Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, May 15, 2025

بھارتی معاشرہ کرچی کرچی ہو رہا ہے


سراج کَورڈ

 (Covered) 

مارکیٹ اسلام آباد شہر کا بہت بڑا لینڈ مارک تھا۔ جس عمارت میں آج کل نادرا کا ہیڈ آفس ہے‘ وہاں پہلے وزیراعظم کا دفتر ہوتا تھا۔ مشہورِ زمانہ میلوڈی مارکیٹ سے اس دفتر کی طرف جائیں تو کَورڈ مارکٹ راستے میں پڑتی تھی۔ اس سڑک کو اب سرفراز اقبال روڈ کہا جاتا ہے۔ کَورڈ مارکیٹ کے بالکل سامنے بیگم سرفراز اقبال کا گھر تھا جہاں شاعروں ادیبوں کی بیٹھک جمتی تھی۔ فیض صاحب بھی وہاں آتے تھے۔ میں بھی کئی بار مشہور ڈرامہ نگار اور افسانہ نویس احمد داؤد مرحوم کی معیت میں بیگم صاحبہ کے گھر گیا۔ اب اسی گھر میں ان کے شوہر ملک اقبال صاحب رہتے ہیں۔ ماشاء اللہ نوے سے اوپر کے ہیں مگر تندرست حالت میں ہیں۔
سراج کَورڈ مارکیٹ بہت بڑا بازار نہیں تھا مگر شہر کی جان تھا۔ اسلام آباد میں رہنے والے تمام غیر ملکی‘ گوشت سبزی اور دیگر سودا سلف یہیں سے خریدتے تھے۔ شہر کا بہترین گوشت‘ پھل اور سبزی یہیں ہوتی تھی۔ اس مارکیٹ کی ایک اور وجۂ شہرت یہ تھی کہ شہر کے مشہور ترین اور بہترین ٹیلر شیخ امین کی دکان بھی یہیں تھی۔ اسلام آباد میں مقیم اکثر سفیر‘ ڈپلومیٹ‘ سیاستدان اور بیورو کریٹ اس کے گاہک تھے۔ شیخ امین مشہور ٹیلر نہیں‘ یوں کہیے کہ آرٹسٹ تھا۔ ادنیٰ قسم کے کپڑے میں بھی جان ڈال دیتا تھا۔ والد گرامی مرحوم کی شیروانیاں اور واسکٹیں میں اسی سے سلواتا تھا۔ زندگی کا پہلا ہیرس ٹویڈ (سکاٹ لینڈ میں ہاتھوں سے بُنا جانے والا اون) کا کوٹ جس کا کپڑا پشاور کی ایک خاص دکان سے لیا تھا‘ اسی سے سلوایا تھا۔ یہ کوٹ 33برس پہنا۔ اب جب توند کے مسائل بڑھ گئے تو گزشتہ برس‘ بادل نخواستہ‘ روتے دل کے ساتھ‘ ایک عزیز کو سونپ دیا۔ یہاں ایک اور دلچسپ واقعہ یاد آ رہا ہے۔ لاہور‘ مستنصر حسین تارڑ صاحب کے دولت کدے پر حاضر تھا۔ ایک بری عادت ہے کہ دونوں بازو صوفے کی بَیک پر پھیلا کر بیٹھتا ہوں۔ تارڑ صاحب کہنے لگے: معلوم ہے تم نے ہیرس پہنا ہوا ہے‘ چوڑے ہو کر نہ بیٹھو۔ تارڑ صاحب ہر بات کو جس طرح ایک لٹریری ٹچ‘ ایک افسانوی رنگ دیتے ہیں‘ وہ انہی کا حصہ ہے۔ ایک بار حاضر ہوا‘ ہاتھ میں کچھ پھل تھے‘ کہنے لگے: لگتا ہے بزرگ سیدھا کیمبل پور سے آ رہے ہیں۔ جب میں نے چترال پر قسطوں میں متعدد کالم لکھے تو ایک جگہ یہ بھی لکھا کہ چترال سے گُجروں کا قافلہ چلتا ہے‘ راستے میں کوئی بکری مر جائے تو وہیں سوگ منانے بیٹھ جاتے ہیں اور تین دن تک سفر موقوف رہتا ہے۔ تارڑ صاحب دیر تک اس فقرے سے لطف اندوز ہو ئے اور تعریف کر کے اس طالب علم کی حوصلہ افزائی کی۔
شیخ امین کی بات ہو رہی تھی۔ اللہ اسے مغفرت اور رحمت سے نوازے۔ دوست تھا مگر پکا شیخ بھی تھا۔ گھنٹوں اس کی دکان پر بیٹھک ہوتی تھی۔ تاہم اس دوران چائے کا جھنجھٹ نہیں پالتا تھا۔ سلائی میں رعایت بھی نہیں کرتا تھا مگر جو ڈیزائننگ اور سلائی کا معیار تھا‘ اس میں کون کافر رعایت مانگتا۔ پھر کَورڈ مارکیٹ منہدم کر دی گئی۔ کوئی جھگڑا تھا ملکیت کے دعویداروں کے درمیان۔ شیخ امین بھی پروردگار کے حضور حاضر ہو گیا۔ یہ سارا قصہ اس لیے سنایا کہ اس کی دکان کا نام ''جالندھر ٹیلر‘‘ تھا۔ جالندھر کے نام سے پاکستان میں یہی ایک دکان نہیں تھی‘ کراچی سے پشاور اور گلگت تک گھوم آئیے‘ سینکڑوں دکانیں جالندھر کے نام سے ہیں۔ دہلی کے نام سے ہیں۔ حیدر آباد (سندھ) کی بمبے بیکری پوری دنیا میں مشہور ہے۔ کیا کسی نے کبھی ان دکانوں پر حملہ کیا؟ بابری مسجد گرائی گئی‘ بھارت نے پاکستان پر حملے کیے‘ کبھی جالندھر‘ دہلی‘ بمبے‘ لکھنؤ‘ امرتسر یا دوسرے بھارتی شہروں کے ناموں والی کسی دکان‘ کسی دفتر پر حملہ نہیں کیا گیا۔ اس لیے کہ الحمدللہ پاکستانیوں کی ذہنیت آر ایس ایس اور بی جے پی کے علمبرداروں کی ذہنیت سے یکسر مختلف ہے۔ پرسوں کی خبر ہے اور باتصویر خبر ہے کہ بھارت کے شہر حیدر آباد میں ایک دکان ''کراچی بیکرز‘‘ پر بھارتی شہریوں نے حملہ کیا اور دکان کے سائن بورڈ پر کراچی کا جو لفظ تھا اس پر ڈنڈے برسائے۔ کراچی سے ہجرت کر کے جانے والے ظاہر ہے مسلمان تو نہیں ہوں گے‘ مالکان کے نام راجیش رام نانی اور ہریش رام نانی ہیں۔ اپنی جنم بھومی اور اپنا چھوڑا ہوا وطن سب کو یاد آتا ہے۔ اسی حوالے سے انہوں نے بیکری کا نام کراچی بیکرز رکھا۔ ہمارے شریف برادران نے اپنے محلات والے نئے شہر کا نام جاتی امرا رکھا حالانکہ ان کی تو پیدائش بھی وہاں کی نہیں ہے۔ کسی پاکستانی نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔ بے شمار پاکستانیوں کے ناموں کے ساتھ دہلوی‘ لکھنوی‘ بلند شہری‘ بدایونی‘ الہ آبادی‘ اکبر آبادی‘ لدھیانوی اور ہوشیار پوری لگا ہوا ہے۔ کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ یہ نام ہماری ثقافت کا حصہ ہیں۔ ہمیں ان شہروں پر اور ان کے ساتھ تعلق پر آج بھی فخر ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ہمیں گیلانی‘ بخاری‘ اصفہانی‘ شیرازی‘ تبریزی‘ غوری‘ بدخشانی اور دیگر ناموں پر فخر ہے۔
ایک عام بھارتی شہری کی آر ایس ایس اور بی جے پی نے جس طرح برین واشنگ کی ہے اس کا نتیجہ آج پوری دنیا کے سامنے ہے۔ ایک کٹر ہندو کی دکان پر اس لیے حملے ہو رہے ہیں کہ دکان کے نام میں کراچی کا لفظ آتا ہے۔ افسوس ہے اس ذہنیت پر اور اس مائنڈ سیٹ پر! کوئی مانے یا نہ مانے‘ سچ یہ ہے کہ مودی نے اپنے دورِ حکومت میں بھارتیوں کے دماغ سکیڑ کر رکھ دیے ہیں۔ انہیں شاہ دولہ کے چوہے بنا دیا ہے۔ وہ ساری دنیا سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔ دنیا کہاں جا پہنچی ہے اور بھارتی گائے بیچنے والوں کو کچل رہے ہیں۔ مسجدوں پر دھاوے بول رہے ہیں۔ اورنگزیب عالمگیر کی قبر کے درپے ہو رہے ہیں۔ ایک نہیں‘ بی جے پی نے سینکڑوں جنرل بخشی اور ارنب گو سوامی پیدا کیے ہیں۔ ان کے دہانوں سے شعلے نکل رہے ہیں۔ ان کے گلوں کی رگیں اتنی سرخ ہو رہی ہیں کہ بس پھٹنے والی ہیں۔ غیظ و غضب سے ان کی اپنی جانیں خطرے میں ہیں۔ کلام پاک میں ہے: مُوتُو بِغَیظِکُم‘ اپنے غصے میں خود ہی مر رہے ہیں۔
بی جے پی کے اقتدار سے پہلے بھی بھارت میں غیر ہندوؤں کیلئے مسائل تھے مگر یہ اندھیر نہیں تھا۔ بھارت ایک گلدستہ تھا۔ اس میں قسم قسم کے پھول تھے۔ مختلف ثقافتوں‘ مختلف زبانوں اور مختلف رنگوں کے پھول! بی جے پی نے اس گلدستے کی پتی پتی تاراج کر دی۔ پھولوں کی خوشبو کی جگہ لاشوں کی سڑاند نے لے لی ہے۔ کشمیری اور آسامی مسلمانوں کی لاشیں! منی پور کے مسیحیوں کی لاشیں! پنجاب کے سکھوں کی لا شیں! بہت جلد جین مت کے ماننے والوں کی باری بھی آ جائے گی۔ سب جانتے ہیں کہ بی جے پی کے لیے بابا گورو نانک کا نام بھی تیر سے کم نہیں! کرتارپور راہداری کھلنے سے آر ایس ایس کے جنونیوں کو گہرا زخم لگا تھا۔ جو مائنڈ سیٹ بی جے پی کے طویل عرصہ اقتدار نے بھارت میں عام کیا ہے‘ اس کے سبب بھارتیوں پر رحم آتا ہے۔ سمندر کو ایک جوئے کم آب میں بدل دیا ہے۔ باغ کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ نفرت کا زہر ہر طرف پھیلا دیا ہے! معاشرے کو کرچی کرچی کر دیا ہے۔ بی جے پی کی کوشش ہے کہ جنوبی ریاستوں (تامل ناڈو‘ کرناٹک‘ تلنگانہ‘ آندھرا پردیش اور کیرالہ) پر شمال کی زبان‘ ہندی مسلط کرے‘ اس سے بھارت کے اندر افتراق اور انتشار کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ خدا بھارت کے عوام پر رحم کرے اور انہیں کسی ایسے رہنما سے نوازے جو تمام مذہبی‘ ثقافتی‘ نسلی گروہوں کو یکجا کر کے رکھے۔ دلوں میں محبت پیدا کرے۔ اور جنوبی ایشیا میں اپنی چودھراہٹ قائم کرنے کے بجائے خطے میں ترقی کا سوچے تا کہ غربت اور جہالت کا خاتمہ ہو۔

Tuesday, May 13, 2025

بھارت کے ساتھ امن کا معاملہ


آر ایس ایس اور اس کے سیاسی ماؤتھ پیس بی جے پی کی طرف سے پاکستان پر مسلط کردہ یہ جنگ‘ آخری جنگ نہیں!
جو پاکستانی دانشور بھارتی جارحیت کی مذمت کیے بغیر امن کی اور خطے کی بات کر رہے ہیں‘ ان کے خلوص پر شبہ نہیں مگر یوں لگتا ہے انہوں نے آر ایس ایس کا منشور نہیں پڑھا۔ انہیں شاید معلوم نہیں کہ ادتیا ناتھ اور امیت شاہ کون ہیں‘ کیا کر رہے ہیں؟ اور کیا چاہتے ہیں؟ امن کا نعرہ وہاں جچتا ہے جہاں دونوں فریق امن کی اہمیت کو سمجھیں! جہاں ایک فریق دوسرے فریق کے وجود ہی کو نہیں تسلیم کرتا اور اسے مٹانے کے درپے ہے‘ وہاں امن کی تلقین کرنا غیر منطقی ہے۔ جو تنظیم گاندھی جی کوقتل کروا دے اور قاتل کو آج بھی ہیرو قرار دے‘ کیا وہ پاکستان کو امن کیساتھ رہنے دے گی؟ یہ جنگ آخری جنگ نہیں! پاکستان کو اپنی بقا کیلئے ہمیشہ تیار اور چو کنا رہنا پڑے گا۔ پاکستان کو ہمیشہ ایک مضبوط فوج رکھنا ہو گی۔ اسے ہمیشہ جدید ترین جنگی ہتھیاروں سے لیس ہونا پڑے گا۔ یہ بقا کا مسئلہ ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان واحد ملک ہے جو بھارت کی ''فرمانبردار‘‘ ریاست کبھی نہیں بنا۔ پاکستان بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے سامنے واحد دیوار ہے۔ خدا نخواستہ‘ میرے منہ میں خاک‘ یہ دیوار نہ ہو تو پورا شرقِ اوسط بھارت کے سامنے سر جھکا دے!! پاکستان حملہ کرنے میں پہل نہیں کرے گا مگر دندان شکن جواب دینے کیلئے اسے ہر رات جاگنا ہو گا اور ہر دن پا بہ رکاب رہنا ہو گا۔
اس میں کیا شک ہے کہ پاکستان بھارت کے اعصاب پر سوار ہے۔ دونوں ملکوں کے سائز دیکھیے۔ کوئی نسبت تناسب نہیں! رقبے کے اعتبار سے نہ آبادی کے لحاظ سے! مگر پاکستان بھارت کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔ بھارت خوف زدہ ہے۔ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے بھارت پاکستان سے خوف زدہ ہے۔ اس کی وجوہ جاننا اور سمجھنا چنداں مشکل نہیں! اس خوف کی جڑیں قیام پاکستان سے پہلے کی ہیں! مسلمانوں نے ایک قلیل تعداد کے ساتھ برصغیر فتح کیا اور قلیل تعداد کے ساتھ ہی طویل عرصہ حکومت کی۔ ہم آج بھی تعداد میں کم ہیں اور کل بھی کم تھے۔ ترائن سے لے کر سومنات تک اور ہیمو بقال سے لے کر سداشو راؤ بھاؤ تک‘ ہر موقع پر مسلمان تعداد میں کم تھے۔ بھارت کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کی تعداد کم ہوتی ہے اور یہ کم تعداد ہندوؤں کیلئے ہمیشہ مصیبت بنی رہی۔ آج ایک چھوٹے سے پاکستان نے بھارت کو خائف کر رکھا ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا:
یوں بھی ہوتا ہے کہ آندھی کے مقابل چڑیا
اپنے پَر تولتی ہے
اک بھڑکتے ہوئے شعلے پہ ٹپک جائے اگر
بوند بھی بولتی ہے
مسلسل زہر اُگلنے والے جنرل بخشی کو سب سے زیادہ درد اس بات کا ہے کہ مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک یہاں حکومت کی۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ آٹھ صدیاں کوئی معمولی عرصہ نہیں۔ مسلمان حکمران چاہتے تو اس طویل عرصۂ حکمرانی کے دوران پورے برصغیر کو مسلمان کر سکتے تھے۔ وہ چاہتے تو مقامی مذاہب کا نشان تک مٹا سکتے تھے‘ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ جو مقامی لوگ مسلمان ہوئے وہ یا صوفیا کی تبلیغ سے مسلمان ہوئے یا ذات پات کی اذیتناک پابندیوں سے تنگ آکر۔ معروف غیر مسلم بھارتی مؤرخ ابراہام ایرالی نے اپنی متعدد تصانیف میں لکھا ہے کہ ہندوؤں کی کم تر ذاتوں کے لوگ جب مسلمانوں کو دیکھتے کہ سب مسلمان ایک جیسے ہیں‘ غلام شہزادیوں سے شادیاں بھی کرتے ہیں‘ تخت پر بیٹھ کر حکمرانی بھی کرتے ہیں اور کھانا بھی ساتھ مل کر کھاتے ہیں تو اسلام قبول کر لیتے۔ ہندو دھرم میں اگر شودر کے کان میں برہمن کی آواز چلی جائے تو شودر کے کان میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالنے کا حکم ہے۔ تمام مسلمان حکمرانوں نے ہندوؤں کو اعلیٰ عہدے دیے۔ کاروبارِ حکومت میں شامل کیا۔ مسلمان ہو کر بھی ہندو خواتین سے شادیاں کیں۔ ان خواتین نے شاہی محلات کے اندر مندر بنوائے۔ مسلمان حکمرانوں نے مندروں کی نگہداشت اور جملہ اخراجات کیلئے بھاری رقوم دیں اور جائدادیں وقف کیں۔ بھارتی ہندوؤں کو اقتدار ملے ابھی پون صدی ہوئی ہے اور دنیا جانتی ہے کہ مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ گنجے کو ناخن ملنے والی بات ہے۔ مسلمانوں سے شہریت کے ثبوت مانگے جا رہے ہیں۔کیا آٹھ سو سالہ حکمرانی کے دوران کسی ایک ہندو سے بھی شہریت کا ثبوت مانگا گیا؟ مسلم دورِ اقتدار میں ہندوؤں کو بڑے بڑے مناصب پر فائز کیا گیا۔ فوج سے لے کر سول سروس تک‘ بندوبستِ اراضی سے لے کر ٹیکس جمع کرنے تک‘ کسی شعبے میں بھی مقامی آبادی کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ آج بھارت میں مسلمانوں کی آبادی کتنی ہے اور ملازمتوں میں کتنے نظر آرہے ہیں؟ شہروں کے نام تبدیل کر کے مسلم کلچر کو ملیا میٹ کیا جا رہا ہے۔ مساجد کو گرایا جا رہا ہے۔ ہندوؤں کے مذہبی جلوسوں کو آزادی ہے مگر مسلمان مسجد سے باہر نماز نہیں ادا کر سکتے۔ مسلمان آبادیوں کو پریشان کرنے کیلئے قسم قسم کے بہانے تراشے جاتے ہیں!
پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر بھارت کا مائنڈ سیٹ اگر یہ ہے کہ وہ بھیڑیا ہے اور ہم بھیڑیں‘ تو امن کیسے قائم ہو سکتا ہے؟ موجودہ سیز فائر ایک عارضی انتظام ہے۔ پاکستان ایئر فورس کی برتری دیکھ کر امریکہ بھارت کی مدد کو پہنچا اور سیز فائر کرائی۔ ایک بچہ بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اب امریکہ اور اسرائیل‘ دونوں مسلم دشمن ممالک‘ بھر پور کوشش کریں گے کہ چینی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں بھارت کی جو سبکی ہوئی ہے اس کا ازالہ کیا جائے۔ امن کی بات وہاں کی جاتی ہے جہاں امن کا امکان ہو۔ جس طرح بھارت ٹی ٹی پی کو اور بی ایل اے کو اسلحہ اور فنڈز دے رہا ہے‘ کیا قیامِ امن کیلئے دے رہا ہے؟ کیا کلبھوشن امن کا درس دینے آیا تھا؟ بیٹھے بٹھائے سندھ طاس معاہدے پر بھارت نے جو شب خون مارا ہے‘ کیا امن کی تلاش میں مارا ہے؟ پاکستان امن کا دشمن نہیں مگر امن اور خود کُشی میں فرق ہے اور دانشوروں کو یہ فرق نظر آنا چاہیے!راہول گاندھی بھارتی پارلیمنٹ میں چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ بھارتی حکومت نے پاکستان اور چین کو باہم متحد کرکے بھارت کا بہت بڑا نقصان کیا ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ بھارتی پالیسیوں کا ایک اہم حصہ پاکستان اور چین میں دوریاں پیدا کرنا ہے۔ یہ جو پاکستان میں چینیوں پر حملے کیے جاتے ہیں‘ یہ یقینا امریکہ اور بھارت مل کر پلان کرتے ہیں اور پھر طالبان کے ذریعے انہیں عملی جامہ پہناتے ہیں۔ اس جنگ میں طالبان نے پاکستان کی کوئی اخلاقی حمایت نہیں کی۔ ہاں مُلا عبد السلام ضعیف کا ایک زہر آلود بیان ضرور وائرل ہو رہا ہے کہ یہ جنگ ہندوؤں اور پنجابیوں (پاکستانیوں) کے درمیان ہے۔ لگتا ہے کہ مُلا صاحب کا علم بھی ضعیف ہے۔ ارے بھائی! پنجابی تو بھارتی فوج میں بھی ہیں! یہ جنگ ہندوؤں اور پنجابیوں کے درمیان نہیں تھی‘ یہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تھی۔ ٹھیک ہے مُلا صاحب کے ساتھ جو کچھ مشرف دور میں ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا مگر اونٹ اور انسان میں فرق ہونا چاہیے۔ کینہ اس قدر بھی ٹھیک نہیں کہ پاکستان کے تمام احسانات بھلا کر جنگ کو ہندوؤں اور پنجابیوں کی جنگ قرار دے دو!! ناصر کاظمی نے ٹھیک کہا تھا:
میں نے تیرا ساتھ دیا؍ میرے منہ پر کالک مَل
مانا کہ بھارت بھیڑیا ہے مگر پاکستان بھیڑ کا وہ بچہ نہیں جو پانی کے بہاؤ کے رُخ‘ نشیب میں کھڑا تھا اور بھیڑیا کہہ رہا تھا کہ پانی کو گدلا کر دیا ہے۔ مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت کا واویلا مچاتے وقت بھارت کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جو آٹھ سو سال حکومت کر سکتے ہیں وہ تمہاری جارحیت کا منہ توڑ جواب بھی دے سکتے ہیں۔

