Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, July 10, 2025

شدید سردی اور آم کا فراق

میلبورن میں سردی ہے! کڑاکے کی سردی!

ٹمپریچر دن کے وقت چھ یا سات تک اور رات کو دو ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ مگر اصل مسئلہ سردی نہیں! تیز طوفانی ہوا ہے جو جھکڑ کی طرح چلتی ہے۔ کم ہی ایسے دن ہوتے ہیں کہ دھوپ میں بیٹھا جا سکے۔ اسلام آباد کی جاڑوں کی دھوپ یاد آتی ہے۔ سنہری اور خواب آور دھوپ! میلبورن میں جب تیز وحشت ناک ہوا شور مچاتی ہے اور درخت جھکڑ کے زور سے کُبڑے ہونے لگتے ہیں تو سوچتا ہوں کہ برطانوی بھی کیا لوگ ہیں! دنیا کے اس آخری کنارے میں آکر آباد ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی بھلا! لندن اور میلبورن کا درمیانی فاصلہ سترہ ہزار کلو میٹر ہے۔ اس کے باوجود انگریز یہاں نہ صرف پہنچے بلکہ آباد ہوئے۔ یہاں کے تیز جھکڑوں کو تسخیر کیا۔ میلبورن شہر کی کُل عمر 190 سال ہے! 190 برسوں میں اس شہر کو انگریزوں نے اور ان کی ذریت نے اس درجۂ کمال تک پہنچایا کہ اسے اکثر و بیشتر رہنے کیلئے دنیا کا بہترین شہر قرار دیا جاتا ہے۔ اس تعمیر و ترقی میں چینی بھی شامل رہے‘ بر صغیر سے لائے گئے شتربان بھی اور کچھ دیگر اقوام بھی‘ مگر منصوبہ بندی اور آئیڈیاز انگریز بہادر ہی کے تھے۔ پھر یہ لوگ یہاں سے بھی آگے گئے۔ نیوزی لینڈ کا دارالحکومت ویلنگٹن ہے جو لندن سے تقریباً انیس ہزار کلو میٹر دور ہے۔ اس شہر کی عمر میلبورن سے بھی کم ہے۔ انگریز وہاں بھی پہنچے اور حکومت کی۔ آج بھی آئینی طور پر برطانیہ کا بادشاہ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ اور کینیڈا کا بھی بادشاہ ہے اور ان ریاستوں کا سربراہ!
قدرت کی ہر کاریگری عجیب ہے اور دماغ کو چکرا دینے والی! ان دنوں جب ہمارے جنوبی ایشیا میں گرمی زوروں پر ہے نصف کرۂ جنوبی میں خوب سردی پڑ رہی ہے۔ نصف جنوبی کرے کے مشہور ملکوں میں برازیل‘ جنوبی افریقہ‘ ارجنٹائن‘ آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ پیرو اور چلی شامل ہیں۔ ان سب ملکوں میں مئی‘ جون‘ جولائی میں سردی پڑتی ہے۔ ان ملکوں میں اردو پڑھنے والے اگر اسماعیل میرٹھی کا یہ شعر پڑھیں گے: مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ؍ بہا چوٹی سے ایڑی تک پسینہ ‘تو حیران ہوں گے کیونکہ ان ملکوں میں تو مئی سرد ہوتا ہے۔ ظفر اقبال صاحب نے کہا ہے کہ: کیا کیا گلاب کھلتے ہیں اندر کی دھوپ میں؍ آ دیکھ مل کے مجھ کو دسمبر کی دھوپ میں‘ لیکن ان ملکوں میں دسمبر کی دھوپ گرمیوں کی دھوپ ہوتی ہے۔ انگریزی ادب پڑھنے والے بھی سٹپٹاتے ہوں گے۔ ورڈز ورتھ اور کیٹس کے برطانیہ میں بہار مارچ‘ اپریل میں ہوتی ہے اور آسٹریلیا اور زمین کے جنوبی حصے کے دوسرے ملکوں میں ستمبر‘ اکتوبر میں! سارا مسئلہ اس معشوق کا ہے جسے سورج کہتے ہیں۔ جدھر سورج کا منہ ہو گا اُدھر روشنی اور گرمی ہو گی۔
زمیں کا نصف جس میں ہم ہیں‘ روشن ہو گیا ہے
خوشا قسمت! کسی نے اس طرف چہرا کیا ہے
ان ملکوں میں سال کا طویل ترین دن اکیس یا بائیس دسمبر ہوتا ہے اور طویل تر ین رات اکیس جون کی ہوتی ہے۔ ایرانی بھائیوں کیلئے الگ مشکل ہے۔ ایران میں طویل ترین رات اکیس دسمبر کی ہوتی ہے۔ اس رات ایرانی ''شبِ یلدا‘‘ مناتے ہیں۔ مگر آسٹریلیا میں اکیس دسمبر کی رات مختصر ترین ہوتی ہے!!
ویسے سچ یہ ہے کہ جو مزے ہماری گرمیوں کے ہیں وہ ان ملکوں کی سردیوں میں کہاں! مئی‘ جون‘ جولائی‘ اگست میں ہمارے ہاں دن روشن ہوتے ہیں۔ کھلے ماتھے والے! شام کو باہر بیٹھنے کا مزا آتا ہے۔ آج کی نسل جو پنکھوں اور ایئر کنڈیشنروں کی غلام ہو چکی ہے‘ یہ بات نہیں سمجھے گی! ہماری عمر کے لوگوں نے گرمیوں کے خوب خوب مزے لوٹے ہیں۔ گاؤں میں تب بجلی تھی نہ برقی پنکھے! دوپہر کو ہاتھوں سے پنکھیاں جھلتے تھے۔ بازوؤں کی ورزش ہوتی تھی۔ ادھر عصر ہوتی‘ اُدھر صحنوں میں چھڑکاؤ کر دیا جاتا۔ چارپائیاں کمروں سے نکال کر صحن میں بچھائی جاتیں۔ ان پر مچھر دانیاں نصب کی جاتیں! کچھ لوگ چھت پر سوتے‘ کچھ صحن میں! ہوا چلتی اور رات کا پچھلا پہر اتنا خنک ہو جاتا کہ اوپر چادر یا کھیس لینا پڑتا۔ برصغیر پاک و ہند میں گرمی شدید ہے تو قدرت نے آم کی صورت میں تلافی بھی کر دی ہے۔ جو آم برصغیر میں پیدا ہوتا ہے وہ دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں پایا جاتا۔ جتنی زیادہ گرمی ہو گی اتنا ہی آم میٹھا ہو گا۔ جنوبی پنجاب کو یہ نعمت بطورِ خاص عطا کی گئی ہے۔ ملتان کے بارے میں جس نے بھی یہ شعر کہا ہے: چہار چیز است تحفۂ ملتان؍ گرد‘ گرما‘ گدا و گورستان‘ اس نے انصاف نہیں کیا۔ عجیب شاعر تھا جسے ملتان کے آم نہیں یاد رہے۔ چونسا (ثمر بہشت) ہو اور بہت سا ہو تو گرد‘ گرما‘ گدا و گورستان کی بھرپور تلافی ہو جاتی ہے۔ یہاں میلبورن میں پاکستانی آم ملتے ہیں مگر مہنگے اور محدود مقدار میں! جس مقدار میں ہم لوگ پھل‘ خاص طور پر آم تناول فرماتے ہیں‘ سفید فام لوگ اس مقدار کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہم تو پیٹیوں کے حساب سے کھاتے ہیں۔ مونگ پھلی کی آمد سے پہلے ہمارے علاقے (فتح جنگ‘ پنڈی گھیب‘ تلہ گنگ) میں دیسی خربوزے ہوتے تھے۔ مختلف رنگوں کے اور ازحد شیریں! ہمارے دادا نانا ہمارے لیے کھوتوں کے حساب سے منگواتے تھے۔ یعنی جتنے خربوزے ایک گدھا اٹھا سکتا! یہاں سفید فام لوگوں کو پھل خریدتے دیکھتا ہوں تو ہنسی بھی آتی ہے اور ترس بھی! چار مالٹے یا آدھا تربوز! بہت ہوا تو ایک مکمل خربوزہ یا چار پانچ کیلے! اس پر یہ ستم ظریفی مستزاد کہ مالٹے ہوں یا کیلے‘ سب تول کر!! اسلام آباد میں ایک دوست کی رشتہ داری ایک امریکی سفید فام نوجوان سے ہے۔ (پاکستانی لڑکی سے شادی کی بنا پر)۔ وہ اسلام آباد آکر کچھ دن قیام پذیر رہا۔ اس کا میزبان‘ یعنی میرا دوست بتاتا ہے کہ پھل بیچنے والوں کو دیکھ کر یہ امریکی حیران ہوتا تھا۔ پھلوں سے اَٹی ہوئی ریڑھیاں اور دکانیں قطار اندر قطار! کہتا تھا تمہیں قدرت نے کتنے زیادہ پھل دیے ہیں! ابھی تو اس نے آم کے موسم میں پورے ملک میں آم کی پیٹیوں کی نقل و حرکت اور آمد و رفت نہیں دیکھی ورنہ شاید بے ہوش ہی ہو جاتا! مقدار کا مسئلہ تو غالب حل کر گئے تھے کہ بہت سے ہوں! اور میٹھے بھی! آم کی صفت میں جو قصیدہ کہا اس میں فرماتے ہیں:
انگبیں کے بحکم رب الناس؍ بھر کے بھیجے ہیں سر بمہر گلاس
یعنی شہد کے سر بمہر گلاس!! آم کھانے کا اصل‘ قدیم طریقہ تو یہی ہے کہ نرم کر کے‘ اوپر سے چھوٹا سوراخ کر کے چوسا جائے۔ اس طریقے سے اس کا رس پیا جا سکتا ہے گویا گلاس کے ساتھ تشبیہ جو دی ہے‘ نہایت بر محل ہے!! کیا کمال کی تشبیہ عطا کی ہے !! آج کل جس طریقے سے آم کھایا جانے لگا ہے‘ کاٹ کر مکعب 

(Cubes)

 کی شکل میں‘ وہ آم کے ساتھ صریح زیادتی ہے۔ آم نخروں اور نزاکتوں کے ساتھ نہیں کھایا جاتا‘ دو دو ہاتھ کر کے کھایا جاتا ہے۔ مغل ہندوستان میں آئے تو دو چیزوں کے اسیر ہو کر رہ گئے۔ آم اور پان! شاہ جہان نے اورنگزیب کو دکن کا گورنر مقرر کیا تھا۔ ہمیشہ گلہ کرتا کہ آم اچھے نہیں بھیجتا۔ اورنگزیب نے بھی اپنے بیٹے کو دکن کا گورنر لگایا۔ ''رقعاتِ عالم گیری‘‘ میں شکوہ کرتا ہے کہ میٹھے آم رکھ لیتے ہو اور خراب والے مجھے بھیج دیتے ہو! یوں تو اپنی اپنی پسند ہے مگر بھارت میں آج بھی عام طور پر جس آم (الفانسو) کو بہترین سمجھا جاتا ہے وہ جنوبی ہند ہی میں پیدا ہوتا ہے!
بات دور نکل گئی۔ عرض یہ کر رہا تھا کہ آسٹریلیا کے سرما میں پاکستان کی گرمیاں بہت یاد آتی ہیں! بقول افتخار عارف:
ہمیں تو اپنے سمندر کی ریت کافی ہے
تُو اپنے چشمۂ بے فیض کو سنبھال کے رکھ

Tuesday, July 08, 2025

واہ! ہائر ایجوکیشن کمیشن ! واہ!


خدا کسی کو بُرا پڑوسی نہ دے۔
میرے پڑوسی کے گھر سے میرے گھر میں پتھر آتے ہیں‘ اینٹیں پھینکی جاتی ہیں‘ کوڑا کرکٹ گرایا جاتا ہے۔ میں اس کی منت کرتا ہوں‘ بھائی چارے کا واسطہ دیتا ہوں‘ مگر بے سود! میں نے کیا نہیں کیا اپنے پڑوسی کے لیے۔ جب بھی اسے ضرورت پڑی‘ میں فوراً حاضر تھا۔ تھانے کچہری میں ہمیشہ اس کے ساتھ گیا۔ جب کھانے کے لیے اس کے گھر میں کچھ نہ تھا‘ میں نے خوراک بھیجی۔ بیمار ہوا تو اسے ہسپتال لے کر گیا۔ ادویات پہنچائیں۔ اس کے گھر پر دشمنوں نے قبضہ کیا تو اس کی خاطر اُن سے لڑا۔ اس کی چھت گر گئی تو اسے اپنے ہاں پناہ دی۔ لیکن اس کے رویے میں کبھی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ مجھ سے مسلسل فائدہ اٹھاتا ہے اور مجھے مسلسل نقصان پہنچاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے سانپ پالے ہوئے ہیں اور یہ زہریلے سانپ میرے گھر بھیجتا ہے۔ بدترین پڑوسی کسی نے دیکھنا ہو تو اسے دیکھے۔ امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہ کا یہ فرمان کہ جس پر احسان کرو‘ اس کے شر سے بچو‘ اس پڑوسی پر ایک سو ایک فیصد صادق آتا ہے۔
میں اس پر احسان کیے جا رہا ہوں۔ وہ میرے رخسار پر تھپڑ مارتا ہے تو میں اسے دوسرا رخسار پیش کرتا ہوں۔ اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ میرے اپنے گھر میں فاقے ہیں اور میں روٹیاں اس کے ہاں بھجوا رہا ہوں۔ میر ے اپنے بچوں کے پاس کتابیں ہیں نہ سکول کی فیس کے پیسے‘ مگر میں اپنے پڑوسی کے بچے پڑھانے چلا ہوں۔ کتابیں لے کر دیتا ہوں۔ ان کی فیسیں بھرتا ہوں۔ یہاں تک کہ اپنے گھر کا ایک کمرہ بھی ان کے لیے مختص کرتا ہوں کہ وہ آئیں اور اس میں بیٹھ کر پڑھیں! مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ میں مومن ہونے کا دعویٰ بھی کرتا ہوں اور ایک ہی سوراخ سے بار بار‘ بار بار ڈسا بھی جا رہا ہوں۔ شاید میں مومن ہی نہیں۔ شاید میں منافق ہوں! میری یہ روداد سن کر آپ مجھ سے ہمدردی تو کیا کریں گے‘ الٹا مجھ پر نفرین بھیجیں گے۔ دنیا کا کوئی شخص مجھے عقلمند نہیں کہہ سکتا مگر میں اپنی احمقانہ پالیسی پر قائم ہوں!!
آپ کا کیا خیال ہے میں اپنا پیٹ ننگا کر کے آپ کو کیوں دکھا رہا ہوں؟ اپنے گندے کپڑے سر بازار کیوں دھو رہا ہوں ؟ اس لیے کہ پاکستان میں ایک ادارہ ہے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) اس نے اسی پڑوسی کے سینکڑوں نوجوانوں کو اپنے خرچ پر پڑھانے کے لیے پاکستان بلا لیا ہے۔ تین سو پچاس پہنچ چکے ہیں۔ چند ماہ بعد ڈیڑھ سو مزید آئیں گے! یہ بندوق علامہ اقبال کے کندھے پر رکھ کر چلائی جا رہی ہے۔ یہ سکالرشپ علامہ کے نام منسوب کیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ علامہ اقبال نے جس افغانستان کی تعریف کی تھی وہ اور افغانستان تھا۔ علامہ نے تو صاف کہا ہے۔ دینِ ملا فی سبیل اللہ فساد۔ یہ بھی کہا ہے کہ: اے کُشتہ سلطانی و مُلّائی و پیری! اور یہ بھی کہا ہے کہ 
دلِ ملّا گرفتارِ غمی نیست ؍ نگاہی ہست‘ در چشمش نمی نیست
کہ مُلّا کا دل کسی غم میں گرفتار نہیں کیونکہ اس کے پاس آنکھ تو ہے‘ اس میں نمی نہیں۔
علامہ اقبال آج کے افغانستان میں پاؤں رکھتے تو فوراً سے پیشتر انہیں گرفتار کر لیا جاتا اس لیے کہ ان کی ظاہری شکل وصورت آج کے افغانستان میں قابلِ قبول ہی نہ ہوتی!
ہم ہائر ایجوکیشن کمیشن کے عالی دماغ اور عالی مرتبت دیدہ وروں سے پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں کہ کیا ہمارے اپنے ملک کے تمام مستحق طلبہ وطالبات کو وہ سکالر شپ دے چکے ہیں؟
تو کارِ زمین را نکو ساختی؍ کہ با آسمان نیز پرداختی
کیا زمین کے کام مکمل ہو چکے تھے کہ جناب آسمانوں پر کرم فرمائی کرنے چلے ہیں؟ ہمارے اپنے ملک کے لاکھوں ذہین‘ لائق اور ذکی طلبہ وطالبات صرف اس لیے اعلیٰ تعلیم سے محروم ہیں کہ ان کے پاس وسائل نہیں ہیں۔ وہ غریب ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے عبقری اربابِ بست وکشاد کی خدمت میں عرض ہے کہ پاکستان میں قبائلی علاقے بھی ہیں‘ جنوبی پنجاب کے پسے ہوئے عوام بھی ہیں اور بلوچستان بھی ہے۔ علامہ اقبال کی مشہور نظم ''بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو‘‘ بھی ہے۔ یہ شہرہ آفاق شعر اسی نظم میں ہے:افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر؍ ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا۔
ہمارے کروڑوں بچے سکول سے باہر خاک چھان رہے ہیں۔ لاکھوں طلبہ وطالبات یونیورسٹیوں میں جانے کی تمنا رکھتے ہیں اور قابلیت بھی‘ مگر اتنی مالی استطاعت نہیں کہ یونیورسٹی میں داخلہ لے سکیں۔ آدھی تعلیم حاصل کر کے انتہائی ٹیلنٹڈ لڑکے پرائمری سکولوں میں پڑھا رہے ہیں یا کلرکی کر رہے ہیں۔ پاکستانیوں کے ٹیکس کے پیسے پر انہی پاکستانی طلبہ وطالبات کا حق ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن باجوڑ‘ وزیرستان‘ خیبر‘ مہمند‘ دیر‘ چترال‘ گلگت‘ بلتستان سے تعلق رکھنے والے بچوں اور بچیوں کو سکالرشپ کیوں نہیں دیتا؟ کیا ان کا حق فائق نہیں؟
اور پھر‘ ہائر ایجوکیشن کمیشن پڑوسی ملک کے جن نوجوانوں کو پاکستانی خزانے سے نواز رہا ہے اور پاکستان کے اندر بٹھا رہا ہے‘ کیا کمیشن کو معلوم ہے کہ ان میں سے کتنے جاسوس ہیں؟ کتنے بھارت کے لیے کام کریں گے؟ کتنے خوارج کے ایجنٹ ہیں؟ کیا ایچ ای سی نہیں جانتا کہ ہم نصف صدی سے جنہیں پال رہے ہیں وہ پلٹ کر ہمیں ہی کاٹ رہے ہیں! ہمِیں پر غرا رہے ہیں! ہمیں پر حملہ آور ہیں! کیا کرکٹ کے میدانوں میں ہم پر انہوں نے حملے نہیں کیے؟ کیا ان کی زمین سے دہشت گرد ہم پر مسلسل حملے نہیں کر رہے؟ کیا ان کی سر زمین سے آنے والے خوارج ہماری عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم نہیں کر رہے؟ ہمارے جن جوانوں اور افسروں کو پڑوسی ملک سے آنے والے خارجی شہید کر رہے ہیں‘ ان شہدا کے خاندان ٹیکس بھی تو دے رہے ہیں۔ کیا ان ٹیکسو ں سے اکٹھا کیا ہوا روپیہ انہی دہشت گردوں کے مربّیوں پر خرچ کرنا حب الوطنی ہے؟؟ ایچ ای سی کو اس سوال کا جواب دینا ہو گا! لاکھوں کروڑوں روپے اس ملک کے طلبہ پر کیوں صرف کیے جا رہے ہیں جہاں سے رات دن در اندازی ہو رہی ہے؟ یہ حب الوطنی ہے یا کچھ ''اور‘‘ ہے؟؟ کیا ایچ ای سی کی پیدائش کے وقت یہ طے کر دیا گیا تھا کہ دشمنی کرنے والوں پر قومی خزانہ لٹایا جائے گا؟
اور کیا ایچ ای سی ہمیں بتائے گا کہ یہ جو پڑوسی ملک سے سینکڑوں طلبہ منگوائے جا رہے ہیں‘ ان میں طالبات کتنی ہیں؟ غالباً ایک بھی نہیں! اگر ایچ ای سی کے دل میں پڑوس کے لیے اتنا ہی درد ہے تو کیا اس نے متعلقہ حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ طالبات کو ضرور شامل کیا جائے؟ کیا ایچ ای سی طالبان حکومت کی خواتین دشمنی میں شریک ہو رہا ہے؟ اور 

misogyny 

کا حامی ہے؟
ایچ ای سی والے بیچارے اتنے غریب ہیں کہ جن دنوں بھارت نے پاکستان پر جنگ مسلط کر رکھی تھی ‘ ان دنوں یہ اخبار خرید سکے نہ ہی ان کے پاس ٹی وی تھا۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ جس پڑوسی ملک کے نوجوانوں پر یہ قومی خزانہ لٹا رہے ہیں اس ملک نے نہ صرف یہ کہ پاکستان کی حمایت نہیں کی بلکہ وہاں سے یہ اعلان بھی کیا گیا کہ یہ تو پنجابیوں اور ہندوؤں کی جنگ ہے اور یہ کہ پشتون اس جنگ سے دور رہیں!! ان کی حکومت کا ایک سرکردہ وزیر اُنہی دنوں بھارت کے خفیہ دورے پر بھی تھا! اتنا بڑا احسان پڑوسی ملک نے پاکستان پر کیا تو پھر ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اس احسان کا بدلہ تو دینا تھا!! واہ! ہائر ایجوکیشن کمیشن! واہ!

