)
پلٹ کر دیکھتا ہوں تو ڈھاکہ یونیورسٹی میں گزارا ہوا عرصہ زندگی کے دلکش ترین ٹکڑوں میں ایک نمایاں ٹکڑا لگتا ہے۔
بے فکری تھی اور آسودگی! ڈھاکہ یونیورسٹی کا ماحول مجموعی طور پر میری اُفتادِ طبع کے عین مطابق تھا۔ ذہین اور طباع لوگ! جو بات کو فوراً سمجھ جاتے تھے۔ ادب اور سیاست‘ بین الاقوامی تاریخ‘ بین الاقوامی تعلقات‘ بر صغیر کی تاریخ‘ غرض اردو اور فارسی شاعری کو چھوڑ کر ان سارے موضوعات پر بات کرنے اور بات سمجھنے والے وہاں موجود تھے۔ میں گورنمنٹ کالج راولپنڈی سے گیا تھا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں پنجاب یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج لاہور کے طلبہ بھی آن ملے تھے۔ علم و دانش کا جو ماحول ڈھاکہ یونیورسٹی میں تھا وہ مغربی پاکستان کے اکثر و بیشتر تعلیمی اداروں میں عنقا تھا۔ جب مغربی پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کوٹ پتلون اور ٹائی میں ملبوس ہو کر کلاسوں میں تشریف لاتے تھے‘ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ کی اکثریت کرتا پاجامہ اور چپل پہن کر یونیورسٹی آتی تھی۔ یہ لوگ روکھا سوکھا کھاتے تھے۔ والدین سے اتنی ہی رقم منگواتے تھے جو قوتِ لایموت کیلئے ناگزیر تھی۔ بہت سے تو اخبارات میں مضامین لکھ کر اپنا خرچ پورا کرتے تھے۔ پوری پوری رات لائبریری میں بسر کر دیتے تھے۔ دو چیزیں ڈھاکہ یونیورسٹی میں بالکل نئی دیکھیں۔ لائبریری کا 24 گھنٹے کھلا رہنا اور امتحانی پرچوں کا وقت تین گھنٹوں کے بجائے چار گھنٹے ہونا!
مشرقی پاکستان کے حوالے سے جو حقیقت سب سے زیادہ درد ناک ہے وہ مغربی پاکستانیوں کی کج فہمی ہے۔ غالباً وہ حالتِ انکار
(State of Denial)
جس میں پاکستان گلے گلے تک دھنس گیا‘ سقوطِ ڈھاکہ ہی سے شروع ہوئی۔ جس ملک کے دانشوروں کی اکثریت مشرقی پاکستان کھو دینے کے نصف صدی بعد بھی سینہ تان کر سارا الزام بنگالیوں کے سر تھوپ رہی ہو اور یہ سوچے بغیر کہ پاکستان قتل و غارت اور بد امنی کا مر کز بن گیا ہے‘ بنگلہ دیش کی ''ناکامیاں‘‘ گنوانے پر مصر ہو‘ وہ ملک اس زمانے میں کس طرح مثبت سوچ رکھ سکتا تھا جب مشرقی پاکستان اس کا حصہ تھا۔
مشرقی اور مغربی پاکستان کی آبادیوں کی سماجی کمپوزیشن کا مطالعہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک غیرحقیقت پسندانہ اتحاد تھا۔ مشرقی پاکستان میں فیوڈلزم کا کوئی وجود نہ تھا۔ خواندگی کا تناسب زیادہ تھا۔ وہاں کے عوامی نمائندے تمام کے تمام اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ اس کے مقابلے میں مغربی پاکستان ایک فیوڈل اور قدیم طرز کا جاگیردارانہ معاشرہ تھا۔ بلوچستان کے سرداری نظام کی‘ جو آج تک جوں کا توں قائم ہے‘ شاید ہی مہذب دنیا میں کوئی مثال پائی جاتی ہو۔ اکثر منتخب نمائندے نیم خواندہ تھے۔ تکبر اور رعونت طرۂ امتیاز تھا۔ اس رعونت کی انتہا یہ تھی کہ جب سینیٹری کا غیرملکی سامان ایک بار ہاتھ لگا اور اس پر چھینا جھپٹی شروع ہوئی تو کابینہ کے بنگالی ارکان نے بھی اپنا حصہ مانگا۔ اس پر انہیں جو جواب دیا گیا یہ تھا کہ تم لوگ رفع حاجت کے لیے کھیتوں میں جاتے ہو‘ تمہیں اس سامان کی کیا ضرورت ہے! مغربی پاکستانی سیاستدان تھے یا بیورو کریٹ یا عسکری حلقے‘ بنگالی ہم وطنوں کے ساتھ سب کا رویہ کم و بیش یہی تھا۔ ایک صاحب نے ملک کے اس وقت کے معروف ترین اخبار میں ایک واقعہ لکھا تھا کہ مولوی فرید الدین احمد صاحب ایک بار لُنگی میں ملبوس کسی میس میں چلے گئے تو انہیں باقاعدہ گالیاں دے کر وہاں سے نکال دیا گیا۔