Thursday, May 08, 2025

صدیقاں بی بی سے لے کر میدانِ جنگ تک

ستائیس سال کا عرصہ تھوڑا عرصہ نہیں ہے۔

صدیقاں بی بی ستائیس سال انتظار کرتی رہی۔ اس عرصہ کے دوران جو بچے پیدا ہوئے‘ انہوں نے چلنا اور بولنا شروع کیا۔ سکولوں میں پہنچے۔ تعلیم مکمل کی۔ ملازمتوں اور کاروبار کی دنیا میں داخل ہو گئے۔ ان کی شادیاں ہو گئیں۔ صاحبِ اولاد ہو گئے۔ صدیقاں بی بی یہ سارا عرصہ انتظار کرتی رہی۔ ستائیس برس کے اس عرصہ میں ملک میں اسلام کا غلغلہ پورے زور و شور کے ساتھ رہا۔ مسجدیں نمازیوں سے چھلکتی رہیں۔ مدارس میں اسلامی تعلیمات دی جاتی رہیں۔ تبلیغی وفود ملک کے اندر اور ملک سے باہر مسلسل سفر میں رہے۔ کالجوں‘ یونیورسٹیوں اور سکولوں میں اسلامیات پڑھائی جاتی رہی۔ لاکھوں پاکستانی حج اور عمرے کرتے رہے۔ پوری دنیا کو قائل کیا جاتا رہا کہ پاکستان کفر کی اس دنیا میں اسلام کا قلعہ ہے! ایک زبردست‘ ناقابلِ تسخیر قلعہ!
صدیقاں بی بی یہ سارا عرصہ انتظار کرتی رہی۔ دھکے کھاتی رہی۔ ایک کچہری سے دوسری کچہری تک۔ ایک عدالت سے دوسری عدالت تک! ایک وکیل کے دفتر سے دوسرے وکیل کے دفتر تک! ایک شہر سے دوسرے شہر تک! فیسیں ادا کرتی رہی! کس چیز کے لیے؟ اُس حق کے لیے جو اللہ نے‘ اللہ کے رسول نے‘ اللہ اور رسول کے قرآن نے اسے دیا تھا۔ اسلام کے اس قلعہ میں اپنے حق کے لیے اسے ستائیس سال لڑنا پڑا‘ ستائیس سال انتظار کرنا پڑا!
باپ مرا تو اس کے بھائی نے باپ کی چھوڑی ہوئی ساری جائیداد پر‘ ساری زمین پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بھائی کو اس کام سے جو سراسر حرام تھا‘ روکنے والا کوئی نہ تھا۔ کسی نے نہیں کہا کہ اللہ اور رسول کے صریح واضح احکام کی نافرمانی نہ کرو! جلد ہی بہن بیوہ ہو گئی۔ اس پر بھی اس کا دل نہ پسیجا! صدیقاں بی بی انصاف کی بھیک مانگنے عدلیہ کے دروازے پر گئی۔ جو مقدمہ ایک ہفتے میں ختم ہو سکتا تھا‘ عدلیہ نے اسے منطقی انجام تک پہنچانے میں 1400سے زائد ہفتے لگا دیے۔ جو معاملہ زیادہ سے زیادہ ایک مہینے میں نمٹایا جا سکتا تھا‘ وہ 324مہینے لٹکتا رہا۔ صدیقاں بی بی انتظار کرتی رہی۔ عدالتوں‘ کچہریوں‘ وکیلوں کے دفتروں کے چکر لگاتی رہی۔ دھکے کھاتی رہی۔ اس اثنا میں سورج 9855بار طلوع ہوا! 9855بار غروب ہوا۔ 9855صبحیں آئیں‘ اتنی ہی شامیں گزریں‘ اتنی ہی دوپہریں بیتیں! صدیقاں بی بی جھولی پھیلائے منتظر رہی! بالآخر ستائیس سال بعد اسے اس کا جائز شرعی اور قانونی حق ملا!
یہ صرف ایک صدیقاں بی بی کی سرگزشت نہیں۔ اس ملک میں لاکھوں صدیقاں بیبیاں اپنے حق کے لیے در بدر رُل رہی ہیں۔ ہر طبقے کے مرد اس کارِخیر میں شامل ہیں۔ وہ بھی جو تھری پیس سوٹ پہن کر‘ پائپ ہونٹوں میں دبا کر‘ نکٹائی کی ناٹ درست کرتے ہوئے گفتگو میں فرنگی زبان کے پیوند لگائے حقوقِ نسواں پر لمبے لمبے لیکچر دیتے ہیں۔ وہ بھی جو پُر پیچ عمامے سروں پر رکھے‘ چُغے زیب تن کیے‘ منبروں پر بیٹھے اس محبت کا ذکر کرتے ہیں جو اللہ کے رسول کو سیدہ فاطمۃ الزہراؓ سے تھی۔ وہ بھی جو ''میرا جسم میری مرضی‘‘ کے نعرے لگاتی کوچہ و بازار میں ہنگامے برپا کرتی نظر آتی ہیں۔ وراثت کی تقسیم کا وقت آئے تو یہ بیبیاں ہمیشہ بیٹوں کی طرفداری کرتی ہیں۔ بہنیں اپنے حق کا مطالبہ کریں تو انہیں ''ڈائن‘‘ کہتی ہیں۔ کتنی ہی لڑکیوں کی شادی نہیں کی جاتی صرف اس لیے کہ زمین ''غیروں‘‘ کے ہاتھ میں نہ آجائے۔ اسی ملک میں بیٹیوں کی شادیاں‘ نعوذ باللہ قرآن کے ساتھ کی جاتی ہیں کہ سسرال والے جائیداد میں حصہ نہ مانگ بیٹھیں۔
دردناک تضاد 
(Paradox) 
یہ ہے کہ عورت کے ساتھ ظلم اور ناانصافی میں بہت بڑا کردار خود عورت ہی کا ہے۔ عورت ہی بیٹے کو مجبور کرتی ہے کہ لڑکیاں پیدا ہو رہی ہیں‘ لڑکے کی پیدائش کے لیے دوسری شادی کرے اور پہلی بیوی سے جان چھڑائے۔ ہسپتال میں نرس آکر بیٹی کی پیدائش کی خبر دیتی ہے تو تھپڑ نرس کے چہرے پر نوزائیدہ بچی کی دادی ہی رسید کرتی ہے۔ لڑکی جب دسویں یا بارہویں جماعت کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کرتی ہے اور باپ مان بھی جاتا ہے تو ماں ہی اعتراض کرتی ہے کہ کون سی نوکری کرنی ہے اس نے!! سول سروس میں بھی یہی دیکھا کہ جونیئر خواتین افسر سینئر خواتین افسروں سے نالاں ہی رہتی ہیں! اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے!!!
پس نوشت۔ دشمن پاکستان پر حملہ کر کے جنگ کا آغاز کر چکا ہے۔ بھارت کی بدقسمتی ہے کہ اس پر آر ایس ایس حکومت کر رہی ہے جو نہ صرف بھارت کے اندر غیر ہندوؤں کی جانی دشمن ہے بلکہ پڑوسی ملکوں کو بھی اپنے شاوِنزم کا شکار بنانا چاہتی ہے۔ مودی سرکار الیکشن سے فائدہ اٹھانے کے لیے بھی طبلِ جنگ بجاتی رہی ہے اور بجا رہی ہے۔ ہماری کفن پوش مسلح افواج کسی بھی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں اور ہمہ وقت‘ ہر پل‘ ہر گھڑی مستعد کھڑی ہیں! مگر جنگ جیتنے کے لیے صرف فوج اور اسلحہ کافی نہیں ہوتا۔ لازم ہے کہ پوری پاکستانی قوم اپنی افواج کی پشت پر متحد ہو کر کھڑی ہو۔ اس اعتبار سے حکومت پر‘ اور مقتدرہ پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس نازک وقت میں پی ٹی آئی کو مین سٹریم سیاسی پارٹیوں کے ساتھ بیٹھنے کے لیے آمادہ کرنا اصلاً حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ وقت اختلافات بھلانے کا ہے۔ پارٹیوں کے سربراہوں کا اجلاس اگر قومی سلامتی کے ضمن میں منعقد ہوتا ہے تو عمران خان کو اس میں بیٹھنا چاہیے اور مقتدر طبقات کو خود کوشش کرنی چاہیے کہ عمران خان دوسرے سربراہوں کے ساتھ بیٹھیں اور اپنی آرا اور خیالات کے ذریعے اپنا حصہ ڈالیں۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کو بھی اس نازک لمحے میں اپنے رویے پر نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمارے باہمی لڑائی جھگڑوں کا میدان بعد میں بھی سج سکتا ہے۔ لمحۂ موجود میں اتحاد اور اتفاق از حد ضروری ہے۔ یہ ملک پی ٹی آئی کا بھی ہے۔ میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ پی ٹی آئی کے وابستگان حب الوطنی میں کسی سے پیچھے ہیں۔ بیرونِ ملک کمیں گاہوں میں بیٹھے ہوئے چند وی لاگروں کو چھوڑکر تمام کی تمام پی ٹی آئی یقینا پاکستان کی وفادار ہے۔ یہ گھڑی نازک ہے۔ اس گھڑی مسلح افواج پر طعن و تشنیع کے تیر نہیں برسانے چاہئیں۔ اختلافات بالائے طاق رکھ کر پی ٹی آئی کو بھی دوسری سیاسی پارٹیوں کے شانہ بشانہ بھارت کو بتانا ہو گا کہ ہم سب ایک ہیں!
کئی گنا بڑا ملک ہونے کے باوجود بھارت پاکستان کے حوالے سے احساسِ کمتری کا شکار ہے۔ اسے اپنے سائز پر اعتماد ہے نہ اپنے بے پناہ وسائل پر! وہ اس سانپ کی طرح ہے جو چیونٹی سے ڈرتا ہے۔ یہ احساسِ کمتری آج کا نہیں‘ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ یہ افضل خان اور شیوا جی کی لڑائی ہے جو جاری ہے۔ افضل خان بہادری‘ جرأت اور کھلے مقابلے کا سمبل ہے اور شیوا جی فریب‘ جھوٹ اور دغا بازی کی علامت ہے۔ بھارت کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جنگ پورے جنوبی ایشیا کے لیے تباہی لائے گی۔ دونوں ملک معاشی اعتبار سے کئی سال پیچھے چلے جائیں گے۔ بھوک کا زور پورے خطے میں بڑھ جائے گا۔ کاش دونوں ممالک ایک دوسرے کو دیکھنے کے لیے اپنی اپنی عینکوں کے شیشے تبدیل کریں! دونوں ملکوں کو چاہیے کہ متحد ہو کر اقتصادی میدان میں پوری دنیا کی قیادت کریں۔ اس اتحاد کے لیے لازم ہے کہ آر ایس ایس اَکھنڈ بھارت کا راگ الاپنا بند کر دے!!

