتی ہے کہ جو واقعات رپورٹ نہیں ہوئے ان کی تعداد بہت زیادہ ہو گی۔ پھر یہ صرف لاہور اور اس کی نواحی بستیوں میں رونما ہونے والے واقعات ہیں۔ ملتان‘ فیصل آباد‘ پنڈی‘ گوجرانوالہ‘ سیالکوٹ جیسے بڑے شہروں میں جو کچھ ان چار دنوں میں ہوا اس کا ذکر ان کے علاوہ ہے۔ رہے ضلعی شہر اور تحصیل لیول کے قصبے تو ان تک میڈیا کی رسائی ہی کم ہے‘ تاہم اطمینان کی بات یہ ہے کہ یہ واقعات جرائم میں شمار نہیں ہوتے۔ پنجاب پولیس کی توجہ اصل جرائم کی طرف ہے اور اصل جرائم اس کی دوربین‘ تیز نگاہوں سے نہیں بچ سکتے! لاہور کی پولیس نے ایک ہوٹل پر چھاپہ مارا۔ ہوٹل میں ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے ڈانس پارٹی ہو رہی تھی۔ خواتین سمیت پندرہ افراد کو اس پارٹی سے گرفتار کر لیا گیا۔ ملزمان سے حقہ‘ شیشہ اور ساؤنڈ سسٹم برآمد کر کے مقدمہ درج کر لیا گیا۔ اس خبر کا ضمیمہ تو ماسٹر پیس ہے۔ علاقے کے ایس پی صاحب نے فرمایا ہے کہ ''جرائم‘‘ کی روک تھام کے لیے بلا امتیاز کارروائیاں جاری ہیں۔ ہوٹل کی چار دیواری کے اندر جو مرد وخواتین پارٹی کر رہے تھے‘ اگر وہ زیورات چوری کرتے‘ موبائل فون چراتے‘ نقدی لوٹتے یا گاڑیاں اور موٹر سائیکل چراتے یا چھینتے تو انہیں یقینا کچھ نہ کہا جاتا کیونکہ اصل جرائم میں چوری‘ ڈاکہ اور لوٹ مار جیسے بے ضرر اقدامات شامل نہیں۔ اصل جرائم میں گھر یا ہوٹل کی چار دیواری کے اندر پارٹی سے لطف اندوز ہونا شامل ہے۔ اور پھر حقہ اور شیشہ پینا تو ایسے جرائم ہیں جو چوری‘ ڈاکے‘ قتل‘ ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی جیسی معصوم حرکتوں کے مقابلے میں کئی سو گنا زیادہ گھناؤنے جرائم ہیں! اور ساؤنڈ سسٹم؟ اللہ اللہ! ساؤنڈ سسٹم کے بجائے اگر ان ''مجرموں‘‘ کے قبضے سے ناجائز اسلحہ‘ راکٹ اور بم یا ہیروئن نکلتی تو انہیں چھوڑا جا سکتا تھا مگر ساؤنڈ سسٹم! ساؤنڈ سسٹم تو ایٹم بم سے زیادہ مہلک اور ہائیڈروجن بم سے زیادہ خطرناک ہے۔
چلیں! یہ سب تو طنز تھا۔ سوال یہ ہے کہ ان چیزوں سے ہم کب نکلیں گے؟ ملک جرائم سے اَٹا پڑا ہے۔ قتل ایک سال میں جتنے ہوتے ہیں شمار سے باہر ہیں! ہر شہر‘ ہر قصبے میں چوریاں اور ڈاکے بے حساب پڑ رہے ہیں۔ اغوا کے کیس لا تعداد ہیں۔ ٹیکس چور کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں۔ بچوں کے دودھ میں ملاوٹ ہو رہی ہے۔ جعلی دواؤں کی فیکٹریاں چل رہی ہیں۔ ذخیرہ اندوزی اور ناروا نفع خوری زوروں پر ہے۔ پولیس ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو کیوں نہیں پکڑتی؟ ایف آئی آر کٹوانے کے مراحل میں لوگ ذلیل وخوار ہو رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ہو رہا ہے مگر پولیس رقص کرنے والوں کو گرفتار کر رہی ہے۔ تھیٹر میں رقص ہو رہا ہے۔ فلموں میں رقص ہو رہا ہے۔ ویلنٹائن ڈے پر رقص کرنا جرم کیسے ہو گیا؟ اس کالم نگار نے ویلنٹائن ڈے کبھی نہیں منایا۔ مگر جو منانا چاہتے ہیں انہیں کس قانون کی رُو سے پکڑا جا رہا ہے؟ کیا وہ امنِ عامہ میں خلل ڈال رہے ہیں؟ حقہ‘ شیشہ اور ساؤنڈ سسٹم رکھنا جرم کیسے ہو گیا؟
بسنت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ مہلک ڈور بنانے والوں اور استعمال کرنے والوں کو ''لائق‘‘ پولیس پکڑ نہیں سکتی‘ اس لیے پتنگ اڑانے کو ہی جرم قرار دے دیا گیا۔ اگر چند ڈرائیور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کریں تو کیا تمام گاڑیاں بند کر دو گے؟ اگر چند ڈاکٹروں کی ڈگریاں جعلی نکل آئیں تو کیا سارے ہسپتال مقفل کر دو گے؟ یہ کیسی مستعدی اور کارکردگی ہے؟ بسنت کا تہوار صدیوں سے منایا جا رہا ہے! پولیس چاہے تو مہلک ڈور بنانے‘ بیچنے اور خریدنے والوں کو سات زمینوں کے نیچے سے بھی پکڑ سکتی ہے۔ پولیس کو اچھی طرح معلوم ہے کہ دھاتی ڈور کہاں کہاں بن رہی ہے اور کون کون بیچ رہا ہے۔ ان قاتل صفت درندوں کو پھانسی پر لٹکانے کے بجائے آپ نے تہوار ہی کا گلا گھونٹ دیا! ٹوپی چھوٹی ہو تو سر نہیں کاٹتے‘ ٹوپی کا سائز بڑا کرتے ہیں۔ مگر آپ تو سر پر ہی رندا پھیرنا شروع ہو گئے!
ایک بچے کے ماں باپ سکول میں بچوں کی استانی کو ملنے گئے۔ باپ خوش شکل استانی کو مسلسل دیکھے جا رہا تھا۔ استانی نے بچے کے باپ کو کہا کہ ''جتنی توجہ آپ مجھ پر دے رہے ہیں اس سے آدھی توجہ بچے پر دیتے تو بچے کا پڑھائی میں یہ حال نہ ہوتا!!‘‘ پولیس جتنی کارکردگی ویلنٹائن ڈے پر اور نئے سال کی رات پر دکھاتی ہے اس سے آدھی بھی چوروں‘ ڈاکوؤں اور قاتلوں کو پکڑنے میں لگائے تو یہ ملک جنت بن جائے مگر بات وہی ہے کہ سائیکل کی ہر شے بج رہی ہے سوائے گھنٹی کے۔ کوئی جوڑا پارک میں بیٹھا ہے تو اس سے نکاح نامہ مانگا جائے گا۔ کبھی کسی کا منہ سونگھا جا رہا ہے۔ محلوں اور گلیوں میں عوام نے اپنے خرچ پر چوکیدار رکھے ہوئے ہیں۔ گاڑیوں پر ٹریکر لگانے پڑتے ہیں۔ واردات کی شکایت کرنے کوئی تھانے میں آ جائے تو اس کی زندگی اجیرن کر دی جاتی ہے۔ پولیس کا نام سن کر شریف لوگوں کو ہول پڑنے لگتے ہیں۔ ٹریفک پولیس پر قومی خزانے سے اٹھنے والے اخراجات دیکھیے اور ٹریفک پولیس کی کارکردگی دیکھیے۔ رات کو وفاقی دارالحکومت کی کسی بھی سڑک کے کنارے دس منٹ کے لیے کھڑے ہو کر سروے کر لیجیے‘ نوے فیصد موٹر سائیکلوں کی پیچھے والی بتیاں کام نہیں کر رہیں‘ سامنے کی لائٹوں کے بغیر چلنے والی گاڑیوں کی تعداد بھی ہوشربا ہے۔ موٹر سائیکل ٹریفک کے لیے کینسر بن چکے ہیں۔ ٹریفک پولیس کہاں ہے‘ کیا کر رہی ہے؟ کوئی پوچھنے والا نہیں! عام شہری کی پولیس کے بڑے افسر وں تک رسائی ہی ممکن نہیں!
نجم حسین سید کا لکھا ہوا ڈرامہ یاد آجاتا ہے۔ تھانے میں بے گناہ عورت کو مارا جا رہا تھا۔ مولوی صاحب کا گزر ہوا تو عورت کو ڈانٹا کہ سر پر دوپٹہ نہیں ہے‘ سیدھی جہنم میں جاؤگی! ویلنٹائن ڈے اور بسنت سے پرہیز کیجیے۔ چوریوں اور ڈاکوں کی خیر ہے۔

