Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, July 30, 2024

واہ رے سکرین! واہ

ناشائستہ لوگ گھروں میں گھس آئے ہیں! اور المیہ یہ ہے کہ گھروں کے دروازے بند نہیں کیے جا سکتے!
جس قماش کے لوگوں کو ہم شرفا گلی میں سلام نہیں کرتے تھے‘ ان سے کوئی بات نہیں کرتے تھے‘ اپنے بچوں پر جن کا سایہ نہیں پڑنے دیتے تھے‘ جنہیں جرأت نہیں ہوتی تھی کہ ہم سے کلام کریں‘ وہ ہمارے دالانوں‘ خوابگاہوں یہاں تک کہ زنان خانوں میں آ گئے ہیں! انا للہ وانا الیہ راجعون!!
آپ کا کیا خیال ہے جو شخص پکے جواریوں اور نشے کے عادی مجرموں کی طرح سگرٹ کا سوٹا ایک خاص انداز میں لگاتا ہے‘ وہ آپ کے گھر میں داخل ہو کر‘ آپ کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ سکتا ہے؟ آپ یہ سن کر لاحول پڑھیں گے۔ مگر وہ تو آپ کے ڈرائنگ روم ہی میں نہیں‘ آپ کے بیڈ روم میں بیٹھا ہے! افسوس! صد افسوس! ریٹنگ کے راتب اور ڈالر کی ہڈی کے لیے چند اینکر ایسے غیر مہذب افراد کو پروگراموں میں بلاتے ہیں! تین حرف ایسی ریٹنگ پر! اور ایسے ڈالروں پر!! ثقافت کی کرسی پر انہیں بٹھا دیا گیا ہے جن کے اصل ٹھکانوں کے نام بھی شرفا کے گھروں میں نہیں لیے جاتے تھے اور اب یہ اُس جسم کے ساتھ جو زمین پر بوجھ ہے اور اس زبان کے ساتھ جو کاٹ دینی چاہیے‘ شرفا کے گھروں کے اندر‘ پورے کے پورے براجمان ہیں! واہ رے سکرین!! تُو نے بھی کیا دن دکھائے ہیں!!
مثالیں تو بہت ہیں۔ مگر دو تو سو فیصد منطبق ہو رہی ہیں۔ اندھوں کے ایک گروہ کو ہاتھی ملا تھا۔ جس کا ہاتھ ہاتھی کے کان پر پڑا‘ اس نے کہا: ہاتھی دستی پنکھے کی طرح ہوتا ہے۔ جس نے اس کی ٹانگ کو ٹٹولا‘ اس نے کہا: ہاتھی ستون جیسا ہے۔ اسی طرح ہر اندھے نے اپنی اپنی ''تحقیق‘‘ سے آگاہ کیا۔ دوسری مثال وہی پامال شدہ لطیفہ ہے کہ خواجہ سراؤں کے گھر بچہ پیدا ہوا۔ انہوں نے اسے چوم چوم کر مار دیا۔ سوشل میڈیا پر ہم بحیثیت قوم‘ یوں ٹوٹ کر گرے ہیں جیسے ''کفار‘‘ نے یہ خاص ہمارے لیے ہی ایجاد کیا ہے۔ مسلکی اختلافات اجاگر کرنے والوں کی تو چاندی ہو گئی ہے۔ ایک صاحب تو برملا کہتے ہیں کہ وہ تو بات ہی اختلافی مسائل پر کرتے ہیں۔ پہلے اختلافی مسائل پر بحث مسجدوں اور امام بار گاہوں کی چار دیواریوں کے اندر ہوتی تھی۔ ان اجتماعات میں صرف وہی لوگ شریک ہوتے تھے جنہیں ان مسائل میں دلچسپی تھی اور علم بھی رکھتے تھے۔ یہ ایک دوسرے سے بات ادب واحترام سے کرتے تھے۔ اب یہ مسائل سوشل میڈیا کے ذریعے جہلا تک پہنچ گئے ہیں۔ علما تو آج بھی خندہ پیشانی سے ایک دوسرے سے مل رہے ہیں مگر جاہل معتقدین کی آنکھوں میں خون اُترا ہوا ہے۔ ہر تیسرا چوتھا کلپ مسلکی تفریق کا ہے۔ فارورڈ کرنے کا جنون ہے جو چاروں طرف رقص کر رہا ہے۔ ایک صاحب کی تلقین ہے کہ چار چار شادیاں کرو کہ امت مسلمہ کی تعداد بڑھے۔ اس پیغام کو وہ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا رہے ہیں۔ اتائیوں کی الگ چاروں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہیں۔ فیس بک ہے یا یوٹیوب‘ ہر بیماری کے شرطیہ علاج کا دعویٰ موجود ہے۔ ''نوے سال تک شوگر کنٹرول میں رہے گی۔ جوڑوں کا درد ہمیشہ کے لیے بھول جاؤ۔ شوگر‘ گردے‘ معدہ‘ جگر سب ٹھیک۔ مرتے دم تک شوگر نہیں ہو گی۔ بیاسی سال کی عمر میں فِٹنس چاہتے ہو تو یہ دوا کھا لو‘‘۔ اس قسم کے سینکڑوں اعلانات عوام کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں! کوئی پابندی ہے نہ ایکشن!! کسی زمانے میں دیواروں پر حکیم حضرات کے اشتہار لکھے جاتے تھے۔ کسی نے کہا تھا کہ پشاور سے کراچی تک سفر کر کے دیکھ لیں‘ پاکستان میں کوئی مرد تندرست نہیں ہے۔ اب یہی تاثر سوشل میڈیا سے ملتا ہے۔ ایک اور طبقہ عبادات کا پرچار کرتا ہے۔ احرام باندھنے سے لے کر‘ ایئرپورٹ پہنچنے تک‘ طواف سے لے کر واپسی تک‘ ایک ایک مرحلے کی تشہیر کی جاتی ہے۔
لیکن سب سے زیادہ اذیت اس وقت ہوتی ہے جب اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھنے والے سکرین پر دکھائی دیتے ہیں۔ اس طاقتور طبقے کی دسترس الیکٹرانک میڈیا تک بھی ہے اور سوشل میڈیا تو ویسے ہی ان کا زر خرید غلام ہے۔ یہ لوگ مذہب میں بھی منہ مارتے ہیں۔ اگر یہ ڈرامہ لکھتے ہیں تو اس کا بھی‘ بقول ان کے‘ اوپر سے الہام ہوتا ہے۔ پھر جب قدرت کی لاٹھی ان کے چہروں سے نقاب نوچتی ہے تو یہ عبرت کا نشان بن جاتے ہیں! یہ اور بات کہ یہ خود اس بدنامی سے سبق نہیں سیکھتے۔ اس قبیل کے افراد کو شہرت چاہیے خواہ بدنامی کے راستے ہی سے ملے۔
سستی شہرت حاصل کرنے کا ایک گُر یہ بھی ہے کہ خواتین پر نام نہاد دانشورانہ حملے کیے جائیں۔ کامن سینس کی بات ہے کہ سب مرد اچھے نہیں اور سب مرد بُرے بھی نہیں! اسی طرح خواتین اچھی بھی ہیں اور بُری بھی! مگر تعمیم