Tuesday, May 06, 2025

پاکستان ہماری ریڈ لائن ہے


مسافر چیخ رہے تھے۔ جہاز ہچکولے کھا رہا تھا۔ اب گرا کہ گرا! اچانک ایک آواز ابھری ''گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ نیچے دیکھیے‘ سمندر کے صاف شفاف پانی پر چلتی ایک خوبصورت کشتی نظر آئے گی۔ ہم اسی کشتی سے بول رہے ہیں‘‘۔ اس لطیفہ نما حکایت سے یہ سبق ملتا ہے کہ یہ بات کہ ایک انسان کیا کہتا ہے اور کس طرح کہتا ہے‘ اس امر پر منحصر ہے کہ وہ کہاں ہے اور جو کچھ کہہ رہا ہے‘ کہاں سے کہہ رہا ہے؟ بحر اوقیانوس کے پار‘ امریکہ کی مشفق‘ سرپرستانہ‘ نرم‘ مخملیں گود میں بیٹھ کر اسرائیل کے حق میں بولنا اور پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنا اور بات ہے اور پاکستان کے اندر رہ کر کچھ کہنا اور بات ہے۔
شعائیں‘ Vibes تو اس شخص سے ہمیشہ منفی اور ناپسندیدہ ہی اٹھتی تھیں مگر یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ بے حسی کی آخری حد بھی پیچھے رہ جائے گی۔ تازہ ترین ہزلیات کی جھلکیاں دیکھیے۔
''اگر اسرائیل غاصب ہے تو اس کو ذرا ڈی کوڈ کریں‘ یہ کیا چیز ہے۔ اسرائیل کو وہاں عالمی قوتوں نے بٹھایا ہے۔ وہی عالمی قوتیں کہ جنہوں نے ستاون اسلامی ممالک کی لکیریں کھینچی ہیں!‘‘۔
''یہی مقدمہ طالبان پیش کرتے ہیں کہ یہ غاصب ہیں پاکستانی۔ انہوں نے ڈیورنڈ لائن کو لائن بنا کر ہمیں تقسیم کر دیا ہے‘‘۔ 
''پھر ہندوؤں کا یہ مقدمہ بھی تسلیم کریں کہ مسلمان غاصب ہیں۔ہندوؤں کے گھر میں ایک ہزار سال تک ہم بیٹھے رہے‘‘۔
اب جب یہ مقدمہ ''قائم‘‘ ہو گیا کہ ''ہم‘‘ بھی غاصب ہیں تو انٹرویو لینے والا پوچھتا ہے کہ ''جب ہم بھی غاصب ہیں اور وہ بھی‘ تو کیا کرنا چاہیے‘ تو یہ بزرجمہر کہتا ہے کہ ''سب سے پہلے اپنی زمین چھوڑیں اور ہندوؤں کے حوالے کریں‘‘۔
ان ''دلائل‘‘ کی صداقت کو تو ہم دیکھیں گے ہی‘ جس تکبر‘ نخوت‘ رعونت اور گھمنڈ کے ساتھ یہ ژاژ خائی اور ہذیان گوئی کی جا رہی ہے اس پر ہنسی بھی آتی ہے اور رحم بھی!! یوں لگتا ہے کہ بہت اونچے تخت پر بیٹھ کر طاقتور ترین ملک کا کوئی بہت بڑا نمائندہ فیصلے صادر کر رہا ہے!! آخر طاقتور ترین ملک میں رہنے سے یہ احساس تو ہو ہی جاتا ہے کہ ''میں بھی طاقتور ترین ہوں‘‘۔
تقسیمِ ہند سے پہلے کا واقعہ ہے۔ لاہور میں مسلم لیگ کا جلوس تھا یا کانگرس کا۔ دو خاکروب جیمز اور سام‘ شاہراہ کے کنارے‘ اپنے اپنے جھاڑو زمین پر رکھے سستا رہے تھے۔ جلوس پاس سے گزرا تو جیمز نے سام سے پوچھا: یار سام! اے کیہ چاہندے نیں۔ یعنی یہ کیا چاہتے ہیں؟ سام نے جواب دیا: اے آزادی چاہندے نے‘ جیہڑی اسی نئیں دینی۔ یعنی یہ آزادی چاہتے ہیں جو ہم نے دینی نہیں!!
مسلمان ہی نہیں‘ غیر مسلم بھی دہائی دے رہے ہیں کہ اسرائیل غاصب ہے! اس بزرجمہر کی ممدوح عالمی قوتوں نے جب اسرائیل کو جنم دیا تھا تو اس وقت فلسطین کی کتنی زمین تھی یہودیوں کے قبضے میں؟ کالم نگار آصف محمود نے اعداد وشمار دیے ہیں۔ اسرائیل کے قیام کے وقت یہودیوں کے پاس صرف چھ فیصد زمین تھی۔ یروشلم میں دو فیصد اور باقی شہروں میں ان کے پاس ایک فیصد سے بھی کم زمین تھی۔ کیا آج بھی یہودیوں کے پاس اتنی ہی زمین ہے؟ کیا نئی یہودی بستیوں کو دنیا بھر نے ظلم اور ڈاکہ نہیں قرار دیا؟ کون سا ظلم ہے جو اہلِ فلسطین پر نہیں ہوا۔دنیا بھر سے غول در غول یہودی آتے گئے اور فلسطینیوں کو پیچھے دھکیلتے گئے۔ آئے دن ان کا قتلِ عام ہوتا ہے۔ المناک ترین حصہ اس یاوہ گوئی کا وہ ہے جس میں پاکستان کو بھی لپیٹ میں لیا گیا۔ یعنی بازی بازی باریشِ بابا ہم بازی! کہ طالبان بھی تو پاکستان کو غاصب کہتے ہیں۔ یہ بہت بڑا جھوٹ ہے۔ کسی طالبان رہنما نے پاکستان کو کبھی غاصب نہیں کہا۔ اسرائیل کے ضمن میں پاکستان کا ذکر کہاں سے اور کیسے آ گیا؟ پاکستان ہماری جان ہے اور زندگی! پاکستان ہماری ریڈ لائن ہے۔ اس ریڈ لائن کو جو کراس کرے گا ہم اس کا تعاقب کریں گے‘ خواہ وہ کسی کی گود ہی میں کیوں نہ بیٹھا ہو۔ پاکستان کا موازنہ اسرائیل سے وہی کر سکتا ہے جو عقل سے عاری ہو اور تاریخ سے مکمل بے بہرہ! کیا پاکستان میں بسنے والے دوسرے ملکوں سے لائے گئے؟ ہم اس خطے میں ہزاروں سال سے رہ رہے ہیں۔ پاکستان ایک تحریک کے نتیجے میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ اسے کسی عالمی قوت نے تخلیق نہیں کیا۔ یہ اقبال کے تصور اور قائداعظم کی بے پناہ ذہانت‘ محنت اور دیانتداری کا ثمر ہے! اس کی تشکیل میں یہودیوں کی دولت کا نہیں‘ مسلمانوں کی کوشش اور دعاؤں کا حصہ ہے۔ یہ اُس مسلم لیگ نے بنوایا جس کی تاسیس 1906ء میں ڈھاکہ میں ہوئی تھی۔ کیا یہ مسلم لیگ نام نہاد عالمی قوتوں نے بنوائی تھی؟ بنگلہ دیش الگ ہو کر بھی ثابت کر رہا ہے کہ برصغیر کے مسلمان اپنی الگ حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کا موازنہ اسرائیل کے ساتھ کوئی محب وطن پاکستانی نہیں کر سکتا! جسے رمق بھر بھی احساس ہو کہ اس نے اس سرزمین سے اُگنے والا اناج کھایا ہے‘ اس کے چشموں کا پانی پیا ہے‘ اس کی دھوپ اور چاندنی نے اس کے جسم کی نشو ونما کی ہے‘ اس کی ہواؤں‘ فضاؤں‘ بہاروں‘ موسموں اور خوشبوؤں سے وہ لطف اندوز ہوا ہے‘ وہ کبھی بھی پاکستان کے بارے میں ایسے فاسد خیالات نہیں رکھ سکتا۔ وہ تو اس کے ذرے ذرے کو مقدس سمجھتا ہے۔ پاکستان کے دفاع میں ہمارے بیٹوں نے اپنا خون دیا ہے اور مسلسل دے رہے ہیں۔ اس کی خاطر ہمارے بچے یتیم ہوئے ہیں۔ ہماری خواتین بیوہ ہوئی ہیں۔ ہماری ماؤں نے اپنے جگر گوشے قربان کیے ہیں اور جب ان ماؤں کو شہادت کی خبر ملتی ہیں تو الحمدللہ کہتی ہیں۔ ایسی مقدس سرزمین کو اسرائیل کے ساتھ تشبیہ دینے والے کے بارے میں نرم ترین الفاظ میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ جس تھالی میں کھایا اسی میں چھید کر ڈالا!
ان افسوسناک جملوں سے ایک بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ بیک وقت‘ اور بیک آواز‘ بھارت اور اسرائیل دونوں کی خدمت کی جا رہی ہے۔ یہ بات کہ مسلمان ایک ہزار سال سے ہندوؤں کی زمین پر قابض ہیں اور یہ کہ انہیں یہ زمین ہندوؤں کے حوالے کر دینی چاہیے‘ آر ایس ایس اور بی جے پی کا مؤقف ہے۔ یہی کچھ تو مودی‘ ادتیا ناتھ اور امیت شاہ جیسے اکھنڈ بھارتی کہتے اور چاہتے ہیں! یہی راگ تو بھارتی جنرل گگن دیپ بخشی‘ ارناب گوسوامی اور ان کے ہم نوا رات دن الاپ رہے ہیں! اندازہ لگائیے! کیا کوئی پاکستانی مسلمان‘ کوئی بنگلہ دیشی مسلمان‘ کوئی بھارتی مسلمان کہہ سکتا ہے کہ ہم ہندوؤں کے گھروں میں ایک ہزار سال سے بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ کہ اسرائیل کا کچھ کرنے سے پہلے مسلمانوں کو چاہیے کہ برصغیر خالی کر دیں اور زمین ہندوؤں کے حوالے کر دیں!! انا للہ وانا الیہ راجعون! تفو بر تو اے چرخِ گردوں تفو!!
میر جعفر اور میر صادق کے سروں پر سینگ نہیں تھے۔ وہ بھی انسانی شکل ہی میں تھے۔ وہ بھی سر پر ٹوپی پہنتے تھے اور نئے نئے برانڈڈ ملبوسات! وہ بھی معروف لوگوں کے داماد ہی تھے!
بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں
اگرچہ پیر ہے آدم‘ جواں ہیں لات ومنات
یہ صرف مذمت کا نہیں‘ ماتم کا بھی مقام ہے! ایک انسان کتنا گر سکتا ہے؟ نہیں معلوم یہ خدمت طویل المیعاد ویزے کے صلے میں سر انجام دی جا رہی ہے یا گرین کارڈ یا پاسپورٹ کے صلے میں! یا کسی اور سلسلے میں! مؤقف یہ ہو بہو‘ حرف بحرف وہی ہے جو امریکہ میں مقیم بھارتی اور اسرائیلی لابیاں رکھتی ہیں! ظفر اقبال یاد آ گئے:
دیکھ حسرت کوئی رہ جائے نہ دل میں تیرے
شور کر اور بہت‘ خاک اڑا اور بہت

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved

Thursday, May 01, 2025

رستم‘ گھوڑے اور ڈائنو سار

نانا کے گھر میں رکھی آبائی زینیں دیکھنے‘ اور بارہا دیکھنے کا کچھ تو اثر ہونا تھا۔ تین سال کی عمر میں پولو میچ دیکھنے کا شوق‘ وہ بھی جنون کی حد تک! پولو کلب اس کی پسندیدہ جگہ ہے۔ جیسے ہی گاڑی باہر نکالوں‘ جوتے پہن کر آ جاتا ہے کہ چلیں پولو کلب! پولو کلب پہنچنے کے بعد اس کا رویہ عجیب و غریب ہوتا ہے۔ ہم سب گھر والے جہاں بیٹھے ہوتے ہیں اچانک دیکھتے ہیں کہ رستم وہاں سے غائب ہے۔ میں اور اس کی ماں اسے ڈھونڈنے نکلتے ہیں۔ پولو گراؤنڈ کے ایک کنارے پر لکڑی کے بہت سے بینچ پڑے ہوتے ہیں۔ پولو کے اصل شائقین یہیں بیٹھتے ہیں۔ ان شائقین کو اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ بینچ لکڑی کا ہے یا کرسی مخمل کی ہے۔ اور چائے ملے گی یا نہیں۔ یہاں ہم رستم کو تلاش کرتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ وہ اجنبی خواتین و حضرات کے درمیان بیٹھا میچ دیکھنے میں محو ہے۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ دائیں بائیں کون لوگ بیٹھے ہیں۔ ہم اسے اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ چل کے ہمارے ساتھ بیٹھے اور کچھ کھا پی لے۔ مگر وہ سنی اَن سنی کر دیتا ہے۔ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ چند دن پہلے ہم کلب میں گئے تو وہ میچ کا دن نہیں تھا۔ دور پڑے ہوئے لکڑی کے بینچ ویران اور افسردہ پڑے تھے۔ چند ہی لوگ تھے جو کلب کے ریستوران میں بیٹھے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد ہم نے نوٹ کیا کہ رستم پھر غائب ہے۔ دیکھا تو دور‘ خالی بینچوں کے ایک کنارے پر یکہ و تنہا بیٹھا تھا۔ میں دبے پاؤں چلتا اس کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔ ٹانگیں ہلا رہا تھا۔ ذرا آگے ہو کر دیکھا‘ ساتھ مسکرائے جا رہا تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ خوش ہے اور تنہائی سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ اس کے بعد اس نے جو کچھ کیا وہ حد درجہ تعجب انگیز تھا۔ جیسے ہی اسے معلوم ہوا کہ نانا ابو آگئے ہیں وہ اٹھا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا بینچوں کے دوسرے کنارے جا بیٹھا۔ مطلب واضح تھا کہ موصوف کو تخلیہ چاہیے تھا۔ چنانچہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ یہ کُنجِ خلوت اس نے اُس وقت چھوڑا جب ہم گھر جانے کے لیے پولو کلب سے نکلے۔ وہ ہمارے ساتھ آیا مگر صاف دکھائی دے رہا تھا کہ ناخوش تھا۔ صرف پولو میچ سے نہیں اسے گھوڑوں سے بھی دلچسپی ہے اور حد سے زیادہ ہے۔ اس کے کھلونوں کا معتدبہ حصہ گھوڑوں پر مشتمل ہے۔ تین ڈالر کا جو پلاسٹک کا سرخ گھوڑا میں باہر سے اس کے لیے لایا وہ اس کا دن رات کا ساتھی ہے۔ کلب میں جہاں گھوڑوں کے تھان ہیں‘ وہاں بھی جاتا ہے۔ ایک ایک گھوڑے کو دیکھتا ہے۔ ایک دن اپنے پلاسٹک کے سرخ گھوڑے کو اصلی گھوڑے کے چہرے پر رگڑ رہا تھا۔ گھوڑوں کا رکھوالا دوڑتا آیا کہ بچے کو ہٹائیے‘ گھوڑا کاٹ بھی سکتا ہے۔ ہٹایا تو بہت دیر روتا رہا! جہاں گھوڑوں کو نہلایا جاتا ہے وہ بھی اس کا پسندیدہ مقام ہے۔ پائپوں سے جب گھوڑوں پر پانی ڈالا جاتا ہے تو اتنے غور سے دیکھتا ہے جیسے گھوڑوں کو نہلانے کی تربیت لے رہا ہو!

ڈائنو سار‘ گھوڑوں کے بعد اس کا دوسرا جنون ہیں۔ بازار میں کھلونوں کی دکانوں پر جس کثیر مقدار میں ڈائنو سار پڑے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شوق بچوں میں آج کل عام ہے۔ میرے اپنے بچے جب چھوٹے تھے تو اسلام آباد بلیو ایریا میں واقع کھلونوں کی ایک خاص دکان تھی جس میں ہم میاں بیوی جایا کرتے تھے۔ ان صاحب سے جیسے دوستی ہو گئی تھی۔ اس کے بعد رابطہ منقطع ہو گیا۔ آج سالہا سال بعد یہ سطور لکھتے وقت وہاں فون کیا تو معلوم ہوا کہ وہ جو ہمارا دوست تھا وہ اب دنیا میں نہیں رہا۔ اس کے بیٹے سے تعزیت کی اور وجہ پوچھی کہ ڈائنو سار کیوں بچوں پر چھائے ہوئے ہیں؟ اس خوش اخلاق نوجوان نے دو وجوہ بتائیں۔ ایک یہ کہ بچوں کی فلموں میں ڈائنو سار بہت دکھائی دیتے ہیں جیسے جُراسک پارک والی فلم تھی۔ دوسرے اسلام آباد میں ڈائنو سار پارک بھی موجود ہے۔ خیر انٹرنیٹ پر جائیں تو بیسیوں وجوہ ملتی ہیں۔ رستم کا اوڑھنا بچھونا ڈائنو سار ہیں۔ دو ایک ہاتھ میں‘ دو دوسرے ہاتھ میں ہر وقت پکڑے رہتا ہے۔ کبھی کبھی ڈر لگتا ہے کہ اس مسلسل عمل سے اس کے ہاتھ بڑے ہی نہ ہو جائیں۔ دو دن پہلے فرش پر لیٹا رو رہا تھا اور روئے جا رہا تھا۔ پوچھا: کیا بات ہے‘ تو کہنے لگا: جمیل گم ہو گیا ہے۔ میرے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ جمیل بھائی کون ہیں اور گم کیسے ہو گئے ہیں۔ بتایا گیا کہ سبز رنگ کے ڈائنو سار کا نام جمیل ہے۔ اور یہ جمیل کم بخت صبح سے غائب ہے۔ ڈُھنڈیا پڑ گئی۔ رستم کی نانو کے پلنگ کے نیچے چھپا بیٹھا تھا۔ رستم نے اسے سینے سے لگا لیا۔ میں نے پیشکش کی کہ اس نے آپ کو تنگ کیا ہے اسے ذرا سزا دیتے ہیں‘ کہنے لگا: نہیں‘ اسے مارنا نہیں ہے۔
اس کے ماں باپ کا سب سے بڑا مسئلہ اس کے سکرین کے اوقات کو کنٹرول کرنا ہے۔ یقینا تمام عقلمند والدین اس مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں۔ کئی مہینے ہوئے ایک بار مجھ سے ضد کر رہا تھا کہ آئی پیڈ پر ڈائنو سار والی یوٹیوب وڈیو لگا دوں۔ میں نے کہا: پہلے اپنی اماں یا ابا سے پوچھو۔ اماں نے صاف انکار کر دیا کہ اس دن کا سکرین کا کوٹہ ختم کر چکا ہے۔ میں نے سفارش کی تو اس کی ماں نے کہا: ٹھیک ہے مگر صرف چھ منٹ دیکھے گا۔ اس بات کو کئی ماہ گزر چکے ہیں مگر چھ منٹ کی رعایت اس کے ذہن پر چپک کر رہ گئی ہے۔ میں دیر سے اٹھتا ہوں۔ وہ سحر خیز ہے۔ میرے پلنگ پر آجاتا ہے۔ پہلے میرے اوپر چھلانگیں لگاتا ہے۔ پھر مجھے پیار کرتا ہے۔ اپنے رخسار میرے چہرے سے مس کرتا ہے۔ ایسے میں مجھے والد گرامی مرحوم یاد آجاتے ہیں‘ صبح صبح مجھے جگاتے تھے تو اپنے رخسار میرے چہرے کے ساتھ لگاتے تھے جو وضو کی وجہ سے ٹھنڈے ہوتے تھے۔ یہ ٹھنڈک میرے جسم اور میری جان کے اندر اور ہڈیوں میں اور ہڈیوں کے اندر گودے میں اور وریدوں میں دوڑتے لہو کے اندر اُتر جاتی تھی۔ رستم بھی اسی طرح اپنا چہرا میرے چہرے کے ساتھ لگاتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے باپ دادا کی روحیں ہمارے بچوں میں آ جاتی ہیں۔ دادی جان مجھے دو بری عادتوں سے منع کرتی تھیں۔ کان میں دیا سلائی مارنے سے اور ہونٹ چھیلنے سے! جیسے ہی ان کا انتقال ہوا‘ یہ فرائض میری چھوٹی بیٹی نے سنبھال لیے۔ نہ کان میں تیلا پھیرنے سے لطف اندوز ہونے دیتی ہے نہ ہونٹ نوچنے دیتی ہے۔ یوں لگتا ہے دادی جان کی روح اس میں آ گئی ہے۔ رستم میرے چہرے پر اپنا چہرہ رکھ دیتا ہے۔ جیسے ہی میری آنکھ کھلتی ہے کہتا ہے ''صرف چھ منٹ‘ پھر بند کر دوں گا‘‘۔ اس کی ماں سے چوری چوری اسے ڈائنو سار والے کلپ لگا دیتا ہوں مگر پانچ دس منٹ بعد بند کرا دیتا ہوں!!
ڈائنو سار سے یاد آیا کہ اسلام آباد کے پولو کلب میں کچھ ہستیاں سیر کرتی نظر آتی ہیں۔ ایک سابق قاضی القضات دکھائی دیتے ہیں۔ سیر کرتے وقت ان کے جسمِ مبارک کا سارا جھکاؤ بائیں طرف ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے بائیں طرف صاحبزادہ ہو۔ ورنہ جھکاؤ کے بغیر ڈاکٹری پڑھ کر ایف آئی اے میں کیسے جاتا؟ اور پراپرٹی ٹائیکون ... خیر رہنے دیجیے اس بات کو۔ ایک سابق سینیٹ سربراہ بھی نظر آتے ہیں۔ اقبال کا مصرع یاد آجاتا ہے۔''غلامِ طغرل و سنجر نہیں میں!‘‘۔ ماشا اللہ بہت لائق اور دانشور! اپنے آپ کو وہ مراعات دے گئے جن کی پوری کرۂ ارض میں مثال نہیں ملتی!! کون کہتا ہے کہ ڈائنو سار زمین سے ناپید ہو چکے ہیں؟؟؟

Tuesday, April 29, 2025

بھارت کی پانی میں آگ لگانے کی کوشش


اللہ ہم اہلِ پاکستان پر رحم کرے! یورپ اور امریکہ کے ایک ایک شہر‘ ایک ایک قصبے کی معلومات ہیں مگر اپنے اڑوس پڑوس کا پتا نہیں! چند دہائیاں پہلے یہاں کوئی نہیں جانتا تھا کہ افغانستان میں تاجک‘ ازبک اور ہزارہ بھی ہیں۔ اکثریت پاکستانیوں کی یہی سمجھتی تھی کہ وہاں صرف پشتو بولنے والے ہیں۔ آج کتنے پاکستانیوں کو علم ہے کہ آر ایس ایس 

(Rashtriya Swayamsevak Sangh) 

کیا چیز ہے؟ کب بنی؟ اس کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟ اس نے کون کون سے ''کارنامے‘‘ سر انجام دیے ہیں اور اس کے حتمی عزائم کیا ہیں؟ آر ایس ایس کے دوسرے بڑے لیڈر گول والکر 

(Golwalkar) 