Thursday, February 13, 2025

میڈم چیف منسٹر


مکان باپ کے نام تھا۔ وہ بیٹے کے نام کرانا چاہتا تھا۔ باپ بیٹا کچہری گئے۔ متعلقہ اہلکار نے 25 ہزار روپے مانگے۔ پوچھا کہ کیا اس کی رسید ملے گی۔ جواب ملا کہ رسید ملے گی نہ اب کام ہو گا۔ باپ بیٹے نے کسی نہ کسی طرح ایڈیشنل کمشنر ریونیو کو پکڑا۔ سفارش تگڑی تھی۔ چائے بھی پلائی گئی اور مکان کا انتقال بھی ہو گیا۔ سرکاری فیس ڈیڑھ ہزار روپے کے لگ بھگ تھی۔
گاؤں سے ایک عزیز کا فون آیا کہ زرعی رقبے کی نشان دہی کرانی ہے۔ بہت کوششیں کیں اور منت سماجت مگر متعلقہ سٹاف گھاس نہیں ڈال رہا۔ جو لوگ دیہی پس منظر رکھتے ہیں جانتے ہیں کہ ''نشان دہی‘‘ کیا چیز ہے اور کتنی ضروری ہے۔ تحصیلدار صاحب تک رسائی ہوئی۔ تب جا کر یہ کام ہوا۔
پنجاب ہی کی بات ہے۔ ہمارے ایک دوست نے زرعی فارم بنایا۔ شوق تھا۔ زندگی بھر کی پونجی لگا دی۔ اب پھر دیہی پس منظر کی بات آگئی۔ ایک شے ہوتی ہے ''گرداوری‘‘۔ یہ محکمہ مال یعنی کچہری والے کرتے ہیں۔ متعلقہ محکمے نے اس کے لیے چار لاکھ روپے کا مطالبہ کیا۔
یہ فقط تین مثالیں پیش کی ہیں۔ کورٹ کچہری کی دنیا ہی الگ ہے۔ گاؤں ہو یا شہر‘ کورٹ کچہری سے چھٹکارا نہیں۔ زرعی زمین کے تو خیر بے شمار مسائل ہیں۔ ''فرد‘‘ نکلوانا ہی کارے دارد ہے۔ ایک شے ہوتی ہے ''لٹھا‘‘ وہ بھی پٹواری بہادر کے پاس ہوتا ہے۔ زرعی زمین بیچنی ہو یا خریدنی ہو‘ لگ پتا جاتا ہے۔ انسانیت کی جتنی تذلیل ان کاموں کے لیے کچہریوں میں ہوتی ہے‘ کم ہی کہیں اور ہوتی ہو گی۔ شہر کی جائداد‘ مکان‘ پلاٹ کی خرید و فروخت میں بھی فریقین رُل جاتے ہیں۔ آج کل جدید ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا دور ہے۔ ان میں کچہری سے واسطہ عام طور پر نہیں پڑتا۔ سی ڈی اے اور ایل ڈی اے میں کیا ہوتا ہے‘ یہ آج کے موضوع سے خارج ہے۔ مگر شہر میں رہنے والے کو بھی جب کچہری میں جانا پڑتا ہے‘ ہوش ٹھکانے آ جاتے ہیں۔ آپ ذرا کچہری کے اہلکاروں کی تنخواہوں کے سکیل دیکھیے۔ نومبر 2023ء میں ان کے سکیل بڑھائے گئے۔ محکمہ مال کے ذرائع کے مطابق پٹواری کا سکیل نو سے بڑھا کر گیارہ اور گرداور کا گیارہ سے چودہ کیا جا رہا تھا۔ نائب تحصیلدار کا سکیل چودہ سے سولہ کیا جا رہا تھا۔ دوسری طرف ان اہلکاروں کے ٹھاٹ دیکھیے تو آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ میرا‘ ایک سکول کے زمانے کا کلاس فیلو پڑھائی میں بہت اچھا تھا۔ ادھر میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایم اے اکنامکس کرنے گیا‘ اُدھر وہ ہیلے کالج آف کامرس میں ایم کام میں داخل ہو گیا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہیلے کالج برصغیر میں کامرس کی تعلیم کے لیے صفِ اول کا ادارہ ہے۔ یہ 1927ء میں وجود میں آیا۔ اس کے لیے سر گنگا رام نے اپنی پراپرٹی ''نابھا ہاؤس‘‘ عطیے کے طور پر دی تھی۔ اُس وقت پنجاب کا گورنر  