 (Generalisation)

 کر کے تمام خواتین کی تنقیص کرنا نرم ترین لفظوں میں بھی جہالت ہے۔ انسانوں کی اکثریت‘ مرد ہوں یا عورتیں‘ ہمیشہ سے اچھی رہی ہے۔ تمام خواتین اینکرز کے لیے‘ بلاامتیاز‘ جس سوچ کا اظہار کیا گیا ہے اور جس زبان کا استعمال کیا گیا ہے‘ وہ قابلِ مذمت ہے! یہ خواتین ہماری ہی بہنیں اور بیٹیاں ہیں! ان کی عزت ہماری عزت ہے۔ ان میں بہت ٹیلنٹڈ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین بھی شامل ہیں۔ ہمیں ان پر فخر ہے اور فخر ہونا چاہیے! ایک خاص مائنڈ سیٹ جو جہالت کا شاخسانہ ہے‘ تعلیم یافتہ‘ بالخصوص ملازمت پیشہ خواتین سے الرجک ہے۔ انہیں اچھا نہیں سمجھتا۔ ایسے مرد‘ اور ان مردوں کو میڈیا پر لانے والے مرد‘ نفسیاتی طور پر بیمار ہیں اور شدید احساسِ کمتری کا شکار! ملازمت پیشہ خواتین میں اچھی خاصی تعداد ایثار کرنے والی خواتین کی ہے جو اپنے بیمار اور بوڑھے ماں باپ کا سہارا ہیں اور چھوٹے بہن بھائیوں کی کفالت کرتی ہیں! میں ایسی کئی بچیوں کو جانتا ہوں جن کے سب بھائی بیرونِ ملک سدھار گئے اور وہ ماں باپ کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر ہے۔ اس نے ماں کے گھٹنوں کی سرجری کرائی اور باپ کے دل کا علاج کرایا۔ ایک وکیل ہے اور اس نے بیمار ماں کی رات دن خدمت کی۔ ایک دفتر میں کلرک ہے جبکہ اس کا میاں بیمار ہو کر بستر سے جا لگا ہے اور وہ پورے گھر کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ میں ایک ایسی خاتون کو جانتا ہوں جس کا میاں افغانستان ''جہاد‘‘ کے لیے گیا اور واپس نہ آیا۔ اس کی چار بیٹیاں تھیں۔ وہ ایک ادارے میں نائب قاصد لگ گئی۔ اس نے محنت مزدوری کر کے چاروں بیٹیوں کو پڑھایا۔ ان میں سے ایک آج ہیڈ مسٹریس ہے‘ دو پروفیسر ہیں‘ ایک پولیس افسر ہے اور اب ماں اس کے پاس رہتی ہے۔ عورت کی تذلیل کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ انہیں ایک عورت ہی نے جنم دیا اور پال پوس کر بڑا کیا۔ حیرت ہے کہ اس قماش کے نام نہاد دانشور اپنے کنبے اور اپنے خاندان کی خواتین کا کیا احترام کرتے ہوں گے۔ ایدھی مرحوم‘ بیگم بلقیس ایدھی کے بغیر اتنا بڑا کام کیسے کر سکتے تھے؟ ڈاکٹر رتھ فاؤ جس نے پاکستان سے جذام کا خاتمہ کیا‘ ایک عورت ہی تھی۔ مدر ٹریسا بھی عورت ہی تھی! ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی شخص‘ بقائمی ہوش و حواس خواتین کے بارے میں ایسی گفتگو کر سکتا ہے؟
کھنچیں میرؔ تجھ ہی سے یہ خواریاں
نہ بھائی! ہماری تو قدرت نہیں!!