Thursday, July 03, 2025

شیخ غلام درہم کا جنازہ اور تدفین


اس کا معمول تھا کہ ہر ہفتے‘ نمازِ جمعہ ادا کر نے کے بعد‘ قبرستان جاتا۔ اپنے والد کی قبر کے پاس بیٹھ کر تلاوت اور دعاکرتا۔ پھر باقی اعزہ واقارب کی قبروں پر فاتحہ پڑھتا۔ کچھ قبروں پر سبز ٹہنیاں لگاتا۔ جو مزدور قبرستان میں صفائی کر رہے ہوتے‘ ان کی مالی امداد کرتا۔ قبرستان میں اسے ایک عجیب سا‘ پُراسرار سا‘ سکون حاصل ہوتا۔ دل تو اس کا چاہتا تھا کہ ہر روز اس خاموش بستی میں آئے‘ اس کے تنگ راستوں اور پگڈنڈیوں پر چلے‘ مزدوروں سے بات چیت کرے اور قبروں پر کھڑے ہو کر فاتحہ خوانی کرے مگر زندگی کی مکروہات ہفتے میں صرف ایک بار ہی اس کام کی اجازت دیتیں۔
جس جمعے کی بات میں کر رہا ہوں‘ اُس دن گرمی زوروں پر تھی۔ دھوپ تیز تھی۔درجہ حرارت چالیس سے کافی اوپر تھا۔ گلیاں سنسان تھیں۔ بیوی نے مشورہ دیا کہ قبرستان مغرب کے بعد چلا جائے مگر وہ ان لوگوں میں سے تھا جو اپنے معمولات میں رد وبدل برداشت نہیں کرتے۔ نماز کے بعد وہ حسبِ معمول سیدھا قبرستان پہنچا‘ تلاوت کی‘ فاتحہ خوانیاں کیں‘ مزدوروں کو پیسے دیے‘ پھر قبروں کے درمیان بنے ہوئے راستوں پر چلنے لگا۔ ایک کنارے پر چند نئی قبریں دکھائی دیں۔ نئی قبروں کے درمیان ایک پختہ راستہ نیچے کی طرف جا رہا تھا۔ اس نے جھانک کر دیکھا تو سیڑھیاں نیچے جا رہی تھیں۔ مہم جوئی کا مادہ اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اس نے سیڑھیاں اتر کر نیچے کے طرف جانا شروع کر دیا۔ ابھی وہ آدھی سیڑھیاں ہی اترا تھا کہ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آنے لگے۔ نیچے پہنچا تو یہ ایک اچھا خاصا بڑا ہال نما کمرہ تھا اور خوب روشن تھا۔ چاروں طرف ایئر کنڈیشنر نصب تھے جو مسلسل سرد ہوا پھینک کر کمرے کی فضا کو یخ بستہ کر رہے تھے۔ کمرے کے عین درمیان میں ایک جہازی سائز کی لینڈ کروزر کھڑی تھی۔اس کے اندر بھی ایئر کنڈیشنر چل رہے تھے۔ اس میں ایک پلنگ پڑا تھا۔ پلنگ کے اوپر کوئی لیٹا ہوا تھا جو شاید سو رہا تھا۔ اس کے اوپر چادر تنی تھی۔ ساتھ والی نشست پر ایک باریش صاحب بیٹھے اونگھ رہے تھے۔ لینڈ کروزر میں سردی اس قدر تھی کہ باریش شخص نے کمبل اوڑھا ہوا تھا۔ عجیب پُراسرار‘ ڈرانے والا ماحول تھا۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہے۔ قبرستان! اس کے اندر اتنا بڑا تہہ خانہ! تہہ خانے میں بے پناہ ٹھنڈک! اس میں بڑی سی لینڈ کروزر! لینڈ کروزر میں‘ چادر اوڑھ کر سویا ہوا شخص! اس کے پاس سخت سردی میں‘ کمبل اوڑھے بیٹھا ایک باریش آدمی! کافی دیر تک وہ مختلف خیالات میں ڈوبا‘ وہیں کھڑا رہا۔ بالآخر اس نے فیصلہ کیا کہ اُس شخص سے‘ جو باریش ہے اور کمبل اوڑھے ہے‘ پوچھے کہ یہ سارا سلسلہ کیا ہے؟ اس نے لینڈ کروزر کی کھڑکی کے شیشے پر دستک دی۔ پہلی دستک کا ردعمل کچھ بھی نہ تھا۔ دوسری بار اس نے شیشے پر نسبتاً زور سے ہاتھ مارا۔ کمبل والا باریش شخص ہڑبڑا کر جاگا اور نیم وا آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے باہر آنے کے لیے کہا۔ کمبل پوش کچھ دیر سوچتا رہا‘ پھر گاڑی سے نکل آیا اور استفہامیہ نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔ اس نے پہلے تو معذرت کی کہ اسے معاملات میں مخل ہونا پڑا۔ پھر پوچھا کہ یہ سب کیا ہے؟ کمبل پوش نے کہا ''کیا پوچھنا چاہتے ہو؟؟ ''یہ سب‘‘ سے تمہاری کیا مراد ہے؟‘‘۔ اس نے جواب دیا کہ قبرستان میں یہ تہہ خانہ اور یہ سارا سلسلہ آخر کیا ہے؟ یہ سب کچھ بہت پُراسرار ہے اور یہ کہ وہ اس کی تفصیل جاننے کا متمنی ہے۔ خاص طور پر یہ کہ لینڈ کروزر میں سویا ہوا شخص کون ہے اور آپ کیوں اس کے پاس بیٹھے ہیں؟
کمبل پوش اسے تہہ خانے کے ایک کونے میں لے گیا جہاں دو کرسیاں رکھی تھیں۔ ایک الماری سے شربت کی بوتل نکال کر اسے پیش کی۔ پھر پوچھا ''آپ اخبار نہیں پڑھتے؟‘‘ اس نے جواب دیا کہ پڑھتا ہے بلکہ اس کے ہاں تو پانچ چھ اخبارات آتے ہیں! اس پر کمبل پوش نے حیران ہو کر کہا کہ کمال ہے! پھر بھی آپ شیخ غلام درہم کی وفات سے بے خبر لگتے ہیں۔ اس پر اسے یاد آیا کہ شہر کا امیر ترین اور معزز ترین شخص‘ شیخ غلام درہم پچھلے ہفتے انتقال کر گیا تھا۔ اس کا سیاست میں بھی عمل دخل تھا۔ اقتدار میں بھی بالواسطہ ہمیشہ شریک رہتا تھا۔ اکثر اس کی تصویریں اخبارات میں چھپتی تھیں اور الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر ظاہر ہوتی تھیں جن میں وہ غریب لوگوں کی مدد کر رہا ہوتا تھا۔ اس نے کمبل پوش‘ باریش شخص سے پوچھا کہ ان کی وفات کی خبر تو پڑھ لی تھی مگر اس تہہ خانے سے ان کی وفات کا کیا تعلق ہے؟
اس پر کمبل پوش نے چہرے پر غم واندوہ کے سائے لہراتے ہوئے جواب دیا کہ یہ ٹھنڈا تہہ خانہ دراصل ان کی قبر ہے۔ پھر کمبل پوش نے اسے یاد دلایا کہ غلام درہم کے جنازے کے لیے راتوں رات میدان نما جنازہ گاہ کو بڑے ہال میں تبدیل کیا گیا تھا اور اس میں درجنوں ایئر کنڈیشنر نصب کیے گئے تھے کیونکہ نمازِ جنازہ پڑھنے والے تمام حضرات کھرب پتی تھے اور لینڈ کروزروں میں آئے تھے۔ گرمی ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ وہ اگر چاہتے تو لینڈ کروزروں میں بیٹھے بیٹھے بھی نماز جنازہ ادا کر سکتے تھے۔ تدفین کا وقت آیا تو قبر کی گہرائی‘ تنہائی اور گرمی کا سوچ کر شیخ غلام درہم کے کھرب پتی پسماندگان نے یہ تہہ خانہ بنوایا۔ لینڈکروزر میں شیخ مرحوم ہی کفن میں لپٹے لیٹے ہیں۔ بہت زیادہ سرد ٹمپریچر اس لیے رکھا گیا ہے کہ ان کی میت خراب نہ ہو۔ تہہ خانے کے ساتھ والے بڑے کمرے میں کئی عظیم الجثہ جنریٹر لگے ہوئے ہیں جو تہہ خانے کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں۔ اس نے یہ تفصیل سنی اور کمبل پوش کا شکریہ ادا کیا۔ پھر کہا کہ ایک آخری سوال رہ گیا ہے۔ آپ کیوں لینڈ کروز کی سردی میں بیٹھے ٹھٹھر رہے ہیں؟ آپ کا لینڈ کروز کے اندر کیا کام ہے؟ 
اس پر باریش کمبل پوش نے جواب دیا کہ صرف وہی نہیں‘ کئی درجن باریش اشخاص اس کام پر مامور ہیں جو باری باری آٹھ آٹھ گھنٹوں کے لیے لینڈ کروزر میں شیخ غلام درہم کے پاس موجود رہتے ہیں۔ ''مگر کیوں؟‘‘ اس نے حیران ہو کر پوچھا۔ کمبل پوش نے بتایا کہ چونکہ شیخ غلام درہم اپنی بے پناہ کاروباری‘ سیاسی اور سماجی ذمہ داریوں میں مصروف رہنے کی وجہ سے دین کی مبادیات سے آگاہی حاصل نہیں کر سکے تھے‘ اس لیے پسماندگان نے سوچا کہ منکر نکیر آئیں تو کوئی ایسا شخص موجود ہونا چاہیے جو دین کی مبادیات سے واقف ہو اور سوالوں کا جواب دینے میں شیخ مرحوم کی مدد کر سکے! یہ سن کر وہ حیران ہوا۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے؟ کیا منکر نکیر زندہ انسانوں کو دکھائی دیتے ہیں؟ اس حیرت میں اس نے کمبل پوش کو بھی شامل کیا۔ مگر کمبل پوش نے اس کا جواب بہت ہی منطقی اور عقلی طریقے سے دیا۔ اس کے جواب کا لب لباب یہ تھا کہ آج تک کسی قبر میں میت کے پاس کوئی زندہ انسان موجود نہیں ہوا۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ منکر نکیر زندہ انسانوں کو نظر نہیں آتے۔ دونوں امکانات‘ نظر آنے اور نظر نہ آنے کے‘ موجود ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ دکھائی نہ دیں مگر ان کی آواز سنائی دے۔ پھر یہ بھی ہے کہ اس طرح کی قبر دنیا میں پہلی بار بنی ہے۔ آنا تو منکر نکیر نے قبر ہی میں ہے۔ کمبل پوش نے یہ بھی بتایا کہ اسے اور اس کے ساتھیوں کو یہاں موجود رہنے کا بھاری معاوضہ ملتا ہے۔ منکر نکیر نظر آئیں یا نہ آئیں‘ ان کی آواز سنائی دے یا نہ سنائی دے‘ اسے اس سے کوئی غرض نہیں!!

Tuesday, July 01, 2025

راجواڑے‘ امریکہ اور بھارت

کتے کتیا کی شادی تھی۔ بہت بڑی تقریب ہوئی۔ بہت سے راجے‘ مہاراجے‘ نواب مدعو کیے گئے۔ خصوصی ٹرین چلائی گئی۔ انگریز افسر بھی بلائے گئے۔ لاکھوں کروڑوں روپے خرچ ہوئے۔