نے‘ جو درحقیقت تنظیم کا اصل معمار تھا‘ صاف الفاظ میں مقصد بیان کر دیا۔
''جو لوگ ہندوستان میں ہندو نہیں ہیں ان کے لیے دو ہی راستے ہیں۔ انہیں ہندو کلچر اور ہندو زبانیں اپنانا ہوں گی‘ ہندو مذہب کو اعلیٰ ترین عزت دینا ہو گی‘ ہندو نسل اور کلچر کی برتری تسلیم کرنا ہو گی۔ ایک لفظ میں بات کہنی ہو تو بات یہ ہے کہ وہ غیر ہندو نہیں رہیں گے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ اگر ہندوستان میں رہنا ہے تو ہندو قوم کا ماتحت بن کر رہنا ہو گا۔ کسی شے کا یا کسی حق کا دعویٰ نہیں کریں گے۔ ان کے کچھ بھی حقوق نہیں ہوں گے۔ یہاں تک کہ شہری حقوق بھی نہیں ملیں گے!‘‘
یہ منشور کوئی ڈھکا چھپا نہیں! آر ایس ایس کے کسی بھی تذکرے‘ کسی بھی تاریخ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بی جے پی کی حکومت‘ آر ایس ایس کا سیاسی چہرہ ہے۔ جیسے ہی آر ایس ایس کو پہلے گجرات میں حکومت ملی‘ اس نے اپنے نظریات کو عملی شکل دینے کا کام شروع کر دیا۔ نریندر مودی اپنے سیاسی کیریئر کی ابتدا ہی سے آر ایس ایس کا رکن بن گیا تھا۔ آٹھ سال کی عمر ہی سے مودی آر ایس ایس کے تربیتی پروگراموں میں شریک ہونے لگا تھا۔ 1978ء میں اسے علاقائی منتظم بنا دیا گیا۔ 1985ء میں آر ایس ایس نے خود مودی کو بی جے پی کے حوالے کیا۔ ترقی کرتے کرتے اپنی کارکردگی کی وجہ سے وہ بی جے پی کا سیکرٹری جنرل بن گیا۔ گجرات میں اپنی چیف منسٹری کے دوران جو کچھ اس نے مسلمانوں کے ساتھ کیا‘ وہ آر ایس ایس کی سوچی سمجھی سکیم تھی۔ بی جے پی کو جب مرکز میں حکومت ملی تو اسے موقع مل گیا کہ وہ اپنے عزائم کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔ بی جے پی کے اور اس کی ماں 'آر ایس ایس‘ کے تین اہداف تھے۔ اول: بھارتی مسلمانوں کو اتنا زچ کرنا کہ وہ یا تو بھارت چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں یا ہسپانوی مُورسکو کی طرح ضم ہو جائیں۔ دوم: کشمیر کا قصہ ہمیشہ کے لیے تمام کرنا، اور سوم: پاکستان کو جتنا نقصان پہنچانا ممکن ہو‘ پہنچانا! پہلے ہدف کی بات کرتے ہیں۔ بھارت نے مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے ہمیشہ سپین اور اسرائیل کے ماڈل سامنے رکھے ہیں۔ (غالباً یہ ڈی پی دھر تھا جسے ہسپانیہ میں بھیجا گیا تھا کہ مسلمانوں کے خاتمے کے حوالے سے ریسرچ کرے) اسرائیل اور بھارت کا یک جان دو قالب ہونا کوئی راز نہیں۔ اسرائیل کی پیروی کا آغاز بھارت آسام میں کر چکا ہے۔ صدیوں سے وہاں رہنے والے مسلمانوں سے شہریت کے کاغذات مانگے جا رہے ہیں۔ کبھی انہیں بنگلہ دیشی کہہ کر ملک بدر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پلان بھارت کا یہ ہے کہ آسام میں مسلمانوں کو آخرکار 

Ghettos 

میں رہنے پر مجبور کر دیا جائے‘ بالکل اسی طرح جیسے مسلمانوں کے ساتھ اسرائیل میں ہو رہا ہے۔ اس کے بعد یہ ماڈل دوسری ریاستوں میں اپنایا جائے۔ بی جے پی کی حکومت کے پاس طویل المیعاد ایسے بہت سے منصوبے ہیں۔ ارادے اس کے یہ ہیں کہ مسلمانوں کے بعد دوسری اقلیتوں کو بھی ختم کیا جائے۔ بھارت کی مشرقی ریاست مَنی پور میں مسیحی آبادی کے خلاف اکثر و بیشتر فسادات بھڑکائے جاتے ہیں۔ مسیحی افراد کو کئی بار قتل کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کی زندگی جہنم بنانے کے لیے مودی نے دو عفریت چنے۔ ایک کا نام امیت شاہ ہے جو وزیر داخلہ ہے اور پولیس کا سپریم باس ہے۔کچھ برس پہلے دہلی میں جب مسلمانوں کے خلاف فسادات کرائے گئے تو اس میں پولیس فورس نے بنیادی کردار ادا کیا۔ دوسرا عفریت ادتیا ناتھ ہے جو یوپی کا وزیراعلیٰ ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے حوالے سے جو شہر اور قصبے اہم حیثیت رکھتے ہیں ان کی زیادہ تعداد یو پی میں ہے۔ لکھنؤ‘ علی گڑھ‘ غازی آباد‘ آگرہ‘ میرٹھ‘ الہ آباد‘ بریلی‘ مراد آباد‘ سہارنپور‘ دیوبند‘ مظفر نگر‘ بدایوں‘ رام پور‘ فرخ آباد‘ بلند شہر‘ فتح پور‘ اعظم گڑھ‘ بجنور‘ آگرہ‘ یہ تو چند نام ہیں۔ ادتیا ناتھ ان شہروں کے مسلمانوں پر ہلاکو خان کی طرح ٹوٹا ہے۔ مدرسوں میں مداخلت کی۔ جمعہ اور عیدین کی نمازیں کھلے میدانوں میں ادا کرنے پر پابندی لگائی۔ اس متعصب پنڈت نے آر ایس ایس کے ورکروں کو یہاں تک کہا کہ مسلمان خواتین کے ساتھ زیادتی کرو۔ مسلمانوں کی صدیوں پرانی ثقافت کے ساتھ جو کھلواڑ یہ کھیل رہا ہے وہ حد درجہ مکروہ ہے۔ جن شہروں کے نام مسلمانوں سے وابستہ ہیں‘ ان کے نام بدل رہا ہے۔ الہ آباد کا نام تبدیل کیا۔ پھر آگرہ کا۔ کئی اور شہروں اور قصبوں کے نام بھی اس کی فہرست میں ہیں۔ ادتیا ناتھ اگلا وزیراعظم بننے کے خواب بھی دیکھ رہا ہے۔ خدا نخواستہ ایسا ہوا تو یہ قیامت کی گھڑی ہو گی۔ 
دوسرا ہدف بی جے پی کا کشمیر تھا۔ کافی حد تک یہ ہدف حاصل کیا جا چکا۔ آئین میں کشمیر کو جو خصوصی حیثیت حاصل تھی‘ اسے ختم کر دیا گیا۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے علاوہ کسی مسلم ملک نے احتجاج نہیں کیا۔ ایک منظم طریقے سے مسلمانوں کی آبادی کم کی جا رہی ہے اور ہندوؤں کو بسایا جا رہا ہے۔ تیسرا اور بڑا ہدف پاکستان کو ہر ممکن نقصان پہنچانا ہے۔ بدقسمتی سے افغانستان نے اس سلسلے میں ہمیشہ کرائے کے ٹٹو کا کردار ادا کیا ہے۔ یہ جو پاکستانی حکومتوں اور پاکستانی عوام کو امید تھی کہ طالبان برسر اقتدار آئیں گے تو پاکستان سکھ کا سانس لے گا‘ یہ امید سراب ثابت ہوئی کہ طریقِ کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی۔ بھارت پہلے بھی اور اب بھی افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ ٹی ٹی پی ہو یا بی ایل اے‘ پشت پر بھارت ہی کھڑا ہے اور طالبان کی حکومت آنکھیں موندے بیٹھی ہے۔
یہ جو بھارت نے پانی بند کر کے پانی میں آگ لگانے کی کوشش کی ہے یہ اسے اچانک جھرجھری نہیں آئی۔ یہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے پرانے منصوبوں کی کڑی ہے اور یہ آخری حملہ نہیں ہے۔ بھارت کی موجودہ حکومت اکھنڈ بھارت کی علمبردار ہے۔ آر ایس ایس کے بانی ڈاکٹر بلی رام ہیجے وار 

(Baliram Hedgewar)

 اور اس کے بعد گول والکر نے اکھنڈ بھارت کا جو بیج اپنے پیروکاروں کے اذہان میں بویا تھا‘ وہ اب بھی پھل دے رہا ہے۔ پانی بند کرنے کی شیطنت پہلا وار ہے نہ آخری! یہ حملے ہوتے رہیں گے اور پاکستان ان سے نمٹتا رہے گا۔ پاکستان کی مسلح افواج ہمہ وقت سر بکف کھڑی ہیں۔ یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ ہم نے افواج کی سول امور میں‘ سیاسی معاملات میں اور سول بیوروکریسی میں دخل اندازی کی کبھی حمایت کی نہ کریں گے مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مسلح افواج کی اہمیت اور حیثیت سے انکار کیا جائے۔ مسلح افواج ملک کے لیے شہ رگ کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہ جو بھارت کی خواہش ہے کہ پاکستان نیپال‘ بھوٹان اور سکم کی طرح ہو جائے‘ تو اس خواہش کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کی مسلح افواج ہی ہیں۔ پاکستانی افواج نہ ہوتیں تو جو ممالک پاکستان کے مغرب میں ہیں‘ وہ بھی بھوٹان اور سکم بن چکے ہوتے!!

Thursday, April 24, 2025

روشنی کی ایک صدی


ارشد محمود پر ہمیشہ رشک آتا ہے۔ بصارت کے مسائل کے باو جود اس نے تن تنہا‘ اتنا تحقیقی کام کیا ہے جتنا بڑے بڑے ادارے بھی شاید نہ کر سکیں۔ وہ مٹی میں ہاتھ ڈالتا ہے تو لعل وجواہر نکال لاتا ہے۔ ریت کو چھوتا ہے تو سونا برآمد ہوتا ہے۔ وہ باکمال تخلیقات جن کے مصنفین تہہِ خاک جا چکے تھے اور تخلیقات پر زمانے کی گرد پڑی ہوئی تھی‘ ارشد محمود نے انہیں ڈھونڈا‘ گرد صاف کی‘ تفصیلات لکھیں اور منظرِ عام پر لے آیا۔ اب تک وہ ستر سے زیادہ تحقیقی جواہر پارے‘ ادب کے اساتذہ اور طالب علموں کے سامنے لا چکا ہے۔ ان دنوں وہ مسدس حالی کی تاریخ پر کام کر رہا ہے۔ مسدس کی ایک سو گیارہ اشاعتیں اور مختلف زبانوں میں اس کے تیس تراجم دریافت کر چکا ہے۔ وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کا سربراہ ہے۔ کل وہ ڈین بھی ہو جائے گا۔ ہو سکتا ہے شیخ الجامعہ بھی بن جائے مگر شعبے کے سربراہ‘ ڈین اور جامعہ کے رئیس تو کئی آئے اور گئے‘ ارشد محمود ناشاد کے سر پر جو سرخاب کا پر ہے‘ وہ منصب کا نہیں‘ تحقیق اور تصنیف وتالیف کا ہے۔ مناصب اور مراتب عارضی ہیں۔ تخلیقی کام قیامت تک زندہ رہتے ہیں۔ عربی کے کسی شاعر نے کہا تھا:
یلوح الخط فی القرطاس دھراً
و کاتبہ رمیم فی التراب
لکھنے والا ہمیشہ نہیں رہتا مگر اس کی تحریر کو دوام حاصل ہوتا ہے۔ اسی مضمو ن کو فارسی شاعر نے یوں بیان کیا:
نوشتہ بماند سیہ بر سفید
نویسندہ را نیست فردا امید
پنجابی کے شاعر نے بھی کہہ دیا:
لکھے رہسن کاغذ اُتے حرف سیاہی والے 
لکھنے آلا عاجز بندہ ہوسی خاک حوالے
ارشد محمود ناشاد کے ساتھ ہی گورنمنٹ کالج اٹک پر بھی رشک آ رہا ہے۔ یہ کالج 1924ء میں وجود میں آیا۔ جلد ہی شمال مغربی ہند کا یہ مقبول ترین ادارہ بنوں سے لے کر جہلم تک اور سوات سے لے کر سرگودھا تک کے تشنگانِ علم کی پیاس بجھانے لگا۔ یہ وسطی پنجاب کے گورنمنٹ کالج لاہور کے مقابلے کا کالج تھا۔ کم از کم دس اساتذہ ایسے ہیں جو اِن دونوں عظیم درسگاہوں کے ساتھ وابستہ رہے۔ ان میں پروفیسر ایش کمار‘ پروفیسر صدیق کلیم‘ پروفیسر اشفاق علی خان اور پروفیسر محمد عثمان کے نام نمایاں ہیں۔ گزشتہ سال‘ 2024ء میں گورنمنٹ کالج اٹک کو قائم ہوئے ایک صدی ہوئی تو ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد نے اس کی سو سالہ تاریخ مرتب کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ اہلِ علم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کام کتنا مشکل ہو گا۔ مشکل ترین کام یہ تھا کہ 1924ء سے لے کر قیامِ پاکستان تک‘ کالج کے سربراہوں کے حالات اور تصویریں کیسے دریافت کی جائیں؟ ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد نے نہ صرف پرنسپل حضرات کے حوالے سے مکمل معلومات حاصل کیں بلکہ اساتذہ اور نامور طلبہ کو بھی ڈھونڈ نکالا۔ گورنمنٹ کالج اٹک کی یہ سو سالہ روداد اصل میں ایک انسائیکلوپیڈیا ہے جو پورے خطے کی تعلیمی تاریخ ہے۔ اس میں ارشد نے پہلے سیاسی تاریخ لکھی ہے‘ پھر بتایا ہے کہ تقسیم سے پہلے مسلمان کس طرح دوسری قوموں سے پیچھے تھے۔ پھر عہد بہ عہد کالج کی داستان رقم کی۔ نامور اساتذہ کے ناموں کی فہرست ترتیب دی اور تعارفیے لکھے۔ دلچسپ ترین حصہ وہ ہے جس میں کالج سے وابستہ نامور شخصیات کی اپنی لکھی ہوئی یادداشتیں ہیں۔ یہ حصہ تقریباً سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں ضمیر جعفری‘ احمد ندیم قاسمی‘ دیویندر اسر‘ فتح محمد ملک‘ وقار بن الٰہی اور دیگر مشاہیر شامل ہیں۔ یہ یادداشتیں کیا ہیں‘ ادب پارے ہیں۔ ضمیر جعفری لکھتے ہیں ''ہمارے پرنسپل سردار پریم سنگھ بڑے نفیس طبع سکھ تھے۔ لمبی نورانی داڑھی کے نیچے کوٹ‘ واسکٹ اور پھر اس کے نیچے ٹائی لگاتے تھے۔ ہم لوگ بڑی مدت کے بعد دریافت کر سکے کہ وہ ٹائی بھی باندھتے ہیں۔ پروفیسر ایش کمار کالج کے سب سے بڑے انٹلیکچول تھے۔ وہ کالج کی علمی وذہنی زندگی پر چھائے ہوئے تھے‘‘۔ اردو کے نامور ادیب دیویندر اسر لکھتے ہیں ''میں کیمبل پور کو دل کی بستی کہتا ہوں۔ اس دل کی بستی میں ایک درسگاہ تھی جسے گورنمنٹ کالج کہتے ہیں۔ یہاں تعلیم تو ملتی ہی تھی لیکن اجزائے حیات بھی ملتے تھے۔ جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں‘ آسمان پر کوئی بادل نہیں۔ شاید وہ دور کسی ویرانے میں بھٹک رہا ہو گا۔ کاش اسے بھی اپنے وطن سے یادوں بھرا سندیسہ ملے جسے پڑھ کر وہ یکبارگی رو دے‘ اتنا روئے‘ اتنا برسے کہ اپنے وطن پہنچ جائے‘‘۔ پروفیسر فتح محمد ملک رقمطراز ہیں ''اس زمانے میں دور دور تک کوئی اور کالج نہیں تھا۔ نہ میانوالی میں کوئی کالج تھا نہ کوہاٹ میں‘ طالب علم دور دور سے کیمبل پور کالج میں پڑھنے آتے تھے؛ چنانچہ مختلف اور متنوع چال ڈھال اور طور اطوار کے طلبہ ہوسٹل میں جمع تھے۔ کیمبل پور کی خاک میں میرے آنسوئوں کی نمی دفن ہے۔ مجھے اس کی یاد عزیز ہے۔ یہی وہ دانش گاہ ہے جس نے مجھے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی خو اور زندگی کرنے کا حوصلہ بخشا ہے‘‘۔
ارشد نے کالج کے خدمت گزاروں کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ دفتریوں‘ مالیوں اور آفس رنرز کی بھی تصویریں دی ہیں۔ کالج کے محسنین کا ذکر ہے۔ لائبریری‘ ہوسٹل‘ کالج میگزین‘ سالانہ رپورٹیں‘ کانووکیشن خطبات‘ یہاں تک کہ اساتذہ اور طلبہ کی تصانیف کا بھی ذکر کیا ہے۔ خاصے کی چیز اس کتاب میں تصویریں ہیں۔ تصویروں کا یہ بڑا ذخیرہ ارشد نے کس طرح جمع کیا‘ کتنی محنت کی‘ کتنے در کھٹکھٹائے‘ کتنے گھاٹ اترا‘ وہی جانتا ہے۔ ان تصویروں میں میرے استاد پروفیسر مختار صدیقی کی تصویر بھی ہے۔ ان کا نام بھی اساتذہ کی فہرست میں شامل ہے۔ پروفیسر مختار صدیقی گورنمنٹ کالج سیٹلائٹ ٹائون راولپنڈی میں ہماری کلاس کو اکنامکس پڑھاتے تھے۔ وہ ایک بہترین استاد تھے۔ آج کے طلبہ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ اُس زمانے کے پروفیسر خوش لباس ہوتے تھے۔ صدیقی صاحب بھی بہترین کوٹ پتلون زیب تن فرماتے تھے۔ نکٹائی لگاتے تھے۔ بعد میں ان کا تبادلہ ان کے آبائی شہر اٹک ہو گیا۔ ملازمت کے دوران سرکاری کام سے جب بھی اٹک جانا ہوتا‘ ان کی خدمت میں ضرور حاضر ہوتا۔ ایک بار آرٹلری سنٹر اٹک میں ایک بڑی تقریب تھی۔ شہر کے معززین کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ میں مہمانِ خاص کی حیثیت سے سٹیج پر بیٹھا تھا۔ اچانک میری نظر پروفیسر مختار صدیقی صاحب پر پڑی جو حاضرین میں تشریف فرما تھے۔ ایک جنرل صاحب تھے یا بریگیڈیئر صاحب‘ جو میزبان یعنی منتظم تھے۔ میں نے انہیں کہا کہ میرے استاد نیچے بیٹھے ہیں‘ میں ان کے سامنے اونچی جگہ‘ یعنی سٹیج پر نہیں بیٹھ سکتا۔ چنانچہ پروفیسر صاحب کو سٹیج پر بیٹھنے کی زحمت دی گئی۔ تین چار دن کے بعد مجھے اسلام آباد ان کا فون آیا۔ فرمانے لگے ''اوئے یار! تم مجھے کس مصیبت میں ڈال گئے ہو۔ ہر روز تمہارے کئی ماتحت آ جاتے ہیں کہ میں تمہیں ان کی سفارش کروں‘‘۔ 1998ء میں میری والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تو پروفیسر صاحب کمال شفقت سے گائوں تشریف لائے۔ ریٹائرمنٹ کے وقت وہ گورنمنٹ کالج فتح جنگ کے پرنسپل تھے۔ میں نے انتظامات کیے کہ انہیں واجبات کے لیے کسی دفتر نہ جانا پڑے اور چیک ان کے گھر پہنچے۔ بہت خوش ہوئے۔ دعائوں سے نوازا۔ ایک دن خبر ملی کہ وہ اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں داخل ہیں۔ حاضر ہوا مگر وہ پہچان نہ سکے۔ع مرا ہر موئے تن استاد کے حق میں دعا گو ہے۔ میرے لیے میرے اساتذہ کی خاک پا بھی مقدس ہے!!
ارشد نے گورنمنٹ کالج اٹک کی اس تاریخ کا عنوان ''روشنی کی ایک صدی‘‘ رکھا ہے۔ اس سے بہتر عنوان ہو بھی نہیں سکتا تھا!