Monday, July 29, 2024

سہراب سپہری —سرحد پار کا ادبی منظرنامہ


انگریزی ادب کے تراجم اردو میں عام ہیں۔بد قسمتی سے فارسی، عربی اور ترکی زبانوں کے تازہ ترین ادبی شاہکار ہم تک کم ہی پہنچتے ہیں! بہت کم ! فارسی سے ہمارا تاریخی اور تہذیبی  تعلق ہے مگر یہ تعلق  رومی، سعدی، حافظ ، عطار اور دیگر کلاسیکی شعرا تک محدود ہے۔ 


سہراب سپہری ایران کے اُن پانچ شعرا میں شامل ہیں جنہوں نے  شاعری میں نئے رجحانات سَیٹ کیے اور فارسی شاعری کا پورا منظر نامہ بدل کر رکھ دیا۔ باقی چار شعرا    نیما یوشیج، احمد شاملو، مہدی اخوان ثالث اور فروغ فرخ زاد ہیں۔  سہراب سپہری ۱۹۲۸ ء میں کاشان میں پیدا ہوئے۔کاشان وسط ایران میں آجکل اصفہان صوبے کا حصہ ہے۔ ان کے خاندان کا ادب اور آرٹ سے گہرا تعلق تھا۔ سہراب نے بطور مصور بھی شہرت پائی۔کچھ عرصہ ٹیچر رہے۔ یورپ گئے ۔ مالی مشکلات کی وجہ سے وہاں مزدوری بھی کرنا پڑی۔  ۱۹۸۰ ء میں تہران میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر صرف  اکاون برس تھی۔ تدفین کاشان میں ہوئی۔ سہراب زندگی بھر مجرّد ہی رہے۔فارسی کے نامور سکالر اور استاد پروفیسر ڈاکٹر  معین نظامی نے  سہراب سپہری کی نظموں کا ترجمہ کمال مہارت سے کیا ہے اور یوں کیا ہے کہ ترجمے پر طبعزاد ہونے کا گمان ہوتا ہے۔  معین نظامی  پنجاب یونیورسٹی میں  شعبۂ فارسی کے صدر رہے۔ پھر اورینٹل کالج کے پرنسپل رہے۔ وہ خود بھی ایک صاحبِ اسلوب شاعر ہیں۔ سہراب سپہری کی نظموں کے تراجم پر مشتمل یہ کتاب  حال ہی میں “ آئینوں کی جھیل “ کے عنوان سے  شائع ہوئی ہے۔ جدید اردو ادب میں یہ ایک وقیع اضافہ ہے۔  کتاب میں ہر نظم کا فارسی  متن بھی ساتھ  ہے۔  اس میں سے سہراب کی شاہکار طویل نظم “ صدائی پائی آب” ( پانی کے قدموں کی چاپ ) کے کچھ اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔ 


میں کاشان کا رہنے والا ہوں  

  میرے احوال بُرے  نہیں ہیں

  ٹکڑا بھر روٹی میسر ہے ، تھوڑی بہت سمجھ بوجھ، سوئی کی نوک جتنا ذوق   ماں ہے جو درختوں کے پتوں سے بھی اچھی ہے

   دوست ہیں جو چلتے ہوئے پانی سے بھی بہتر ہیں 

 میں کاشان کا ہوں 

 میرا پیشہ مصوری ہے

  کبھی کبھار میں رنگوں کا کوئی پنجرہ بناتا ہوں اور اسے آپ کے ہاتھ بیچ دیتا ہوں

  کہ اس میں قید لالہ کے پھولوں کے گیت سے

  آپ کی تنہائی کا دل کچھ بہل جائے

  میں کاشان کاہوں

  میرا نسب شاید پہنچتا ہے

  ہندوستان میں کسی جڑی بوٹی تک ، کاشانی آثار قدیمہ کے کسی مٹی کے برتن تک

  میرا نسب شاید بخارا کی کسی رقاصہ سے جا ملتا ہے

  میرا باپ ابا بیلوں کے دو بار آنے سے پہلے ، دو برفباریوں سے پہلے

   چاندنی میں دو بار سونے سے پہلے

   زمانوں پہلے مرا ہے

  میرے باپ کی موت کے وقت آسمان نیلا تھا

  میرے باپ کی موت کے وقت سارے  چوکیدار شاعر تھے

  میرا باپ مصوری کرتا تھا

  ستار  بناتا تھا، بجاتا بھی تھا

  اس کا خط بھی بہت اچھا تھا 







ہمارا باغ دانائی کے سائے کی طرف تھا

  ہمارے باغ میں احساس اور  سبزے میں گرہ لگتی تھی

  ہمارا باغ پنجرے، آئنے اور نظروں کے ملاپ کا نقطہ تھا

   ہمارا باغ شاید خوش نصیبی کے سبز دائرے کی ایک قوس تھا

   زندگی کچھ ایسی تھی جیسے عید کی ایک بوچھاڑ، بگلوں بھرا ایک چنار

  بھرپور آزادی تھی  






  زندگی اس دور میں موسیقی کا تالاب تھی

     میں نے اپنا سامان باندھا ، ہلکے پھلکے خیالات کے شہر سے نکل گیا

  میں نے روئے زمین پر کئی چیزیں دیکھیں

    ایک لڑکا دیکھا جو  چاند کو سونگھ رہا تھا  

 ایک پنجرہ دیکھا جس کا کوئی دروازہ نہیں تھا، اس میں روشنی  پھڑپھڑا رہی تھی /  لکڑی کی ایک سیڑھی جس سے عشق ملکوت کی چھت پر جارہا تھا

   میں نے ایک عورت دیکھی جو دوری میں روشنی کوٹ رہی تھی

  دوپہر کو ان کے دسترخوان پر روٹی تھی ، سبزی تھی ، شبنم کا ڈونگا تھا ،محبت کا گرم گرم پیالہ تھا

   میں نے ایک بھکاری دیکھا ، وہ در بہ در جا کر پرندوں کے چہچہوں کی بھیک مانگتا تھا

      میں نے ایک میمنا دیکھا ، پتنگ کھا رہا تھا 

 نصیحت کی چراگاہ میں میں نے ایک بیل دیکھا ، پیٹ بھرا 

  میں نے ایک کتاب دیکھی ، اس کے الفاظ سارے کے سارے بلّور کے 

 میں نے ایک کاغذ دیکھا بہار کی جنس کا

  میں نے ایک عجائب گھر دیکھا سبزے سے دور

    ایک مسجد پانی سے دور  

  ایک مایوس فقیہ کے سرہانے میں نے سوالوں سے بھرا ہؤا ایک کوزہ دیکھا    میں نے ایک خچر دیکھا جس پر انشا پردازی لدی ہوئی تھی

