Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, June 24, 2025

زیر طبع خود نوشت سے ایک ورق …(2)

1996

ء کے اوائل میں میری تعیناتی بطور کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس ڈیفنس پرچیز 

(Defence Purchase) 

ہو گئی۔ یہ تعیناتی بہت بڑا چیلنج تھا۔ تینوں مسلح افواج کی تمام ضروریات کے لیے جو کچھ بھی خریدا جاتا تھا اس کا پے ماسٹر کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس ڈیفنس پرچیز تھا۔ پاکستان میں اس جتنی یا اس سے زیادہ ادائیگیاں کسی اور ادارے یا محکمے میں نہیں ہوتیں۔ پٹرول‘ آئل‘ 

Lubricants‘ 

اسلحہ‘ سپیئر پارٹس‘ ادویات‘ چارپائیاں‘ یونیفارم‘ ہیلمٹ‘ جوتے‘ چینی‘ گھی‘ آٹا‘ گوشت کے لیے جانور‘ بلند پہاڑوں پر مقیم عساکر کے لیے ڈبوں میں بند خوراک اور دیگر ضروریات‘ ہر شے بھاری مقدار 

(bulk) 

میں خریدی جاتی ہے۔ ایک ایک ادائیگی کروڑوں روپوں میں ہوتی ہے۔ یہ خریداریاں ملک کے اندر سے بھی ہوتی ہیں اور بیرونِ ملک سے بھی۔ مال سپلائی کرنے والوں کے معاہدے مسلح افواج کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ان معاہدوں کی جانچ پڑتال اور چھان بین بھی سی ایم اے ڈیفنس پرچیز ہی کرتا ہے۔ جب تک کنٹرولر معاہدے کی تصدیق نہ کرے‘ معاہدہ قانونی دستاویز کی شکل نہیں اختیار کر سکتا۔
جتنی بھاری ادائیگیاں تھیں‘ دفتر اتنا ہی بدنام تھا۔ اور یہی میرے لیے چیلنج تھا۔ جس دن چارج لیا اس دن 28 سپلائر آئے ہوئے تھے۔ باہر عظیم الجثہ جہازی سائز کی گاڑیاں اور قوی ہیکل لینڈ کروزر کھڑے تھے۔ کچھ سپلائر بیرونِ ملک سے آئے ہوئے تھے۔ انہیں آنے کی ضرورت کیوں پیش آتی تھی؟ تا کہ رائج الوقت ''مفاہمت‘‘ کی رُو سے آکر پہلے ''بات چیت‘‘ کریں اور پھر اپنے چیک وصول کریں۔ میرا اولین فریضہ ایسا سسٹم متعارف کرنا تھا کہ کسی سپلائر کو آنے کی ضرورت نہ پڑے‘ اسے گھر بیٹھے ادائیگی موصول ہو جائے اور یہ بھی کہ سپلائر کو آنے سے منع بھی نہ کیا جائے۔ انہیں از خود معلوم ہو جائے کہ اب اس دفتر کے پھیرے لگانے کی ضرورت نہیں اور ''بات چیت‘‘ کے بغیر ہی ان کا جائز کام ہو رہا ہے۔
سب سے پہلا کام یہ کیا کہ دفتر کے کمروں اور برآمدوں کی دیواروں پر وہ آیات‘ احادیث اور اقوال لکھوا کر لگوا دیے جو اکل حرام کی ممانعت کرتے ہیں۔ کچھ ہولناک اور لرزہ براندام کر دینے والے اقوال خود بھی ''تخلیق‘‘ کیے۔ بچے مال حرام کھا کر کیسے نکلتے ہیں۔ رشوت خور کی عمر کا آخری حصہ کیسے گزرتا ہے۔ بیویاں کیسے بے راہ رو ہو جاتی ہیں۔ امراض کیسے کیسے لاحق ہوتے ہیں۔ مرتے وقت جان کیسے نکلتی ہے۔ آخرت میں کیا انجام ہو گا؟ بتایا گیا کہ کچھ ''کمزور دل‘‘ افسروں اور اہلکاروں نے توبہ کر لی۔ کچھ کو موصول شدہ نذرانے واپس کرنے کی فکر بھی ہوئی۔ جو ''مستقل مزاج‘‘ اور ''بہادر‘‘ تھے وہ میرے تبادلے کے لیے دعائیں کرنے لگ گئے۔ دوسرا کام یہ کیا کہ دفتر میں کام کرنے والے افسران اور آڈیٹروں کا رابطہ سپلائرز کے ساتھ‘ کم از کم دفتر میں ختم کر دیا۔ اس مقصد کے لیے ایک اچھی شہرت رکھنے والا سخت گیر افسر‘ بطور آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی تعینات کیا۔ مجھے یاد ہے کہ ان کا نام مولوی صغیر تھا۔ سخت اور دیانت دار۔ (کچھ ہفتے پیشتر میں نے ان تمام‘ نان سی ایس ایس‘ افسروں اور اہلکاروں کی اپنے گھر میں دعوت کی جو سروس کے دوران میرے ماتحت رہے تھے۔ تب معلوم ہوا کہ مولوی صغیر وفات پا چکے۔ اللہم اغفرہ) سپلائرز کے لیے الگ ریسیپشن بنوایا جہاں سے آگے جانے کی انہیں اجازت نہ تھی۔ مولوی صغیر اور ان کے سٹاف کی ڈیوٹی تھی کہ دفتر کے اندر سے ان کے کام کا پتا کریں اور انہیں بتائیں۔ کچھ بلوں کو ارجنٹ (فوری) کا درجہ دے دیا جاتا تھا۔ کچھ کے اوپر ''آؤٹ ٹو ڈے‘‘ لکھا جاتا تھا کہ ایک دن ہی میں پاس ہو جائیں۔ میں نے یہ تمام ترجیحات ختم کر دیں۔ تمام بل اپنی باری پر پاس ہوں گے۔ جو پہلے آئے ہیں وہ پہلے اور جو بعد میں آئے ہیں وہ بعد میں۔ یہ حکم بھی جاری کیا کہ بل ایک ہفتے کے اندر اندر پاس کیے جائیں گے یا ایک ہفتے کے اندر اعتراض لگا کر واپس کر دیے جائیں گے۔ اعتراض بھی بدنیتی پر مشتمل نہیں ہو گا اور اعتراض برائے اعتراض نہیں ہو گا۔ کچھ اہلکار بلوں کے کچھ صفحات غائب کر دیتے تھے اور یوں بلوں کو نامکمل قرار دے کر واپس کر دیتے تھے۔ اس برائی کی اصلاح کے لیے موصول ہونے والے تمام بلوں پر صفحہ نمبر درج کیا جائے گا اور کل صفحات کی تعداد بل کے پہلے صفحے پر لکھ دی جائے گی۔ یہ کام آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی کی نگرانی میں ہونے لگا۔ چیک عام رجسٹرڈ پوسٹ کے بجائے ارجنٹ میل سروس سے بھجوانے شروع کیے۔ ہر روز ایک سپیشل رپورٹ مجھے پیش کی جاتی تھی جس سے واضح ہوتا تھا کہ بل موصول کب ہوئے اور پاس ہونے یا واپس ہونے میں کتنے دن صرف ہوئے۔ جو پرانے خلیفے دفتر میں برسوں سے بیٹھے ہوئے تھے ''اپنی ذات میں ادارہ‘‘ بن چکے تھے اور سپلائرز سے تعلقات بنا چکے تھے ان کے تبادلے کروا کر نکال باہر کیا۔ یہ کام سب سے زیادہ مشکل تھا۔ بے پناہ دباؤ ڈالا گیا۔ وزیروں اور منتخب نمائندوں کی سفارشیں آئیں۔ محکمے کے سربراہ کو پہلے ہی اعتماد میں لے لیا تھا؛ چنانچہ انہوں نے مکمل تعاون کیا۔ ان کا نام سردار اسلم خان مگسی تھا۔ پوری ریسرچ کر کے بہتر افرادی قوت کو مامور کیا گیا۔ ان تمام اقداما ت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ماہ کے بعد سپلائرز نے دفتر کے چکر لگانے چھوڑ دیے۔ صنعتکاروں‘ کمپنیوں‘ تاجروں اور سپلائرز کو پانچ سے سات دن کے اندر اندر چیک گھر بیٹھے ملنے لگے یا اطلاع ملنے لگی کہ بل میں کیا کیا سقم ہیں۔ ایک سپلائر نے جن کا عسکری ہیلمٹ بنانے کا کارخانہ تھا‘ اقبال ان کا نام تھا۔ ایک کتاب کے مصنف بھی تھے۔ وزیر دفاع کو خط لکھا کہ وہ گزشتہ 28 برس سے اپنا مال سپلائی کر رہے تھے‘ ان 28 برسوں میں پہلی بار سی ایم اے ڈیفنس پرچیز نے ادائیگیوں کے لیے ایک نظام وضع کیا ہے جو کامیابی سے چل رہا ہے۔ ایک صنعتکار جسے بھاری ادائیگی ایک پیسہ دیے بغیر‘ گھر بیٹھے ہوئی‘ میرے دفتر آیا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ پشاور سے تھا۔ میرے سٹاف افسر سے کہا کہ یہ آدمی کون ہے جو ملتا ہے نہ ''حساب کتاب‘‘ کرتا ہے۔ کہنے لگا: میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں نے اسے اپنے آفس میں بلا لیا اور کہا کہ تشریف لائیے اور دیکھ لیجیے‘ مجھ پر کون سا ٹکٹ لگا ہے! قہوے سے اس کی تواضع کی۔ جاتے ہوئے کہنے لگا: سر! کوئی خدمت ہو تو حکم کیجئے گا۔ میں نے کہا: خدمت کراتا تو آپ دیکھنے نہ آتے۔
انہی دنوں میرے بڑے بیٹے محمد اسرار الحق کا ایم بی بی ایس کا داخلہ بہاولپور میڈیکل کالج میں ہوا۔ میں نے اپنے جی پی فنڈ سے ساٹھ ہزار روپے قرض لینے کی درخواست دی کہ بہاولپور جا کر بیٹے کو مقیم کر آؤں۔ درخواست محکمے کے سربراہ کے پاس پہنچی تو انہوں نے مذاق میں کہا کہ تم بہت نالائق ہو۔ تمہیں سونے کی کان پر بٹھایا ہے اور تم جی پی فنڈ سے قرض لے رہے ہو۔ میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ سر! وہ تو کوئی مسئلہ نہیں! ابرو سے اشارہ کروں تو اس کے پانچ سال کے اخراجات چند گھنٹوں میں حاضر ہو جائیں مگر سوال یہ ہے کہ اس صورت میں کیا وہ ایم بی بی ایس کر پائے گا؟ اور بھی دلچسپ واقعات ہیں مگر تفصیل کی گنجائش نہیں۔ جس دن چارج لیا تھا 28 سپلائر آئے ہوئے تھے۔ کسی کو آنے سے منع نہیں کیا۔ دو سال بعد جب چارج چھوڑا تو چار سپلائر آئے ہوئے تھے وہ بھی اپنے بل جمع کرانے اور تھے بھی مقامی۔ تاہم یہ نظام پوری حکومتی مشینری کے سمندر میں ایک قطرے سے زیادہ نہ تھا۔ مگر جو میرے بس میں تھا کیا اور اس کے مثبت نتائج بھی برآمد ہوئے۔ (جاری)

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com