Tuesday, April 22, 2025

مسلم پاکستانی اور غیر مسلم پاکستانی


ایک بہت ہی محترم عالمِ دین نے‘ جو طویل عرصہ تک رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ بھی رہے‘ بین المذاہب ہم آہنگی کانفرنس سے خطاب کیا ہے اور ایک ایسی تجویز پیش کی ہے جوبلامبالغہ بہت قیمتی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اقلیت کا لفظ دستور سے حذف کر دیا جائے!
ہم خود ایک عرصہ سے یہی رونا رو رہے ہیں کہ جب سب پاکستانی ہیں‘ سب کے پاس ایک جیسا پاسپورٹ ہے‘ سب ایک جیسے ٹیکس اور محصولات ادا کرتے ہیں تو پھر کچھ پاکستانیوں کے گلے میں اقلیت کا بورڈ کیوں لٹکا دیا گیا ہے؟ حضرتِ مکرّم کی یہ تجویز ہمیں ترقی یافتہ جمہوری ملکوں کے برابر لا کھڑا کرے گی۔ غور کیجیے کہ اس وقت کروڑوں مسلمان‘ ہندو‘ سکھ ان ملکوں میں آباد ہیں جو بنیادی طور پر مسیحی ممالک ہیں۔ اکثریت ان ملکوں میں مسیحیوں کی ہے مگر کسی غیر مسیحی کے لیے اقلیت کا لفظ استعمال نہیں کیا جاتا۔ امریکہ ہو یا یورپ‘ آسٹریلیا ہو یا نیوزی لینڈ یا جاپان‘ مذہب کی بنیاد پر کسی کو اقلیت نہیں قرار دیا جاتا۔ ہاں! بھارت میں اقلیت کا لفظ ضرور استعمال ہوتا ہے۔ صدیوں سے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو بھارت میں اقلیت قرار دے کر ان سے برابری کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ ایک مسلمان‘ ہندو کے برابر کس طرح ہو سکتا ہے جب اس کے نام کے ساتھ اقلیت کی دُم لگی ہوئی ہو۔ محترم عالم دین کی یہ تجویز کہ اقلیت کے لفظ کو آئین سے ہٹا دیا جائے‘ آنِ واحد میں ہمیں تہذیبی‘ جمہوری‘ ثقافتی اور انسانی لحاظ سے بھارت پر برتری بخشے گی! اور جمہوری ملکوں کے ساتھ کھڑا کر دے گی۔
محترم عالم دین نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ دستور میں مسلم پاکستانی اور غیر مسلم پاکستانی کی اصطلاحات ڈالی جائیں! ہم اس تجویز کو بھی سراہتے ہیں اور اس کا استقبال مسرت سے کرتے ہیں! امید ہے کہ ایک بار ہم نے اپنے دستور میں یہ عظیم الشان تبدیلی کر دی تو بھارت بھی اس کی تقلید کرے گا۔ ہم جس طرح مسیحی‘ ہندو اور سکھ پاکستانیوں کو غیر مسلم پاکستانی قرار دیں گے بھارت بھی مسلمانوں کو ''غیر ہندو‘‘ یا ''نان ہندو‘‘ انڈین کا خطاب دے گا۔ وہ مسلمان کے نام سے کم اور نان ہندو کے نام سے زیادہ پہچانے جائیں گے۔ امید ہے اس امتیازی نشان سے بھارتی مسلمانوں کی تکالیف اور آزمائشیں بہت حد تک کم ہو جائیں گی! اندازہ لگائیے‘ مسلمان کے بجائے جب کسی بھارتی مسلمان کو کہا جائے گا ''اوئے نان ہندو! تو ہندوئوں کے ساتھ کیوں کھڑا یا بیٹھا ہے؟‘‘ تو وہ کتنا خوش ہو گا اور پاکستان کو کتنی دعائیں دے گا!!
ہمیں یقین ہے کہ اس انقلابی اصطلاح کو امریکہ بھی اپنائے گا‘ کیونکہ امریکہ ہر اچھی شے پر اپنی ملکیت جتاتا ہے۔ اس زبردست آئیڈیا سے وہ کیسے ناواقف یا بے نیاز رہے گا؟ امریکہ میں جتنے مسلمان ہوں گے انہیں ''نان کرسچین‘‘ (غیر مسیحی) کہا جانے لگے گا! اب تک تو وہ صرف امریکی تھے۔ کسی موقع پر بھی ان سے مذہب کا نام نہیں پوچھا جاتا تھا۔ مگر اب پاکستان کی تقلید میں جب وہ نان کرسچین کہلائیں گے تو ان کا غیر مسیحی ہونا ہر جگہ نمایاں ہوگا۔ وہ دوسروں سے مختلف سمجھے جائیں گے۔ اکثریت میں شمار نہیں ہوں گے۔ اس سے بہت سی سماجی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ مثال کے طور امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹروں کا بڑا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں شفا دی ہے۔ انہیں دوسرے امریکیوں کی طرح ہی امریکی سمجھا جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ کوئی تفصیل پوچھے تو بتایا جاتا ہے کہ یہ پاکستانی نژاد ڈاکٹر ہے۔ مگر جب پاکستان کی تقلید میں نان کرسچین کی ا صطلاح استعمال ہو گی تو مریض کو اور اس کے لواحقین کو بتایا جائے گا کہ یہ ''نان کرسچین‘‘ ڈاکٹر ہے۔ اس سے مریض لامحالہ یہ سوچے گا کہ وہ یعنی مریض تو کرسچین ہے جبکہ ڈاکٹر نان کرسچین! اس سے یہ سوچ بھی پیدا ہو سکتی ہے اور یقینا پیدا ہو گی کہ کیوں نہ کرسچین ڈاکٹر سے علاج کرایا جائے۔ کروڑوں مسلمان یورپ میں بھی بس رہے ہیں۔ یورپ کے تمام ملکوں میں (بوسنیا اور البانیہ وغیرہ کو چھوڑ کر) اکثریت مسیحیوں کی ہے۔ چنانچہ پورے یورپ میں مسلمانوں کو نان کرسچین کہا جائے گا۔ یہی حال آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہو گا۔ ہاں ایک بات کا امکان ضرور ہے۔ جو مسلمان پاکستانی نہیں‘ وہ امریکی اور دوسری حکومتوں سے کہہ سکتے ہیں کہ صرف پاکستانی مسلمانوں کو نان کرسچین کہہ کر پکارا جائے کیونکہ اس اصطلاح کا سہرا پاکستان کے سر ہے۔ یہ تفریق ترکوں‘ ایرانیوں عربوں اور دوسرے مسلمانوں کے ساتھ نہ برتی جائے۔
آئین میں جب مسلم پاکستانی اور غیر مسلم پاکستانی کی اصطلاح داخل ہو گی تو مذہبی ہم آہنگی میں یقینا اضافہ ہوگا‘ اسی لیے محترم مولانا صاحب نے یہ بے مثال تجویز اُس کانفرنس میں پیش کی جو مذہبی ہم آہنگی ہی کے لیے منعقد کی گئی تھی۔ بہرطور مقطع میں ایک چھوٹی سی سخن گسترانہ بات پڑ سکتی ہے۔ غیر مسلموں کو غیر مسلم پاکستانی قرار دینے میں تو کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ ہندو واضح طور پر ہندو ہو گا‘ سکھ اور مسیحی بھی کسی شک کے بغیر سکھ اور مسیحی ہوں گے! دوسرے غیر مسلم گروہوں کو بھی غیر مسلم کہنے یا قرار دینے میں کوئی مسئلہ آڑے نہ آئے گا۔ مشکل اس وقت پیش آئے گی جب کسی مسلمان کو مسلم پاکستانی کہنے کا فیصلہ کرنا ہو گا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت میں مسلمانوں کے ہر فرقے نے کسی نہ کسی وقت‘ کسی نہ کسی موقع پر‘ دوسرے فرقے کو کافر کہا ہے۔ اس میں کوئی شک ہے نہ مبالغہ۔ ہر فرقے کے معتبر علما کی کتابیں موجود ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ فلاں فرقہ کافر ہے۔ پکے پکے حوالے موجود ہیں۔ تفصیلات میں جانے کا موقع ہے نہ ایسا کرنا مناسب ہے۔ نہ ہی فرقوں کا نام لینا کوئی خوش آئند بات ہو گی۔ تکفیر ہمارے مذہبی حلقوں کے حوالے سے ایک ناقابل تردید حقیقت رہی ہے اور بدستور ہے! مختلف شخصیات کو بھی معتبر علما کافر قرار دیتے رہے ہیں۔ سر سید احمد خان سے لے کر مولانا مودودی اور غلام احمد پرویز تک‘ بہت سی مشہور شخصیات پر کفر کے فتوے لگے ہیں! قائد اعظم اور علامہ اقبال پر بھی کفر کے فتوے لگے ہیں۔ اگر دونوں ہستیاں آج حیات ہوتیں تو دستور میں مجوزہ اصطلاح ڈالنے کے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا؟ ہم میں سے کچھ حرمین شریفین میں جا کر بھی نماز باجماعت نہیں پڑھتے۔ وجہ ظاہر ہے کہ جماعت کرانے والوں کو مسلمان نہیں سمجھا جاتا۔ ورنہ مسلمان کی نماز تو مسلمان کے پیچھے ہو جاتی ہے۔ تو ایسے میں اگر کوئی عدالت میں چلا گیا کہ فلاں شخص یا فلاں فرقہ کافر ہے اس لیے اسے مسلم پاکستانی کے بجائے غیر مسلم پاکستانی کہا جائے تو مسئلہ کس طرح حل ہو گا؟ اور عدالت کس فریق کے علما کی بات مانے گی؟
محترم عالم دین نے یہ بھی فرمایا ہے کہ پاکستان میں غیر مسلموں کو جتنے حقوق حاصل ہیں دنیا میں کہیں نہیں ہیں۔ ہم اس دعوے کی پُرزور تائید کرتے ہیں اور تصدیق کرتے ہیں کہ یہ ایک ایسی سچائی ہے جس کی تردید نہیں کی جا سکتی! سیالکوٹ میں جس طرح سری لنکن کو مارا اور جلایا گیا وہ اس کا حق ہی تو تھا! اگست 2023ء میں جڑانوالہ میں غیر مسلموں کے خلاف ہنگامہ ہوا جس میں بیس چرچ اور اسّی سے زیادہ مکان تباہ کر دیے گئے۔ جون 2024ء میں سرگودھا میں ایک ستر سالہ پاکستانی کی جوتے بنانے والی فیکٹری اور اس کا گھر جلا دیے گئے۔ 2009ء میں گوجرہ میں چھ غیر مسلم قتل اور درجنوں گھر نذرِ آتش کر دیے گئے۔ یہ سب وہ حقوق ہیں جو غیر مسلموں کو پاکستان میں حاصل ہیں اور ''جو دنیا میں کہیں نہیں‘‘۔

Thursday, April 17, 2025

یونیورسٹیوں کے اندر …اور باہر


یہ میرے لڑکپن کی بات ہے اور اُس قصبے کی جس میں مَیں بڑا ہوا۔ جب بھی اقبال ڈے آتا تو تقریب میں اہم ترین مقرر اسسٹنٹ کمشنر ہوتا (شاید تب اسے ایس ڈی ایم کہتے تھے)۔ اسے اقبال کا بہترین شارح اور بہترین اتھارٹی سمجھا جاتا! اس لیے نہیں کہ وہ اقبال شناس تھا بلکہ اس لیے کہ وہ علاقے کا حاکمِ اعلیٰ تھا۔ جس کا جہاں اختیار ہوتا ہے وہ اسے اختیارِ کُلی سمجھتا ہے اور ہر شے پر اتھارٹی بن جاتا ہے۔
یہ ''اقبال شناسی‘‘ یوں یاد آئی کہ ایک یونیورسٹی میں ناصر کاظمی پر سیمینار منعقد کیا گیا۔ پروفیسر ڈاکٹر خورشید رضوی کے سوا اردو ادب کے حوالے سے کوئی نامور نقاد یا سکالر اس میں نہیں بلایا گیا۔ ہاں‘ ہمارے دوست ڈاکٹر ساجد علی موجود تھے۔ ان کی جولان گاہ فلسفہ ہے۔ انہیں شاید اس لیے زحمت دی گئی کہ وہ ناصر کاظمی کے فرزند باصر سلطان کاظمی صاحب کے دیرینہ دوست ہیں۔ لگتا ہے کہ ڈاکٹر خورشید رضوی صاحب کو بھی غلطی سے بلا لیا گیا کیونکہ مقررین کی فہرست سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ سیمینار نہیں‘ یونیورسٹی کا کلاس روم ہے۔ چونکہ اسسٹنٹ کمشنر یا ڈپٹی کمشنر اقبال اور قائداعظم پر اتھارٹی ہوتے ہیں اس لیے یونیورسٹی میں بھی جو ڈین ہو گا یا شعبے کا ڈائریکٹر ہو گا وہ ناصر کاظمی پر بھی اتھارٹی ہو گا‘ بلکہ جس شاعر یا ادیب کے حوالے سے بھی تقریب ہو گی وہ اسی پر اتھارٹی ہو گا!! اختصاص‘ فرض کیجیے اقبال پر ہے تو ناصر کاظمی اور مجید امجد کا ماہر ہونے سے کون روک سکتا ہے۔ کس نمی پرسد کہ بھیا کیستی! بھلا یہ کس نے پوچھنا ہے کہ نقد و نظر میں آپ کا کیا مقام اور نام ہے! یونیورسٹی میں آپ تعینات ہیں‘ ویڑھا آپ کا اپنا ہے۔ بقول ظفر اقبال: خاک اُڑا اور بہت!
یونیورسٹیوں کا یہ شرمیلا اور تنہائی پسند 
(Introvert)
 رویہ کافی عرصے سے چلا آرہا ہے۔ بہت عرصہ پہلے ایک یونیورسٹی میں حالی پر سیمینار ہوا تو یہی انداز اپنایا گیا۔ شعبۂ تعلیم سے وابستگی ہو اور آپ پی ایچ ڈی ہوں تو بس آپ امرت دھارا ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ معین نظامی‘ انوار احمد‘ مرزا حامد بیگ‘ ارشد ناشاد اور کئی دوسرے نامور سکالر یونیورسٹیوں سے وابستہ رہے ہیں مگر مجموعی طور پر شعبۂ تعلیم میں ایسے افراد کم آئے جن کا اولین انتخاب معلمی تھا! اپنے شوق اور 
Passion 
سے آنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں۔ اکثریت ان ''اساتذہ‘‘ کی ہے جو کہیں اور نہ کھپ سکے۔ ظفر علی خان نے کہا تھا:
جسے آتا نہیں روٹی کمانا
وہ کر لیتا ہے مسجد کی امامت
عساکر‘ سول سروس‘ صحافت‘ بنکاری میں جگہ نہ ملے تو سکول‘ کالج اور یونیورسٹیاں تو ہیں! یونیورسٹیوں میں جو پارٹی بازیاں‘ دھڑے بندیاں‘ چھوٹے درجے کی سیاست اور سازشی ماحول ہے اس کی کہانیاں بھی زبان زدِ خاص و عام ہیں۔ منکر نکیر جسے چاہیں اس کا مقالہ منظور کر لیں اور جسے نہ چاہیں وہ جوتیاں چٹخاتا پھرے! اس ضمن میں بہت سے ناگفتہ بہ اور عبرتناک حقائق ہیں جن کا یہاں بیان کرنا مناسب نہیں! کوئی طالبہ منکر نکیر کی منظورِ نظر ہو جائے تو اس طالبہ کے دوست کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا جاتا ہے۔ شاگرد خواتین کے ساتھ معاملات شادیوں پر بھی منتج ہوتے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں! اس حوالے سے کچھ معروف نام بھی ذہن میں آتے ہیں۔ پنجاب کی سب سے بڑی یونیورسٹی پر جس طرح طلبہ تنظیموں کا کنٹرول رہا ہے‘ اور ہے‘ اور جو کچھ ہوتا رہا ہے اس کا صرف ایک ہی مطلب ہے کہ یونیورسٹی کا ماحول سنجیدہ علمی کام کے لیے ہر گز مناسب نہیں ہے۔ وائس چانسلروں کے گھروں پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ اساتذہ تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ طلبہ تنظیمیں خالص انتظامی اور تدریسی معاملات میں دخیل ہوتی ہیں! پھر جب سے پی ایچ ڈی کا معاملہ الاؤنس کے ساتھ جڑا ہے‘ پی ایچ ڈیز کے ڈھیر لگ گئے ہیں۔ ''شخصیت اور فن‘‘ کامیاب ترین نسخہ ہے۔ خال خال ہی ایسے مقالات ملیں گے جو واقعی تحقیق کا نتیجہ ہیں اور علم میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ ایک تحقیقی مقالہ اس موضوع پر بھی لکھے جانے کی ضرورت ہے کہ پی ایچ ڈی کے جینوئن طلبہ و طالبات کے ساتھ کیا گزرتی ہے اور نگران اُن کے ساتھ کیسی کیسی مہربانیاں کرتے ہیں۔ جس نے خود اپنا مقالہ ٹھیکے پر لکھوایا ہو گا یا ''کمپنی‘‘ نے جسے مدد کر کے پار اتارا ہو گا وہ کسی دوسرے کی رہنمائی کیا کرے گا!
چلئے مان لیا‘ جو حضرات پی ایچ ڈی ہیں اور پروفیسری کرتے ہیں وہی تحقیق اور تنقید کرنے والوں میں سر فہرست ہیں! وہی کریم ہیں! اصل سوال یہ ہے کہ جو لوگ پروفیسر نہیں اور خاص طور پر پی ایچ ڈی نہیں‘ کیا وہ تنقیدی‘ تحقیقی اور ادبی موضوعات پر کنٹری بیوٹ نہیں کر سکتے؟ شمس الرحمان فاروقی یہاں ہوتے تو یہ کہہ کر انہیں نظر انداز کر دیا جاتا کہ وہ یونیورسٹی میں نہیں پڑھاتے! مظفر علی سید‘ مشفق خواجہ‘ رفیق خاور اور شیخ اکرام میں سے کوئی بھی پیشے کے حوالے سے استاد نہ تھا! شان الحق حقی جیسے مایہ ناز ماہر لسانیات کہاں کے پروفیسر تھے؟ ڈاکٹر آفتاب احمد سول سروس سے تھے۔ کلاسک مثال اس سلسلے میں اکرام چغتائی صاحب کی ہے۔صرف ایک یا ڈیڑھ سال کا عرصہ یونیورسٹی میں رہے‘ ( وہ بھی ریسرچ کے کام میں ڈاکٹر محمد صادق کے ساتھ !) مگر تحقیق کے حوالے سے درجۂ کمال تک پہنچے!! محمد اسد اور محمد حسین آزاد پر وہ اتھارٹی تھے۔ شاہانِ اودھ کے کتب خانوں پر کام کیا۔ واجد علی شاہ کے خطوط ترتیب دیے اور حواشی لکھے۔ افغانستان‘ جرمنی اور گوئٹے کے حوالے سے اقبال پر کام کیا۔ البیرونی‘ حلاج‘ سرسید احمد خاں‘ شاہ ولی اللہ‘ حسن نظامی اور سید علی ہجویری پر وقیع کام کیا۔ پروفیسر این میری شمل کی تصانیف کی ببلیوگرافی مرتب کی۔ جمال الدین افغانی پر انگریزی میں کام کیا۔ محمد اسد پر انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں کام کیا۔ گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی کے محسن 
Dr. Leitner
 کی حیات و خدمات پر کام کیا۔ یہ تو ہم صرف تحقیق اور تنقید کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔ شاعری اور فکشن کے ضمن میں بھی موازنہ کر کے دیکھ لیجیے۔ پروفیسروں میں سے کتنے ظفر اقبال‘ جوش ملیح آبادی‘ جون ایلیا‘ منیر نیازی‘ مجید امجد‘ ناصر کاظمی‘ احمد ندیم قاسمی‘ محبوب خزاں‘ ن م راشد‘ میرا جی‘ عبداللہ حسین‘ مستنصر حسین تارڑ‘ قرۃ العین حیدر‘ منٹو‘ کرشن چندر‘ راجندر سنگھ بیدی نکلے؟
یونیورسٹیاں کسی بھی قوم کا دل ہوتی ہیں۔ ایک یونیورسٹی صرف کلاس رومز اور ٹیکسٹ بُک اپروچ کا نام نہیں! یونیورسٹیوں پر لازم ہے کہ تحقیق‘ تنقید اور تخلیق جہاں جہاں بھی نظر آئے اسے یونیورسٹی سے جوڑنے کی کوشش کریں۔ نہیں معلوم ہماری یونیورسٹیاں ایسے کتنے ماہرینِ علوم و فنون کو طلبہ و طالبات سے ملوانے کے لیے بلاتی ہیں جو دوسرے پیشوں سے وابستہ ہیں۔ علم کسی ایک یا کسی خاص پیشے کی جاگیر نہیں۔ علم صرف کالجوں یونیورسٹیوں میں پڑھانے والوں کی زنبیلوں میں نہیں ہوتا‘ اس کے اور بھی ٹھکانے ہیں! ہر گوشہ گمان مبر کہ خالیست!! جب معروف ادبی اور علمی شخصیات کے حوالوں سے سیمینار منعقد کیے جائیں تو صرف اپنے ہی اساتذہ پر انحصار کا مطلب یہ ہو گا کہ طلبہ و طالبات کلاس روم سے باہر ہی نہ نکلیں! ایسے مواقع تو صلائے عام ہونے چاہئیں! جن افراد کی پوری پوری زندگیاں ادب پر کام کرتے گزری ہوں مگر وہ برائے روزگار یونیورسٹیوں سے وابستہ نہ رہے ہوں‘ ان سے بھی طلبہ وطالبات کو استفادہ کرنے کا موقع دینا چاہیے! اس سے یونیورسٹیوں والوں کی سلطنت میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی!ان کی ایمپائر پر کس نے ہاتھ ڈالنا ہے۔ اس لیے ازراہِ کرم اس خول سے باہر نکلئے۔ کھول آنکھ‘ زمیں دیکھ‘ فلک دیکھ‘ فضا دیکھ!!