   میں نے ایک اونٹ دیکھا جس پر نصیحتوں اور ضرب الامثال کا خالی ٹوکرا لدا ہؤا تھا

  میں نے ایک صوفی دیکھا جس پر”   تننا ہا یا ہُو “  لدا ہؤا  تھا 

 میں نے ایک ریل گاڑی  دیکھی جو فقہ لادے لیے جاتی تھی اور کتنی بوجھل بوجھل چل رہی تھی

   میں نے ایک ریل گاڑی دیکھی جو سیاست ڈھو رہی تھی اور کتنی خالی جا رہی تھی

   میں نے ایک ریل گاڑی دیکھی کنول کے بیج اور پرندوں کی چہکاریں لے جاتی /

  میری ماں اُدھر کچھ فاصلے پر  

  دریا کی یاد داشت میں  پیالیاں دھو رہی تھی      

  شاعری یونان کی گلی میں جارہی تھی

    درّۂ خیبر میں ہوا تاریخ کی گھانس پھونس کا ایک گٹھا مشرق کی طرف کھسکا رہی تھی  

  کشمیر کی پُر سکون جھیل پر ایک کشتی پھول لیے جاتی تھی  

  بنارس  کے ہر کوچے میں ایک ابدی چراغ جل رہا تھا  








میں کاشان کا ہوں  

  لیکن میرا شہر کاشان نہیں ہے   

  میرا شہر گم ہو گیا ہے

  میں نے رات کے دوسری طرف ایک گھر بنا لیا ہے  

  میں زمین کے آغاز کے قریب ہوں

  میں پھولوں کی نبض محسوس کرتا ہوں  

  میں پانی کے گیلے مقدر اور درختوں کے سبز معمول سے آشنا ہوں

   میری روح کم عمر ہے

   میری روح کو کبھی  شدت شوق میں  کھانسی ہونے لگتی ہے

     میری روح بیکار ہے 

 بارش کے قطروں ، اینٹوں کی درزوں کو گنتی رہتی ہے

    میں نے صنوبر کے دو درختوں کو آپس میں دشمن نہیں دیکھا  

  میں نے نہیں دیکھا کہ بید کا کوئی درخت  زمین کو اپنا سایہ بیچتا ہو

    انار کا درخت کوّے کو اپنی ٹہنی مفت پیش کرتا ہے  

 خشخاش کے ایک پودے نے مجھے ہونے کے بہاؤ میں دھویا ہے  /








 زندگی ایک بھلی رسم ہے

  زندگی کے بال و پر موت کی وسعت جتنے ہیں

   وہ عشق کے برابر جست لگاتی ہے  

  زندگی ایسی چیز نہیں ہے جو معمولات کے طاقچے کے پاس میرے اور تمہارے ذہن سے نکل جائے

  زندگی گرمیوں کے بد ذائقہ  منہ میں کالے انجیر کا پہلا پھل ہے 

  زندگی کسی کیڑے کی آنکھوں  میں درخت کی جسامت ہے

    زندگی اندھیرے میں چمگادڑ کا تجربہ ہے  /  

زندگی کسی مہاجر پرندے کا عجیب و غریب احساس ہے

    زندگی کسی پُل کی نیند میں گونجتی ، ریل گاڑی کی سیٹی ہے  

  زندگی ہوائی جہاز کے بند شیشے سے کسی باغیچے کا نظارہ ہے

   زندگی ایک پلیٹ کا دھونا ہے

   زندگی گلی کی نالی سے دس پیسے کا سکہ مل جانا ہے

    زندگی آئینے کا حاصل  ضرب  ہے

   زندگی  ابدیّت کے حوصلے کا پھول ہے

    زندگی ہمارے دل کی دھڑ کنوں میں زمین کی دھڑکن

   زندگی سانسوں کی سادہ اور یکساں جیو میٹری ہے 






چھتریاں بند کر دینی چاہییں 

  بارش میں چلے جانا چاہیے  

  خیال کو ، یاد کو ، بارش میں لے جانا چاہیے

    شہر کے سب لوگوں کے ساتھ بارش میں جانا چاہیے 

 محبوب کو بار ش میں دیکھنا 

چاہیے 

 عشق کو بارش میں ڈھونڈنا چاہیے

   بارش میں کھیلنا چاہیے

  ہم پردہ ہٹا دیں

  احساس کو کچھ ہوا لگنے دیں

  بلوغت جس بُوٹے تلے بھی سستانا چاہے ، سستانے دیں

   جبلّی ضرورتوں کو کھیل کود کا پیچھا کرنے دیں تاکہ  وہ جوتے اتار پھینکیں اور موسموں کے تعاقب میں پھولوں کو پھلانگتی جائیں