اس میں کیا شک ہے کہ مشرقی پاکستان کا کمایا ہوا زرِمبادلہ مغربی پاکستان پر خرچ ہوا۔ نیم سرکاری اخبار پاکستان ٹائمز نے اپنے ایک اداریے میں یہ حقیقت تسلیم کی تھی! (اس اداریے کا تراشہ ایک مدت میرے پاس محفوظ رہا) عساکر میں انہیں نہ صرف یہ کہ اپنی آبادی کے تناسب سے حصہ نہ دیا گیا بلکہ بالکل ہی برائے نام دیا گیا۔ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ برصغیر کے تین علاقوں نے انگریزوں کا مقابلہ کیا تھا۔ بنگال‘ یوپی اور سندھ! چنانچہ ان تینوں علاقوں کو فوج کے لیے ''اَن فٹ‘‘ قرار دیا گیا۔ جن علاقوں سے فرمانبرداری اور اطاعت ملی ان پر عساکر کے دروازے کھول دیے گئے بلکہ کچھ کو تو ''مارشل ایریا‘‘ قرار دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے گورنر‘ اکثر و بیشتر مغربی پاکستان سے مقرر ہوتے رہے۔ مغربی پاکستان پر کسی مشرقی پاکستانی کو گورنر نہ مقرر کیا گیا۔ ایوب خان نے ایک مشرقی پاکستانی عبدالمنعم خان کو مشرقی پاکستان کا گورنر مقرر کیا مگر وہ گورنر سے زیادہ صاحب کا غلام تھا۔ جب مشرقی پاکستانی ریڈیو سے ٹیگور کی شاعری نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تو لوگوں کی طرف سے ردِعمل آیا اور پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا۔ عبد المنعم خان نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے بنگالی زبان کے شعبہ کے صدر ڈاکٹر عبدالحئی سے کہا کہ آخر تم لوگ ٹیگور کے گیت خود کیوں نہیں لکھتے؟ ایوب خان کا طویل دورِ آمریت اس تابوت میں آخری کیل تھا۔ کسی مغربی پاکستانی کے پاس بنگالیوں کے اس سوال کا جواب نہیں تھا کہ اگر جرنیلوں ہی نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے تو بنگالیوں کی باری کس طرح اور کب آئے گی؟ مجیب الرحمان کو غدار کہنے والے حضرات یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ ایوبی دور کے صدارتی انتخابات میں فاطمہ جناح کا پولنگ ایجنٹ تھا۔ اور مادرِ ملت یہ الیکشن مشرقی پاکستان میں جیت گئی تھیں اور مغربی پاکستان میں (سوائے کراچی کے) ہار گئی تھیں۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اہلِ پاکستان ہزار سال بھی اپنے مخصوص عالمِ انکار میں رہیں تو تاریخ نہیں بدلی جا سکتی۔ اسمبلی کے اجلاس کی تاریخ مقرر کرکے اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔ کسی بھی سیاسی یا اخلاقی قانون کی رو سے عوامی لیگ کو مرکز میں حکومت بنانے کا حق حاصل تھا جس سے اسے محروم کیا گیا۔ ردِعمل فطری تھا۔ کیا مغربی پاکستانی یہ توقع کر رہے تھے کہ مشرقی پاکستانیوں کو ان کے جائز حق سے محروم کیا گیا تو وہ جواب میں پھولوں کی پتیاں نچھاور کریں گے؟؟ بہترین حل وہی چھ نکات تھے جو عوامی لیگ نے پیش کیے تھے۔ یہ ایک کنفیڈریشن ہوتی اور اس کا ایک حصہ چاہتا تو پُرامن طریقے سے الگ ہو جاتا۔
مشرقی پاکستان کی خونریز اور عبرتناک علیحدگی ایک بہت بڑا المیہ تھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ پاکستان اس سے سبق حاصل کرتا۔ جو عوامل اس المیے پر منتج ہوئے ان سے چھٹکارا حاصل کیا جاتا تاکہ مغربی پاکستان کو اس المناک تجربے کی روشنی میں فائدہ پہنچے لیکن ذہنی جمود اور فکری پستی کا یہ عالم ہے کہ اب بھی سولہ دسمبر آتا ہے تو طوطے کی طرح رٹے رٹائے الفاظ ابکائی کرکے اخبارات کے صفحوں پر انڈیل دیے جاتے ہیں ''مجیب الرحمان غدار تھا‘‘۔ ''بنگالی ہندوؤں کے اثر میں تھے‘‘۔ ''مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ دار بھارت ہے‘‘۔ ''دونوں بازوؤں کے درمیان اقتصادی عدم توازن اصل میں دشمن کا پرو پیگنڈا تھا‘‘ وغیرہ۔ بدقسمتی سے پاکستان میں 1971ء کے المیے کا آج تک غیرجذباتی تجزیہ نہیں ہوا۔ جب بھی اس سانحہ کا ذکر ہوا‘ ہر کسی نے اپنے پسندیدہ رنگ کی عینک لگا کر ہی ذکر کیا۔ اسے تاریخ کی ستم ظریفی کہیے یا قدرت کی کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان کی حالت بتدریج ابتر ہوتی گئی۔ جن سیلابوں کی وجہ سے بنگالی بوجھ سمجھے جاتے تھے وہ سیلاب 1971ء کے بعد پاکستان میں بھی آنا شروع ہو گئے یہاں تک کہ یہ سالانہ معمول بن گیا۔ ضیا الحق کے طویل دورِ آمریت نے مذہبی طبقات کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا اور انہیں معاشرے پر حاوی کر دیا۔ ملک کی سرحدوں کو پامال کیا گیا۔ نسلی‘ لسانی اور مسلکی گروہوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی بلکہ سرپرستی کی گئی۔ ملک کو ہتھیاروں سے بھر دیا گیا۔ لاکھوں غیرملکیوں نے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوا لیے۔ مذہب سیاست کے لیے خوب خوب استعمال ہونے لگا۔ (ختم)
No comments:
Post a Comment