Tuesday, April 15, 2025

دوست‘ مکھی‘ رخسار اور پتھر


پروفیسر صاحبہ ایک بڑی اور شاندار یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ ایک علمی خاندان کی چشم و چراغ ہیں۔ کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ منطق اور دانش سے تعلق ہے۔ چند دن پہلے ان کی ایک پوسٹ دیکھی۔ پوسٹ کا مضمون یہ تھا کہ غزہ کے نام پر احتجاج ہو رہا ہے۔ ٹریفک بلاک ہے اور زندگی منجمد! اس میں جھوٹ تھا نہ مبالغہ! اس کالم نگار نے اس پوسٹ کو شیئر کیا۔ اس پر کچھ احباب نے باقاعدہ عزا داری کی۔ دکھ کا اظہار کیا۔ ایک پوائنٹ یہ بھی نکالا گیا کہ ''آپ حضرات کو تکلیف ہو رہی ہے؟ یہی مقصد ہے کہ آپ کو اہلِ غزہ کی تکلیف کا احساس دلایا جائے‘‘۔
اصل سوال اور ہے۔ وہ یہ کہ کیا کسی بھی صورتحال میں راستے بند کیے جا سکتے ہیں؟ یہ کامن سینس کا بھی مسئلہ ہے۔ اور اگر مذہب کا حوالہ درکار ہو تو احادیث میں راستہ بند کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ راستے بند کرنے سے اور ٹریفک کو معطل کرنے سے اہلِ غزہ کو کیا فائدہ ہے؟ اگر میرا راستہ بند ہونے سے اسرائیل کو شکست ہوتی ہے اور غزہ کے بچوں کو آزادی مل سکتی ہے اور خوراک بھی تو بے شک میرا راستہ مہینوں نہیں‘ برسوں بند رکھیے۔ میرے لیے اس سے بڑی سعادت کیا ہو گی! لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ اہلِ غزہ کو اس سے رتی بھر فائدہ نہیں ہو گا۔ ہو سکتا بھی نہیں! آپ پاکستان کی تمام شاہراہیں بند کر دیجئے۔ پانچ کروڑ افراد گھروں سے باہر نکال لائیے۔ اسرائیل کو رتی بھر نقصان نہیں پہنچے گا اور اہلِ غزہ کو رمق بھر فائدہ نہیں ہو گا۔ ہاں آپ کی تصویریں میڈیا پر ضرور ظاہر ہوں گی۔ آپ کی جوشیلی تقریروں کے وڈیو کلپ بھی بنیں گے! آپ کو شہرت ملے گی اور اگر پہلے سے مشہور ہیں تو مزید مشہور ہو جائیں گے۔ ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ مذہبی تنظیمیں بھی تو راستے بلاک کرتی ہیں۔ اور حکمرانوں کے لیے روٹ بھی تو لگتے ہیں۔ تو بھائی!! کون ذی عقل ان کی تائید کر سکتا ہے؟ مذہبی تنظیموں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ راستے بلاک کریں۔ مکہ مکرمہ میں جب کفار مسلمان مردوں اور خواتین پر ظلم کے پہاڑ توڑتے تھے تو کیا مدینہ منورہ کے مسلمان مدینہ کی گلیوں میں جلوس نکالتے تھے؟ اور راستے بند کرتے تھے؟ رہا حکمرانوں کے لیے روٹ لگانا تو یہ ایک ظالمانہ فعل ہے۔ یہ دھاندلی ہے اور طاقت کا ناجائز استعمال! جبھی تو شاعر نے کہا ہے کہ
حاکم یہاں سے گزرے گا اظہارؔ کس گھڑی
بد بخت کے لیے ہے جنازہ رُکا ہوا
جب بھی راستہ روکا جاتا ہے‘ خواہ کسی مذہبی تنظیم کی طرف سے‘ خواہ کسی سیاسی پارٹی کی طرف سے‘ خواہ حکمران کی سواری گزارنے کے لیے یا کسی بھی اور مقصد کے لیے‘ یہ ایک انتہائی
Counter productive
عمل ہوتا ہے۔ اس سے اصل مقصد کو فائدہ تو کیا الٹا نقصان پہنچتا ہے۔ جو لوگ اذیت سے گزرتے ہیں وہ مخالف ہو جاتے ہیں۔ کسی نے ہوائی اڈے پہنچنا ہے‘ کسی نے ٹرین پکڑنی ہے‘ کسی نے سر جری کے لیے ہسپتال پہنچنا ہے‘ کوئی مریض موت و حیات کی کشمکش میں ہو سکتا ہے۔ سوچئے! ان پر کیا گزرتی ہو گی! مجھے یاد ہے جب یاسر عرفات لاہور آیا تھا تو راستے بند کر دیے گئے تھے۔ فورٹرس سٹیڈیم کے قریب ایک حاملہ عورت نے بچے کو گاڑی ہی میں جنم دے دیا تھا۔ جنرل مشرف کا جب بھی کراچی کا دورہ ہوتا تھا تو پورا کراچی بند ہو جاتا تھا۔ اس احمقانہ اقدام کی وجہ سے کئی اموات ہوئیں۔ والدین بچوں کے لیے پریشان رہتے تھے کہ کب گھر پہنچیں گے۔ دو تین سال پہلے کی بات ہے۔ ہم سیالکوٹ سے اسلام آباد آرہے تھے۔ سرائے عالمگیر پہنچے تو ایک مذہبی تنظیم کے جوشیلے کارکنوں نے دریا ئے جہلم کی کراسنگ بند کی ہوئی تھی۔ وہ کوئی بات سننے کے لیے تیار ہی نہ تھے۔ وہ اس قدر غیر سنجیدہ تھے جیسے پکنک منا رہے ہوں۔ سینکڑوں بسیں‘ ویگنیں‘ کاریں اور ٹرک رکے پڑے تھے۔ ہمارے ساتھ خواتین بھی تھیں۔ چارو ناچار ہمیں کھاریاں واپس آنا پڑا۔ وہاں سے ہم بھمبر گئے۔ بھمبر سے میرپور ہوتے ہوئے منگلا اور پھر دینہ پہنچے۔ جو مسافت آدھ گھنٹے میں کٹنی تھی‘ اس پر کئی پہر لگ گئے! افسوس! اپنے ہی ملک میں‘ اپنے ہی ہم وطن ظلم ڈھاتے ہیں۔ بچوں پر رحم کرتے ہیں نہ بوڑھوں پر! خواتین پر نہ مریضوں پر! ظالمانہ روش کی وجہ سے ایسی تنظیمیں قدرت کی مدد سے محروم تو ہوتی ہی ہیں‘ گناہِ کبیرہ کی مرتکب بھی ہوتی ہیں۔ ہزاروں لوگوں کو عملاً یر غمال بنا لینا‘ حاملہ خواتین اور جاں بلب مریضوں کا راستہ روکنا‘ بچوں کو بھوک اور پیاس کے کرب میں ڈالنا گناہ کبیرہ نہیں تو اور کیا ہے؟ غزہ کے بچوں کو پرکاہ بھی فائدہ نہیں‘ الٹا پاکستانی بچوں کو تکلیف دی جا رہی ہے!
اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ احتجاج کا یقینا مؤثر طریقہ ہے۔ بائیکاٹ ہم سب کو کرنا چاہیے اور ضرور کرنا چاہیے۔ تاہم جب کسی فاسٹ فوڈ کی برانچ آپ بند کرتے ہیں تو یہ بھی سوچئے کہ اس برانچ میں پندرہ بیس پاکستانی ملازمت کر رہے ہیں۔ یہ تعداد پندرہ بیس سے زیادہ ہی ہو گی۔ بیس ملازمین کا مطلب یہ ہے کہ بیس خاندان پَل رہے ہیں۔ جب برانچ بند ہو گی تو یہ بیس ملازم بے روزگار ہو جائیں گے یعنی بیس خاندان فاقہ کشی پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس لیے کسی فاسٹ فوڈ کی برانچ بند کرنے سے پہلے اس کے ملازمین کے لیے متبادل روزگار کا بند و بست کیجئے۔ ورنہ آپ اس خاندان کی فاقہ کشی کے ذمہ دار ہوں گے۔
خبروں کے مطابق ملک کے کچھ حصوں میں فاسٹ فوڈ کی برانچیں نذرِ آتش بھی کی گئی ہیں اور کچھ میں توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔ یہ ہمدردی اسی طرح کی ہے جیسے ایک آدمی سو رہا تھا تو اس کے دوست نے دیکھا کہ اس کے رخسار پر مکھی بیٹھی ہے۔ دوست کی محبت میں اس نے مکھی پر پتھر کھینچ مارا۔ مکھی اُڑ گئی اور رخسار زخمی ہو گیا۔ فاسٹ فوڈ کی کسی برانچ کو جلانے سے نقصان تو پاکستانی املاک کو پہنچا! آپ نے اپنے ملک ہی کو زک پہنچا دی۔ جذبات کے شعلوں میں عام آدمی کو بھسم کر دینا بہت آسان ہے۔ ایک 
Demagogue

 (رہبرِ غوغائی)
 کے لیے بہت آسان ہے کہ لوگوں کو بھڑکائے‘ جوش دلائے اور ایسے دعوے کرے جن کا پورا کرنا ممکن ہی نہ ہو۔ نعروں کے درمیان یہ کہنا آسان ہے کہ نیتن یاہو سُن لو! ایک ایک بچے کے خون کا حساب لیں گے! ضرور لیجئے حضور! یہ تو زبردست کارنامہ ہو گا! مگر یہ تو بتا دیجئے کہ ایک ایک بچے کے خون کا حساب کب لیں گے اور کیسے لیں گے! ابھی تو آپ نے ان مسلمانوں کا حساب بھی نہیں لیا جنہیں بوسنیا میں بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیا گیا۔ اور گجرات اور کشمیر تو بالکل ساتھ ہیں۔ پہلے مودی سے تو حساب لیجئے۔ ہم آپ کے جوش اور جذبے کی قدر کرتے ہیں لیکن دعویٰ وہ کیجئے جسے آپ پورا کر سکیں! شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کر کے نیتن یاہو سے حساب لے لیں گے یا اپنے ہی ملک کی معیشت کو کروڑوں اربوں کھربوں کا نقصان پہنچائیں گے؟ ملک اقتصادی طور پر مضبوط ہو گا تو بین الاقوامی سطح پر آپ کی آواز مؤثر ثابت ہو گی۔ پہیہ جام ہڑتال اور شٹر ڈاؤن سے آپ اپنے ملک کی سسکتی‘ نیم جاں معیشت کو اور بھی کمزور کریں گے۔ خدا را کچھ سوچئے اور تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے بجائے وہ کام کیجئے جس سے اہلِ غزہ کو فائدہ ہو۔ اول تو آپ خود جہاد کے لیے غزہ جائیے اور ایک مثال قائم کیجئے کہ آپ صرف گفتار کے غازی نہیں! یہ نہیں کر سکتے تو اہلِ غزہ کے لیے ادویات اور روپے اکٹھے کیجئے اور خود تشریف لے جا کر ان کے حوالے کیجئے!

Tuesday, April 08, 2025

……ہے کوئی بھارتی مسلمانوں کا والی وارث؟؟


بادشاہ بیمار پڑا! بہت سخت بیمار! کوئی دوا کام نہیں آ رہی تھی۔ کوئی علاج کارگر نہیں ہو رہا تھا۔ پھر اطبّا نے ایک عجیب وغریب نسخہ تجویز کیا۔ ایک نوجوان کا پِتّہ درکار ہو گا مگر صرف اس نوجوان کا جس میں فلاں فلاں خصوصیات ہوں! بادشاہ نے اشارہ کیا اور مملکت میں ڈھنڈیا پڑ گئی۔ بالآخر تلاشِ بسیار کے بعد ایک نوجوان مل گیا۔ اس میں وہ تمام خصوصیات تھیں جن کا طبیبوں نے کہا تھا۔ بادشاہ کی زندگی بچانے کے لیے نوجوان کو موت کے گھاٹ اتار کر اس کا پِتّہ نکالنا تھا۔ اس کام میں دو رکاوٹیں تھی۔ ماں باپ اور عدالت! ماں باپ کے لیے شاہی خزانے کے منہ کھل گئے۔ انہوں نے اجازت دے دی۔ عدالت نے فیصلہ دے دیا کہ ملک کی سلامتی اور عوام کے وسیع تر مفاد کا سوال ہے۔ اس لیے بادشاہ کی زندگی پر رعایا میں سے ایک فرد قربان کیا جا سکتا ہے۔ جلاد جب سر قلم کرنے لگا تو نوجوان آسمان کی طرف دیکھ کر ہنسا۔ اتفاق ایسا تھا کہ بادشاہ نے یہ منظر دیکھ لیا۔ اس نے نوجوان سے پوچھا کہ یہ ہنسنے کا کون سا موقع ہے؟ نوجوان نے جواب دیا کہ اولاد کی حفاظت ماں باپ کرتے ہیں‘ میرے ماں باپ نے دولت لے کر مجھے فروخت کر دیا۔ انصاف عدالت نے دینا تھا۔ عدالت نے میرا قتل جائز قرار دیا ہے۔ آخری اپیل بادشاہ کو کرنی تھی۔ بادشاہ تو خود میری موت چاہتا ہے۔ اب اوپر اس لیے دیکھا ہے کہ خدا ہی آخری پناہ گاہ ہے۔
بھارتی مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے۔ ان کے مفادات کی حفاظت ان کے ملک کی حکومت نے کرنی تھی۔ حکومت ہی تو ان کی دشمن بنی ہوئی ہے۔ انصاف کی توقع انہیں عدالت سے تھی۔ بھارتی عدالتیں مسلمانوں کی کون سی دوست ہیں! حفاظت کے لیے انہوں نے پولیس کے پاس جانا تھا۔ پولیس کا سربراہ امیت شاہ جیسا وزیر ہے‘ آر ایس ایس کا پکا پختہ پیروکار! آخری امید ایک کمیونٹی کی‘ ملک کا حکمرانِ اعلیٰ ہوتا ہے۔ حکمرانِ اعلیٰ مودی ہیں جن کے دامن پر گجرات کے مسلمانوں کا خونِ ناحق لگا ہے! ان کے اقتدار کا مقصد مسلمانوں پر زندگی تنگ کرنا ہے۔ اس کے بعد بھارتی مسلمانوں کا سب سے بڑا سہارا پاکستان تھا۔ لیکن ہائے قسمت!! پاکستان کی اپنی حالت قابلِ رحم ہے۔ جب مودی حکومت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کا گلا گھونٹا تو پاکستان سوائے اس کے کہ کشمیر ہائی وے کا نام بدل کر سری نگر ہائی وے رکھ دے‘ کچھ نہ کر سکا۔ اس سانپ نے‘ جس کا نام ادتیا ناتھ ہے‘ اور یو پی کا وزیر اعلیٰ ہے‘ مسلمانوں کی زندگی جہنم بنا دی ہے۔ شہروں کے سینکڑوں سال پرانے نام بدل رہا ہے۔ یہ صرف بھارت کا نہیں‘ برصغیر کے تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ یہ نام ہماری میراث کا بھی حصہ ہیں۔ حکومت پاکستان نے تو خیر کیا احتجاج کرنا تھا‘ ہمارا میڈیا بھی اس ظلم کو پی گیا۔ اور وہ جماعتیں جنہیں پوری دنیا کے مسلمانوں کا غم‘ اکثر وبیشتر‘ بے چین رکھتا ہے اور خبروں میں اِن رہنے کے لیے احتجاجی جلوس نکالتی رہتی ہیں‘ بھارتی مسلمانوں کے بارے میں خاموش ہیں۔ بھارتی مسلما نوں کی آخری امید‘ دنیا میں وہ ممالک ہیں جہاں ہمارے مقدس ترین مقامات ہیں‘ عربی جن کی زبان ہے اور اللہ کے آخری رسولﷺ جہاں پیدا ہوئے اور جہاں ان کا وصال ہوا۔ مگر افسوس! صد افسوس! ان ملکوں نے بھارتی مسلمانوں کے سر پر ہاتھ تو کیا رکھنا تھا‘ مودی اور مودی حکومت کی وہ خدمتیں کیں اور کیے جا رہے ہیں کہ انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ کہیں اسے سب سے بڑا اعزاز دیا گیا تو کہیں مندر بنا کر اسے خوش کیا گیا۔ کروڑوں اربوں کی سرمایہ کاری بھارت میں کی جا رہی ہے۔ آج شاہ فیصل زندہ ہوتے تو ان کا ایک جملہ ہی بھارتی حکومت کا دماغ ٹھیک کر دیتا! سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ امت مسلمہ کا تصور آخر ہے کیا؟ بھارت میں جو ناقابلِ بیان سلوک مسلمانوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے‘ اس پر امتِ مسلمہ کیوں خاموش ہے؟ پچاس سے زیادہ مسلمان ملکوں میں سے کسی میں اتنا دم خم نہیں کہ بھارتی سفیر کو بلا کر احتجاجی مراسلہ ہی پکڑا دیں! اس دفعہ ہولی کا تہوار آیا تو مسجدیں ترپالوں سے ڈھانک دی گئیں! کیوں؟ سینکڑوں سال سے ہولی منائی جا رہی ہے! کبھی کسی مسلمان نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ مسجدیں صرف اس لیے ڈھانکی گئیں کہ مسلمان احساسِ کمتری میں مبتلا ہوں۔ انہیں معلوم ہو جائے کہ وہ اب دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ جمعہ کی نماز اور عیدین کی نمازیں‘ کسی سڑک پر یا کھلی جگہ پر نہ ادا کی جائیں۔ یہ پابندی ہندوؤں کے مذہبی جلوسوں پر کیوں نہیں لگائی جاتی؟ کیا سڑک پر نماز ادا کرنے سے کمبھ میلے سے بھی زیادہ شور اور بد امنی ہوتی ہے؟ آسام میں صدیوں سے رہنے والے مسلمانوں سے شہریت کے کاغذات مانگے جا رہے ہیں! سول سروس میں‘ مودی دور میں‘ شاید ہی کوئی مسلمان آ رہا ہو! گائے کے نام پر اب تک سینکڑوں مسلمان قتل کیے جا چکے ہیں۔ ہزاروں گھر اُجاڑے جا چکے ہیں۔ بی جے پی کی حکومت نے ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرتیں بھر دی ہیں۔ نہرو کا سیکولر بھارت عدم برداشت کی انتہاؤں کو چھُو رہا ہے۔ گاندھی جی کے قاتل کو ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
تازہ ترین زخم جو مسلمانوں کو پہنچایا گیا ہے‘ پوری امت مسلمہ کے لیے باعثِ شرم ہے۔ مسلمانوں کی مذہبی املاک کو ہڑپ کرنے کی ابتدا کر دی گئی ہے۔ ماضی میں نہ صرف حکمران بلکہ صاحبِ حیثیت اور آسودہ حال لوگ مسجدوں‘ امام بارگاہوں‘ خانقاہوں اور دیگر امور کے مصارف اور دیکھ بھال کے لیے اپنی جائیدادوں کا کچھ حصہ وقف کیا کرتے تھے۔ نوابوں کے عہد میں یہ سلسلہ اور بھی بڑھ گیا تھا۔ یہ مذہبی املاک بی جے پی کی حکومت کی آنکھوں میں کانٹا بن رہی ہیں۔ اس مقصد کے لیے قانون سازی کر دی گئی ہے۔ بی بی سی کے مطابق ایک نیا بل 1995ء کے وقف ایکٹ میں ترمیم کے لیے لایا گیا ہے۔ نئے بل کی شق کے مطابق صرف وہی شخص زمین عطیہ کر سکتا ہے جو مسلسل پانچ سال تک مسلمان رہا ہو اور عطیہ کی جانے والی جائیداد اس کی اپنی ملکیت ہو۔ نئے بل میں سروے کرانے کا حق وقف کمشنر کے بجائے کلیکٹر کو دیا گیا ہے۔ وقف املاک سے متعلق تنازع میں کلیکٹر کا فیصلہ مؤثر مانا جائے گا۔ اس بل کے مطابق وقف ٹریبونل کے فیصلے کو حتمی نہیں سمجھا جائے گا۔ ''وقف املاک‘‘ کی انتظامیہ میں ہندوؤں کو شامل کیا جائے گا حالانکہ ہندوؤں کے مذہبی معاملات میں کسی غیر ہندو کا کوئی کردار نہیں! یہ ظالمانہ بل ایک ہولناک سکیم کی ابتدا ہے۔ سکیم یہ ہے کہ مسلمانوں کو نیست ونابود کر دیا جائے۔ ملازمتوں کے دروازے ان پر پہلے ہی بند ہیں۔ معاشرتی طور پر انہیں پہلے ہی تنہا کیا جا رہا ہے۔ وقف کے اس ترمیمی بل سے ان کے مذہب اور کلچر پر ایک اور مہلک وار کیا گیا ہے!
کیا پاکستانی سفارت خانے اس ضمن میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟ نہیں! تمام ملکوں میں متعین پاکستانی سفیروں‘ خاص طور پر مسلمان ملکوں میں تعینات شدہ پاکستانی سفیروں پر لازم ہے کہ وہاں کی حکومتوں کو‘ میڈیا کو اور سول سوسائٹی کو بھارت کے ان مسلمان دشمن اقدامات سے آگاہ کریں۔ رائے عامہ کو بیدار کریں اور مسلمانوں کو اصل حقائق سے روشناس کریں! عرب ممالک کی حکومتیں بھارت کو آسانی سے احساس دلا سکتی ہیں کہ بھارتی مسلمان اتنے بھی لاوارث نہیں کہ ظلم وستم کا ایک لامتناہی سلسلہ ان پر روا رکھا جائے اور مسلمان ممالک خاموش رہیں! ان ملکوں کی حکومتیں اگر مصلحت پسندی کا شکار ہیں تو کم از کم وہاں کے عوام کو تو صورتحال سے آگاہ کیا جائے!!