Sir  Malcolm Hailey

 تھا۔ اسی کے نام پر کالج کا نام ہیلے کالج رکھا گیا۔ میں ڈھاکہ یونیورسٹی سے اکنامکس میں ایم اے کر کے آچکا تھا۔ ہم اسلام آباد میں رہتے تھے۔ ایک دن اسی کلاس فیلو کا خط آیا کہ وہ فلاں دن اسلام آباد آرہا ہے‘ ملازمت کے لیے انٹر ویو دینا ہے۔ اور یہ کہ میرے پاس ہی قیام کرے گا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ اس نے ہیلے کالج سے ایم کام کیا ہے اور اچھے نمبروں سے کیا ہے اس لیے انٹرویو یا تو لیکچرر شپ کے لیے ہو گا یا بینک کی ملازمت کے لیے۔ مگر جب وہ آیا تو یہ بتا کر مجھے حیران کر دیا کہ انٹرویو نائب تحصیلدار کی پوسٹ کے لیے ہے۔ اس وقت نائب تحصیلدار دس یا گیارہ گریڈ میں تھا۔ پوچھا تو اس نے بغیر کسی تکلف کے بتایا کہ یار! اس میں اوپر کی آمدنی بہت ہے۔ یہ اوپر کی آمدنی جو پٹواری سے آغاز ہوتی ہے‘ اوپر کہاں تک جاتی ہے؟ ہم سب جانتے ہیں کہ کہاں تک جاتی ہے!! یہ وہ اوپن سیکرٹ ہے جس سے بچہ بچہ آگاہ ہے!
یہی قیامت تھانوں میں بھی برپا ہے۔ مہذب ملکوں میں جہاں واردات ہو وہاں پولیس خود پہنچتی ہے۔ یہاں واردات کا ڈسا ہوا خود پولیس کے حضور پیش ہوتا ہے اور پھر جو کچھ ہوتا ہے‘ راز نہیں ہے بلکہ ضرب المثل ہے! ایف آئی آر کٹوانا کوہِ ہمالیہ سر کرنے کے برابر ہے۔ کتنے معاملات میں ایف آئی آر بغیر سفارش اور دباؤ کے کٹ جاتی ہے‘ ہم سب بخوبی جانتے ہیں! جو نوجوان میری گاڑی چلاتا ہے‘ اس نے ایک پرانی مہران گاڑی رکھی ہوئی تھی جسے ڈیوٹی کے بعد ٹیکسی کے طور چلا کر بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔ پرسوں رات وہ اس کے گھر کے سامنے سے چوری ہو گئی۔ ایف آئی آر کے لیے متعلقہ ایس ایچ او صاحب سے مجھے دو بار گزارش کرنا پڑی تب جا کر کٹی۔ مگر گاڑی ملنے کا امکان صفر ہی کے برابر ہے۔ مل جائے تو معجزہ ہو گا۔ یہ تو خیر وفاقی دار الحکومت کی بات ہے‘ پنجاب میں صورت حال قطعاً مختلف نہیں! صرف ایک دن‘ جی ہاں صرف ایک دن کے اخبارات میں فقط بڑے شہروں میں ہونے والی چوریوں‘ ڈاکوں اور وارداتوں کی خبریں پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ جیسے پنڈی‘ لاہور‘ ملتان اور فیصل آباد۔ ضلعی اور تحصیل ہیڈ کوارٹروں کو تو چھوڑ ہی دیجیے۔ یوں معلوم ہوتا ہے پولیس کا وجود ہی نہیں!
اس عزاداری کا مقصد وزیراعلیٰ پنجاب کی توجہ اس طرف دلانا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ محترمہ مریم نواز دن رات محنت کر رہی ہیں‘ بہت فعال ہیں اور اپنے منصوبوں میں از حد سنجیدہ ہیں! یہ الگ بات کہ منصوبے کثیر تعداد میں شروع کر رہی ہیں۔ منصوبے کم تعداد میں ہوں اور زیادہ توجہ حاصل کریں تو نتائج بہتر نکلتے ہیں۔ مگر یہ آج کا موضوع نہیں! چیف منسٹر صاحبہ اگر واقعی صوبے میں کوئی انقلابی کام کرنا چاہتی ہیں تو کچہری اور تھانے کا کلچر بدلیں۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ کسی ایک کچہری میں بھی رشوت (یا سفارش) کے بغیر کام نہیں ہو رہا۔ 77 برسوں میں اس لعنت کا خاتمہ ہوا نہ کسی نے اس طرف توجہ دی۔ کیا کوئی کمشنر‘ کوئی ڈی سی‘ کوئی اے سی‘ آسمانی کتاب پر ہاتھ رکھ کر دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس کے نیچے جو ضلع کچہری یا تحصیل ہے اس میں رشوت کے بغیر کام ہو رہا ہے؟؟ کوئی ہے تو یہ چیلنج قبول کرے اور دعویٰ کرکے دکھائے! چیف منسٹر صاحبہ بھیس بدل کر تحصیلوں اور ضلعوں کی کچہریوں میں جا کر دیکھیں۔ انتقال کا یا نشان دہی کا یا گرداوری کا کوئی کام عام پاکستانی کی حیثیت سے لے کر جائیں اور دیکھیں کہ کیا ہوتا ہے؟ کسی تھانے میں بھیس بدل کر جائیں اور ایف آئی آر کی درخواست دے کر دیکھیں۔ تب معلوم ہو گا کہ کیا ہو رہا ہے!
کچہریوں اور تھانوں کی تطہیر آسان کام نہیں! یہ جان جوکھوں کا سفر ہے۔ لیکن اگر وزیراعلیٰ صوبے کے لیے واقعی کچھ کرنا چاہتی ہیں تو کچہریوں اور تھانوں سے رشوت کا خاتمہ کریں۔ یہ کیسے ہو گا؟ اس کے لیے میکانزم انہیں خود بنانا ہو گا۔ اس کام میں سب سے بڑی رکاوٹ سول سروس کے وہ دو طائفے ہیں جو کچہریوں اور تھانوں کے انچارج ہیں! اگر چیف منسٹر صاحبہ یہ جہاد انہی طائفوں کے ذریعے کرنا چاہیں گی تو یہ ایسے ہی ہو گا جیسے گاڑی چلاتے وقت بریک پر پاؤں رکھ دینا!! سول سروس کے یہی دو برہمن گروپ ہی تو مسئلے کا حصہ ہیں! مسئلے کے حل میں انہیں کیسے شریک کیا جا سکتا ہے!! عالی قدر! چیف منسٹر صاحبہ! خدا آپ کا وقار اور اقتدار قائم و دائم رکھے یہ کام کر ڈالیے ورنہ:
گر یہ نہیں تو بابا! پھر سب کہانیاں ہیں!!

Tuesday, February 11, 2025

میں کا علاج ( ۲)

بات ہو رہی تھی کہ بادشاہ بھیس بدل کر راتوں کو شہروں میں گھومتے تھے۔ بہت سے دن کو بھی ایسا کرتے تھے۔ زبانی روایت ہے کہ سعودی بادشاہ عبد العزیز بھیس بدل کر تنور پر روٹی خریدنے گیا۔ روٹی کو تولا تو وزن کم تھا۔ اس نے تنورچی کو تنور میں ڈال دیا۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد آج تک روٹی کا وزن کم نہیں ہوا۔ ایک اور بادشاہ کی کہانی ہے کہ بھیس بدل کر دن کو بازار میں پھر رہا تھا۔ گھوڑا گاڑی والے سے کہا کہ فلاں جگہ جانا ہے۔ کیا اتنے روپے کافی ہوں گے۔ اس نے کہا اور اوپر جاؤ‘ بادشاہ نے کرائے کی رقم بڑھا دی۔ کوچوان نے کہا اور اوپر جاؤ‘ بادشاہ نے رقم اور بڑھا دی۔ کوچوان کہنے لگا‘ بجاؤ تالی۔ مطلب یہ تھا کہ ٹھیک ہے۔ سودا ہو گیا۔ بادشاہ گھوڑا گاڑی پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد کوچوان کی چھٹی حِس نے اسے بتایا کہ یہ گاہک کوئی عام آدمی نہیں لگتا۔ پوچھا آپ کوئی عہدیدار ہیں؟ بادشاہ نے کہا: اوپر جاؤ۔ پوچھا: درباری ہیں؟ کہا: اور اوپر جاؤ۔ پوچھا بہت بڑے افسر ہیں؟ کہا: اور اوپر جاؤ۔ پوچھا: وزیر ہیں؟ کہا: اور اوپر جاؤ۔ پوچھا: وزیراعظم ہیں؟ کہا: اور اوپر جاؤ۔ اب کوچوان نے کہا کہ پھر آپ بادشاہ ہیں؟ بادشاہ نے کہا: بجاؤ تالی! اب بگھی والا خوف زدہ ہو گیا۔ اسے اپنے جرم کا بھی احساس ہوا۔ کہنے لگا میں نے کرایہ ناجائز حد تک زیادہ مانگا۔ کیا سزا میں مجھے جرمانہ ہو گا؟ بادشاہ نے کہا: اوپر جاؤ۔ پوچھا: کوڑے لگیں گے؟ کہا: اور اوپر جاؤ۔ پوچھا: قید کی سزا ملے گی؟ کہا: اور اوپر جاؤ۔ اب کوچوان نے کہا کہ کیا پھانسی دی جائے گی؟ بادشاہ نے کہا: بجاؤ تالی!