یہ کوئی افسانہ نہیں۔ اصل میں ایسا ہی ہوا تھا۔ ہندوستان میں پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کا اقتدار تھا‘ 1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد ملکہ برطانیہ کی حکمرانی براہِ راست در آئی۔ دونوں ادوار میں کچھ ریاستیں اور راجواڑے زندہ رکھے گئے۔ بڑی چھوٹی ریاستیں کل ملا کر پونے چھ سو کے لگ بھگ تھیں۔ حیدرآباد‘ پٹیالہ‘ کپور تھلہ‘ بہاولپور‘ خیرپور‘ گوالیار‘ میسور‘ ملیر کوٹلہ‘ سوات‘ الوَر‘ بیکانیر‘ جے پور اور کئی سو دوسری!! یہ ''آزادی‘‘ برائے نام تھی۔ ہر ریاست میں ایک انگریز افسر تعینات تھا۔ اسے ریزیڈنٹ کہتے تھے اور اس کی قیامگاہ کو ریزیڈنسی!! ریزیڈنسی عام طور پر ایک عالی شان عمارت ہوتی تھی اس لیے کہ یہ انگریزی اقتدار کی علامت تھی۔ اہم فیصلے یہیں ہوتے تھے۔ اصل اور حقیقی حکمران یہی ریزیڈنٹ تھے۔ جانشینی کا فیصلہ بھی ریزیڈنٹ ہی کرتا تھا۔ ریزیڈنٹ مقامی راجہ یا نواب کی کڑی نگرانی کرتا تھا کہ کوئی کام ایسا نہ ہو جو انگریز سرکار کے مفادات کے خلاف ہو۔ ایک لحاظ سے یوں سمجھیے کہ حکومت کے کام ریزیڈنٹ کرتا تھا اور راجہ یا نواب صرف عیاشی! بڑے بڑے محلات‘ متعدد بیگمات‘ ہاتھی گھوڑے اور دیگر عیش وعشرت کے اسباب کام میں لائے جاتے۔ کھانے پینے پر زور تھا۔ شیر مال‘ شامی کباب اور کئی دیگر کھانے لکھنؤ کے حکمرانوں کے لیے اسی عہد میں ایجاد ہوئے۔ باورچیوں کو دور دراز سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لایا جاتا۔ ایک ریاست میں راجہ تھا کہ نواب‘ اس نے کتیا کتے کی شادی شان وشوکت سے کی۔ ڈیفنس کی پروا نہ تھی اس لیے کہ یہ کام انگریز نے سنبھال رکھا تھا۔
آج کے مشرقِ وسطیٰ کا یہی حال ہے۔ جس طرح ہندوستانی ریاستوں اور راجواڑوں کا مائی باپ انگریز تھا‘ بعینہٖ مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کا مائی باپ امریکہ ہے۔ جس طرح ہندوستانی ریاستوں کا ڈیفنس انگریز کے ذمہ تھا‘ اسی طرح مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کا ڈیفنس امریکہ کے ذمہ ہے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ جب برطانوی ہند کی ریاستوں اور مشرق وسطیٰ کی ریاستوں کو ایک دوسرے کے مماثل قرار دیا ہے تو پھر ریزیڈنسیاں کہاں ہیں اور ریزیڈنٹ کون ہیں؟ یہ کوئی پیچیدہ معمہ نہیں۔ سب کچھ واضح ہے۔ یہ جو ہر ریاست میں امریکی بیس موجود ہے‘ یہی تو ریزیڈنسی ہے۔ بیس کا سالارِ اعلیٰ ریزیڈنٹ ہی تو ہے۔ امریکی سفیرکو بھی آپ ریزیڈنٹ کے مقام پر فائز کر سکتے ہیں۔ آپ اسے وائسرائے بھی کہہ سکتے ہیں۔ بیس کمانڈر اور سفیر اِن ریاستوں کی کڑی نگرانی کرتے ہیں اور اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ کسی پالیسی سے امریکی مفادات کو زد نہ پہنچے۔ جس طرح راجہ یا نواب کا سب سے بڑا کام انگریز ریزیڈنٹ کو خوش رکھنا ہوتا تھا اور وہ ریزیڈنٹ کو قیمتی تحفے دیتا تھا اسی طرح مشرق وسطیٰ کی ریاستیں بھی ہر حال میں امریکہ کو خوش رکھتی ہیں۔ اگر تمام امریکی سربراہوں کو ان ریاستوں کی طرف سے ملے ہوئے ہیروں‘ جواہرات اور زیورات کا وزن کیا جائے تو یقینا سیروں میں نہیں منوں تک جا پہنچے گا۔ اب تو جہاز بھی تحفے میں دیے جانے لگے ہیں۔ نو خیز لڑکیوں کے بال استقبال میں لہرائے گئے ہیں۔ کیا شان ہے ان ریاستوں میں امریکہ کی!! یوں لگتا ہے امریکی صدر مالک ومختار ہے۔ آقا ہے۔
ایک حکمران کے لیے مشکل ترین کام اپنے ملک کا دفاع ہوتا ہے۔ جب ان ریاستوں نے اپنا دفاع امریکہ کو سونپ دیا تو گویا ان کے حکمران مشکل ترین فرض سے بری الذمہ ہو گئے۔ فراغت پا کر یہ اپنے اپنے شوق کی تکمیل میں مصروف ہو گئے۔ بلند ترین عمارتوں کی تعمیر کا شوق! جزیرے خریدنے کا شوق! محلات کا شوق! سونے چاندی کا شوق! سونے سے بنی ہوئی گاڑیوں کا شوق! لگژری بجروں
 (Yatchs) 
کا شوق! ایسے طلسمی جہازوں کا شوق جن میں خوابگاہیں ہوں‘ ڈرائنگ روم ہوں اور اٹیچڈ باتھ روم ہوں! جہازوں پر سوار ہونے کے لیے سونے سے بنی ہوئی سیڑھیاں ہوں! سیر وتفریح کے لیے جائیں تو ہزار ہزار اعزہ واقربا اور خدام ساتھ ہوں۔ تفریح کے لیے میلوں لمبے ساحل ریزرو کرائیں۔
جدید دنیا کی اکثر وبیشتر ایجادات کا سہرا امریکہ کے سر ہے۔ امریکہ کی طاقت اس کی یونیورسٹیوں میں ہے۔ مغربی تہذیب کے سب سے بڑے مخالف علامہ اقبال تھے۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی۔ اور یہ بھی کہ 
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
مگر اس کے باوجود وہ مغرب کے علم و حکمت کے قائل تھے۔
قوتِ افرنگ از علم و فن است
از ہمین آتش چراغش روشن است
کہ مغرب کی طاقت اس کے علم و فن کی وجہ سے ہے۔ یہی وہ آگ ہے جس سے مغرب کا چراغ روشن ہے۔
یہ علم و فن ہی ہے اور دنیا کی ٹاپ کلاس یونیورسٹیاں ہی ہیں جن کی وجہ سے امریکہ کرۂ ارض پر حکومت کر رہا ہے۔ اسکے پاس مہلک ترین ہتھیار ہیں جو اس نے اپنی قوتِ بازو سے بنائے ہیں! ہمارے مشرق وسطیٰ کے بھائیوں کے پاس جتنا روکڑا ہے شاید ہی دنیا میں کسی کے پاس ہو۔ مگر اس امارت کے باوجود انکی توجہ علم و فن کی طرف نہیں گئی۔ دنیا کی بلند ترین عمارت بنانے والے‘ دنیا کی بہترین یونیورسٹی بھی آسانی سے بنا سکتے تھے۔ انڈسٹری لگانے میں بھی دوسرے ملکوں سے آگے بڑھ سکتے تھے۔ چلیے ایٹم بم بنانے میں امریکہ حائل ہے مگر ٹینک‘ ڈرون اور دیگر ہتھیار تو بنا سکتے تھے۔ ہوائی جہاز‘ گاڑیاں اور ٹرک بنانے کے کارخانے تو لگا سکتے تھے۔ ریسرچ کے مراکز تو قائم کر سکتے تھے۔ آئی ٹی کے میدان میں چاہتے تو انڈیا سے مقابلہ کر سکتے ۔ مگر انہوں نے یہی مناسب سمجھا کہ دفاع دوسروں کے سپرد کر دیں۔ اور خود ایک ایسی زندگی گزاریں جس میں آرام ہی آرام ہو اور عشرت اور لگژری ہو۔
ایران نے امریکی پابندیوں کے باوجود جس طرح اپنی دفاعی ضروریات پر توجہ دی وہ قابلِ تحسین ہے۔ جس طرح ایران نے اسرائیل کا مقابلہ کیا اسکی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ پاکستانی حکومت اور عوام نے ایران کی بھرپور حمایت کی۔ ہمارے چوٹی کے علما نے ایران کی حمایت کی۔ مفتی تقی عثمانی‘ مفتی منیب الرحمن اور مولانا فضل الرحمن نے کھل کر ساتھ دیا۔ مولانا فضل الرحمن سے ایک پریس کانفرنس کے دوران کسی نے پوچھا کہ انہوں نے ایران کی حمایت کیوں کی تو انہوں نے جواب دیا کہ ایران کی نہیں تو کیا اسرائیل کی حمایت کرتے؟ ہمارے مسلکی اختلافات ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ دشمن کے مقابلے کا وقت آئے تو یہ اختلافات ثانوی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ اولین معاملہ برادر مسلم ملک کی حمایت اور مدد کا ہوتا ہے۔ امید ہے بھارت کے حوالے سے ایران اپنی پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں کرے گا۔ بھارت ایران کے سامنے پوری طرح سے بے نقاب ہو چکا ہے۔ ایران کو اب ان مسلم ملکوں کے حوالے سے بھی اپنی پالیسیاں بدل لینی چاہئیں جو اس کے مغرب میں واقع ہیں۔ خاص طور پر انقلاب کو ایکسپورٹ کرنے کی حکمت عملی کو ترک کر دینا چاہیے۔ اس ایکسپورٹ پالیسی سے خوفزدہ ہو کر‘ اس کے رد عمل ہی میں ان ممالک کاجھکاؤ اسرائیل کی طرف ہوا۔ بہترین پالیسی بقائے باہمی کی پالیسی ہے۔ بھارت اور اسرائیل کا مشترکہ جاسوسی کا نیٹ ورک جو ایران میں قائم تھا‘ مشرق وسطیٰ کے عرب ملکوں میں سرایت کر چکا ہے۔ امید ہے یہ ممالک بھی بھارت کی اصلیت کو جلد ہی جان جائیں گے۔ مہاجن کسی کا دوست ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے۔

Thursday, June 26, 2025

زیر طبع خود نوشت سے ایک ورق … (3

)

پلٹ کر دیکھتا ہوں تو ڈھاکہ یونیورسٹی میں گزارا ہوا عرصہ زندگی کے دلکش ترین ٹکڑوں میں ایک نمایاں ٹکڑا لگتا ہے۔
بے فکری تھی اور آسودگی! ڈھاکہ یونیورسٹی کا ماحول مجموعی طور پر میری اُفتادِ طبع کے عین مطابق تھا۔ ذہین اور طباع لوگ! جو بات کو فوراً سمجھ جاتے تھے۔ ادب اور سیاست‘ بین الاقوامی تاریخ‘ بین الاقوامی تعلقات‘ بر صغیر کی تاریخ‘ غرض اردو اور فارسی شاعری کو چھوڑ کر ان سارے موضوعات پر بات کرنے اور بات سمجھنے والے وہاں موجود تھے۔ میں گورنمنٹ کالج راولپنڈی سے گیا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں پنجاب یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج لاہور کے طلبہ بھی آن ملے تھے۔ علم و دانش کا جو ماحول ڈھاکہ یونیورسٹی میں تھا وہ مغربی پاکستان کے اکثر و بیشتر تعلیمی اداروں میں عنقا تھا۔ جب مغربی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کوٹ پتلون اور ٹائی میں ملبوس ہو کر کلاسوں میں تشریف لاتے تھے‘ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ کی اکثریت کرتا پاجامہ اور چپل پہن کر یونیورسٹی آتی تھی۔ یہ لوگ روکھا سوکھا کھاتے تھے۔ والدین سے اتنی ہی رقم منگواتے تھے جو قوتِ لایموت کیلئے ناگزیر تھی۔ بہت سے تو اخبارات میں مضامین لکھ کر اپنا خرچ پورا کرتے تھے۔ پوری پوری رات لائبریری میں بسر کر دیتے تھے۔ دو چیزیں ڈھاکہ یونیورسٹی میں بالکل نئی دیکھیں۔ لائبریری کا 24 گھنٹے کھلا رہنا اور امتحانی پرچوں کا وقت تین گھنٹوں کے بجائے چار گھنٹے ہونا!
مشرقی پاکستان کے حوالے سے جو حقیقت سب سے زیادہ درد ناک ہے وہ مغربی پاکستانیوں کی کج فہمی ہے۔ غالباً وہ حالتِ انکار 

(State of Denial)

 جس میں پاکستان گلے گلے تک دھنس گیا‘ سقوطِ ڈھاکہ ہی سے شروع ہوئی۔ جس ملک کے دانشوروں کی اکثریت مشرقی پاکستان کھو دینے کے نصف صدی بعد بھی سینہ تان کر سارا الزام بنگالیوں کے سر تھوپ رہی ہو اور یہ سوچے بغیر کہ پاکستان قتل و غارت اور بد امنی کا مر کز بن گیا ہے‘ بنگلہ دیش کی ''ناکامیاں‘‘ گنوانے پر مصر ہو‘ وہ ملک اس زمانے میں کس طرح مثبت سوچ رکھ سکتا تھا جب مشرقی پاکستان اس کا حصہ تھا۔
مشرقی اور مغربی پاکستان کی آبادیوں کی سماجی کمپوزیشن کا مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک غیرحقیقت پسندانہ اتحاد تھا۔ مشرقی پاکستان میں فیوڈلزم کا کوئی وجود نہ تھا۔ خواندگی کا تناسب زیادہ تھا۔ وہاں کے عوامی نمائندے تمام کے تمام اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ اس کے مقابلے میں مغربی پاکستان ایک فیوڈل اور قدیم طرز کا جاگیردارانہ معاشرہ تھا۔ بلوچستان کے سرداری نظام کی‘ جو آج تک جوں کا توں قائم ہے‘ شاید ہی مہذب دنیا میں کوئی مثال پائی جاتی ہو۔ اکثر منتخب نمائندے نیم خواندہ تھے۔ تکبر اور رعونت طرۂ امتیاز تھا۔ اس رعونت کی انتہا یہ تھی کہ جب سینیٹری کا غیرملکی سامان ایک بار ہاتھ لگا اور اس پر چھینا جھپٹی شروع ہوئی تو کابینہ کے بنگالی ارکان نے بھی اپنا حصہ مانگا۔ اس پر انہیں جو جواب دیا گیا یہ تھا کہ تم لوگ رفع حاجت کے لیے کھیتوں میں جاتے ہو‘ تمہیں اس سامان کی کیا ضرورت ہے! مغربی پاکستانی سیاستدان تھے یا بیورو کریٹ یا عسکری حلقے‘ بنگالی ہم وطنوں کے ساتھ سب کا رویہ کم و بیش یہی تھا۔ ایک صاحب نے ملک کے اس وقت کے معروف ترین اخبار میں ایک واقعہ لکھا تھا کہ مولوی فرید الدین احمد صاحب ایک بار لُنگی میں ملبوس کسی میس میں چلے گئے تو انہیں باقاعدہ گالیاں دے کر وہاں سے نکال دیا گیا۔
اس میں کیا شک ہے کہ مشرقی پاکستان کا کمایا ہوا زرِمبادلہ مغربی پاکستان پر خرچ ہوا۔ نیم سرکاری اخبار پاکستان ٹائمز نے اپنے ایک اداریے میں یہ حقیقت تسلیم کی تھی! (اس اداریے کا تراشہ ایک مدت میرے پاس محفوظ رہا) عساکر میں انہیں نہ صرف یہ کہ اپنی آبادی کے تناسب سے حصہ نہ دیا گیا بلکہ بالکل ہی برائے نام دیا گیا۔ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ برصغیر کے تین علاقوں نے انگریزوں کا مقابلہ کیا تھا۔ بنگال‘ یوپی اور سندھ! چنانچہ ان تینوں علاقوں کو فوج کے لیے ''اَن فٹ‘‘ قرار دیا گیا۔ جن علاقوں سے فرمانبرداری اور اطاعت ملی ان پر عساکر کے دروازے کھول دیے گئے بلکہ کچھ کو تو ''مارشل ایریا‘‘ قرار دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے گورنر‘ اکثر و بیشتر مغربی پاکستان سے مقرر ہوتے رہے۔ مغربی پاکستان پر کسی مشرقی پاکستانی کو گورنر نہ مقرر کیا گیا۔ ایوب خان نے ایک مشرقی پاکستانی عبدالمنعم خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر کیا مگر وہ گورنر سے زیادہ صاحب کا غلام تھا۔ جب مشرقی پاکستانی ریڈیو سے ٹیگور کی شاعری نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تو لوگوں کی طرف سے ردِعمل آیا اور پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا۔ عبد المنعم خان نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے بنگالی زبان کے شعبہ کے صدر ڈاکٹر عبدالحئی سے کہا کہ آخر تم لوگ ٹیگور کے گیت خود کیوں نہیں لکھتے؟ ایوب خان کا طویل دورِ آمریت اس تابوت میں آخری کیل تھا۔ کسی مغربی پاکستانی کے پاس بنگالیوں کے اس سوال کا جواب نہیں تھا کہ اگر جرنیلوں ہی نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے تو بنگالیوں کی باری کس طرح اور کب آئے گی؟ مجیب الرحمان کو غدار کہنے والے حضرات یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایوبی دور کے صدارتی انتخابات میں فاطمہ جناح کا پولنگ ایجنٹ تھا۔ اور مادرِ ملت یہ الیکشن مشرقی پاکستان میں جیت گئی تھیں اور مغربی پاکستان میں (سوائے کراچی کے) ہار گئی تھیں۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اہلِ پاکستان ہزار سال بھی اپنے مخصوص عالمِ انکار میں رہیں تو تاریخ نہیں بدلی جا سکتی۔ اسمبلی کے اجلاس کی تاریخ مقرر کرکے اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔ کسی بھی سیاسی یا اخلاقی قانون کی رو سے عوامی لیگ کو مرکز میں حکومت بنانے کا حق حاصل تھا جس سے اسے محروم کیا گیا۔ ردِعمل فطری تھا۔ کیا مغربی پاکستانی یہ توقع کر رہے تھے کہ مشرقی پاکستانیوں کو ان کے جائز حق سے محروم کیا گیا تو وہ جواب میں پھولوں کی پتیاں نچھاور کریں گے؟؟ بہترین حل وہی چھ نکات تھے جو عوامی لیگ نے پیش کیے تھے۔ یہ ایک کنفیڈریشن ہوتی اور اس کا ایک حصہ چاہتا تو پُرامن طریقے سے الگ ہو جاتا۔
مشرقی پاکستان کی خونریز اور عبرتناک علیحدگی ایک بہت بڑا المیہ تھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ پاکستان اس سے سبق حاصل کرتا۔ جو عوامل اس المیے پر منتج ہوئے ان سے چھٹکارا حاصل کیا جاتا تاکہ مغربی پاکستان کو اس المناک تجربے کی روشنی میں فائدہ پہنچے لیکن ذہنی جمود اور فکری پستی کا یہ عالم ہے کہ اب بھی سولہ دسمبر آتا ہے تو طوطے کی طرح رٹے رٹائے الفاظ ابکائی کرکے اخبارات کے صفحوں پر انڈیل دیے جاتے ہیں ''مجیب الرحمان غدار تھا‘‘۔ ''بنگالی ہندوؤں کے اثر میں تھے‘‘۔ ''مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ دار بھارت ہے‘‘۔ ''دونوں بازوؤں کے درمیان اقتصادی عدم توازن اصل میں دشمن کا پرو پیگنڈا تھا‘‘ وغیرہ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں 1971ء کے المیے کا آج تک غیرجذباتی تجزیہ نہیں ہوا۔ جب بھی اس سانحہ کا ذکر ہوا‘ ہر کسی نے اپنے پسندیدہ رنگ کی عینک لگا کر ہی ذکر کیا۔ اسے تاریخ کی ستم ظریفی کہیے یا قدرت کی کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان کی حالت بتدریج ابتر ہوتی گئی۔ جن سیلابوں کی وجہ سے بنگالی بوجھ سمجھے جاتے تھے وہ سیلاب 1971ء کے بعد پاکستان میں بھی آنا شروع ہو گئے یہاں تک کہ یہ سالانہ معمول بن گیا۔ ضیا الحق کے طویل دورِ آمریت نے مذہبی طبقات کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا اور انہیں معاشرے پر حاوی کر دیا۔ ملک کی سرحدوں کو پامال کیا گیا۔ نسلی‘ لسانی اور مسلکی گروہوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی بلکہ سرپرستی کی گئی۔ ملک کو ہتھیاروں سے بھر دیا گیا۔ لاکھوں غیرملکیوں نے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوا لیے۔ مذہب سیاست کے لیے خوب خوب استعمال ہونے لگا۔ (ختم)

Tuesday, June 24, 2025

زیر طبع خود نوشت سے ایک ورق …(2)

1996

ء کے اوائل میں میری تعیناتی بطور کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس ڈیفنس پرچیز 

(Defence Purchase) 

ہو گئی۔ یہ تعیناتی بہت بڑا چیلنج تھا۔ تینوں مسلح افواج کی تمام ضروریات کے لیے جو کچھ بھی خریدا جاتا تھا اس کا پے ماسٹر کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس ڈیفنس پرچیز تھا۔ پاکستان میں اس جتنی یا اس سے زیادہ ادائیگیاں کسی اور ادارے یا محکمے میں نہیں ہوتیں۔ پٹرول‘ آئل‘ 

Lubricants‘ 

اسلحہ‘ سپیئر پارٹس‘ ادویات‘ چارپائیاں‘ یونیفارم‘ ہیلمٹ‘ جوتے‘ چینی‘ گھی‘ آٹا‘ گوشت کے لیے جانور‘ بلند پہاڑوں پر مقیم عساکر کے لیے ڈبوں میں بند خوراک اور دیگر ضروریات‘ ہر شے بھاری مقدار 

(bulk) 