  تنہائی کو گیت گانے دیں 

 اسے کچھ لکھنے دیں  

 اسے سڑک پر جانے دیں

  ہم سادہ رہیں

  سادہ رہیں کسی بنک کے کاؤنٹر پر بھی

 ، درخت کے نیچے بھی

  سرخ گلاب کے بھید تک پہنچنا ہمارا کام نہیں ہے

     ہمارا کام شاید یہ ہے کہ

    ہم سرخ گلاب کے فسوں میں تیرتے رہیں  

 کسی پتّے کے جذبے میں ہاتھ دھوئیں اور دسترخوان پر جا بیٹھیں  

  صبح جب سورج نکلتا ہے ، ہم جنم لیں

  ۔ ہیجانات کو اُڑا دیں 

 فضا ، رنگ، آواز ، کھڑ کی، پھول کے ادراک پر نمی چھڑکیں

  ابابیل کے کندھوں سے علم و دانش کا بوجھ زمین پر رکھ دیں

  بادل سے نام واپس لے لیں  

 بارش کے بھیگتے  قدموں سے  محبت کی اونچائی پر جائیں 

 انسانوں، روشنیوں، نباتات اور کیڑوں مکوڑوں  کے لیے دروازے کھول دیں 




ہمارا کام شاید یہ ہے  کہ کنول کے پھول اور صدی کے  مابین 

 حقیقت کے گیت کے پیچھے دوڑتے رہیں 

Thursday, July 25, 2024

ہم ایسی پہیلی ہیں جسے کوئی سہیلی نہیں بُوجھ سکتی


تین مزدور تھے۔ دوپہر کا کھانا گھر سے لاتے۔ کھانا کیا ہوتا! سوکھی روٹی اور رات کا بچا کھچا سالن! تینوں نے صلاح مشورہ کیا اور فیصلہ کیا کہ بیویوں کی کھنچائی کریں گے۔ آئندہ پراٹھے پکا کر ساتھ بھیجیں گی۔ مگر اس کھنچائی کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ بالآخر انہوں نے بیویوں کو فائنل وارننگ دی کہ پراٹھے نہ ساتھ کیے تو خودکشی کر لیں گے۔ ان تینوں مزدوروں میں ایک مزدور سکھ تھا۔ آخری وارننگ کے بعد اگلی دوپہر کھانے کا وقفہ ہوا تو دو کے کھانے میں پراٹھے تھے اور سکھ کے کھانے میں وہی چپاتی! سکھ نے تیسری منزل سے چھلانگ لگائی اور خودکشی کر لی۔ اس کی بیوہ بَین کرتی تھی اور کہتی تھی: ہائے چپاتی اپنے لیے پکائی بھی اس نے خود ہی تھی!
ہم پاکستانیوں کا حال بھی اُس سکھ جیسا ہے۔ رات دن ہائے ہائے کر رہے ہیں۔ دُکھوں کی پٹاری کھول کر سرِ راہ بیٹھے ہیں۔ دنیا ہمارا تماشا دیکھ رہی ہے اور حیران ہو رہی ہے۔ سارے مسائل کا حل ہماری اپنی جیب میں ہے۔ ہم خود کشی کر نے کو تیار ہیں مگر مسائل حل نہیں کریں گے!
اس وقت سب سے بڑا مسئلہ آئی پی پیز کا ہے۔ یعنی بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیاں! یہ کمپنیاں پیداوار کے حساب سے پیسے نہیں لے رہیں بلکہ کپیسٹی کے حساب سے لے رہی ہیں۔ مثلاً ایک کمپنی اگر سو میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتی ہے مگر عملاً اس کی پیداوار صفر ہے تو حکومت سے پیسے سو میگاواٹ ہی کے لے رہی ہے۔ یہی رونا سابق وفاقی وزیر گوہر اعجاز نے رویا ہے۔ انہوں نے ہولناک اعداد وشمار دیے ہیں کہ رواں سال کے دوران‘ پہلے تین ماہ میں آئی پی پیز کو چار سو پچاس ارب روپے کی ادائیگیاں کی گئی ہیں جبکہ ان میں سے کچھ کی پیداوار صفر ہے۔ اس ظلم کا سارا بوجھ عوام پر پڑ رہا ہے۔ اگر حکومت اس مسئلے کو حل کرنا چاہے تو بالکل کر سکتی ہے۔ کیا یہ چالیس خاندان‘ جو اِن کمپنیوں کے مالک ہیں‘ غیر ملکی ہیں۔ ارے بھائی! ان میں سے بہت سے تو خود حکومت کا حصہ ہیں! مگر حیرت ہے کہ قیامت کا شور برپا ہے اور اہلِ اختیار اس شور کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ کوئی میٹنگ ان کمپنیوں سے کی جا رہی ہے نہ عوام کے احتجاج کو خاطر میں لایا جا رہا ہے۔ تو پھر یہ مسئلہ کیا اقوام متحدہ حل کرے گی یا سعودی اور چینی حکومتیں؟ نیت ہو تو ان کمپنیوں سے مذاکرات کر کے مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ ہاں! اگر ''مفادات‘‘ آڑے آ رہے ہیں‘ تو اور بات ہے۔ نیت کی خرابی کا علاج کوئی نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہم کا کوئی علاج نہیں! شاید یہ کہاوت غلط ہے۔ یہ نیت کی خرابی ہے جو لاعلاج ہے۔ علاج کرنے والے مسئلے کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ سُن رہے ہیں۔ پانی سر سے گزر جائے گا تو جاگیں گے۔ ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے۔ حیرت ہے کہ گوہر اعجاز صاحب کے بیان پر کوئی ردعمل نہیں آیا۔ شورش کاشمیری ایک شعر پڑھا کرتے تھے اور لکھا کرتے تھے۔ معلوم نہیں کس کا ہے تاہم ہمارے حال پر منطبق ہو رہا ہے۔
وہ شاخِ گل پہ زمزموں کی دُھن تراشتے رہے
نشیمنوں سے بجلیوں کا کارواں گزر گیا