Thursday, April 03, 2025

اے برطانیہ کے بادشاہ! اے امریکہ کے صدر

!

اگر کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان لبریشن آرمی کا مقصد پاکستانیوں کو قتل کرنا ہے تو یہ کام تو ان کے بغیر بھی ہو رہا ہے اور بہت اچھی طرح سے ہو رہا ہے۔ ان تنظیموں سے کوئی پوچھے کہ تم یہ کام کر کے کیوں بدنامی مول لے رہی ہو؟
گزشتہ ہفتے راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر ایک ڈمپر نے پانچ پاکستانیوں کو ہلاک کر ڈالا۔ ان میں ایک 40سالہ خاتون اور ایک 15سالہ لڑکی بھی شامل تھی۔ کئی لوگ زخمی ہوئے۔ ڈمپر کا ڈرائیور بھاگ گیا۔ امید واثق ہے کہ پکڑا نہیں جائے گا! کچھ عرصہ پہلے ملیر ہالٹ کراچی میں میاں بیوی کو ایک ٹینکر نے کچل ڈالا۔ خاتون حاملہ تھی۔ ڈمپر‘ ٹینکر اور ٹریکٹر ٹرالیاں ہر سال سینکڑوں لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد وہ ہے جو رپورٹ ہو جاتی ہے‘ وگرنہ یہ تعداد ہزاروں میں ہو گی۔ حافظ نعیم الرحمن پہلے سیاستدان ہیں جنہوں نے گزشتہ ہفتے ڈمپروں اور ٹینکروں کے ہاتھوں روزانہ کی بنیاد پر ہلاک ہونے والوں کی بات کی ہے۔ اگرچہ یہ بات انہوں نے صرف کراچی کے حوالے سے کی ہے۔ انہوں نے مسئلے کا حل بھی نہیں بتایا۔ صرف یہ مطالبہ کیا ہے کہ جاں بحق ہونے والوں کے پسماندگان کو معاوضہ دیا جائے۔ بہر طور حافظ صاحب کے علاوہ کسی نمایاں عوامی شخصیت نے اس موضوع پر‘ ہمارے علم کی رو سے‘ آج تک احتجاج نہیں کیا۔
کسی بھی حکومت کا‘ وفاقی ہو یا صوبائی‘ اولین فریضہ عوام کی جان کی حفاظت ہے! اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک طویل عرصے سے یہ خوفناک قاتل گاڑیاں شاہراہوں پر خون کے دریا بہا رہی ہیں تو حکومتوں نے اس قتلِ عام کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ لیکن ٹھہریے! یہ سوال ہی غلط ہے۔ یہ سوال تب درست اور منطقی ہوتا جب ہماری حکومتوں کا اولین فریضہ واقعی عوام کی جانوں کی حفاظت ہوتا! ہماری حکومتوں کا اس فریضے سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں! ان کی ترجیحات میں عوام کی زندگیاں آتی ہی نہیں! ٹریفک کا قتلِ عام ہو یا ڈمپروں کی خونریزی‘ حکومتیں مکمل لا تعلق ہیں۔ صرف حکومتوں کی بے اعتنائی کی بات نہیں‘ منتخب عوامی نمائندوں کو بھی ان مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں! حکومتیں اپنے اقتدار کی حفاظت میں مصروف رہتی ہیں یا اقتدار کو مزید طول دینے میں! رہے عوامی نمائندے تو ان کی ترجیحات میں ترقیاتی فنڈز کا حصول ہوتا ہے یا کابینہ میں شمولیت اور اپنے قریبی اعزہ کے لیے ملازمتیں‘ ترقیاں‘ تعیناتیاں اور دیگر فوائد اور مراعات کا حصول!!
اگر کوئی حکومت دلچسپی لیتی تو اس مسئلے سے نمٹنا مشکل نہ تھا! دنیا بھر میں ایسے جرائم سخت سزاؤں سے روکے جاتے ہیں۔ حکومت کو عوام کی فلاح میں دلچسپی ہوتی تو اس ضمن میں قانون سازی کرتی۔ پہلی یہ کہ قاتل ڈرائیور کو سخت ترین سزا دی جائے گی۔ کم از کم چودہ پندرہ سال قید با مشقت کی سزا! دوسری یہ کہ ڈمپر یا ٹینکر یا ٹرالی بحقِ سرکار ضبط کر لی جائے گی۔ تیسری اور اہم ترین یہ کہ مقتول یا مقتولین کے خاندانوں کو گاڑی کا مالک معاوضہ ادا کرے گا جو معمولی یا برائے نام نہیں ہو گا بلکہ کروڑوں میں ہو گا۔ اس کے علاوہ زخمیوں کے علاج کے اخراجات بھی گاڑی کا مالک ہی ادا کرے گا۔ چوتھی یہ کہ اس قبیل کی گاڑیاں دن کی روشنی میں سڑک پر نہیں دکھائی دیں گی۔ یہ اپنا کام راتوں کو کریں گی جب ٹریفک بہت کم ہوتی ہے۔ اگر قانون سازی ان خطوط پر کر دی جائے تو آپ دیکھئے گا کہ ٹینکروں‘ ٹرالیوں اور ڈمپروں کے مالک راتوں رات بے حس حیوانوں کی جگہ انسان بن جائیں گے۔ گاڑیوں کی بتیاں ٹھیک کرائیں گے۔ اَن پڑھ اور اجڈ ڈرائیوروں کی جگہ ایسے ڈرائیور رکھنا شروع کر دیں گے جو اکھڑ ہوں نہ وحشی! جو انسانوں کو انسان سمجھیں اور ٹریفک قوانین کی پابندی کریں!
لیکن یہ محض خیالی پلاؤ ہے۔ کس کے پاس اتنا وقت ہے اور کس کو اتنی فکر ہے کہ لوگوں کی جان بچانے کے لیے قانون سازی کرتا پھرے! بظاہر یہی لگتا ہے کہ قتل و غارت کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ان وحشت ناک گاڑیوں کے مالکان کا بال بیکا نہیں ہو گا۔ یہ پیسے کماتے رہیں گے۔ ان کے رکھے ہوئے ڈرائیور‘ انسان نما جانور ڈرائیور‘ بچوں‘ خواتین اور مردوں کو ہلاک کرتے رہیں گے! تو پھر ہم کیا کریں؟ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہم اپنے مائی باپ‘ اپنے سابق آقاؤں‘ انگریز سرکار کو مدد کے لیے پکاریں! ان سامراجیوں میں کم از کم یہ خصوصیت موجود تھی کہ جب عوام کو کوئی مصیبت پیش آتی تو یہ اس کا استیصال کرتے۔ ہم نے پولیس والوں کی خود نوشتوں میں پڑھا ہے کہ کسی گاؤں میں قتل ہوتا تو انگریز پولیس افسر گاؤں کے باہر تنبو لگا کر بیٹھ جاتا اور اس وقت تک وہاں سے نہ جاتا جب تک قاتل پکڑا نہ جاتا۔ ستی کی ظالمانہ رسم کے خلاف بھی انگریز سرکار ہی نے کارروائی کی۔ یہ عجیب بات ہے کہ انگریز سامراج کا بنیادی مقصد ملکہ کی حکومت کی بقا اور استحکام تھا۔اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے ظلم بھی بہت کیے۔ اس کے باوجود امن و امان کا قیام اور عوام کی حفاظت بھی ان کے زمانے میں پوری پوری ہوئی۔ اس کی ایک مثال ٹھگوں کا خاتمہ تھا۔ ٹھگ وسطی ہند میں عام پائے جاتے تھے۔ انگریزوں سے پہلے بھی مختلف بادشاہوں نے ان کے خاتمے کی کوششیں کیں لیکن مکمل استیصال ان کا ولیم بینٹک کے دور میں ولیم ہنری سلیمن نے کیا۔ ٹھگ دو دو‘ چار چار کی تعداد میں مسافروں کے قافلوں میں شامل ہو جاتے تھے۔ مسافروں کی خدمت کر کے ان کا اعتماد حاصل کر لیتے۔ ساتھ ساتھ یہ معلومات بھی حاصل کرتے رہتے کہ کس مسافر کا سامان قیمتی ہے یا کس کے پاس سونا یا روپے ہیں۔ پھر موقع پا کر اپنے شکار کو مار ڈالتے اور اس کا مال لے کر غائب ہو جاتے۔ ان کے مارنے کا طریقہ بھی خاص تھا۔ یہ ریشمی رومال کے ساتھ گلے میں پھندا ڈالتے اور بندے کو مار دیتے۔ ولیم ہنری سلیمن نے خفیہ اطلاعات (انٹیلی جنس) کی بنیاد پر کام کیا۔ ٹھگوں کے جتھوں کو جاسوسوں کے ذریعے پکڑا۔ 1830ء کے لگ بھگ یہ مہم شروع ہوئی اور 1870ء تک ٹھگی کا خاتمہ ہو گیا۔ ہم پاکستانیوں کو چاہیے کہ بر طانیہ کے بادشاہ کے پاس ایک وفد بھیجیں۔ وفد بادشاہ کو باور کرائے کہ جو پاکستان وہ ہندوستان سے نکال کر ہمیں دے گئے تھے اس کے حالات ابتر ہیں۔ بادشاہ کو بتایا جائے کہ اس کی سابق رعایا کے لیے ٹھگی کی جدید شکل ایک عذاب بنی ہوئی ہے۔ یہ جدید شکل ڈمپروں‘ ٹینکروں اور ٹریکٹر ٹرالیوں کی صورت میں نازل ہوئی ہے۔ بادشاہ سلامت کی سابق رعایا کو مسلسل قتل کیا جا رہا ہے۔ حکومتوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی! بادشاہ سلامت رحم کریں اور ولیم ہنری سلیمن کے پڑپوتے یا پڑپوتے کی اولاد کو حکم دیں کہ آکر مہم چلائے اور آپ کی سابق رعایا کو ان ظالموں کے خونیں پنجے سے نجات دے۔ ٹینکروں‘ ڈمپروں اور ٹرالیوں کے جو ڈرائیور قتل کے مرتکب ہوں انہیں سر عام پھانسی دے اور گاڑیوں کے مالکوں پر اتنے بھاری جرمانے لگائے کہ ان کی کمر ٹوٹ جائے۔
دوسرا آپشن یہ ہے کہ ایک وفد صدر ٹرمپ کی خدمت میں حاضر ہو کر دہائی دے۔ اور کہے کہ اے امریکہ کے صدر! آپ حقیقت میں کرہ ٔارض کے بلا شرکت غیرے شہنشاہ ہیں۔ دنیا پر آپ ہی کا سکہ چلتا ہے۔ ہماری حکومت کو تو پروا نہیں۔ آپ کا اشارۂ ابرو ہی کافی ہو گا۔ آپ کے حکم پر ہماری حکومت ان قاتلوں کا خاتمہ کرے گی۔ ازراہِ کرم! ہمیں اپنی رعایا ہی سمجھئے اور ہماری مدد کو پہنچئے۔ بلکہ بہتر ہو گا کہ کینیڈا اور گرین لینڈ کے ساتھ ہی ہم پر بھی نظر کرم کریں!!