آپ اپنے منصب کا اپنے ہم سفر کو بتائیں گے تو کئی منفی نتائج نکل سکتے ہیں۔ ایک امکان تو یہ ہے کہ وہ مرعوب ہو جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ مؤدب‘ محتاط اور خاموش ہو جائے گا۔ تمام سفر کے دوران وہ آسودگی اور اطمینان سے محروم رہے گا۔ آپ کو خوش کرنے کی اپنی سی کوشش کرتا رہے گا۔ اس سے آپ بھی سکون سے محروم ہو جائیں گے۔ دوسرا امکان یہ ہو گا کہ اگر وہ مرعوب نہ ہوا تو وہ مسائل بتانا شروع کر دے گا جو اسے آپ کے ادارے میں درپیش آتے ہیں۔ اس داستانِ الم سے بھی آپ کا سفر بیزاری میں کٹے گا۔ تیسرا امکان یہ ہے کہ وہ آپ کے ادارے کے خلاف ایک طویل تقریر شروع کر دے گا۔ اگر اس نے آپ کو بحث میں الجھا لیا تو یہ ایک اور درد سر ہو گا۔ بہترین سفر وہی ہوتا ہے کہ آپ اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے مسافر سے کوئی بات نہ کریں۔ یوں آپ ٹرین یا جہاز میں سو بھی سکتے ہیں‘ سوچ بھی سکتے ہیں اور کتاب کا مطالعہ بھی کر سکتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست ٹرین میں پنڈی سے کراچی جا رہے تھے۔ ساتھ بیٹھے مسافر سے پوچھ بیٹھے کہ کیا کام کرتے ہیں۔ یہ ایک چابی تھی جو انہوں غلطی سے اسے دے دی۔ اس کے بعد وہ صاحب کراچی تک خاموش نہ ہوئے۔ یہاں تک کہ جب سیڑھی چڑھ کر اوپر کی برتھ پر جارہے تھے تو اس دوران بھی گفتگو جاری رکھی۔ آپ استاد ہیں یا تاجر‘ کمشنر ہیں یا پولیس مین‘ صحافی ہیں یا وکیل‘ ڈاکٹر ہیں یا عسکری ملازم‘ تعارف آپ کو کئی پریشانیوں اور الجھنوں میں ڈال سکتا ہے۔ ہاں اگر کوئی کرید کر پوچھے یا جہاں ضروری ہو‘ وہاں بتانا ہی پڑتا ہے۔ ہمارے ایک دوست جو بہت بڑے افسر تھے‘ سرکاری کام پر ہوائی جہاز سے گلگت گئے۔ واپسی پر کئی دن جہاز نہیں ملا۔ ایسا وہاں اکثر ہوتا ہے۔ اس میں نہاد قومی ایئر لائن کی بدانتظامی اور دروغ گوئی کا بھی کردار ہے۔ انہیں جیپ کی پیشکش کی گئی مگر اس کا انہیں تلخ تجربہ تھا۔ ماضی میں ایک بار وہ جیپ میں ڈرائیور کے ساتھ گلگت جا رہے تھے تو لینڈ سلائیڈ کی وجہ سے شاہراہ مسدود تھی۔ انہیں رات جیپ میں گزارنا پڑی۔ بس وہ تھے اور ڈرائیور! جنگلی جانور بھی تھے اور کھانے کو بھی کچھ نہ تھا۔ اب کے انہوں نے جیپ پر واپس جانے سے انکار کر دیا اور بس سے واپس آنے کا فیصلہ کیا کہ کم از کم ہمہ یاراں دوزخ تو ہو گا! دن کے دو بجے بس گلگت سے چلی۔ دوسرے دن صبح دس بجے راولپنڈی پہنچنا تھی۔ ان کے ساتھ جو صاحب بیٹھے تھے‘ ان سے بات چیت شروع کی۔ وہ انہی کے ادارے کا ایک اہلکار تھا۔ عجیب بات یہ تھی کہ اس اہلکار نے ان سے نہ پوچھا کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا بھی نہیں۔ یہ اہلکار ادارے کے سربراہ کو یعنی ان صاحب کو خوب گالیاں دے رہا تھا۔ اس کو دکھ یہ تھا کہ اسے گلگت پوسٹ کیا گیا ہے۔ راستے میں چائے پانی کیلئے جہاں بھی بس رکی‘ انہوں نے چائے کھانے کا اس کا بھی بل اصرار سے ادا کیا۔ دو تین بار اس سے انجان بن کر پوچھا کہ میں بھول گیا ہوں آپ کس ادارے میں کام کرتے ہیں؟ وہ ادارے کا نام بتاتا اورکچھ برا بھلا مزید کہہ دیتا۔ بہر طور سفر کٹ گیا۔ صبح دس بجے بس پنڈی پہنچی تو انہوں نے اس ہم سفر سے کہا کہ ہم اتنی دیر ایک دوسرے کے ساتھی رہے ہیں‘ میرا گھر ساتھ ہی ہے‘ آپ میرے ساتھ آئیں‘ نہا دھو لیں۔ اس موقع پر انہوں نے ایک بار پھر محکمے کا نام پوچھا اور یہ بھی بتایا کہ انہیں بھولنے کا عارضہ لاحق ہے۔ بہر طور وہ اسے گھر لے آئے۔ بڑا سا سرکاری گھر اور کمرے میں کتابوں کے انبار دیکھ کر وہ کچھ ٹھٹکا۔ نہایا دھویا۔ کھانا کھایا۔ چائے پی۔ جانے لگا تو انہوں نے بتایا کہ تمہارے محکمے کا سربراہ میں ہی ہوں۔ اس نے معافی مانگی تو انہوں نے ہنس کر اسے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں۔ پھر انہوں نے دفتر فون کیا کہ اس شخص کا کام فوراً کیا جائے اور اس کا بہت خیال رکھا جائے۔ ذرا سوچیے کہ اگر وہ اسے اپنا تعارف شروع ہی میں کرا دیتے تو دونوں کا سفر تکلف‘ تکلیف اور اذیت میں کٹتا۔
اب ایک اور واقعہ سنیے جو بہت مشہور اور منقول ہے۔ ممکن ہے بہت سوں نے پڑھا یا سنا بھی ہو مگر واقعہ انتہائی دلچسپ اور سبق آموز ہے۔
ایک نوجوان ڈپٹی کمشنر چیف سیکرٹری کو ملنے کے لیے لاہور میں اعلیٰ افسروں کی کالونی میں گیا۔ ایک سرکاری گھر کے لان میں ایک شخص بڑی قینچی کے ساتھ باڑ کاٹ رہا تھا۔ ڈپٹی کمشنر نے اسے انگلی کے اشارے سے بلایا اور چیف سیکرٹری کے گھر کا پتا پوچھا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے بتانا چاہا مگر ڈپٹی کمشنر نے اسے ساتھ چل کر دکھانے کو کہا اور ڈرائیور کے ساتھ بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ شخص اسی طرح قینچی اٹھائے اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا اور چیف سیکرٹری کا گھر دکھا کر واپس پیدل چلا آیا۔
چیف سیکرٹری نے ڈپٹی کمشنر کو جس کام کے لیے طلب کیا تھا وہ یہ تھا کہ چیف جسٹس آف لاہور ہائی کورٹ کے اعزاز میں عشائیہ تھا جس کی سکیورٹی کے تمام تر انتظامات اسے کرنا تھے۔ عشائیہ کے روز ڈپٹی کمشنر دن بھر سکیورٹی کے انتظامات میں مصروف رہا‘ شام کے وقت جب چیف جسٹس کی گاڑی آئی تو وہ خود وہاں سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ موجود تھا۔ پولیس کا دستہ سلامی دینے کے لیے الرٹ ہو گیا۔ ڈپٹی کمشنر نے خود آگے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھولا۔ جیسے ہی چیف جسٹس نے گاڑی سے باہر قدم رکھا‘ ڈپٹی کمشنر کے ہوش اُڑ گئے۔ یہ تو وہی آدمی تھا جس کی اس نے مالی سمجھ کر اہانت کی تھی۔ وہ بہت زیادہ پریشان ہو گیا۔ چیف جسٹس نے اس کی حالت کو دیکھتے ہوئے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے تسلی دیتے ہوئے کہا: نوجوان ! کوئی بات نہیں‘ حوصلہ رکھو‘ زندگی بہت کچھ سکھاتی ہے۔ وہ جسٹس ایم آر کیانی تھے‘ نہایت منکسرالمزاج طبیعت کے مالک۔
یہ معلوم نہیں کہ اس واقعہ کا اصل راوی کون ہے۔

Thursday, February 06, 2025

ایک اور کشمیر کانفرنس


ماشاء اللہ! ایک اور ''قومی کشمیر کانفرنس‘‘ منعقد ہو چکی!
ذرا عزائم اور اعلانات دیکھیے: حکومت کشمیر پر اے پی سی بلائے۔ جنرل باجوہ کی کشمیر پر سودے بازی کی باتوں پر وضاحت دی جائے۔ عالمی برادری کشمیریوں کا حق خودارادیت تسلیم کرے۔ جموں وکشمیر کا تنازع کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ کشمیری متاثرین کو نیورمبرگ ٹرائلز 

(Nuremberg Trials) 