افغان سرحد کا معاملہ بھی ہم نے خود پیچیدہ کیا۔ پالیسیاں اتنی بار تبدیل ہوئیں کہ آج ڈور کا سرا نہیں مل رہا۔ کیا افغانوں نے کہا تھا کہ افغانستان پاکستان کا پانچواں صوبہ ہے؟ کیا فاتح جلال آباد جیسے مضحکہ خیز القابات افغانوں نے ایجاد کیے تھے؟ کیا ضیاالحق کے تاریک عہد میں ہماری افغان پالیسی افغانستان نے بنائی تھی؟ سارا کیا کرایا ہمارا اپنا ہے اور ان سیاستدانوں کا ہے جو ضیاالحق کی شوریٰ میں شامل تھے۔ ادھر ادھر دیکھیے‘ ان میں سے کئی چہرے آج کے پیش منظر پر بھی آپ کو دکھائی دیں گے۔ آج ہم شور مچا رہے ہیں کہ جس طرح دوسرے ملکوں کے لوگ ویزا لے کر آتے ہیں‘ افغان بھی اسی طرح آئیں۔ تو ویزے کی شرط بھی تو ہم ہی نے ختم کی تھی۔ اس سرحد کی حرمت ہم نے خود ہی خاک میں ملائی تھی۔ آج ہم دہائی دے رہے ہیں کہ چالیس لاکھ افغانوں کی میزبانی کر کے تھک چکے ہیں۔ ان چالیس لاکھ کو پورے ملک میں ہم نے خود ہی پھیلایا تھا اور پورے ملک کی ٹرانسپورٹ اور بزنس کو ہم نے خود ہی پلیٹ میں رکھ کر ان کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ آج بھی ہم چاہیں تو ویزا کی پابندی نافذ کر سکتے ہیں مگر پالیسیاں ایک ہاتھ میں تو ہوں! جہاں سٹیک ہولڈرز کئی ہوں وہاں پالیسی بنے گی کیا اور نافذ کیا ہو گی؟ سمگلنگ ایرانی تیل کی ہو یا دوسری اشیا کی‘ اشیا غیر قانونی طور پر اندر آ رہی ہیں یا باہر جا رہی ہیں‘ قصور تو پاکستانیوں ہی کا ہے! اگر سختی کرنے سے ڈالر تین سو سے نیچے آ سکتا ہے اور ایرانی تیل کی سمگلنگ کم ہو سکتی ہے تو اس کا مطلب سوائے اس کے اور کیا ہے کہ سب کچھ ہمارے اپنے اختیار میں ہے! جو سمگلنگ ہمارے اپنے اقدامات سے کم ہو سکتی ہے وہ ختم بھی تو کی جا سکتی ہے۔ اور ہم ختم کرنا نہیں چاہتے تو اس کی ذمہ داری نائیجیریا‘ زیمبیا یا گیمبیا پر تو نہیں ڈالی جا سکتی!
دل کے پھپھولے جل اُٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
ہماری افغان پالیسی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج جن افغانوں کے لیے ہم نے قربانیاں دیں‘ وہ بھی ہم سے ناراض ہیں۔ جن طالبان کے لیے دنیا بھر کو ناراض کیا‘ وہ آج حکومت میں آکر ہمارے ہی نہیں ہو رہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی نام نہاد پالیسیوں کا تجزیہ کرتے ہیں نہ اپنا محاسبہ! افغان کیوں ناراض ہیں؟ آخر کوئی تو وجہ ہو گی۔ جرمنی میں انہوں نے ہمارے قونصلیٹ پر حملہ کیا۔ کیوں؟ کیا ہم اس کی وجوہ جاننے کی کوشش کریں گے ؟ یقیناً نہیں! ہماری پالیسیوں کے بارے ہی میں شاید کسی نے کہا ہے: یہ وہ جامہ ہے کہ جس کا نہیں الٹا سیدھا
ہزاروں لاکھوں پاکستانی پاسپورٹ اور شناختی کارڈ افغانوں کو دیے گئے‘ کیا اس کی ذمہ داری برازیل کی ریاست پر ڈالی جائے گی؟ آج یواے ای نے پاکستانیوں کے لیے اپنی ویزا پالیسی سخت کر دی ہے۔ ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ بھکاریوں کی کثیر تعداد پاکستان سے آ رہی ہے۔ تو ہمارے سفیر صاحبان نے اس صورتحال کے تدارک کے لیے کیا کیا؟ ہماری اپنی وزارتِ خارجہ اور وزارتِ داخلہ ذمہ دار نہیں تو کیا ارجنٹائن کی حکومت ذمہ دار ہے؟ کتنے مجرموں کو اس حوالے سے عبرتناک سزا دی گئی ؟ یو اے ای نے مبینہ طور پر یہ شکایت بھی کی کہ جب وہاں پچھلے دنوں سیلاب آیا تو وہاں‘ یعنی یو اے ای میں‘ رہنے والے پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے سوشل میڈیا پر میزبان ملک کی برائیاں کیں۔ اور اس قسم کے فتوے جاری کیے کہ مندر بنانے پر عذاب آیا ہے۔ یہ بھی ہم پاکستانیوں کی ادائے خاص ہے کہ جہاں رہتے ہیں وہاں کی خوب خوب برائیاں کرتے ہیں۔ تمام نہیں‘ مگر ایسا کرنے والوں کی تعداد کم بھی نہیں۔ ایک صاحب میرے جاننے والے میلبورن میں رہتے ہیں۔ ماشاء اللہ دراز ریش ہیں۔ ہنس ہنس کر بتا رہے تھے کہ داڑھی کے بال ادھر ادھر پھیلا دیتے ہیں جسے دیکھ کر سفید فاموں کے بچے ڈر کر بھاگ جاتے ہیں! پچیس سال سے وہاں‘ پورے خاندان کے ساتھ‘ رہ رہے ہیں۔ سوشل سکیورٹی بھی لے رہے ہیں۔ مگر ہر نئے آنے والے کو کوستے ہیں کہ کیوں آئے ہو؟ یہ ملک اچھا نہیں ہے!! پتا نہیں ہم کیا چیز ہیں! حکومتی سطح ہو یا قومی یا انفرادی‘ ہمارا رویہ‘ ہمارا مائنڈسیٹ‘ ہماری سوچ‘ ایسی پہیلی ہے جسے کوئی سہیلی نہیں بوجھ سکتی!!