میں خریدی جاتی ہے۔ ایک ایک ادائیگی کروڑوں روپوں میں ہوتی ہے۔ یہ خریداریاں ملک کے اندر سے بھی ہوتی ہیں اور بیرونِ ملک سے بھی۔ مال سپلائی کرنے والوں کے معاہدے مسلح افواج کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ان معاہدوں کی جانچ پڑتال اور چھان بین بھی سی ایم اے ڈیفنس پرچیز ہی کرتا ہے۔ جب تک کنٹرولر معاہدے کی تصدیق نہ کرے‘ معاہدہ قانونی دستاویز کی شکل نہیں اختیار کر سکتا۔
جتنی بھاری ادائیگیاں تھیں‘ دفتر اتنا ہی بدنام تھا۔ اور یہی میرے لیے چیلنج تھا۔ جس دن چارج لیا اس دن 28 سپلائر آئے ہوئے تھے۔ باہر عظیم الجثہ جہازی سائز کی گاڑیاں اور قوی ہیکل لینڈ کروزر کھڑے تھے۔ کچھ سپلائر بیرونِ ملک سے آئے ہوئے تھے۔ انہیں آنے کی ضرورت کیوں پیش آتی تھی؟ تا کہ رائج الوقت ''مفاہمت‘‘ کی رُو سے آکر پہلے ''بات چیت‘‘ کریں اور پھر اپنے چیک وصول کریں۔ میرا اولین فریضہ ایسا سسٹم متعارف کرنا تھا کہ کسی سپلائر کو آنے کی ضرورت نہ پڑے‘ اسے گھر بیٹھے ادائیگی موصول ہو جائے اور یہ بھی کہ سپلائر کو آنے سے منع بھی نہ کیا جائے۔ انہیں از خود معلوم ہو جائے کہ اب اس دفتر کے پھیرے لگانے کی ضرورت نہیں اور ''بات چیت‘‘ کے بغیر ہی ان کا جائز کام ہو رہا ہے۔
سب سے پہلا کام یہ کیا کہ دفتر کے کمروں اور برآمدوں کی دیواروں پر وہ آیات‘ احادیث اور اقوال لکھوا کر لگوا دیے جو اکل حرام کی ممانعت کرتے ہیں۔ کچھ ہولناک اور لرزہ براندام کر دینے والے اقوال خود بھی ''تخلیق‘‘ کیے۔ بچے مال حرام کھا کر کیسے نکلتے ہیں۔ رشوت خور کی عمر کا آخری حصہ کیسے گزرتا ہے۔ بیویاں کیسے بے راہ رو ہو جاتی ہیں۔ امراض کیسے کیسے لاحق ہوتے ہیں۔ مرتے وقت جان کیسے نکلتی ہے۔ آخرت میں کیا انجام ہو گا؟ بتایا گیا کہ کچھ ''کمزور دل‘‘ افسروں اور اہلکاروں نے توبہ کر لی۔ کچھ کو موصول شدہ نذرانے واپس کرنے کی فکر بھی ہوئی۔ جو ''مستقل مزاج‘‘ اور ''بہادر‘‘ تھے وہ میرے تبادلے کے لیے دعائیں کرنے لگ گئے۔ دوسرا کام یہ کیا کہ دفتر میں کام کرنے والے افسران اور آڈیٹروں کا رابطہ سپلائرز کے ساتھ‘ کم از کم دفتر میں ختم کر دیا۔ اس مقصد کے لیے ایک اچھی شہرت رکھنے والا سخت گیر افسر‘ بطور آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی تعینات کیا۔ مجھے یاد ہے کہ ان کا نام مولوی صغیر تھا۔ سخت اور دیانت دار۔ (کچھ ہفتے پیشتر میں نے ان تمام‘ نان سی ایس ایس‘ افسروں اور اہلکاروں کی اپنے گھر میں دعوت کی جو سروس کے دوران میرے ماتحت رہے تھے۔ تب معلوم ہوا کہ مولوی صغیر وفات پا چکے۔ اللہم اغفرہ) سپلائرز کے لیے الگ ریسیپشن بنوایا جہاں سے آگے جانے کی انہیں اجازت نہ تھی۔ مولوی صغیر اور ان کے سٹاف کی ڈیوٹی تھی کہ دفتر کے اندر سے ان کے کام کا پتا کریں اور انہیں بتائیں۔ کچھ بلوں کو ارجنٹ (فوری) کا درجہ دے دیا جاتا تھا۔ کچھ کے اوپر ''آؤٹ ٹو ڈے‘‘ لکھا جاتا تھا کہ ایک دن ہی میں پاس ہو جائیں۔ میں نے یہ تمام ترجیحات ختم کر دیں۔ تمام بل اپنی باری پر پاس ہوں گے۔ جو پہلے آئے ہیں وہ پہلے اور جو بعد میں آئے ہیں وہ بعد میں۔ یہ حکم بھی جاری کیا کہ بل ایک ہفتے کے اندر اندر پاس کیے جائیں گے یا ایک ہفتے کے اندر اعتراض لگا کر واپس کر دیے جائیں گے۔ اعتراض بھی بدنیتی پر مشتمل نہیں ہو گا اور اعتراض برائے اعتراض نہیں ہو گا۔ کچھ اہلکار بلوں کے کچھ صفحات غائب کر دیتے تھے اور یوں بلوں کو نامکمل قرار دے کر واپس کر دیتے تھے۔ اس برائی کی اصلاح کے لیے موصول ہونے والے تمام بلوں پر صفحہ نمبر درج کیا جائے گا اور کل صفحات کی تعداد بل کے پہلے صفحے پر لکھ دی جائے گی۔ یہ کام آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی کی نگرانی میں ہونے لگا۔ چیک عام رجسٹرڈ پوسٹ کے بجائے ارجنٹ میل سروس سے بھجوانے شروع کیے۔ ہر روز ایک سپیشل رپورٹ مجھے پیش کی جاتی تھی جس سے واضح ہوتا تھا کہ بل موصول کب ہوئے اور پاس ہونے یا واپس ہونے میں کتنے دن صرف ہوئے۔ جو پرانے خلیفے دفتر میں برسوں سے بیٹھے ہوئے تھے ''اپنی ذات میں ادارہ‘‘ بن چکے تھے اور سپلائرز سے تعلقات بنا چکے تھے ان کے تبادلے کروا کر نکال باہر کیا۔ یہ کام سب سے زیادہ مشکل تھا۔ بے پناہ دباؤ ڈالا گیا۔ وزیروں اور منتخب نمائندوں کی سفارشیں آئیں۔ محکمے کے سربراہ کو پہلے ہی اعتماد میں لے لیا تھا؛ چنانچہ انہوں نے مکمل تعاون کیا۔ ان کا نام سردار اسلم خان مگسی تھا۔ پوری ریسرچ کر کے بہتر افرادی قوت کو مامور کیا گیا۔ ان تمام اقداما ت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ماہ کے بعد سپلائرز نے دفتر کے چکر لگانے چھوڑ دیے۔ صنعتکاروں‘ کمپنیوں‘ تاجروں اور سپلائرز کو پانچ سے سات دن کے اندر اندر چیک گھر بیٹھے ملنے لگے یا اطلاع ملنے لگی کہ بل میں کیا کیا سقم ہیں۔ ایک سپلائر نے جن کا عسکری ہیلمٹ بنانے کا کارخانہ تھا‘ اقبال ان کا نام تھا۔ ایک کتاب کے مصنف بھی تھے۔ وزیر دفاع کو خط لکھا کہ وہ گزشتہ 28 برس سے اپنا مال سپلائی کر رہے تھے‘ ان 28 برسوں میں پہلی بار سی ایم اے ڈیفنس پرچیز نے ادائیگیوں کے لیے ایک نظام وضع کیا ہے جو کامیابی سے چل رہا ہے۔ ایک صنعتکار جسے بھاری ادائیگی ایک پیسہ دیے بغیر‘ گھر بیٹھے ہوئی‘ میرے دفتر آیا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ پشاور سے تھا۔ میرے سٹاف افسر سے کہا کہ یہ آدمی کون ہے جو ملتا ہے نہ ''حساب کتاب‘‘ کرتا ہے۔ کہنے لگا: میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں نے اسے اپنے آفس میں بلا لیا اور کہا کہ تشریف لائیے اور دیکھ لیجیے‘ مجھ پر کون سا ٹکٹ لگا ہے! قہوے سے اس کی تواضع کی۔ جاتے ہوئے کہنے لگا: سر! کوئی خدمت ہو تو حکم کیجئے گا۔ میں نے کہا: خدمت کراتا تو آپ دیکھنے نہ آتے۔
انہی دنوں میرے بڑے بیٹے محمد اسرار الحق کا ایم بی بی ایس کا داخلہ بہاولپور میڈیکل کالج میں ہوا۔ میں نے اپنے جی پی فنڈ سے ساٹھ ہزار روپے قرض لینے کی درخواست دی کہ بہاولپور جا کر بیٹے کو مقیم کر آؤں۔ درخواست محکمے کے سربراہ کے پاس پہنچی تو انہوں نے مذاق میں کہا کہ تم بہت نالائق ہو۔ تمہیں سونے کی کان پر بٹھایا ہے اور تم جی پی فنڈ سے قرض لے رہے ہو۔ میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ سر! وہ تو کوئی مسئلہ نہیں! ابرو سے اشارہ کروں تو اس کے پانچ سال کے اخراجات چند گھنٹوں میں حاضر ہو جائیں مگر سوال یہ ہے کہ اس صورت میں کیا وہ ایم بی بی ایس کر پائے گا؟ اور بھی دلچسپ واقعات ہیں مگر تفصیل کی گنجائش نہیں۔ جس دن چارج لیا تھا 28 سپلائر آئے ہوئے تھے۔ کسی کو آنے سے منع نہیں کیا۔ دو سال بعد جب چارج چھوڑا تو چار سپلائر آئے ہوئے تھے وہ بھی اپنے بل جمع کرانے اور تھے بھی مقامی۔ تاہم یہ نظام پوری حکومتی مشینری کے سمندر میں ایک قطرے سے زیادہ نہ تھا۔ مگر جو میرے بس میں تھا کیا اور اس کے مثبت نتائج بھی برآمد ہوئے۔ (جاری)

Thursday, June 19, 2025

زیر طبع خود نوشت کا ایک ورق

سکول کا دروازہ لوہے کا تھا۔ اس کے دو حصے تھے۔ درمیان سے ایک طرف دھکیلا جاتا تو گزرنے کا راستہ بن جاتا۔ جتنا زیادہ دونوں طرف دھکیلا جاتا اتنا ہی کھلتا جاتا۔ مگر نہ جانے چھٹی کے وقت پورا دروازہ کیوں نہیں کھولتے تھے۔ چنانچہ بچے ایک دوسرے کے پیچھے آہستہ آہستہ چلتے‘ ہجوم بناتے‘ دروازے سے نکل کر باہر سڑک پر آتے۔ اُس دن بھی یہی ہوا۔ چھٹی کی گھنٹی بجی اور ہم پہلی جماعت کے بچے باہر جانے کے لیے دروازے کے ہجوم کا حصہ بن گئے۔ ہم سب آہستہ آہستہ سرک رہے تھے۔ میرے بالکل آگے ایک سکھ بچہ تھا جو مجھ سے بڑا تھا۔ اس کے بالوں کی عجیب سی مینڈھیاں بنی ہوئی تھیں اور بالوں کا ایک حصہ اس کی گردن پر اس طرح پڑا تھا کہ چُٹیا دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ ہجوم سرک رہا تھا۔ آہستہ آہستہ۔ چیونٹی کی رفتار سے۔ نہ جانے کیوں میں نے اس کے بال گردن سے پکڑے اور کھینچے۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ جیسے ہی ہم سڑک پر پہنچے اس نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ مجھے سڑک پر لٹا کر مارا اور خوب مارا۔ مار کھا کر میں اٹھا‘ اپنا بستہ اور تختی لی اور روتا روتا گھر پہنچا۔ اس دن گاؤں سے نانا جان آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے ساتھ لیا اور سکول پہنچے مگر وہاں تو اب کوئی بھی نہیں تھا۔ وہ زمانہ تھا 1954ء یا 1955ء کا‘ جب سب بچے اکیلے سکول جاتے تھے۔ چھوڑنے جانا پڑتا تھا نہ کوئی لینے جاتا تھا۔ پنڈی گھیب میں یہ ایک ہی سکھ خاندان تھا۔ بٹوارا ہوا تو ہندو اور سکھ بھارت چلے گئے۔ یہ سکھ خاندان مسلمان ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعد جب گرد بیٹھی تو یہ دوبارہ سکھ ہو گئے۔ بہر طور کسی نے تعرض نہ کیا۔ یہ سکھ بچہ دوسری یا تیسری کلاس میں تھا۔ یہ اکثر ہماری گلی سے گزرتا۔ میری اکلوتی بہن نے جو مجھ سے تین سال بڑی ہیں‘ جواب میں اسے‘ جب وہ ہماری گلی سے گزر رہا تھا‘ پیٹا۔ اس کے بعد وہ گلی کے بجائے ہمارے مکان کے پچھواڑے سے گزرتا۔ اس کا نام شاید بلبیر سنگھ تھا۔ حیرت ہے کہ اس کے بعد اس سے ملاقات نہ ہوئی۔ بعد میں سنتا رہا کہ راولپنڈی سٹی صدر روڈ پر اس کی دکان ہے۔ یہ دو تین بھائی تھے اور ایک جیسے تھے۔ 1957ء میں 1857ء کی ناکام جنگِ آزادی کی صد سالہ برسی ملک گیر پیمانے پر منائی گئی تھی۔ گورنمنٹ ہائی سکول پنڈی گھیب میں بھی ایک ثقافتی پروگرام ہوا۔ دھندلی دھندلی یاد اس کی اب بھی یاد داشت کے ایک صفحے پر مرقوم ہے۔ بلبیر سنگھ تھا یا اس کا بھائی‘ اس تقافتی شو میں لڑکی بنا اور رقص کیا۔ بال اس کے لمبے تھے اور رنگ سرخ سفید۔
پنڈی گھیب میں پرائمری سکول دو حصوں میں منقسم تھا۔ ایک شہر کے اندر تھا دوسرا باہر۔ جو اندر تھا وہ ''بمبے سٹور‘‘ کی بغل میں واقع تھا۔ بمبے سٹور مشہور دکان تھی۔ یہیں سے ہم ''ہاتھی مارکہ‘‘ روشنائی خریدتے تھے اور سلیٹیاں اور پنسلیں بھی۔ عرفِ عام میں بمبے سٹور کو بابا سٹور کہتے تھے۔ اس کے مالک کے بارے میں سب جانتے تھے کہ اولاد نہیں تھی۔ ایک بچہ اس نے پالا تھا جو اس وقت جوان تھا۔ رات کو دودھ دہی کی دکانیں دیر تک کھلی رہتی تھیں۔ بڑے بڑے کڑاہوں میں دودھ گرم کیا جاتا تھا۔ اوپر خالص بالائی کی دبیز تہہ ہوتی تھی۔ لوگ آکر دودھ پیتے تھے۔ سبز رنگ کے پیالوں میں! جو مٹی کے یا شاید
 Porcelain
کے ہوتے تھے۔ بمبے سٹور والے بابا کے بیٹے کو بھی کئی بار دکان پر رات کو دودھ پیتے دیکھا اس لیے اس بات کی جو خلقِ خدا کی زبان پر تھی‘ تصدیق ہوتی تھی کہ بابے نے اسے پیار سے پالا تھا۔ بعد میں ویسی ہی داستانیں اس کے بارے میں بھی سنیں جو لے پالک بچوں کی سنتے آئے ہیں۔ جھگڑے۔ ناشکر گزاری۔ پچھتاوے!
پہلی جماعت میں میاں محمد صاحب ہمارے استاد تھے۔ نحیف تھے اور بیمار رہتے تھے۔ الائچیاں اور اس قسم کی ادویات بچوں کو بھیج کر اپنے گھر سے منگواتے رہتے۔ ان کے صاحبزادے الطاف حسین میرے کلاس فیلو تھے۔ الطاف سے پہلی جماعت ہی میں کُٹی ہو گئی۔ کُٹی کو پنڈی گھیب کی مقامی زبان میں گِٹی کہتے تھے۔ اب یاد نہیں کہ اس بچگانہ قطع کلامی کی کیا وجہ تھی۔ بہر حال یہ قطع کلامی جیسا کہ اس علاقے میں عام ہے‘ دس سال جاری رہی۔ دسویں جماعت میں ہم نے دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ بولنا شروع کیا۔ کلاس میں ہمارا مقابلہ رہتا۔ کبھی میں اوّل آتا تو کبھی الطاف! دسویں کا فائنل امتحان تھا تو ابا جی کے رفیق کار اور دوست ملک فتح خان کمرۂ امتحان میں سرکاری طور پر سپرنٹنڈنٹ تھے۔ مجھے انہوں نے سمجھایا کہ سب لڑکے کتابیں ساتھ رکھ کر پرچے حل کر رہے ہیں۔ وہ بھی جن سے تمہارا مقابلہ ہے۔ تم بھی فزکس اور کیمسٹری کی کتابیں یا نوٹس ساتھ رکھ لو۔ میں نہ مانا۔ نتیجہ آیا تو الطاف اوّل آیا اور میں تیسرے نمبر پر۔ میٹرک پنڈی گھیب سے پاس کرکے میں والدین کے ساتھ راولپنڈی اسلام آباد آ گیا۔ الطاف کا سفر زیادہ طویل تھا۔ اسے وہ سہولتیں میسر نہ تھیں جو قدرت نے مجھے مہیا کی تھیں۔ اس کے والد صاحب پہلے ہی انتقال کر چکے تھے۔ پہلے مرحلے میں وہ سکول میں پڑھاتا رہا۔ بعد میں لیکچرر ہو گیا۔ پھر پرنسپل ہو کر ریٹائر ہوا۔ اس کی صحت مستحکم نہیں تھی۔ اسلام آباد ہسپتال میں داخل رہا جہاں میں اس کی عیادت کے لیے بھی گیا۔ اس کے انتقال کی خبر ملی تو میں آسٹریلیا میں تھا۔
میاں محمد صاحب کے بعد ماسٹر صادق صاحب ہماری پہلی کلاس کے استاد رہے۔ ان کا تبادلہ ہوا تو کلاس کے باقی بچوں کی طرح میں بھی رویا۔ چوتھی جماعت میں ہمیں پرائمری سکول کے دوسرے حصے میں بھیج دیا گیا جسے تھانے والا سکول کہتے تھے کیونکہ وہ تھانے کی عمارت سے ملحق تھا۔ یہاں ماسٹر سلطان صاحب میرے استاد رہے۔ وہ خوش نویس بھی تھے۔ سکول کی دیواروں پر اور دیواروں پر لٹکائے جانے والے چارٹ‘ وہی لکھا کرتے۔ وہ لوگ کس قدر سادہ تھے‘ اس کا اندازہ ایک واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ ماسٹر سلطان صاحب پہلی بار راولپنڈی آئے‘ شاید کسی مذہبی اجتماع میں شرکت کی خاطر! سڑکوں پر ٹریفک کی صورتحال دیکھ کر ان کی طبیعت خراب ہو گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پنڈی گھیب کے گوشۂ عافیت میں واپس چلے گئے۔
افغانستان سے پاوندوں کی آمد پنڈی گھیب کا سالانہ فیچر تھا۔ یہ سردیوں میں آتے اور شہر کے درمیان سے گزرتے۔ نہ جانے ان کی منزل کہاں ہوتی۔ سینکڑوں اونٹ‘ گھوڑے‘ خچر اور گدھے قافلوں کا حصہ ہوتے۔ جس گلی میں ہم رہ رہے تھے‘ اسی سے ان کا گزر ہوتا۔ سب لوگ گھنٹوں دروازوں پر کھڑے ہو کر ان قافلوں کو گزرتے دیکھتے۔ سرخ‘ سفید بچے اونٹوں پر رسیوں سے بندھے ہوتے۔ خواتین نے بڑے گھیر والے سرخ گھگھرے پہنے ہوتے۔ مرد ہاتھوں میں لاٹھیاں لیے اونٹوں‘ گھوڑوں‘ خچروں‘ گدھوں اور بھیڑ بکریوں کو ہانکتے جاتے۔ ان قافلوں کو دیکھنا ہمارے لیے بہت بڑا تماشا اور تفریح تھی‘ وہ بھی اپنے گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر! ہم بچے یہ گیت عام گاتے۔ ''پٹھانیے! پٹھان کتھے گیا؟ اَدھی روٹی کھا کے پواندی سُتّا پیا!‘‘ یعنی اے پٹھان خاتون! پٹھان کہاں ہے؟ وہ جواب دیتی کہ آدھی روٹی کھا کر پائنتی کی طرف لیٹ گیا ہے۔ اس گیت کی تہہ میں شاید وہ مشقت بھری زندگی تھی جو افغانوں کا ہمیشہ خاصہ رہی۔ پنڈی گھیب میں خواتین نے بچوں کو سلانا ہوتا تو کہتیں سو جاؤ ورنہ پٹھان آجائے گا! آج پاوندوں کے ان قافلوں کے بارے میں سوچتا ہوں اور تاریخ کے صفحات پر چھایا ہوا پاکستان اور افغانستان کا باہمی محبت اور نفرت کا رشتہ 
(Love-hate relationship) 
دیکھتا ہوں تو مجید امجد کا یہ شعر یاد آجاتا ہے :
جو تم ہو برق نشیمن تو میں نشیمنِ برق
اُلجھ پڑے ہیں ہمارے نصیب کیا کہنا(جاری)