Thursday, March 27, 2025

کیا لاہور کی شناخت صرف کھانوں سے ہے؟؟؟

یہ معروف ومشہور صحافی نیوزی لینڈ کا شہری ہے۔ آباؤ اجداد کا تعلق برصغیر سے تھا۔ اس نے پاکستان کے بہت سے دانشوروں‘ صحافیوں اور سکالروں کے انٹرویو کیے ہیں جو پاکستان اور بھارت‘ دونوں ملکوں میں بے شمار لوگوں نے دیکھے اور سنے۔ چند روز پہلے لاہور میں فیض میلہ منعقد ہوا‘ اس میں ایک سیشن لاہور کے بارے میں بھی تھا۔ یہ صحافی لاہور کی محبت میں نیوزی لینڈ سے‘ جو دنیا کا آخری کنارہ ہے‘ چلا اور لاہور آ پہنچا! سیشن اٹینڈ کیا۔ سٹیج پر بڑے بڑے لوگ براجمان تھے۔ وہ سفید مُو خاتون دانشور بھی جو ادبی میلوں (لٹریری فیسٹیولز) پر چھائے ہوئے مافیا کی مستقل ممبر ہیں! وہ حضرات بھی جو پرانے لاہور کو نیا کرنے پر مامور ہیں۔ یہ اور بات کہ معاملہ دہلی گیٹ سے آگے نہیں بڑھ رہا۔ افسوس کہ لاہور کے بارے میں جو بات چیت بھی ہوئی‘ لاہور کے کھانوں کے بارے میں ہی ہوئی۔ جب نظر آ گیا کہ کھانوں سے باہر نکلنے کے کوئی آثار نہیں‘ تو نیوزی لینڈ سے آیا ہوا لاہور کا شیدائی اٹھا اور سٹیج پر متمکن ماہرین سے کہنے لگا کہ کیا لاہور کھانوں کے علاوہ کوئی صفت‘ کوئی امتیاز‘ کوئی خوبی‘ کوئی تاریخ‘ کوئی روایت‘ کوئی داستان نہیں رکھتا؟ صرف کھانے ہی کھانے ہیں لاہور میں؟ اور کچھ نہیں؟ سنا ہے کہ سفید مُو لٹریری فیسٹیول فیم خاتون نے تو اپنی لاعلمی کی بہت بڑی دلیل یہ دی کہ ان کی تو پیدائش ہی تقسیم کے بعد کی ہے اس لیے انہیں تقسیم سے پہلے کے لاہور کا زیادہ پتا نہیں! ویسے یہ دلیل بہت کارآمد ہے۔ امتحان میں بابر یا سوری یا خلجی یا لارڈ کلائیو کے بارے میں سوال آجائے تو جواب میں لکھنا چاہیے کہ میں تو اُس وقت دنیا میں تھا ہی نہیں! ارے بھائی! آپ لاہور کی تاریخ پر بات کرتے! مختلف ادوار میں مختلف حکمرانوں کا لاہور کے حوالے سے کیا کردار رہا؟ پرانے لاہور کے کتنے دروازے تھے؟ کتنے اب موجود ہیں؟ عمارتیں کون کون سی مشہور ہیں؟ گلیاں‘ کوچے‘ چوک کون کون سے ہیں! گورنمنٹ کالج کی ابتدائی کلاسیں کس عمارت میں منعقد ہوتی رہیں؟ اس کالج کے قیام میں ولیم لائٹنر کا کیا کردار تھا۔ مولانا محمد حسین آزاد گھوڑے پر سوار کس طرح گورنمنٹ کالج آتے تھے جبکہ شاگرد دائیں بائیں ساتھ ساتھ پیدل چلتے ہوئے استفادہ کرتے آتے تھے۔ آزاد کس امام بارگاہ میں نماز کے لیے آتے تھے؟ پرانے لاہور کے ضمن میں علامہ اقبال‘ حکیم احمد شجاع‘ ایم اسلم اور دیگر مشاہیر کا ذکر تو مجھ جیسا عامی بھی کر سکتا ہے۔ جاوید منزل اب اقبال میوزیم ہے۔ اس کا تعارف کرایا جاتا۔ لاہور کا ریلوے سٹیشن کب بنا؟
سکھوں کی عملداری کے دوران شاہی مسجد پر کیا گزری! پرانی حویلیوں کا تفصیلی ذکر ہونا چاہیے تھا۔ سر گنگا رام کی لاہور کے لیے بے پناہ خدمات ہیں۔ ان کی بنائی ہوئی عمارتوں کا ذکر کیا جانا چاہیے تھا۔ عجائب گھر اور نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کی تاریخ کا اہم حصہ ہیں! پنجاب پبلک لائبریری بہت بڑا موضوع ہے۔ لاہور نے وہ دور بھی دیکھا جب کرشن چندر‘ منٹو‘ کنہیا لال کپور‘ پطرس‘ فیض‘ تاثیر‘ حفیظ جالندھری‘ احمد ندیم قاسمی‘ قیوم نظر اور دوسرے دانشور لاہور کے آسمان پر کہکشاں کی طرح جگمگاتے تھے۔ وائی ایم سی اے اور پاک ٹی ہاؤس کی اہمیت پر گفتگو ہونی چاہیے تھی! سید علی ہجویری کب تشریف لائے؟ یہ حضرات جو تقریب میں مسند نشیں تھے‘ کچھ پڑھ کر آتے۔ تیاری کر کے آتے۔
کھانے ہم پاکستانیوں کا اوڑھنا بچھونا ہیں۔ ہماری سوچ کھانوں سے شروع ہوتی ہے اور کھانوں پر ختم ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ ہوا کراچی کی ایک فیملی کی پوسٹ دیکھی۔ ماشاء اللہ کراچی سے روانہ ہوتے وقت جو فہرست لاہور کے مشہور ''مقامات‘‘ کی انہوں نے تیار کی تھی اس میں صرف ریستوران اور ڈھابے تھے! لاہور سے کراچی جانے والوں کا بھی یہی حال ہوگا۔ چند دن ہوئے ریلوے کے ایک صاحب سے گرین لائن ٹرین کی بات ہو رہی تھی۔ میں نے پوچھا کیا: دراز ہونے کے لیے برتھ بھی موجود ہیں؟ ان کا جواب زبردست تھا۔ کہنے لگے: پاکستانیوں کی اوّلین ترجیح کھانا ہوتا ہے۔ ہم کھانا اچھا مہیا کر رہے ہیں۔ باقی سہولتوں کی کسی کو پروا ہے‘ نہ کوئی پوچھتا ہے! یہ ہم پاکستانیوں کے ذوق اور ترجیحات پر بہترین اور مختصر ترین تبصرہ ہے۔ اور کیا ہی سچا تبصرہ ہے۔ ہمارے گھروں میں سب سے زیادہ بحث اس بات پر ہوتی ہے کہ آج کیا پکے گا؟ مجھے نہیں معلوم اس واقعے میں کتنی صداقت ہے مگر سنا ہے کہ بھٹو صاحب نے ہنری کسنجر کے لیے ایک عظیم الشان ڈنر کا اہتمام کیا تھا جس کے لیے پاکستان سے خصوصی طور پر پرندے منگوائے گئے تھے۔ مگر ہنری کسنجر آیا تو اس نے جو میز پہلے پڑا تھا اسی سے کچھ لے لیا۔ دھیان اس کا گفتگو پر ہی رہا۔ بارِ دگر عرض ہے کہ یہ بات سنی سنائی ہے‘ تاہم سچائی سے اتنی بعید بھی نہیں۔ اس لکھنے والے نے امریکہ میں کئی سرکاری لنچ اور ڈنر اٹینڈ کیے ہیں۔ سادہ ترین ہوتے ہیں۔ پہلے سلاد۔ پھر 
Main 
ڈش۔ آخر میں چاکلیٹ یا پنیر کا کیک! سیلاب کے دنوں میں انجلینا جولی پاکستان آئی تھی۔ اس وقت کے وزیراعظم نے انہیں کھانے پر بلایا۔ غالباً وزیراعظم کی فیملی بھی تھی۔ انجلینا نے بعد میں افسوس کا اظہار کیا کہ ادھر سیلاب زدگان پر مصیبت آئی ہوئی ہے اور ادھر میز کھانوں سے اٹا پڑا تھا۔ ہم اس معاملے میں‘ معاف کیجیے گا‘ بہت شُہدے اور گھٹیا ہیں۔ ہم سب! من حیث القوم! کسی کے ہاں جائیں تو واپس آکر کھانے میں کیڑے نکالیں گے۔ کوئی نہ کوئی نقص ضرور تلاش کر لیں گے! ہمارے لیے اہم ترین پہلو کھانے کی مقدار ہے۔ جیسا بھی ہو‘ بس کثیر مقدار میں ہو۔ یہ کھانا ہی تو ہے جس کے لیے ہم شادیوں کی تقاریب میں گھنٹوں نہیں بلکہ پہروں انتظار کرتے ہیں۔ ہمارا کسی نے اصل روپ دیکھنا ہو تو اس وقت دیکھے جب کھانا کھلنے کا اعلان ہوتا ہے۔ اُس وقت ہم انسان نہیں‘ کوئی اور مخلوق بن جاتے ہیں۔ ایک حالتِ جنگ ہے جو ہم پر طاری ہو جاتی ہے۔ ہم جون بدل لیتے ہیں۔ شائستگی‘ تمیز‘ لحاظ‘ شرافت سب کچھ بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ ہمارا ہر کھانا ہماری زندگی کا آخری کھانا ہوتا ہے۔ ہمیں نارمل نہیں کہا جا سکتا۔
مغل جب تک جنگوں میں مصروف رہے‘ کھانوں میں سادگی تھی۔ جوں جوں زوال آتا گیا‘ اصل میدان جنگ کی جگہ دستر خوان میدانِ وغا بنتا گیا۔ اورنگزیب باجرے کی کھچڑی کھاتا تھا۔ پھر جب انتظام وانصرام انگریز بادشاہ نے سنبھال لیا تو بادشاہوں اور نوابوں کے پاس ایک ہی قلمدان رہ گیا اور وہ دستر خوان کا تھا۔ اس میں پھر طرح طرح کے مقابلے ہوئے۔ کبھی نظام کی کوشش ہوتی کہ اودھ کے نواب کے باورچی کو ''فتح‘‘ کر لے۔ کبھی اودھ کا نواب دہلی سے کسی باورچی کو توڑ کر لے آتا تھا۔ ماش کی دال کا باورچی الگ تھا۔ شامی کبابوں کا الگ‘ لکھنؤ کے کھانوں پر بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اردو میں بھی اور انگریزی میں بھی۔ بہت سے آئٹم ایجاد ہی وہیں ہوئے‘ جیسے شیرمال! اور شاید شامی کباب بھی!! اس میں نئے نئے تجربے ہوئے۔ فنکاریاں دکھائی گئیں۔ ایک دعوت میں مہمان جس ڈش سے بھی کھانا لیتے وہ مٹھائی ہوتی‘ کیا چاول‘ کیا روٹی اور کیا سالن! پھر اس کے جواب میں بھی اسی طرح کی کارروائیاں ہوئیں۔ ایک ہمارے سابق حکمران جب ''جلاوطن‘‘ ہوئے تو سنا ہے باقر خانیاں بنانے والا الگ باورچی ساتھ لے کر گئے۔ اور بھی بہت داستانیں ہیں ان کے بارے میں!! اپنا اپنا ذوق اور اپنی اپنی ترجیحات! اصل بات وہی ہے جو اقبال کہہ گئے:
تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیالِ فقر و غنا نہ کر
کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدارِ قوتِ حیدری
نانِ شعیر جَو کی روٹی کو کہتے ہیں!

Tuesday, March 25, 2025

تین انقلابی اقدامات


پاکستان کے حالات اطمینان بخش نہیں! بلوچستان ایک خطرناک اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ بھارت ہماری غلط پالیسیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر اعلانیہ مداخلت کر رہا ہے۔ اربوں روپے جھونک رہا ہے۔ افغانستان سے مسلسل در اندازی ہو رہی ہے۔ ہمارے لوگ مارے جا رہے ہیں۔ دن رات لاشوں کا کاروبار ہو رہا ہے۔ عوام خوف زدہ ہیں۔ بیرونی دنیا نے ہم پر کیمرے لگا رکھے ہیں۔ غیر ملکی مبصر لمحہ لمحہ دیکھ رہے ہیں۔ جانچ رہے ہیں۔ اسلام آباد میں تعینات سفیر روزانہ کی بنیاد پر رپورٹیں اپنے اپنے ملک کو ارسال کر رہے ہیں۔
خدا نخواستہ آپ یہ تو نہیں سوچ رہے کہ ہماری حکومت‘ ہمارے ادارے اور ہمارے منتخب ایوان اس نازک صورتحال سے بے خبر ہیں! خدا نہ کرے ایسا ہو! یہ ناممکن ہے کہ حکومت‘ ادارے اور منتخب نمائندے اس صورتحال میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔ تین ایسے اقدام‘ چند روز پہلے اٹھائے گئے ہیں جو بگڑے ہوئے حالات کو یوں ٹھیک کریں گے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے‘ جیسے اجوائن پیٹ کے درد کو ختم کر دیتی ہے اور جیسے تلوار گلے کو کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ پہلا قدم یہ اٹھایا گیا ہے کہ وفاقی وزیروں کی تنخواہیں ایک سو اٹھاسی فیصد بڑھا دی گئی ہیں۔ پہلے دو لاکھ کے لگ بھگ لے رہا تھا ایک وفاقی وزیر! اب سوا پانچ لاکھ لے گا۔ چونکہ یہ تنخواہیں عوام کا پیٹ کاٹ کر ادا کی جائیں گی اس لیے اسے عوام کی طرف سے صدقہ خیرات سمجھا جائے گا۔ اس وقت ہمارے وفاقی وزیروں جتنا مفلس اور قلاش کوئی نہیں۔ کچھ بداندیش کہہ رہے ہیں کہ یہ سب ارب پتی ہیں اور کروڑوں روپے الیکشن پر لگا کر ایوان میں پہنچے ہیں‘ یہ کہ ان میں وڈیرے ہیں‘ صنعتکار ہیں‘ اور یہ کہ یہ پہلے ہی مراعات سے لدے پھندے ہیں۔ ایسی باتیں صرف وہ لوگ کر رہے ہیں جنہیں ملکی سلامتی کی پروا نہیں! سچ یہ ہے کہ وفاقی وزیر بیچارے‘ تمام کے تمام‘ افلاس زدہ ہیں۔ بچے ان کے خیراتی سکولوں میں تعلیم پا رہے ہیں۔ روٹیاں ان کی لنگروں‘ مزاروں‘ درباروں سے آتی ہیں اور اُن دسترخوانوں سے جو فی سبیل اللہ قائم ہیں اور طعام المسکین کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ وزرا پہلے ہی قوم کے لیے بے انتہا قربانیاں دے رہے ہیں۔ سرکاری گاڑیاں بھی نہیں لی ہوئیں۔ پٹرول بھی جیب سے ڈلواتے ہیں۔ سب اپنے ذاتی گھروں میں رہتے ہیں۔ یہ تنخواہ ان کی مشقت بھری‘ افلاس زدہ زندگی کو تھوڑا سا سکون دے گی۔ بچے دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کر کھا سکیں گے۔ یوں بھی انصاف کیجیے‘ سوا پانچ لاکھ روپے کی وقعت ہی کیا ہے؟ اس سے زیادہ تو ایک مزدور یا ریڑھی والا ایک دن میں کما لیتا ہے۔ قوم کو چاہیے کہ قومی اسمبلی کو اس زبردست اقدام پر سلام پیش کرے! یہ ملک پر ایک احسانِ عظیم ہے! ایک ایسا احسان جسے آئندہ نسلیں فخر سے یاد کریں گی۔ تاریخ میں اس اقدام کا ذکر سنہری الفاظ میں ہو گا۔
دوسرا انقلابی قدم جو اٹھایا گیا ہے‘ پہلے سے بھی زیادہ طلسمی ہے اور رہتی دنیا تک یاد رہ جانے والا۔ جنوبی پنجاب کے ایک تعلیمی ادارے میں ایک استاد (یا چند اساتذہ) اور طالبات نے قوالی پر دھمال ڈالا۔ قوالی اور دھمال؟ جی ہاں! متعلقہ حکام نے اس وطن دشمن سرگرمی کا فوری نوٹس لیا اور دھمالیوں کے خلاف سخت ایکشن لیا۔ اصل میں اس قوالی اور اس دھمال سے ملکی حالات خراب سے خراب تر ہونے کا احتمال تھا۔ اس سے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے زیادہ طاقتور ہو سکتے تھے۔ اس سے بھارت کی دفاعی اور سفارتی قوت میں بھی اضافہ ہو سکتا تھا۔ اس قوالی اور اس تباہ کن دھمال سے امریکہ کے ساتھ بھی تعلقات میں رخنہ پڑ سکتا تھا۔ ترکیہ اور چین بھی‘ جو ہمارے قریبی دوست ہیں‘ ناراض ہو سکتے تھے۔ جاپان بھی بدظن ہو سکتا تھا۔ خدائے برتر کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس خانہ خرابی کے خلاف بروقت ایکشن لیا گیا اور دشمنوں کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ حکومت سے ہماری مخلصانہ اور عاجزانہ التماس ہے کہ مزاروں اور عرسوں پر منعقد ہونے والی قوالیوں اور دھمال پر بھی پابندی لگائے کیونکہ جو سرگرمی ایک جگہ ناجائز ہو سکتی ہے‘ وہ دوسری جگہ جائز کیسے ہو سکتی ہے؟ سیہون شریف اور دوسری درگاہوں پر برپا ہونے والی قوالیوں اور دھمالوں کا بھی فی الفور نوٹس لیا جائے۔ ہماری تصوف کی کتابوں میں جا بجا لکھا ہے کہ صوفیائے کرام سماع پر رقص کرتے تھے۔ یہ رقص دھمال ہی تو ہوتا تھا۔ اور یہ دھمال رقص ہی تو ہے۔ ہم پُرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسی تمام کتابوں کی اشاعت اور خرید وفروخت پر پابندی لگائی جائے۔ کیونکہ اگر سماع اور دھمال خلافِ قانون ہے تو ان کتابوں کی تشہیر کیسے جائز ہو سکتی ہے۔ اور یہ جو شادیوں اور مہندیوں کی خالص گھریلو تقریبات میں رقص کیا جاتا ہے یعنی دھمال ڈالا جاتا ہے اسے بھی حکماً اور قانوناً بند کرایا جائے۔ مہندی کی تقریبات میں ہونے والا رقص تو بدرجہ اتم خطرناک ہے کیونکہ اس میں گھر کی اور باہر کی خواتین بھی شامل ہوتی ہیں اور مرد بھی! یہ تو سوسائٹی کے لیے زہر قاتل ہے۔ اس کی سزا عبرتناک ہونی چاہیے اور سبق آموز! اب یہ بھی سنیے کہ اس ہولناک جرم کے مرتکب افراد کو بروقت سزا دینے کے نتائج کیا ہوئے؟ آپ کو یہ جان کر مسرت ہو گی کہ ملک دشمن سرگرمیوں میں معتد بہ کمی واقع ہوئی ہے۔ بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کی بندوقوں کو فوراً زنگ لگ گیا۔ بھارت کی توپوں میں کیڑے پڑ گئے۔ مودی کو تو دل کا دورہ پڑنے لگا تھا۔ ٹرمپ نے ہمارے حکمرانوں کو تحسین سے بھرا خط لکھا۔ برازیل اور ارجنٹائن میں ان حکام کے مجسمے بنا کر چوکوں پر رکھے گئے ہیں جنہوں نے اس صوفیانہ سرگرمی کے خلاف ایکشن لیا۔
اب دل تھام کر بیٹھیے! ہم تیسرے انقلابی اقدام کا ذکر کرنے لگے ہیں۔ کمزور دل یہ نہ پڑھیں‘ کیونکہ اس اقدام سے پاکستان کے دشمنوں پر ہول طاری ہو گیا ہے۔ وزیراعظم سعودی عرب کے دورے پر گئے تو ایک صوبے کی وزیراعلیٰ کو ساتھ لے گئے اور باقی صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو ساتھ نہیں لے کر گئے۔ شہزادہ ایم بی ایس کے ساتھ جو خالص سرکاری میٹنگ ہوئی اس میں وزیر اعظم کے ساتھ نائب وزیراعظم کے علاوہ ایک صوبے کی وزیراعلیٰ بھی تھیں۔ یہ ایسا زبردست اقدام ہے جو قومی یکجہتی کو دوچند کرے گا اور صوبوں اور وفاق کے درمیان محبت میں اضافہ کرے گا۔ رموزِ مملکتِ خویش خسروان دانند! ہو سکتا ہے ولی عہد کے ساتھ ہونے والی گفتگو اتنی حساس ہو اور اتنی سیکرٹ ہو کہ صرف ایک صوبے کی حکمران ہی کو اس میں شامل کیا جا سکتا تھا۔
پاکستان اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ دہشت گردی کا ناسور رِس رہا ہے۔ بلوچستان ملک دشمن سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے۔ ایسے میں اگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ یکساں سلوک رکھا جاتا تو دشمن اس سے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ یہ ہماری حکومت کا کمال کا 

Vision 

ہے اور حد درجہ دور اندیشی! یہ تدبّر اور حکمت کی انتہا ہے! روشن ترین پہلو اس اقدام کا یہ ہے کہ وزیراعظم پر کوئی شخص اقربا پروری کا الزام نہیں لگا سکتا! جس صوبے کی حکمرانِ اعلیٰ کو وہ ساتھ لے گئے اس سے ان کا دور دور تک کوئی رشتہ نہ تھا۔ بلکہ دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ان کے قریبی اعزہ تھے۔ اگر وہ انہیں بھی اس دورے پر ساتھ لے جاتے تو ان پر الزام لگتا کہ رشتہ داروں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں! الحمدللہ ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ ہمارے حکمران حد درجہ محتاط ہیں۔ وہ کوئی ایسا کام کرتے ہی نہیں جس پر لوگ انگلیاں اٹھا سکیں!! بس قوم کی یہ خواہش ہے کہ ایسے مزید اقدام بھی اٹھائے جائیں!!

 

powered by worldwanders.com