Tuesday, July 23, 2024

پیٹ وِچ درد؟ یا ڈِھڈ وِچ پیڑ؟؟


بل مندر سنگھ سے پہلی ملاقات نوے کی دہائی میں ہوئی۔ میں اُن دنوں وفاقی وزارتِ ثقافت میں تعینات تھا۔ میری ڈیوٹی میں جہاں اور امور شامل تھے‘ یہ بھی شامل تھا کہ ثقافتی طائفے دوسرے ملکوں میں لے کر جاؤں۔ ڈاکٹر خالد سعید مرحوم وزارتِ ثقافت کے ذیلی ادارے نیشنل کونسل آف آرٹس کے سربراہ تھے اور ان امور میں وزارت کے معاون و مدد گار تھے۔ بیرونِ ملک ایک بہت بڑی نمائش کا انعقاد ہو رہا تھا۔ حکومت نے فیصلہ کیا کہ چونکہ اس نمائش میں دنیا بھر سے ثقافتی وفود جا رہے ہیں اس لیے پاکستان کی نمائندگی بھی ہونی چاہیے۔ چنانچہ 21 افراد کا گروہ میرے سپرد کیا گیا کہ لے کر نمائش میں جاؤں۔ ان میں عورتیں اور مرد شامل تھے۔ رقاص تھے‘ مغنی تھے‘ موسیقار تھے اور وارڈ روب‘ میک اَپ وغیرہ کے انچارج تھے۔ ایک دن پاکستانی فنکار بھنگڑا پیش کر رہے تھے۔ ہزاروں کا مجمع تھا۔ لوگ مسحور ہو کر دیکھ رہے تھے۔ میں لوگوں کے تاثرات لینے کی غرض سے مجمع میں گھوم پھر رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ایک شخص‘ جس کی چھوٹی چھوٹی داڑھی تھی اور کنگھی کیے گئے سیاہ بال تھے‘ رو رہا تھا۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور انگریزی میں پوچھا کہ کیوں رو رہا ہے۔ اس نے بتایا کہ ایسا بھنگڑا اس نے مدتوں پہلے بچپن میں اپنے گاؤں میں دیکھا تھا اور اس کے بعد آج دیکھا ہے۔ اس لیے رونا آرہا ہے۔ میں اسے پاکستانی سمجھا۔ مگر تفصیل پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس کا نام بل مِندر سنگھ ہے اور وہ مشرقی پنجاب کے کسی گاؤں سے تھا۔ جب اسے بتایا کہ یہ ثقافتی طائفہ پاکستانی ہے اور میں اس کا لیڈر ہوں‘ تو وہ کرسی سے اٹھا اور پھر میرے گلے لگ کر رونا شروع کر دیا۔
دوسرے دن پاکستانی کمیونٹی نے ہمارے اعزاز میں ایک عصرانہ ترتیب دیا تھا۔ وہاں بل مِندر سنگھ بھی موجود تھا۔ پاکستانی کمیونٹی نے اس کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ بل مِندر سنگھ عملاً پاکستانی کمیونٹی ہی کا فرد ہے۔ پاکستان دوست سکھوں میں ممتاز حیثیت کا حامل ہے اور مقامی سیاست میں بھی پاکستانی کمیونٹی ہی کا ساتھ دیتا ہے۔ اتوار کو صبح صبح میرے کمرے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو بل مِندر تھا۔ کہنے لگا کہ آپ کو لینے آیا ہوں۔ دوپہر کا کھانا ہمارے گھر کھانا ہے۔ میں نے شکریہ ادا کر کے ٹالنا چاہا تو اس نے کہا وہ کافی دور سے ٹرین کے ذریعے آیا ہے اور محض تکلفاً نہیں کہہ رہا۔ چنانچہ میں اس کے ساتھ گیا۔ یہ ایک باقاعدہ دعوت تھی جس میں زیادہ تعداد پاکستانیوں کی تھی۔ پھر کئی سال گزر گئے۔ گردشِ زمانہ ایک بار پھر اس کے شہر میں لے گئی۔ اس سے ملاقات ہوئی۔ اس کی طبیعت ملول تھی۔ کہنے لگا ''ڈِھڈ وچ پِیڑ اے‘‘! یہ فقرہ تھا جسے سنانے کے لیے یہ سارا واقعہ بیان کرنا پڑا۔ میرے ذہن میں فوراً یہ سوال ابھرا کہ پیدائشی پنجابی تو میں بھی ہوں مگر یاد نہیں کہ ڈِھڈ اور پِیڑ کے الفاظ آخری بار کب استعمال کیے؟ اور آج یہی رونا رونا ہے!
ہم پنجابی بھی ایک عجیب و غریب گروہ ہیں۔ پنجاب نے دوسروں کے لیے ہمیشہ اپنی باہیں پھیلا کر رکھیں اور ہمیشہ گالیاں کھائیں۔ لاہور سے لے کر پنجاب کے کسی دور افتادہ قریے تک جا کر دیکھ لیجیے۔ آپ کو ریڑھی والے سے لے کر بڑے دکاندار تک‘ دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے بھائی مل جائیں گے۔ کچھ عرصہ پیشتر پنڈی‘ اسلام آباد کے ایک نواحی قصبے میں بچوں کے درمیان معمولی سا جھگڑا ہوا جس کی وجہ سے غیر مقامی افراد نے مقامی آبادی کی خوب پھینٹی لگائی۔ اب تو پنجاب کے اکثر شہروں میں دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے بھائیوں نے الگ آبادیاں (Pockets) بسا رکھی ہیں۔ وہی کراچی والی غلطی دہرائی جا رہی ہے۔ بہر طور اب ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ فراخ دلی جب انتہا سے آگے گزر جائے تو وہ نام نہاد فراخ دلی ہو جاتی ہے۔ پنجابیوں نے عملی طور پر پنجابی زبان کو بھی خیرباد کہہ دیا ہے۔ اپنے ارد گرد غور سے دیکھیے۔ کتنے پنجابی بچے‘ پنجابی زبان میں بات چیت کرتے ہیں؟ میرے ناقص حساب سے بمشکل پندرہ‘ بیس فیصد! خاص طور پر شہروں اور قصبوں میں! مجھے پختون بھائیوں کی یہ بات بہت اچھی لگتی ہے کہ پختون جرنیل بن جائے یا بڑا افسر‘ اپنی زبان نہیں چھوڑتا اور اپنے گاؤں سے تعلق نہیں توڑتا۔ سندھی برادری کو بھی کوئی احساسِ کمتری نہیں۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ سندھی بولتے ہیں۔ ہم پنجابی یہ بات نہیں سمجھ رہے کہ زبان ایک ہتھیار‘ ایک اثاثہ‘ ایک دولت ہے۔ بچے کو ایک زبان سے محروم کر دینا اس کا نقصان کر دینا ہے۔ میرے لیے ممکن ہوتا تو اپنے بچوں کو پشتو اور سندھی بولنا بھی سکھاتا۔ اس ملک میں اگر نظامِ تعلیم میں عقل کا عمل دخل ہوتا تو پنجاب کے تعلیمی اداروں میں پشتو اور سندھی پڑھائی جاتی۔ اسی طرح سندھ‘ کے پی اور دیگر اکائیوں میں دوسرے صوبوں کی زبانیں پڑھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی۔ مگر تعلیمی نظام کیا‘ کسی بھی نظام میں ہمارے ہاں عقل کی کارفرمائی نہیں ہے۔ پلاننگ ہے نہ مستقبل بینی‘ بس ایک کھٹارہ بس کی طرح ملک چلے جا رہا ہے۔
تھوڑی بہت پنجابی جو ہم بہت بڑا احسان کر کے بولتے بھی ہیں‘ کون سی پنجابی ہے؟ ہم نے پنجابی بولنی ہو تو کہتے ہیں ''میرے پیٹ چے درد اے‘‘ پیٹ پنجابی کا لفظ ہے نہ درد۔ پنجابی میں تو پیٹ کو ڈِھڈ اور درد کو پِیڑ کہتے ہیں۔ دروازے کو بُوا اور کھڑکی کو باری کہتے ہیں۔ چارپائی کو منجی اور لاٹھی کو ڈانگ کہتے ہیں۔ نمک کو لُون کہتے ہیں (سندھی میں بھی لُون ہی کہتے ہیں)۔ مینڈک کو ڈڈو اور کوّے کو کاں کہتے ہیں۔ آج کل ملکو کا گانا بہت وائرل ہو رہا ہے۔ ''نَک دا کوکا‘ ڈِٹھا رتوکا‘‘ رتوکا کسے کہتے ہیں؟ ہماری پٹی میں یعنی پنجاب کے مغربی اضلاع میں پرسوں کو اتروں کہتے ہیں۔ اور اتروکا یا رتوکا کا مطلب ہوا ''پرسوں سے‘‘۔ مگر رتوکا کا ایک اور معنی بھی ہے اور وہ ہے ''رات سے‘‘! اور سرائیکی اور وسطی پنجاب میں یہی مطلب لیا جاتا ہے۔ یعنی کوکا رات سے گُم ہے۔ اسی طرح یہ گیت ہر مرد و زن اور ہر بچے بوڑھے نے سنا ہے۔ چَن کِتھاں گزاری ائی رات وے‘ مینڈا جی دلیلاں دے وات وے! تو یہاں وات کا کیا مطلب ہوا؟ وات پنجابی میں دہانے کو یعنی منہ کو کہتے ہیں۔ دلیلاں سے مراد وسوسے ہے۔ یعنی تم نے رات کہاں گزاری ؟ میرا دل وسوسوں کے منہ میں یعنی وسوسوں میں گھِرا ہوا ہے!
اردو بلاشبہ ہماری قومی زبان ہے مگر ہماری علاقائی زبانیں ہمارا بہت بڑا سرمایہ ہیں۔ بچہ اپنی مادری زبان سیکھے تو اس سے اس کی تخلیقی صلاحیتوں پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ بچے کو اپنی زبان سے محروم کرنا زیادتی ہے۔ علامہ اقبال‘ فیض صاحب‘ منیر نیازی‘ حفیظ جالندھری‘ احمد ندیم قاسمی‘ صوفی تبسم‘ ظفر علی خان‘ اشفاق احمد‘ ممتاز مفتی‘ شورش کاشمیری‘ سب اردو ادب کے بڑے نام ہیں اور یہ سب پنجابی بولتے تھے۔ پنجابی بولنے کی وجہ سے ان کی اردو تحریر و تقریر پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔ ماضی میں پنجاب کے طول و عرض میں جو مدارس تھے اور جن میں سے ہر مدرسہ وقعت میں یونیورسٹی کے برابر تھا‘ ان میں ذریعۂ تعلیم (میڈیم آف انسٹرکشن) پنجابی زبان ہی تھی۔ فارسی اور عربی علوم پنجابی کے ذریعے پڑھائے جاتے تھے۔ خیبرپختونخوا اور افغانستان میں یہی علوم پشتو کی مدد سے پڑھائے جاتے تھے۔ میں علامہ اقبال کے خطوط پڑھ رہا تھا۔ اپنے دوست گرامی پر‘ جو فارسی کے بہت بڑے شاعر تھے‘ ایک شعر پر بحث کے دوران اپنا موقف پنجابی کی مدد سے واضح کر رہے تھے۔ اظہار کا بہترین ذریعہ مادری زبان ہی ہے۔
کیا ہی اچھا ہو اگر ہم پنجابی بولیں تو پنجابی پنجابی ہی میں بولیں! اس میں اردو اور انگریزی کے پیوند نہ لگائیں!!

 

powered by worldwanders.com