Tuesday, June 17, 2025

ایران، دوسرے مسلمان ممالک اور مغرب


آپ لاکھ کہیں کہ ہم عرب ہیں‘ ہم ایرانی ہیں‘ ہم ترک ہیں‘ ہم نیشن سٹیٹ ہیں۔ مغرب نے آپ کو مسلمان ہی سمجھنا ہے۔ ترکی نے کیا نہیں کیا۔ لباس چھوڑا‘ رسم الخط کی قربانی دی‘ اسرائیل سے اس کے آج بھی سفارتی تعلقات ہیں‘ مگر اسے یورپی یونین کی رکنیت ہزار کوششوں کے باوجود نہیں ملی! اس لیے کہ مغرب کے نزدیک وہ یورپی ہے نہ ترک! وہ صرف اور صرف مسلمان ہے۔ آج اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ حملہ ایران پر ہوا ہے مجھے کیا‘ میں تو عرب ہوں! تو یہ سیاسی کم نظری 

(Myopia) 

ہے۔
اگرآپ برصغیر پاک و ہندکا نقشہ غور سے دیکھیں تو جنوبی حصے کے مغربی ساحل پر ایک ننھی منی ریاست نظر آئے گی جو پورے نقشے پر ایک نقطے سے زیادہ نہیں! رقبے کے اعتبار سے یہ سب سے چھوٹی بھارتی ریاست ہے۔ اس کے ایک طرف مہاراشٹر اور دوسری طرف کرناٹک ہے۔ یہ گوا ہے۔ گوا کی تاریخ دلچسپ ہے۔ کبھی اس پر دہلی کے سلاطین کا قبضہ تھا۔ پھر یہ جنوب کی دو طاقتوں کے درمیان فٹ بال کی طرف لڑھکتا رہا۔ کبھی وِجیانگر کی ہندو ریاست کا حصہ رہا اور کبھی بہمن مسلم حکومت کا۔ 1510ء میں پرتگال کے بحری بیڑے نے اسے بیجاپور کے سلطان عادل شاہ سے چھین لیا۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ پرتگال کا قبضہ گوا پر ساڑھے چار سو سال رہا۔ انگریزوں نے برما سے لے کر وزیرستان تک اور نیپال سے لے کر سری لنکا تک ایک ایک انچ پر قبضہ کر لیا مگر گوا کی پرتگالی ریاست کو نہ چھیڑا۔ یہاں تک کہ برصغیر تقسیم ہو گیا۔ 1961ء میں بھارت نے لشکر کشی کرکے اسے ضم کر لیا۔
ساڑھے چار سو سال تک گوا نصرانیوں کی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بھی رہا اور جہاں تک ہو سکا‘ جب بھی ہو سکا‘ علاقے کی سیاست میں بھی دخیل رہا۔ سترہویں صدی کا آغاز ہوا تو ایران کے شاہ عباس صفوی اور سلطنتِ عثمانیہ کی باہمی دشمنی عروج پر تھی۔ گوا کے بڑے پادری نے گوا کے پرتگالی حکمران کو حکم دیا کہ ایرانی بادشاہ کے پاس ایلچی بھیجے؛ چنانچہ ایلچی بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایران کے شاہ عباس نے یورپی طاقتوں سے سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف مدد مانگی تھی۔ ایلچیوں کو یہ پیغام دے کر ایران بھیجا گیا کہ ہاں! یورپ ترکوں سے جنگ کرے گا! ہسپانیہ کے بادشاہ نے بھی صفوی بادشاہ کو خط لکھا۔ اس خط میں ہسپانوی بادشاہ نے شاہ عباس کی تعریف کی تھی کہ اس نے ترکوں کا دماغ ''درست‘‘ کیا ہے۔ شاہ عباس اب کے غصے میں تھا۔ اس کی توقع کے مطابق ہسپانیہ نے ترکوں پر حملہ نہیں کیا تھا۔ ہابس برگ کے جرمن شہنشاہ نے شاہ عباس سے پکا وعدہ کیا تھا کہ وہ سلطنتِ عثمانیہ پر حملہ کرے گا۔ اس ''دوستی‘‘ کی وجہ سے شاہ عباس‘ جرمن شہنشاہ سے اس قدر محبت کرتا تھا کہ اس نے اپنی خوابگاہ کے دروازے پر اس کی تصویر آویزاں کی ہوئی تھی اور اندر جاتے وقت احتراماً اس کے سامنے سر جھکا لیتا تھا! جب پوپ نے شاہ عباس کے پاس اپنا سفیر بھیجا تو ساتھ ہی بائبل کا ایک دیدہ زیب نسخہ بھی بھیجا۔ اتفاق سے شاہ عباس نے جو صفحہ کھولا اس پر ایک تصویر تھی۔ اس تصویر میں سینٹ مائیکل نے جھکے ہوئے شیطان پر تلوار تانی ہوئی تھی۔ شاہ عباس نے پوچھا ''تلوار کس پر سونتی گئی ہے‘‘ پادری سفیر نے جواب دیا ''شیطان پر‘‘ اس پر شاہ عباس ہنسا اور کہنے لگا: میں سمجھا ''ترک پر‘‘۔ ساتھ ہی اس نے دربار میں موجود ترک سفیر کو تمسخر سے دیکھا۔ پرتگالی ایلچی لکھتا ہے کہ شاہ عباس عثمانیوں کے سفیر کا مذاق اڑانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا!
پوپ کے سفیر کے ہاتھ شاہ عباس نے جوابی مکتوب بھیجا۔ اس نے یورپی بادشاہوں کو ایک مکمل منصوبہ پیش کیا۔ اس کی تجویز یہ تھی کہ یورپ کے نصرانی بادشاہ مل کر سلطنتِ عثمانیہ پر حملہ کریں۔ شام کے ساحل پر اُتریں۔ پھر حلب پر حملہ آور ہوں۔ مشرق سے شاہ عباس اناطولیہ پر حملہ کرے گا۔ یوں ترک دونوں طرف سے پھنس جائیں گے۔ ایران نے پوپ سے یہ بھی کہا کہ وہ یورپی حکومتوں پر سلطنتِ عثمانیہ سے تعلقات ختم کرنے کیلئے زور ڈالے۔ یہ بھی کہ ہسپانیہ قبرص پر قبضہ کر لے اور پھر حلب پر لشکر کشی کرنے کیلئے اسے مرکز کے طور پر استعمال کرے۔ کتنی سیہ بختی تھی مسلمانوں کی کہ وہ ایک دوسرے کو ختم کرنے کیلئے کبھی پوپ سے مدد مانگتے تھے اور کبھی ہسپانیہ اور دیگر مسیحی حکومتوں سے۔ حقیقت یہ تھی کہ مسیحی طاقتیں ایران کی خیر خواہ نہیں تھیں۔ اور ترکوں سے تو وہ جنگ کر ہی رہی تھیں۔ عبرت انگیز واقعہ یہ ہے کہ شاہ عباس نے ایک سفیر بھیجا جو چھ سال تک یورپی دارالحکومتوں میں سرگرم کار رہا کہ ترکوں کے خلاف مدد حاصل کی جائے۔ اس کا نام زین العابدین بیگ تھا۔1609ء میں اس نے شاہ عباس کو صاف الفاظ میں لکھا کہ ''نصرانی بادشاہوں کے دوستی کے دعوے جھوٹے ہیں۔ وہ صرف یہ مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ ترک اور ایرانی آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کو نیست و نابود کر دیں اور یوں مسلمانوں کا مذہب ہی مٹ جائے‘‘۔ زین العابدین بیگ کے اس خط کو چار سو سولہ سال ہو گئے ہیں۔ چار صدیاں! آپ کا کیا خیال ہے ان چار سو سالوں میں مسلمان زین العابدین بیگ کی بات سمجھ سکے ہیں؟ نہیں! افسوس صد افسوس! نہیں! آج کوئی زین العابدین موجود نہیں جو مسلمانوں کو سمجھائے۔ کل صفوی یہ سمجھ رہے تھے کہ یورپ کے بادشاہ اس کے ساتھ ہیں اور سلطنتِ عثمانیہ کے دشمن ہیں۔ آج ہمارے مشرقِ وسطیٰ کے بھائی یہ سمجھ رہے ہیں کہ امریکہ‘ یورپ اور اسرائیل ایران کے دشمن ہیں اور اُن کے دوست ہیں۔ چار سو سالوں میں بھی ہم مسلمانوں میں عقل نہیں آئی۔ کل یورپ صفوی ایران کے ساتھ تھا اور عثمانی ترکوں کے خلاف تھا اس لیے کہ ترک طاقتور تھے اور مزید طاقتور ہو رہے تھے۔ آج مغرب اسی ایران کے خلاف ہے کیونکہ ایران ساری پابندیوں کے باوجود ایٹمی طاقت بننا چاہتا ہے۔ سبق کیا حاصل ہوتا ہے؟ صرف اور صرف یہ کہ مغرب ہر اُس مسلمان ملک کے خلاف ہے جو جنگی لحاظ سے طاقتور ہونا چاہتا ہے۔
ہم ایران کے ساتھ ہیں۔ پاکستان نے کھل کر ایران کی حمایت کی ہے۔ یہاں ہم ایران سے محبت بھرا شکوہ بھی کریں گے۔ انقلاب کو برآمد کرنے کا سلسلہ نہ شروع کیا جاتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ آج یمن میں مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں۔ عراق میں شیعہ اور سنی دست و گریباں ہیں۔ شام کمزور ہو چکا ہے۔ ہر سنی اور ہر شیعہ کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مغرب سنیوں کے ساتھ ہے نہ شیعوں کے ساتھ! وہ صرف اور صرف مسلمانوں کے درپے ہے کہ یا تو مسلم ممالک اس کے برخوردار بن جائیں یا انہیں پامال کر دیا جائے۔ لیبیا اور عراق مضبوط سے مضبوط تر ہو رہے تھے۔ ان کا تیا پانچہ کر دیا گیا۔ آج بھارت ایران کی حمایت نہیں کر رہا۔ پاکستان کر رہا ہے۔ ایران کو بھارت کی اصلیت سمجھ جانی چاہیے۔ بھارت کسی بھی مسلمان ملک کو اپنے مفاد کے لیے استعمال تو کر سکتا ہے مگر جب اس مسلمان ملک پر کوئی افتاد آن پڑے گی تو کبھی اس کی حمایت نہیں کرے گا۔ اب لازم ہے کہ ایران دوسرے مسلم ملکوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔ اپنی فارن پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ مسلم ممالک بھی یہ بات سمجھ لیں کہ آج اگر ایران کا ساتھ نہیں دیں گے تو اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماریں گے۔ آنکھیں کھولیں اور ذرا دور تک دیکھنے کی کو شش کریں۔ وقتی مفاد کو ترجیح دینا کوتاہ بینی ہے اور کوتاہ بینی کا حاصل نقصان ہے اور ندامت!!
( عثمانی ترکوں اور صفوی حکمرانوں کی باہمی کشمکش اور گوا کی سفارتوں کے احوال کے لیے ڈیوڈ بلو 

(David Blow)

 کی تصنیف ''شاہ عباس‘‘ سے استفادہ کیا گیا ہے)

Thursday, June 12, 2025

اگر پاکستان نہ بنتا


سید افتخار گیلانی معروف صحافی ہیں۔ اُن کا تعلق بھارت (مقبوضہ کشمیر) سے ہے۔ وہ گزشتہ تین دہائیوں سے جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کو کَور کر رہے ہیں۔ بڑے بڑے بھارتی اور غیرملکی اخبارات کے لیے کام کیا۔ تہلکہ ڈاٹ کام کے سیاسی بیورو کی سربراہی کی۔ کئی زبانوں میں شائع ہونے والے اخبار ''کشمیر ٹائمز‘‘ کے دہلی بیورو کے اینکر رہے۔ بھارتی پارلیمنٹ کی پریس ایڈوائزری کمیٹی کے ڈپٹی چیئرمین رہے۔ پریس ایسوسی ایشن آف انڈیا کے نائب صدر رہے۔ کئی بھارتی تھنک ٹینکس کے لیے تحقیقی کام کیا۔ انہیں بھارتی حکومت نے گرفتار کر کے جیل میں بھی رکھا۔ ان ایامِ اسیری کی سرگزشت انہوں نے
My days in Prison
کے عنوان سے رقم کی۔ اسے
 Penguin
نے شائع کیا ہے۔ کچھ عرصہ سے آپ ترکیہ میں مقیم ہیں اور میڈیا کے بین الاقوامی میدانوں میں اپنی ذہانت‘ علم اور تجربے کے جوہر دکھا رہے ہیں۔
میری خوش قسمتی کہ سید افتخار گیلانی میرے کالموں کے مندرجات کے حوالے سے رابطے میں رہتے ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کے بارے میں میری رہنمائی کرتے رہتے ہیں اور اپنی قیمتی آرا اور مشوروں سے نوازتے ہیں۔ حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران‘ اور جنگ کے بعد میں نے ''پاکستانیت‘‘ کے ضمن میں کئی کالم لکھے۔ میرے نزدیک یہ مفروضہ محض ایک واہمہ ہے کہ اگر پاکستان اور بنگلہ دیش نہ ہوتے تو متحدہ ہندوستان میں مسلمان ایک بڑی طاقت ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ پھر بھی اقلیت ہی رہتے۔ 22 مئی 2025ء کو ''الحمدللہ! ہم پاکستانی ہیں‘‘ کے عنوان سے میری تحریر شائع ہوئی۔ اس کی تائید میں جناب افتخار گیلانی نے جو کچھ کہا وہ انہی کی زبانی سنیے۔ ''آپ کے آج کے کالم کے حوالے سے مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا۔ جولائی 2001ء میں آگرہ کی سربراہی کانفرنس کو کَور کرنے کے بعد میں دہلی واپس آ چکا تھا۔ میں نے دیکھا کہ دو پاکستانی صحافی پریس کلب کے گیٹ پر پریشان کھڑے تھے۔ یہ کراچی سے تھے۔ ایک ٹائم میگزین کی نمائندگی کر رہا تھا اور دوسرا بی بی سی اردو سروس کی۔ کسی دوست نے انہیں سوزوکی کار دی تھی مگر ڈرائیور کو دہلی کے راستوں سے شناسائی نہ تھی۔ انہیں پی آئی اے کے دفتر جانا تھا۔ کسی کو کوئی آئیڈیا نہ تھا کہ یہ دفتر کہاں ہے۔ ابھی راستے بتانے والی گوگل کی خاتون ظہور پذیر نہ ہوئی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت بارش ہو رہی تھی۔ میں نے انہیں مدد کی پیشکش کی کہ کناٹ پلیس میں واقع پی آئی اے کے دفتر تک لے جاتا ہوں؛ چنانچہ میں ڈرائیور کے ساتھ والی نشست پر بیٹھ گیا۔ پچھلی نشست پر بیٹھے ہوئے یہ دونوں (پاکستانی صحافی) پاکستان اور قائداعظم کو خوب برا بھلا کہہ رہے تھے۔ ان کا مسئلہ پی آئی اے کے ساتھ تھا مگر غصہ پاکستان کے قیام اور قائداعظم پر نکال رہے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ان میں سے ایک قائداعظم کا نام بھی بگاڑ رہا تھا۔ ہم پی آئی اے کے دفتر پہنچ گئے تو میں اُن سے مخاطب ہوا کہ ٹھیک ہے ہندوستان کی تقسیم بہترین آپشن نہ تھا۔ اب دونوں ملکوں کے درمیان سفر کرنا مشکل ہے۔ اور میں تو کشمیری ہونے کی وجہ سے ان مشکلات کا پہلا شکار ہوں۔ تقسیم نہ ہوتی تو سب کچھ ٹھیک رہتا۔ مگر ایک چیز نہ ہوتی۔ دونوں پاکستانی صحافی متجسس ہو کر مجھے دیکھنے لگے۔ میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پاکستان نہ بنتا تو تم ٹائم میگزین اور بی بی سی کی نمائندگی نہ کر رہے ہوتے۔ تمہاری جگہ ایل کے ایڈوانی کی بیٹی پر تھیبا
 (Pratiba) 
ایڈوانی ان اداروں کی نمائندہ ہوتی اور تم اس کے ماتحت کام کر رہے ہوتے۔ (ایڈوانی کی بیٹی بھی صحافی ہے)۔ دونوں پاکستانی صحافی خاموش ہو گئے۔ اُن میں اتنا اخلاق نہ تھا کہ مجھے واپس پریس کلب چھڑوا دیتے۔ مجھے بارش میں شرابور واپس آنا پڑا‘‘۔
اس کے بعد افتخار گیلانی لکھتے ہیں کہ (مقبوضہ) کشمیر میں مسلمان آبادی کے اعتبار سے 68 فیصد ہیں۔ کُل ضلع مجسٹریٹ 20 ہیں‘ جن میں سے صرف چھ مسلمان ہیں۔ انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس سے تعلق رکھنے والے افسروں کی تعداد 58 ہے جن میں سے مسلمان افسر صرف 11 ہیں! ماتحت افسروں کی تعداد 523 ہے جن میں سے مسلمان صرف 220 ہیں۔ 66 پولیس افسروں میں سے مسلمان پولیس افسر صرف سات ہیں۔ فہرست بہت طویل ہے اور یہ اعداد و شمار پرانے نہیں‘ گزشتہ سال کے ہیں۔
آپ نے جناب افتخار گیلانی کے دیے ہوئے اعداد و شمار دیکھ لیے۔ مقبوضہ جموں کشمیر میں مسلمان اکثریت میں ہیں لیکن ملازمتوں میں‘ خاص طور پر سول سروسز میں ان کی تعداد برائے نام ہے۔ پاکستان نہ بنتا تو پنجاب‘ سندھ‘ کے پی‘ بنگال اور بلوچستان میں حالات مختلف نہ ہوتے۔ ایسا نہ ہوتا تو کلکتہ یونیورسٹی کی موجودگی میں ڈھاکہ یونیورسٹی نہ بنانا پڑتی جسے ہندو تمسخر سے مکہ یونیورسٹی کہتے تھے۔ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی 15 فیصد ہے۔ تقسیم سے لے کر اب تک بھارت میں امورِ خارجہ کے 35سیکرٹری ہو گزرے ہیں۔ ان میں صرف ایک مسلمان تھا۔ سیکرٹری خزانہ 20 ہو گزرے ہیں۔ موجودہ سیکرٹری‘ اجے سیٹھ اکیسواں سیکرٹری خزانہ ہے۔ کوئی ایک بھی مسلمان نہ تھا۔ مقبوضہ جموں کشمیر کے بعد مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی آسام میں ہے یعنی 34.22 فیصد۔ تقسیم سے لے کر اب تک گورنروں کی کل تعداد 34 ہوئی ہے۔ ان میں سے صرف تین گورنر مسلمان رہے ہیں۔ آسام کے وزرائے اعلیٰ کی فہرست دیکھ لیجیے۔ جس آسام میں مسلمانوں کی آبادی 34 فیصد سے زیادہ ہے وہاں 1950ء سے لے کر آج تک‘ یعنی 75 برسوں میں صرف ایک‘ جی ہاں صرف ایک چیف منسٹر مسلمان گزری ہے۔ انورہ تیمور‘ جو واحد مسلم اور واحد خاتون چیف منسٹر تھی۔ مغربی بنگال میں مسلم آبادی 27 فیصد ہے۔ تقسیم سے لے کر اب تک کُل 23 گورنر ہو گزرے ہیں جن میں سے تین مسلمان گورنر ہوئے ہیں (سید نور الحسن دو بار اور اخلاق الرحمان قدوائی ایک بار)۔ 27 فیصد مسلم آبادی والی اس ریاست میں 75 برسوں کے دوران ایک وزیراعلیٰ بھی مسلمان نہیں ہو گزرا!! کیرالہ کی ریاست 1956ء میں وجود میں آئی۔ اس میں مسلم آبادی 26 فیصد ہے۔ 70 برسوں میں صرف ایک مسلمان کو وزیراعلیٰ بننے کا موقع ملا۔