کی طرح بین الاقوامی فوجداری عدالت اور عالمی عدالت انصاف کے ذریعے انصاف دلایا جائے۔
یہ تو صرف فرشتوں ہی کو معلوم ہوگا کہ یہ کِتویں کشمیر کانفرنس تھی؟ ویسے پوچھا جا سکتا ہے کہ اب تک کی منعقد کردہ کشمیر کانفرنسوں پر آج تک قومی خزانے سے کتنا خرچ ہو چکا ہے اور ان کانفرنسوں سے آزادیٔ کشمیر کی منزل کس قدر نزدیک تر ہوئی؟ کچھ اور سوال بھی پوچھے جانے چاہئیں۔ حکومت اے پی سی بلائے گی تو پھر کیا ہوگا؟ کیا اس سے کشمیر آزاد ہو جائے گا؟ یہ کسے کہا جا رہا ہے کہ جنرل باجوہ کی کشمیر پر سودے بازی کی باتوں پر وضاحت دی جائے؟ جنرل باجوہ پاکستان میں موجود ہیں! آپ خود ان سے کیوں نہیں پوچھتے؟ اتنا آسان کام بھی دوسروں سے کرانا چاہتے ہیں! اور یہ مطالبہ کس سے کیا جا رہا ہے کہ کشمیری متاثرین کو نیورمبرگ ٹرائلز کی طرح بین الاقوامی فوجداری عدالت اور عالمی عدالت انصاف کے ذریعے انصاف دلایا جائے؟ مدعی کون ہوگا؟ کانفرنس کے تمام مقررین معزز اور بااثر افراد ہیں۔ وہ کیوں نہیں یہ مقدمہ دائر کرتے؟ ان معززین میں ایک صاحب آزاد کشمیر کے صدر بھی رہے۔ انہوں نے اپنے دورِ صدارت میں یہ کام کیوں نہ سر انجام دیے؟ مگر کانفرنس کا مضحکہ خیز ترین حصہ یہ تھا کہ ایک ''فرینڈز آف کشمیر فورم‘‘ بنانے کی منظوری دی گئی جو ''مسئلہ کشمیر پر عالمی برادری میں رائے عامہ ہموار کرے گا‘‘۔ یعنی کشمیر کے نام پر مزید غیر ملکی دورے ہوں گے۔ اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا یہ ہے کہ اس ''فرینڈز آف کشمیر فورم‘‘ کا سربراہ ایک ایسے صاحب کو بنایا گیا ہے جن کی شہرت صرف پارٹیاں بدلنے کی ہے اور ہر حال میں ایوانِ بالا کی نشست حاصل کرنے کی ہے!! بس کر دیجیے! خدا کے لیے بس کر دیجیے! قوم کے ساتھ‘ خاص طور پر مسئلہ کشمیر کے ساتھ یہ مذاق بند کیجیے۔ پہلے اس بھوکی ننگی قلاش قوم کو یہ بتائیے کہ ''کشمیر کمیٹی‘‘ پر آج تک کتنا روپیہ لگا ہے؟ جن اربابِ سیاست کو اس نام نہاد کمیٹی کی صدارت سیاسی رشوت کے طور پر دی جاتی رہی‘ ان کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کے کون کون سے ضلعے‘ کون کون سی تحصیلیں اور کون کون سی وادیاں آزاد ہوئیں؟ نوابزادہ صاحب نے اس کمیٹی کے صدر کے طور پر کتنے دورے کیے؟ کہاں کہاں گئے؟ کشمیر کاز کو کیا فوائد پہنچے؟ مولانا صاحب بھی اس کمیٹی کے صدر رہے! کہاں کہاں گئے؟ کیا حاصل حصول رہا؟ قومی خزانے سے ان معززین کے دوروں کے لیے جو اخراجات ادا کیے گئے ان کی تفصیل کیا ہے؟ معروف سفارتکار‘ سابق سفیر‘ جناب کرامت غوری اپنی خود نوشت ''بار شناسائی‘‘ میں کشمیر کی آزادی کے لیے اس قوم نے جو ''جدوجہد‘‘ کی‘ اس کی ایک جھلک دکھاتے ہیں۔ یہ کویت کا حال ہے جہاں کرامت غوری اُس وقت سفیر تعینات تھے۔
''مولانا فضل الرحمن کا سب نے ہی بہت تپاک سے استقبال کیا اور پھر ہم سب اس کانفرنس روم میں جا کر بیٹھ گئے جو اس قسم کی ملاقاتوں کے لیے مخصوص تھا۔ جام الصقر صاحب نے مولانا کو باضابطہ اور خوشگوار الفاظ میں خوش آمدید کہنے کے بعد ان سے درخواست کی کہ وہ جس مقصد کے لیے وارد ہوئے وہ بیان کریں لیکن مولانا نے مجھ سے فرمایا کہ کشمیر پر پاکستانی مؤقف سے میں حاضرین کو آگاہ کروں۔
مجھے حیرت ہوئی کہ مولانا خود اس فریضے کی ادائیگی سے کیوں جان چھڑانا چاہ رہے ہیں‘ لہٰذا میں نے ضروری سمجھا کہ مولانا کو یاد دلائوں کہ وہ پاکستان کے خصوصی ایلچی بن کر وارد ہوئے ہیں اور وزیراعظم بینظیر کی خصوصی ہدایات کے بموجب میں انہیں اس ملاقات کے لیے لے کر گیا تھا۔ مولانا کچھ قائل ہوئے‘ کچھ نہیں ہوئے لیکن خاموشی جب بوجھل ہونے لگی تو انہوں نے رک رک کر اردو زبان میں پانچ سات منٹ تک کلمات ادا کیے جن کا میں انگریزی میں ترجمہ کرتا رہا لیکن پھر جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ مولانا نفسِ مضمون کی طرف نہیں آ رہے اور معزز سامعین بھی ایک دوسرے کی طرف کن انکھیوں سے دیکھ رہے ہیں‘ لہٰذا حالات کو مزید بگڑنے سے بچانے کی نیت سے میں نے لقمہ دیا کہ مولانا اگر پسند فرمائیں تو گفتگو کو میں آگے بڑھائوں اور یوں لگا جیسے مولانا اسی لمحے کے منتظر تھے۔ انہوں نے فوراً ہامی بھر لی اور سامنے میز پر رکھے ہوئے کیک پیسٹری کی طرف رجوع ہو گئے اور پھر ایک گھنٹے تک ان کی طرف سے میں ہی بولتا رہا اور وہ اپنے پیٹ کی میزبانی کرتے رہے۔ ایک دوسرے موقع پر مولانا طے شدہ سرکاری تقریب میں آنے کے بجائے شہر سے باہر پٹھانوں کے ایک ڈیرے پر ضیافت اڑانے پہنچ گئے جہاں مدرسے کے لیے چندہ بھی جمع کیا‘‘۔
نواب زادہ صاحب کے حوالے سے بھی کرامت غوری صاحب نے لکھا ہے۔ مشہور صحافی رضا علی عابدی لکھتے ہیں: ''اسی ضمن میں نوابزادہ نصراللہ کا ذکر ہے جنہیں کشمیر کمیٹی کا سربراہ بنا کر دنیا کے دورے کرائے گئے کہ وہ شہر شہر جاکر کشمیر کے بار ے میں پاکستان کا موقف اجاگر کریں۔ مغربی دنیا کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں قیام کا لطف اٹھاتے ہوئے نوابزادہ صاحب جب لندن میں وارد ہوئے اور ایک پریس کانفرنس بلائی گئی‘ میں بھی اس میں شریک تھا۔ وہاں برطانیہ کے قومی پریس کے نامہ نگاروں کا کیا کام؟ وہاں تو ساری کارروائی اردو میں ہونی تھی لہٰذا دو یا تین پاکستانی رپورٹر اصلی تھے‘ باقی مجمع لگانے کے لیے وہ نامہ نگار بلا لیے گئے تھے جنہیں آج کل کی اصطلاح میں دو نمبر کہا جاتا ہے‘‘۔ یہ ہیں اُس کھیل کی چند جھلکیاں جو ہم کشمیر کے نام سے کھیلتے آئے ہیں اور کھیل رہے ہیں۔ اس میں حکومتیں ہی نہیں‘ تمام اہلِ سیاست شامل رہے ہیں کیونکہ یہ کمیٹیاں پارلیمنٹ ہی کی پیداوار تھیں۔ کیا کسی نے ان سیاسی رشوتوں پر اعتراض یا احتجاج کیا؟ ستم ظریفی یہ ہے کہ جو مرحوم شخصیات کشمیر کے لیے دوسروں کے بچوں کو جہاد اور شہادت کی نعمتیں مہیا کرتی رہیں اور اپنے بچوں کو مغربی ملکوں میں پڑھا کر بزنس میں ڈالتی رہیں‘ اب ان کی اولادیں کشمیر کے نام پر لیڈریاں کر رہی ہیں۔ مودی حکومت نے جب بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 منسوخ کیا تو واحد ایکشن جو ہم نے لیا یہ تھا کہ کشمیر ہائی وے کا نام بدل کر سرینگر ہائی وے رکھ دیا! کیا کہنے اس ردعمل کے!! ہماری‘ ہمارے پاسپورٹ کی‘ ہماری کرنسی کی جو حالت اور شہرت ہے اس کے سامنے ہم عالمی برادری کے سامنے کشمیر کی بات کریں بھی تو کون سنے گا؟ پاکستانیوں کو ہزاروں کی تعداد میں دوسرے ملکوں سے ناپسندیدہ قرار دے کر نکالا جا رہا ہے۔ جب تک ہم اپنی عزت بحال نہیں کریں گے اور قوموں کی برادری میں برابر کی حیثیت نہیں حاصل کریں گے‘ ہماری بات کوئی نہیں سنے گا۔ ابھی تو ہم سعودی امداد پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔ مؤخر ادائیگی کی بنیاد پر تیل فراہم ہونے پر گھی کے چراغ جلا رہے ہیں۔ مانسہرہ جیسے چھوٹے شہروں کی واٹر سپلائی سکیم کے لیے بھی رعایتی قرض حاصل کیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں یہ خبر عام ہے کہ شہر کی میلوڈی مارکیٹ کی مرمت اور نوسازی کے لیے فنڈ آذربائیجان دے رہا ہے۔ یعنی اب ہم سے اپنے عام‘ روز مرہ بجٹ کا بندوبست بھی نہیں ہو رہا۔ اس عبرتناک فلاکت کے ساتھ ہم دنیا کے سامنے کشمیر کے لیے آواز اٹھائیں گے؟؟ کشمیر کمیٹیوں اور کشمیر کانفرنسوں سے اگر کچھ بن سکتا تو ہم نے جتنی کمیٹی کمیٹی کھیلی ہے اور جتنی کانفرنسیں کی ہیں تو اب تک آدھا بھارت ہم لے چکے ہوتے!!