پاکستان کے محفوظ ماحول میں مزے سے بیٹھ کر یہ کہنا آسان ہے کہ پاکستان نہ بنتا تو غیرمنقسم ہندوستان میں مسلمان بہت بڑی طاقت ہوتے۔ اوپر جو اعداد و شمار دیے گئے ہیں ان سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کو اس صورت میں کچھ بھی نہ ملتا۔ جو مسلمان اس وقت بنگلہ دیش اور پاکستان میں رہ رہے ہیں ان کی حالت بھی وہی ہوتی جو آج بھارتی مسلمانوں کی ہے۔ قائداعظم کی یہ بات بہت گہری تھی کہ ہمارے اور ہندوؤں کے ہیرو الگ الگ ہیں۔ ہمارے ہیرو ان کے نزدیک وِلن ہیں اور ان کے وِلن ہماری نظر میں ہیرو! ان کے نزدیک شیوا جی ہیرو ہے اور افضل خان وِلن۔ ہم شیوا جی کو وِلن کہتے ہیں اور افضل خان کو ہیرو!! جنوری میں دہلی میں یوم جمہوریہ کے سلسلے میں پریڈ منعقد ہوتی ہے۔ ہر ریاست کا اپنا فلوٹ ہوتا ہے جو پریڈ کا حصہ ہوتا ہے۔ یہ کوئی دس گیارہ سال پہلے کی بات ہے۔ جنوبی ریاست کرناٹک نے اس پریڈ میں ٹیپو سلطان کے مجسمے کی نمائش کی تھی۔ پورے بھارت میں طوفان کھڑا ہو گیا۔ اس میں شک نہیں کہ سوشل میڈیا پر برپا ہونے والی لڑائی میں بہت سے بھارتیوں نے سلطان کو قومی ہیرو قرار دیا مگر مخالفت کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہ تھی۔ نہیں معلوم اس کے بعد کرناٹک نے یہ عمل جاری رکھا یا ترک کر دیا 

Tuesday, June 10, 2025

دو عیدیں اور غزہ

میلبورن ( آسٹریلیا) میں کتنے مسلمان ہوں گے؟ لاکھ‘ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ لاکھ۔ یہ مٹھی بھر مسلمان اس بات پر متفق نہ ہو سکے کہ عید کس دن کرنی ہے! ماشاء اللہ دو عیدیں ہوئیں۔ یورپ اور امریکہ میں بھی یہی حال رہا۔ اندازہ لگائیے‘ جو لوگ عید کے تہوار پر متفق نہیں ہو سکتے‘ وہ غزہ کو دشمن کے پنجے سے چھڑائیں گے!! چلیے‘ ہم پاکستان میں رہنے والے تو پسماندہ ہیں اور تارکینِ وطن کی نگاہوں میں قابلِ رحم! مگر یہ حضرات جن کی زندگیاں ان ترقی یافتہ ملکوں میں گزریں اور بہت سوں کی تو پیدائش ہی وہیں کی ہے‘ یہ لوگ ایک عید کیوں نہیں کر لیتے؟ یا تو اس بات پر اتفاق کر لیں کہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے ساتھ عید کریں یا کیلنڈر کے مطابق کر لیں۔ جن حضرات کو اپنی آنکھوں سے چاند دیکھنے پر اصرار ہے وہ رمضان المبارک میں چھت پر چڑھ کر کیوں نہیں دیکھتے کہ سحری کا وقت ختم ہو گیا ہے یا نہیں؟ حکم تو یہ ہے کہ کھاؤ اور پیو‘ جب تک کہ تمہارے لیے سفید دھاری سیاہ دھاری سے فجر کے وقت صاف ظاہر ہو جائے۔ مگر چاند کو آنکھ سے دیکھنے پر اصرار کرنے والے اس بات کا کبھی جواب نہیں دیتے کہ سحری کے وقت گھڑی دیکھ کر کھانا پینا کیوں بند کر تے ہیں؟ جس طرح ہمارے منتخب نمائندے صرف اُس وقت متحد ہوتے ہیں جب ان کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا بل پیش ہو‘ اسی طرح مسلمان بھی اُسی وقت متحد ہوتے ہیں جب کسی کی تکفیر یا تکذیب کرنی ہو! بقول اقبال:

یہ اتفاق مبارک ہو مومنوں کے لیے
کہ یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف
بھارت میں ایک متعصب پنڈت نے پھر بدزبانی کی ہے۔ بھارتی مسلمان مطالبہ کر رہے ہیں کہ اس گستاخ کو گرفتار کیا جائے۔ گرفتاری کا امکان‘ آر ایس ایس کی اس حکومت میں بہت خفیف ہے۔ بھارت کی مسلم دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے مشرقِ وسطیٰ کے بھائی‘ بھارت کی مسلم کُش پالیسیوں کے باوجود‘ بھارت کو صدقے قربان کہتے تھکتے نہیں! کبھی کبھی کوئی اکا دکا آواز اٹھتی ہے مگر سرکاری سطح پر بھارت کے ساتھ مسلسل معانقے ہوتے ہیں حالانکہ محض تنبیہ بھی بھارت کے لیے کافی ہو سکتی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں ہمارے جو بھائی برسر اقتدار ہیں وہ اس غلط فہمی میں ہیں کہ بھارتی مسلمانوں کا مسئلہ صرف پاکستان کا مسئلہ ہے۔ ہم مسلمان ''امت مسلمہ‘‘ کا ذکر کرتے تھکتے نہیں‘ یہ اور بات کہ اس کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں کبھی نہیں آیا۔ ویسے شرقِ اوسط کے امیر حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ پاکستان اور پاکستان کی مسلح افواج ہیں جنہوں نے ان کے سر پر عافیت کی چھتری تانی ہوئی ہے اور بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے سامنے دیوار کھڑی کی ہوئی ہے ورنہ ان کا حال بھوٹان اور نیپال سے کم نہ ہوتا۔ امتِ مسلمہ کی بات ہو رہی تھی۔غزہ کے مسلمان کب سے امتِ مسلمہ کی تلاش میں ہیں مگر وہ کہیں نظر نہیں آ رہی! امریکہ نے غزہ میں غیر مشروط جنگ بندی کے لیے پیش ہونے والی قرارداد کو‘ سلامتی کونسل میں‘ پانچویں بار ویٹو کر دیا ہے۔ اسرائیل کے وارے نیارے ہیں۔ جس امریکہ کا دستِ شفقت اسرائیل کے سر پر ہے‘ اُس امریکہ کو ہمارے عرب بھائی سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔امریکی صدر کے استقبال کے لیے جوان زلفوں کو پھولوں کی طرح بکھیرا گیا۔ تحفے میں پہلے تو سونے کی گھڑیاں اور زیورات کے انبار پیش کیے جاتے تھے اب ہوائی جہاز دیے جانے لگے ہیں۔ کیا عجب جہاز بھی زرِ خالص سے بنا ہو! اس لیے کہ ایک بار نیاز مندی شروع ہو جائے تو رکتی نہیں خواہ اس کی سرحد دست بستہ غلامی ہی سے مل رہی ہو! کیونکہ
خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی
پختہ ہو جاتے ہیں جب خوئے غلامی میں غلام
ویسے یہ بات طے ہے کہ زلفیں بے شک قدموں کے نیچے بچھا دیں اور ایک ہوائی جہاز نہیں سو ہوائی جہاز دے دیں پھر بھی وہ والہانہ پیار نصیب نہیں ہو سکتا جو بڑے صاحب کو اسرائیل سے ہے۔ پالیسیاں طے کرتے وقت اسرائیل ہی کو اعتماد میں لیا جائے گا اس لیے کہ 
شریکِ حکم غلاموں کو کر نہیں سکتے
خریدتے ہیں فقط ان کا جو ہرِ ادراک
کتنا بڑا المیہ ہے کہ غزہ کو مسلسل آگ اور خون میں نہلایا جا رہا ہے اور جو آگ اور خون کے اس کھیل میں سب سے بڑے کھلاڑی ہیں انہیں غزہ والوں کے ''اعزّہ واقربا‘‘ یعنی غزہ والوں کے سگے رشتہ دار‘ ہار پہنا رہے ہیں‘ تحائف سے لاد رہے ہیں اور ان کی بلائیں لے رہے ہیں! یہ درد ناک سلسلہ اس وقت شروع ہوا تھا جب ترکوں کی پیٹھ میں خنجر بھونکا گیا۔ اقبال پھر یاد آگئے:
جلتا ہے مگر شام و فلسطیں پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار
''ترکانِ جفا پیشہ‘‘ کے پنجے سے نکل کر
بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار
امتِ مسلمہ تو نظر ہی نہیں آرہی مگر و ہ جو ''عرب لیگ‘‘ ہے وہ کہاں ہے؟ کیا غزہ کے لوگ عرب نہیں؟ عرب لیگ کا تازہ ترین سربراہی اجلاس 17 مئی 2025ء کو بغداد میں ہوا۔ اس سے پہلے گزشتہ برس مئی ہی میں بحرین میں ہوا۔ چار مارچ 2025ء کو ایک ایمرجنسی سربراہی اجلاس قاہرہ میں ہوا۔ اس سے اہلِ غزہ کو کیا فرق پڑا؟ اور جو کچھ اہلِ غزہ پر بیت رہی ہے‘ اس سے عرب ممالک کے اربابِ اختیار کو کیا فرق پڑتا ہے۔ یہ خونِ خاک نشیناں تھا‘ رزقِ خاک ہوا! اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اہلِ غزہ کو ختم کرنے کے بعد مسلم دشمنی اور عرب دشمنی کا یہ سلسلہ رک جائے گا تو سخت غلط فہمی میں ہے۔ چنگیز خان جب کوئی شہر فتح کرتا تھا تو سب سے پہلے ان افراد کو ہلاک کرنے کا حکم دیتا تھا جنہوں نے اپنوں سے غداری کر کے چنگیز خان کی مدد کی تھی۔ کیسی زبردست پالیسی تھی! جو اپنوں کا ساتھ دینے کے بجائے اپنوں کے قاتلوں کے ساتھ مل جاتے ہیں انہیں چنگیز خان نے معاف کیا نہ تاریخ معاف کرتی ہے۔ وہ اپنی جلائی ہوئی آگ ہی میں بھسم ہو جاتے ہیں۔ چالاک دشمن انہیں استعمال کرتا ہے۔ استعمال کرنے کے بعد تہِ تیغ کر دیتا ہے۔
مشہور جرمن پادری مارٹن نیلامر شروع میں ہٹلر کا حامی تھا اور اس کی نازی پارٹی کا ہمدرد! 1933ء میں جب ہٹلر برسر اقتدار آیا اور اس نے پروٹسٹنٹ کلیسا کے معاملات میں مداخلت شروع کر دی تو نیلامر نے اس پر تنقید کی۔ اس کی پاداش میں نازی اقتدار کے آخری آٹھ سال اس نے زندانوں اور حراستی کیمپوں میں گزارے۔ اس کا ایک قول بہت مشہور ہوا جو یوں تھا ''پہلے وہ سوشلسٹوں کو پکڑنے آئے۔ میں خاموش رہا کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا۔ پھر وہ ٹریڈ یونینسٹوں کو پکڑنے آئے۔ میں تب بھی خاموش رہا کیونکہ میں ٹریڈ یونینسٹ نہیں تھا۔ پھر وہ یہودیوں کو پکڑنے آئے۔ میں خاموش رہا کیونکہ میں یہودی نہیں تھا۔ پھر وہ مجھے پکڑنے آئے۔ میری حمایت میں بولنے کے لیے کوئی باقی ہی نہیں بچا تھا!!‘‘ غزہ جہنم بنا ہوا ہے۔ بچے موت کے گھاٹ اُتر رہے ہیں۔ کھانا تو دور کی بات ہے‘ دوائیں اور پانی تک نہیں موجود۔ ایک گرداب ہے جو سفینے ڈبو رہا ہے۔ جو کنارے پر کھڑے ہیں‘ وہ مطمئن ہیں کہ محفوظ ہیں! مگر یہ ان کی خوش گمانی ہے۔ گھوڑے اور گھاس میں دوستی نہیں ہو سکتی! ہوا کی چراغ سے محبت کبھی نہیں ہوئی!!

Thursday, May 29, 2025

قومی ائر لائن ، آسٹریلیا اور پاکستان ہائی کمیشن


سری لنکا ایئر لائن کا یہ پہلا تجربہ تھا اور بے حد خوش گوار!! ہماری قومی ایئر لائن کی روایت کے بالکل بر عکس جہاز وقت پر روانہ ہوا! ساڑھی پوش میزبان خواتین نے بے حد خیال رکھا۔ اس سے بھی زیادہ تعجب کولمبو ایئر پورٹ پر ہوا۔ یہ ایئر پورٹ ہمارے اسلام آباد ایئر پورٹ سے کہیں زیادہ بڑا‘ زیادہ منظم اور زیادہ خوبصورت ہے۔ بڑے بڑے بازار ہیں جبکہ اسلام آباد ایئر پورٹ پر‘ جس کی تعمیر میں گیارہ سال صرف ہوئے‘ صرف ایک کیفے ٹائپ دکان ہے۔ سراندیپ‘ سری لنکا کا پرانا نام ہے۔ یہی نام ایئر پورٹ پر واقع لاؤنج کا تھا جس میں تمام سہولتیں وافر مقدار میں موجود تھیں‘ یہاں تک کہ وہ عظیم الجثہ صوفے بھی جن پر نیم دراز ہوا جا سکتا تھا۔ کولمبو سے میلبورن کا نو گھنٹوں کا سفر خاصا آرام دہ تھا مگر ذہنی اذیت ساتھ رہی اور ذہنی اذیت یہ تھی کہ کیا ہم سری لنکا سے بھی پیچھے ہیں؟ گویا:
انجم غریبِ شہر تھے‘ اب تک اسیر ہیں 
سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے
نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں لاکھوں پاکستانی رہتے ہیں۔ ان سب نے پاکستان آنا ہوتا ہے اور کچھ دن رہ کر واپس بھی جانا ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ لاکھوں وہ ہیں جو ان پاکستانیوں کو ملنے کے لیے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جاتے ہیں اور پھر واپس آتے ہیں! ان تمام پاکستانیوں کی سہولت کے لیے پاکستان کی قومی ایئر لائن نے ایک کام کمال کا کیا ہے۔ قومی ایئر لائن کا کوئی جہاز آسٹریلیا جاتا ہے نہ آسٹریلیا سے پاکستان آتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ لاکھوں پاکستانی دھکے کھا رہے ہیں۔ وہ بھی جو آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ میں آباد ہیں اور وہ بھی جو پاکستان سے انہیں ملنے جاتے ہیں۔ کبھی وہ تھائی ایئر لائن پر سوار ہوتے ہیں جو بنکاک میں انہیں بارہ گھنٹے بے یار و مددگار چھوڑ دیتی ہے اور اگلی فلائٹ بارہ گھنٹوں بعد ملتی ہے۔ کبھی وہ پندرہ گھنٹے کی اذیتناک پرواز گزار کر دبئی‘ ابو ظہبی یا قطر پہنچتے ہیں۔ وہاں ان سے و ہی سلوک ہوتا ہے جو مشر قِ وسطیٰ والے ہم پاکستانیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ بہت سے دوسرے ملکوں کے شہریوں کو یو اے ای یا قطر کے اندر جانے کا ویزا ایئر پورٹ پر مل جاتا ہے‘ پاکستانیوں کو دس دس پندرہ پندرہ گھنٹے ایئر پورٹ کے اندر ہی رہنا پڑتا ہے۔ بھارت کی آسٹریلیا کے لیے ہفتے میں چودہ پروازیں جانے کی ہیں اور چودہ ہی آنے کی۔ میلبورن سے ہر روز ایک پرواز دہلی جاتی ہے اور ہر روز ایک پرواز سڈ نی سے دہلی! چلئے بھارتیوں کی تعداد آسٹریلیا میں بہت زیادہ ہے۔ 2023ء کے اعداد و شمار کی رُو سے بھارتی نژاد آبادی آسٹریلیا میں ساڑھے آٹھ لاکھ ہے۔ مگر سری لنکا سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی آبادی تو پاکستانی تارکین وطن کی نسبت بہت زیادہ نہیں۔ 2023ء ہی کے اعداد و شمار کے مطابق سری لنکا سے آئے ہوئے افراد کی تعداد آسٹریلیا میں ایک لاکھ اٹھاون ہزار ہے۔ پاکستانیوں کی تعداد ایک لاکھ اکیس ہزار ہے۔ دوسری طرف حالت یہ ہے کہ سری لنکا سے ہر روز ایک ہوائی جہاز میلبورن آتا ہے۔ اس حساب سے پاکستان سے ہفتے میں کم از کم چار پروازیں تو آنی چاہئیں! تو گویا اس لحاظ سے ہم سری لنکا سے بھی پیچھے ہیں۔ کیا عجب کل کلاں افغانستان‘ نیپال اور بھوٹان بھی اس میدان میں ہم سے آگے نکل جائیں! 
یہاں ایک سوال ذہن میں یہ اُبھرتا ہے کہ آسٹریلیا میں پاکستانی سفارت خانے کا اس معاملے میں کیا کردار ہے؟ اوپر جو اعداد و شمار دیے گئے ہیں‘ خوش گمانی یہی ہے کہ سفیر حضرات کے علم میں بھی آئے ہوں گے! کیا سفارت خانے نے اس حوالے سے پاکستانیوں کے لیے زور لگایا ہے؟ نہیں معلوم آج کل کون صاحب سفیر ہیں۔ تاہم چند برس پہلے کا تجربہ اتنا برا تھا کہ آج تک یاد ہے۔ اُن دنوں ایک خاتون پاکستان کی ہائی کمشنر تھیں۔ اُن آسٹریلوی مردوں اور خواتین کی پاکستانی شہریت کا مسئلہ تھا جنہوں نے پاکستانیوں سے شادیاں کر رکھی تھیں۔ خاتون ہائی کمشنر بات تک کرنے کی روادار نہ تھیں۔ تب نفیس زکریا صاحب وزارتِ خارجہ کے ترجمان تھے۔ انہوں نے بات سنی اور پوری کوشش بھی کی۔ سیکرٹری خارجہ جتنے گزرے ہیں ان میں اس کالم نگار کے تجربے کی رُو سے صرف جلیل عباس جیلانی ای میل کا جواب دیتے تھے یا واپس ٹیلی فون کرتے تھے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر آسٹریلیا میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر وضاحت کر دیں کہ اس ضمن میں سفارت خانے نے اب تک کیا کوششیں کی ہیں اور آئندہ کا پلان کیا ہے؟ آخر پاکستان کی قومی ایئر لائن آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے پاکستانیوں سے کیوں ناراض ہے؟ 
ناراض کیا ہو گی! ناراض ہونے کی سکت ہی کہاں ہے! ہماری قومی ایئر لائن تو سانس لینے کے لیے خود آکسیجن سلنڈر کی محتاج ہے۔ یہ آکسیجن ہم پاکستانیوں کے خون پسینے کی کمائی سے ہر سال حکومت مہیا کر رہی ہے۔ جہاز چلیں یا نہ چلیں‘ قومی ایئر لائن میں کام کرنے والے ملازمین خوب عیش کر رہے ہیں! بڑی بڑی تنخواہیں‘ الاؤنسز‘ گاڑیاں‘ مراعات کے موٹے موٹے پیکیج‘ مفت کے سفر! یہ سفید ہاتھی چلتا ہے نہ جان چھوڑتا ہے۔ آئے دن خبریں سنتے ہیں اور پڑھتے ہیں کہ قومی ایئر لائن کے ماتھے پر ''فار سیل‘‘ کا بورڈ لگا ہے مگر بِک نہیں رہی! کیوں نہیں بِک رہی؟ اس لیے کہ حکومت کی نیت درست نہیں۔ حکومت بیچنا چاہتی ہی نہیں! یہ مفادات کا معاملہ ہے۔ (نگران حکومت کے وزیر نجکاری کے بیانات اور سوالات اس ضمن میں قابلِ غور ہیں!) قومی ایئر لائن میں کام کرنے والوں کی اکثریت سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہوئی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے چہیتے اس میں ٹھنسے ہوئے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کئی دہائیوں تک اس کی ملازمتیں پچھلے دروازے پر بانٹی جاتی رہیں! ملازموں کی اکثریت کے سر پر طاقتور شخصیات کا ہاتھ ہے۔ چنانچہ ایئر لائن نے فروخت نہیں ہونا۔ یہ اسی طر ح حکومتی امداد کے سہارے بیساکھیاں گھسیٹتی رہے گی۔ عوام اور آئی ایم ایف کی آنکھوں میں دھو ل جھونکنے کے لیے فروخت کے اشتہار لگتے رہیں گے۔ اس کی یونینیں دندناتی رہیں گی۔ مراعات کے مزے لیے جاتے رہیں گے۔ قومی خزانہ اس کے بوجھ تلے سسکتا‘ دہرا ہوتا رہے گا! پاکستانی مسافر دوسری ایئر لائنوں پر دھکے کھاتے رہیں گے۔ بنکاک‘ ابو ظہبی‘ دوحہ‘ دبئی‘ کولمبو اور استنبول کے ہوائی اڈوں پر رُلتے رہیں گے۔ 
ایک طرف یہ حالت کہ قومی ایئر لائن‘ قومی زیادہ اور ایئر لائن کم‘ دوسری طرف قومی ایئر لائن کو بیٹھنے کی جگہ ہی نہیں مل رہی!! پہلے شہری ہوا بازی کا شعبہ وزارتِ دفاع کا حصہ تھا۔ پھر اس کا الگ ڈویژن اور الگ وزارت بن گئی۔ ہوا بازی کو اپنا الگ وزیر مل گیا۔ ایک وزیر تو ایسا ملا کہ اس نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر دنیا بھر کو بتایا کہ اتنے پاکستانی پائلٹوں کی ڈگریاں جعلی ہیں۔ گویا گھوڑے نے بم کو لات مار دی۔ دنیا بھر میں اس کا ردِ عمل ہوا اور ملک کو بے پناہ نقصان پہنچا۔ تاہم اس وقت کی حکومت نے اس بہت بڑی حماقت پر جھرجھری تک لی نہ کسی کو سزا ہی دی گئی۔ اب شہری ہوا بازی (سول ایوی ایشن) کی الگ وزارت کا ایک بار پھر خاتمہ کر دیا گیا ہے اور شعبے کو دوبارہ وزارتِ دفاع کا حصہ بنا دیا گیا ہے! آفرین ہے پالیسیوں کے تسلسل پر اور مستقل مزاجی پر!! مشرق کی طرف پڑوس کے ملک میں شہری ہوا بازی کا نہ صرف مرکزی وزیر الگ ہے بلکہ وزیر مملکت بھی ہے! دنیا ترقی کر رہی ہے اور ہم ترقیٔ معکوس! آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں آباد پاکستانیوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ افغان ایئر لائن یا سکم ایئر لائن کے جہازوں کی امید رکھیں مگر اپنی قومی ایئر لائن کے جہازوں کی نہیں!!

Tuesday, May 27, 2025

ہجر ایک شہر کا

تیرہویں جماعت کا طالب علم تھا جب پہلی بار لاہور دیکھا۔

ایک مشاعرہ بورے والا میں تھا اور دوسرا لاہور میں! ہم دو شاعر طالب علموں کو ہماری درسگاہ‘ گورنمنٹ کالج اصغر مال راولپنڈی نے اس سفر پر روانہ کیا۔ پہلے بورے والا میں انعام جیتا۔ لاہور اسلامیہ کالج میں ''شمعِ تاثیر‘‘ کا مشاعرہ تھا۔ شنید یہ تھی کہ لاہور سے باہر والا انعام نہیں جیت سکتا۔ مگر تیسری پوزیشن ہم لے اُڑے۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے‘ پہلا انعام سرمد صہبائی کو ملا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے لیے انٹرویو بھی لاہور میں ہوا۔ پھر عرصۂ ملازمت میں تو لاہور آنا جانا معمول ہو گیا۔ کئی اداروں کی سربراہی ایسی تھی کہ کیمپ آفس لاہور میں تھا۔ کبھی کبھی تو ہر ماہ ایک ہفتہ لاہور کے دفتر میں بیٹھنا ہوتا۔
پھر بیٹی کی شادی لاہور میں ہو گئی۔ یوں لاہور سے جذباتی وابستگی کا دور شروع ہو گیا۔ وہ جو کسی نے کہا ہے کہ: یہ جو لاہور سے محبت ہے؍ یہ کسی اور سے محبت ہے۔ لاہور سے بیٹی اور اس کے میاں سمندر پار چلے گئے۔ وہاں آسمان سے پنگھوڑا اترا جس میں زینب لیٹی ہوئی انگوٹھا چوس رہی تھی۔ چار ماہ کی تھی کہ زینب اپنے بابا اور اماں کے ساتھ لاہور واپس آئی۔ یہاں سے اُس عشق کی کہانی شروع ہوتی ہے جو لاہور سے ہوا اور ایسا ہوا کہ لاہور‘ اتنا بڑا شہر ہونے کے باوجود‘ سمٹ کر دل میں بیٹھ گیا۔ زینب سترہ برس لاہور میں رہی۔ یہ سترہ برس لاہور آتے جاتے گزرے۔ زینب لاہور بن گئی اور لاہور زینب بن گیا۔ وہ بلاتی کہ نانا ابو آ جائیے۔ نانا ابو چل پڑتے۔ کئی کئی دن لاہور میں قیام رہتا۔ جہاں بھی جانا ہوتا‘ زینب ساتھ ہوتی۔ باغوں میں‘ پارکوں میں‘ پھر سکول جانا شروع کیا۔ صبح سکول جاتے ہوئے کہہ کر جاتی کہ چھٹی کے وقت نانو اور نانا ابو لینے آئیں۔ اور بڑی ہو گئی۔ اب ہم نے کتابوں کی دکانوں میں جانا شروع کر دیا۔ اس کے دونوں چھوٹے بھائی‘ ہاشم خان‘ قاسم خان بھی ساتھ ہوتے۔ لاہور کی سب سے بڑی بُک شاپ میں کیفے بھی تھا۔ یہ بچے کتابیں دیکھتے‘ اپنی پسند کی چنتے اور ساتھ ہی کیفے سے جوس اور چپس بھی کھاتے۔ پھر اس سب سے بڑی بُک شاپ کی ایک برانچ‘ ڈیفنس میں زینب کے گھر کے قریب کھل گئی۔ اس چار منزلہ عمارت میں اوپر کی منزل پر ریستوران تھا۔ نانا‘ نواسی اور نواسوں کی عیاشیوں کو چار چاند لگ گئے۔ گھنٹوں ہم سب کتابیں چھانتے‘ کتابیں پڑھتے اور آخر میں ریستوران میں کھاتے پیتے۔ سترہ برس آنکھ جھپکتے گزر گئے۔ زینب یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا سوچ رہی تھی کہ اس کے بابا اور اماں نے پھر بستر باندھا‘ گٹھڑی سر پر رکھی اور تینوں بچوں کی انگلیاں پکڑے‘ واپس اُس نئی دنیا میں چلے گئے جو کولمبس نے دریافت کی تھی۔ اب میں اسلام آباد میں بیٹھا ہوں۔ ایک طرف زینب یاد آ رہی ہے‘ دوسری طرف لاہور! لاہور جاؤں تو کیسے؟ جا کر کروں گا بھی کیا کہ بقول منیر نیازی ع وہ سنگدل تو یہاں سے کہیں چلا بھی گیا۔ زینب کا ہجر اور لاہور کا ہجر‘ دونوں ہجر گڈمڈ ہو جاتے ہیں۔ زینب جاتے جاتے اپنا ہجر بھی دے گئی اور لاہور کا بھی! سترہ برس کم نہیں ہوتے۔ دل میں تھا بھی کیا! ایک ڈیوڑھی اور ایک دالان! ڈیوڑھی میں زینب براجمان ہے۔ دالان پر لاہور نے قبضہ کر لیا۔
لاہور بھی کیا شہر ہے! شہروں میں ایک شہر ہے اور شہروں کا شہر ہے! کوئی اسے باغوں کا شہر کہتا ہے کوئی کالجوں کا! مگر یہ دلداریوں کا شہر ہے۔ اس کے درخت طلسمی ہیں۔ ان پر بیٹھنے والے پرندے کوہ قاف سے آتے ہیں۔ اس کی شاہراہیں دلفریب ہیں۔ اس کے بازاروں کے سامنے قاہرہ‘ دمشق اور حلب کے بازار ماند پڑ جاتے ہیں۔ لندن‘ نیویارک‘ واشنگٹن‘ پیرس‘ ٹورنٹو سب دیکھے‘ مگر لاہور کے مقابلے میں یوں لگے جیسے شہزادیوں کے سامنے خادمائیں! کیا گرفت ہے لاہور کی کہ جسے پکڑے‘ چھوڑتی نہیں! لاہور کی ہوائیں عطر بیز ہیں۔ اس کے جھونکوں میں شہد کا ذائقہ ہے۔ اس کے مکین نرم دل‘ خوش گفتار اور کرم فرما ہیں۔ ہمارے سارے شہروں کی پنجابی میٹھی ہے مگر جو لذت لاہور کی پنجابی میں ہے‘ اس کا سلسلہ ہی الگ ہے۔ لاہور کے لوگ بات کریں تو روشنیاں بکھیرتے ہیں۔ خاموش رہیں تو یوں لگتا ہے یہ خاموشی پہنچے ہوئے لوگوں کی خاموشی ہے جو گفتگو پر بھاری ہے۔ یہاں کے رہنے والوں کی پیشانیاں کشادہ اور آنکھیں روشن ہیں۔ مسکراہٹ ان کا طرزِ زندگی ہے۔ اس شہر کے ہجر میں مبتلا ہوں اور یہ شہر ہے کہ معشوق کی طرح وصال کو وعدۂ فردا پر ٹالے جا رہا ہے۔
پس نوشت۔ میری سینئر‘ آپا کشور ناہید ناراض ہیں۔ زہر میں بجھے ہوئے طنزیہ تیر چلا رہی ہیں پھر بھی قابلِ احترام ہیں کہ سال خوردگی میں

 Senility

 آ ہی جاتی ہے۔ غلطی اس سیاہ کار سے یہ ہوئی کہ حالیہ جنگ کے دوران اور اس کے بعد‘ پاکستان پر اور پاکستانیت پر لکھا‘ خوب لکھا اور ڈٹ کر لکھا۔ اقبال اور قائداعظم کے احسانات کا ذکر کیا۔ کیا کریں! پاکستان ہم جیسوں کی ریڈ لائن ہے اور قائداعظم ہمارے اور ہماری نسلوں کے محسن! اگر کسی کو یہ ذکر ناگوار گزرے تو ہم اظہارِ ہمدردی ہی کر سکتے ہیں! یہ جو میں نے لکھا کہ ''وہ کیا چیز ہے جو ڈھاکہ کے بنگالی کو کولکتہ کے بنگالی سے الگ کر رہی ہے؟ وہ کیا چیز ہے جو لدھیانہ اور جالندھر کے پنجابی کو لاہور اور سیالکوٹ کے پنجابی سے الگ کر رہی ہے۔ وہ کیا چیز ہے جو پاکستانی جاٹ‘ پاکستانی راجپوت اور پاکستانی گُجر کو بھارتی جاٹ‘ بھارتی راجپوت اور بھارتی گجر سے الگ کر رہی ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں! صرف نیت کی سچائی درکار ہے! پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمان قائداعظم اور علامہ اقبال کے پاؤں دھو دھو کر بھی پئیں تو ان کا احسان نہیں اُتار سکتے! ذرا سوچئے‘ عمران خان نے جو زبردست تقریر اقوام متحدہ میں کی تھی‘ اگر پاکستان نہ بنتا تو کیا کوئی برصغیر کا مسلمان ایسی تقریر کر سکتا تھا‘‘۔ اب کچھ لوگ اس قسم کی تحریر سے برافروختہ ہو جاتے ہیں۔ ان کے دل ودماغ پر یہ باتیں ٹھاہ لگتی ہیں! ان کی اپنی مجبوری ہے‘ ہماری اپنی مجبوری! یوں بھی اگر بچپن میں کسی کو برقع زبردستی پہنایا جائے تو عمر بھر اس کا ردِعمل کار فرما رہتا ہے اور انسان مذہب کا نام سننا بھی برداشت نہیں کرتا۔ 
کچھ عرصہ پہلے اسلام آباد کلب میں ایک ادبی تقریب تھی۔ شاید میرے ہی نئے شعری مجموعے کی رونمائی۔ نوجوان شاعر اور بیورو کریٹ شکیل جاذب میزبان تھے۔ معروف شاعر اور ذاکر‘ ہمارے دوست‘ شکیل اختر تقریر کر رہے تھے۔ گفتگو میں مذہب کا نام آ گیا یا ذکر ہو گیا۔ آپا بھڑک اٹھیں اور ناگواری کا اظہار فرمایا۔ آپا نے اپنے تازہ کالم میں ڈھکے چھپے الفاظ میں تجویز فرمایا ہے کہ اظہار الحق کو امام مسجد لگا دیجیے۔ زہے نصیب! مجھے امام مسجد بننے میں کوئی اعتراض نہیں بلکہ فخر سے بنوں گا۔ یہ اور بات کہ میں اس قابل نہیں‘ اگرچہ کبھی ضرورت پڑے تو کوٹ پتلون پہنے‘ نماز پڑھا بھی دیتا ہوں! اللہ کا شکر ہے کسی قسم کا احساسِ کمتری نہیں‘ نہ ہی سرحد پار کے حوالے سے مرعوبیت کا عارضہ لاحق ہے۔
یہ سب کچھ لکھتے ہوئے افسوس بھی ہو رہا ہے۔ ان کا احترام لازم ہے۔ اب مجبوری یہ ہے کہ ہم جیسے لوگ Slums میں تو پروان چڑھے نہیں۔ گاؤں کی کھلی بے خوف فضا میں پلے بڑھے ہیں۔ کوئی تیر چلائے تو ہمارے ترکش سے پھول نہیں نکلیں گے۔ بہت کچھ ہے کہنے کو۔ اللہ نہ کرے کہ کہنا پڑے۔ ظفر اقبال کے الفاظ میں یہی عرض کر سکتے ہیں کہ:
دیکھ رہ جائے نہ حسرت کوئی دل میں تیرے
شور کر اور بہت‘ خاک اُڑا اور بہت

Thursday, May 22, 2025

الحمدللہ! ہم پاکستانی ہیں!