Tuesday, February 04, 2025

وہاں روسی رسم الخط! یہاں انگریزی زبان

!!

استعمار دور اندیش ہوتا ہے۔ وہ ایسے اقدامات اٹھاتا ہے کہ ظاہری غلامی ختم ہو بھی جائے تو تہذیبی غلامی ہمیشہ رہے! اپنے ملک کی مثال ہی لے لیجیے۔ پون صدی ہو چکی ابھی تک انگریزی مسلط ہے۔ بینک کے چیک سے لے کر بجلی کے بل تک‘ سب کچھ انگریزی میں ہے۔ سارا کاروبارِ مملکت فرنگی زبان میں چل رہا ہے۔ بظاہر تبدیلی کا امکان بھی نہیں! ترکی میں دیکھ لیجیے کیا ہوا۔ استعمار تو نہ تھا مگر لباس اور رسم الخط کی تبدیلی بہت بڑا تہذیبی دھچکا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا چند برس پہلے صدر اردوان نے کوشش کی تھی کہ اصل رسم الخط کی طرف‘ جو اتا ترک سے پہلے تھا‘ مراجعت کی جائے۔ صدر اردوان کے الفاظ کچھ اس قسم کے تھے کہ اپنے باپ دادا کی قبروں کے کتبے تو پڑھ سکو! اس پر مغرب نے واویلا کیا اور آسمان سر پر اٹھا لیا کہ عثمانی (آٹومن) رسم الخط واپس لانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس قبیل کی باتیں بھی پھیلائی گئیں کہ سلطنت عثمانیہ کا احیا کیا جا رہا ہے۔ وسط ایشیائی ملکوں پر روسی رسم الخط مسلط کر کے روسی استعمار نے اپنی جڑیں زمین کے اندر دور تک پھیلا دیں۔ بظاہر استعمار کو گئے تین عشروں سے زائد کا عرصہ ہو چکا مگر روسی رسم الخط ایک پہاڑ کی مثل پہلے کی طرح ہی کھڑا ہے۔ اس رسم الخط نے ان ریاستوں کو باقی دنیا سے بدستور کاٹ کر رکھا ہوا ہے اور تعلیم‘ صنعت‘ زراعت‘ میڈیا سمیت ہر شعبے میں روس سے وابستہ کیا ہوا ہے۔ رسم الخط بدلنے کی ہر کوشش‘ جو ان ریاستوں نے کی‘ ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی۔
سب سے پہلے ازبکستان نے فیصلہ کیا کہ روسی کی جگہ لاطینی رسم الخط رائج کیا جائے۔ 1993ء میں ازبک حکومت نے قانون بھی پاس کر دیا۔ رسم الخط بدلنے کیلئے فنڈز درکار ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی سیاسی اور معاشرتی الجھنیں بھی ابھر آتی ہیں۔ ازبک حکومت کو یہ مشکلات نظر آ رہی تھیں۔ قانون تو منظور ہو گیا تھا مگر اس کا عملی نفاذ آسان نہیں تھا؛ چنانچہ پارلیمنٹ نے عملیت پسندی اور حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے ایک اور قانون منظور کیا کہ نئے رسم الخط کا نفاذ مرحلہ وار ہو گا اور یہ تبدیلی مکمل طور پر 2010ء تک واقع ہو گی۔ مگر عملی طور پر ایسا نہ ہو سکا۔ آج بھی روسی رسم الخط رائج ہے۔ ہر جگہ پڑھا‘ لکھا‘ سمجھا اور قبول کیا جاتا ہے۔ لاطینی رسم الخط بھی چل رہا ہے مگر لُولے لنگڑے انداز میں۔ 2017ء میں قازقستان کے صدر نور سلطان نذر بے نے حکم جاری کیا کہ ملک میں روسی رسم الخط کی جگہ لاطینی رسم الخط لایا جائے گا۔ مگر آج بھی روسی رسم الخط وہاں غالب ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ روس کا منفی پروپیگنڈا ہے۔ فوراً شور برپا ہو جاتا ہے کہ یہ اُن روسیوں کے بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے جو ان ریاستوں میں آباد ہیں۔ ساتھ ہی اس ایشو کو سیاسی رنگ دیا جاتا ہے کہ یہ روس کے دائرۂ اثر کو کم کرنے کی کوشش ہے۔ سوویت یونین تو اپنی موت مر چکا مگر روس کا سامراجی طرزِ فکر جوں کا توں موجود ہے۔ وہ اپنے زعم میں ان ریاستوں کا سرپرست ہے اور رہنما۔ رسم الخط بدلنے سے اس کے سیاسی اور عسکری غلبے کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اس لیے روسی میڈیا‘ روسی حکومت اور روس کی اَپر کلاس‘ سب وسط ایشیائی ریاستوں کی اُن تمام کوششوں کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں جو وہ رسم الخط بدلنے کے لیے کی جا رہی ہیں!ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اس لٹریچر کا کیا بنے گا جو روسی رسم الخط میں شائع ہو چکا ہے اور لاکھوں کتابوں کی شکل میں موجود ہے۔ مگر جب رسم الخط عربی سے لاطینی اور پھر روسی کیا گیا تھا تو اس وقت یہ سوال کیوں نہ اٹھایا گیا؟
اس مسئلے میں ایک پیچیدگی بھی نظر آتی ہے۔ کیا ان ریاستوں کی حکومتیں‘ یعنی برسر اقتدار طبقہ‘ صدقِ دل سے رسم الخط کی تبدیلی چاہتا ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈتے اور دیتے ہوئے یہ حقیقت سامنے رکھنی چاہیے کہ ان ریاستوں میں بدترین قسم کی آمریت رائج ہے۔ حکمران وہی چلے آ رہے ہیں جو سوویت یونین کے انہدام سے پہلے بھی کسی نہ کسی صورت اقتدار میں تھے۔ روسی رسم الخط کا سب سے زیادہ فائدہ اسی کلاس کو ہے۔ اس رسم الخط کی وجہ سے عوام جمہوری دنیا سے کٹے ہوئے ہیں۔ انہیں معلوم ہی نہیں باقی دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ انٹرنیٹ بھی ان کے لیے بیکار ہے۔ انٹرنیٹ پر بھی وہ وہی کچھ پڑھیں اور جانیں گے جو روسی زبان میں موجود ہوگا۔ یوں روسی رسم الخط‘ آمریت کے لیے ایک سہارے سے کم نہیں۔ لاطینی رسم الخط آمریت کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہو سکتا ہے۔ عوام ذہنی طور پر بیدار ہو گئے اور ہم عصر دنیا کے حقائق سے آشنا‘ تو آزاد اور صاف ستھرے انتخابات کا مطالبہ کریں گے!! پاکستان میں بھی کم وبیش یہی صورت حال ہے۔ بیورو کریسی اردو کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس وقت بیورو کریسی ایک ایسی کلاس ہے جو انگریزی کی وجہ سے عوام سے دور ہے۔ کل سرکاری احکام کی زبان اردو ہو گئی تو بیورو کریسی کا سامراجی رنگ پھیکا پڑ جائے گا۔ کابینہ ڈویژن‘ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں جو بیورو کریٹ براجمان ہیں وہ فائلوں پر جو کچھ لکھتے ہیں‘ انگریزی میں لکھتے ہیں۔ سرکاری احکام انگریزی میں جاری کرتے ہیں۔ اس سے انہیں عوام سے الگ ایک خاص مقام حاصل ہے۔ یہ مقام مکروہ سہی‘ ہے تو اعلیٰ! چنانچہ وہ اردو کو نافذ کر کے عوام کے ساتھ شراکتِ اقتدار کبھی نہیں کریں گے!! تقریریں اردو کے حق میں ہوتی رہیں گی! نعرے لگائے جاتے رہیں گے۔ کانفرنسیں ہوتی رہیں گی! پانی کے ڈول نکالے جاتے رہیں گے مگر کتے کی لاش کنویں کے اندر ہی رہے گی! چھتیس برس اعلیٰ بیورو کریسی کا حصہ ہونے کی وجہ سے مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ بیورو کریسی کے جسم میں پیپ کہاں پڑی ہوئی ہے‘ اور اس پیپ کا علاج کس نشتر میں ہے۔ یہ موضوع تفصیل کا متقاضی ہے!
تاجکستان کی طرف واپس آتے ہیں۔ تاجکستان وسط ایشیا کی واحد ریاست ہے جو ترکی الاصل (Turkic) نہیں ہے بلکہ فارسی الاصل ہے۔ اس کے لیے فارسی رسم الخط کی طرف واپس آنا‘ دوسری ریاستوں کی نسبت آسان ہے۔ دوسری ریاستوں کے سامنے کوئی ماڈل موجود نہیں مگر تاجکستان‘ ایران اور افغانستان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ یہ دونوں ممالک کاروبارِ حکومت فارسی زبان کے ذریعے چلا رہے ہیں اور دونوں میں رسم الخط فارسی ہی ہے۔ کی بورڈ سے لے کر ویب سائٹس تک ہر شے تیار ہے۔ صرف ''گنجور‘‘ ویب سائٹ ہی کا اندازہ لگائیے۔ فارسی ادب کے تمام ذخائر‘ کیا نثر اور کیا شاعری ''گنجور‘‘ میں دستیاب ہیں۔ مگر اس کے باوجود معاملہ اس قدر سادہ نہیں۔ فرض کیجیے تاجکستان فارسی عربی رسم الخط کی طرف پلٹنے کا اعلان کرتا ہے۔ فوراً پہلا اعتراض یہ کیا جائے گا کہ اس سے وسط ایشیا میں انتہا پسندی پھیلے گی۔ بدقسمتی سے اس وقت افغانستان اور ایران کی حکومتوں کو انتہا پسندی کے ساتھ بریکٹ کیا جاتا ہے! تاجکستان کی حکومت رسم الخط تبدیل کر کے ان ملکوں کے دروازے اپنے ملک میں کیوں کھولے گی؟؟ رسم الخط کی تبدیلی روس کو تو خیر کیا راس آئے گی‘ خود ان ریاستوں کی حکومتوں کو راس نہیں آ سکتی! چنانچہ یہ طے ہے کہ ان ملکوں میں‘ بشمول تاجکستان‘ غالب رسم الخط روسی ہی رہے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے پاکستان میں اردو کے نفاذ کا خواب ایک سراب سے زیادہ نہیں!! بقول محب عارفی
شریعت خس و خار ہی کی چلے گی
علم رنگ و بو کے نکلتے رہیں گے
مچلتے رہیں روشنی کے پتنگے
دیے میرے کاجل اگلتے رہیں گے
رواں ہر طرف ذوقِ پستی رہے گا
بلندی کے چشمے ابلتے رہیں گے