پہلا بیان:

''دونوں ممالک غربت وافلاس کے مسائل پر قابو پانے اور اپنے عوام کی خوشحالی اور ترقی کیلئے کوشاں ہیں اور دونوں ہی نیوکلیائی ممالک ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دونوں ممالک اور یہاں کی سیاسی وعسکری قیادتیں اب تیزی سے پائیدار امن کیلئے ٹھوس اقدامات کریں گی۔ سرحدی علاقوں میں رہنے والے عام بھارتی شہریوں کی ہلاکت کی مسلسل خبریں آ رہی ہیں۔ بے قصور شہریوں کو لاحق خطرات ہماری فوری توجہ چاہتے ہیں۔ ہم ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان خاندانوں کو ترجیحی بنیادوں پر تمام ضروری امداد اور تحفظ فراہم کرے۔ سرحد کے اُس پار بھی کئی عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ معصوم شہریوں‘ بالخصوص خواتین اور بچوں کی ہلاکت‘ چاہے ان کا تعلق کسی بھی نسل‘ مذہب‘ زبان‘ قومیت یا طبقے سے ہو‘ انتہائی افسوسناک ہے اور تمام فریقوں کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہر حال میں بے گناہ انسانی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ دہشت گردی خطے کا سنگین مسئلہ ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سی قیمتی اور بے قصور جانیں اس کی نذر ہو چکی ہیں اور پاکستان میں بھی دہشت گردی کے لوگ مسلسل شکار ہوتے رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہر طرح کے تنگ نظر مفادات سے اوپر اٹھ کر اس اصل مسئلے کے پائیدار حل پر توجہ دی جائے‘‘۔
دوسرا بیان: 
''بھارت کی جنونیت اور تکبر کے مقابلے میں پاکستان کو فتح نصیب ہوئی۔ پاکستان نے بہت تدبر سے بھارتی جارحیت کا جواب دیا۔ مذاکرات میں کشمیر ایجنڈا نمبر وَن ہونا چاہیے‘ کشمیر کے بغیر مذاکرات قبول نہیں کریں گے۔ پوری قوم بھارتی جارحیت کے خلاف اپنی افواج کی پشت پر کھڑی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ بھارتی غرور خاک میں مل گیا۔ یہ بھی واضح ہو گیا کہ بھارت کا دنیا میں کوئی مددگار تھا تو وہ اسرائیل تھا۔ بھارتی جارحیت نے قوم کو اکٹھا کر کے نوجوانوں میں مایوسی کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اب ہم نے جس راستے کو اختیار کیا ہے یہی ہماری کامیابی کا راستہ ہے‘‘۔
آپ نے حالیہ جنگ کے حوالے سے اوپر کے دونوں بیانات پڑھے۔ دونوں میں فرق واضح ہے۔ پہلا بیان منمناہٹ ہے‘ دوسرا دھاڑ۔ پہلا بیان امیر جماعت اسلامی بھارت‘ سعادت اللہ حسینی کا ہے۔ دوسرا بیان امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان کا ہے۔ پہلا بیان بھارتی مسلمانوں کی بے بسی‘ اور بیچارگی ظاہر کرتا ہے۔ اس بیان میں کسی جارح کا ذکر نہیں۔ دونوں ملکوں کو یکساں قرار دیا گیا ہے حالانکہ جنگ بھارت نے شروع کی تھی۔ وہ ایک عرصہ سے پاکستان میں دہشت گردی کر اور کرا رہا ہے۔ دوسرا بیان ثابت کرتا ہے کہ پاکستان ایک نعمت ہے۔ جو مسلمان پاکستان میں رہتے ہیں‘ وہ الحمدللہ آزاد ہیں۔ سچ کہہ سکتے ہیں اور کہتے ہیں۔ سچ وہی ہے جو حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے۔ کوئی بھارتی مسلمان اس انداز میں بات کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا!!
ہمیں بھارتی مسلمانوں سے ہمدردی ہے۔ وہ ہمارے بھائی ہیں۔ ہمارے جسم وجان کا حصہ ہیں۔ 'روزنامہ دنیا‘ کے صفحات گواہ ہیں کہ اس کالم نگار نے بھارتی مسلمانوں کی حالتِ زار پر مسلسل لکھا ہے۔ آسام کے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا جا رہا ہے‘ اس پر بھی لکھا ہے۔ ادتیا ناتھ نے یو پی میں جو اندھیر مچایا ہوا ہے اس پر بھی مسلسل احتجاج کیا ہے۔ شاید اس کالم نگار کی آواز تنہا آواز ہے جس نے اُن بھارتی شہرو ں کے نام بدلنے پر بارہا ماتم کیا جن کے نام مسلم تہذیب کے آئینہ دار ہیں۔ ادتیا ناتھ آگرہ‘ الہ آباد اور کئی دوسرے شہروں اور قصبوں کے نام بدل چکا ہے۔ ادتیا ناتھ مسلمانوں کو اذیت پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ یہ حقائق ہیں اور تلخ حقائق! اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ خدا نخواستہ پاکستان نہ بنتا تو آج پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کی حالت بھی وہی ہوتی جو بھارتی مسلمانوں کی ہے۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر برصغیر کی تقسیم نہ ہوتی تو پاکستان‘ بنگلہ دیش اور موجودہ بھارت کے مسلمان مل کر بہت بڑی قوت بن جاتے۔ مگر یہ ایک مفروضہ ہے جس کا غلط ہونا واضح ہے۔ آج بھارت میں بیس کروڑ مسلمان ہیں۔ وہ اقلیت میں ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش نہ بنتے تو مسلمانوں کی تعداد اٹھاون کروڑ ہوتی۔ ڈیڑھ ارب کی آبادی میں تب بھی وہ اقلیت ہی ہوتے۔ ون مین ون ووٹ کے فارمولے کے سامنے ان کی کیا حیثیت ہوتی! وہی حیثیت ہوتی جو تقسیم سے پہلے مسلمانوں کی تھی۔ لاہور کا شاہ عالمی تقریباً سارا ہندوؤں کے پاس تھا۔ جہلم جیسے شہر کے بازار میں مسلمانوں کی صرف دو دکا نیں تھیں۔ ہر گاؤں میں تجارت ہندوؤں کے پاس تھی۔ مسلمان کسانوں کی اکثریت مقروض تھی۔ راولپنڈی میں ٹاپ کی جائدادیں ہندوؤں کی ملکیت تھیں۔ جس وسیع وعریض عمارت میں آج فاطمہ جناح خواتین یونیورسٹی ہے‘ اور پہلے ایوانِ صدر تھا‘ وہاں سے لے کر جھنڈا چیچی تک تمام جائداد دو ہندو بھائیوں کی تھی۔ مسلمان ان کے سرونٹ کوارٹرز میں رہتے تھے۔ یہی حالت ان تمام صوبوں کی تھی جہاں مسلمانوں کی نام نہاد اکثریت تھی۔ آج اگر بھارتی پارلیمنٹ سے مسلمان تقریباً غائب ہیں تو متحدہ ہندوستان میں بھی یہی کچھ ہونا تھا۔ کیا آج بھارتی مسلمانوں کو ملازمتوں میں اور منتخب ایوانوں میں آبادی کے لحاظ سے حصہ مل رہا ہے؟ نہیں! ہرگز نہیں! بھارت کی مرکزی حکومت میں کتنے وزیر مسلمان ہیں! کتنے سیکرٹری مسلمان ہیں؟
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج پاکستان اور بنگلہ دیش میں مسلمانوں کی اپنی حکومتیں ہیں‘ اقوام متحدہ میں انکی نشستیں ہیں‘ انکے وزرا مسلمان ہیں۔ بیورو کریسی میں مسلمان غالب ہیں‘ انکے طلبہ اور طالبات دنیا بھر میں سکالر شپس پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش نہ ہوتے تو مسلمانوں کو زیرہ تک نہ ملتا۔ اور جو یہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش مسلم ریاستیں نہیں‘ قومی ریاستیں ہیں‘ تو بنگالی تو بھارت میں بھی موجود ہیں۔ مغربی بنگال کی آبادی دس کروڑ ہے۔ بنگلہ دیش کی اس سے صرف پانچ کروڑ زیادہ ہے۔ نیشن سٹیٹ ہوتی تو تمام بنگالی اکٹھے ہوتے۔ پنجابی اور سندھی بھارت میں بھی ہیں۔ وہ کیا چیز ہے جو ڈھاکہ کے بنگالی کو کولکتہ کے بنگالی سے الگ کر رہی ہے؟ وہ کیا چیز ہے جو لدھیانہ اور جالندھر کے پنجابی کو لاہور اور سیالکوٹ کے پنجابی سے الگ کر رہی ہے۔ وہ کیا چیز ہے جو پاکستانی جاٹ ‘ پاکستانی راجپوت اور پاکستانی گُجر کو بھارتی جاٹ‘ بھارتی راجپوت اور بھارتی گُجر سے الگ کر رہی ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں! صرف نیت کی سچائی درکار ہے!
پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمان قائداعظم اور علامہ اقبال کے پاؤں دھو دھو کر بھی پئیں تو ان کا احسان نہیں اتار سکتے! ذرا سوچیے‘ عمران خان نے جو زبردست تقریر اقوام متحدہ میں کی تھی‘ اگر پاکستان نہ بنتا تو کیا کوئی مسلمان ایسی تقریر کر سکتا تھا؟ میلبورن کے ایک محلے کا نام ہائیڈل برگ ہے۔ میں اُس بھارتی مسلمان کو نہیں بھول سکتا جو وہاں مسجد میں نمازِ جمعہ کے موقع پر مجھے ملا۔ اس سے پوچھا: بھارت کے مسلمانوں کی کیا حالت ہے اور کیا پوزیشن؟ اس کا جواب دو لفظوں میں تھا۔''بس اقلیت میں ہیں‘‘۔
لیکن ہمیں ناشکر گزاروں سے بچنا ہو گا۔ ہم باہر کے مودیوں‘ امیت شاہوں اور ادتیا ناتھوں کو تو نتھ ڈال چکے ہیں‘ اندر کے دشمنوں سے ہوشیار رہنا ہو گا۔ اُن برخود غلط‘ نام نہاد دانشوروں کو ان کی حیثیت بتانا ہو گی جو مبہم لفظوں اور مغالطہ آمیز اصطلاحوں کی شعبدہ گری سے پاکستان کی جڑوں کے درپے ہیں!

Tuesday, May 20, 2025

سیّدانی


سیّدانی کے نام سے آپ کے ذہن میں ایک بی بی صاحبہ کی تصویر اُبھرے گی جو ہاتھ میں تسبیح پکڑے‘ منہ سر لپیٹے‘ ایک تخت پر تشریف فرما ہیں۔ سامنے زمین پر مریدنیاں بیٹھی ہیں جو ایک ایک کر کے ان کے پاس جاتی ہیں۔ پہلے ہاتھ چومتی ہیں۔ پھر عرضِ مدعا کرتی ہیں۔ بی بی صاحبہ کچھ پڑھ کر پھونکتی ہیں۔ کچھ اوراد و وظائف تجویز کرتی ہیں۔ دم کیا ہوا پانی عنایت کرتی ہیں۔ آخر میں مریدنی نذرانہ پیش کرتی ہے۔ مگر میں جن سّیدانی صاحبہ کا ذکر کر رہا ہوں وہ بالکل مختلف ہیں۔ ان کے ہاتھ میں تسبیح ہے نہ مریدنیوں کی حاضری میں دلچسپی ہے۔ نذرانہ لیتی ہیں نہ منہ سر لپیٹتی ہیں۔ وہ تو ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں‘ وہ بھی سائنس کی! ظاہر سے نہیں معلوم ہوتا مگر گفتگو سے پتا چلتا ہے کہ پہنچی ہوئی ہیں‘ عقل و دانش کا خزانہ ہیں۔ کسی بھی مسئلے پر ان کا کہا حرفِ آخر ہوتا ہے۔ ایک بار میں کسی مسئلے میں الجھا ہوا تھا! پریشان تھا اور پراگندہ خاطر! ایک دوست کہنے لگا کہ ایک بزرگ کے پاس لے چلتا ہوں بشرطیکہ وہ حاضر ہونے کی اجازت دے دیں۔ فون کرنے کے لیے وہ دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ واپس آیا تو کہنے لگا: چلیں! میرے ذہن میں یہی تھا کہ کوئی درگاہ ہو گی یا خانقاہ! مگر یہ تو ایک بڑی سی محل نما کوٹھی تھی۔ ملازم نے ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ تھوڑی دیر میں ایک ادھیڑ عمر خاتون آئیں۔ جدید ترین لباس پہنے اور ظاہر میں غیر مذہبی۔ میرا دوست اٹھ کر کھڑا ہوا اور جھک کر آداب بجا لایا۔ پھر مجھے بتایا کہ یہ سیّدہ ہیں اور یہی وہ بزرگ ہیں جن کی خدمت میں مجھے لایا ہے۔ مسئلہ بتایا تو حیرت ہوئی کہ ایک لمحہ توقف کیے بغیر انہوں نے ایک ایسا نکتہ نکالا جس سے مسئلہ چٹکی بجانے کی دیر میں حل ہو رہا تھا اور یہ نکتہ میرے ذہن کے کسی دور افتادہ گوشے میں بھی نہیں تھا۔ یہ ان سے پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد جب بھی کوئی پریشانی لاحق ہوئی‘ ان کے پاس گیا اور با مراد ہو کر واپس ہوا۔
چند روز سے ایک ذہنی خلفشار میں مبتلا تھا۔ بہت سوچا۔ اچانک حافظ شیرازی یاد آگئے:
مشکلِ خویش برِ پیرِ مغاں بُردم دوش
کو بتائیدِ نظر حلِّ معما می کرد
کہ میں اپنی مشکل پیرِ مغاں کے پاس لے گیا کیونکہ وہ نظر کی طاقت سے مشکل حل کرتا تھا۔
سیّدانی کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ملازم نے بتایا کہ نماز ادا کر رہی ہیں۔ جب تشریف لائیں میں احتراماً کھڑا ہو گیا۔ انہوں نے ملازم سے چائے کا کہا اور میرا احوال پوچھا۔ عرض کیا ''پریشان ہوں۔ حالیہ جنگ ہمارے شہیدوں نے لہو دے کر جیتی ہے۔ اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر حملہ کیا ہے اور کلمۂ شہادت پڑھ کر جان دی ہے مگر کچھ برخود غلط قسم کے دانشور‘ جن کا مطالبہ ہے کہ انہیں عالمِ دین بھی سمجھا جائے‘ پوری قوت سے مہم چلا رہے ہیں کہ یہ معرکہ کفر اور اسلام کا نہیں تھا بلکہ محض دو قومی ریاستوں (نیشن سٹیٹس) کے درمیان لڑائی تھی۔ اس جنگ کے بارے میں یہ حضرات بظاہر پاکستانی ہوتے ہوئے ایک بھارتی مسلمان کے مؤقف کی تشہیر کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ مؤقف قابلِ تقلید ہے‘ جبکہ پاکستان کا اپنا مؤقف ہے۔ ان کے اس گمان انگیز اور اذیت ناک 

Sadist 

مؤقف سے ہم جیسے محب وطن تکلیف میں ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے رہتے ہیں کہ پاکستان مسلم سٹیٹ نہیں ہے کیونکہ یہاں غیرمسلم بھی رہ رہے ہیں‘‘۔ سیّدانی میری عرض گزاری کو غور سے سُن رہی تھیں اور مسکرائے جا رہی تھیں۔ انہوں نے کچھ دیر توقف کیا‘ پھر فرمانے لگیں ''ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ پاکستان اسلامی ملک ہے۔ آئین کے آرٹیکل دو کی رو سے اسلام پاکستان کا ریاستی مذہب ہو گا! ‘‘ بھارت کے آئین کی رو سے بھارت ''سوشلسٹ سیکولر ڈیموکریٹک ریپبلک‘‘ ہے۔ ریاست مدینہ میں غیرمسلم بھی رہتے تھے مگر وہ اسلامی ریاست تھی۔ خلافت راشدہ کے عہد میں سلطنت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس میں لاکھوں غیر مسلم رہتے تھے پھر بھی وہ اسلامی اور مسلمان سلطنت تھی۔ یہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ مسلم ریاست میں کوئی غیرمسلم نہیں رہ سکتا! کوئی ایک حوالہ؟؟ ایران صدیوں سے نیشن سٹیٹ ہے اور آج کل‘ ساتھ ساتھ اسلامی سٹیٹ بھی ہے۔ پھر ہماری فوج کا ماٹو ہے ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ۔ کیا کوئی سٹیٹ جو مسلم سٹیٹ نہ ہو‘ ایسا ماٹو اپنا سکتی ہے؟ بنیانٌ مرصوص والی آیت کا ترجمہ دیکھ لیجیے۔ ''اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔ اب جو لوگ جنگ کو بنیانٌ مرصوص کا نام دیں‘ اللہ کی راہ میں لڑیں‘ ان کا سپہ سالار نمازِ فجر خود پڑھا کر دعا مانگے اور حملہ کرنے کا حکم دے‘ وہ اسلام اور کفر کی جنگ نہیں تو پھر اسلام اور کفر کی جنگ اور کسے کہتے ہیں؟ ملا ضعیف نے بھی یہی کہا ہے کہ اس جنگ کا اسلام سے تعلق نہیں‘ یہ پنجابیوں اور ہندوؤں کی جنگ ہے۔ جن لوگوں کا آپ ذکر کر رہے ہیں ان کا بھی یہی مؤقف ہے۔ ملا صاحب پنجابیوں اور ہندوؤں کا نام لیتے ہیں تو یہ لوگ دو قوموں کا! دونوں ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ اس جنگ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان افراد کا مؤقف وہی ہے جو پاکستان کے مخالفین کا ہے۔ بھارتی مسلمان بیچارے کا کیا مؤقف ہو گا جو سانس بھی امیت شاہ اور ادتیا ناتھ کی مرضی کے بغیر نہیں لے سکتا۔ وہ تو دار الکفر میں ہے اور زنجیر بپا! یہ لوگ بھارتی شہریوں اور افغان ملاؤں کے مؤقف کی جگالی کر رہے ہیں۔ بلاشبہ ان کے تار سمندر پار سے ہلائے جا رہے ہیں! ورنہ کوئی پاکستانی سوچ بھی نہیں سکتا کہ افغان یا بھارتی مؤقف کی تائید کرے۔ اگر پاکستان اسلامی یا مسلم سٹیٹ نہیں تو اسلامی نظریاتی کونسل‘ شریعہ کورٹ اور سپریم کورٹ کے شریعہ اپیلٹ بنچ جیسے آئینی ادارے کیوں قائم ہیں؟ ادارۂ تحقیقات اسلامی اور رحمۃ للعالمین اتھارٹی جیسے ادارے کیوں بنے ہیں؟‘‘
سیّدانی نے کمال شفقت سے کھانے کا پوچھا مگر میں نے معذرت کی۔ انہوں نے سلسلۂ کلام جاری رکھا ''تاہم یہ تمام دلائل میں نے تمہارے اطمینان قلب کے لیے بیان کیے ہیں۔ اصل بات جو مجھے بتانی ہے اور تمہارے ذہن نشین کرانی ہے اور ہے‘‘۔ میں چو کنا ہو گیا کہ آخر وہ اور بات کیا ہو سکتی ہے؟ فرمانے لگیں ''ہر انسان کے ذہن کی ساخت مختلف ہوتی ہے۔ بعض میں کجی ہوتی ہے‘ ایسی کجی کہ کوئی اسے سیدھا نہیں کر سکتا۔ پھر ہر انسان کے ضمیر کی آواز بھی مختلف ہے۔ بعض وطن جیسی مقدس شے کو اپنے نظریات کے لیے کھلونا سمجھتے ہیں۔ اور اپنے اکابر کے بتائے ہوئے راستے سے انحراف کرنے کی دانشورانہ ہمت نہیں رکھتے! میری نصیحت یہ ہے کہ ایسے افراد کی باتوں پر مطلق توجہ نہ دی جائے۔ ان کی باتوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ انہیں نظر انداز کیا جائے۔ یوں بھی فکرِ ہر کس بقدرِ ہمّتِ اوست! پاکستان جب سے بنا ہے بہت لوگ اس کے درپے رہے ہیں اور درپے ہیں! کچھ اس کی تاسیس پر سوال اٹھاتے ہیں۔ کچھ اس کے وجود کی نوعیت پر! کچھ اس کے مستقبل کے حوالے سے اپنے اپنے پسندیدہ خواب دیکھتے رہتے ہیں! مگر بقول ظفر اقبال:
گلی میں لوگ بھی تھے میرے اُس کے دشمن لوگ
وہ سب پہ ہنستا ہوا میرے دل میں آیا تھا
سیّدانی سے رخصت ہو کر باہر نکلا تو اطمینان کا موسم تھا۔ ہوا چل رہی تھی۔ درخت جھوم رہے تھے۔ کوئل کوک رہی تھی جیسے کہہ رہی ہو یہ ملک اُس رسول (ﷺ) کی طرف سے تحفہ ہے جس کی حرمت پر کٹ مرنا ایمان کا حصہ ہے۔

 

powered by worldwanders.com