Monday, February 03, 2025

تاجکستان کا رسم الخط …غلطیاں اور غلط فہمیاں

Tajiki or persian Tajik is a dialect of Persian written in Cyrillic. Anyone passionate about the Persian language can learn Tajik Script.
''تاجکی یا تاجک فارسی‘ فارسی کا ایک لہجہ ہے جو روسی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ فارسی زبان کا کوئی بھی شائق تاجکی رسم الخط سیکھ سکتا ہے‘‘۔
''تناقض فی الاصطلاح‘‘ 

(Contradiction in terms) 

کا یہ مایوس کُن مظاہرہ میڈیا کرتا یا کوئی اور‘ تو قابلِ توجہ نہ ہوتا مگر یہ اعلان ایک یونیورسٹی کی طرف سے ہے۔ ایک ایسی یونیورسٹی جو زبانوں کی تعلیم کے لیے معروف ہے اور دارالحکومت کی بااعتبار یونیورسٹیوں میں سرفہرست ہے۔ یہ اعلان تاجکی پڑھانے کے کسی پروگرام کے حوالے سے ہے۔ جس طرح تاریخ پڑھانے کے لیے فلسفۂ تاریخ کا علم لازم ہے اور جس طرح اقتصادیات کے استاد کے لیے ترقی یافتہ ملکوں کی معاشی تاریخ کا علم ضروری ہے‘ بالکل اسی طرح زبان پڑھانے کے لیے اس زبان کی تاریخ اور تاریخی ادوار سے آشنائی ازحد ضروری ہے۔ اب اگر پڑھانے والا روسی اور تاجکی رسم الخط کو متبادل لفظ کے طور پر استعمال کر رہا ہے‘ اور وہ بھی ایک یونیورسٹی میں‘ تو یہ علم کے ساتھ زیادتی ہے۔
تاجکی زبان روسی رسم الخط 

(Cyrillic) 

میں لکھی جا رہی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ازبک‘ قازق اور کرغستانی زبانیں روسی رسم الخط میں لکھی جا رہی ہیں۔ اگر اسے تاجکی رسم الخط کہیں گے تو پھر کیا یہ بھی کہیں گے کہ قازق اور ازبک بھی تاجکی رسم الخط میں لکھی جا رہی ہیں؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں کہہ سکتے! اگر برطانوی استعمار‘ برصغیر کی زبانوں پر خدا نخواستہ‘ انگریزی رسم الخط مسلط کرتا اور ہم اردو انگریزی رسم الخط میں لکھ رہے ہوتے تو کیا ہم اسے اردو رسم الخط کہتے؟ نہیں بلکہ اسے انگریزی رسم الخط کہتے۔ ترکی لاطینی رسم الخط میں لکھی جا رہی ہے۔ اسے ترکی رسم الخط نہیں کہا جاتا۔ لاطینی ہی کہا جاتا ہے۔
مظالم تو انگریزوں نے برصغیر پر بھی بہت کیے مگر جو سلوک روسیوں نے ترکستان کے ساتھ کیا‘ اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ انیسویں صدی کے وسط میں ٹوٹل بائیس سال کے عرصہ میں زار کی فوجوں نے وہ سارا ترکستان‘ جو سیر دریا کے جنوب میں تھا‘ فتح کر لیا۔ فاتح ترکستان جنرل کوف فرغانہ کی ایک مسجد میں سجدے میں گئے ہوئے نمازیوں کی گردنوں پر پاؤں رکھ کر گزرا۔ پہلی عالمی جنگ کے خاتمے پر بالشویک انقلاب آ گیا۔ سرخ انقلابیوں نے سادہ دل ترکستانیوں کو آزادی کا لالچ دے کر ساتھ ملا لیا اور جب زار سے فارغ ہوئے تو وعدے سے پھر گئے۔ جسے تفصیل میں دلچسپی ہو‘ اسے بسماچی تحریک کی تاریخ پڑھنی چاہیے جو ترکستان کی آزادی کے لیے چلی تھی۔ قصہ مختصر‘ غلام ترکستان زارِ روس سے بالشویک اشتراکیت کو منتقل ہوا۔ اشتراکیوں نے غلامی کو پختہ تر کرنے کے لیے دو زبردست کام کیے۔ ایک یہ کہ ترکستان کو پانچ ریاستوں میں تقسیم کر دیا جو آج قومی ریاستوں (نیشن سٹیٹس) کے طور پر قازقستان‘ ازبکستان‘ کرغزستان‘ تاجکستان اور ترکمانستان کے ناموں سے جانی جاتی ہیں۔ یہ تقسیم اس طرح کی گئی کہ لسانی ہم آہنگی نہ پیدا ہو۔ مثال کے طور پر فارسی بولنے والے دو بڑے شہر‘ سمرقند اور بخارا‘ تاجکستان کے بجائے ازبکستان میں ڈال دیے گئے۔ یہ تقسیم مکمل طور پر بندر بانٹ تھی۔ دوسرا بہت بڑا قدم روسی استعمار نے جو اٹھایا وہ رسم الخط کی جبری تبدیلی تھی۔ عربی رسم الخط کے بجائے لاطینی رسم الخط بزور نافذ کیا گیا۔ اس کے دو مقاصد تھے۔ اول ان ملکوں کو باقی مسلم دنیا سے تہذیبی طور پر کاٹ دینا۔ دوم‘ انہیں اپنے ماضی کے ادبی اور علمی ورثے سے بھی الگ کر دینا اور تہذیبی طور پر مغرب کا دست نگر کر دینا۔ بدقسمتی سے اتا ترک نے ترکی میں لاطینی رسم الخط نافذ کیا تو سوویت استعمار کے دل میں ڈر پیدا ہوا کہ اس طرح یہ ریاستیں ترکی کے قریب ہو جائیں گی۔ چنانچہ رسم الخط دوسری بار تبدیل کر دیا گیا۔ اس بار سیدھا سیدھا روسی رسم الخط مسلط کیا گیا۔ اس سے تاجکستان سمیت ساری ریاستیں ایک بار پھر ایک درد ناک مرحلے سے گزریں۔ سب سے زیادہ قابلِ رحم حالت ترکی کی ہے جو دنیا کی واحد زبان ہے جو آج بیک وقت چار رسم الخط بھگت رہی ہے۔ اول لاطینی رسم الخط جو ترکیہ میں رائج ہے۔ دوم روسی الخط جو وسط ایشیا میں رائج ہے۔ سوم عربی فارسی رسم الخط جو افغانستان کے ازبک استعمال کر رہے ہیں۔ (کیا آپ کو معلوم ہے کہ شمالی افغانستان کو ترکستان صغیر کہا جاتا ہے) اور چوتھا رسم الخط جو سنکیانگ کے ایغور ترک استعمال کر رہے ہیں! یہ ترک ایک دوسرے سے بات چیت کر سکتے ہیں مگر ایک دوسرے کی تحریر نہیں پڑھ سکتے۔ نوے کے عشرے میں جب وسط ایشیائی ریاستوں سے تاجروں کے وفود آنے لگے تو میرے استاد جناب اسد اللہ محقق‘ جو افغان ازبک تھے‘ ان وفود کی ترجمانی کے فرائض سر انجام دیا کرتے تھے۔ وہ اُس زمانے میں نمل میں تاجکی کے استاد کے طور پر بھی کام کرتے تھے۔ جناب اسد اللہ محقق صحیح معنوں میں ہفت زبان تھے اور اردو‘ فارسی‘ ازبک‘ پشتو‘ روسی‘ عربی اور انگریزی پر عبور رکھتے تھے۔ میں ازبک پڑھنے کے لیے دو سال ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا!
رسم الخط کی تبدیلی سے سوویت استعمار اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب ہوا۔ کروڑوں کتابیں راتوں رات بے معنی ہو گئیں۔ لائبریریاں علم کی لاشوں میں بدل گئیں۔ تمام علمی‘ ادبی‘ دینی اور سماجی کتب کے ذخیرے کو نئے رسم الخط میں بدلنا ممکن ہی نہ تھا۔ رسم الخط ایک قوم کی شناخت ہوتا ہے۔ یہ تہذیبی لباس کا درجہ رکھتا ہے‘ روسیوں نے ظاہری لباس کو بھی تبدیل کر دیا اور تہذیبی لباس کو بھی! نہلے پر دہلا یہ ہوا کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد جو لوگ ان ریاستوں پر آمرانہ اقتدار قائم رکھے ہوئے ہیں وہ اندر سے روسی ہی ہیں۔ کچھ کی بیگمات روسی ہیں۔ یوں روس کے غیر مرئی اثر ونفوذ میں کوئی قابل ذکر کمی نہیں آئی۔ میں وسط ایشیا کے کئی بڑے بڑے شہروں میں کئی بار گیا ہوں خاص طور پر بخارا اور سمرقند کی گلی گلی‘ کوچہ کوچہ ماپا ہے۔ ہفتوں خاک چھانی ہے۔ یوں لگتا ہے سب کچھ وہی ہے مگر زبان (جِیب) کاٹ دی گئی ہے۔ جیسے درمیان میں دیوار نہیں‘ پردہ ضرور لٹکا ہوا ہے۔ فارسی وہی ہے جسے ہم دری کہتے ہیں۔ (غنیمت ہے کہ نام نہاد تہرانی لہجہ جس نے برصغیر کی فارسی کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے‘ سمرقند اور بخارا میں نہیں پہنچ سکا۔ وہاں فارسی اسی طرح شفاف اور خالص ہے جیسی صدیوں یہاں پڑھی جاتی رہی اور پڑھائی جاتی رہی) مگر جیسے ہی آپ کسی کو فارسی میں کچھ لکھ کر دیتے ہیں یا کوئی آپ کو کچھ لکھ کر دیتا ہے تو تاریکی کا ایک پردہ درمیان میں تن جاتا ہے۔ اگر آپ روسی حروفِ تہجی سے نابلد ہیں تو فارسی اور ترکی جانتے ہوئے بھی اَن پڑھ ہیں۔ بدقسمتی کا اندازہ لگائیے کہ آپ درجنوں بار بھی جائیں تو کوئی کتاب نہیں خرید سکتے۔ کتاب فروشوں کے پاس جو کچھ ہے‘ سب روسی رسم الخط میں ہے۔ آپ کسی لائبریری سے متمتع نہیں ہو سکتے۔ جامی اور علی شیرنوائی کے مجسمے تو دیکھ سکتے ہیں مگر ان کی سوانح‘ ان کا کلام نہیں پڑھ سکتے!
کیا کوئی امکان ہے کہ مستقبل میں‘ تاجکستان سمیت ان وسط ایشیائی ریاستوں میں اصل رسم الخط‘ روسی رسم الخط کی جگہ لے سکے؟ اس پر گفتگو ہم کل کی نشست میں کریں گے۔

 

powered by worldwanders.com